۲۰۰۵فروری

فہرست مضامین

برکت کا تصور

مولانا امیرالدین مہر | ۲۰۰۵فروری | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

اسلام نے مسلمانوں کو باہمی سلام کرنے‘ دعا دینے اور خیرو بھلائی چاہنے کے لیے‘ جن کلمات کی تعلیم دی ہے ان میں ایک کلمہ برکت ہے۔ یہ کلمہ بھی سلام کی طرح مسلم معاشرے کا شعار‘ ثقافت اور عام دعائیہ کلمہ ہے۔ لہٰذا ہر خوشی و شادمانی اور کامیابی و کامرانی کے موقعے پر اور عام سلام کرتے وقت یہ لفظ کثرت سے بولا جاتا ہے۔ اس کلمے کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ہر نمازی دو رکعت کی نماز میں اسے کم از کم چار مرتبہ ادا کرتا ہے۔ ثنا میں تَبَارَکَ اسْمُکَ تشہد (التحیات) میں اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ اور درود ابراہیمی میں اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّک حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ میں دو مرتبہ کہتا ہے۔

پھردعائیہ جملوںاور فقروں میں اسے روزانہ متعدد مرتبہ بولا جاتاہے۔ سلام کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہا جاتا ہے۔ کوئی خوشی کا موقع اور تقریب ہوتی ہے تو اپنے بھائی بہن کو اور دوست و احباب کو مبارک باد کا کلمہ کہہ کر دعا دی جاتی ہے۔ کوئی کھانے کی دعوت دیتا ہے تو مخاطب بارک اللہ‘ یا اللہ برکت دے کا جملہ بول کر ما فی الضمیرکا اظہار کرتا ہے۔ کسی بچے کی صلاحیت‘لیاقت اور ذہانت ظاہر ہوتی ہے تو برکت کا کلمہ کہہ کر دعا دی جاتی ہے‘ کسی کاروبار میں نفع ہوتا ہے‘ فصل کی پیداوار میں کثرت ہوتی ہے‘ تعلیم میں کامیابی ہوتی ہے‘ ملازمت ملتی ہے یا اس میں ترقی ہوتی ہے‘ نکاح و شادی ہوتی ہے‘ بیٹا تولد ہوتا ہے‘ ختم قرآن ہوتا ہے‘ حج و عمرے کی ادایگی ہوتی ہے یا کوئی اور خیروبھلائی نصیب ہوتی ہے‘ تو ہدیہ تبریک پیش کرکے دعا دی جاتی ہے۔

مسلم معاشرے میں عموماً بہت سی دعائیںاور دعائیہ کلمات غیرشعوری اور غیرارادی طور پر کہے جاتے ہیں اور کہتے وقت ان کے معانی و مفاہیم کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ ایسے ہی یہ کلمہ بھی بول دیا جاتا ہے۔ پھر شکوہ یہ کیا جاتاہے کہ آج کل ہمارے ہاں سے برکت اٹھ گئی ہے۔ اشیا سے برکت نکل گئی ہے اور بے برکتی رہ گئی ہے۔ اتنے اسباب‘ وسائل‘ مال و متاع اور دھن  دولت ہونے کے باوجود برکت نہیں رہی ہے۔

برکت کا نزول کیسے ہو‘ اس دعا کے اثرات کیسے ظاہر ہوں‘ جب کہ اس دعائیہ کلمے کے نہ معنی معلوم ہیں اور نہ مفہوم ذہن میں آتا ہے اور نہ اس کا دائرۂ اثر اور ہمہ گیریت پیش نظر ہوتی ہے۔ صرف رسم کے طور پر کہہ دیا جاتا ہے‘ نیز یہ دعائیہ کلمہ کہتے وقت دل کا شعور و احساس بھی ناپید ہوتا ہے‘ جب کہ دعا کے لیے ضروری ہے کہ وہ شعور و احساس اور توجہ سے کی جائے۔ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ غافل دل سے دعا قبول نہیں فرماتے۔

یہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں اس اہم دعائیہ کلمے کے معنی‘ مفہوم‘دائرۂ اثر اور اس کی اہمیت اور لغت میں اس کے استعمال کے بارے میں مختصر سا تذکرہ کیا جاتاہے تاکہ ہر مسلمان اسے شعور و احساس کے ساتھ بولے اور اس کے مفہوم کو سامنے رکھ کر دعا کے طور پر ادا کرے۔

برکت کے لغوی معنی اور استعمال

برکت کے معنی اور استعمال کے بارے میں لغت کی ضخیم ترین اور اساسی کتاب  لسان العرب میں اس کلمے پر چار صفحات میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔

یہ کلمہ ثلاثی مجرد باب‘ ن سے ہے جیسے بَرَکَ یَبْرُکُ جم کر بیٹھنا۔البتہ اس باب سے بہت کم استعمال ہوا ہے لیکن باب مفاعلہ (مبارکۃ) سے کسی قدر زیادہ‘ باب تفاعل سے اور زیادہ آیا ہے اور باب تفعیل اور افتعال سے بھی استعمال ہوا ہے۔ باب تفعیل سے تبریک کے معنی ہیں انسان وغیرہ کے لیے برکت کی دعا کرنا‘ جیسے بَرَّکْتُ علیہ تبریکًا اے قلتُ لہ بارک اللّٰہ علیک وبارک اللّٰہ الشی ٔ وبارک فیہ وعلیہ، یعنی اس میں اللہ تعالیٰ برکت کرے۔

یہ کلمہ جب جملے میںفعل بن کر استعمال ہو تو صلے کے بغیر بھی آتا ہے اور عَلٰی فِیْ،اور لِ کے صلے سے بھی آتا ہے جیسے اللھم بارک علی محمد، ابترک الفرس فی عدوہ، گھوڑا اعتماد سے اور جم کر چلتا رہا۔ ابترکوا فی الحرب یعنی جنگ میں سواریوں پر جم کر بیٹھے۔ باب مفاعلۃ اور تفاعل سے بھی آتا ہے جیسے بارکنا حولہ ہم نے اس کے ارد گرد برکت کی۔ تَبٰرَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآئِ بُرُوْجًا (الفرقان ۲۵:۶۱) بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے۔

اصحابِ لغت جیسے ابن منظور نے لسان العرب میں‘ زمخشری نے اساس البلاغہ میں اور عبدالرحمن کیلانی نے اپنی مشہور کتاب مترادفات القرآن میں مثالیں دے کر اس کے پانچ معنی لکھے ہیں۔

۱-  نمو، افزایش اور بڑہوتری: وَقَالَ الزُّجَاجُ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی وَھٰذَا کِتَابٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبَارَکٌ (الانعام ۶:۱۵۵) قال المبارک ما یأتی من قبلہ الخیر الکثیر۔ زراعت میں فصلوں‘ پھلوں کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ اس سے مراد اُن کا بڑھنا‘ پھلنا پھولنا اور زیادہ اناج دینا ہے۔

۲- عُلو، رفعت اور بلندی: قال الازہری معنی برکۃ اللّٰہ، علوہٗ علی کل شی ئٍ وقال ابوطالب ابن عبدالمطلب: بورک المیت الغریب کما بورک نضح الرُّمان والزیتون۔ ’’مسافر میت کے درجات بلند ہوں جیسے زیتون اور انار کے درخت مناسب برسات سے بلند ہوتے ہیں‘‘۔

۳- ثبات‘ دوام اور بقا: فی الحدیث الصلاۃ علی النبی علیہ السلام وبارک علی محمد وعلٰی آلِ محمد اے ۔۔۔۔۔۔ اَثبت واَدِم ما اعطیتہ من التشریف والکرامۃ، یعنی جو شرف و بزرگی تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم کو عطا کی ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی آل کو ہمیشہ کے لیے اور دائمی عطا کر۔ یہ معنی اور استعمال اس عوامی عربی محاورے سے ماخوذ ہے بَرَکَ الْبَعِیْرُ۔ جب اونٹ باڑے میں اپنی جگہ پر جم کر بیٹھ جائے۔

۴- خیر و بہلائی میں کثرت و زیادتی:  قال ابن عباس معنی البرکۃ الکثرۃ فی کل خیر۔ ہر قسم کی خیر میں کثرت ہو یعنی مادی اور معنوی خیر و بھلائی کی کثرت ہو۔

حدیث ام سلیم میں ہے: فحنکہ وبرک علیہ اے دعا لہ بالبرکۃ، اس برکت سے مادی و روحانی اورظاہری اور معنوی دونوں قسم کی برکتیں شامل ہیں۔

۵-  سعادت و خوش بختی:  فرّاء مشھور نحوی ولغوی نے رحمتہٗ وبرکاتہٗ سے مراد سعادت و نیک بختی لی ہے۔ ابومنصور نے تشہد کے کلمات اوردعا پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے: ایُّھَا النبی ورحمۃ اللّٰہِ وبرکاتہ لان من اسعدہُ اللّٰہُ بمَا اسعد بہ النبی فقد نال السعادۃ المبارکۃ الدائمۃ یعنی جس شخص کو اللہ تعالیٰ وہ سعادت بخشے جو اپنے نبی کو بخشی ہے تو اس نے دائمی نیک بختی پالی۔

ان تمام معانی کا مجموعہ رمضان کے مہینے کوحدیث سلمان فارسی میں شھرمبارک قرار دینے میں پایا جاتا ہے۔ ایک بزرگ تحریر کرتے ہیں: آدمی کا وقت‘ پیسہ‘ محنت اور عبادات ضائع ہونے سے بچ جائیں۔ تھوڑے وقت میں زیادہ کام ہو جائے‘ تھوڑے پیسوں میں زیادہ ضروریات پوری ہو جائیں‘ تھوڑی محنت سے کامیابی حاصل ہو جائے‘ تھوڑی عبادت سے اللہ تعالیٰ زیادہ ثواب عطا فرما دیں اور اللہ تعالیٰ ایسے کام کروا لیں جس سے اللہ کی مخلوق کو یا اس کے دین کو زیادہ نفع پہنچ جائے۔

کتاب اللّٰہ اور برکت کا کلمہ

قرآن مجید میں بَرَکَ کے مادے اور مصدر سے یہ کلمہ اسم و فعل کی صورت میں ۳۲ مرتبہ آیا ہے۔ ان میں اسم کی صورت میں ۱۷ مرتبہ اور فعل کی شکل میں ۱۵ مرتبہ وارد ہوا ہے۔ افعال میں باب نصر‘ ینصر‘ باب مفاعلہ (مبارکۃ) اور باب تفاعل تبارک سے صیغے آئے ہیں۔

قرآن مجید میں آمدہ کلمات کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں یہ پانچوں معانی پائے جاتے ہیں تاہم روحانی اور معنوی معانی کا غلبہ ہے اور دو تہائی کلمات میں دونوں مفاہیم (روحانی و مادی‘ ظاہری و معنوی) موجود ہیں یعنی حسی و مادی برکہ اور روحانی و معانی برکہ۔ صرف دو کلمے ایسے ہیں جن میں مادی و حسی معانی کا مفہوم واضح ہے۔ اور ایک تہائی کے قریب ایسے کلمات ہیں جن میں صرف روحانی اور معنوی معنی ہی پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ صیغے اور کلمات ہیں جن کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات و صفات کی طرف کی گئی ہے۔ نوصیغے باب تفاعل سے آئے ہیں‘ جیسے اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَo (اعراف ۷:۵۴) یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تمام برکات کا منبع ہے اور دوسروں کو برکت عطا کرنے والی ہے۔ اس کے بعد باب مفاعلہ سے آٹھ صیغے آئے ہیں جیسے سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّن الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ  الْاَقْصٰی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ (بنی اسرائیل ۱۷: ۱) ان تمام صیغوں میں برکت عطا کرنے کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات برکت عطا کرنے والی ہے اس کے علاوہ کوئی برکت عطا کرنے والا نہیں ہے۔ اس باب سے اسم اور مفعول کے ۱۲ صیغے آئے ہیں جیسے مبارک‘ مبارکۃ ان تمام میں برکت عطا کرنے‘ ان میں برکت رکھنے اور ان کو مبارک بنانے والی اللہ ہی کی ذات ہے۔ باقی تین صیغے برکۃ کی اسم جمع برکات کے ہیں۔

برکت کے تمام کے تمام کلمات یہ ظاہر اور واضح کرتے ہیں کہ برکت عطا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس کے سوائے کوئی ہستی ایسی نہیں ہے کہ برکت عطا کرے۔ اس لیے اس دعائیہ کلمے کی نسبت اللہ کی طرف ہی کرنی چاہیے اور اسی سے برکت طلب کرنی چاہیے۔ لہٰذا عام طور پر دعا میں برکاتہٗ (اللہ کی برکتیں) ہی کہا جاتا ہے ۔ اُردو میں ایسے موقعے پر اللہ برکت دے‘ برکتیں عطا کرے‘ مبارک ہو یعنی اللہ کی طرف سے برکتیں ہوں۔ کوئی شخص کھانے پینے کی دعوت دے تو جواب میں کہا جاتا ہے اللہ برکتیں دے اور برکتیں عطا کرے‘ اللہ بخش دے‘ اللہ بہت دے وغیرہ یا ایسے ہی دوسرے جملے اور فقرے کہے جاتے ہیں۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کامل بابرکت ہے۔ لہٰذا اللہ کی طرف اس کی نسبت کرنے کے معانی و مفاہم یہ ہوں گے کہ وہی ذات بلندو بالا اور قائم و دوائم ہے اور خیروبھلائی دیتی ہے۔ سعادت و بھلائی اس کی طرف سے آتی ہے۔

مختلف مفسرین کی نظر میں

ذیل میں نمونے کے طور پر چند متداول تفاسیر سے برکت کے معنی اور مفہوم پیش کیے جارہے ہیں۔ سورئہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں آمدہ کلمہ وَبَارَکْنَا حَوْلَہٗ کی تفسیر میں مفسرین کرام نے اس طرح بیان کیا ہے۔

  • تفسیر ابن کثیر: بَارَکْنَا حَوْلَہٗ ،’’اس مسجد کے ارد گرد ہم نے برکت دے رکھی ہے۔ پھل‘ پھول‘ کھیت اور باغات وغیرہ‘‘۔ (ج۳‘ ص ۱۶۶‘ ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑھی)
  • تفسیر معارف القرآن (مفتی محمد شفیع)ؒ، ’’بیت اللہ کی برکات: وہ مبارک ہے۔ لفظ مبارک برکت سے مشتق ہے۔ برکت کے معنی ہیں بڑھنا اور ثابت قدم رہنا۔ پھر کسی چیز کا بڑھنا اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا وجود کھلے طور پر مقدار میں بڑھ جائے اور اس طرح بھی کہ اگرچہ اس کی مقدار میں کوئی خاص اضافہ نہ ہو‘ لیکن اس سے کام اتنے نکلیں جتنے عادۃً اس سے زائد سے نکلا کرتے ہیں۔ اس کو بھی معنوی طور پر زیادتی کہاجا سکتا ہے۔

اس کے بعد مفتی محمد شفیعؒ نے اس کی ظاہری برکتیں گنوائی ہیں: ’’اس بے آب و گیاہ خطے میں پھلوں‘ سبزیوںاور دوسری خوراک کی ضروریات مہیا ہوتی ہیں اور لاکھوں انسانوں اور حج و عمرہ کرنے والوں کے لیے باافراط موجود ہوتی ہیں اور کسی صورت میں کم نہیں ہوتیں‘‘۔ قرآن مجید نے اس برکت کو یُّجْبٰٓی اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْ ئٍ (جس کی طرف ہر طرح کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں۔ القصص ۲۸:۵۷) سے بیان کیا ہے۔

معنوی اور باطنی برکات تو بے شمار ہیں جیسے حج و عمرہ اور دوسری عبادات کا اجر تعداد میں ایک لاکھ تک بڑھ جانا‘ مومن کا گناہوں سے پاک ہونا اور گناہوں سے محفوظ رہنا وغیرہ۔ (ج ۲‘ ص ۱۱۷)

مسجداقصیٰ اور ملک شام کی برکات بیان کرتے ہوئے مفتی صاحبؒ لکھتے ہیں: اس کی برکات دینی بھی ہیں اور دنیاوی بھی۔ دینی برکات تو یہ ہیں کہ وہ تمام انبیاء سابقین کا قبلہ اور بہت سے انبیا کا مسکن و مدفن ہے‘ اور دنیاوی برکات میں اس کی سرزمین کا سرسبز ہونا اوراس میں عمدہ چشمے‘ نہریں اور باغات وغیرہ کا ہونا ہے‘‘۔ (ج ۵‘ ص ۴۴۳)

  • فی ظلال القرآن: اَلَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ، ’’جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسجد پر ہر وقت برکت اِلٰہیہ کا فیضان ہوتا رہتا ہے اور وہ اس میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے‘‘۔ (ج ۳‘ ص ۲۶۹‘ ترجمہ: معروف شاہ شیرازی)
  • تفھیم القرآن: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مطابق اِسی کعبے کی یہ برکت تھی کہ سال بھر میں چار مہینے کے لیے پورے ملک کو اس کی بدولت امن میسرآجاتا تھا۔ پھر ابھی نصف صدی قبل ابرہہ کی فوج قہرِالٰہی کاشکار ہوئی۔ (اٰل عمران ۳:۹۶)
  • تدبر قرآن: مولانا امین احسن اصلاحی کے نزدیک یہ اسی زمین کی روحانی و مادی دونوں قسم کی زرخیزیوں کی طرف اشارہ ہے۔ قدیم صحیفوں میں اسے دودھ اور شہد کی سرزمین کہا گیا ہے‘ جو اس کی انتہائی زرخیزی کی تعبیر ہے۔ روحانی برکات کے اعتبار سے اس کا جو درجہ تھا اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جتنے انبیا کا مولد و مدفن ہونے کا شرف اس سرزمین کو حاصل ہوا کسی دوسرے علاقے کو حاصل نہیں ہوا (ج ۳‘ ص ۴۷۴)
  • ضیاء القرآن: پیر کرم شاہؒ کی نظر میں اس کی برکتوںکا کیا کہنا‘ اس میں نماز پڑھی جائے تو لاکھ نماز کا ثواب ملتا ہے۔ ایک ختم قرآن کیا جائے تو لاکھ کا ثواب ملتا ہے۔ نیز اس کا حج و عمرہ کرنے والوں‘ اس کے گرد طواف کرنے والوں پر اللہ کی رحمت کی جو بارش برستی ہے اس کا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے۔ (ج ۱‘ ص ۲۵۵)
  •  تفسیر عثمانی: (شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ و مولانا شبیراحمد عثمانیؒ) ۱- یعنی جس ملک میں مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) واقع ہے وہاں حق تعالیٰ نے بہت سی ظاہری و باطنی برکات رکھی ہیں۔ مادی حیثیت سے چشمے‘ نہریں‘ غلے‘ پھل اور میووں کی افراط اور روحانی اعتبار سے دیکھا جائے تو کتنے انبیا و رسل کا مسکن و مدفن اور ان کے فیوض و انوار کا سرچشمہ رہا ہے۔ (بنی اسرائیل ۱۷ حاشیہ۳)

۲- وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (اعراف ۷:۹۶) ’’اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو ہم کھول دیتے ان پر نعمتیں آسماں اور زمین سے لیکن جھٹلایا انھوں نے۔ پس پکڑا ہم نے ان کو ان کے اعمال کے بدلے‘‘۔

مولانا اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اگر یہ لوگ ہمارے پیغمبروں کو مانتے اور حق کے سامنے گردن جھکاتے اورکفروتکذیب وغیرہ سے بچ کر تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تو ہم ان کو آسمان و زمین کی برکات سے مالا مال کر دیتے۔ امام رازیؒ نے فرمایا کہ برکت کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے‘ کبھی تو خیر باقی و دائم کو برکت سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی آثارِ فاضلہ پر اس لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ایمان وتقویٰ اختیار کرنے پر ان آسمانی و زمینی نعمتوں کے دروازے کھول دیے جاتے جو دائمی و غیرمنقطع ہوں یا جن کے آثار فاضلہ بہت کثرت سے ہوں۔ (تفسیر عثمانی ‘ الاعراف ۷‘ ص ۲۱۶‘ حاشیہ ۳)

برکت کا کلمہ اور احادیث

احادیث میں یہ کلمہ کثرت سے مذکورہ بالا اپنے معانی و مفاہیم میں دعا کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ نبی کریمؐ نے مختلف افراد و اشخاص‘ خاندانوںاور گھرانوں‘ اعمال و افعال اور باغات واشیا کے لیے دعا میں اسے استعمال فرمایا ہے۔ اس کی چند ایک مثالیں ملاحظہ کریں۔

التحیات (تشہد) میں فرمایا گیا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔ آپؐ نے سلامتی و رحمت اوربرکات کی سعادت کو نیک و صالح مومنوں کی طرف بڑھا دیا۔ چنانچہ ابومنصور نے کہا: مومن بندوں کی طرف سے آپؐ کے لیے دعا کا جواب آپؐ نے یہ دیا: اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔’’وہی سلام و برکت ہم پر ہے وہ اللہ کے صالح بندوں پر بھی ہو‘‘۔ یہاں برکتوں سے مراد سعادت و خوش بختی اور دوام و ثبات ہے‘‘۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نمازی کو درود ابراہیمی میں آپؐ اور آپؐ کی آل اولاد کے لیے ایسی برکت کی دعا کی تلقین کی جیسی برکت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آل و اولاد‘ ان کی دعوت و تبلیغ اوراللہ کی راہ میں قربانیوں میں اللہ تعالیٰ نے عطا کی۔ اس سے برکت کے دائرے‘ وسعت اور ہمہ گیریت کا اندازہ ہوتا ہے۔

آپؐ نے ماہِ رمضان کو شھرمبارک (برکتوں بھرا مہینہ) فرمایا۔ اس کا مفہوم ہم نے اوپر بیان کیا ہے‘ اسے ملاحظہ کرلیں۔

آپؐ نے حضرت عبداللہ بن جابر رضی اللہ عنہما کی کھجوروں کے کھلیان میں برکت کے لیے دعا کی تو ان میں اتنی برکت (خیروکثرت) آئی کہ اس سے ان کا قرض ادا ہوگیا اور ان کے کھانے کے لیے اتنی بچ گئیں جتنی ہر سال بچتی تھیں‘ جب کہ درخت وہی تھے اور پیداوار بھی ہرسال جتنی ہی تھی۔

ایسے سیکڑوں واقعات مروی ہیں کہ آپؐ  نے کسی کے مال‘ جان‘ صحت اور اولاد کے لیے برکت کی دعا دی اور اس سے ان میں معنوی و حسی اورمادی برکات شامل ہوگئی اور اشیا ظاہری و معنوی دونوں حیثیتوں سے بڑھ گئیں۔ ان میں ثبات آگیا اور درختوں و پھلوں میں نشوونما زیادہ ہوگئی۔ ایک مثال حضرت سلمان فارسیؓ کے باغ کی ہے جس میں آپؐ نے صحابہؓکے ساتھ مل کر کھجوروں کے ۳۰۰ پودے لگائے۔ حضرت سلمانؓ کہتے ہیں کہ کھجور کا ایک پودا بھی ضائع نہیں ہوا۔ یہ آپؐ کی برکت تھی۔ آپؐ کی برکت کے اثرات وثمرات کے واقعات احادیث میں بہت زیادہ ہیں جن کا شمار مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے جن دعائوں کی تعلیم دی اور جو دعائیہ کلمات سکھائے ان میں ایک کلمہ برکت کا ہے۔ چنانچہ کھانے کے بعد کی یہ دعا سکھائی: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَاَطْعِمْنَا خَیْرًا مِّنْـہُ۔(ترمذی)۔ میزبان کے لیے دعا: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَھُمْ فِیْمَا رَزَقْتَہُمْ وَاغْفِرْلَھُمُ وَارْحَمْھُمْ ، نیا پھل دیکھنے پر اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ ثَمَرِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ حَدِیْقَتِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ صَاعِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مُدِّنَا اور دودھ یا دوسرا مشروب پیے تو یہ دعا کرے: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَزِدْنَا مِنْـہُ (ترمذی)۔ کھانے میں عام طور پر دونوں پہلو پیشِ نظر ہوتے ہیں: ۱- کھانے میں مادی برکت‘ ۲-روحانی و معنوی برکت۔ اسی لیے  برکت کی دعا کی تعلیم دی گئی۔

برکت کے لیے چند آداب

برکت کا کلمہ دعائیہ کلمے اور دعا کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے تو ہمیں اپنی دعائوں میں اس کے معانی و مفاہیم کو دعا کرتے وقت سامنے رکھنا چاہیے اور دعا کی شرائط و آداب کا پوری طرح لحاظ رکھنا چاہیے‘ چاہے انسان خود اپنے لیے دعا مانگ رہا ہو یا کوئی دوسرا مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے دعا کر رہا ہو۔ ہر حالت میں دعا کے شرائط و آداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

آج عام تصور اور تاثر یہ ہے کہ ہمارے اعمال و افعال اور اشیا سے برکت اٹھ گئی ہے اور بے برکتی گھر کر آئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ برکت کا حقیقی تصور ہم سے اوجھل ہوگیا ہے اور یہ کلمہ صرف رسمی اور لفظی بول کے طور پر ہی بولا جاتا ہے۔ جسم اور تلفظ موجود ہے لیکن روح  معدوم و مفقود ہے۔ ایک رسم ہے جو مبارک باد یا برکت کے کلمات بول کر ادا کی جا رہی ہے۔ بقول شخصے ’مسلمان اندر کتاب و مسلمانان اندر گور‘ کے مطابق برکت کے معنی اور مفہوم کتابوں میں اور وہ بھی پرانی کتابوں میںاور حقیقی برکت کی دعا کرنے والے قبروں میں جاپہنچے اور     ہم بے برکتی کا شکوہ کرنے والے رہ گئے ہیں۔ برکت کی دعا کرتے وقت اس کے آداب میں درج ذیل باتوں کا ہونا ضروری ہے۔

  • ارادہ: دعا کرتے وقت دعا کا ارادہ اور اس کا تصور اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم‘ صحابہ کرام اور صلحاء اُمت کی دعا کی کیفیت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
  • اخلاص: جس کام کے لیے دعا کر رہے ہیں‘ جس بھائی کے لیے دعا مانگ رہے ہیں اس میں اخلاص بنیادی شرط ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بیرونی حالت اور الفاظ تو دعائیہ ہوں اور دل میں اس شخص سے یا اس دعا سے اخلاص نہ ہو‘ اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ (دین خیرخواہی کا نام ہے)۔
  • معانی ومفھوم کا لحاظ: دعائیہ الفاظ کے معنی اور مفہوم کو سامنے رکھنا چاہیے۔ شعور واحساس کے ساتھ دعاہو۔ جب کسی کی برکت کے لیے دعا مانگ رہے ہوں یا مبارک باد دے رہے ہوں تو برکت کے مادی و حسی اور معنوی و روحانی تصور کو مستحضر کرنا چاہیے۔

آج ہماری دعائوں کے بے اثر ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے معانی و مفاہیم کا کوئی شعور نہیں ہوتا۔ صرف طوطے کی طرح چندبول بولے جاتے ہیں اور ان کے معانی پر دل و دماغ کو مرکوز نہیں کیا جاتا۔

  • دعا کی قبولیت کا یقین: ہر دعا کی قبولیت کے نتیجے میں چار میں سے کوئی ایک صورت ضرور سامنے آتی ہے‘ البتہ یہ ضروری ہے کہ دعا میں اوپر بیان کردہ شرائط لازماً موجود ہوں۔ اگر شرائط پوری نہ ہوں تو دعا رد کر دی جاتی ہے اور وہ صرف الفاظ کا مجموعہ ہوگا۔

چار صورتیں یہ ہیں: دعا اپنی اصل حالت میں قبول ہوجاتی ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگا جائے وہی مل جائے۔ دوم یہ کہ دعا کرنے والے سے‘ اس پر آنے والی کوئی مصیبت ٹل جاتی ہے۔ سوم یہ کہ اس دعا پر کوئی اور عطیہ مل جائے اور چہارم یہ کہ اسے آخرت کے لیے اس کے نامۂ اعمال میں نیکی کے طور پر ذخیرہ کر دیا جائے۔ ان پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے دعا کرنی چاہیے کیونکہ کوئی بھی دعا جو شرائط و آداب کے ساتھ کی جائے وہ ضائع نہیں جاتی۔ان چار صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں وہ دعائیں قبول ہوتی ہیں جو سنت رسولؐ کے مطابق اور اس کے دائرے میں رہ کر کی جائیں۔

  • دعا کے کلمات: یہ کلمے سادہ‘ صاف ہوں اور جس زبان میں کی جا رہی ہو اس کی فصاحت و سلاست اور شستہ زبان سے آدمی دعا کرے۔ تُک بندی‘ قافیہ بندی اور گفتگو میں تکلف نہیں ہونا چاہیے۔
  • دعا‘ کس کے لیے: دعا صرف جائز‘ حلال اور مباح چیزوں اور باتوں کے لیے کی جائے۔ حرام‘ ناجائز اور شرعاً ممنوع باتوں کے لیے نہ کی جائے اس لیے کہ حرام کی کمائی جو ناجائز طریقے سے کمائی جائے یا اس کے کمانے اور کاروبار کرنے میں ناجائز حربے اور حیلے اختیار کیے جائیں تو اس میں برکت نہیں آتی بلکہ جو برکت ہے وہ بھی اٹھ جاتی ہے۔

اکثر تاجر اور دکان دار‘ اشیا کی قیمت اور سامان کی اصلی قیمت بتانے میں جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تجّار کو اس سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے: ’’جھوٹی قسموں سے مال تو فروخت ہوجاتا ہے لیکن اس مال سے ہونے والی کمائی سے برکت اُٹھ جاتی ہے‘‘۔(صحیح بخاری‘ مسلم‘ ابوداؤد اور ترمذی)

حرام اور ناجائز طریقے سے کمائی ہوئی دولت سے روحانی برکت تو چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس میں سے خیروبھلائی ختم ہوجاتی ہے اور ڈھیروں دولت اور کروڑوں روپے موجود ہونے اورزندگی کے عیش و عشرت کے تمام اسباب مہیا ہونے کے باوجود زندگی میں سکون و اطمینان‘ سُکھ و راحت حاصل نہیں ہوتی‘ آل اولاد میں فرمانبرداری و اطاعت نہیں رہتی‘ نیکی کے کاموں کی توفیق نہیں ہوتی اور زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ اور آخرکار اس سے مادی و ظاہری برکت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کی تشریح ایک حدیث مبارک میں اس طرح آئی ہے۔ حضرت قتادہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجارت میں زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیز کرو کیونکہ اس سے پہلے تو کامیابی ہوتی ہے لیکن پھر بے برکتی ہوجاتی ہے (صحیح مسلم‘ نسائی اور ابن ماجہ)۔ اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کسی کے لیے برکت کی دعا اور مبارک باد صرف جائز‘ پاکیزہ اور مباح باتوں‘ کامیابیوں اور نعمتوں پر دی جائے گی۔

آج ہمارے معاشرے میں عام طور پر ان باتوں کا لحاظ نہیں رکھا جاتا اور ہر جائز و ناجائز‘ کامیابی اور حلال و حرام طریقے اور ذریعے سے حاصل شدہ بات پر خیروبرکت کی دعائیں دی جاتی ہیں اور مبارک باد کے ڈونگرے برسا دیے جاتے ہیں۔ یہ بات شرعی‘ اخلاقی اور عقلی لحاظ سے غلط ہے۔ برکت‘ ہدیۂ تبریک اور مبارک باد کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی مدنظر رہے کہ یہ کلمہ اسلامی شعار اور مسلم ثقافت کی علامت ہے۔ لہٰذا اسے سنجیدگی اور وقار اور کسی قابلِ قدر بات‘ کامیابی اور حصولِ نعمت کے موقعے پر ہی بولنا چاہیے۔ اسے مذاق بنالینا‘ مذاق کے طور پر استعمال کرنا اور معمولی یا غیر اہم باتوں پر موقع بے موقع بولنا درست نہیں ہے۔

اگر ہم برکت کے اس تصور کو سامنے رکھیں اور یہ یقین ہو کہ برکت عطا کرنے والی ذات صرف خدا تعالیٰ کی ہے‘ اس لیے نسبت بھی اسی سے ہو‘ اسی کی رضا کو پیش نظر رکھا جائے‘ اور   دین و ایمان کے عملی تقاضے بھی پورے کیے جائیں تو جہاں انفرادی زندگی میں خدا کی برکات کو محسوس کیا جا سکے گا‘ وہاں اجتماعی زندگی میں اور اُمت کی سطح پر دیگر برکات و ثمرات کے علاوہ   غلبہ و سربلندی بھی میسرآسکے گی۔ ان شاء اللہ!