۲۰۰۵فروری

فہرست مضامین

جہاد کے متعلق غلط فہمی

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | ۲۰۰۵فروری | حکمت مودودی

Responsive image Responsive image

خالص علمی حیثیت سے ہم ان اسباب کا تجزیہ کرتے ہیں جن کی وجہ سے ’جہاد فی سبیل اللہ‘ کی حقیقت کو سمجھنا غیرمسلموں ہی کے لیے نہیں‘ خود مسلمانوں کے لیے بھی دشوار ہوگیا ہے تو ہمیں دو بڑی اور بنیادی غلط فہمیوںکا سراغ ملتا ہے۔

پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ اسلام کو ان معنوں میں ایک مذہب سمجھ لیا گیا ہے جن میں یہ لفظ عموماً بولا جاتا ہے--- دوسری غلط فہمی یہ کہ مسلمانوں کو ان معنوں میں محض ایک قوم سمجھ لیا گیا ہے‘ جن میں یہ لفظ عموماً مستعمل ہے۔

ان دو غلط فہمیوں نے صرف ایک جہاد ہی کے مسئلے کو نہیں بلکہ مجموعی حیثیت سے پورے اسلام کے نقشے کو بدل ڈالا ہے اور مسلمانوں کی پوزیشن کلی طور پر غلط کر کے رکھ دی ہے۔

’مذہب‘کے معنی عام اصطلاح کے اعتبار سے بجز اس کے اور کیا ہیں کہ وہ چند عقائد اور عبادات اور مراسم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے مذہب کو واقعی ایک پرائیویٹ معاملہ ہی ہونا چاہیے۔ آپ کو اختیار ہے کہ جو عقیدہ چاہیں رکھیں‘ اور آپ کا ضمیر جس کی عبادت کرنے پر راضی ہو اس کو جس طرح چاہیں پکاریں۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی جوش اور سرگرمی آپ کے اندر اس مذہب کے لیے موجود ہے تو آپ دنیا بھر میں اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے پھریئے اور دوسرے عقائد والوں سے مناظرے کیجیے۔ اس کے لیے تلوار ہاتھ میں پکڑنے کا کون سا موقع ہے؟ کیا آپ لوگوں کو مار مار کر اپنا ہم عقیدہ بنانا چاہتے ہیں؟ یہ سوال لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے‘ جب کہ آپ اسلام کو عام اصطلاح کی رو سے ایک’مذہب‘قرار دے لیں اور یہ پوزیشن اگر واقعی اسلام کی ہو تو جہاد کے لیے حقیقت میں کوئی وجۂ جواز ثابت نہیں کی جاسکتی۔

اسی طرح ’قوم‘ کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ وہ ایک متجانس گروہ اشخاص (Homogenous Group of Men) کا نام ہے۔ جو چند بنیادی امور میں مشترک ہونے کی وجہ سے باہم مجتمع اور دوسرے گروہوں سے ممتاز ہوگیا ہو۔ اس معنی میں جو گروہ ایک قوم ہو‘ وہ دو ہی وجوہ سے تلوار اٹھاتا ہے اور اٹھا سکتا ہے۔ یا تو اس کے جائز حقوق چھیننے کے لیے کوئی اس پر حملہ کرے‘ یا وہ خود دوسروں کے جائز حقوق چھیننے کے لیے حملہ آور ہو۔ پہلی صورت میں تو خیرتلوار اٹھانے کے لیے کچھ نہ کچھ اخلاقی جواز بھی موجود ہے (اگرچہ بعض دھرماتمائوں کے نزدیک یہ بھی ناجائز ہے) لیکن دوسری صورت کو تو بعض ڈکٹیٹروں کے سوا کوئی بھی جائز نہیں کہہ سکتا‘ حتیٰ کہ برطانیہ اور فرانس جیسی وسیع سلطنتوں کے مدبرین بھی آج اس کو جائز کہنے کی جرأت نہیں رکھتے۔

جھاد کی حقیقت

پس اگر اسلام ایک ’مذہب‘ اور مسلمان ایک ’قوم‘ ہے تو جہاد کی ساری معنویت‘ جس کی بنا پر اسلام میں اسے افضل العبادات کہا گیا ہے‘ سرے سے ختم ہوجاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے  کہ اسلام کسی ’مذہب‘ کا اور ’مسلمان‘ کسی ’قوم‘ کا نام نہیں ہے۔ دراصل اسلام ایک انقلابی نظریہ و مسلک ہے جو تمام دنیا کے اجتماعی نظم (sanction) کو بدل کر اپنے نظریہ و مسلک کے مطابق اسے تعمیر کرنا چاہتا ہے‘ اور مسلمان اس بین الاقوامی انقلابی جماعت (International Revolutionary Party) کا نام ہے جسے اسلام اپنے مطلوبہ انقلابی پروگرام کو عمل میں لانے کے لیے منظم کرتا ہے‘ اور جہاد اس انقلابی جدوجہد (Revolutionary Struggle) کا اور  اس انتہائی صرفِ طاقت کا نام ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسلامی جماعت عمل میں لاتی ہے۔

تمام انقلابی مسلکوں کی طرح اسلام بھی عام مروج الفاظ کو چھوڑ کر اپنی ایک خاص اصطلاحی زبان (terminology) اختیار کرتا ہے تاکہ اس کے انقلابی تصورات عام تصورات سے ممتاز ہوسکیں۔ لفظ جہاد بھی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے۔ اسلام نے حرب اور اسی نوعیت کے دوسرے عربی الفاظ جو جنگ (war) کے مفہوم کو ادا کرتے ہیں قصداً ترک کردیے اور ان کی جگہ ’جہاد‘ کا لفظ استعمال کیا جو struggle کا ہم معنی ہے بلکہ اس سے زیادہ مبالغہ رکھتا ہے۔ انگریزی زبان میں اس کا صحیح مفہوم یوں ادا کیا جا سکتا ہے:

To exert one's utmost endeavour in furthering a cause

اپنی تمام طاقتیں کسی مقصد کی تحصیل میں صرف کر دینا۔

سوال یہ ہے کہ پرانے الفاظ کو چھوڑ کر یہ نیا لفظ کیوں اختیار کیا گیا؟ اس کا جواب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ ’جنگ‘ کا لفظ قوموں اور سلطنتوں کی ان لڑائیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور آج تک ہو رہا ہے جو اشخاص یا جماعتوں کی نفسانی اغراض کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ ان لڑائیوں کے محرک محض ایسے شخصی یا اجتماعی مقاصد ہوتے ہیں جن کے اندر کسی نظریے اور کسی اصول کی حمایت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اسلام کی لڑائی چونکہ اس نوعیت کی نہیں ہے۔ اس لیے وہ سرے سے اس لفظ ہی کو ترک کردیتا ہے۔ اس کے پیشِ نظر ایک قوم کا مفاد یا دوسری قوم کا نقصان نہیں ہے وہ اس سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتا کہ زمین پر ایک سلطنت کا قبضہ رہے یا دوسری سلطنت کا‘ اس کی دل چسپی جس سے ہے‘ وہ انسانیت کی فلاح ہے۔ اس فلاح کے لیے وہ اپنا ایک خاص نظریہ اور ایک عملی مسلک رکھتا ہے۔ اس نظریے اور مسلک کے خلاف جہاں جس کی حکومت بھی ہے‘ اسلام اسے مٹانا چاہتا ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی قوم ہو اور کوئی ملک ہو۔

اس کا مدعا اور اپنے نظریے اور مسلک کی حکومت قائم کرنا ہے بلالحاظ اس کے کہ کون اس کا جھنڈا لے کر اٹھتا ہے اور کس کی حکمرانی پر اس کی ضرب پڑنی ہے۔ وہ زمین مانگتا ہے--- زمین کا ایک حصہ نہیں بلکہ پورا کرئہ زمین--- اس لیے نہیں کہ ایک قوم یا بہت سی قوموں کے ہاتھ سے نکل کر زمین کی حکومت کسی خاص قوم کے ہاتھ میں آجائے‘ بلکہ صرف اس لیے کہ انسانیت کی فلاح کا جو نظریہ اور پروگرام اس کے پاس ہے‘ یا بالفاظِ صحیح تر یوں کہیے کہ فلاحِ انسانیت کے جس پروگرام کا نام ’اسلام‘ ہے‘ اس سے تمام نوعِ انسانی متمتع ہو۔ اس غرض کے لیے وہ تمام ان طاقتوں سے کام لینا چاہتا ہے جو انقلاب برپا کرنے کے لیے کارگر ہو سکتی ہیں‘ اور ان سب طاقتوںکے استعمال کا ایک جامع نام ’جہاد‘ رکھتا ہے۔ زبان و قلم کے زور سے لوگوں کے نقطۂ نظر کو بدلنا اور ان کے اندر ذہنی انقلاب پیدا کرنا بھی جہاد ہے ۔ تلوار کے زور سے پرانے ظالمانہ نظامِ زندگی کو بدل دینا اور نیا عادلانہ نظام مرتب کرنا بھی جہاد ہے‘ اور اس راہ میں مال صرف کرنا اور جسم سے دوڑ دھوپ کرنا بھی جہاد ہے۔

فی سبیل اللّٰہ کی لازمی قید

لیکن اسلام کا جہاد نرا ’جہاد‘ نہیں ہے ’جہاد فی سبیل اللہ‘ ہے۔ ’فی سبیل اللہ‘ کی قید اس کے ساتھ ایک لازمی قید ہے۔ یہ لفظ بھی اسلام کی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے جس طرف ابھی میں اشارہ کر چکا ہوں۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے ’راہِ خدا میں‘۔اس ترجمے سے   لوگ غلط فہمی میں پڑگئے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ زبردستی لوگو ں کو اسلام کے مذہبی عقائد کا پیرو بنانا    جہاد فی سبیل اللہ ہے‘ کیوں کہ لوگوں کے تنگ دماغوں میں ’راہِ خدا‘ کا کوئی مفہوم اس کے سوا نہیں سماسکتا۔ مگر اسلام کی زبان میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔

ہر وہ کام جو اجتماعی فلاح بہبود کے لیے کیا جائے اور جس کے کرنے والے کا مقصد اس سے خود کوئی دنیوی فائدہ اٹھانا نہ ہو بلکہ محض خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہو‘ اسلام ایسے کام کو ’فی سبیل اللہ‘ قرار دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ خیرات دیتے ہیں‘ اس نیت سے کہ اسی دنیا میں مادی یا اخلاقی طور پر اس خیرات کا کوئی فائدہ آپ کی طرف پلٹ کر آئے تو یہ فی سبیل اللہ نہیں ہے۔ اور اگر خیرات سے آپ کی نیت یہ ہے  کہ ایک غریب انسان کی مدد کر کے آپ خدا کی خوشنودی حاصل کریں تو یہ فی سبیل اللہ ہے۔ پس یہ اصطلاح مخصوص ہے ایسے کاموں کے لیے جو کامل خلوص کے ساتھ‘ ہر قسم کی نفسانی اغراض سے پاک ہو کر‘ اس نظریے پر کیے جائیں کہ انسان کا دوسرے انسانوں کی فلاح کے لیے کام کرنا خدا کی خوشنودی کا موجب ہے‘ اور انسان کی زندگی کا نصب العین مالک کائنات کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔

’جہاد‘ کے لیے بھی ’فی سبیل اللہ‘ کی قید اسی غرض کے لیے لگائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ جب نظامِ زندگی میں انقلاب برپا کرنے اور اسلامی نظریے کے مطابق  نیا نظام مرتب کرنے کے لیے اٹھے‘ تو اس قیام اور اس سربازی و جاں نثاری میں اس کی اپنی کوئی نفسانی غرض نہ ہو۔ اُس کا یہ مقصد ہرگز نہ ہو کہ قیصرکو ہٹا کر وہ خود قیصر بن جائے۔ اپنی ذات کے لیے مال و دولت‘ یا شہرت و نام وری‘ یا عزت و جاہ حاصل کرنے کا شائبہ تک اس کی جدوجہد کے مقاصد میں شامل نہ ہو۔ اس کی تمام قربانیوں اور ساری محنتوں کا مّدعا صرف یہ ہو کہ بندگانِ خدا کے درمیان ایک عادلانہ نظامِ زندگی قائم کیا جائے۔ اس کے معاوضے میں اسے خدا کی خوشنودی کے سوا کچھ بھی مطلوب نہ ہو۔ (اسلامی نظام اور اس کے بنیادی تصورات‘ ص ۲۴۰-۲۴۵)