۲۰۰۵فروری

فہرست مضامین

سونامی کی تباہ کاریاں اور انسانیت

حافظ محمد ادریس | ۲۰۰۵فروری | احوالِ عالم

Responsive image Responsive image

۲۶ دسمبر ۲۰۰۴ء پیر کا دن تھا۔ اس سے ایک روز قبل پوری دنیا میں عیسائی مذہب کے پیروکاروں نے اپنی عید (کرسمس) بڑے اہتمام اور تزک و احتشام سے منائی تھی۔ مال دار ملکوں کے سیاح‘ مرد وخواتین سیاحت کے مقامات اور سمندری ساحلوں پر تعطیلات کے مزے لوٹ رہے تھے اور مزے لوٹنے کا ان کا جو انداز ہے‘ اس کا بھرپور اہتمام تھا۔ سالِ نو کی آمد کا پوری دنیا میں شدت سے انتظار تھا۔ سال نو کے جشن جس انداز میںمنائے جاتے ہیں ان کے لیے مادی دنیا اور اس کی لذتوں میں غرق عالمی آبادی اتنے پاپڑ بیلتی اور اس قدر انتظامات کرتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ ایسے میں مشرق کی جانب سے سورج نے ۲۶ دسمبر کے دن کا اعلان کیا ہی تھا کہ ایک قیامت صغریٰ برپا ہوگئی۔ بحرہند کی تہوں کے نیچے ایک ہولناک زلزلے نے انگڑائی لی‘ سمندر بپھر گیا اور موت ہر جانب رقص کرنے لگی۔ عالمی ذرائع ابلاغ پر ایک ہی نام ہر جانب گونج رہا تھا ’’سونامی‘‘۔

لوگ سونامی کی خون آشام تباہ کاریوں کی خبریں خوف و ہراس کے ساتھ سن رہے تھے اور سمندری طوفان کی تباہ کاریوں کی تصاویر دیکھ دیکھ کر حیران و پریشان تھے۔ ہرشخص ایک دوسرے سے پوچھ رہا تھا ’’سونامی‘‘ کیا ہے۔ سونامی دراصل جاپانی زبان کا لفظ ہے جو تباہ کن سمندری طوفان اور زلزلے کے لیے بولا جاتا ہے۔ جاپان ان خطوں میں شامل ہے جہاں تاریخ کے بدترین سمندری زلزلے اور طوفان تباہی مچاتے رہے ہیں۔ جاپان میں ۱۹۰۶ء میں ایک سمندری طوفان آیا تھا جس میں صرف اس ملک کے ایک لاکھ ۴۵ ہزار کے قریب لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے۔ زلزلوں کے ریکارڈ کے مطابق ۱۹۰۶ء کا سمندری زلزلہ جس نے یہ تباہی مچائی اتنا خوفناک تھا کہ اس کے لیے یہ لفظ ایجاد ہوا۔

یہ سمندر اور زمین بلکہ کائنات کی ہر چیز اللہ نے انسانوں کے لیے مسخر کر دی ہے مگر ان سب کا کنٹرول اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ انسان بڑا ترقی یافتہ اور خود کو نہایت طاقت ور سمجھتا ہے مگر حقیقت میں بے بس اور کمزور سی مخلوق ہے۔ اللہ رب العالمین کی عطا کردہ عافیت میں زندگی گزر رہی ہو تو انسان کبھی اس امر پر غور بھی نہیں کرتا کہ یہ تسخیرشدہ کائنات کسی پہلو سے ذرا اپنی ہیئت بدل لے تو کیا ہو جائے گا۔ سونامی کی تباہ کاریوں کی پوری تفاصیل ابھی تک معلوم نہیں ہو سکیں مگر یہ حقیقت ہے کہ لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن گئے اور کروڑوں بے گھر ہوگئے۔ ملکوں کے ملک اور ان کی منظم حکومتیں ہل کر رہ گئیں۔ اس طرح حادثے کا ایک پہلو تو واقعاتی ہے جس کی جزئیات آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہیں مگر ایک پہلو اخلاقی و طبیعیاتی بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وہی ہے جس نے تمھارے لیے سمندر کو مسخر کر رکھا ہے تاکہ تم اس سے تروتازہ گوشت لے کر کھائو اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنھیں تم پہنا کرتے ہو۔ تم دیکھتے ہو کہ کشتی سمندر کا سینہ چیرتی ہوئی چلتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکرگزار بنو‘‘۔ (النحل۱۶:۱۴)

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے: ’’تمھارا (حقیقی) رب تو وہ ہے جو سمندر میں تمھاری کشتی چلاتا ہے تاکہ اس کا فضل تلاش کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمھارے حال پر نہایت مہربان ہے۔ جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو‘ وہ سب گم ہوجاتے ہیں مگر جب وہ تم کو بچاکر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑ جاتے ہو۔ انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔ اچھا تو کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دے یا تم پر پتھرائو کرنے والی آندھی بھیج دے اور تم ا س سے بچانے والا کوئی حمایتی نہ پائو؟ کیا تمھیں اس کا اندیشہ نہیں کہ خدا پھر کسی وقت سمندر میں تم کو لے جائے اور تمھاری ناشکری کے بدلے تم پر سخت طوفانی ہوا بھیج کر تمھیں غرق کر دے اور تم کو ایسا کوئی نہ ملے جو اس سے تمھارے اس انجام کی پوچھ گچھ کرسکے‘‘۔(بنی اسرائیل ۱۷:۶۶-۶۹)

سونامی جس نے لاکھوں انسانوں کو نگل لیا وہی ’’سخت طوفانی ہوا‘‘ ہے جس کا اوپر کی آیات میں ذکر ملتا ہے۔ انسان کے لیے ان واقعات میں بڑی عبرت ہے مگر بدقسمتی سے کم ہی لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں۔ بحرہند کے جن جن علاقوں میں یہ تباہی پھیلی ہے وہاں پیشگی اطلاع دینے والا سسٹم موجود نہیں ہے‘ جب کہ بحراوقیانوس میں ایسا انتظام کیا گیا ہے مگر اس انتظام کے باوجود وہاں بھی جب ناگہانی آفت آجاتی ہے تو انسان کی بے بسی نوشتۂ دیوار بن جاتی ہے۔ سونامی کے اس طوفان نے جنوبی ایشیا‘ مشرق بعید اور افریقہ کے ممالک میں تباہی مچائی ہے۔ گذشتہ نصف صدی میں آنے والے زلزلوں میں سے یہ ایک بدترین اور مہلک ترین زلزلہ تھا۔ اس سے انڈونیشیا‘ سری لنکا‘ بھارت‘ تھائی لینڈ اور مالدیپ میں ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے‘ جب کہ بحرہند کے دور دراز جزیرے سیشلز تک ان لہروں نے تباہی مچائی ہے۔

انڈونیشیا کا جزیرہ آچے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ یہ مسلمان اکثریت کا علاقہ ہے۔ یہاں پر مسلمان ممالک اور بالخصوص پاکستان سے جانے والے الخدمت کے وفد نے جو حالات دیکھے ہیں وہ انتہائی دلخراش ہیں۔ الخدمت کے ڈاکٹروں اور رضاکاروں کے وفد کو انڈونیشیا کی اسلامی جماعت ’’جسٹس پارٹی‘‘ کے رضاکاروں کی امداد اور تعاون بھی حاصل ہے مگر یہ بات انتہائی المناک ہے کہ مغربی دنیا کی این جی اوز اب تک کوئی قابلِ ذکر خدمت سرانجام نہیں  دے سکیں۔ سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہاں امریکی فوجیوںکی آمد اور کارکردگی ہے۔ امریکا نے اس ناگہانی مصیبت میں جس قلیل امداد (عراق کا ڈیڑھ دن کا خرچ) کا اعلان کیا تھا‘ اس کے ساتھ یہ اڑنگا لگا دیا کہ اس امریکی امداد کو اپنی فوج کے ذریعے استعمال کرے گا۔

امریکی فوج کے بارے میں انڈونیشیا کی حکومت اور آچے کی مقامی آبادی نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انڈونیشی نائب صدر نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ اپنی فوج کو جلد از جلد واپس بلا لے۔ اندازہ ہے کہ امریکی امداد کے علاوہ بلکہ یواین او کے فنڈ سے مزید رقوم ان فوجیوں کی دیکھ بھال پر خرچ ہوجائیں گی۔

نیویارک ٹائمز نے جین پرلیز (Jane Perlez) کی رپورٹ کے مطابق انکشاف کیا ہے کہ تین بحری جنگی جہاز سان ڈیگو سے ۲ ہزار امریکی میرین عراق منتقل کر رہے تھے مگر ان سب کو بھی انڈونیشیا بھیجنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ کالم نگار نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ان جہازوں کو ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچانے کے بجاے فوجیوں کو وہاں بھیجنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے بقول یہ بہرحال سیاسی فیصلے ہیں۔ ۲۰ ہزار کے قریب امریکی فوجی یہاں براجمان ہیں۔

زلزلے کی خبر ملتے ہی امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے مصیبت زدگان کی امداد کے لیے قوم سے اپیل کی۔ ہر بستی اور محلے میں کیمپ لگ گئے۔ لوگوں نے حسبِ توفیق الخدمت کے ان کیمپوں میں امدادی رقوم جمع کرانا شروع کر دیں۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اور الخدمت کا ایک چھ رکنی وفد امداد لے کر انڈونیشیا روانہ ہوگیا۔الخدمت کے وفد نے رابطہ کرکے بتایا ہے کہ امریکی فوجی کسی کام میںکوئی حصہ نہیں لے رہے بلکہ آرام سے اپنے مقامات پر پڑے ہیں۔ عیسائی مشنری امداد کے بہانے آچے میں مسلمانوں کے یتیم بچوں اور مفلوک الحال لوگوں کو عیسائی بنانے پر لگے ہوئے ہیں‘ جب کہ مسلمان رضاکار تنظیموں کو وہاں کام ہی نہیں کرنے دیا جا رہا۔ عیسائی تنظیمیں ہر جانب سرگرمِ عمل ہیں اور رقم اقوام متحدہ اور مسلمان ممالک کی استعمال کر رہی ہیں۔

اللہ نے اپنے انبیا کے ذریعے انسانوں کو بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بتا دیا ہے کہ ان کی غفلت‘ بغاوت‘ نافرمانی اور ظلم و عدوان پر وہ ایک حد تک مہلت دیتا ہے مگر کبھی کبھار وہ رسی کھینچ بھی لیتا ہے۔ ظالموں کے لیے یہ اللہ کا عذاب ہوتا ہے مگر اس میں بے گناہ بھی آجاتے ہیں‘ ان کے حق میں یہ ابتلا شمار ہوتی ہے اور اس ابتلا پر اللہ کے ہاں اجر ملتا ہے۔ اس قیامت صغریٰ کے بعد متاثرین کی طرف سے مختلف قسم کے ردعمل سامنے آرہے ہیں۔ کچھ لوگ مسلم اور غیرمسلم آبادیوں میں سے یکساں برملا یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے انسانی ظلم و زیادتی پر تنبیہہ اور سرزنش ہے۔ کچھ لوگ اُلٹا خدا کا شکوہ بھی کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اگر غور کرے تو یہ تمام مصائب اس کے اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہوتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ تو بہت سے گناہوں پر اپنے عفوودرگزر کی وجہ سے پردہ ڈال دیتا ہے اور ڈھیل دیے چلا جاتا ہے۔ اس کا ارشاد ہے: ’’تم لوگوں پر جو مصیبت بھی آئی ہے‘ تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے‘ اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی درگزر کر جاتا ہے۔ تم زمین میں اپنے خدا کو عاجزکر دینے والے نہیں ہو‘ اور اللہ کے مقابلے میں تم کوئی حامی و مددگار نہیں رکھتے‘‘۔ (الشوریٰ ۴۲:۳۰-۳۱)

متاثرہ علاقوں میں کئی معجزات بھی رونما ہوئے ہیں۔ اللہ نے کئی لوگوں کو یوں بچا لیا ہے کہ ان کے بچ جانے کی کوئی توجیہہ اس کے سوا ممکن نہیں کہ کسی غیرمرئی قوت نے انھیں محفوظ رکھا ہے۔ یہ غیرمرئی قوت مغرب و مشرق کے مادہ پرست انسانوں کے لیے اجنبی ہوسکتی ہے۔ مگر اس کائنات کے سمیع و بصیر خالق پر ایمان رکھنے والے لوگوں کے لیے اس میں کوئی اچنبھا نہیں بلکہ ایمان افروز نشانی ہے۔ کئی مساجد میلوں تک تباہ ہوجانے والے علاقوں میں اپنی جگہ مضبوطی کے ساتھ جوں کی توں کھڑی ہیں جو ایک حیرت ناک عجوبہ ہے۔ مغربی میڈیا بالخصوص اے ایف پی اور رائٹر کے حوالے سے ایسی بہت سی خبریں اور فیچر سامنے آئے ہیں جن میں اس پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔ آچے (انڈونیشیا) کی ان عظیم الشان مساجد کے بارے میں اے ایف پی کے الفاظ ہیں:

Indonesia's indestructible mosques defy quake tidal waves.

یعنی انڈونیشیا کی مضبوط مساجد زلزلے کی منہ زور لہروں کا منہ چڑا رہی ہیں۔ بے شمار لوگ ان علاقوں میں مساجد میں پناہ لینے کی وجہ سے محفوظ رہ گئے۔ جس سونامی تباہ کار ریلے نے بستیوں کی بستیاں نگل لیں اور عمارتوں کے نام و نشان تک مٹ گئے‘ اس کے سامنے ان مساجد کا اپنی جگہ مضبوطی کے ساتھ کھڑے رہنا ایک ایمان افروز واقعہ اور ان کے معماروں کی مہارت و احتیاط کی دلیل ہے۔ کئی سال قبل مجھے ایک مرتبہ افریقہ کے ملک زامبیا میں ایک یونانی نومسلم ملا تھا۔ میں نے اس سے اس کے قبولِ اسلام کا سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ ترکی میں استنبول کی نیلی مسجد  (blue mosque) نے اسے مسلمان بنا دیا۔ اس مسجد کی خوب صورتی‘ شان اور مہارت دیکھ کر اس کے دل نے گواہی دی کہ اس عبادت خانے کی تعمیر کرنے والے اور اس میں عبادت کرنے والے جھوٹے لوگ نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح کے واقعات آہستہ آہستہ ان علاقوں سے بھی موصول ہورہے ہیں۔

اللہ نے اس کائنات کو انسان کے لیے مسخر کیا ہے اور اسے یہ حکم دیا ہے کہ وہ خود کو اپنی آزاد مرضی سے اللہ کے احکام کا تابع (مسخر) بنا دے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اسے عظیم الشان انعام ملے گا‘ بصورت دیگر اسے شدید عذاب کا مزا چکھنا پڑے گا۔ یہ انعام اور پکڑ اس زندگی کے بعد دوسری زندگی میںہوگی مگر اس زندگی میں اللہ انسانوں کو جھنجھوڑتا رہتا ہے تاکہ وہ اس کی  طرف پلٹ آئیں۔ اس کا ارشاد ہے: ’’اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ  کسی چھوٹے) عذاب کا مزا انھیں چکھاتے رہیں گے‘ شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے) باز آجائیں‘‘۔ (السجدہ۳۲:۲۱)

سونامی کے اس حادثۂ جاں کاہ پر جہاں اظہارِ غم کرنا انسانی اور بشری تقاضا ہے وہیں متاثرین کی امداد اور بحالیاتی انسانی اور دینی فرض ہے۔ اس کے علاوہ اس واقعہ سے عبرت حاصل کرنا‘ انسانیت کو اس تناظر میں اصلاحِ احوال کی دعوت دینا اور بغاوت و سرکشی کی روش ترک کرنے کی سنجیدہ کوشش اور منصوبہ بندی بھی بہت ضروری ہے۔ ہم مسلمان اپنے مسلمان ہونے کے ناطے داعیانِ الی الخیر قرار دیے گئے ہیں۔ ہمارا فرض منصبی امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ آج کا دور ذرائع ابلاغ اور اطلاعات کا دور ہے۔ اُمت کے تمام ذی شعور لوگوں کو انسانیت سے دردِ دل کے ساتھ اپیل کرنی چاہیے کہ وہ اپنا مقام پہچانیں‘ اپنے خالق و مالک کو پہچانیں اور خود کو مالکِ حقیقی کا خلیفہ ثابت کریں۔