۲۰۰۵فروری

فہرست مضامین

دہشت گردی کے بارے میں سچائی کی تلاش

جوناتھن رابن | ۲۰۰۵فروری | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

ترجمہ و تلخیص: مسلم سجاد

دی نیویارک ریویو ایک وقیع رسالہ ہے جو کتابوں پر تبصرے کے لیے اپنی شہرت رکھتا ہے۔ اس نے ۱۳ جنوری ۲۰۰۵ء کے شمارے میں The Truth About Terrorism کے عنوان سے ۱۱؍۹ کمیشن رپورٹ سمیت ۶ کتابوں اور بی بی سی کی ۳گھنٹے کی ایک فلم پر جوناتھن رابن کا مفصل تبصرہ شائع کیا ہے۔ ہم اس تبصرے کا خلاصہ ترجمان القرآن میں اس لیے شائع کر رہے ہیں کہ ایک طرف اس سلسلے میں شائع ہونے والی اہم کتابوں سے ہمارے قارئین واقف ہوسکیں تو دوسری طرف خود امریکا میں اضطراب اور تلاشِ حق کے لیے جوتھوڑی بہت کوششیں شروع ہوگئی ہیں ان سے واقفیت پیدا کی جاسکے۔ خاص طور پر ہماری اس قیادت کے لیے‘ ان میں سوچنے‘ سمجھنے کا بہت عمدہ لوازمہ ہے جو آنکھیں بند کر کے امریکی قیادت کے اشارۂ چشم وآبرو پر خود اپنوں کے خلاف آپریشن کرنے میں مصروف ہیں۔ (ادارہ)

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے نو دن بعد ہی جنگ شروع ہوگئی جسے بش نے ۲۰ دسمبر کے کانگریس کے اجلاس میں ’’ایک نئی طرح کی جنگ‘ اُس سے بہت مختلف جو ہم جنگ کے نام سے جانتے ہیں‘‘، قرار دیا۔ ڈک چینی کے الفاظ میں: ’’اس جنگ میں ہمیں سایوں سے لڑنا ہے‘‘۔ بش اور ڈک چینی عوام کو جنگ کے نئے تصور سے آشنا کر رہے تھے جس میں ایک قومی ریاست غیر ریاستی عنصر سے برسرِجنگ ہوگی۔

اس وقت جس صورت حال سے ہم دوچار ہیں وہ ایک ایسی دنیا ہے جس میں سب کچھ دھندلا ہے۔ اب الفاظ کے وہ معنی نہیں رہے جو ستمبر ۲۰۰۱ء سے پہلے تھے۔ اب یہ سوچنا پڑتا ہے کہ اپنے پڑوسی کو ہم ایک ہم وطن سمجھیں یا خفیہ پولیس کا سپاہی۔ عام زندگی اور گفتگو نے ایسا رخ اختیار کر لیا ہے کہ امن نے جنگ کا چہرہ اختیار کرلیا ہے اور جنگ امن کی طرح ہوگئی ہے۔ اب  یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ حالتِ امن ہے یا حالتِ جنگ۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا کیا مطلب ہے؟ دہشت گردی حملے کا ایک ذریعہ ہے‘ کوئی شے یا دشمن نہیں۔ اس کے خلاف جنگ کا مطلب ٹینکوں یا تیرکمانوں سے جنگ کا ہے۔   یہ صرف ایک سیاسی اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ نے رچرڈ پائپس جیسے سرد جنگ کے بوڑھوں کی رگوں میںتازہ خون دوڑایا ہے۔ اس نے روس کے بسلان کے سانحے پر نیویارک ٹائمز میں لکھا کہ: ’’نیویارک اور پینٹاگون پر حملے کسی اشتعال کے بغیر کیے گئے اور ان کا کوئی خاص مقصد نہیں تھا۔ یہ اسلامی انتہاپسندوں کے‘ جو غیراسلامی تہذیبوں کو تباہ کرنے کے درپے ہیں‘ عمومی حملے کا حصہ تھے۔ اس لیے القاعدہ سے امریکا کی جنگ پر کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے لیکن چیچن روس کو تباہ نہیں کرنا چاہتے‘ اس لیے مصالحت کی گنجایش ہے‘‘۔

یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے دشمن‘ جیسا کہ ڈینیل پائپس نے کہا: اسلامی انتہا پسندی‘ عالمی جہاد‘ اسلامی فاشزم کے پاس امریکا کو تباہ کرنے کی خواہش کے علاوہ کوئی ایجنڈا نہیں جو امریکا کی اقدار سے نفرت کی بنا پر ہے۔ اپنے موقف کے جواز کے لیے پائپس اور ان کے جیسے لوگ اسامہ بن لادن کے مطالبات کی فہرست کو زیرغور لانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ایمن ظواہری اور دوسروں کا یہودیوں اور صلیبیوں کے خلاف ۱۹۹۸ء کا اعلانِ جنگ اسی طرح متعین ہے جس طرح چیچن باغیوںکے مطالبات متعین ہیں۔ اسامہ بن لادن کا سعودی عرب سے امریکی فوجوں کے انخلا کا مطالبہ (جو اب خاموشی سے پورا بھی ہوچکا ہے)‘ جزیرہ نما کو استعمال کرکے عراقی عوام کے خلاف جارحیت‘ امریکا کا عراق‘ سعودی عرب‘ مصر اور سوڈان کو توڑنے پھوڑنے کا منصوبہ‘ اور ان کی اس کمزوری سے اسرائیل کے بقا کی ضمانت حاصل کرنا اور جزیرہ نما پر قبضے کے لیے وحشیانہ صلیبی حملے میں سے کوئی بات بھی امریکی اقدار سے منسلک نہیں ہے۔

ہتھیار اٹھانے کی سب سے بلند آواز نارمن پوڈہارٹزکی ہے جو اس نے جنگِ عظیم چہارم کے نام سے مجلہ کمنٹری میں اٹھائی ہے۔ وہ اس بات سے بڑی آسانی سے گزر گیا ہے کہ کیا اسرائیل کے لیے امریکا کی غیر مشروط حمایت کا عالمی جہادی فکر کی انگیخت میں کوئی سنجیدہ کردار ہے؟ وہ کہتا ہے کہ اسرائیل سے نفرت امریکا دشمنی کا عنوان ہے‘ نہ کہ امریکا دشمنی اسرائیل سے نفرت کی وجہ سے ہے۔ پوڈہارٹز اور پائپس دونوں ہی چاہتے ہیں کہ یہ خیال ہی ذہن سے نکال دیا جائے کہ اسلامی انتہا پسندی کا سرچشمہ مشرق وسطیٰ کے اندر موجود مسائل ہیں۔ وہ اس پر اصرار کرتے ہیں کہ دشمن کا جھگڑا امریکا کی پالیسیوں سے نہیں بلکہ خود امریکا سے ہے۔ وہ امن اور خوش حالی کے دشمن ہیں اور جو اچھائی امریکا میں ہے اس کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

پوڈ ہارٹز نے امریکا پر مسلم گروپوں نے جو حملے کیے (پی ایل او‘ پی ایف ایل پی‘ ۱۹۷۹ء میں تہران کے طالب علم‘ حزب اللہ‘ ابوعباس‘ ابوندال‘ القاعدہ) ان سب کی فہرست کو بیان کیا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے یہ سب کچھ کیا‘ کیا ان کی دینی فکر ایک تھی‘ کجا یہ کہ وہ کمیونزم اور نازی ازم کی طرح ایک متحدہ کلی طاقت ہوں۔ جب پوڈہارٹز یہ کہتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہونا چاہیے کہ مذہب اسلام کی اصلاح کرے اور اسے جدید بنائے‘ تو اس کے مضمون سے یہ بالکل نہیں معلوم ہوتا کہ اسے اس مذہب سے جس کے لیے وہ لوتھر بن رہا ہے‘ معمولی سی واقفیت بھی ہے۔

القاعدہ کا نام جب بھی لیا جاتا ہے‘ ہر دفعہ اس کے معنی مختلف ہوتے ہیں۔ کبھی یہ دنیا بھرمیں پھیلے  ہوئے جنگی اسلامی گروپوں کا ادارہ ہوتا ہے‘ کبھی یہ بین الاقوامی کارپوریشن نظر آتی ہے جس کے مکڑی کے جالے کی طرح خفیہ سیل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں جنھیں پاکستان یا افغانستان سے کسی مرکز سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ ایک ۷-۱۱ کی طرح ایک فرنچائز تنظیم ہوتی ہے جو آزاد دکان داروںکو اپنا نام استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے‘ اور کبھی ایک سٹور یا بنک ہوتا ہے جو اسامہ بن لادن کی ملکیت ہے اور وہ اسے چلا رہا ہے۔ یہ دھندلاپن اس سیاسی و صحافیانہ رویے سے مزید دھندلا ہوجاتا ہے کہ محض اندازے سے لوگوں کو تنظیم کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ دہشت گردی کے شبہہ میں یا جس کسی کو بھی پیٹریاٹ ایکٹ کے تحت عارضی طور پر نظربند کیا جائے اس کا تعلق القاعدہ سے جوڑ دیا جاتا ہے حالانکہ بعد میں یہ تعلق بے بنیاد ثابت ہوتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہیں۔ تاثر یہ ہے کہ القاعدہ کے ممبران دنیا میں ہر جگہ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اگرچہ القاعدہ کے نمایاں افراد خالد شیخ محمد اور رمزی یوسف وغیرہ لوگوں سے بہت معلومات ملی ہیں لیکن جو کچھ بتایا گیا ہے‘ اس سے یہی پتا چلتا ہے کہ تنظیم اور اس کی ہیئت کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوا اور وہ آج بھی غیر واضح اور دھندلی ہے۔

رچرڈ اے کلارک نے Against All Enemies میں القاعدہ کے بارے میں جو کچھ عام طور پر سمجھا جاتا ہے اسے بیان کر دیا ہے۔ اس نے ہر معمولی سے معمولی بات کو بھی وزن دے کر ایک خوفناک تنظیم کی تصویر کھینچی ہے جسے وہ ’’مذہبی فرقے کی آڑ میں عالم گیر سیاسی سازش‘‘ قرار دیتا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ تصویر اس تصویر سے بہت کم مختلف ہے جو ۱۹۹۶ء میں اس وقت کھینچی گئی تھی جب سوڈان کا جمال الفضل اسامہ بن لادن کی رقم غبن کر کے امریکیوں کے پاس آیا تھا۔ ۱۱؍۹ کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ: ’’کلارک کو امید تھی کہ ۱۹۹۸ء کے میزائل حملے بن لادن کے خلاف ایک دیرپا مہم کا آغاز ثابت ہوں گے۔ کلارک پر‘ جیسا کہ اس نے بعد میں تسلیم کیا کہ بن لادن کا خبط طاری تھا‘‘۔

اس کے باوجود کمیشن نے القاعدہ کے بارے میں جو تفصیل دی ہے وہ قریب قریب کلارک ہی کی بازگشت ہے جس کا نام رپورٹ کے حواشی میں ان گنت مرتبہ آیا ہے۔ رپورٹ کے مصنفین تسلیم کرتے ہیں کہ ایک مخبوط الحواس (crazy)شخص سے معاملہ کر رہے ہیں لیکن بن لادن کی تنظیم کے بارے میں ان کا اپنا بیان اسی شخص کے ناقابلِ اعتبار بیان پر مشتمل ہے۔

Imperial Hubris کا مصنف مائیکل شیور ہے۔ اس کا اصل موضوع القاعدہ نہیں بلکہ بش انتظامیہ اور اس کے سی آئی اے کے افسران ہیں جن پر اس کی کتاب میں زوردار حملہ کیا گیاہے۔

بن لادن کے خلاف اس کا معاملہ ہیرو ورشپ کا ہے۔ وہ اس کی ذہانت‘ خوش بیانی‘    سمجھ داری‘ دینی خلوص‘ تکنیکی مہارت اور اس کے دفاعی جہاد کی معقولیت کی خوب تعریفیں کرتا ہے۔ شیور کہتا ہے کہ: اسامہ بن لادن واقعی ایک غیرمعمولی آدمی ہے۔ منفی یا مثبت کا لاحقہ لگائے بغیر‘ کسی بھی لحاظ سے وہ ایک بڑا آدمی ہے۔ اس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا ہے۔ ایک عظیم آدمی وہ ہوتا ہے جو تاریخ کی رو کو تبدیل کر دے اور یقینا پچھلے پانچ چھ سال میں امریکا میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے‘ ہمارے طور طریقوں میں‘ ہمارے سفر کے طریقوں میں۔ یقینا مال و دولت کے لحاظ سے وہ ہمارا خون نچوڑ کر ہمیں موت تک پہنچا رہا ہے۔ بجٹ خسارے کو دیکھیں جو زیادہ تر   بن لادن کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ وہ ہمارا بہت بڑا دشمن ہے‘ ایک قابلِ تعریف آدمی۔ ہمارے ساتھ ہوتا تو وائٹ ہائوس میں ڈنر کھا رہا ہوتا۔ وہ آزادی کا سپاہی ہوتا۔ یہ میں اس کی تعریف کے لیے نہیں کہہ رہا بلکہ اس لیے کہ اگر ہم نے آدمی کو نہ پہچانا اور اس کے الفاظ کی طاقت کو نہ جانا تو بالآخر ہم خسارے میں رہیں گے۔

شیور کا پیغام کتاب میں مختلف مقامات پر مختلف الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ آخر میں بہترین طور پر بیان کیا گیا ہے: ’’ساری اسلامی دنیا میں امریکا سے اس کی مخصوص سرکاری پالیسیوں اور اقدامات کی وجہ سے نفرت کی جاتی ہے۔ یہ نفرت ٹھوس ہے خیالی نہیں‘ عسکری ہے ذہنی نہیں‘ اور مستقبل میں اس میں اضافہ ہوگا۔ مسلمان امریکا سے نفرت کرتے ہیں اور اس پر حملہ کرتے ہیں کیونکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ امریکا اسلامی دنیا میں کیا کر رہا ہے۔ یہ انھیں بن لادن کے پیغامات سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ سیٹلائٹ ٹیلی وژن سے بھی معلوم ہوتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ امریکی پالیسی کی محسوس حقیقت سے پتا چلتا ہے۔ ہم القاعدہ کی رہنمائی میں چلنے والی عالم گیراسلامی بغاوت کے خلاف ان پالیسیوں کی وجہ سے اور ان کے دفاع میں برسرِجنگ ہیں‘ نہ کہ جیسا کہ صدر بش غلط طور پر کہتے ہیں‘ آزادی اور جو کچھ دنیا میں اچھا اور خوب ہے اس کے دفاع میں۔

شیور متنبہ کرتا ہے کہ دونوں طرف ابھی بہت جانی نقصان ہوگا جس میں فوجیوں سے زیادہ شہری ہلاک ہوں گے‘ آبادیاں بے گھر ہوں گی‘ مہاجروں کے قافلے ہوں گے۔ یہ بات قابلِ تعریف ہے اور نہ مطلوب‘ لیکن جب تک امریکا اپنی مسلم دنیا کے ساتھ ناکام پالیسیوں پر قائم ہے‘ یہی امریکا کے لیے واحد راستہ ہے۔

شیور نے القاعدہ کا جو تصور پیش کیا ہے ‘ وہ زیادہ خطرناک ہے اس لیے کہ وہ سوچ سمجھ کر اقدام کرنے والا دشمن ہے‘ اور ان مقاصد کے لیے متحرک ہے جو اس کو ایسے ہی عزیز ہیں جیسے وہ جو امریکیوں کو متحرک رکھتے ہیں‘ انھیں عزیز ہیں۔ وہ اپنے ملکوں میں اپنی آزادیوں کا دفاع کر رہے ہیں‘ اچھی طرح مسلح ہیں اور اس جنگ کی حکمت عملی کو امریکا سے بہتر سمجھتے ہیں۔ اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ ہمیں اس کے حجم‘ اس کی تنظیمی ہیئت اور اس کے منصوبوں کا کوئی حقیقت پسندانہ علم نہیں ہے۔ ہمیں اب بھی نہیں معلوم کہ القاعدہ کتنی بڑی ہے‘ آج بھی ہم یہ نہیں جانتے کہ اس کی کمانڈ میں کس کو کیا مقام حاصل ہے۔

متبادل طور پر ایک شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ القاعدہ صرف ہمارا ایک واہمہ ہے‘ ایک سراب جسے واشنگٹن کے نیوکونز (نئے قدامت پسند)جادوگر ڈاکٹروں کے خفیہ سیل نے تخلیق کیا ہے‘ اور ایک قابلِ اعتبار پریس نے اس کو خاصا ہولناک بنا دیا ہے۔ اس نقطۂ نظر کو برطانیہ کے ایک فلم ساز ایڈم کرٹس نے بی بی سی پر ایک ایک گھنٹے کے تین پروگراموں کی سیریز میں پیش کیا ہے: The Power of Nightmares (ڈرائونے خوابوں کی طاقت)۔ اس نے ایک ایسے پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے جو اب تک دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے نظرانداز کیا جا رہا تھا۔

وہ کہتا ہے کہ جنگجو اسلام اور امریکی نیو کنزرویٹوازم دونوں ساتھ ساتھ آگے بڑھے ہیں۔ دونوں نے لبرل مغرب کے اخلاقی زوال پر بے چینی سے طاقت حاصل کی ہے۔ دونوں کا ایک بانی گاڈفادر ہے۔ ایک کے سید قطب (۱۹۰۶ئ-۱۹۶۶ئ) اور دوسرے کے لیوااسٹراس‘ (۱۸۹۹ئ-۱۹۷۳ئ)۔ کرٹس کے بقول یہ اسٹراس ہے جس نے نیو کونز کو یہ سکھایا کہ کس طرح امریکی عوام کو یہ بتایا جائے کہ وہ شر کے خلاف اور خیر کے ساتھی ہیں۔

۱۹۹۴ء میں سوڈانی جمال الفضل نے اپنے امریکی تفتیش کاروں کو وہ بتایا جو وہ سننا چاہتے تھے۔ وہ ایک نیٹ ورک چاہتے تھے ‘ اس نے انھیں ایک نیٹ ورک دیا۔ انھیں ایک ماسٹر مائنڈ کی ضرورت تھی‘ اس نے بن لادن دیا۔ امریکا میں مقدمہ چلانے کے لیے ایک کمپنی نام کی ضرورت تھی‘ انھوں نے اسے القاعدہ یعنی‘ کارروائیوں کی اساس کہا۔ چنانچہ کرٹس کے مطابق القاعدہ نے اپنی زندگی کا آغاز امریکا کے بنائے ہوئے قانونی فکشن کی حیثیت سے کیا۔

۱۱ستمبر نے نیوکونز پالیسی سازوں کو موقع دیا کہ القاعدہ کو وہی کردار دیں جو اس سے پہلے سوویت روس کو دے چکے تھے۔ وہی عالمی نیٹ ورک ‘ وہی مرکزی کنٹرول اور افغان دیہات میں واقع ’’کریملن‘‘۔

کرٹس کے مطابق ان کا اصل مسئلہ کسی بھی قسم کی حقیقی شہادت کا فقدان تھا۔ اس فلم میں دکھایا جاتا ہے کہ ڈونلڈ رمزفیلڈ پریس کو تورابورا کے پہاڑوں میں ایک عظیم الشان قسم کی تعمیر دکھاتا ہے۔ بیڈروم ہیں‘ دفاتر ہیں‘ کمپیوٹر سسٹم ہے‘ داخلے کے اتنے بڑے دروازے ہیں کہ ٹینک بآسانی آئیں اور جائیں۔ اور رمز فیلڈ کہتا ہے کہ ’’ایسا ایک نہیں‘ ایسے بہت سارے ہیں‘‘۔ لیکن جب تورابورا پہنچ جاتے ہیں تو وہاں وہی قدیم غار ہیں جو محض غار ہیں‘ چھوٹے‘ تاریک‘ سوائے چند بارود بھرے صندوقوں کے وہاں کچھ نہیں۔ فوراً ہی بعد بش آتا ہے اور قوم کو بتاتا ہے کہ ’’ہم نے دہشت گردوں کو امریکا کے فلاں فلاں شہروں میں ناکام کر دیا ہے۔ ہم پرعزم ہیں کہ دشمن کو اپنے عوام پر حملے سے پہلے روک دیں گے‘‘۔ لیکن بش کی پوری فہرست میں سے ہر ایک کیس عدالتوں میں آکر ٹوٹ پھوٹ گیا‘ یا نہایت معمولی الزامات میں سزائیں ہوئیں۔ جو بہترین شہادتیں ایف بی آئی لاسکی وہ نہایت معمولی تھیں‘ جیسے کہ ایک سیاح کی ڈزنی لینڈ وزٹ کی فلم‘ مختار البکری کا ایک ای میل جس میں اس نے کہا تھا کہ میں شادی کرنے بغداد جا رہا ہوں جس کو ایف بی آئی نے کہا کہ وہ خفیہ پیغام ہے کہ وہ امریکا کے چھٹے فلیٹ پر خودکش حملہ کرے گا۔ اور ایک کاغذ پر کچھ نشانات جو کافی عرصہ پہلے فوت شدہ ذہنی مریض جمینی نے بنائے تھے جن کو کہا گیا کہ یہ ترکی میں امریکی اڈے کا نقشہ ہے۔ کرٹس کا استدلال ہے کہ القاعدہ ایک آسیب ہے۔ اس کا خفیہ دہشت گردی کا نیٹ ورک ایک فریب ہے جو سیاست دانوں نے ہمارے مستقبل کے اندیشوں کو استعمال کرتے ہوئے تشکیل دیا ہے۔ یہ امید ہی کی جا سکتی ہے کہ کوئی امریکی نیٹ ورک اس فلم کو دکھائے۔

کرٹس کا ایک نمایاں گواہ کہتا ہے کہ کوئی القاعدہ تنظیم نہیں ہے۔ جوسن برگ مئی جون ۲۰۰۴ء کے فارن پالیسی میں لکھتا ہے: القاعدہ نے افغانستان میں جو کچھ بنایا تھا وہ تباہ کیا جاچکا ہے‘ اور اس کے رفقا منتشر ہوگئے ہیں‘ یا گرفتار ہوگئے ہیں یا قتل ہوگئے ہیں۔ اب اسلامی جنگجوئوںکے لیے کوئی مرکزی پناہ گاہ نہیں ہے لیکن القاعدہ ورلڈ ویو یا القاعدہ ازم ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔

کرٹس کی فلمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے موجودہ طریقے کے بے نتیجہ ہونے کو بالکل واضح کر دیتی ہیں: خیالی نیٹ ورک کو توڑنا‘ بیرون ملک دہشت گردوں سے مقابلہ تاکہ وہ گھر پر حملہ نہ کرسکیں‘ یہ خیال کہ ایک نظریے کو بے اثر کیا جا سکتا ہے اگر اس کے ماسٹر مائنڈ کو تلاش کر لیا جائے‘ ہمہ وقت نگرانی کی خطرناک خواہش۔ کروڑوں ڈالر خرچ کر کے بڑے بڑے شہروں کو کمپیوٹر کے ایسے پروگراموں کے حوالے کر دیا گیا ہے کہ اس میں کسی بھی جگہ چلنے والے ہر شخص کو نظر میں رکھا جا رہا ہے۔


America the Vulnerable: How Our Government is Failing to Protect Us from Terrorism by Stephen Flynn. Harper Collins.

Fortress America: On the Front Lines of Homeland Security ___ An Inside Look at the Coming Surveillance State by Matthew Brzezinski. Bantam.

The 9/11 Commission Report: Final Report of the National Commission on Terrorist Attacks upon the United States, Norton.

Imperial Hubris: Why the West Is Losing the War on Terror by "Anonymous" (Michael Scheuer) Brassey's.

Against All Enemies: Inside America's War on Terror by Richard A. Clarke. Free Press.

The Power of Nightmares: A three-part television series by Adam Curtis, BBC Two. October 20 and 27 and November 3, 2004.

Al-Qaeda: Casting a Shadow of Terror by Jason Burke. I.B. Tauris.