پچھلے دو تین ماہ ذرائع ابلاغ میں یوکرائن کا بڑا چرچا رہا۔ وجہ؟ وہاں دنیا کی دو بڑی طاقتیں‘امریکہ اورروس شطرنج کھیلنے میں مصروف ہیں جس میں فی الحال روس کو شکست ہوئی ہے۔ کیونکہ ۲۶ دسمبر ۲۰۰۴ء کے صدارتی انتخاب میں روس نواز سابق وزیراعظم وکٹر یانو کووچ شکست کھا گئے‘ ان کے حریف اور مغرب نواز وکٹر یوشینکو کو کامیابی ملی۔
یہ صدارتی انتخاب ۳ نومبر ۲۰۰۴ء کو بھی ہوا تھا جس میں یانو کووچ کامیاب ہوا مگر حزبِ اختلاف نے دھاندلی کا شور مچا دیا جس کے بعد سپریم کورٹ نے انتخاب دوبارہ کروانے کا حکم دیا۔ انتخاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ کسی روسی صدر نے ۲۸ برس بعد امریکا کو دھمکی دی کہ وہ اس کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔
یوکرائن پر کئی وجوہ سے عالمی طاقتیں توجہ دے رہی ہیں۔ وہاں مینگنیز‘ کچ لوہے‘ کوئلے‘ تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں۔ پھر وہ روس جیسی طاقت کی پڑوسی ہے۔ اگر یہاں امریکی اثرورسوخ بڑھ جائے‘ تو وہ روسی معاملات پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ یہ ملک بحیرہ اسود کے کنارے واقع ہے جو اسٹرے ٹیجک اعتبار سے دنیا کا اہم سمندر ہے۔ یہ رقبے کے لحاظ سے یورپ کا دوسرا بڑا اور آبادی میں چھٹا بڑا یورپی ملک ہے۔ یہاں عیسائیوں کی اکثریت ہے مگر مسلمان بھی خاصی تعداد میں ہیں‘ بلکہ یہ اس ضمن میں یورپ میں پانچویں نمبر پر ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران بچے کھچے مسلمانوں کو شیطان نما آمر‘ اسٹالن کی پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ اس نے ان پر جرمنوں کے ساتھی ہونے کا الزام لگایا۔ یوں کریمیائی مسلمانوں کی تاریخ کے سب سے الم ناک باب کا آغاز ہوا۔ ۱۹۴۴ء تک اسٹالن نے ۲ لاکھ مسلمانوں کو زبردستی دوسرے علاقوں کی طرف بھجوا دیا۔ بہت سے مسلمان بھوک‘ پیاس اور ہجرت کی سختیوں کے باعث راہ میں شہید ہوگئے۔ ۱۹۶۷ء میں روسی حکومت نے تاتاری مسلمانوں کے خلاف الزام واپس لے لیے مگر کریمیا میں ان کی آباد کاری اور انھیں معاوضہ دینے کے سلسلے میں وعدہ پورا نہ کیا۔
۹۰ کے عشرے میں سوویت یونین صفحہ ہستی سے نابود ہوا‘ تو کریمیا یوکرائن کا حصہ بن گیا‘ تاہم وہ خاصی حد تک خودمختار علاقہ ہے۔ یوکرائنی حکومت مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتی ہے کیونکہ یوکرائن کے باشندے بھی تقریباً ایک صدی تک روسیوں کے جبر کا شکار رہے۔ آزادی کے بعد سے ڈھائی لاکھ کریمیائی مسلمان دوبارہ کریمیا میں بس چکے ہیں۔ گو انھیں کئی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ وہ معاشی لحاظ سے خوش حال نہیں۔ پھر ان کے مقامی روسیوں سے تعلقات خوش گوار نہیں جن کی آبادی زیادہ ہے۔ اس کے باوجود انھیں اپنی مٹی سے محبت ہے اور وہ اُسے چھوڑنا نہیں چاہتے۔
یوکرائن میں تاتاری مسلمانوں کے علاوہ کوہ قاف‘ وسطی ایشیا کے ممالک‘ افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ پاکستان‘ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کی بھی بڑی تعداد بستی ہے اور ان کی آبادی بڑھ رہی ہے کیونکہ مسلم ممالک کے طلبہ یوکرائن میں تعلیم حاصل کرنے آرہے ہیں۔ خصوصاً جب سے ’’واقعہ نوگیارہ‘‘ کے بعد امریکا اور یورپی ممالک نے ان کے داخلے پر پابندیاں لگا دی ہیں۔
ایس ڈی ایم سی (The Spiritual Direction of the Muslims of Crimea) یوکرائنی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ ۱۹۹۱ء میں اس کی بنیاد پڑی اور سرکاری طور پر منظورشدہ ۷۰ فی صد مسلم آبادیاں اسی سے وابستہ ہیں۔ تنظیم کے اپنے اسکول اور اخبار ہدایت ہے جو تاتاری زبان میں نکلتا ہے۔ دوسری بڑی تنظیم ایس ڈی ایم یو (The Spiritual Direction of the Muslims of Ukraine) کی بنیاد ۱۹۹۲ء میں رکھی گئی۔ اس کا مقصد رنگ و نسل سے بے نیاز ہوکر مسلمانوں کو متحد کرنا ہے۔ یوکرائن کے دس صوبوں میں اس کے دفاتر ہیں۔ دارالحکومت کیف میں اسلامی مرکز چلاتی اور روسی زبان میں اخبار منار نکالتی ہے۔
ایس سی ایم یو کی بنیاد ۱۹۹۴ء میں پڑی۔ اس تنظیم میں تاتاری مسلمانوں کی اکثریت ہے جو اپنے دین سے بڑی قربت رکھتے ہیں۔ اس کا صدر دفتر ڈونٹسک شہر میں ہے جہاں ایک اسلامی مرکز بھی قائم ہے۔ ۱۹۹۷ء میں جذبۂ ایمانی سے سرشار تنظیم کے رہنمائوں نے یوکرائنی مسلمانوں کی سیاسی جماعت‘ مسلم پارٹی کی بنیاد رکھی۔
یوکرائن ان گنے چنے مغربی ممالک میں سے ایک ہے جہاں مسلمانوں کو خاصی آزادی حاصل ہے‘ عبادت کرنے اور اپنی رسوم بجا لانے پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ یوکرائن آزاد ہوا‘ تو خصوصاً یوکرائنی مسلمانوں میں نئے جوش و ولولے نے جنم لیا۔ اب وہ نئے سرے سے اپنے دین سے روشناس ہو رہے ہیں تاکہ اسلام کی حقیقی روح سے شناسا ہوسکیں۔ وہاں اشاعت اسلام کا عمل بھی جاری ہے اور ہر سال کئی یوکرائنی اور روسی عیسائی مسلمان ہو رہے ہیں۔
’’واقعہ نوگیارہ‘‘ نے یوکرائن میں الٹا اثر کیا‘ یعنی مقامی باشندے اسلام میں دل چسپی لینے لگے۔ یوکرائنی نئی نسل میں اسلامی کتب کی مانگ بڑھ گئی۔ مقامی لوگ اور مسلمانوں میں اتحاد کی دو بڑی وجوہ ہیں: پہلی یہ کہ مسلمانوں کی خواہش ہے کہ وہ یوکرائن میں رہتے ہوئے ہی ترقی اور خوش حالی کی منازل طے کریں۔ دوسری یہ کہ دونوں یہودیوں کے مخالف ہیں جو ان کے خیال میں انسانیت کے لیے ناسور ہیں۔ اس وقت تاتاری مسلمانوں کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز ہے کہ مسلم معاشرہ دوبارہ تشکیل دیا جائے جس کا اسٹالن نے صفایا کردیا‘ یعنی جو تاتاری کریمیا واپس آرہے ہیں‘ انھیں گھر‘تعلیم‘ صحت اور دیگر بنیادی سہولیات ملیں‘ وہ اپنے دین‘ زبان‘ تہذیب و تمدن وغیرہ سے واقف اور اپنے وطن میں سیاسی طور پر مضبوط ہوں۔
کریمیا میں اس وقت مسلمان بڑی آزادی سے زندگی بسر کر رہے ہیں وہاں کے شہروں میں گھومتے پھرتے یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ایک عیسائی مملکت کا حصہ ہے‘ خصوصاً جب شہر کی مساجد کے لائوڈاسپیکروں سے اذان بلند ہوتی ہے۔ امید ہے کہ ایک دن یوکرائنی مسلمان مؤثر قوت بن کر ملکی معاملات میں فعال کردار ادا کریں گے۔ یاد رہے کریمیا کا رقبہ ۲۵ ہزار ۹ سو ۹۳ مربع کلومیٹر اور آبادی ۳۰ لاکھ ہے۔