حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام نے اللہ رب العالمین سے عرض کیا: اے میرے رب آپ اپنے مومن بندے کو قلیل دنیا عطا فرماتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے جواب میں ان کے لیے جنت کا دروازہ کھولا گیا۔ موسیٰ علیہ السلام اس دروازے سے جنت کو دیکھنے لگے۔ پھر فرمایا: اے موسیٰ! یہ وہ گھر اور نعمتیں ہیں‘ جو میں نے اس کے لیے تیار کی ہیں (اب بتلائیں کیا رائے ہے)۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب تیری عظمت اور جلال کی قسم! اگر ایک آدمی کے دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں کٹے ہوں اور اسے اس دن سے جس دن اسے پیدا کیا گیا‘ ساری عمر چہرے کے بل گھسیٹا جائے لیکن اس کا انجام یہ گھر اور اس کی نعمتیں ہوں‘ تواس آدمی کا حال یہ ہے گویا اس نے کبھی بھی کوئی تکلیف اور فقروفاقہ نہیں دیکھا۔ پھر موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! آپ اپنے ساتھ کفر کرنے والے بندے کو فراخی کے ساتھ دنیا عطا فرماتے ہیں (اس کی کیا وجہ ہے؟)۔ تب موسیٰ علیہ السلام کو جواب دینے کے لیے دوزخ کا دروازہ کھولا گیا‘ پھر کہا گیا: اے موسیٰ! یہ وہ جگہ ہے جو میں نے اس کے لیے تیار کی ہے (اب بتلائیں کیا رائے ہے)۔ تب موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! آپ کی عزت و جلال کی قسم! اگر دنیا میں اس وقت سے جس وقت سے آپ نے اس کافر کو پیدا کیا ہے‘ وہ قیامت تک زندہ رہے (اور عیش کرتا رہے) لیکن اس کا انجام یہ ہو تو اس کا حال یہ ہے کہ گویا اس نے کبھی بھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔ (مسند احمد)
آج ایمان والے طرح طرح کی تکالیف‘ مصائب‘ مظالم اور فقروفاقے کا شکار ہیں اور کفار عیش و عشرت میں مگن ہیں‘ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں‘ خون کی ندیاں بہا رہے ہیں اور اپنی سائنس و ٹکنالوجی اور فوجی اور مادی قوت پر نازاں ہیں۔ مسلمانوں کو ان کی بے بسی پر توہین و تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ پھر ان دونوں گروہوں میں سے کون سا گروہ خوش قسمت اور کامیاب ہے؟ اس کا صحیح فیصلہ وہ منظر کرتا ہے جو جنت و دوزخ کی شکل میں سامنے ہے‘ جسے موسیٰ علیہ السلام کو دکھایا گیا تووہ مطمئن ہوگئے۔ اہلِ ایمان کی تکالیف اور کفار کی عیش و عشرت کے بارے میں ان کو جو اشکال پیش آیا وہ رفع ہوگیا۔ پس جو لوگ جانیں تو قربان کر دیتے ہیں لیکن ظلم کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرتے وہ کہیں بھی اور کسی بھی ملک میں ہوں‘ وہ خسارے میں نہیں بلکہ عظیم کامیابی سے ہمکنار ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یقینا مجرم ایمان والوں کے ساتھ ہنسی اور مذاق سے پیش آتے تھے اور جب ان کے پاس سے گزرتے تھے تو آنکھیں مار مار کر ان کی طرف اشارے کرتے تھے اور جب اپنے گھروں کی طرف واپس آتے تھے تو مزے لے لے کر باتیں کرتے تھے اور جب انھیں دیکھتے تھے تو کہتے تھے یہ بھٹکے ہوئے لوگ ہیں‘ حالانکہ یہ ان پر محافظ بناکر نہیں بھیجے گئے تھے۔ پس آج کے دن وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں‘ کفار پر ہنس رہے ہوں گے‘ تختوں کے اوپر ٹیک لگائے بیٹھے‘ ان کی تذلیل کا نظارہ کر رہے ہوں گے۔ مل گیا نا‘ کافروں کو ان حرکتوں کا ثواب جو وہ کیا کرتے تھے۔(مطففین ۲۹-۳۶)
تکلیف اور راحت کا ایک منظرنامہ آج اس دنیا میں ہے اور ایک کل قیامت کے روز ہوگا۔ آج کا منظرنامہ وقتی‘ عارضی اور فانی ہے اور کل کا منظرنامہ دائمی اور باقی رہنے والا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ کس منظرنامے والے خوش قسمت اور کس منظرنامے والے بدبخت ہیں۔ پھر کیا ایمان والوں کو آج کے اس منظرنامے پر مایوس اور دل شکستہ ہو کر بیٹھ جانا چاہیے یا اللہ کے بھروسے پر ایمان اور جہاد کے راستے پر استقامت کے ساتھ چلتے رہنا چاہیے۔
o
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ رب العالمین فرماتے ہیں مجھے میری عزت کی قسم میں اپنے بندے پر دو خوف اور دو امن جمع نہیں کروں گا۔ جب وہ دنیا میں مجھ سے ڈرے گا تو آخرت میں اسے امن دوں گا اور جب دنیا میں مجھ سے بے خوف ہوگا تو آخرت میں اسے خوف زدہ کروں گا۔ (ابن حبان)
جو دنیا میںبے خوف ہیں وہ ظلم و جور اور قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے مرتکب ہیں۔ لوگوں کے گھروں‘ ملکوں مالوں اور جایدادوں پر قبضے کر رہے ہیں۔ اسلامی اور انسانی حقوق کو پامال کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام کی پیروی سے بے نیاز ہیں۔ تب قیامت کے روز ان کے لیے یہ بدلہ ہے کہ یہ خوف زدہ ہوں‘ دوزخ میں بسیرا کریں۔ جو دنیا میں خوف زدہ ہیں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے سامنے خشوع و خضوع کرتے اور اس کی بندگی میں لگے رہتے ہیں‘ ان کے لیے اس کے سوا کیا جزا ہو سکتی ہے کہ وہ جنت کے دارالسلام اور دارالامن میں بے خوف و خطر نازونعم میں ہشاش و بشاش رہیں۔
o
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایسے زمانے میں ہو کہ تم میں سے جس نے احکام کے دسویں حصے کو چھوڑا وہ ہلاک ہوگیا۔ پھر ایسا زمانہ آئے گا کہ تم میں سے جس نے ان احکام کے‘ جو اسے دیے گئے ہیں‘ دسویں حصے پر عمل کیا وہ نجات پائے گا۔ (ترمذی)
آج کل کے دور میںاس حدیث کی روشنی میں ہمارا طرزِ عمل یہ ہونا چاہیے کہ اگر لوگ اسلامی نظریہ حیات کے حامل ہوں اور اسلامی احکام پر کچھ نہ کچھ عمل کرتے ہوں تو انھیں تحقیر کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔ زمانے کے حالات اور ماحول میں تبدیلی کی وجہ سے سختی اور نرمی قدرتی بات ہے۔ کسی وقت حالات سازگار ہوتے ہیں۔ عمل کے اسباب اور جذبات کو ابھارنے والے ذرائع زیادہ ہوتے ہیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا۔ ایسے حالات میں سستی کا کوئی جو ازنہیں رہتا۔ اس لیے ایسے زمانہ میں کمال درجے کا عمل معتبر ہوتا ہے اور کوئی زمانہ ایسا آتا ہے‘ جس میں حالات سازگار اور موافق نہیں ہوتے تو ایسی صورت میں تھوڑا عمل بھی کافی شمار ہوتا ہے۔
مسلمان معاشرے میں کام کے لیے اسی اصول کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ لوگوں کو بعض اوقات سست رفتار اور غفلت میں مبتلا دیکھ کر مایوس ہو کر بیٹھ جانا اور انھیں ناقابلِ اصلاح سمجھ لینا اور یہ تصور کر لینا کہ کچھ نہیں ہوسکتا‘ قطعاً درست نہیں ہے۔ آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا سا جذبہ اور جوش و خروش اس لیے نہیں ہوسکتا کہ اس دور کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مسعود اور براہ راست استفادہ نصیب نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی کو آپؐ کے اتباع کی توفیق ملتی ہے تو وہ اگر دور صحابہ کے مقابلے میں دسواں حصہ بھی ہوگی تو وہ بھی کافی شمار ہوگی۔ اس لیے آج کے دور میں اگر صحابہ کرامؓ کے دور کی جدوجہد کا دسواں حصہ بھی ہوگا تو وہ نجات اور دنیاوی و اخروی کامیابیوں کے لیے کافی و شافی ہوگا۔
o
حضرت معاویہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے: باقی ماندہ دنیا آزمایش اور فتنہ ہے۔ تم میں سے ایک آدمی کے عمل کا حال برتن کے حال کی مانند ہے۔ جب اس کا اوپر کا حصہ صاف ستھرا ہو تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نچلا حصہ بھی صاف ستھرا ہوتا ہے‘ اور جب اوپر کا حصہ خراب ہو تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نچلا حصہ بھی خراب اور گندا ہوتا ہے۔ (الفتح الربانی)
آزمایش‘ فتنے اور مصائب دنیا کا لازمہ ہیں۔ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ آزمایشوں اور مصائب میں اسلام اور حق کی بات پر قائم رہنا کامیابی ہے اور باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرلینا یا گھبراہٹ کا شکار ہوکر نوحہ کرنا‘ اور غم زدہ اور مایوسی کا شکار ہو کر ہوا کے رخ پر چلنا ناکامی ہے۔ کسی آدمی کی ظاہری زندگی اعمال و اخلاق اور سیرت و کردار اچھے ہوں‘ تو اس بات کی علامت ہے کہ اس کا دل بھی صاف ہے۔ وہ مومنانہ صفات سے متصف ہے۔ اور اگر ظاہری زندگی فسق و فجور‘ بداخلاقی اور بدکرداری کا مظہر ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا دل بھی آفت زدہ ہے اور اسے روحانی بیماریوں کا روگ لگ چکا ہے۔ بہت سے بدکار اور بے دین لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا ظاہر اگرچہ ٹھیک نہیں لیکن وہ دل سے بہت زیادہ مخلص اور سچے مسلمان ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ ظاہراگر خراب ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ باطن بھی خراب ہے۔ اس لیے آدمی کو اپنے دل کو پاکیزہ بنانے اور نفس کی اصلاح کے لیے فکری اور عملی تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔ فتنوں اور مصائب میں وہی آدمی ثابت قدمی دکھا سکتا ہے‘ جو فکری‘ نظریاتی اور عقیدے کے لحاظ سے مضبوط ہو اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کے نور سے اس نے اپنے دل کو منور کر لیا ہو۔ جن کا عقیدہ اور فکر صحیح نہ ہو وہ سیدھے راستے سے بھٹک جاتے ہیں۔ آج اُمت مسلمہ کو جو مسائل و مشکلات درپیش ہیں‘ وہ اسی قسم کے غیرفکری اور عقیدے کے لحاظ سے کمزورلوگوں کی نحوست ہے۔