۲۰۰۵فروری

فہرست مضامین

فوجی حکومت اور عوام کے جمہوری حقوق

قاضی حسین احمد | ۲۰۰۵فروری | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو فوجی حکومتوں کے طویل ادوار میں عوام کے جمہوری حقوق کی صورت حال دگرگوں نظر آتی ہے۔ آج بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب نے ملک میں ایک ایسے نظام حکومت کی داغ بیل ڈالی ہے جس میں فردِ واحد کلی اختیارات کا مالک ہے ۔ وہی افواج کا سربراہ ہے‘ وہی مملکت کا بااختیار صدر ہے‘ وہی قومی سلامتی کونسل کا صدر نشین ہے ‘غرض وہ ملک و قوم کے سیاہ و سفید کا بلاشرکتِ غیرے مالک ہے۔ ہر اہم معاملے میںآخری فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ داخلی اور خارجی تمام امور میں حکومتی اعیان و انصار اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ وہ پارلیمنٹ سے بھی بالاتر ہے ۔ وزیراعظم اس کا ایک نمایندہ ہے ۔حکومتی پارٹیاں اس کے گرد متحدہیں اور اس کی ہر پالیسی اور ہر اقدام کی مویّد ہیں۔ اس کے علاوہ کسی فرد یا ادارے کی یہ مجال نہیں کہ کسی بھی اہم معاملے میں وہ کوئی آخری اور حتمی فیصلہ کرسکے ۔

فوجی اصطلاح میں اسے Unity of Commandکہتے ہیں ۔ پرویز مشرف کے مطابق یہ صورتِ حال ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام کی ضمانت ہے ۔ پرویز مشرف صاحب کے ان کلی اختیارات کا منبع وہ فوجی انقلاب ہے جو پاکستانی فوج نے اس وقت برپا کیا جب پرویز مشرف صاحب ہوائی جہاز کے ذریعے بیرون ملک دورے سے واپس آ رہے تھے اور اس وقت کے وزیراعظم نے ان کے ہوائی جہازکو رُخ موڑنے کا حکم دے دیا تھا ۔ کورکمانڈروں کے اجتماعی فیصلے کے تحت وزیراعظم کا یہ حکم تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا اور اس طرح ایک فوجی انقلاب برپا ہوگیا ۔

سابقہ حکومت کی غلطیاں اور موجودہ حکمران

بلاشبہہ حالات کو یہاں تک لانے میں میاں نوازشریف صاحب کی غلطیاں بھی شامل تھیں۔ میاں صاحب بھی کلی اختیارات کے آرزومند تھے۔ پہلی بار جب اسلامی جمہوری اتحاد آئی جے آئی کے تحت وزیر اعظم بنے تو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مختار کل بننا چاہتے تھے۔ ہم نے انھیں مشورہ دیاکہ وہ ان عزائم کو چھوڑ کر ایک مہذب اور شائستہ جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالیں۔ کلی اختیارات فقط اس ذات بے ہمتا کو حاصل ہیں‘جس کا علم کامل ہے‘ جو سمیع وبصیر‘جو  علیم و خبیر ہے اور جس کے ہاتھ میں پوری کائنات کے اقتدار کی کنجیاں ہیں اور وہی بادشاہی کا مالک ہے۔

ہم نے اُن سے یہ بھی گزارش کی کہ ملک و ملّت کا مفاد آئینی ضابطوں کی پابندی میں ہے۔ تقسیم کار کے لیے اداروں کی تشکیل کریں اور ان پر اعتماد کریں۔ عدلیہ اور انتظامیہ کو الگ کردیں۔ انصاف اور عدل پر مبنی فیصلے کرنے کے لیے عدلیہ کی بالا دستی کو دل سے تسلیم کریں ۔ قرآن و سنت کو آخری مرجع تسلیم کرکے تنازعات کو اللہ اور رسولؐ کے احکام کے مطابق حل کرنے کے لیے دل و جان سے آمادہ ہوں ۔میاں نوازشریف یہ برادرانہ مشورہ قبول کرنے کے بجاے ہم سے ناراض ہوگئے۔ مجبوراً ہم اسلامی جمہوری اتحاد سے علاحدہ ہوگئے۔ اس کے بعد میاں صاحب کا اقتدار بھی زیادہ عرصہ باقی نہیں رہا۔ اب معلوم نہیں کہ میاں صاحب نے اس ساری صورتِ حال سے کہاں تک سبق حاصل کیا ہے۔

اپنا کام نکالنے کے لیے امریکا اور اس کے مغربی حواریوں نے پرویزمشرف صاحب کو یہ پٹی پڑھائی ہے کہ وہ عبقری صلاحیتوں کے مالک ہیں اور ان کی وجہ سے ملک کو سیاسی اور معاشی استحکام ملا ہے ۔ پرویز مشرف کے گرد جو سیاسی عناصر اکٹھے ہوئے ہیں وہ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت سے محروم ہیں ‘ انھیں فوجی اقتدار کی بیساکھیوں کی ضرورت ہے ۔ یہ لوگ نواز شریف اور بے نظیر کی واپسی سے خائف ہیں اور پرویز مشرف کی وردی کے بغیر نوازشریف اور بے نظیر کو باہر رکھنا انھیں ممکن نظر نہیں آتا ۔ انھیں خوف ہے کہ جب پرویز مشرف اپنا فوجی عہدہ چھوڑ دیں گے اور ملک میں آئین بحال ہوجائے گا ‘ عدالتیں کام کرنے لگیں گی ‘ سیاسی جماعتیں مکمل طور پر آزاد ہوجائیںگی تو فوج کی چھتری کے ذریعے حاصل شدہ تحفظ باقی نہیں رہے گا اور ان کی شامت آجائے گی ۔ اس لیے یہ پرویز مشرف کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں اور ان کی ناجائز اور غیر آئینی حکومت کو قانونی جوازفراہم کرنے کے لیے ہر ذلت قبول کرنے کے لیے تیار ہیں ۔

امریکا کے جمھوریت پسندی کے دعوے کی حقیقت

امریکی حکومت اپنے وقتی مصالح کی خاطر نہایت ڈھٹائی سے اپنی جمہوریت پسندی کے دعووں کا مذاق اڑا رہی ہے ۔ منافقت اور دہرے معیار کا جو مظاہرہ امریکی کارپرداز ان پرویز مشرف کی فوجی آمریت کو برقرار رکھنے کے لیے کررہے ہیں‘ اس سے امریکا کی خود غرضی کھل کر سامنے آگئی ہے اور اس کے چہرے سے منافقت کا نقاب مکمل طور پر اتر گیا ہے ۔

عالمی طاقت کی حیثیت سے روس کی پسپائی کے بعد امریکا ایک ایسے عالمی نظام (New World Order) کاعلم بردار بن گیا ہے جس کی قیادت‘ وہ چاہتا ہے کہ مکمل طور پر اس کے ہاتھ میں ہو ‘ وہ پوری دنیا کے سیاہ و سفید کا مالک ہو‘ تمام اقوام اس کے تابع ہوں‘ اقوام متحدہ کا ادارہ اس کی لونڈ ی ہو اور مغربی ممالک کے ساتھ مل کر وہ باقی دنیا پر سیاسی ‘معاشی ‘ ثقافتی ‘تعلیمی اور معاشرتی ہمہ گیر غلبہ حاصل کرلے۔ اس ہمہ گیر غلبے کی خاطر وہ ہر حربے کو استعمال میں لانا اپنا حق سمجھتا ہے ۔ کسی طرف سے امریکا کو کوئی خطرہ محسوس ہو تو اس کے تدارک کے لیے وہ پیشگی حملے  (pre-emptive attack) کو وہ اپنے لیے جائز سمجھتا ہے ۔

  • لادین نظام تعلیم کے نفاذ کی کوششیں: مسلمان ممالک میںلادین نظام رائج کرنا اور اس کے لیے مسلمان ممالک کے نصاب تعلیم سے قرآن و سنت کی تعلیمات کو خارج کرنا امریکا کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے پاکستان میں پرنس کریم آغاخان کو ذریعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تعلیم کی عالم گیریت (Globlisation of Education) پر بھارت میں کریم آغا خان کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے دہلی کا اخبار دعوت رقم طراز ہے :

گذشتہ دنوں بین الاقوامی شہرت یافتہ آغاخان فائونڈیشن کے سربراہ کریم آغاخان ہندستان کے دورے پر آئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اسماعیلی خوجہ فرقہ کے روحانی پیشوا ہیں مگر دل چسپ امر یہ ہے کہ ان کا مولدومسکن ہندستان یا ایران نہیں ہے اور نہ مشرق کی کوئی سرزمین اور خطہ ء ارضی ان کی جاے رہایش و پیدایش ہے بلکہ دور دراز علاقے یعنی دیار مغرب کا ایک نہایت اہم حصہ فرانس ان کا مرکز و محور ہے ۔ یہ امر اس سے کہیں زیادہ دل چسپی کا باعث ہے کہ وہ رہتے تو فرانس یعنی مغرب میں ہیں ۔مگر ان کا دل مشرقیوں کے لیے دھڑکتا ہے ‘اس لیے کہ ان کی بیشتر معلوم سرگرمیوں اور دل چسپیوں کا مرکز یہی خطہ ہے۔ ان کی معلوم سرگرمیاں ‘دلچسپیاں اور فنون لطیفہ‘ آرٹ‘ کلچر اور تعلیم سے وابستہ رہی ہیں۔ وہ برصغیر کو اپنی کرم فرمائیوں سے اکثر نوازتے رہتے ہیں اور خاص خاص موقعوں پر نہایت خاص مقاصد کے تحت ادھر کا رخ کرتے ہیں اور جب بھی یہاں آتے ہیں‘ ان کی زبردست پذیرائی ہوتی ہے۔ سرکاری طور پر ان کا استقبال کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ ٹھیک وہی سلوک کیا جاتا ہے جو کسی سربراہِ مملکت کے ساتھ ہوتا ہے۔ گویا حکومت ِہند اور اس خطے کی دوسری حکومتوں کو ان کے مقام و مرتبے کاپورا پورا ادراک ہے ۔ وہ ان کے مقاصد اور مشن سے بھی آگاہ ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اس بار بھی جب وہ یہاں پہنچے تو ان کا پرتپاک خیرمقدم کیاگیا۔ وہ صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے خاص مہمان رہے اور ان کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ انھیں آغاخان فائونڈیشن کی سرگرمیوں اور دل چسپیوں کے میدانوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ان کی تنظیم سماجی ‘ تعلیمی اور حفظان صحت کے میدانوں میں کام کررہی ہے او راب وہ اپنا دائرہ کار بڑھاناچاہتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آغاخان فائونڈیشن فی الحال گجرات اور مہاراشٹر میں سرگرم عمل تھا مگر اب وہ مدھیا پردیش اور چھتیس گڑھ کے قبائلی علاقوں پر خصوصی توجہ دینا چاہتا ہے۔ اسی طرح فائونڈیشن نے تعلیم نسواں کو بھی اپنی توجہ کا خصوصی ہدف بنایا ہے ۔ انھوں نے روزنامہ ٹائمز آف انڈیا کے نمایندے کو دیے گئے انٹرویو میں اپنے اہداف و مقاصد پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں جس طرح بنیاد پرستی کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے‘ وہ ان کی تشویش کا ایک مرکز ہے اور وہ چاہتے ہیں یہ سختی اور مزاج کی ناہمواری دور ہو۔ انھوں نے کہا کہ تعلیم کو عام کرنے سے یہ چیز ختم کی جاسکتی ہے ۔ علم ایک ایسا ہتھیار ہے جو کبھی ضائع نہیں ہوتا‘ ناگہانی آفتوں میں بھی یہ بڑا سہارا بنتا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ یہی ان کی اور ان کے فرقے کی اصل قوت ہے ‘ لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ تعلیم کوآج کے تقاضوں یعنی عصری تقاضوں کا جس طرح ساتھ دینا چاہیے تھا‘ ہندستان میں اس کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے ۔

گلوبلائزیشن کا عمل جس طرح زندگی کے دوسرے شعبوں میں جاری ہے اور وہاں جس رفتار کے ساتھ وہ آگے بڑھ رہا ہے تعلیم کے میدان میں بالخصوص ہندستان میں وہ چیز مفقود ہے ‘ گویا ان کے مطابق جس طرح معاشی میدان میں گلوبلائزیشن کے اصول کو اپنایا گیا ہے اور دوسرے میدانوں میں جس طرح اس کوتسلیم کرلیا گیا ہے ‘ ٹھیک اسی طرح تعلیم کے میدان میں بھی اس اصول کو نہ صرف متعار ف کرانے کی ضرورت ہے بلکہ اس پر قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق اس کے بغیر دنیا کا او رخاص طور پر ترقی یافتہ دنیا کا مقابلہ ناممکن ہے ۔ اگر ہندستان اور اس جیسے دوسرے کمزور اور پس ماندہ ملکوں کو ترقی کرنی ہے تو انھیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا ۔ انھوں نے ایک نہایت اہم پیغام یہ بھی دیا ہے کہ روح عصر کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان کے مطابق روح عصر یہ ہے کہ ایک عالمی آفاقی انسانی برادری جنم لے رہی ہے جس کا منبع نظم وانصرام ایک دستور ہوگا یعنی یہ عالمی و آفاقی اور انسانی برادری ایک دستور کے ماتحت ہوگی ‘ اس میں جغرافیائی حالات اور مختلف قبائلی و نسلی تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے گا ۔ اب یہ ایک حقیقت بن چکی ہے‘ اس کا جتنا جلدادراک کرلیا جائے‘ دنیا کے لیے اتنا بہتر ہے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اب قومی ریاستوں (Nation-States)کا دور قصۂ پارینہ ہوگیا ‘ اب عالمی حکومت ایک حقیقت بن چکی ہے ‘کوئی مانے یا نہ مانے یہ ہو کر رہنا ہے ‘ اگر ا س کوتسلیم کرلیا جائے اور اس کا ساتھ دیا جائے تو تصادم اور تخریب سے بچا جاسکتا ہے۔(سہ روزہ دعوت‘دہلی‘   یکم دسمبر۲۰۰۴ئ)

  • پاک بہارت مشترکہ تعلیمی نصاب: جنرل پرویز مشرف ایک بھارتی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے پہلے پاکستان اور بھارت کے مشترک تعلیمی نصاب کی پیش کش کرچکے ہیں۔پاکستان کے لاکھوں طلبہ پہلے ہی او (O) اور اے (A)لیول کے ا متحان دے رہے ہیں اور اس طرح اپنے قومی نصاب کی پابندی سے آزاد ہوچکے ہیں۔ جو رہی سہی کسر باقی ہے‘ اسے آغاخان بورڈ کے ذریعے پورا کرنے کے ارادے ہیں۔ مغرب اور امریکا پاکستان کے تعلیمی نصاب اور دینی مدارس میں اسلامی نظام تعلیم کو دہشت گردی کی جڑ سمجھتے ہیں۔ وہ اس نظام کو ختم یا تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘ مگر یہ ان کی خام خیالی ہے۔ مسلمانوں کے عقیدے سے شہادت اور جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت کو خارج کرنا ممکن نہیں ہے۔ واشنگٹن ٹائمزمیں ایک امریکی دانش ور اپنے ایک مضمون میں صراحت کے ساتھ لکھتا ہے کہ مسلمانوں کی دہشت گردی کی جڑ خود قرآن کریم کی تعلیمات ہیں اور یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ایک دہشت گرداور انتہا پسند اقلیت نے مسلمانوں اور اسلام کو یرغمال بنارکھا ہے بلکہ اصل مسئلہ خودقرآنی تعلیمات کا پیدا کردہ ہے ۔ لہذا مسئلے کا حل یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات کو تبدیل کرنے پر اعتدال پسندمسلمانوں کو آمادہ کیا جائے ۔ اس طرح کے دانش وروں کے زیر اثر امریکی حکومت ایک طرف مسلمان ممالک میں پرویز مشرف جیسے حکمرانوں کی پشت پناہی کررہی ہے جو ’’اعتدال پسند روشن خیالی‘‘ (Enlightened Moderation)کے نام پر اسلام کی بنیادی تعلیمات کو تبدیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی نظام تعلیم کو تبدیل کرنے کے لیے N.G.Os (غیر سرکاری اداروں )پر بے دریغ روپیا خرچ کررہے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے کثیرالقومی تجارتی کمپنیوں کی وسیع افراد ی قوت اور ڈھانچا اور ان کے وسائل بھی استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ بھی انھی بین الاقوامی تجارتی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں‘ جو دن رات اشتہارات کے ذریعے اسلامی ثقافت کو تبدیل کرنے اور مغربی اور ہندوانہ ثقافت کو ترویج دینے کا شیطانی فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔
  • مغربی اقدر کا فروغ اور تعلیمی نظام میں تبدیلی : امریکا کے مشہور تھنک ٹینک بروکنگز کے دانش ور اسٹیفن کوہن اپنی زیر طبع کتاب  The Idea of Pakistanمیں لکھتے ہیں کہ پاکستان طویل عرصے سے امریکا کا مخالف (adversary) ہے‘ جب کہ امریکا کو اپنے فوری مقاصد حاصل کرنے کے لیے اس کے تعاون کی ضرورت ہے ۔ طویل عرصے کے مدمقابل اور مخالف ہونے کی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ پاکستان ایٹمی توانا ئی کا مالک ہے اور اس کی یہ صلاحیت امریکی عزائم اور علاقے میں اس کے مفادات کے لیے کسی وقت خطرہ بن سکتی ہے‘ جب کہ دوسری وجہ اسلامی نظریے سے پاکستان کی وابستگی ہے ۔ لہٰذا اسٹیفن کوہن تجویز پیش کرتا ہے کہ لمبے عرصے کے خطرات سے بچنے کے لیے‘ امریکا یہ حکمت عملی اختیار کرے کہ مختصر عرصے میں پاکستان کو جو امداد دینا ضروری ہو‘ وہ امداد اس شرط کے ساتھ مشروط ہو کہ پاکستان اپنا نظام تعلیم و تربیت مغربی اقدار کے مطابق کردے اور اس سے قرآن و سنت پر مبنی تعلیمات نکال دے اوراپنے ایٹمی پروگرام کو roll back(لپیٹ) کردے۔

ایک یورپی ادارے(ICMG) International Crisis Management Groupنے قرآن و سنت پر مبنی تعلیما ت کو نفرت انگیز مواد (hatred material)قرار دیا ہے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنے نصاب تعلیم سے اس مواد کو خارج کردے۔ ہلیری کلنٹن نے سینٹ کی ایک کمیٹی کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف اپنے ملک کے نظام تعلیم کو تبدیل کرنا چاہتا ہے اور دینی مدارس کو مکمل طور پر حکومت کی تحویل میں لے کر اس کے نصاب کو جدید خطوط پر ترتیب دینے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے وہ ایک سوملین ڈالر کی رقم کو قطعی ناکافی سمجھتا ہے جس کی پیش کش اس وقت حکومت امریکا نے کررکھی ہے ۔ ہیلری کلنٹن نے سفارش کی ہے کہ اس مقصد کی خاطر حکومت پاکستان کو کم ازکم   پانچ سو ملین ڈالر کی امداد دی جائے ۔

ملکی عدمِ استحکام

درج بالا گزارشات سے مقصود یہ ہے کہ قارئین کے سامنے حالات کا وہ رخ پیش کردیا جائے جن کا اس وقت عالم اسلام اور پاکستان کو سامنا ہے۔  پرویز مشرف کی آمرانہ روش جہاں پاکستان کے داخلی حالات کے پیش نظر خطرناک ہے‘ وہاں امریکا اور اس کے نظام کا اتحادی ہونے کی وجہ سے ہماری آزادی و خودمختاری اور ہمارے قومی و ملی تشخص او راسلامی نظریاتی بنیاد کے لیے بھی ایک خطرہ ہے ۔ اس وقت پرویز مشرف کی پالیسیوں کی وجہ سے امریکا کی جنگ ہمارے ملک کے اندر تک پہنچ گئی ہے ۔ وزیرستان میں قبائل اور فوج میں آویزش ہے‘جب کہ دوسرے قبائلی علاقوں میں بھی فوج پہنچ گئی ہے اور شدیدخطرہ ہے کہ فوج اور قبائل کی یہ آویزش پورے قبائلی علاقے میں پھیل جائے ۔ اس کے لیے بہانہ یہ بنایا جا رہا ہے کہ القاعدہ کے مجاہدین قبائلی علاقے میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور اگر پاکستانی فوج ان کا صفایا نہیں کرے گی تو امریکی افواج کی براہ راست مداخلت کا خطرہ ہے ۔امریکی افواج کی مداخلت کو روکنے کے لیے اپنے عوام کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی منطق کو کوئی بھی جرات مند محب وطن فرد قبول نہیں کرسکتا ۔

پرویز مشرف صاحب نے بلوچ قبائل کو جس لہجے میں دھمکی دی ہے‘ وہ لہجہ دشمن ملک کے لیے تو مناسب ہوسکتا ہے لیکن اپنے ہی ملک کے کسی گروہ کے لیے چاہے وہ کتنا ہی منحرف ہوچکا ہو‘یہ لہجہ استعمال کرنا دانش مندی نہیں ہے ۔ داخلی مسائل ہمیشہ سیاسی گفت و شنید اور لچک دار رویے سے حل کیے جاتے ہیں لیکن فوجی آمر اس سیاسی دانش سے محروم ہوتا ہے ۔ بلوچستان کے بعض سرداروں کو حکومت کے بدعنوان کارپردازوں نے جو چھوٹ دے رکھی ہے اور قبائل کے عام افراد کو جس طرح ان کے رحم وکرم پر دے دیا گیا ہے‘ اس کے نتیجے میں بلوچ قبائل میں ایک مستحکم اور پایدار جمہوری کلچر کی نشو و نما نہیں ہوسکتی ۔ یہی حال صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں کا ہے ۔ اس کے نتیجے میں جو لا وا پک رہا ہے‘ وہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے ۔ فوجی آمریت کے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہے۔

تحریک آزادی کشمیر کو درپیش خطرات

کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے ساتھ ہنی مون ختم ہونے کے قریب ہے۔ اعتماد بحال کرنے کے اقدامات (CBM)کے حوالے سے جو مذاکرات شروع کیے گئے تھے‘ بگلیہار ڈیم کے مذاکرات ناکام ہونے سے ان کی حقیقت واضح ہوگئی ہے ۔ بھارت یہ کہنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے ۔وہ اب تک اسی پرانی رٹ پر قائم ہے کہ پوری ریاست بشمول شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر‘ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ۔پرویز مشرف صاحب امریکا کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات کے زعم میں اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ انھوں نے کشمیرکے سات ٹکڑے کردینے کی ایک متبادل تجویز پیش کردی‘جب کہ بھارت اپنے اٹوٹ انگ کے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹا۔

کشمیر پر پاکستان کے موقف کی ایک تاریخ ہے اور اس موقف کی مستحکم بنیاد اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں۔ تقسیم ہند کے نامکمل حصے کے طور پر جب تک اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت یہ تنازع حل نہیں ہوپاتا‘اس وقت تک یہ ایجنڈا نامکمل ہے۔ اس قانونی بنیاد کے بغیر بھارت اسے علاحدگی پسندوں کی ایک تحریک قرار دے گا اور بھارت میں اس طرح کی بیس سے زیادہ تحریکیں موجود ہیں ۔ کشمیر کا مسئلہ ان تحریکوں سے کلی طور پر الگ نوعیت کا ہے ۔ کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں تھا ۔ بھارت کا قبضہ ظالمانہ ‘ناجائز اور غیر اخلاقی ہے اور اس کے خلاف کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد ایک جائز جدوجہد ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق دنیا کی تمام آزاد ی پسند اقوام کا فرض ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں کشمیریوںکا ساتھ دیں ۔ اگر اقوام عالم اس مسئلے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ ایک تو بھارت کے ساتھ ان کے تجارتی اور سیاسی مفادات کی وابستگی ہے اور دوسری وجہ خود پاکستان کے حکمرانوں کی سفارتی اور اخلاقی کمزوری ہے ۔

پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ ابتدا سے یہاں اکثر حکومتوں نے اپنے ملک کے عوام کی آزادیوں اور حقوق کو چھیننے اور دبانے کی کوشش کی ہے ۔ پرویز مشرف کی حکومت غیر جمہوری اور غیر آئینی حکومتوں کے تسلسل کا حصہ ہے ۔اس طرح کی حکومتوں میں اخلاقی جرات کا فقدان ہوتا ہے ۔ جس حکومت نے خود اپنے عوام کے حقوق کو غصب کررکھے ہوں‘ وہ کسی دوسرے ملک کی  بے انصافیوں اور غاصبانہ قبضے کے خلاف کیونکر آواز اٹھا سکتی ہے۔ حکومتِ پاکستان‘ بھارت کے خلاف عالمی سطح پرایک موثر سفارتی مہم چلانے میں اسی وجہ سے ناکام رہی ہے کہ اس نے اپنے ہاں شہری آزادیاں سلب کر رکھی ہیں۔

فوج کو متنازع بنانے کی پالیسی

اس وقت پاکستان کو ان مخدوش حالات سے نکالنے اور اسے ایک مستحکم سیاسی او رمعاشی بنیاد فراہم کرنے کی ذمہ داری پاکستان کے عوام پر آپڑی ہے ۔ پرویز مشرف نے فوج کے ادارے کو سیاست میں بری طرح ملوث کر دیا ہے۔جو ادارہ سیاست میں اس قدر دھنس جائے اس میں اختلافات پیدا ہونا ایک طبعی امر ہے ۔ قومی سلامتی کونسل کے ادارے کی مخالفت خود ایس ایم ظفر نے کی ہے جو ایم ایم اے کے ساتھ مذاکرات میں حکومت کے قانونی مشیر تھے۔ انھوں نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ جس ادارے میں حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے لیڈر  آمنے سامنے بیٹھے ہوں اور افواج پاکستان کے سرکردہ سربراہ بھی ان کے ساتھ ہوں‘ تو اس ادارے میں ان کاایک طرف جھکائو اور اختلاف راے ایک بدیہی امر ہے ۔

جنرل پرویزمشرف کی وجہ سے عوام میں فوجی ادارے کے بارے میں بدگمانیاں پیدا ہوگئی ہیں اور عوام سمجھتے ہیں کہ فوجی حکومت ملّی اور قومی امراض کا مداوا نہیں کرسکتی۔پرویز مشرف کے خلاف تحریک صرف اس کی ذات تک محدودنہیں ہے بلکہ عوام کی طرف سے فوجی ادارے کو سیاسی ادارے کے طورپر مسترد کرنے کی تحریک ہے۔ پرویزمشرف کے بعد کسی اور جرنیل کی مداخلت بھی برداشت نہیںکی جائے گی ۔

موجودہ تحریک کے مراحل

حالیہ تحریک کے پہلے مرحلے میں ہم نے عوام کو یہ ہدف دیا ہے کہ ملکی سیاست سے فوج کوفارغ کرنے کا عزم کرلیں ۔ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی پہلے ہی سے ایک ضابطہ اخلاق پر اتفاق ہونا لازمی ہے کہ آئین کی مکمل پاسداری کا عہدکریں‘ نہ خود آئین کے کسی بنیادی کلیے کو توڑنے کی کوشش کریں اور نہ فوج کو یہ موقع دیں کہ وہ سیاسی جماعتوں کے اختلافات اور بدعنوانیوں کو بہانہ بناکر آئینی ضابطوں کو معطل کرسکیں۔ماضی میں سول حکومتوں کی ناکامی اور ان کے خلاف عوامی تحریکوں کا سبب یہی تھا کہ انھوں نے آئینی ضابطوں کو پامال کیا اور مطلق العنان حکومتیں قائم کرنے کی کوشش کی۔ذوالفقار علی بھٹو ‘بے نظیر بھٹواور نواز شریف صاحب کے خلاف اس لیے تحریکیں اٹھیں کہ انھوں نے اسی شاخ کو کاٹ ڈالا تھا جس پر وہ خود بیٹھے ہوئے تھے ۔سیاسی حکومتیں جمہورکی طاقت اور راے عامہ کی قوت سے چلتی ہیں۔ جب وہ عوامی امنگوں کو نظر انداز کرکے قانون اور آئینی ضابطوں کو توڑنے کے درپے ہوجاتی ہیں تو وہ خود اپنی بنیادوں پر کلہاڑا چلاتی ہیں اور فوج کے طالع آزما‘خود غرض اوربڑی طاقتوں کے آلہ کار جرنیل اس موقع کو غنیمت جان کر قومی وسائل کو خوانِ یغما سمجھ کر اس پر پل پڑتے ہیں ۔

مستقبل میں کسی تحریک کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ ہم کس حد تک عوام کو ایک مخلص قیادت کے گرد جمع کرسکتے ہیں اور کس حد تک انھیں آخری منزل تک متحرک رکھنے کا ولولہ دے سکتے ہیں ۔ماضی میں تحریک چلانے والے قائدین کی نظر بھی آخری منزل کی بجاے موجودحکمران سے نجات حاصل کرنے تک محدود رہی‘ اس لیے عوام نے ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی تو یحییٰ خان کے اقتدار سنبھالنے پر ختم کردی ۔ قومی اتحاد نے بھٹو صاحب کی جگہ ضیاء الحق کو قبول کرلیا اور بے نظیر اور نوازشریف کے بعد وہ پرویز مشرف کے جھانسے میں آگئے ۔موجودہ تحریک اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک ایک مہذب‘ جمہوری‘ شائستہ اور آئین کی پابند اور عدالتوں کااحترام کرنے والی اسلامی جمہوری حکومت قائم نہ ہوجائے۔

تحریک ہمیشہ مختلف مراحل سے گزرکر زور پکڑتی ہے ۔ پہلے مرحلے میں قیادت یکسوئی کے ساتھ اہداف متعین کرکے عوام کو متحرک کرنے کا فیصلہ کرتی ہے ۔ وہ عوام کو ایک واضح پروگرام دے کر پکارتی ہے ۔ قیادت کی پکار پر متعلقہ سیاسی اور دینی جماعتوں کے کارکن لبیک کہتے ہیں۔کارکن اپنی قیادت کی رہنمائی میں قربانی دیتے ہیں اور پھر عوام میدان میں نکلتے ہیں ۔اس وقت ہم اس تحریک کے دوسرے مرحلے میں ہیں۔ مجلسِ عمل کے کارکن اپنی قیادت کی پکار پر میدان میں ہیں ۔حج اور عید کے بعد ان شاء اللہ قیادت اور کارکنوں کے ساتھ ہی عوام کا جم غفیر بھی پرویز مشرف کی غیر آئینی اور بلا جواز حکومت کے خلاف میدان میں آئے گا ۔ لوگ پرویزمشرف کی امریکا نواز پالیسیوں کے خلاف ہیں ۔

عراق اورافغانستان میں امریکا جو مظالم ڈھا رہا ہے اور اس نے مسلمان عوام کو نئے سرے سے سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل میں جکڑنے کے لیے جال پھیلایا ہے‘ عوام پرویز مشرف کی ایسی حکومت کو قبول کرنے کے حق میں نہیں ہیں جو ملک کو امریکا کا طفیلی لادین ملک بنانے پر تلی ہوئی ہے۔عوام میڈیا کے ذریعے فحاشی اور عریانی کی تحریک کی مذمت کرتے ہیں ۔ جس طرح سکولوں اور کالجوں میں مخلوط معاشرے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور جس طرح ہمارے خاندانی نظام اورہمارے معاشرتی اقدار کو پامال کیا جا رہا ہے‘ عوام اس سے اظہار بیزاری اور نفرت کرتے ہیں ۔ پرویز مشرف اور اس کے نامزد وزیراعظم کے دعوئوں کے علی الرغم ملک کے عوام غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں‘ تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے‘ ملک میں ہرسو بدامنی ‘ڈاکا زنی اور افراتفری ہے او رعوام اس صورتِ حال کے خلاف کسی بڑی تحریک کے انتظار میں ہیں ۔

متحدہ حزبِ اختلاف

حزب مخالف کی سیاسی جماعتیں بھی باہمی اتحاد کے لیے مشترک بنیادوں کی تلاش میں ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے نقطۂ نظرکو سمجھنے کی کوشش کررہی ہیں۔ ۱۹۷۳ء کا دستور اپوزیشن جماعتوں کو مشترک بنیادفراہم کرتا ہے ۔ اگرچہ پیپلز پارٹی ‘مسلم لیگ اور بعض دوسری جماعتیں  مطالبہ کر رہی ہیں کہ مجلسِ عمل سترھویں آئینی ترمیم سے اعلان بیزاری کر دے لیکن چونکہ سترھویں آئینی ترمیم کاتقاضا پورا کرنے سے خود پرویز مشرف نے راہِ فرار اختیار کی ہے اور عملاً اس دستوری عہد کے ایک حصے کو من مانے طور پر منسوخ کر دیا ہے‘ اس لیے مجلسِ عمل کو بھی قانوناً اور اخلاقاً سترھویں ترمیم سے اعلان بیزاری کرنے میں کوئی عار نہیں ہے ۔

اس وقت حزبِ مخالف کی جماعتیں ا س بات پر متفق ہیں کہ پرویز مشرف کی حکومت ناجائز‘غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اور اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے ۔اس کی جگہ کیا ہونا چاہیے؟ ایک منتخب او رجائز حکومت کے قیام کے لیے کون سا طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے ؟ اس کے لیے عافیت کا راستہ تو یہی تھا کہ پرویز مشرف سترھویں ترمیم کو قبول کرکے اپنے عہدکا پاس کرتے اور فوج کی سربراہی سے دست بردار ہوکر جمہوریت کے راستے کی بڑی رکاوٹ دور کرتے‘ لیکن ان کواللہ نے عزت کا یہ راستہ اختیار کرنے کی توفیق نہیں دی ۔اب عوام  انھیں صدر نہ چیف آف آرمی سٹاف قبول کرنے کے لیے تیار ہیں بلکہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ دونوں عہدوں سے مستعفی ہوجائیں ۔ آئین کے مطابق اس صورت میں عبوری سربراہ چیئرمین سینٹ ہوگا اور قومی اسمبلی کی اکثریتی پارٹی کا نمایندہ وزیر اعظم ہوگا ۔ لیکن کیا موجودہ حکمران پارٹی میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ پرویز مشرف کے بغیر اپنی یک جہتی کو برقرار رکھ سکے ؟

حکمرانوں کے لیے لمحۂ فکریہ!

حزبِ مخالف کی جماعتیں اور خاص طورپر متحدہ مجلسِ عمل‘ حکمران جماعت کودعوت دیتی ہے کہ وہ اس امکان پر غور کرے اور اس سے قبل کہ عوامی سیلاب سب کچھ بہالے جائے‘ وہ پرویز مشرف کو فارغ کرنے کے آئینی راستے کو قبول کرے ۔ مجلسِ عمل کے ساتھ معاہدہ‘ حکمران جماعت اور فوج کے اہم سرکردہ افراد نے کیاتھا اور پرویز مشرف کے ساتھ حکمران جماعت اور فوج کے ہر اہم سرکردہ عناصر سب بد عہدی کا شکار ہوئے ہیں۔اس بد عہدی کے سبب قوم کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے عوامی جدوجہد کا وہی راستہ اختیار کرے جس کی تازہ ترین مثال یوکرائن کے عوام نے پیش کی ہے اور اس سے کچھ عرصہ قبل ارجنٹائن اور یوراگوئے میں جس کا تجربہ ہو چکا ہے۔

اس تحریک میں مسلمان خواتین کا کرداربڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ امریکی عالمی نظام کے تحت کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمان خواتین کو اسلامی قوانین کے خلاف اکسایا جائے ۔ مغربی تہذیب نے عورت کی جوگت بنائی ہے جس طرح اس کا لباس اتروا کر اس کو رسوا کیاگیا ہے اور جس طرح آزادی اور حقوق کے نام پر دھوکا دے کر اسے مردوں کے تفنن طبع اور جنسی ہوس کاذریعہ بنایا گیا ہے‘ وہ مسلمان خاتون سے چھپا ہوا نہیں ہے ۔مسلمان خواتین ہماری تہذیب اور ہماری نئی نسل کے اخلاق و کردار کی محافظ ہیں ۔مسلمان خواتین میں قرآن کریم کی تعلیمات سے آگہی حاصل کرنے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی مجالس میں شرکت کا جو شوق آج پایا جاتا ہے‘ یہ اسلامی تہذیب کے احیا کی بڑی علامتوں میں سے ہے ۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کا بڑا ذریعہ خاندانی نظام اور گھر کی حفاظت ہے اور خواتین کاجہاد یہی ہے کہ اسلامی معاشرے کے اس بنیادی قلعے کی حفاظت کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کردیں اور اس کے لیے قرآن کریم کی تعلیمات کو ذریعہ بنائیں ۔

ملک اس وقت ایک نازک صورت حال سے دوچار ہے۔ غفلت اور لاپروائی کی گنجایش نہیں۔ حکمرانوں کی حکمت عملی یہ ہے کہ لوگوں کو لہوولعب میں مبتلا کر کے حقیقی مسائل سے غافل کردیا جائے۔ وہ بھول جائیں کہ یہ ملک کتنی قربانیوں سے اور کن عظیم مقاصد کے لیے حاصل  کیا گیا تھا۔ لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ قوم غافل نہیں‘ بیدار ہے۔ اسے اپنے مقاصد کا شعور اور احساس ہے۔ وہ ان مقاصد کے لیے قربانیاں دینا جانتی ہے۔ وہ متحدہ مجلس عمل کی آواز پر لبیک کہے گی۔ مرد اور عورت سب اٹھیں گے اور ایک ایسی تحریک برپا ہوگی جس کے نتیجے میں ملک صحیح سمت میں سفر شروع کرے گا اور بالآخر اپنی حقیقی منزل کو پالے گا۔ ان شاء اللہ!