۲۰۰۵فروری

فہرست مضامین

سوڈان: تاریخی معاہدہ ‘ خدشات و امکانات

عبد الغفار عزیز | ۲۰۰۵فروری | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

بالآخر سوڈان پر مسلط کردہ ۲۲ سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا۔ ۹ جنوری ۲۰۰۵ء کو کینیا کے شہر نیروبی میں امریکی وزیرخارجہ کولن پاول‘ متعدد افریقی سربراہوں اور عالمی مبصرین کی موجودگی میں سوڈانی حکومت اور جنوبی علیحدگی پسندوں کے درمیان ایک جامع معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ اس معاہدے کے بعد اب جنوبی لیڈر جون گرنگ‘ صدر عمر حسن البشیر کے ساتھ سینئر نائب صدر مملکت کے طور پر کام کریں گے۔ نائب صدر دوم شمالی سوڈان سے لیا جائے گا۔ تمام وزارتیں ایک مخصوص تناسب سے تقسیم کی جائیں گی۔ حکومتی پارٹی اور گرنگ کی پیپلز موومنٹ کے علاوہ کچھ وزارتیں دیگر پارٹیوں کے لیے بھی مخصوص کی جائیں گی اور ایک نیم قومی حکومت چھے سال کا عبوری دور شروع کرے گی۔ اس عبوری دور کے لیے ایک عبوری دستور‘ تاریخ معاہدہ کے چھے ہفتے کے اندر اندر منظور ہوگا‘ جس کے تحت سینئرنائب صدر کو بھی وسیع اختیارات حاصل ہوں گے۔ ملک کے تمام وسائل شمال و جنوب میں تقریباً برابر برابر تقسیم ہوں گے اور چھے سال کے بعد انتخابات کے ذریعے اہلِ جنوب کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ شمال کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا ایک الگ ریاست کے طور پر۔

جنوبی حصہ‘ سوڈان کے کل رقبے ۲۵ لاکھ ۵ ہزار ۸ سو ۱۰ مربع کلومیٹر کا تقریباً ۲۸ فی صد‘ یعنی ۷ لاکھ مربع کلومیٹر ہے جس کا زیادہ تر (۶۳ فی صد) حصہ گھنے جنگلات یا چراگاہوں پر مشتمل ہے‘ جب کہ ۳۰ فی صد علاقہ زرخیز زرعی اراضی پر۔ جنوبی آبادی‘ سوڈان کی کل آبادی (۳ کروڑ ۳۶ لاکھ) کا صرف ۱۰ فی صد ہے‘ جن کی زبان ۱۲ مختلف لہجوں پر مبنی ہے‘ جب کہ افریقی اور عربی زبان کا ایک مخلوط لہجہ پوری آبادی کی مشترکہ زبان ہے۔ اگرچہ مشہور یہی کیا جاتا ہے کہ جنوب میں عیسائی اکثریت ہے اور عیسائی علیحدگی پسندی کی تحریک چل رہی ہے لیکن وہاں عیسائیوں کا تناسب صرف ۱۷ فی صد ہے‘ مسلمان آبادی کا تناسب ۱۸ فی صد ہے‘ جب کہ ۶۵ فی صد آبادی کا کوئی مذہب نہیں ہے اور وہ مختلف بتوں اور ارواح پر یقین رکھتی ہے۔

اگرچہ جنوبی قبائل کی شمالی سوڈان سے بغاوت و لڑائی ۱۹۶۲ء سے شروع ہے جو ۱۹۷۲ء میں صدر جعفر نمیری کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ۱۱سال تک بند رہی۔ اس وقت بغاوت کی قیادت ’’انیانیا‘‘ کررہا تھا لیکن ۱۹۸۳ء میں جب جعفر نمیری نے نفاذ شریعت اسلامی کا اعلان کیا تو نئے باغی لیڈر جون گرنگ نے خانہ جنگی کا آغاز کر دیا جو ۹جنوری کے معاہدے سے ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن جنوبی سوڈان کی اس خانہ جنگی کے بیج سوڈان پر برطانوی استعمار کے وقت سے ہی بو دیے گئے تھے اور اس کے لیے برطانوی حکمرانوں کو سخت محنت کرنا پڑی تھی۔

حالیہ مصر اور سوڈان کی سرزمین خلافتِ عثمانیہ ہی کا حصہ تھی مگر ۱۸۸۱ء میں اس نے بغاوت کردی۔ ۱۸۹۹ء میں مصر اور برطانیہ نے سوڈان کا مشترکہ انتظام سنبھالا اور سوڈان میں عملاً انگریزی اقتدار قائم ہوگیا۔ تب ہی سے انگریز نے جنوبی سوڈان سے شمالی سوڈان کو بے دخل کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت جنوب میں مصری افواج‘ مصر اور شمالی سوڈان سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین اور تاجروں کی ایک معتدبہ تعداد تھی۔

برطانوی راج نے پوری منصوبہ بندی سے آہستہ آہستہ ان تینوں عناصر کو جنوب سے نکالنا شروع کر دیا۔ عربی زبان کے بجاے مقامی زبانوں کو فروغ دینا شروع کر دیا‘ عیسائی مشنریوں کے اسکول کھول دیے اور جمعہ کی ہفتہ وار تعطیل کو اتوار میں بدلنے کی کوشش کی۔ ان اقدامات پر عمل درآمد ۱۹۱۰ء میں شروع ہوا اور ۷ دسمبر ۱۹۱۷ء کو جنوب سے شمالی سوڈان کی افواج کا آخری سپاہی بھی نکل گیا‘ جس کے ٹھیک ایک ماہ بعد ہفتہ وارچھٹی جمعہ سے اتوار میں بدل دی گئی (پاکستان میں جمعہ یا اتوار کی چھٹی کے مسئلے کو استہزا و خفت پن کا شکار کرنے والے متوجہ ہوں)۔

وقت کے ساتھ ساتھ برطانوی راج نے جنوب و شمال کی تقسیم کو گہرا کرنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے۔ ۱۹۱۹ء میں لارڈ ملنر کمیٹی نے اپنی تحقیقات کے بعد متعدد سفارشات و دستاویزات پیش کیں۔ جنوبی سوڈان کے حوالے سے تین دستاویزات بہت اہم تھیں۔ ان میں سے ۱۴ مارچ ۱۹۲۰ء کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کمیٹی صراحت کے ساتھ سفارش کرتی ہے:’’حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ جنوبی سوڈان کو حتی المقدور اسلامی اثرات سے دور رکھا جائے۔ اس علاقے میں سرکاری ملازمین غیرمسلم سیاہ فام ہوں اور اگر ملازمین باہر سے منگوانا ضروری ہو تو مصر کے قبطی مسیحی لائے جائیں۔ جمعہ کے بجاے اتوار کی چھٹی لازمی کر دی گئی ہے اور عیسائی مشنریوں کی خصوصی حوصلہ افزائی کی جائے گی‘‘۔

عربی زبان کو جنوب سے بے دخل کرنے کے لیے یہ حجت گھڑی گئی کہ: ’’یہاں متعدد زبانیں رائج ہیں۔ اس لیے اہلِ جنوب کو کسی مشترکہ مقامی زبان کی تعلیم دینی چاہیے اور جب تک یہ مقامی زبان باقاعدہ پڑھنے لکھنے کے قابل نہیں ہوجاتی‘ انگریزی کو مشترک زبان کے طور پر رائج کیا جاتا ہے‘‘۔ عربی زبان کے بارے میں برطانوی سول سیکریٹری میک مائیکل نے بلاجھجک و تردد کہا کہ: ’’جنوب میں عربی زبان کوبدستور قبول کیے رکھنے سے یہاں اسلام پھیلے گا اور ’’متعصب شمالی سوڈان‘‘ (یعنی مسلمان آبادی)کو اتنا ہی مزید رقبہ مل جائے گا جتنا اب اس کے پاس ہے‘‘۔

اس پورے پس منظر اور حالیہ طویل خانہ جنگی کے بعد اب یہ معاہدہ طے پایا ہے تو پورے سوڈان نے سکھ کا سانس لیا ہے ‘لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ خدشات بھی بہت سنگین ہیں کہ کیا یہ معاہدہ حقیقی صلح اور سوڈان کی تعمیروترقی کا ایک نیا باب ثابت ہوگا؟ معاہدے پر دستخط سے پہلے طرفین کے درمیان تقریباً تین سال مذاکرات ہوئے ہیں۔ اس پورے عرصے اور پورے عمل میں امریکا سمیت متعدد مغربی ممالک مکمل شریک رہے ہیں۔ امریکا کی حالیہ سوڈانی حکومت سے عداوت کسی سے مخفی نہیں ہے۔ جنوبی باغیوں کی مدد میں وہ اور اسرائیل پیش پیش رہے ہیں‘ تو کیا اب واقعی سوڈان اور اس کے نظام کو قبول کر لیا گیا ہے؟ کیا اس ماہیت قلبی کا سبب یہ خدشہ بنا ہے کہ سوڈان میں دریافت ہونے والا تیل اب چین کے ہاتھ میں جا رہا ہے‘ اور اس کا راستہ روکنا ضروری ہے؟ کیا یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ۱۹۸۹ء میں عمر حسن البشیرکا انقلاب آنے کے بعد سے لے کر اب تک ہر ہتھکنڈا آزما کر دیکھ لیا گیا‘ لیکن سوڈانی حکومت کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس لیے اب مذاکرات و افہام و تفہیم سے اختلافات پاٹنے اور ’’زہر‘‘ کم کرنے کی کوشش کی جائے یا پھر اندر جاکر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی جائے؟

حقیقت جو بھی ہو‘ خدشات و امکانات کا ایک وسیع باب کھل گیا ہے۔ یورپ و امریکا سمیت اگر طرفین نے باہم اعتماد کو فروغ دیا تو سوڈان کا استحکام‘ وہاں کی زرخیز سرزمین اور وافر تیل پورے خطے کے لیے ایک نعمت ثابت ہوگا۔ لیکن ۲۴ جنوری کا جون گرنگ کا یہ بیان تشویش ناک ہے کہ ’’عبوری دور میں اقوام متحدہ کی طرف سے ۱۰ ہزار فوجیوں کو تعینات کرتے ہوئے چین‘ ملایشیا اور پاکستان کی افواج کو ان میں شامل نہ کیا جائے۔ کیونکہ اول الذکر دونوں ممالک کا مفاد سوڈان کے تیل سے وابستہ ہے اور پاکستان ایک اسلامی ملک ہے‘‘۔ واضح رہے کہ اب تک پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش اور کینیا سمیت کئی ممالک سوڈان فوجیں بھجوانے کی پیش کش کرچکے ہیں۔

ان خدشات کے حوالے سے راقم کو سوڈانی صدر سمیت متعدد ذمہ داران سے گفت و شنید کا موقع ملا تو انھوں نے کامل اعتماد کے ساتھ کہا کہ: ’’جنگ بند کروانے میں کامیابی ایک بڑی کامیابی ہے‘ اور جہاں تک خدشات کا تعلق ہے توگذشتہ ۱۵ سال میں سوڈان میں جو نظام تشکیل دیا جا چکا ہے وہ کسی کے اندر آبیٹھنے یا باہر چلے جانے سے متاثر نہیں ہوگا۔

ایک اور اہم پہلو جس کے بارے میں سوڈان کے ہر خیرخواہ کو تشویش ہے وہ سوڈانی حکمران پارٹی کے باہمی اختلافات ہیں جن کے نتیجے میں ایک پارٹی دو پارٹیاں بن گئیں اور ڈاکٹر حسن ترابی کو پس دیوار زندان بھیج دیا گیا۔ باہم لڑائی کبھی بھی کسی ایک فریق کی تقویت کا باعث نہیں بنتی۔ اس مرحلے پر اگر خطرات حقیقی ہیں تو سب یکجا ہو کر ہی ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘ اور اگر مصالحت حقیقی ہے تو دوسروں سے پہلے (یا ان کے بعد ہی سہی) اپنوں سے مصالحت کیوں نہیں؟