قانون قصاص و دیت ۲۰۰۳ء کے مولف میاں مسعود احمد بھٹّا پاکستان کے قانونی اور دینی حلقوں میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔ فاضل ایڈووکیٹ قصاص و دیت آرڈی ننس پر ایک کتاب ۱۹۹۱ء میں بھی لکھ چکے ہیں۔ اب اسی موضوع پر ان کی دوسری کتاب ہے۔ نقش ثانی‘ نقش اول سے بہرصورت بہتر اور جامعیت کی سرحدوں تک پہنچ گیا ہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں قصاص و دیت کے قانون کا بنیادی مآخذ قرآن وسنت ہے۔ مصنف نے تمام مذاہب فقہ کے علمی ذخیرے سے بھی استفادہ کیا ہے۔ لیکن انھوں نے فقہی مکاتب فکر کے جزوی اختلافات سے بحث نہیں کی ہے۔ کیونکہ جہاں تک اسلامی قانون کے اصولوں کا تعلق ہے ان کے بارے میں سب ائمہ فقہ متفق الراے ہیں۔ اسلام میں فطری مساوات اور توازن کا اصول زندگی کے تمام شعبوں میں کارفرما ہے۔ اس لیے جرم و سزا میں بھی اسی قانونِ مساوات کی عمل داری ہے۔
کتاب کا حصہ اول جنایات علی النفس‘ یعنی انسانی جسم پر وارد ہونے والے جرائم سے متعلق ہے۔ حصہ دوم میں ان جرائم کی تعریف اور ان کی سزائوں سے متعلق تمام دفعات ۲۹۹ تا ۳۸۸ درج ہیں۔ دفعات‘ ان کی تعریف‘ ان کی سزائیں اور اس ضمن میں قرآن وسنت اور فقہا کے حوالے سے شرعی فیصلے اور موجودہ اسلامی قانون کی رو سے عدالتی فیصلوں کے اہم نکات‘ پھر ان کی تشریحات (commentary) سے کتاب کی افادیت بڑھ گئی ہے۔ حواشی میں حدیث‘ فقہ اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے بھی دیے گئے ہیں مگر موضوعاتی اشاریہ (index) نہ ہونے کی وجہ سے ایک کمی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے باوجود مؤلف نے اہم اور مستند کتابوں کے وسیع مطالعے کے بعد نہایت محنت اور جانفشانی سے یہ کتاب مرتب کی ہے۔
مولف موصوف نے دیت کے بارے میں فقہا کے نظریات‘ حکومت اور قضا کے اختیارات کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے مغربی مفکرین مارس گاڈفرے اور جوزف سکاچ کے خیالات کو بھی نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلام کے بارے میں ان کی ریسرچ محض سطحی اور خودغرضی پر مبنی ہے۔ بہتر ہوتا کہ ان کے مخالفانہ نقطۂ نظر کا دلائل کے ساتھ محاکمہ کیا جاتا جس سے حقیقت کھل کر سامنے آجاتی۔
موجودہ قانون کی دفعہ ۲۲۳ کی رو سے مرد اور عورت کی دیت میں تفریق نہیں کی گئی۔ لیکن مولف کتاب نے ائمہ مذاہبِ اربعہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ عورت کی نصف دیت کے قائل ہیں۔ لیکن تحقیقی جائزے کی روشنی میں امام ابوحنیفہؒ کی رائے میں عورت‘ مرد کی طرح پوری دیت کی حق دار ہے۔ چونکہ یہ انسانی جان کا معاملہ ہے جو قانونِ وراثت سے مختلف ہے۔ علماے ازہر نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔ قانون دیت و قصاص کے مرتبین کے پیشِ نظر بھی دیت کے بارے میں یہی فقہی مسلک رہا ہے۔
مولف نے اسلامی قانونِ شہادت اور خاص طور پر تزکیہ الشہود پر (جو حقائق کو دریافت کرنے کا موثر ذریعہ ہے اور قانون فوجداری جو قصاص و دیت سے متعلق ہے) سیرحاصل بحث کی ہے‘ جو لائق ستایش ہے۔
ابتدایئے میں لائق مولف نے پاکستان میں نفاذ اسلام کی مختصر تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے قانونِ اسلامی کی تنفیذ کا سارا کریڈٹ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ‘ ہائی کورٹوں‘ فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ کو دیا ہے۔ ان کی سعی و کاوش سے انکار نہیں۔ بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سلسلے میں اعلیٰ عدلیہ نے اسلامائزیشن کے لیے ازخود نوٹس نہیں لیا۔ ملکِ عزیز میں اسلامی قانون کی تدوین اور نفاذ کے بارے میں مولانا مودودیؒ کی دینی بصیرت اور عملی اقدام‘ ان کے ہم عصر اور علماے متاخرین کی شعوری کوشش‘ عوام‘ سیاسی مذہبی اور دینی جماعتوں اور اسلامی وکلا کی مساعیِ پیہم ہماری تاریخ کا ناقابلِ فراموش حصہ ہے۔ قانونِ قصاص و دیت‘ سپریم کورٹ میں ہماری آئینی پٹیشن پر ۱۲ ربیع الاول ۱۴۱۱ ہجری کو نافذ العمل قرار دیا گیا جس میں موجودہ پارلیمنٹ کی منظوری سے چند ترامیم کی گئی ہیں مگر اب بھی کافی سقم اور خامیاں موجود ہیں جنھیں دُور کرنا بھی ازبس ضروری ہے۔
مؤلف مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ایک اہم علمی موضوع پر یہ کتاب قومی زبان اُردو میں اور سلیس و عام فہم انداز میں مرتب کی ہے۔ یہ کاوش مجموعی لحاظ سے قابلِ قدر ہے۔ اس سے اراکینِ عدلیہ‘ قانون کے طلبا‘ علما اور تعلیم یافتہ حضرات براہِ راست استفادہ کرسکیں گے۔(محمد اسماعیل قریشی)
ڈاکٹر محمود احمد غازی (صدر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد) کی متنوع دل چسپیاں جن علوم و فنون میں ہیں‘ ان میں قرآن حکیم بطور خاص شامل ہے۔ زیرنظر کتاب موصوف کے لیکچر ہیں جو انھوں نے دعوۃ اکیڈمی کے زیر اہتمام فیصل مسجد اسلام آباد کے معتکفین کو دیے۔ بعدازاں ایک صاحب نے انھیں فیتے سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا۔ کتاب میں قرآن مجید کے متعلق پانچ پہلوئوں پر عام فہم مگر مستند معلومات یکجا کر دی گئی ہیں۔ ان میں قرآن مجید کے ناموں کی معنویت‘ اس کا موضوع‘ کیفیتِ نزول اور ترتیب و تدوین سے متعلق معلومات شامل ہیں۔
آپ نے بھرپور استدلال کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ دن اور رات کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جہاں دنیا کے کسی نہ کسی مقام پر قرآن پاک کی تلاوت‘ تعلیم اور تدریس کا کام نہ ہو رہا ہو۔ (ص ۱۱)
کتاب میں غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں تاہم سورہ القدر کی آیت ایک میں انزلنٰہ کی جگہ انزلنا اور سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۸۲ میں وننزل کی جگہ ونزل درج ہوگیا ہے۔ کتاب عوام کے لیے عام فہم اور سہل انداز میں مرتب کی گئی ہے‘ تاہم اہلِ علم بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ (ڈاکٹر محمد عبداللّٰہ)
جماعت اسلامی اللہ کی زمین پر نظام عدل رائج کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ سیاسی جماعت کی محدود اصطلاح اور مذہبی جماعت کا لیبل اس کی انقلابی دعوت کی حقیقی عکاسی نہیں کرتے۔ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ بھارت‘ جموں و کشمیر اورسری لنکا میں جماعت آزادانہ لیکن نظریاتی ہم آہنگی کے ساتھ اپنی دعوت پھیلا رہی ہیں۔ تمام تر مخالفتوں اور الزامات و اتہامات کے باوجود جماعت کی دعوت و اثرات کا دائرہ وسیع تر ہو رہا ہے‘ خصوصاً پاکستان میں اس کے اثر و نفوذ میں قابلِ ذکر اضافہ ہو رہا ہے۔پارلیمنٹ میں اس کی موجودگی‘ مثبت تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
آغاز (۱۹۴۱ئ) ہی سے جماعت کو اندرونی و بیرونی مخاصمتوں کا سامنا ہے۔ نظریاتی طور پر اس کے پیغام کی تنقیص کی گئی اور سیاسی طور پر اس کے پروگرام کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ امریکا اور یورپ کی کئی جامعات میں جماعت کی نظریاتی پرداخت اور سیاسی طرزعمل پر تحقیقی مقالے لکھے لکھوائے گئے۔ مغربی یورپ اور سکنڈے نیویا کے کئی ریسرچ اسکالر جہاد افغانستان کے حوالے سے اپنا تحقیقی کام مکمل کرچکے ہیں اور اخبارات و رسائل میں وقتاً فوقتاً ایسے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں جن میں جماعت کے جہادی کردار یا سیاسی سرگرمیوں کو زیربحث لایا جاتا رہا ہے۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد ’’دہشت گردی‘‘ کے حوالے سے بھی جماعت کو کہیں نہ کہیں ملوث کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
بھارت پاکستان کا ہمسایہ ہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان ابتدا ہی سے جموں و کشمیر کا بنیادی تنازع موجود ہے۔ عوامی سطح پر بھی دونوں ممالک میں مختلف موضوعات پر نظریاتی بحثیں جاری رہتی ہیں۔ پاکستانی عوام دو قومی نظریے پر کامل یقین رکھتے ہیں‘ مگر دو قومی نظریہ بھارت کے بعض عناصر‘ خصوصاً حکمران طبقے کے گلے سے نیچے نہیں اُترسکا ہے۔
جماعت اسلامی کی جدوجہد اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے کردار کے حوالے سے کلیم بہادر‘ اور ولی رضا نصر وغیرہ کے بعد حال ہی میں ڈاکٹر پوجا جوشی کی زیرنظر کتاب منظرعام پر آئی ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان میں مذہبی حکومت کے قیام کے لیے سب سے متحرک پارٹی جماعت اسلامی ہے لیکن اس کو ناقص پالیسیوں کے سبب اسے قبولِ عام نہیں مل سکا۔ ڈاکٹر پوجا نے راجستھان یونی ورسٹی‘ جے پور سے ڈاکٹریٹ کی ہے۔ پاکستان میں حکومت و سیاست کے حوالے سے اُ ن کے تحقیقی مضامین شائع ہوتے رہے ہیں اور آج کل وہ انڈین سول سروس میں ہیں۔
کتاب میں پاکستانی رسائل و جرائد کی مدد سے جماعت کے اصل کردار کو سمجھنے کی کوشش نظر آتی ہے۔ مولفہ کی یہ کوشش بھی رہی ہے کہ پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دیا جائے اور خاکم بدہن‘ اس کے زوال میں جماعت کا کردار یا کم از کم ہاتھ ضرور ثابت کر دیا جائے۔
ہر کسی تجزیہ نگار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس پہلو سے بھی چاہے جماعت کی جانچ پرکھ کرے اور اس کی پالیسیوں کا تجزیہ کرے لیکن یہ بات علمی دیانت کے خلاف ہے کہ جماعت پر انھی گھسے پٹے اور بے بنیاد الزامات کو پھر سے دُہرایا جائے جن سے جماعت برأت کا بارہا اظہار کرچکی ہے‘ مثلاً: قیامِ پاکستان کی مخالفت‘ قائداعظم کو کافراعظم کہنا‘ پاکستانی نظامِ حکومت کو کافرانہ نظام کہنا‘ امریکا سے ڈالر وصول کرنا‘ احمدیوںاور شیعوں کے خلاف مہم‘ پاکستان میں مذہبی فاشیت کافروغ جیسے الزامات موقع بہ موقع دہرائے گئے ہیں۔ مولفہ کو اندازہ نہیں کہ جماعت اسلامی کا قافلہ ان الزامات کی گرد جھاڑ کر کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔
ڈاکٹر پوجا نے مولانا مودودی کی زندگی‘ اُن کے ذہنی ارتقا اور جماعت پر ان کے اثرات کا جائزہ بھی لیا ہے لیکن مولانا نے نظمِ جماعت کا جو خاکہ مرتب کیا اور جس کی بنیاد پر ایک جماعت کو قائم کر کے منظم کیا اور بالفعل پاکستان کی سب سے فعال اور متحرک پارٹی بنا دیا‘ ڈاکٹر پوجا اسے فاشیت قرار دیتی ہیں۔ یہ بھی اعتراض ہے کہ مولانا نے ’سود سے پاک معیشت‘ کا جو تصور پیش کیا ہے‘ وہ جدید معیشت اور بنک کاری کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔پوجا کااصرارہے کہ جنرل محمد ایوب خان اور اُن کے بعد آنے والے سربراہان کے ذریعے پاکستان‘ سیکولرزم کے راستے پر ٹھیک ٹھیک آگے بڑھ رہا تھا لیکن جماعت نے قرارداد مقاصد‘ اسلامی نظام تحریک‘ تحریک ختمِ نبوت‘ افغان جہاد کی حمایت اور جنرل محمد ضیا الحق سے تعاون کے ذریعے پاکستان کو ایک دوراہے پر ڈال دیا ہے۔ سرمایہ دار ممالک‘ اشتراکی بلاک اور مسلم دنیا‘ تینوں گروہوں کے لیے پاکستان ایک معما ہے جو دو قدم آگے بڑھتا ہے اور چار قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ پوجا کے خیال میں اس کا سبب پاکستان کا مذہبی طبقہ ہے‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اسلام پرست‘ مخلص قیادت کے برسرِاقتدار نہ آنے سے وہ دلدل پیدا ہوئی جس کا پوجا دُکھ کے ساتھ ذکر کرتی ہیں۔
ڈاکٹر پوجا نے عالمی معاملات‘ خصوصاً مسلم ایشوز پر رائے دینے کی پالیسی کے سبب بھی جماعت پر تنقید کی ہے‘ مثلاً وہ معترض ہیں کہ دنیا بھر میں جہاں بھی مسلم افراد کے ساتھ کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے‘ جماعت آگے بڑھ کر اُس کی مذمت کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ بھارتی صحافیوں‘ دانش وروں اور قلم کاروں کی طے شدہ لائن کے مطابق مصنفہ یہ موقف اختیار کرتی ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے‘ فرقہ پرستی عروج پر ہے‘ صوبائی نفرتیں پروان چڑھ رہی ہیں‘بدعنوانی تمام حدود کو پار کرچکی ہے‘ اس لیے جماعت کو داخلی سیاست اور ملکی معاملات کے سدھار پر توجہ دینی چاہیے۔ بیرونی معاملات‘ خصوصاً بھارتی مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے اِکا دکا واقعات کو رائی کا پہاڑ نہیں بنانا چاہیے۔
بلاشبہہ یہ کتاب کی ایک خوبی ہے کہ معروف طریقے کے مطابق مولفہ نے پاکستانی اخبارات کے بہ کثرت حوالے دیے ہیں لیکن کیا یہ علمی اصولوں کی پامالی نہیں کہ انھوں نے جماعت کے اپنے رسائل و جرائد جماعت کے لٹریچر اور مجلسِ شوریٰ کی قراردادوں کا مطالعہ نہیں کیا‘ بعض باتیں تو سنی سنائی اور مضحکہ خیز ہیں‘ مثلاً: اسلامی جمعیت طلبہ کے قیام میںپروفیسر خورشید احمد کے ساتھ مولانا مفتی محمود نے بھی کردار ادا کیا تھا ‘وغیرہ۔
مجموعی طور پر اس کتاب میں علمی دیانت اور معروضیت کا فقدان اور متعلقہ ناگزیر مآخذ تک مولفہ کی نارسائی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ (محمد ایوب منیر)
ماضی قریب میں متحدہ مسلم تنظیم UMO کا تصورانڈونیشیا اور لیبیا کی طرف سے سامنے آیا‘ مگر یہ تصور یو این کی بے حسی پر ’احتجاج‘ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اسلامی ملکوں کی تنظیم OIC اور عرب لیگ جیسی تنظیمیں موجود ہیں مگر ان سے کسی فعال کردار کی توقع کم ہی ہے۔ شاید اسی لیے جناب سحر رضوان نے یونائیٹڈ مسلمز آرگنائزیشن کا تصور پیش کیا ہے۔ ان کی کتاب کا عنوان بھی یہی ہے۔
مصنف نے ’درددل‘ کے عنوان سے دیباچے میں بتایا ہے کہ انھوں نے ۱۹۷۴ء میں یونائیٹڈ مسلمز آرگنائزیشن کے نام سے ایک کتابچہ تحریر کیا تھا۔ بعد کے معروضی حالات میں انھوں نے اس میں اہم اضافے کیے۔ یہ کتاب کسی فہرست کے بغیر چھوٹے چھوٹے عنوانات مثلاً: مسلم امہ کو درپیش مسائل‘ مسلم امہ کے اتحاد میں رکاوٹیں‘ یو این اور مسلم امہ‘ جدید سیکولر صلیبی جنگ‘ آیت اللہ خمینی کا اتحادِ عالم اسلام میں کردار وغیرہ پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا اہم حصہ ’’یو ایم او اوراس کے تنظیمی ڈھانچے‘‘ پر مشتمل ہے۔ یہ گویا سحررضوان صاحب کا مرتب کردہ دستور ہے جسے یوایم او اپنا سکتی ہے۔ مصنف مسلم اُمہ میں بیداری کی ایک لہر اٹھتی محسوس کرتے ہیں اور اس سلسلے میں مختلف تنظیموں مثلاً ’ایکو‘ مصر شام فری ٹریڈ زون‘ ڈی-۸‘ خلیج تعاون کونسل اور موتمر عالمِ اسلامی کا ذکر پُرامید انداز میں کرتے ہیں۔
محسوس ہوتا ہے کتاب نظرثانی کے بغیر چھپی ہے۔ پروف کی غلطیاں بہت زیادہ ہیں۔ اسلامی ممالک اور غیر اسلامی ممالک کی فہرستوں میں موجود نام آپس میں گڈمڈ ہوکر رہ گئے ہیں۔ بلغاریہ‘ تنزانیہ‘ انگولا‘ چلّی اور گھانا کو اسلامی ملک بتایا گیا ہے‘ جب کہ یہ نہ تو مسلم ممالک ہیں اور نہ اسلامی ملکوں کی تنظیموں کے رکن ہیں۔ کتاب میں دو مسلمان ملکوں گنی اور ملائشیا کو مسلم اور غیرمسلم دونوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ایسی غلطیوں سے بچنا چاہیے۔ (فیض احمد شہابی)
عراق اور کشمیر جیسے سلگتے اور دل فگار موضوعات پر بہت سے ناول‘ کہانیاں اور نظمیں‘ غزلیں لکھی جاچکی ہیں۔ زیرنظر کتاب بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ نگہت سیما کے تین افسانوں کا مجموعہ ہے ۔
افسانہ ’’جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا‘‘ پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہم عراق کی گلیوں میں گھوم پھر رہے ہیں۔ بغداد کی گلیاں رات کو تو الف لیلوی کرداروں کی کہانیاں سنا رہی تھیں مگر صبح ہونے پر وہاں خون کی ندیاں رواں تھیں۔ معصوم بچوں‘ بے کس مائوں اور بہنوں بیٹیوں کی چیخوں اور آہوں سے بغداد کے الف لیلوی خواب چکناچور ہوگئے مگر اہلِ بغداد جاگ اٹھے ہیں۔ وہ بغداد کے عبدالعزیز یا عبدالماجد ہوں یا پاکستان کا عمرستار‘ ان کے دلوں میں شہادت کی مشعلیں روشن ہیں۔ یہ وہ بغدادی ہیں جنھیں اپنے جسموں پر بم باندھ کر گھومنے میں لطف و سرور ملتا ہے۔ مصنفہ نے اہلِ عراق کے بے کس مسلمانوں کے جذبات کو بہت خوب صورتی سے اجاگر کیا ہے۔
دوسرے اور تیسرے افسانوں (راہ جنوں، نامہ بر بہار کا) میں کشمیر کے سلگتے چناروں اور کشمیریوں کی حرماں نصیبی کا تذکرہ ہے۔ نگہت سیما کے قلم نے حقیقی معنوں میں اہلِ کشمیر کے دلی جذبات واحساسات کی ترجمانی کی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حضرت بل پر موئے مبارک کی زیارت کے لیے جان دینے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور جن کے لیے جھیل ڈل کی خوب صورتی‘ چنار کی سرخ پتوں کی محبت اور کشمیر جنت نظیر جیسی بے مثال دلھن کا سارا حُسن اس وقت تک بے معنی ہے‘ جب تک کہ ان کے وطن میں آزادی کی صبح طلوع نہیں ہوتی۔ جب زعفران کے کھیت تباہ ہو جائیں‘ سبزہ زاروں میں آگ لگ جائے اور دھرتی لہو رنگ ہو جائے تو سید ثقلین شاہ (راہِ جنوں) اور عباس حسن (یہی نامہ بر ہے بہار کا) کے لیے ذاتی خوشی بے معنی ہوجاتی ہے۔ یہ افسانے جہادِ بالقلم کا عمدہ نمونہ ہیں۔ امید ہے کہ ان کی یہ کاوش ادبی حلقوں میں سراہی جائے گی۔ (قدسیہ ہاشمی)
زیرنظر کتاب کے مصنف‘ جامعہ احتشامیہ کراچی سے وابستہ ہیں۔ ان کے زیرنظر مقالات ماہ نامہ حق نواے احتشام میں‘ وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ اقوام مغرب کی تاریخ پر بھی خاصا عبور رکھتے ہیں۔
مصنف نے اس کتاب میں ’رموز معراج شریف‘، ’فلسفہ قربانی‘، ’خدمت خلق‘ اور ’صدقہ کے فضائل و برکات‘پر بھی لکھا ہے۔ ایک مضمون ’رجب کے کونڈے‘ پر ہے۔ اس کے علاوہ ’التاریخ والتقویم‘ کے عنوان سے بہت وقیع مقدمہ ہے۔ آپ قمری حساب کے اہتمام اور شمسی حساب سے اجتناب ضروری سمجھتے ہیں لیکن معارف القرآن کے حوالے سے مولانا مفتی محمد شفیعؒ کی اس رائے سے متفق نظر آتے ہیں کہ اس کے یہ معنی نہیں کہ شمسی حساب رکھنا یااستعمال کرنا ناجائز ہے‘ بلکہ اس کا اختیار ہے کہ کوئی شخص نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور عدت کے معاملے میں تو قمری حساب شریعت کے مطابق استعمال کرے مگر اپنے کاروبار‘ تجارت وغیرہ میں شمسی حساب استعمال کرے۔ (ص ۲۹)
مولانا ارکانی نے متعدد مضامین میں پاکستان‘ امریکا‘ انڈونیشیا‘ ترکستان‘تاجکستان‘ چیچنیا‘ افغانستان‘ سوڈان اور صومالیہ و یمن کی تاریخ بیان کی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس کا ایک حصہ جناب واجد رضا اصفہانی کے مضامین پر مشتمل ہے۔
مولانا واقعاتی معلومات اور اعداد و شمار کے لیے مقامی اخبارات و رسائل کا حوالہ دیتے ہیں‘ اگر وہ جدید و قدیم معروف کتابوں کے حوالے بھی ساتھ ہی دیتے تو بہتر تھا۔ یہ کتاب مذہبی‘ سیاسی اور عالمی معلومات کا ایک مجموعہ ہے۔ چند واقعات پر تبصرے بھی شامل ہیں۔ عالمِ اسلام سے دل چسپی رکھنے والے حضرات اور طلبا اسے اپنے لیے مفید پائیں گے۔ (ف - ا - ش)
صدیقی ٹرسٹ کراچی ایک عرصے سے مختلف النوع دینی‘ تبلیغی اور دعوتی کتابچے شائع کر کے تعلیمات اسلامی کے فروغ میں مفید خدمات انجام دے رہا ہے۔ زیرنظر کتاب میں ٹرسٹ کے بانی اور صدر نشین محمد منظورالزمان صدیقی کے مرتبہ ۵۵ کتابچوں کو یکجا کیا گیا ہے۔ موضوعات گوناگوں ہیں: قرآن‘ حدیث‘ دعا‘ تقویٰ‘ اخلاق حسنہ‘ حسنِ معاشرت‘ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ‘ اقتصادی مسائل‘ آدابِ مجلس‘ مسجد کا احترام‘ قتل‘ خودکشی‘ حلال و حرام‘عالم اسلام‘ پاکستان اور صلیبی جنگ‘ مخلوط تعلیم‘ پاکستان کا مطلب کیا؟ عیسائیوں کی تبلیغی سرگرمیاں‘ صحت اور جیب کے دشمن (چائے‘ پان‘ سگریٹ) خواتین کے حقوق‘ پردہ‘ نیل پالش‘ وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ ایک انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں مفکرانہ یا فلسفیانہ انداز کے بجائے سادہ‘ عام فہم اور سلیس اسلوب میں اسلامی تعلیمات کو متوازن انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کتابت ضرورت سے زیادہ جلی ہے اور اس میں پھیلائو بہت ہے۔ فنّی تدوین سے کتاب کا حجم کم ہوسکتا تھا اور قیمت بھی۔ (رفیع الدین ہاشمی)