۲۰۰۵فروری

فہرست مضامین

بگلیہار ڈیم یا پاکستان کا ڈیتھ وارنٹ

سردار اعجاز افضل خان | ۲۰۰۵فروری | شذرات

Responsive image Responsive image

کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کوئی بھی قوم یا ملک اس بات کو گوارا اور برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کی شہ رگ دشمن کی تلوار کی زد میں ہو۔ (قائداعظم محمد علی جناحؒ)

اگرچہ بہت سے لوگ اب یہ سوال بھی اٹھانے لگے ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح ؒنے یہ الفاظ کب کہے تھے‘ تاہم ڈاکٹرریاض علی شاہ کی ڈائری (پبلشنگ ہائوس‘ بل روڈ پبلی کیشن‘ ۱۹۵۰ئ) ملاحظہ کرلی جائے تو لوگ مخمصے سے نکل سکتے ہیں۔ ویسے کشمیر سے متعلق لکھنے اور بولنے والے ان الفاظ کے بغیر تحریر و تقریر کو کبھی مکمل نہیں سمجھتے اور واقعی موضوع کا حق بھی ادا نہیں ہوسکتاہے۔ کشمیر کے بہتے دریا پاکستان کی سرزمین کے لیے میٹھاپانی لاتے ہیں اور یہاں کی مٹی سونا اُگلتی ہے۔ پاکستان کی ۷۵ فی صد معیشت کا انحصار زراعت اور اسی پانی پر ہے جو پاکستان کو شاداب اور سرسبز بناتے ہیں۔

بھارت نے روز اول ہی سے اپنی نظر ان پانیوں پر رکھی اور ہمیشہ ہی اکھنڈ بھارت کے نظریے پر عمل درآمد کے لیے وجود پاکستان کے درپے رہا ہے۔ ۱۹۶۰ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے کے نام سے پانیوں کی تقسیم کا معاملہ ورلڈ بنک کے تعاون سے طے پایا۔

معاہدے کی متعلقہ دفعات درج ذیل ہیں:

آرٹیکل (۲):

۱- مشرقی دریائوں (راوی‘ ستلج‘ بیاس) کا تمام پانی بغیر کسی پابندی کے بھارت کے استعمال میں رہے گا۔

آرٹیکل (۳):

۱- پاکستان ان تمام مغربی دریائوں (سندھ‘ جہلم‘ چناب) کا پانی بغیر کسی پابندی کے استعمال کے لیے حاصل کرے گا جو بھارت کو پیراگراف ۲ کی پرویژن کے تحت چھوڑنا ہوگا۔

۲- بھارت معاہدے کے تحت پابند ہوگا کہ مغربی دریائوں کے تمام پانیوں کو بہنے دے اور اسے پانی میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنے کا حق حاصل نہ ہوگا۔

۳- بھارت مغربی دریائوں کا پانی جمع نہ کر سکے گا‘ یا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کسی قسم کی تعمیر نہ کر سکے گا۔

بھارت نے کشمیر سے متعلق اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم کرنے کے باوصف ۲۶نومبر ۱۹۴۹ء کو اپنا آئین نافذ کیا تو اپنی سرحدوں میں کشمیر کو بھی شامل قرار دیا اور اٹوٹ انگ کی رٹ الاپنے لگا۔ پھر کسی نہ کسی بہانے سے مسئلے کو ٹالتا رہا۔

یوں اصل مسئلے کے بجاے ان جزوی مسائل کو اٹھاتے ہوئے لاحاصل مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ پانیوں کے سلسلے میں واضح اور دو ٹوک معاہدے کی موجودگی میں تنازعے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی لیکن بھارت نے مشرقی دریا حاصل کرنے کے بعد بگلیہار ڈیم اور وولر ڈیم کے ناموں سے ڈیموں کی تعمیر کے منصوبوں کے علاوہ دریاے چناب پر (۱) Nau Nut Najgad H.E. Project (۲) Kirtai H.E. Project (۳) Dulpasti H.E. Project (۴) Pakwal Dul H.E. Project(۵) Rate H.E. Project(۶) Baglihar R.E. Project ‘اور ۲۰۰۲ء میں رام بن کے نزدیک بگلیہار ڈیم‘ جب کہ دریاے جہلم پر (۱) وولر جھیل (۲) وولر بیراج (۳) پاورچینل بیراج (۴) لوئر جہلم پاور ہائوس (۵) آف ٹیک موہرا پاور چینل (۶) موہرا پاور ہائوس (۷) یوری پاور ہائوس تعمیر کیے ہیں‘ نیز دریاے کشن گنگا پر بھی Kanjarwan میں ڈیم تجویز کیا گیا ہے۔ اگر کشمیر کی سرزمین سے باہر بھارتی سرحدوں کے اندر دیکھیں تو دریاے چناب پر Gypsa H.E. Projectبمقام Tandiبھی نظر آتا ہے۔

بگلیہار ڈیم گذشتہ سات برس سے زیرِتعمیر ہے۔ بھارت نے اس ڈیم پر منصوبہ بندی کا کام ۱۹۹۲ء میں مکمل کیا‘ ۱۹۹۶ء میں اس کی حتمی تعمیر کا فیصلہ کیا اور ۱۹۹۹ء سے باقاعدہ تعمیر کا آغاز کر دیا۔ اس سارے عرصے میں پاکستان کو اول تو بے خبر رکھنے کی کوشش کی گئی یا پھر اس کی طرف سے مطلوبہ وضاحتوں کی تفصیل فراہم کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا گیا۔اب اس کا خاصا بڑا حصہمکمل ہوچکا ہے‘ اور اب تو وہ گیٹ تعمیر ہونے باقی ہیں جن کے پیچھے دریاے چناب کے پانی کو روکا جانا ہے‘ جس کے نتیجے میں پاکستان کو سیراب کرنے والی دو بڑی نہریں بھی خشک ہوجائیں گی۔ کون نہیں جانتا متوازی چلنے والی یہ دو نہریں زمین کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ بڑی دفاعی لائنوں کا کردار بھی ادا کرتی ہیں۔ اب بھارت کے رحم و کرم پر ہے کہ پانی کو روک کر زمینوں کو بنجر کر دے اور جب چاہے سیلابی زمانے میں گیٹ کھول کر پاکستان کو سیلابی ریلے کا شکار کر دے۔

ڈیم کے موجودہ ڈیزائن کے مطابق اس سے ۴۵۰ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے علاوہ ڈیم میں ایک لاکھ ۶۵ہزار مکعب فٹ پانی جمع کرنے کی گنجایش پیدا ہوسکے گی جس کے نتیجے میں پانی کے بہائو میں ۷ سے ۸ ہزار کیوسک کی کمی واقع ہوجائے گی جو پاکستان خصوصاً پنجاب کی زراعت کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگی۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق ۱۹۹۲ء ہی سے اس منصوبے کے حوالے سے بھارت سے مذاکرات ہو رہے ہیں لیکن ان مذاکرات کو بھی بھارت نے مسئلہ حل کرنے کے بجاے وقت حاصل کرنے کے لیے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا اور پاکستان کی ساری کوششوں کا کوئی مثبت جواب نہ دیا۔ نہ تو پاکستان کو ڈیزائن فراہم کیا گیا اور نہ پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر کو معائنہ کی ہی اجازت دی گئی اور نہ پاکستان کی اس آخری تجویز کو پذیرائی دی کہ جب تک اس بارے میں دونوں فریقوں کے درمیان کوئی حتمی حل طے ہو‘ اس کی تعمیر روک دی جائے۔ یوں تو اس حوالے سے کافی عرصہ پہلے ہی تعطل کی صورت حال پیدا ہوچکی تھی اور پاکستان اس مسئلے کے حل کے لیے ورلڈ بنک سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا لیکن ۲۴ نومبر۲۰۰۴ء کو شوکت عزیز من موہن سنگھ مذاکرات میں بھارتی وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر مہلت حاصل کرنے کے لیے درخواست کی لیکن یہ مذاکرات بھی بے نتیجہ رہے۔ اب پاکستان کے پاس سندھ طاس معاہدے کی بنیاد پر ورلڈ بنک سے رجوع کے علاوہ کوئی صورت باقی نہیں ہے۔

وولر ڈیم کو تو مجاہدین کشمیر نے بزورِ شمشیر روکا تھا۔ لیکن بگلیہار ڈیم کی تعمیر اور مذاکرات کا مظاہرہ کرنے سے قبل بھارت نے اعتماد سازی کے اقدامات (CBM) کے نام پر باڑ لگا کر مجاہدین آزادی کی امداد کے تمام راستے بند کروا دیے۔ آپریشن سرپ ویناش (سانپوں کو مارنا) کے بعد آپریشن فلیش آئوٹ‘ اور اب آپریشن سرچ آئوٹ کے نام سے اس قوت کو ختم کرنے کے لیے پاکستان سے فری ہینڈ حاصل کرچکا ہے۔ لیکن کیا کہیے کہ ۱۹۶۰ء میں ایوب خان کے دورِحکومت میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کی رو سے راوی‘ ستلج اور بیاس کے دریائوں سے عالمی استعمار کی سازشوں اور محض دکھاوے کے لیے ۱۶ کروڑ روپے کے عوض دستبردار ہوگئے‘ اور اب خود معاہدے کے پابند معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والوں کے حوالے سے خرابی بسیار کے بعد ورلڈ بنک کے دروازے پر دستک دینے کا اعلان فرما رہے ہیں۔ وہاں سے تو فیصلہ اصولوں کی بنیاد پر پاکستان کے حق میں ہوسکتا ہے مگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا تھا جس کو بھارت نے درست تسلیم بھی کیا تھا لیکن کیا اس پر عمل درآمد ہوا؟ کیا بھارت نے پابندی کی‘ کیا پاکستان کو حق مل گیا؟ اب سوچنا یہ ہے کہ بھارت اس طرزِعمل سے ہمارا دوست بن جائے گا؟ نہیں‘ دوطرفہ مذاکرات کے عمل میں اگر بگلیہار ڈیم پر مذاکرات کو test caseبنایا جائے تو مذاکرات ناکام ہو چکے‘ سیاچن پر مذاکرات بے نتیجہ رہے‘ سرکریک پر مذکرات کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ کشمیر پر مذاکرات کے حوالے سے بھارتی خارجہ سیکریٹری نے پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر دوٹوک موقف سنا دیا۔ نٹورسنگھ صاحب نے بات واضح کردی ہے‘ جب کہ بھارتی حکومت کے وزیر براے پانی و بجلی چکراورتی نے ۲۹ مئی ۲۰۰۲ء کو دہلی میں کہا تھا کہ ’’جب ہم سندھ طاس معاہدے کو چھوڑ دیں گے تو پاکستان پانی کے قطروں کے لیے چیخے گا‘‘۔

سوال یہ ہے کہ بگلیہار ڈیم کی تعمیر کے آغاز ہی میں کیوں مؤثر طور پر نوٹس نہ لیا گیا‘ اور ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے‘ اور کون اس کا ذمہ دار ہے؟ اب صورت حال یہ ہے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ گویا بھارت کے ہاتھ میں پاکستان کا ڈیتھ وارنٹ ہے!