۲۰۰۵فروری

فہرست مضامین

اپنی تربیت آپ

خرم مراد | ۲۰۰۵فروری | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

تربیت کا عمل انسان کے پیدا ہوتے ہی شروع ہوجاتا ہے ۔ کچھ تربیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے جوخود بخود ہوجاتی ہے‘ جب کہ کچھ تربیت انسان اپنی کوشش سے کرتا ہے۔ تربیت کے معنی کسی چیز کو نشو و نما دینا‘ بڑھانا اور تقویت دینا ہے ۔ تربیت سے ملتا جلتا ایک اور لفظ بھی استعمال ہوتا ہے‘ وہ ہے تزکیہ ۔ اس میں پاکیزہ کرنا اور نشو ونما دینا ‘ دونوں معنی شامل ہیں ۔ انسان کے پیدا ہوتے ہی اس کی تربیت کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور آہستہ آہستہ اُس کا جسم بڑھنا شروع کرتاہے ۔ آیندہ زندگی میں درپیش مراحل کے لیے مختلف صلاحیتیں اور استعداد بتدریج پیداہوتی چلی جاتی ہے۔

کچھ کام انسان دوسروں کو دیکھ کر اور ان سے سیکھ کر اختیار کرتا ہے ‘ جیسے چلنا پھرنا ‘کھانا پینا‘ کپڑے پہننا وغیرہ ۔ یہ سب کام آدمی سیکھتا ہے ‘ یعنی ان کی تربیت حاصل کرتا ہے ۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ نہیں جانتا کہ نوالہ کیسے بناناہے ‘ کپڑے کیسے پہننے ہیں‘ یہ سب کچھ وہ دوسروں کو   دیکھ کر یا کسی کے سکھانے سے سیکھتا ہے ۔ زبان بڑی اہم چیز ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ تربیت کا معجزہ ہے کہ بچہ تین چار سال کی عمر تک ایک زبان سیکھ لیتاہے اور اس طرح سیکھتا ہے کہ اس کی گرامر بھی صحیح ہوتی ہے ‘ لغت بھی اور محاورہ بھی۔ اگرچہ اس نے گرامر کی کوئی کتاب نہیں پڑھی ہوتی‘ کوئی لغت نہیں دیکھی ہوتی‘ کسی اسکول میں داخلہ نہیں لیا ہوتا‘ وہ کوئی کتابیں نہیں پڑھتا‘ مگر پھر بھی زبان سیکھ جاتا ہے۔ اگرچہ کسی زبان کو بڑی عمر میں بھی سیکھنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ تربیت کے لیے قدرت کے انتظامات ہیں۔

قدرتی تربیت کے ساتھ ساتھ بعض چیزیں اورمہارتیں بھی ضروری ہیں۔ البتہ ہمیں وہ تربیت مطلوب ہے جو ہماری سوچ ‘ عمل ‘ اخلاق اور کردار کو اس سانچے میں ڈھال دے جس کے ذریعے ہم اللہ کی رضا حاصل کرسکیں ۔ ہم سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے بڑھ کر جوچیز محبوب ہے وہ اس کی راہ میں جہاد اور اس کے دین کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد ہے ۔ اس نے اپنی محبت اور اپنے رسولؐ کی محبت کو اپنی راہ میں جہاد کے ساتھ منسلک کیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دین میں چوٹی کا عمل‘ جہاد ہے ۔ اس بات کی اہمیت کے پیش نظر ہی ہم سب ایک تنظیم میں شامل ہوئے ہیں اورایک جماعتی اور اجتماعی زندگی اختیار کی ہے ۔ اس اجتماعیت کا تقاضا ہے کہ تربیت کے عمل میں ہمارے پیش نظر سب سے بڑھ کر یہی امر ہونا چاہیے کہ ہم دین کو قائم کرنے کے لیے جہاد کے اہل بنیں۔

تربیت کی بنیاد: ارادہ و عزم

انسان کی تربیت قدرتی بھی ہوتی ہے اور گردوپیش کے حالات و مشاہدات سے بھی‘  دوسروں سے سیکھ کر بھی اور لکھ پڑھ کر بھی۔ لیکن تربیت کی اصل ذمہ داری ایک فرد کی اپنی ہی ہے۔ تربیت کے عمل میں یہ سب سے پہلا اور بنیادی سبق ہے جو ہمیشہ پیشِ نظر رہنا چاہیے۔

ہم جیسا بھی بننا چاہیں‘ وہ اپنی کوشش سے اور اپنے عمل سے بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بہت واضح اور صاف طورپر بیان فرمایا دیا ہے کہ آدمی کے حصے میں وہی کچھ آتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے ۔

وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِ نْسَانِ اِلَّا مَاسَعٰیo (النجم ۵۳:۳۹)

اوریہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے۔

جو آدمی خود کچھ نہ بننا چاہے‘ وہ دوسروں کے بنانے سے نہیں بن سکتا۔ آدمی اپنی محنت اور کوشش سے ہی اپنے آپ کو وہی کچھ بناتا ہے جو وہ بننا چاہتا ہے ۔ لہٰذا تربیت کے ضمن میں بنیادی بات اپنی اِس ذمہ داری کوسمجھنا ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰیo (الاعلٰی ۸۷:۱۴)

فلاح پاگیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی۔

تَزَکّٰی کا لفظ عربی زبان میں جس وزن پر اور جن معنوں میں آیا ہے ‘ اس میں انسان کا اپنے اوپر محنت سے کسی کام کو کرنے کا مفہوم بھی شامل ہے ۔ اسی وزن پر تدبر اور تذکر ہیں۔ تدبر آدمی خود کرتا ہے ‘ کوئی دوسرا زبردستی نہیں کرواسکتا ۔ تذکر کے معنی کسی چیز کو یاد کرنے اور یاد رکھنے کے ہیں ۔ یہ بھی آدمی خود کرتا ہے ‘ کوئی دوسرا نہیں کروا سکتا۔ چنانچہ تَزَکّٰی سے مراد اہتمام کے ساتھ اپنی کوشش سے اپنا تزکیہ کرنا ‘ اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کرنا اور اپنی نشوونما اور ارتقا کی کوشش کرنا ہے جو دراصل آدمی کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اسی لیے جہاں تَزَکّٰیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں یہ بھی فرمایا گیا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o (الشمس ۹۱:۹)

یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔

تزکیہ کسی کام کو بتدریج کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ گویا اس کے معنی یہ ہیں کہ نفس کو پاک صاف کرنے کا کام مسلسل کرنے کی ضرورت  ہے ۔اس کے علاوہ جتنے بیرونی محرکات اور تربیت کے ذرائع ہیں ‘ وہ اللہ کی وحی ہو یا اس کی کتاب ‘ یا اس کے رسول علیہم السلام جو اس دنیا میں رہنمائی کے لیے آتے رہے ہیں ‘ یا صالح صحبت جو آدمی کو نصیب ہوتی ہے ‘ یا کتابیں اور لٹریچر ہو ‘ یادرس قرآن اور اجتماعات ہوں‘ ان سب کی حیثیت معاون و مددگار کی ہے ۔ اگر زمین بنجر ہے اور اس میں بیج موجود نہیں ہے تو باہر سے خواہ کتنا ہی پانی دیا جائے‘ کتنی ہی کھاد ڈالی جائے‘ کتنی ہی محنت کی جائے‘ فصل نہیں اگے گی۔ فصل تو اسی وقت اگے گی جب زمین میں فصل اگانے کی صلاحیت موجود ہو اور بیج موجود ہو جو پودے اور درخت کی شکل اختیار کرسکے ۔

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے ایسے لوگ جونبی کریمؐ کی صحبت میں بیٹھتے تھے ‘ آپؐ کا کلام سنتے تھے ‘ آپؐ کے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے‘ یا آپؐ سے واقف تھے‘ وہ کافر اور منافق ہی رہے۔ انھیں سچا ایمان لانے کی توفیق نصیب نہیںہوئی۔ اگر محض کسی اچھی بات کا سن لینا اور کسی اچھی صحبت میں بیٹھ جانا ہی کافی ہوتا ‘ تو ان میں سے ہر ایک کو ایمان کی دولت نصیب ہوجاتی‘ لیکن جنھوں نے خود صحیح بات کو نہ ماننا چاہا اور صحیح راستے پر نہ چلنا چاہا ‘ ان کے لیے ان میں سے کوئی چیز بھی مدد گار ثابت نہ ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے ۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کو مخاطب کرکے فرمایا:

اِنَّکَ لَاتَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ (القصص ۲۸:۵۶)

اے نبیؐ! تم جسے چاہو اُسے ہدایت نہیں دے سکتے ۔

یہ اللہ کا قانون ہے اور اس کے تحت ہی وہ لوگوں کو توفیق بخشتا ہے‘ اور توفیق کا انحصار آدمی کے اپنے ارادے اور خواہش پر ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر آدمی سیدھا راستہ اختیار کرتاہے ۔

انسان مجبور محض نہیں ہے بلکہ وہ ایک بااختیار ہستی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو انسان پر ایسا کوئی اختیار نہیں دیا ہے کہ وہ اس سے زبردستی کوئی کام کرواسکے ۔ اس کو زیادہ سے زیادہ جو اختیار حاصل ہے ‘ وہ یہ ہے کہ وہ برائی کا خیال دل میں ڈال دے ‘ برائی کو اچھا کرکے دکھائے ‘ اس کی ترغیب دے اور آدمی سے کہے کہ یہ برائی کرو۔ لیکن وہ زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر‘ یااس کی زبان سے کوئی برا کام نہیں کرواسکتا۔ اگر آدمی جھوٹ نہ بولنا چاہے تو وہ اس سے جھوٹ نہیں بلوا سکتا۔ اگر آدمی انتقام اور غصے سے مغلوب ہوکر کسی کی غیبت کرنا یا حسد کی بنا پر کسی کو برا بھلا نہ کہنا چاہے‘ تو شیطان اس سے یہ کام زبردستی نہیں کرواسکتا۔ اسے صرف وسوسے ڈالنے کا اختیار حاصل ہے ۔ وہ دل میں خیال ڈال سکتا ہے ‘ برائی کی ترغیب دے سکتا ہے۔ لیکن اپنے ہاتھ ‘ پائوں یا زبان سے کسی برائی کا ارتکاب کرنا‘ یہ انسان کا ذاتی فعل ہے ۔ وہ اپنی آزاد مرضی سے کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے ۔ اگر وہ کوئی کام نہ کرنا چاہے تو کوئی اس سے زبردستی نہیں کرواسکتا ۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ محض لٹریچر کے مطالعے سے انسان کی تربیت ہوجائے گی اور وہ اچھا انسان بن جائے گا تو یہ بات درست نہیں ‘ اگرچہ لڑیچر کا مطالعہ بھی ضروری ہے ۔ لیکن تربیت کے لیے صرف لٹریچر کامطالعہ کافی نہ ہوگا ‘ جب تک آدمی اُس پر عمل کرنے کی خود کوشش نہ کرے ۔ اسی طرح موثر تقاریر اور تربیت گاہیں اور قرآن مجید کاپڑھنا بھی کافی نہ ہوگا ۔ یورپ کے بعض مفکرین نے قرآن کو پڑھنے‘ عربی جاننے اور تفسیریں پڑھنے میں عمر کھپا دی ‘بڑی شان دار کتابیں بھی لکھیں‘ لیکن ان کو ایمان کی دولت نصیب نہیں ہوئی اور نہ عمل کی توفیق ہی ملی۔ لہٰذا تربیت کے لیے جو چیز اہم ترین ہے وہ دراصل آدمی کا اپنا ارادہ اور کوشش ہے ۔

اگر اپنی اصلاح کا ارادہ ہی نہ ہوتو تربیت گاہیں ‘ دروسِ قرآن‘ یا لٹریچر ‘ کوئی بھی چیز فائدہ نہیں دے گی ۔ اگر ارادہ ہوگا اور اصلاح کی کوشش بھی ہوگی تو قرآن میں سے ہر چیز اسی طرح فائدہ دے گی جس طرح بیج اور زمین کو مناسب پانی ملے ‘ مناسب کھاد اور ادویات میسر آئیں اور مناسب دیکھ بھال ہو تو فصل لہلہا اٹھتی ہے اور کئی گنا زیادہ ہوجاتی ہے۔ البتہ زمین کی زرخیزی و تیاری اور بیج کی فراہمی کسان کااپنا کا م ہے۔ اگر کوئی کسان اپنے کھیت سے غافل ہو اوروہ یہ چاہے کہ محض بارش برس جائے اور اس کی فصل تیار ہوجائے‘ یا کھاد ڈالنے سے ہی پیداوار حاصل ہوجائے تو یہ ناممکن ہے ۔ اسی طرح یہ سوچنا کہ محض درس و تقریر سننے اورلڑیچر کے مطالعے سے تربیت ہو جائے گی تو یہ بھی خام خیالی ہے ۔

لوگ شکایت کرتے ہیں کہ تربیت کی کمی ہے‘ انحطاط ہے ‘ معیار گر گیا ہے ‘ لٹریچر نہیں پڑھا جاتا ‘ لوگوں کے اندر عملی کمزوریاں ہیں‘ لہٰذا تربیتی پروگرام زیاہ ہونے چاہییں‘ تاکہ معیاری افراد تیار ہوسکیں اور صحیح نہج پرتربیت ہو۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ لٹریچر پڑھنا ضروری ہے ‘ قرآن مجید کا مطالعہ بھی ضروری ہے اورتربیت گاہیں بھی ضروری ہیں ‘ لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی مسئلے کااصل حل نہیں ہے ۔ تربیت کی بنیاد تو ایک فرد کی اپنی محنت ہے‘ اپنا ارداہ ہے اور اپنی کوشش ہے۔  یہی اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے ۔ اسی لیے نبی کریمؐنے فرمایا : کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مَّسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ، تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی۔

جو جس کا نگہبان ہے وہ اس کے بارے میں جواب دہ ہے ۔ سب سے بڑھ کر تو انسان کا اپنا نفس اور اس کی زندگی ہے جس کے لیے وہ جواب دہ ہے۔ اس وقت کی جواب دہی ہے جو تیزی سے گزرتا چلا جارہا ہے ۔ زندگی ایک نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے اور جو برف کی طرح پگھل رہی ہے اور ہاتھ سے نکلی چلی جارہی ہے ۔ اس کے لیے انسان‘ خدا کے ہاں جواب دہ ہے ۔ سورۃ العصر میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

وَالْعَصْرِ o اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o (العصر ۱۰۳:۲۱)

زمانے کی قسم‘ انسان درحقیقت خسارے میں ہے۔

وقت کس قدر تیزی سے گزر رہا ہے ‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر گزرنے والا لمحہ انسان کی عمر گھٹارہا ہے ۔ ہم رات کو سوتے ہیں اور صبح کو اٹھتے ہیں‘ لیکن ہماری زندگی کا ایک دن کم ہوچکا ہوتا ہے اور وہ کبھی دوبارہ لوٹ کر نہیں آئے گا ۔ لہذا کامیاب وہ ہے جو زندگی کی قدر جانے اور آنے والے کل کے لیے آج سامان کرلے ۔ یہ قدر اسی کو ہوگی جسے جواب دہی کا احساس ہو ‘ جو اپنا تزکیہ کرے ‘ برائیوں کو دبائے اور بھلائیوں کو نشوونما دے‘ البتہ اس عمل کی بنیاد انسان کا اپنا ارادہ اور کوشش ہے ۔

وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَاسَعٰی (النجم ۵۳:۳۹)

اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے۔

انسان کی زندگی ‘ اس کی کھیتی ‘ اس کا کاروبار‘ اس کوبنانااور سنوارنا‘ اس میں نیک اعمال کے بیج بونا اور نیک اعمال کی کھیتی اگانا‘ یہ اس کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔ کسی دوسرے کے کرنے سے یہ نہیں ہوسکتا ۔ اگر کوئی نماز نہ پڑھے تو کوئی دوسرا اس کی جگہ نہ نماز پڑھ سکتا ہے اورنہ زبردستی اُسے نماز پڑھوا سکتا ہے ۔ اگر نماز میں اللہ کے حضور حاضری اور خشوع و خضوع سے گفتگو کا تصور آدمی خود نہ پیدا کرے تو کسی تقریر اور درس قرآن سے یہ پیدا نہیں ہوگا۔ یہ توممکن ہے کہ نماز بہتر بنانے پر کوئی تقریر سن کر ایک آدھ نماز بہتر پڑھ لی جائے لیکن اس کے بعد پھر توجہ بٹ جاتی ہے‘  بھول ہوجاتی ہے ۔ اس لیے کہ ارادے کی کمزوری ‘ غفلت اور بھول انسان کے مزاج کا حصہ اور فطری امر ہیں ۔ البتہ اگر یہ مرض ہے تو اس کی دوا بھی موجود ہے ۔ آدمی اس پر قابو پاسکتا ہے لیکن دوا تو استعمال کرنے سے ہی فائدہ دیتی ہے ۔ اگر دوا شیشی میں بھر کر اپنے پاس رکھ لی جائے اوریہ وعظ سنا اور کہا جائے کہ یہ دوا بڑی فائدہ مند ہے‘ تو اس سے مرض دور نہیں ہوگا‘ بلکہ اس کے لیے دوا استعمال کرنا ہوگی۔ اسی طرح اللہ کی یاد سے غفلت کا علاج ہوجاتا ہے‘ لیکن اگر اللہ کو یاد ہی نہ کیا جائے تو غفلت کیسے دور ہوسکتی ہے ؟ لہٰذا جو کچھ بھی تربیت ہوگی وہ اپنی کوشش سے ‘ اپنی محنت اور اپنے ارادے سے ہوگی نہ کہ محض وعظ و نصیحت یا تربیت گاہ میں شرکت سے ۔

ایک فرد کے نزدیک جس چیز کی جتنی قدروقیمت ہو تی ہے‘ وہ اس کے لیے اتنی ہی تگ و دو‘ کوشش اور محنت کرتا ہے۔ وہ اگر کوئی دکاندار ہے تو وہ یہ نہیں سوچتا کہ میں گھر بیٹھا رہوں‘ یا دعا کرتا رہوں‘ یا کسی بزرگ کی برکت ہوگی‘ یا میں تجارت کے فضائل پر اور دکان میں مال رکھنے کی اہمیت پر کوئی تقریر کروں گا تو اس سے مال فروخت ہوگا۔ دکان تو تب چلے گی جب سودا لایا جائے ‘ دکان میں رکھا جائے ‘ گاہک آئیں اور سودا بیچا جائے‘ تب نفع ہوگا ۔ دکان چلانے اور نفع کمانے کا اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ۔ زندگی بھی ایک دکان اور تجارت کی طرح ہے ۔ یہ جنت کو کمانے کی تجارت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍo  (الصف ۶۱:۱۰)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچا دے؟

یہ تجارت ‘زندگی کو اللہ کی راہ میں کھپانے ‘جنت کمانے اور جہنم سے بچنے کی ہے۔ اگر کوئی یہ سوچے کہ یہ تجارت محض خواہش‘تمنا اور آرزو سے ہوجائے گی اور نفع حاصل ہو جائے گا‘ یا محض تقریر یا درس سننے سے ہوجائے گی تو ایسا نہیں ہوگا ‘ بلکہ فصل حاصل کرنے کے لیے جس طرح کھاد اور پانی ضروری ہے ‘اسی طرح تربیت کے لیے تقریر اور درس قرآن بھی اہم اور ضروری چیزیں ہیں ‘ لیکن اصل کام اپنا ارادہ اور کوشش ہے ۔

لہٰذا تربیت کے عمل میں سب سے پہلے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ عمر‘ یہ زندگی‘ یہ جسم ‘ یہ جان ‘ اگر میں تاجر ہوں تو میر ی یہ دکان اور کاروبار اور اگر میں کسان ہوں تو میری یہ کھیتی‘ اس میں جو کچھ پیدا ہوگا ‘ جو فصل اُگے گی ‘ وہ میرے ارادے اور کوشش سے ہی اُگے گی۔

قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ :

وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعٰی لَھَا سَعَیْھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰئِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَشْکُوْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۱۹)

اور جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے‘ اور ہو وہ مومن‘ تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہو گی۔

گویا جس نے یہ ارادہ کرلیا کہ مجھے آخرت کمانا ہے اور اس کے لیے محنت کی جیسا کہ محنت کرنی چاہیے اور ایمان کا بیج موجود ہو‘ اور عمل ہو تو اس کی کوشش کی پوری قدر دانی کی جائے گی۔

کون کیااعمال کرے گا‘ یاکتنے گناہ اس سے سرزد ہوں گے‘ یہ کوئی نہیں جانتا۔ آدمی سے گناہ بھی ہوں گے اور بہت سے نیک کام وہ نہیں کر پائے گا ۔ بہت سے درجات تک وہ نہیں پہنچ پائے گا اوربہت سے کام کرنا چاہے لیکن نہیں ہوپائیں گے ‘ لیکن جو نیک کام بھی وہ کرناچاہے گا اس کا اجر اسے مل کر رہے گا ۔

اللہ کو تو بس یہی مطلوب ہے کہ آدمی ارادہ کرے ‘ عزم کرے اور فیصلہ کرے کہ اسے آخرت کمانا ہے ‘ اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے ‘ وہ اعمال اور وہ محنت کرنی ہے جس سے اسے یہ چیز حاصل ہوسکے اور پھر اپنی حد تک کوشش کرے جتنی اللہ نے اسے ہمت اور قوت دی ہے ۔ اس سے زیادہ کسی سے مطالبہ نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ یہ بات کہ اپنا کام خود کرنا ‘ اپنی ذمہ داری کو خود سنبھالنا‘ اپنی کھیتی اور اپنی دکان کی خود فکر کرنا‘ اس کو تیار کرنے اور چلانے کے لیے پوری محنت اور کوشش کرنا‘ ہر فرد کی اپنی ذمہ داری ہے۔ کوئی دوسرا یہ ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔ اگر اُس نے اِس راز کو پالیا‘ تو تربیت کا راستہ اس کے لیے کھل گیا ۔

جب تک آدمی اس انتظار میں رہے کہ کچھ بیساکھیاں مل جائیں جن کے سہارے وہ چل سکے ‘ تو ایسا شخص دوسروں کو مورد الزام ہی ٹھیراتا رہے گا کہ یہ نہیں ہورہا ‘ وہ نہیں ہورہا ‘ یا دوسرے ایسا نہیں کر رہے‘ وہ پروگرام نہیں ہورہا وغیرہ۔ اس لیے مجھ میں خامی ہے۔ ان میں سے کوئی عذر بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔

قرآن میں ہے کہ لوگ روزِ قیامت‘ اللہ تعالیٰ کے سامنے عذر تراشیں گے کہ یہ تو ہمارے بڑوں سے ‘ آباو اجداد سے ہوتا چلا آرہا تھا‘ ہم نے تو ان کی پیروی کی‘ لیکن اللہ تعالیٰ اس عذر کو بھی قبول نہیں کریں گے ۔ لوگ کہیں گے کہ یہ ہمارے سردار تھے ‘ پیشواتھے ‘ علما تھے ‘ لیڈر تھے ‘ ہم تو ان کی وجہ سے گمراہ ہوئے تھے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ اس عذر کو بھی قبول نہیں فرمائیں گے اور ان کو معاف نہیں کیا جائے گا ۔ دراصل ہر آدمی اپنے اعمال کے لیے خود ہی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔ قیامت کے روز شیطان بھی کھڑا ہوجائے گا اور کہے گا کہ اپنی برائی کے تم خود ذمہ دار ہو۔ میراکوئی قصور نہیں ۔ میر اتم پر کوئی زور نہیں تھا ۔ میں نے تو تمھیں محض ترغیب دی تھی‘ للچایا تھا‘ برائی کی طرف دعوت دی تھی اور تم نے میری دعوت خود قبول کی تھی۔

اِلاَّ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْا اَنْفُسَکُمْط (ابراھیم ۱۴:۲۲)

میراتم پر کوئی زور تو تھا نہیں ‘ میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو‘ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔

گویا اگر تم بگڑ گئے‘ خرابی کا شکار ہوئے‘ اچھے انسان نہیں بنے‘ گناہ گار ٹھیرے تو دوسروں کو موردِ الزام مت ٹھیرائو‘ اس کے تم خود ہی ذمہ دار ہو۔

دراصل بنیادی ذمہ داری تو ہر شخص کی اپنی ہی ہے۔ ہر آدمی اللہ کے سامنے اکیلا حاضر ہوگا‘ اور وہ اکیلا ہی اپنے عمل کی جواب دہی کرے گا۔ اگر کوئی مجبو ر ہوگا‘ یا معقول عذر ہوگا تو   اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا۔ البتہ کسی دوسرے پر الزام لگا کر اپنی ذمہ داری سے بر ی نہیں ہوا جاسکتا۔ یہ بات بالکل واضح ہے اور جو آدمی اس بنیادی اصول سے ہی واقف نہ ہو‘ وہ صحیح معنوں میں اپنی تربیت نہیں کرسکتا۔

تربیت اپنے بس میں ھے!

دوسرا اصول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی انسان کو اس سے زیادہ مکلف نہیں بنایا‘ یا ذمہ دار نہیں ٹھیرایا جتنی اس کی استطاعت ہو ۔ اس نے انسان پرایسا کوئی بوجھ نہیںڈالا جو وہ نہ اٹھا سکتا ہو۔

لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَا اَکْتَسَبَتْ (البقرہ ۲: ۲۸۶)

اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔

ہر ایک کے لیے اُس کے اچھے اور بُرے عمل کے مطابق ہی بدلہ ہے۔ گویا اگر ایک طرف خوشخبری ہے تو دوسری طرف بڑی سخت گرفت اور پکڑ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے مجھے کچھ کرنے کا جو موقع دیا ہے ‘ اس کا میں خود ذمہ دار ہوں‘ اور جس برائی کا میں مرتکب ہوا‘ اس کا بھی میں خود ہی ذمہ دار ہوں گا کوئی دوسرا ذمہ دار نہیں ہے ۔

جب یہ آیت نازل ہوئی :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۲)

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ‘ اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔

اس پر صحابہ کرامؓ کانپ اٹھے اور لرز کر رہ گئے کہ کون ہے جو اللہ سے ویسا ہی تقویٰ اختیار کرے جیسا کہ اس کا حق ہے۔ اللہ سے تقویٰ کرنے کا تو کوئی حق ادا نہیں کرسکتا ۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی:

فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (التغابن ۶۴:۱۶)

جہاں تک تمھارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو۔

یعنی جتنی تمھاری استطاعت ہے اتنا اللہ سے تقویٰ اختیار کرو تو انھیں اطمینان ہو ا اور ان کی جان میں جان آئی۔ لہٰذا کون کیا کرسکتا ہے ‘ یا اسے کیا کرنا چاہیے ‘ اس حوالے سے بہت زیادہ سوچنے یا کسی ذہنی الجھن کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں‘ بلکہ آدمی جس قدر بھرپور محنت کر سکتا ہے وہ کرنی چاہیے۔ اگر غلطی ہوجائے یا گناہ سرزد ہوجائے تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرناچاہیے اور پھر اس کی اطاعت و فرماں برداری کی راہ پر لگ جانا چاہیے۔ اسلام میں مایوسی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کسی پر اُس کی ہمت و استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ۔ اگر کوئی شخص کوئی کام نہیں کرسکے گا تو اس پر اللہ تعالیٰ کوئی مواخذہ نہیں کرے گا لیکن یہ بات خوب سوچ سمجھ کر کہنی چاہیے کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا ‘ یا اس ذمہ داری کو نہیں اٹھا سکتا ۔ اس لیے کہ یہ بات ‘ یا یہ عذر کسی ناظم‘ امیر‘ ذمہ دار‘ دوست یا محض اجتماع میں نہیں رکھنا ہے‘ بلکہ اس کے سامنے پیش کرنا ہے جو انسان کے اندر اور باہر سے خوب واقف ہے۔ لہٰذا اس موقع پر محض یہ نہ خیال کیا جائے کہ میں اپنے جیسے انسانوں کو مطمئن کررہا ہوں‘ بلکہ یہ سوچا جائے کہ ہم اس ذات کو جواب دہ ہیں جو دلوں کا حال جانتا ہے‘ جو سب سے واقف ہے‘ جو بخوبی جانتا ہے کہ کون کیا کرسکتا ہے اورکیا نہیں کرسکتا۔ لہٰذا محض یہ کہنا کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا‘ یا وقت نہیں ملتا‘ یہ عذر بھی قابل قبول نہیں ہے۔

اللہ نے ہر ایک پر وہی ذمہ داری ڈالی ہے جو وہ اٹھا سکتا ہے ۔ اس لیے اس نے ہر مسلمان پر جو فرائض عائد کیے ہیں ‘ وہ کسی انسان کے بس سے باہر نہیں۔ اگر کوئی معاملہ اس کے بس میں نہ ہو تو شریعت میں اس کے لیے چھوٹ موجود ہے ۔ اگر کوئی آدمی بے ہوش ہوجائے تو نماز کا کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ کوئی بیمار ہو جائے تو کھڑے ہو کر پڑھنے کی کوئی ذمہ داری اس پر نہیں ہے ‘ اگر پانی نہ ملے تو تیمم کر کے پڑھے ۔ اگر کوئی پاگل ہے تو اس سے کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ غرض جہاں بھی کوئی کام کسی کے بس میں نہ ہو توشریعت اس کے لیے راستہ کھول دیتی ہے‘ اور جو ممکن ہے‘ اختیار سے باہر نہیں‘ اس کے لیے کوئی عذر قابلِ قبول نہیں۔

ہر آدمی نماز پڑھ سکتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ فجر میں میری آنکھ نہیں کھلتی تو یہ بھی کوئی معقول عذر نہیں۔ ہر آدمی اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر کوئی مجبوری آن پڑے یا  ہوائی جہاز یا ٹرین میں سفر کرنا ہو تو آنکھ ضرور کھل جاتی ہے ۔ اگر کوئی حادثہ پیش آجائے‘ یا بچہ بیمار ہو جائے تو رات بھر آنکھ نہیں لگتی۔ لہٰذا اللہ کے ہاں توکوئی ایسا عذر پیش نہیں کیا جاسکتا جو معقول نہ ہو ۔ اصل بات یہ جان لینا ہے کہ جو کام بھی اللہ نے مجھے کرنے کو کہا ہے‘ یہ بالکل میرے بس میں ہے‘ میرے اختیار میں ہے‘ اور جو کام میرے اختیار میں نہیں ہیں‘ ان کے لیے کوئی مطالبہ بھی نہیں ہے۔

نماز پڑھنا آدمی کے اختیار میں ہے‘ اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ تم نے نماز کیوں نہیں پڑھی۔ نماز کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ نماز کے اندر خشوع ہو‘ اور اس کے لیے کوشش کرنا بندے کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا وہ یہ پوچھے گا کہ تم نے نماز میںخشوع پیدا کرنے اور اس کو بہتر بنانے کے لیے کیا کوشش کی‘ لیکن نماز میں کتنا خشوع پیدا ہوگایہ بندے کے بس میں نہیں ہے ۔ آدمی کا دل کبھی اس کے اختیار میں ہوتا ہے اور کبھی نہیں ۔ کئی قسم کے خیالات اور وسوسے دل کو غافل کر دیتے ہیں۔ دل پر انسان کو مکمل اختیار نہیں دیا گیا ۔ اپنے آپ کو متوجہ رکھنا تو انسان کے اختیار میں ہے لیکن دل کی کیفیت ایک سی رہے‘ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ لہٰذا جو کام آدمی کے بس میں ہو‘ وہ کام کرنا اس کی ذمہ داری ہے‘ اور وہ اس کا مکلف ہے۔

اسی طرح ایک داعی کی حیثیت سے دوسروں تک بات پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے اور اس کے لیے حتی المقدور کوشش کرنا‘ ذرائع و وسائل اختیار کرنا ہمارا فرض ہے۔ لیکن یہ بات سوچنا کہ اس سب کے باوجود لوگ لازماً ہماری بات مان لیں تو اس کے ہم ذمہ دار نہیں ٹھیرائے گئے۔ البتہ اپنی بیوی بچوں کو نیکی کی تلقین کرنا اورترغیب دینا ‘ اپنے دوستوں کو نیکی کی دعوت دینا ‘یہ تو ہمارے اختیار میں ہے اور اس کے لیے ہم سے پرسش ہوگی‘ مواخذہ ہوگا۔ اس کے بعد اگر کوئی بات نہ مانے اور لوگ نہ سنیں‘ یا سنی ان سنی کردیں تو اس پر کوئی جواب دہی نہیں ہے ۔ اگر کوئی ہماری بات نہ مانے تو اس پر ہمارے اجر میں کوئی کمی نہ ہوگی اور نہ کوئی مواخذہ ہوگا ۔ اصل بات جو ہمارے اختیار اور ہمارے بس میں ہے ‘ وہ ہے کام کرنا‘یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ دوسرا بڑا اہم اصول ہے جو تربیت کے ضمن میں ہمیشہ سامنے رہنا چاہیے ۔

 تربیت‘ عمل سے

تیسرا اصول یہ ہے کہ تربیت عمل سے ہوتی ہے ۔

کوئی کام خواہ کتنا ہی چھوٹا یا معمولی ہو‘ وہ کرنا چاہیے ‘ چاہے تھوڑا ہی کیا جائے۔ اگر ہمارے عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آتی‘ کوئی نیا عمل نہیں شروع کیا‘ کسی پرانے عمل کو بہتر نہیں بنایا‘ کسی برائی کونہیں چھوڑا‘ تو اس سے ایک فرد کی تربیت میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔

عمل خواہ تھوڑا کیا جائے لیکن باقاعدگی سے کیا جائے ‘ یہی تربیت کی بنیادہے ۔ ضروری ہے کہ کچھ وقت نکال کر ہم اپنا جائزہ لیں۔ اپنی پوری زندگی پر ایک نظر ڈالیں۔ آپ ۱۵ سال کے ہوں یا ۶۰ سال کے‘ آپ کے سامنے اپنی پوری زندگی موجود ہے۔

بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌo (القیمۃ ۷۵:۱۴)

انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے۔

یعنی ہر انسان خود اپنے آپ سے بخوبی واقف ہے۔ کسی کو باہر سے وعظ و نصیحت کی ضرورت نہیں ہے۔

پھر یہ دیکھیے کہ اللہ کے حقوق و معاملات اور اللہ کے بندوں کے معاملات میں آپ نے کیا کیا خرابیاں کی ہیں۔ اس کے بعد استغفار کیجیے اور گناہوں سے توبہ کیجیے‘ اور کوشش کرکے   غلط باتوں کو ترک کردیجیے اوراچھی باتوں کو اپنا لیجیے۔

اگر آپ فجر کی نماز مسجد میں جا کر باجماعت اور باقاعدگی سے نہیں پڑھتے تو آپ یہ فیصلہ کریں کہ میں کل سے یہ کام کروں گا۔ ممکن ہے کئی دن ایسے آئیں کہ آپ یہ کام نہ کرسکیں۔ لیکن جس دن نہ کرسکیں ‘ اسی دن پھر استغفار کریں اورنئے سرے سے عزم کریں کہ اب کروں گا۔ اگر سوبار بھی یہ نوبت آجائے تو کوئی پروا نہیں ۔ آپ پیچھے پڑے رہیں کہ مجھے اس کام کو کر کے ہی چھوڑنا ہے‘ تو یہ کام ہوجائے گا۔

نماز میں آپ نیت باندھتے ہیں اور نیت باندھ کر خیالوں ہی خیالوں میں کہیں اور چلے جاتے ہیں اور یہ خیال ہی نہیں آتا کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہوں ‘ اور کس سے بات کررہا ہوں ‘ اور نماز کی صورت میں اللہ نے مجھے جو کچھ عطا کیا ہے وہ کیا ہے۔ حالانکہ اللہ نے آپ کی تربیت کے لیے‘ پانچ وقت کی نماز کی صورت میں‘ ایک ایسا نسخہ آپ کے ہاتھ میں تھما دیا ہے‘ اگر آپ واقعی اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوجائیں اور وہ ساری چیزیں آپ دوبارہ تازہ کرلیں جو آپ نماز میں پڑھتے اور کہتے ہیں‘ تو یہی تربیت کے لیے کافی ہے۔ حدیث میں ہے کہ اگر کسی آدمی کے دروازے پر نہر بہ رہی ہو اور وہ پانچ وقت اس میں غسل کرے تو کیا اس کے جسم پر کوئی میل کچیل باقی رہے گا؟ کیا وہ پاک صاف نہیں ہوجائے گا؟ لیکن ہم جیسے اس نہر میں جاتے ہیں ویسے ہی اس سے واپس آجاتے ہیں۔ وہ ساری گندگیاں جو دل و دماغ کو یا روح اور اخلاق کو آلودہ کیے ہوئے ہیں‘ ویسی کی ویسی ہی واپس آجاتی ہیں۔

نماز اس طرح پڑھیے گویا اللہ تعالیٰ سے بات چیت ہو رہی ہو اور یہ آخری نماز ہو۔ یہ بھی طے کر لیجیے کہ نماز میں جو کچھ پڑھوں گا‘ سمجھ کر پڑھوں گا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور دل میں ترجمہ بھی کرتا رہوں گا۔ اگر آپ اس کی مشق کریں اور عادت ڈالیں کہ جو کلمات عربی میں زبان سے نکلیں‘ دل ہی دل میں اور جی ہی جی میں اس کا ترجمہ کرلیں‘ یعنی زبان سے تو کہیے الحمدللہ    رب العالمین‘ لیکن دل میں کہیے کہ ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اس سے آپ کی توجہ اِدھر اُدھر نہ بھٹکے گی۔ اس میں بھی شیطان نقب لگائے گا‘ چوری کرے گا‘  ڈاکا ڈالے گا‘ ذہن میں بار بار مختلف خیال لائے گا‘ ہر بھُولی بسری چیز یاد دلائے گا۔ آپ توجہ سے اس مشق اور کوشش میں لگے رہیں گے تو بالآخر کامیاب ہوں گے ۔ خشوع و خضوع کی کیفیت بڑھے گی اور شیطان پسپائی پر مجبور ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر جھوٹ بولا اور وعدہ خلافی کی ہے‘ یا کسی کا حق مارا ہوا ہے‘ تو ان سب کی اصلاح کی کوشش کریں۔ غرض آپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ اس کا آغاز کردیں‘ اس لیے کہ عمل سے ہی تربیت ہوتی ہے۔

اگر آپ پہلوان بننا چاہتے ہیں تو آپ کو آہستہ آہستہ ورزش کرنا پڑتی ہے ۔ جسم ورزش کا عادی ہوجاتا ہے ۔ ریاضت اورمجاہدہ اسی کا نام ہے ۔ کوئی چیز آپ سیکھنا چاہتے ہیں یا تقریر کرنا چاہتے ہیں تو آپ آہستہ آہستہ بولنا شروع کریں گے تو تقریر کرنا آئے گی۔ اگر آپ لکھنا چاہتے ہیں تو لکھنا شروع کریں گے تو تھوڑا بہت لکھنا آئے گا ۔ اچانک نہیں لکھنا شروع کردیں گے۔ یہی معاملہ ایمان اور روح کی تربیت اور تزکیے کا ہے ۔ آہستہ آہستہ آپ سیکھنا شروع کریں گے‘ عمل شروع کریں گے‘ عادت پڑے گی‘ مشق ہوگی اور اس طرح تربیت ہوتی چلی جائے گی ۔

ماحول سے سیکہنا

تربیت کا ایک ذریعہ اپنے ماحول سے سیکھنا‘ ایک دوسرے سے سیکھنا اور ایک دوسرے کی تربیت کرنا ہے۔ یہ بھی ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے ۔

انسان جس ماحول میں رہتا ہے وہاں بعض باتیں اچھی لگتی ہیں ‘ دل کو بھاتی اور موہ لیتی ہیں اوربعض باتیں ناگوار اور باعث اذیت ۔ ایسے لوگ ملتے ہیں جو اچھے ہوتے ہیں اور ایسے لوگ بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو اچھے نہیں ہوتے ۔ ان میں سے کسی سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ درگزر کریں اور معافی کارویہ اختیار کریں ۔ کسی کی خرابی دیکھیں‘ اگر ممکن ہو تو اس کو خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ بتا دیں ‘ توجہ دلائیں اور اس کی اصلاح کی کوشش کریں ۔ اس کو پھیلاتے نہ پھریں ۔ کسی ایک فرد کے اندر خرابی دیکھ کر مجموعی رائے نہ بنا لیں اور یہ فتویٰ صادر نہ کردیں کہ یہاں تو سب لوگ ایسے ہی ہیں۔

ہر جگہ ‘ ہر بستی میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور برے بھی ۔ کوئی انسان کسی پہلو سے مثالی نہیں ہوتا۔ انسان خیروشر کا پتلا ہے۔ کسی انسان کی زندگی اس پہلو سے خالی نہیں ہوتی ۔ اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو اس میں اچھائیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی۔ ہرانسانی بستی ایسی ہی ہوتی ہے‘ اچھی باتیں بھی ہوتی ہیں اور بری باتیں بھی۔ ہمیں اچھی باتوں سے اثر قبول کرناچاہیے اور بری باتوں کو نظر انداز کردینا چاہیے ۔ جو باتیں آپ کو بری لگتی ہیں کم از کم خود ان کا ارتکاب نہ کریں۔ یہ بھی تربیت کا ذریعہ ہے ۔ آپ دیکھیں گے کہ ماحول اور گرد ونواح میں پائے جانے والے لوگ کس طرح آپ کی تربیت کرتے چلے جاتے ہیں۔

یہ چند بنیادی اصول ہیں اس کے علاوہ مزید دو اہم باتیں تربیت میں اپنی جگہ بہت اہمیت کی حامل ہیں۔

عمل کی بنیاد اخلاص

اعمال تو بہت سارے ہو سکتے ہیں لیکن جتنا آپ کرسکیں‘ اس کو غنیمت سمجھیے۔ اللہ نے جتنی توفیق دی ہے ‘ اس پر اس کا شکر ادا کیجیے۔ آپ کو سب سے بڑھ کر فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ جو عمل بھی کریں‘ صرف اللہ کے لیے ہو۔ اصل میں یہ اخلاص ہی ہے جس سے اعمال میں اللہ کا رنگ پیدا ہوتا ہے‘ وزن پیدا ہوتا ہے اور اعمال کا زندگی پر اثر پڑتا ہے۔

وَمَا اُمِرُوْا اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَائَ (البینۃ ۹۸:۵)

یعنی اللہ نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی بندگی کریں ‘اس کے لیے دین کو خالص کر کے اور اس کے لیے یکسو ہو کر۔

گویا اپنا قبلہ‘ اپنا محبوب اورمطلوب صرف اللہ کو بنایا جائے۔ ہر عمل ا س کے لیے ہو۔ اگر ہم نماز پڑھیں تو اس کے لیے ‘ تجارت یا نوکری کریں تو اس کے لیے‘ اجتماع کریں تو اس کے لیے‘ دعوت کا کام کریں تو صرف اس کے لیے۔ جتنا آپ اس پہلو کو سامنے رکھیں گے‘ اور اس میں اخلاص پیداکریں گے‘ اتنا ہی آپ کے اعمال ‘اللہ کے ہاں وزنی قرار پائیں گے اور قبول ہوں گے‘ اورجتنا آپ اس کے بغیر عمل کریں گے اُسی قدر ہی اعمال بے وزن اور خیروبرکت سے محروم ہوں گے۔ عمل اگر اللہ کے لیے خالص نہیں ہے تو خواہ نماز ہو یا تعلیم قرآن یا انفاق‘ حتیٰ کہ آدمی جان بھی قربان کر دے‘ لیکن یہ اعمال اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوں گے۔ لہٰذا جو اعمال لوگ دکھاوے کے لیے کرتے ہیں وہ قبول نہیں ہوتے۔ اللہ کے ہاں صرف وہی عمل قبول ہوگا جو خالص اُسی کے لیے ہو۔

بظاہر یہ معمولی سی بات ہے کہ ہر کام کو کرتے ہوئے ‘اپنے ذہن میں اس بات کو تازہ کر لیا جائے کہ میں یہ کام اللہ کے لیے کررہاہوں لیکن اس سے اخلاصِ نیت مستحضر ہوجاتا ہے۔ کسی سے نیکی کریں یا احسان‘ کسی کو ہدیہ کریں‘ بیوی کے ساتھ اچھی بات کریں یا بچوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں ‘ ان کی تربیت کریں‘ غرض جو کام بھی کریں اس میں اس پہلو کو‘ اگر پیش نظر رکھیں گے تو وہ آپ کے لیے باعث اجرو ثواب ہوگا۔ حدیث میں آتا ہے کہ آدمی جو لقمہ اپنے منہ میں رکھتا ہے وہ بھی صدقہ ہے اور جو اپنی بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے وہ بھی صدقہ ہے‘ اور آدمی اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرتا ہے اس پر بھی اجر ملے گا۔ صحابہؓ کو اس پر تعجب ہوا کہ یہ کیسے ہوگا کہ ایسا دنیاوی کام اور اس پر بھی اجر ملے گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص غلط طریقے سے اپنی جنسی خواہش پوری کرے گا تو کیا اس کو عذاب نہیں ہوگا؟ صحابہؓ نے کہا کہ ہاں ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا اور اگر وہ صحیح طریقے سے اس خواہش کی تکمیل کرے توکیا اسے اجر نہیں ملنا چاہیے؟

اس طرح ہم جو بھی کام کریں ‘ اللہ کو خوش کرنے کے لیے کریں تو پوری زندگی عبادت بن جائے گی اور ہر کام نیکی تصور ہوگا ۔ یہ سب خلوص نیت اور اخلاص کا نتیجہ ہوگا۔

حقوق اورمعاملات پر نظر

دوسری بات حقوق العباد سے متعلق ہے ۔

اسلام میںبندوں کے حقوق اوربندوں کے معاملات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اللہ نے ہر انسان کی جان ‘ اس کا مال اور اس کی عزت‘ تینوں کو حرام قرار دیا ہے۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی ہوگا جو کسی کی جان لینا چاہے گا‘ لیکن مال کے معاملے میں لوگ بڑے بے احتیاط ہوتے ہیں۔ کسی کی مرضی کے بغیر اس کا مال لینا‘ حرام ہے ۔ کسی کا حق مار لینا یہ اس سے بھی بڑا حرام کام ہے اوریہ ایسا جرم ہے جس کی کوئی تلافی نہیں ہے‘ الایہ کہ اس کا بدلہ دیا جائے۔ شراب پی‘ تو یہ ایسا گناہ ہے کہ اللہ‘ استغفار سے شاید معاف کردے لیکن اگر کسی کا حق مارلیا‘ کسی کا مال ناجائز طور پر کھا لیا‘ تو جب تک اس کا بدلہ نہ دے دیا جائے‘ اس کو معاف نہ کروائیں ‘ کوئی معافی نہیں ہے ۔ ہم لوگ سور کا گوشت نہیں کھاتے کہ حرام ہے ۔ حالانکہ سور کا گوشت اگر کھالیں تو شاید اللہ تعالیٰ استغفار سے معاف فرمادے۔ اس لیے کہ آپ نے صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ہے اور اللہ کے حکم کی نافرمانی کی ہے۔ لیکن اگر آپ نے کسی کی عزت پر حملہ کیا‘ کسی کی غیبت کی‘ کسی کو گالی دی‘ کسی کا تمسخر اڑایا ‘ کسی کو قتل کر دیا‘ تو یہ اس سے بڑے گناہ ہیں جتنا کہ سور کا گوشت کھانا ۔ یہ وہ حرام کام ہیں کہ جن میں اگر آپ ملوث ہوں ‘ تو جب تک آپ متاثرہ فریق سے معاف نہ کروالیں‘ یا آپ اللہ کو اس قدر محبوب ہوں کہ وہ آپ کی طرف سے کچھ دے دلا کر اس بندے کو راضی کر لے ‘ تو وہ الگ معاملہ ہے ( کیا اتنے نیک ہیں ہم!)ورنہ قاعدہ اور اصول تو یہی ہے کہ یا تو آپ اس کومعاف کروائیں یا پھر قصاص دیں ‘ اس کا بدلہ دیں۔

بندوں کے حقوق اورمعاملات کی جب اس قدر اہمیت ہے توپھر اس کا ناگزیر تقاضا ہے کہ ہم کسی کو ایذا نہ پہنچائیں ‘ تکلیف نہ دیں ۔ بیوی بچے ہوں یا دوست احباب ‘ یا کوئی اور شخص جو ساتھ آکر بیٹھ جائے‘ ہماری کوشش ہو نی چاہیے کہ کسی کو بھی ہم سے تکلیف نہ پہنچے۔ ایک پڑوسی تو وہ ہے جس کا دروازہ ہمارے گھر کے دروازے کے ساتھ ملا ہوا ہے‘ ایک پڑوسی وہ ہے جو ہمارا رشتے دار بھی ہے‘ لیکن ایک پڑوسی وہ ہے جو پہلو میں آکر چند لمحوں کے لیے بیٹھ جائے۔ ہر پڑوسی کا ہم پر حق ہے۔ جو ساتھ بیٹھا ہوا ہے اس کابھی حق ہے‘ جو کمرے میں ساتھ رہتا ہے اس کابھی آپ پر حق ہے ‘ اور ان سب حقوق کا قرآن مجید میں ذکر موجود ہے۔ بیوی بچے بھی پڑوسی ہیں ‘ ایک لحاظ سے ان کا بھی حق ہے ۔ لہٰذا بندوں کے یہ حقوق کہ ہم کسی کو ایذا نہ پہنچائیں‘ کسی کا حق نہ ماریں ‘ کسی کی عزت پر حملہ نہ کریں‘ زبان کو پاک صاف رکھیں‘ بُرے انداز میں کسی کا ذکر نہ کریں‘ کسی کا مذاق نہ اڑائیں ‘کو ئی ایسی بات نہ کریں جس سے کسی کو تکلیف پہنچے‘ دل آزاری ہو‘ جذبات کو ٹھیس پہنچے وغیرہ وغیرہ‘ ہماری خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔

یہ دو بڑی اہم باتیں ہیں کہ اللہ کی مرضی و خوشنودی کے لیے کام کرنا ‘ اور بندوں کا حق نہ مارنا اور ان کو تکلیف نہ پہنچانا۔ انھی دو اصولوں کی بنیاد پر آپ عمل کرتے جائیں تو ان شاء اللہ آپ کو اپنی تربیت کے لیے بڑی مدد ملے گی۔

تربیت کے ضمن میں یہ چند بنیادی باتیں ہیں۔ ہم انھیں یاد رکھیں اور یہ اہم ترین اصول ہمیشہ پیش نظر رہے کہ ہر فرد اپنی تربیت کا خود ہی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔ درس قرآن‘ تقاریر‘ تربیت گاہیں‘ دوست احباب‘ مطالعہ لٹریچر‘ گردونواح کا ماحول اور افراد تب ہی معاون و مددگار اور مؤثر ہوں گے جب ہم ارادہ اور عزم مصمم کرلیں کہ ہمیں اپنی تربیت آپ کرنا ہے‘ اور پھر اس کے لیے عمل شروع کردیں خواہ وہ کتنا ہی معمولی ہو لیکن ہو مسلسل۔ یہی تربیت کی بنیاد ہے۔

(کیسٹ سے تدوین : امجد عباسی)