سوال : ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری کچھ زمینیں تھیں اور عرصہ ۴۰ سال سے اس پر قبضہ تھا۔ ہمارے والد صاحب یہ مقدمہ لڑ رہے تھے۔ ہم کل چار بہن بھائی تھے‘ دو بہنیں اور دو بھائی۔ ہم لوگ کراچی میں رہایش پذیر تھے۔ زمین بہاولپور میں ہے اور مقدمے کے لیے پہلے لاہور‘ بعدازاں اسلام آباد جانا پڑتا تھا۔ مقدمہ کا فیصلہ ہونے سے ایک سال پہلے ہمارے والد صاحب اور بڑے بھائی صاحب مقدمے کی پیشی سے واپس کراچی آرہے تھے کہ راستے میں حادثہ ہوگیا اور دونوں باپ بیٹا اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ اس کے بعد چھوٹے بھائی نے مقدمہ لڑا۔ بالآخر ایک سال بعد ہمارے حق میں فیصلہ ہوگیا‘ یوں ہم زمین لینے میں کامیاب ہوگئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑے بھائی صاحب جو کہ والد صاحب کے ساتھ ہی وفات پاگئے تھے ان کی بیوی‘ دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ دادا کی وراثت میں پوتوں کا کوئی حق نہیں ہوتا‘ اگر صلبی اولاد حیات ہو۔ اب ہم دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں‘ جب کہ دوسرے بھائی کے بچے ہیں۔ آیا دادا کی وراثت میں ان کا کوئی حصہ ہے یا نہیں؟ ہم لوگ اس بارے میں بہت متفکر ہیں۔ اس دنیا میں کسی حق دار کو اس کا حصہ دینا بہت آسان ہے مگر اگلے جہاں میں بہت مشکل ہے۔ براہ مہربانی آپ قرآن و حدیث کے حوالے سے اس مسئلے کا حل پیش کریں۔
جواب: آپ کے والد صاحب اور بڑے بھائی کا حادثے میں شہید ہونے کا بڑا صدمہ ہوا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون! اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر اور اجر سے نوازے۔ آمین!
آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب بڑے بھائی والد صاحب کے ساتھ ہی فوت ہوگئے ہیں توا ن کے بیٹوں اور بیٹی اور بیوہ کو ترکے کا ۳؍۱ حصہ قانونِ وصیت کے تحت دینا چاہیے۔ یہ صلہ رحمی کا بھی تقاضا ہے جس کی قرآن و حدیث میں بڑی تاکید کی گئی ہے‘ نیز قرآن و حدیث نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسے قرابت داروں کے لیے جن کا وراثت میں حصہ نہیں ہے‘ وصیت کریں (البقرہ ۲:۱۸۰)۔ یہ وصیت پہلے وارث اور غیروارث سب کے لیے فرض تھی لیکن آیت میراث کے نزول کے بعد وارثوں کے لیے وصیت کی ضرورت نہیں رہی۔ البتہ غیروارث قرابت داروں کے لیے جو وصیت فرض تھی‘ وہ اس کے بعد بھی باقی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ غیروارث قرابت داروں کو میراث میں سے بذریعہ وصیت حصہ دلانا چاہتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات ایسے حالات پیش آجاتے ہیں کہ آدمی وصیت کرنے سے عاجز ہوتا ہے‘ جیسے آپ کے والد صاحب کو حادثہ پیش آیا اور بڑے بھائی ان کے ساتھ ہی شہید ہوگئے۔ ایسی صورت میں بڑے بھائی کے بیٹوں‘ بیٹی اور بیوی کے لیے وصیت نہیں کی جا سکتی تھی۔ جب اس طرح کی صورت حال پیش آجائے تو وارثوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی جسے ان کے فوت ہوجانے والے سرپرست نے پورا کرنا تھا‘ اسے وہ پورا کریں کہ مقصد تو اللہ کی مرضی کو پورا کرنا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو جائیں گے‘ شہید ہوجانے والے بھائی کی روح بھی خوش ہوجائے گی اور بھتیجے اور بھتیجی اور مرحوم بھائی کی بیوہ بھی راضی ہو جائیں گے۔
غیروارث قرابت داروں کے لیے شریعت کی اس ہدایت پر تمام علما کا اتفاق ہے۔ بعض نے تو فوت ہونے والے پر غیروارث کے لیے وصیت کو فرض قرار دیا ہے اوراگر فوت ہونے والا کسی وجہ سے اس فرض کو ادا کرنے سے قاصر ہوجائے تو انھوں نے ورثا پر لازم قرار دیا ہے کہ وہ اس کی طرف سے اس فرض کو باہمی مشورے و رضامندی سے عملی جامہ پہنائیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کی طرف سے یہ فرض کی ادایگی شمار ہوگی۔ ابن جریر طبری‘ ابن حزم ظاہری‘ دائود طاہر‘ اسحاق بن راہویہ اور امام شافعی کا قدیم قول یہ ہے کہ آیت الوصیۃ (البقرہ۲:۱۸۰) وارثوں کے حق میں تو منسوخ ہے لیکن غیروارث اقارب کے لیے منسوخ نہیں ہے‘ بلکہ ان کے لیے وصیت حسب سابق فرض ہے۔ آیت المیراث اور حدیث لاوصیۃ لوارث (وارث کے لیے وصیت نہیں) کے ذریعے میراث کے مستحق والدین اور قرابت داروں کو آیت وصیت سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے‘ لیکن غیروارث اقربا کے استثنا کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ ابن جریر طبری آیت الوصیۃ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر کوئی سوال کرے کہ کیا صاحبِ مال شخص پر فرض ہے کہ وہ اپنے ان والدین اور قرابت داروں کے لیے وصیت کرے جو اس کی میراث نہیں لے سکتے‘ غیرمسلم ہیں یا دوسرے ورثا کی وجہ سے محروم ہیں‘(جیسے پوتے بیٹوں کی موجودگی میں) تو جواب میں کہا جائے گا کہ ہاں فرض ہے۔ پھر اگر یہ سوال کیا جائے کہ جب اس نے کوتاہی یا تفریط کی وجہ سے وصیت نہ کی ہو تو کیا وہ فرض ضائع کرنے پر گنہگار ہوگا۔ جواب دیا جائے گا: ہاں!گنہگار ہوگا۔ اس کے بعد اگر کہا جائے کہ اس کی دلیل کیا ہے؟ تو کہا جائے گا کہ دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے کہ ’’فرض کر دی گئی تم پر جب تم میں سے کسی پر موت کا وقت آجائے وصیت کرنا والدین اور قرابت داروں کے لیے‘‘۔ پس جان لو کہ یہ وصیت ہم پر اس طرح فرض کی گئی ہے ‘ جس طرح روزے فرض کیے گئے ہیں۔ اس میں تو کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ باوجود قدرت کے روزے نہ رکھنے والا شخص اللہ کے فرض کو ضائع کرنے والا ہے اور گنہگار ہے۔ اس طرح صاحبِ مال شخص والدین اور قرابت داروں کے لیے وصیت ترک کرنے پر گنہگار ہوگا۔ ابن جریر طبری نے عبداللہ بن عباس‘ حسن بصری‘ جابر بن زید‘ طائوس‘ قتادہ‘ ضحاک‘ مسروق‘ عبدالملک بن یعلی‘ ربیع‘ مسلم بن یسار‘ علا بن زیاد اور یاس بن معاویہ جیسے اسلاف کے اقوال اس حوالے سے بطور دلیل نقل کیے ہیں‘‘۔ (جامع البیان لتاویل القرآن‘طبع بیروت ۱۹۸۸ئ‘ ص ۱۱۵‘ ۱۱۶‘ ج ۲ بحوالہ تفہیم المسائل‘ ج ۵‘ ص ۴۸۹ تا ۴۹۸)
مفسر عصرِحاضر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں: ’’بعد کے لوگوں نے وصیت کے اس حکم کو محض ایک سفارشی حکم قرار دے دیا یہاں تک کہ بالعموم وصیت کا طریقہ منسوخ ہی ہوکر رہ گیا۔ لیکن قرآن مجید میں اسے ایک حق قرار دیا گیا ہے‘ جو خدا کی طرف سے متقی لوگوں پر عائد ہوتا ہے (غیر وارثوں کے لیے)۔ اگر اس حق کو ادا کرنا شروع کر دیا جائے تو بہت سے وہ سوالات خود ہی حل ہو جائیں گے جو میراث کے بارے میں لوگوں کو الجھن میں ڈالتے ہیں‘ مثلاً ان پوتوں اور نواسوں کا معاملہ جن کے ماں باپ‘ دادا اور نانا کی زندگی میں مر جاتے ہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۱‘ ص ۱۴۱)
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کیا چاہتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ یتیم پوتے اور دوسرے قرابت داروں کے لیے وصیت کی جائے اور انھیں بھی حصہ دیا جائے۔ فوت ہونے والے کے لیے یہ حکم تھا‘ اگر وہ اس کی تعمیل اس لیے نہ کر سکا کہ اسے اس کا موقع نہ مل سکا‘ تب اس کی تعمیل ورثا کو کرنا چاہیے۔ اس لیے دو بہنوں‘ ایک بھائی کو چاہیے کہ وہ فوت ہونے والے بھائی کے دو بیٹوں ایک بیٹی اور بیوہ کو ۳؍۱ جو غیروارث کے لیے بطور وصیت رکھا گیا ہے‘ دے دیں اور ۳؍۲ آپس میں تقسیم کرلیں۔ کل جایداد کو چھے حصوں میں تقسیم کر کے دوحصے‘ یعنی کل جایداد کا ۳؍۱شہید ہونے والے بھائی کے بیٹوں‘ بیٹی اور بیوہ کو ان کے حصصِ وراثت کے مطابق دے دیں اور بقیہ چار حصے اس طرح تقسیم کریں کہ دو حصے بھائی کو اور ایک ایک حصہ بہنوں کو مل جائے۔(مولانا عبدالمالک)
س : آج کل دنیا میں پرامن تبدیلی اور آمریت کے مقابلے میں جمہوریت اور جمہوری نظام کا چرچا ہے۔ اسے تمام مسائل کا حل تصور کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم اور احادیث کے حوالے سے واضح فرما دیں کہ جمہوریت کی اصطلاح کا مفہوم کیا ہے اور کیا اس کا وجود قرآن و حدیث میں پایا جاتا ہے؟
ج: اس اہم سوال کا براہ راست جواب دینے سے قبل مناسب ہوگا کہ اس بات پر غور کرلیا جائے کہ گو ہم قرآن کریم اور سنت رسولؐ یا حدیث کے بارے میں یہ ایمان رکھتے ہیں کہ یہی ہمارے لیے قیامت تک کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہیں‘ لیکن کیا ہدایت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر ممکنہ موضوع پر تفصیلات بھی فراہم کرے‘ یا ہدایت کا اصل مقصد بنیادی اصول اور بعض ایسی منتخب عملی مثالیں فراہم کرنا ہوتا ہے جو مختلف حالات میں رہنمائی فراہم کریں۔
قرآن و سنت بلاشبہہ قیامت تک کے لیے واحد جامع ہدایات ہیں لیکن ان میں دنیا کے ہر موضوع پر ایک مفصل باب تلاش کرنا یا ہر علمی اور فنی اصطلاح کا پایا جانا ایک غیر ضروری خواہش ہے۔ اس سب کے باوجود وہ جمہوریت ہو یا طب‘ فلکیات ہو یا بحریات‘ علمِ الارض ہو یا علمِ موسمیات‘ فلسفہ ہو یا ادب یا دیگر علوم و فنون‘ ان سب کے لیے اخلاقی اصول اور بنیادیں قرآن و سنت میں پائی جاتی ہیں جس کا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ قرآن طب یا کیمیا یا فلکیات کی کتاب ہے۔
جہاں تک سوال جمہوریت کا ہے ‘ اس اصطلاح سے عموماً ہم وہ سیاسی نظام مراد لیتے ہیں جس کی فکری بنیادیں یورپی فکر میں افلاطون کی کتاب ’’جمہوریت‘‘ سے جاکر ملتی ہیں‘ یاوہ نظام مراد لیتے ہیں جس پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ امریکا یا بعض یورپی ممالک کرتے ہیں۔ ظاہر ہے امریکا یا یورپی ممالک جس جمہوریت کی بات کرتے ہیں اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ مغربی جمہوریت کی بنیاد لادینیت (secularism) پرہے۔ لیکن مغربی جمہوریت میں آزادیِ راے‘ اختلاف کا حق‘ اکثریت کی رائے کا احترام‘ آزادانہ انتخاب کے ذریعے ذمہ دارانِ ریاست کا انتخاب وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جنھیں روحِ جمہوریت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے‘ جب کہ لادینیت اس کا جسم کہا جا سکتا ہے۔
اسلام نے سیاست اور حکومت کے حوالے سے قرآن و سنت میں جو اصول دیے ہیں ان میں روحِ جمہوریت اپنی اعلیٰ ترین شکل میں پائی جاتی ہے اور اس نظام کے خدوخال اور جسم بجاے لادینیت کے قیامِ دین پر مبنی ہے۔ گویا قرآن و سنت نے ایک جمہوری‘ عادلانہ اور دینی معاشرہ و ریاست کے قیام کے لیے ہمیں واضح اصول دیے ہیں جو مغربی جمہوریت سے بلندو برتر ہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو قرآن کریم نے بنیادی سوال یہ اٹھایا ہے کہ انسان اس دنیا میں شترِبے مہار ہے یا وہ اپنے خالق اور مالک کے نمایندے کی حیثیت رکھتا ہے؟ چنانچہ سورہ بقرہ میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ انسان کا اصل مقام اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کا ہے (البقرہ ۲:۳۱)۔ اس خلیفہ کا انتخاب یا تقرر کس طرح ہوگا‘اس کے لیے قرآن کریم نے مختلف مقامات پر ہدایات دی ہیں۔ پہلی تو یہ ہے کہ مشاورت کر کے ایسے فرد کا انتخاب کیا جائے جو اس منصب کا اہل ہو۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اہلِ ایمان کے تمام معاملات مشاورت سے طے ہوتے ہیں (الشوریٰ ۴۲:۳۸)۔ پھر اسی بات کو یوں بیان کیا گیا کہ اپنے امور میںمشورہ کرو اور جب کسی فیصلے پر پہنچ جائو تو پھر نتائج کو اللہ پر چھوڑ دو (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹)۔ ظاہر ہے انتخابِ ذمہ داران سے بڑھ کر اور اہم معاملہ کیا ہو سکتا ہے‘ اس لیے اس کی بنیاد عوامی شوریٰ ہی ہوگی اور مشورے کے بعدلوگ جسے منتخب کریں وہی ذمہ داری پر مقرر کیا جائے گا۔ تاریخ سے اس کی مثال حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کا انتخاب ہے جس میں شوریٰ کی بنیاد پر ان حضرات کو منتخب کیا گیا۔
اسلام کے سیاسی اورمعاشرتی نظام میں ذمہ داریاں کن حضرات کو دی جائیں گی‘ سربراہِ مملکت ہو یا دیگر شعبوں کے سربراہ ہوں وہ کس بنیاد پر منتخب کیے جائیں گے‘ اس کی بھی قرآن و سنت میں ہدایت دی گئی ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ ذمہ داریاں صرف ایسے افراد کو دی جائیں جو اس کے اہل ہوں (اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا - النساء ۴:۵۸)۔ اس اہلیت کو بھی دیگر مقامات پر سمجھا دیا گیا کہ اس سے مراد کیا ہے‘ یعنی وہ افراد جو دیانت دار ہوں‘ امین ہوں‘ علمی اور جسمانی لحاظ سے قوی ہوں‘ فیصلے کی قوت رکھتے ہوں‘ جن پر لوگوں کو اعتماد ہو‘ جو خود منصب کے پیچھے نہ بھاگ رہے ہوں وغیرہ۔
ان ہدایات کو سامنے رکھیں تو جس چیز کو جمہوریت کہا جاتا ہے اسلام کا دیا ہوا نظام اس سے بلند اور روحِ جمہوریت میں اپنی مثال آپ نظر آتا ہے۔ اس نظام میں اللہ کا رسول بھی اپنے صحابہؓ سے مشورہ کرتا ہے اور صحابہ کرامؓ پورے ادب و احترام کے ساتھ اس سے اختلاف کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپؐ جوفیصلہ کر رہے ہیں کیا یہ وحی کی بنیاد پر ہے یا آپ کی اپنی رائے ہے؟ اگررسولؐ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی بنیاد وحی نہیں تو صحابہؓ کی تجویز پر عمل کیا جاتا ہے (غزوئہ بدر)۔ گویا آمریت‘ بادشاہت اور تنہا ایک فرد کی عقل و فیصلے کی جگہ مشاورت پر فیصلے ہوتے ہیں اور صاحبِ امر مشاورت کی پیروی کرتا ہے‘ اسے ویٹو نہیں کرتا۔ اسی کا نام روحِ جمہوریت ہے ‘ جب کہ مغربی جمہوریت بالکل مختلف بنیادوں اور اصولوں پر قائم ہے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)