وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۱۸۸ۧ (البقرہ۲:۱۸۸) اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال نارواطر یقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمھیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصد اً ظالمانہ طریقے سے کھانے کومل جائے۔
عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عَمْرٍ وَ قَالَ ، قَالَ النَّبِیُ لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الرَّاشِیْ وَالْمُرْتَشِیْ وَفِیْ رِوَایَۃٍ عَلَی الرَّائِشِ (بخاری، مسلم) حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رشوت دینے والے اور لینے والے پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔ایک روایت میں ہے کہ ان کے درمیان ’’دلالی کر نے والے پر بھی لعنت ہے‘‘۔
حرام کی کمائی کھانے والے دونوں جہانوں میں نقصان میں ہیں۔ آخرت کا نقصان تو آخرت میں ملے گا، لیکن اس دنیا میں بھی بجاطور پر نقصان ہوتا ہے۔اس کا کبھی انسان کو احساس ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا۔ جیسے عوامی کہاوت ہے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ سب سے بڑا نقصان تو بے اطمینانی اور بے چینی کی صورت میں دامن گیر ہوتا ہے۔ کبھی مالی نقصان اورجانی نقصان ہوتا ہے اور کبھی اس دنیا میں انسان چھوٹ جا تا ہے، لیکن آخرت کی پکڑ باقی رہتی ہے۔
یہاں دو برائیوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے:ایک رشوت، دوسری ناجائز اور غلط سفارش۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے لفظ ’باطل‘ بیان کر کے تمام ناجائز طریقوں سے حاصل کیے ہوئے مالوں کو حرام قرار دیا ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (النساء۴:۲۹)اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ۔
lرشوت:معاشرے میں ایک دوسرے کے مال نا جائز اور حرام طریقے سے کھانے، لوگوں کے حقوق مارنے اور ایک دوسرے پر ظلم کرنے کا ایک عام طریقہ رشوت دینا اور رشوت لیناہے۔ ’رشوت‘ اس مال کو کہتے ہیں، جس کو کوئی شخص اپنی باطل غرض اور ناحق مطالبہ پورا کرنے کے لیے، کسی بااختیار شخص یا حاکم کو دے، تا کہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کرے۔ اس طرح جو شخص کسی خدمت کا معاوضہ اور تنخواہ پا تا ہو وہ اس خدمت کے سلسلے میں لوگوں سے کسی نوعیت کا فائدہ حاصل کرے، جو اس خدمت سے متعلق ہو خواہ وہ لوگ برضاورغبت ہی اسے فائدہ پہنچائیں، بہرحال یہ بھی رشوت کے ضمن میں آتا ہے۔ اسی طرح اپنے عہدے اور ملازمت میں ہوتے ہوئے لوگوں سے ہدیے اور تحفے قبول کرنا، غیر معمولی اور غیر روایتی دعوتیں قبول کرنا یا دیگر غیر معمولی مراعات حاصل کرنا وغیرہ بھی رشوت ہی کی ایک قسم ہے۔
جس طرح رشوت لینا گناہ ہے، اسی طرح رشوت دینا بلکہ اس کام میں دلالی کرنا،رشوت لینے اور دینے میں مدد کرنا اور راشی ومرتشی کا کام آگے بڑھانا بھی گناہ ہے۔
رشوت کی ممانعت کے ساتھ ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکام کو تحفے تحائف اور ہدیے (Gifts) پیش کرنے اور حکام کو ان کے قبول کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
ہَدَایَا الْعُمَّالِ غُلُوْلٌ، حکام جو ہدیے وصول کرتے ہیں یہ خیانت ہے۔
حدیث مبارک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن اللتیہ نامی ایک شخص کو ’قبیلہ ازد‘ پر عامل بنا کر بھیجا۔ جب وہ وہاں سے سرکاری مال لے کر پلٹا تو اسے بیت المال میں داخل کرتے وقت اس نے کہا کہ ’’یہ تو ہے بیت المال کا اور یہ ہد یہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے‘‘۔ اس پر حضورؐنے ایک خطبہ ارشادفرمایا :
تم میں سے ایک شخص کو اس حکومت کے کام میں جو اللہ نے میرے سپرد کی ہے عامل بناکر بھیجتا ہوں، تو وہ آ کر مجھ سے کہتا ہے کہ یہ تو ہے سرکاری مال اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ لوگ خود ہدیے دیتے ہیں تو کیوں نہ وہ اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھا کہ اس کے ہدیے وہیں پہنچتے رہتے؟(بخاری)
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو ہم کسی سرکاری خدمت پر مقرر کریں اور اسے اس کام کی تنخواہ دیں، وہ اگر اس تنخواہ کے بعد اور کچھ وصول کرے تو یہ خیانت ہے۔ رشوت لینے اور دینے والے دونوں کے لیے رشوت کی سزا جہنم بتائی گئی ہے۔ فرمایا:
الرَّاشِیْ وَالْمُرْتَشِیْ کِلَاہُمَا فِی النَّارِ (الحدیث)رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنم میں ہوں گے۔
حرام مال کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حرام مال کھا تا ہے اس میں برکت نہیں دی جاتی، اس کا صدقہ قبول نہیں کیا جا تا اور جو کچھ وہ پیچھے چھوڑ تا ہے، وہ اس کے لیے دوزخ کا ایندھن بنادیا جا تا ہے۔
ایک اور حدیث میں حضورؐ نے فرمایا: جس قوم میں سود پھیل جائے وہ قحط اور گرانی کی مصیبت میں ڈال دی جاتی ہے اور جس قوم میں رشوت پھیل جائے، اس پر رعب ڈالا جا تا ہے، یعنی ایسی قوم بز دل ہو جاتی ہے___ اپنے کسی ذاتی کام کے لیے بطور رشوت کوئی ہدیہ کسی کو دینا بھی اکلِ حرام میں شمار ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ کسی آدمی نے کسی سے اپنی حاجت پوری کرنے کو کہا اور اس نے اس کی حاجت پوری کر دی، اور اُس نے ہد یہ بھیجا اور اس نے قبول کرلیا، تو یہ حرام ہے۔
رشوت اور ہد یہ وصول نہ کرنے کے بارے میں اسلام کا ایک ضابطہ ہے، اور اس کے تحت وہ کسی کو یہ وصول کرنے کی کسی صورت میں بھی اجازت نہیں دیتا۔ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص ہمارا عامل ہے، وہ شادی کے اخراجات بیت المال سے حاصل کرے اور اگر اس کا نوکر نہ ہوتو اس کے لیے بھی وہ بیت المال سے رجوع کرے۔اگر رہنے کے لیے اس کا گھر نہ ہو تو اس کا انتظام بھی حکومت کے ذمے ہے۔اس کے علاوہ اگر وہ کچھ بھی حاصل کرے، تو خائن ہے یا چور ہے‘‘۔ یہی حکم ان حکام کا ہے جو معاملات میں ہدیہ اور تحفے لے کر کسی کی امداد یا اعانت کر یں، مثلاً بیع وشراء، اجارہ، مضاربت، مساقات اور مزارعت وغیرہ۔ اس قسم کے معاملات میں کسی قسم کا بھی ہدیہ اورتحفہ لے کر کام کریں تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ رشوت کا لین دین ہر حالت میں حرام ہے۔حتیٰ کہ کافر، مشرک، یہودی، ہندو کوئی شخص چاہے اپنا ہو یا پرایا، اس سے رشوت لینا یا اس کے ساتھ بے انصافی کرنا حرام ہے۔ اس سلسلے میں ایک ایمان افروز واقعہ سنیے:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جنگ خیبر کے بعد وہاں کے یہودیوں سے زمین کی آدھی آدھی پیداوار پر مصالحت ہوئی تھی۔ جب پیداوار کی تقسیم کا وقت آتا تو آپ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو بھیجتے، وہ ایمان داری سے پیداوار کے دو حصے کر دیتے تھے اور کہہ دیتے تھے کہ ان دو میں سے جو چاہو لے لو۔ یہودیوں نے اپنی عادت یا قومی رواج کے مطابق ان کو بھی رشوت دینی چاہی۔ چنانچہ آپس میں چندہ کر کے اور اپنی عورتوں کے کچھ زیور جمع کیے اور کہا کہ یہ قبول کرو اور اس کے بدلے تقسیم میں ہمارا حصہ بڑھادو۔ یہ سُن کرعبداللہ بن رواحہؓ نے فرمایا: ’’اے یہودیو،خدا کی قسم! تم خدا کی ساری مخلوق میں مجھے مبغوض ہو۔ لیکن یہ مجھے تم پر ظلم کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتا اور جوتم نے رشوت پیش کی ہے وہ حرام ہے، ہم (مسلمان) اس کو نہیں کھاتے‘‘۔ یہودیوں نے ان کی تقریر سُن کر کہا کہ یہی وہ (انصاف) ہے، جس سے آسمان وزمین قائم ہیں۔ (مؤطا امام مالک)
حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں رشوت خوری کے لیے سخت سزا مقرر کر رکھی تھی، تاکہ اس بیماری کا پوری طرح سد باب ہو جائے۔اسی طرح رشوت کی روک تھام کے لیے انھوں نے دوسرے انتظامی ملازمین کی بڑی بڑی تنخواہیں مقرر کیں۔
lسفارش:دوسروں کے حقوق غصب کرنے کا ایک طریقہ سفارش ہے، جس کے لیے قرآن میں شفاعت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے:’’جو بھلائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا‘‘۔ (النساء۴:۵۸)
اس آیت کریمہ میں شفاعت کی قسمیں بیان کی گئی ہیں:ایک یہ کہ جائز اور اپنے حق کے مطالبے کے لیے سفارش کی جائے۔ جب مطالبہ کرنے والا مجبوری کی وجہ سے خود بڑے بااثر لوگوں تک نہیں پہنچ سکتا تو یہ ایک جائز کام ہے۔لیکن اگر خلاف حق کے لیے سفارش کی جائے یا دوسروں کو اس کے قبول کرنے پر مجبور کیا جائے، تو یہ نا جائز سفارش ہے۔اس لیے جو شخص کسی کے جائز حق اور جائز کام کے لیے سفارش کرے گا، تو اسے اس کا ثواب ملے گا، اور جوکسی ناجائز کام کے لیے سفارش کرے گا، تو اسے اس کا عذاب ملے گا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی کی سفارش کی اور اس پر اسے کوئی ہدیہ دیا، اور اس نے قبول کر لیا تو وہ سود کامرتکب ہوا‘‘۔
ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: جو شخص اپنی سفارش کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی حدود (سزاؤں) میں سے کسی حد کے نفاذ کو روک دیتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کے قانون کی مخالفت کرتا ہے۔
بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ قریش کو ایک مخدومی عورت کا بہت خیال تھا، اس نے چوری کی تھی۔ لوگوں نے کہا کہ کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی سفارش کرے گا؟ بالآخر حضرت اسامہ بن زیدؓ نے رسولؐ اللہ سے اس بارے میں گفتگو کی۔ آپ ؐنے فر مایا:’’تم اللہ کی حدود میں سفارش کر تے ہو؟ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا اور فرمایا: ’’اے لوگو، تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو وہ لوگ اسے چھوڑ دیتے تھے، اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے۔ اور قسم ہے خدا کی کہ اگر فاطمہؓ بنت محمدؐ بھی چوری کرتیں تو محمدؐ ان کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالتے‘‘۔
حضرت امام مالکؒ اپنی موطا میں روایت کرتے ہیں کہ ایک جماعت نے ایک چور کو پکڑلیا، تا کہ اسے حضرت عثمانؓ تک پہنچا دیں۔ راستے میں حضرت زبیرؓ ملے۔ لوگوں نے ان سے درخواست کی کہ حضرت عثمانؓ سے آپ اس کی سفارش کر دیں۔ حضرت زبیرؓ نے فرمایا: ’’جب حدود کا معاملہ سلطان تک پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ سفارش کرنے والے پر اور جس کے لیے سفارش کی جائے اس پر لعنت بھیجتا ہے۔ الغرض آج کی دنیا میں سارے فسادات کی جڑ رشوت خوری اور سفارش ہیں۔ جب تک حرام مال سے مسلمان اپنے آپ کو نہ بچائیں، ان کی باقی عبادات اور معاملات قابلِ قبول نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پرائے مال اور پرائے حق کی مغفرت اور بخشش نہیں ہوسکتی، جب تک صاحبِ مال اور صاحبِ حق خود معاف نہ کر دے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہر گناہ بالخصوص رشوت خوری اور نا جا ئز سفارش کی برائی سے نجات دلائے۔