’اسرائیل امریکن جیوش کمیٹی‘ کا ایک وفد بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ ملاقات کرکے اسرائیل اور بھارت کے درمیان تعاون کے نئے امکانات اور راستوں پر بات چیت کررہا تھا۔ اور دوسری طرف دہلی میں اسرائیلی سفارت خانے کا زرعی اتاشی یائر ایشیل کنڑول لائن کے قریب دو زرعی فارموں کا دورہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا:’’ اسرائیل [مقبوضہ] کشمیر میں بھارت اسرائیل زرعی منصوبے کے تحت دو سینٹر آف ایکسی لنس کھولنے کے لیے تیار ہے، ہم اپنی جدید ٹکنالوجی جموں و کشمیر کے کسانوں کو دینے کو تیار ہیں‘‘۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسرائیل کی طرف سے زرعی شعبے میں اس دلچسپی کا گرم جوشی سے خیرمقدم کیا ہے۔
اگرچہ خفیہ طور پر تو پنڈت نہرو ہی کے زمانے میں بھارت اسرائیل تعلقات کا دورشروع ہوچکا تھا جس نے ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے لیے اندرا حکومت کو معاونت بھی دی تھی۔ تاہم، ان تعلقات کا مسلسل انکار کیا جاتا رہا ، مگر اہلِ نظر جانتے تھے کہ ’بھارت اسرائیل تعلقات‘ ایک گہرے راستے پر گامزن ہیں۔ پھر اسرائیل اور بھارت کے درمیان کھلے تعلقات کا آغاز ۳۰سال قبل ہوا تھا، اور نریندر مودی کے دور میں یہ تعلقات بلندیوں کی انتہا پر پہنچ گئے۔ مودی نے ان تعلقات کو باضابطہ تسلیم کیا اور اپنی سرپرستی میں لیا۔ اس طرح وہ اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے بھارتی وزیراعظم بنے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی، بلکہ نریندر مودی نے اس دورے میں فلسطینیوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا اور راملہ کا دورہ کرنے سے احتراز کیا۔ یہ اس بات کا پیغام تھا کہ بھارت اب فلسطینی عوام کی تحریک اور مستقبل کے بارے میں اپنا عالمی سفارتی موقف بھی مکمل طور پر تبدیل کرچکا ہے، جس میں فلسطینیوں کی الگ حیثیت یا ریاست کا کوئی تصور نہیں۔
۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی الگ حیثیت پر شب خون مارا تو مغرب کی خاموش تماشائی کی حیثیت اور کردار کی سطحیں کھلنا شروع ہوگئیں۔ بھارت نے کشمیر کی مناسبت سے تمام قانونی اور آئینی جھوٹے سچّے پردے نوچ کر پھینک دیئے اور دنیا کے چند طاقتور ملکوں کو بتادیا کہ اب وہ اس حوالے سے کسی کی بات نہیں سنے گا۔ یہ پیغام دیتے وقت سرفہرست اسرائیل تھا، جب کہ عرب دنیا دوسرے نمبر پر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۵؍اگست کے بھارتی فسطائی قدم کے خلاف عرب دنیا نہ صرف خاموش رہی بلکہ پاکستان اور عمران خان کو بھی ایسے ہی ’صبر ‘کی تلقین کرتی رہی، جس ’صبر وتحمل‘ کا مظاہرہ انھوں نے فلسطین میں کیا تھا۔ صبر و تحمل کی اس ظالمانہ تلقین پر پاکستان اور عرب ملکوں کے درمیان تلخی کا ماحول بھی بنا اور پاکستان کے وزیراعظم نے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کیا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ہم خیال ملکوں کا اسلامی تعاون تنظیم (OIC) سے ہٹ کر ایک نیا پلیٹ فارم بنانے کی دھمکی دی۔ عرب ملکوں کے پیروں تلے سے زمین سرکنے ہی لگی تھی، اور پھر پاکستان کو اندر سے مجبور کرکے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے روک دیا گیا۔
اسرائیل، فلسطینیوں کی زمین انچوں، گزوں اور ایکڑوں میں ہتھیانے کا مجرم ہے۔ اسرائیل نے پہلا کام ہی یہ کیا تھا کہ فلسطینیوں سے منہ مانگے داموں زمینیں خریدیں۔ جب یہودیوں کی آبادی ان علاقوں میں بڑھ گئی تو یہودی اکابرین کے’اعلانِ بالفور‘ پر عمل درآمد کے اگلے مرحلے کا آغاز ہوا اور باقاعدہ اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا گیا، یعنی بین الاقوامی طاقتیں اسی موقعے کی تاک میں تھیں، انھوں نے بیرونی مدد کرکے اسرائیل کی ریاست قائم کردی۔ بعد میں فلسطینی در بہ در ہوتے چلے گئے اور ان کی زمینوں پر اسرائیلی بستیاں تعمیر ہوتی رہیں۔ آج مقبوضہ فلسطین میں خود فلسطین ایک نقطہ ہے اور اسرائیل ایک بڑا دائرہ۔
بھارت اور اسرائیل کے درمیان کھلے عام فوجی تعاون تو ۳۰برس سے جاری ہے، اور یہ تعاون ۱۹۹۰ء میں اُس وقت بے نقاب ہوا تھا جب کشمیری حریت پسندوں نے جھیل ڈل میں ایک شکارے پر حملہ کرکے اسرائیلی کمانڈوز کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ سیاحوں کے رُوپ میں کمانڈوز تھے جنھوں نے حریت پسندوں کو ٹف ٹائم دیا تھا۔ بعد میں یہ تعلق مختلف واقعات کی صورت میں عیاں ہوتا چلا گیا۔
اب بھارت نے کشمیریوں کی زمینیں ہتھیانے اور انھیں اقلیت میں بدلنے کے لیے اسرائیل کے تجربات سے استفادہ کرنا شروع کردیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کشمیریوں کی زمینیں عرب باشندوں کے ناموں سے یا انھیں آگے رکھ کر خریدی یا استعمال میں لائی جائیں، مگر اس کے پیچھے حقیقت میں اسرائیل اور بھارت ہی ہوں گے۔ بھارت نے ۵؍ اگست کے فیصلے کے ذریعے متروکہ املاک کے نام پر مختلف جنگوں اور دوسرے مواقع پر نقل مکانی کرنے والے مسلمانوں کی زمینوں کا کنٹرول اور حقِ ملکیت حاصل کرناشروع کیا ہے۔
فی الحال تو انھیں نئی زمینیں حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، مگر وہ ان ہتھیائی گئی زمینوں کو ماڈل بستیاں یا باغ بنانے کے بعد کشمیر کے دوسرے زمین داروں کو بھی اپنی طرف دیکھنے اور شراکت داری قبول کرنے پر مجبور کریں گے۔ اسی لیے کشمیر کی سب سے بڑی صنعت سیب کے باغات کو حیلوں بہانوں سے تباہ کیا جارہا ہے، تاکہ ان باغوں کے مالکان ’نئے تجربات‘ کے نام پر بھارت اور اسرائیل کی شراکت داری قبول کرلیں۔اُونٹ کو خیمے میں سر دینے تک مشکل ہوتی ہے، یہ کام ایک بار ہوجائے تو پھر خیمہ اس کے سر پر ہوتا ہے۔