یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ برطانوی شہر لیسٹر میں جب ستمبر میں اس ملک کی تاریخ میں پہلی بار ’ہندو- مسلم فساد‘ برپا ہوا۔ اس سے قبل ہندوانتہا پسندوں کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ (RSS) کے کئی لیڈروں نے برطانیہ کا دورہ کیا۔ یہ فساد ٹھیک اسی طرح کیا گیا، جس طرح عام طور پر بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات برپا کروانے کے لیے بہانہ سازی کی جاتی ہے ، یعنی یہ کہ مسلم علاقوں سے زبردستی جلوس نکال کر، اور جان بوجھ کر اشتعال انگیز نعرے بلند کرکے مسلمانوں کو رد عمل پر مجبور کیا جاتاہے۔ بھارت میں ہونے والے تقریباً تمام فسادات کی یہ کہانی ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ کبھی رام نومی، تو کبھی گنیش، تو بھی کسی اور جلوس کو زبردستی مسلم علاقوں سے گزارنا ، یا کسی مسجد کے پاس عین نماز کے وقت اس جلوس کو روک کر بلند آواز میں میوزک بجانا وغیرہ ۔ پھر ایسے جلوس یا فساد سے قبل اسی شہر یا علاقے میں آر ایس ایس یا اس سے وابستہ کسی تنظیم کا اجتماع ہوتا تھا اور واردات کے وقت پولیس دانستہ طور پر غائب ہوجاتی تھی، تاکہ فسادیوں کو کھل کھیلنے کا موقع دیا جائے ۔ پولیس کی آمد کا وقت بھی اس بات پر منحصر ہوتا ہے، کہ فساد میں کس کا پلڑا بھاری ہو رہا ہے ، اور پھر موقع پر پہنچ کر پولیس اُجڑے پجڑے مسلمانوں ہی کو غضب کا نشانہ بناتی ہے ۔ ایک سینئر پولیس آفیسروبھوتی نارائین رائے نے فسادات میں بھارتی پولیس کے اس رویے پر ڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔
بھارت میں ’جیتند نارائین کمیشن‘ سے لے کر ’سری کرشنا کمیشن‘ تک، یعنی فسادات کی تحقیق کےلیے جتنے بھی کمیشن یا کمیٹیاں آج تک بنی ہیں ،ان سب نے آر ایس ایس یا اس سے وابستہ کسی نہ کسی تنظیم کو قتل و غارت یا لوٹ مار کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے ۔ مگر دوسرے یورپی ممالک ویزا حاصل کرنے والے مسلمانوں سے لمبی چوڑی ضمانتیں اور بیان حلفی لیتے ہیں کہ ان کا تعلق کسی انتہاپسند تنظیم یا کسی بنیاد پرست سوچ کی حامل تنظیم سے تو نہیں ہے؟ مگر دوسری طرف انھوں نے ہندو انتہاپسند تنظیموں کو اس زمرے سے خارج کیا ہوا ہے ۔ ایل کے ایڈوانی اور بی جے پی کے حامی تجزیہ کار بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو جرمنی کی کرسچن ڈیموکریٹ یا برطانیہ کی ٹوری پارٹی سے تشبیہہ دیتے ہیں ۔ مگر یہ بات کہتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ بی جے پی کی کمان اس کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے ، بلکہ اس کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل ہندو قوم پرستوں کی سرپرست ایک فاشسٹ اور نسل پرست تنظیم آر ایس ایس کے پاس ہے۔ جو فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی خفیہ تنظیم ہے، جس کے مالی وانتظامی معاملات کے بارے میں بہت ہی کم معلومات منظر عام پر موجود ہیں ۔ چند برس قبل تو برطانیہ کی ہندو ممبر پارلیمنٹ پریتی پٹیل نے آرایس ایس کے جوائنٹ جنرل سیکریٹری دتارے ہوشبولے کی برطانیہ آمد کے موقعے پر برطانوی حکومت سے درخواست کی تھی، کہ ان کا استقبال کیا جائے ۔ آر ایس ایس کی بیرو ن ملک شاخ ’ہندو سیوا سنگھ‘(HSS) نے ہوشبولے کو لندن میں ایک پروگرام RSS: A Vision in Action کی صدارت کےلیے مدعو کیا تھا ۔
حیرت کا مقام ہے کہ مغرب نے جس فاشسٹ نظریے کو ۱۹۴۵ء میں شکست دے کر ایک جمہوری، لبرل اور تکثیری معاشرے کو تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی تھی، انھوں نے آخر کس طرح بھارت میں پروان چڑھتے وحشت ناک فاشز م سے نہ صرف آنکھیں بندکرلی ہیں ، بلکہ ا پنے ملکوں میں بھی اس نظریے کی اشاعت و تقویت کی اجاز ت دے کر اس سے وابستہ لیڈروں کو گلے بھی لگا رہے ہیں۔
برطانیہ میں رُونما ہونے والے ان فسادات سے عندیہ ملتا ہے کہ ’ہندو توا نظریے‘ نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوؤں میں جگہ بنا کر دُنیا کے مؤثر ممالک کی سرحدیں عبور کر لی ہیں ۔ برطانیہ میں بھارتی نژاد آبادی کل آبادی کا ۲ء۵ فی صد اور پاکستانی نژاد۵ء۱ فی صد ہے۔ امریکا میں ۲ء۷ملین بھارتی نژاد آبادی ہے ۔ میکسیکن کے بعد شاید تارکین وطن کی یہ سب سے بڑی آبادی ہے اور یہ خاصے تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر براجماں ہیں ۔ آر ایس ایس کی دیگر شاخیں یعنی ’ویشوا ہندو پریشد‘ (VHP) بھی ان ملکوں میں خاصی سرگرم ہے۔ یاد رہے کہ یہ تنظیم ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت میں شامل تھی، جس کی وجہ سے اس پر بھارت میں کچھ سال تک پابندی بھی لگی تھی ۔ اس دوران جب پولیس اور دیگر تفتیشی اداروں نے اس کے دفاتر کی دہلی اور دیگر شہروں میں تلاشی لی، تو معلوم ہوا کہ بابری مسجد کی مسماری کےلیے بڑے پیمانے پر فنڈنگ یورپ اور خلیجی ممالک ہی سے آئی تھی۔
دراصل ونایک دمودر ساوارکر [م:۱۹۶۶ء] جو ’ہندو توا نظریہ‘ کے خالق ہیں ، انھوں نے ہندوؤں پر زور دیا تھا کہ وہ نئی زمینیں تلاش کرکے ان کو نو آبادیوں میں تبدیل کریں ۔ ان کو رہ رہ کر یہ خیال ستاتا تھا کہ مسلمان او ر عیسائی دنیا کے ایک وسیع رقبہ میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہندو صرف جنوبی ایشیا میں بھارت اور نیپال تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں ۔ اپنی کتابEssentials of Hindutva میں وہ آر ایس ایس کے اکھنڈ بھارت کے فلسفے سے ایک قدم آگے جاکر عالمی ہندو نظام یا عالمی ہندو سلطنت کی وکالت کرتے ہیں ۔ ایک صدی بعد اس وقت آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں اس نظریے کو عملاً نافذ کروانے کا کام کررہی ہیں۔
اگرچہ یہ تنظیمیں یورپ میں ۱۹۶۰ء ہی سے کام کرتی آرہی ہیں، مگر ان کا دائرہ ۲۰۱۴ء میں مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد بڑا وسیع اور فعال ہو گیا ۔ آر ایس ایس، ایچ ایس ایس اور دیگر تنظیمیں اب ۴۸ممالک میں سرگرم ہیں۔ امریکا میں ’ہندوسیوا سنگھ‘ نے ۳۲ریاستوں میں ۲۲۲شاخیں قائم کی ہیں اور اپنے آپ کو ہندو فرقہ کے نمائندہ کے بطور پیش کیا ہوا ہے ۔ متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں بھی وہ سرگرم ہیں ۔ ابھی حال ہی میں آر ایس ایس کے تھینک ٹینک ’انڈیا فاؤنڈیشن‘ کے ذمہ داروں نے ترکیہ کا دورہ کرکے وہاں حکومتی شخصیات اور تھینک ٹینک کے ذمہ داروں سے بات چیت کی، جو اپنی جگہ نہایت چونکا دینے والا واقعہ ہے اور اس کا نوٹس لینے کی اشد ضرورت ہے۔
آر ایس ایس افریقی ملک کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط پوزیشن اختیار کرچکی ہے ۔ کینیا میں اس کی شاخوں کا دائرۂ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ، یوگنڈا، موریشس اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے، اور وہ ان ممالک کے ہندوؤں پر بھی اثر انداز ہورہی ہے۔
حیران کن بات یہ کہ ان کی پانچ شاخیں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں ۔ چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے، اس لیے وہاں کی شاخیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں اور اکثر یوگا کے نام پر اجتماع منعقد کرتے ہیں ۔ فن لینڈ میں ایک الیکٹرونک شاخ ہے، جہاں ویڈیو کیمرے کے ذریعے بیس ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں ۔ یہ ممالک وہ ہیں جہاں پر آر ایس ایس کی باضابطہ شاخ موجود نہیں ہے ۔
امریکی تنظیم کی ایک رپورٹ Hindu Nationalist Influence in The US میں بتایا گیا کہ ۲۰۰۱ءسے ۲۰۱۹ء تک آر ایس ایس سے وابستہ سات تنظیموں نے امریکا میں۱۵۸ء۹ ملین ڈالر اکٹھے کیے، جس میں اکثر رقم بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے پر خرچ کی گئی۔ پھر ۱۳ ملین ڈالر ایک تنظیم Civilization Foundation کو دیئے گئے، تاکہ امریکی یونی ورسٹیوں میں تحقیقی کاموں پر اثر انداز ہوں ۔ ٹیکس گوشواروں کے مطابق ایک تنظیم ’اوبیرائی فاونڈیشن‘ نے امریکی ریاستوں میں نصابی کتابوں اور اساتذہ کی تربیت پر ۶ لاکھ ڈالر خرچ کیے، ان میں سے ڈیڑھ لاکھ ڈالر کیلے فورنیا کے اسکولوں پر خرچ کیے گئے ۔ اسی تنظیم نے سان ڈیاگو اسٹیٹ یونی ورسٹی کو تحقیق کے لیے ایک بڑی بھاری رقم دی۔ جس میں سکھ مت، جین مت، بدھ مت اور ہندو مت کی چار دھرم روایات میں کام کرنے والے اسکالرزکے بارے میں معلومات کا ڈیٹا بیس بنانے کا ایک پروجیکٹ بھی شامل تھا ۔ امریکی محکمۂ انصاف کے مطابق کئی تنظیموں کو بھارتی حکومت نے ہرماہ ۱۵ہزار سے ۵۸ہزار ڈالر مختلف امریکی ادارو ں میں لابی کرنے کےلیے دیئے ۔ امریکا میں سرگرم آرایس ایس سے وابستہ ۲۴تنظیموں نے اپنے گوشواروں میں ۹۷ء۷ ملین ڈالر اثاثے ظاہر کیے ہیں ، جس میں ’ویشوا ہندو پریشد‘ کی امریکی شاخ کے پاس ۵ء۳ملین ڈالر تھے ۔ نومبر ۲۰۲۰ءکو سنگھ نے دیوالی منانے کےلیے ایک ورچوئل جشن منعقد کیا، جس میں سان فرانسسکو کے آٹھ میئرز اور دیگر منتخب افراد نے شرکت کی۔۲۰۰۱ء اور ۲۰۲۲ء کے دوران سنگھ سے منسلک پانچ اداروں: ’ایکل ودیالیہ فاوَنڈیشن آف یو ایس اے‘، ’انڈیا ڈویلپمنٹ اینڈ ریلیف فنڈ‘، ’پرم شکتی پیٹھ‘، ’سیوا انٹرنیشنل‘، ’امریکا کی وشوا ہندو پریشد‘ کے ذریعے امریکا سے ۵۵ملین ڈالر بھارت منتقل کیے گئے ۔ یہ سبھی تنظیمیں بھارت میں اقلیتوں پر حملوں اور سماجی خلیج وسیع کرنے کی ذمہ دار ہیں ۔
بھارتی تارکین وطن کا دوغلا پن اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن ممالک میں یہ رہتے ہیں وہاں پر تو وہ لبر ل اور جمہوری نظام کے نقیب اور اقلیتوں کے محافظ کے طورپر اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، مگر بھارت میں ان کا رویہ اس کے برعکس رہتا ہے ۔ مغرب یا خلیجی ممالک میں وہ غیر سرکاری تنظیموں کو کام کرنے کی آزادی کے خواہاں ہیں ،مگر بھارت میں مودی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق و دیگر ۲۵۰غیرسرکاری تنظیموں پر بیرون ملک سے فنڈ حاصل کرنے پر پابندی لگانے کی حمایت کرتے ہیں ، حتیٰ کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے ادارے کے اثاثے بھارت میں منجمد کردیئے گئے ہیں۔ کسی اور ملک میں اس طرح کا اقدام تو عالمی پابندیوں کو دعوت دینے کے مترادف تھا ۔ بھارتی تارکین وطن اور سفارت کار دنیا بھر میں مہاتما گاندھی کو اخلاقیات کے ایک اعلیٰ نمایندے کے طور پر پیش کرتے ہیں ، مگر اپنے ملک میں اسی گاندھی کے قاتل ناتھو را م گوڑسے اور اس قتل کے منصوبہ سازوں ، جن میں ویر ساواکر اور آر ایس ایس سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں ، ان کی پذیرائی کرتے ہیں ۔
کانگریس پارٹی کی بیرون ملک شاخ کے ایک لیڈر کمل دھالیوال کے مطابق جو طالب علم آج کل بھارت سے یورپ یا امریکا کی درسگاہوں میں آتے ہیں ، لگتا ہے کہ جیسے ان کا ’غسلِ ذہنی‘ (برین واشنگ) کی گئی ہو ۔ صحافی روہنی سنگھ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ نظریاتی طور پر ان کی پرورش ہندو قوم پرستی کے سخت خول میں ہوئی ہے اور وہ اس نظریے کو اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں ، جس میں مسلمانوں کے ساتھ نفرت کا عنصر بڑا نمایا ں ہوتا ہے ۔ ان میں سے ہرفرد بھارت سے چلنے والے کسی نہ کسی ’وٹس ایپ گروپ‘ کا ممبر ہوتا ہے، جہاں اقلیتوں کے خلاف روزانہ شرمناک ہرزہ سرائی کی جاتی ہے ۔
معروف قانون دان اے جی نورانی نے اپنی ضخیم تجزیاتی اور تحقیقی کتابThe RSS: A Menace to India میں لکھا ہے کہ اس تنظیم کی فلاسفی ہی فرقہ واریت، جمہوریت مخالف اور فاشزم کی اشاعت و ترویج پر ٹکی ہے ۔ سیاست میں چونکہ کئی بار سمجھوتوں اور مصالحت سے کام لینا پڑتا ہے، اس لیے اس میدان میں براہِ راست کُودنے کے بجائے اس نے فرنٹ آرگنائزیشن کے طور پر پہلے۱۹۵۱ء میں جن سنگھ اور پھر ۱۹۸۰ء میں بی جے پی تشکیل دی ۔ بی جے پی پر اس کی گرفت کے حوالے سے نورانی کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کے ایما پر اس کے تین نہایت طاقت ور صدور ماولی چندر ا شرما، بلراج مدھوک اور ایل کے ایڈوانی کو برطرف کیا گیاتھا ۔ ایڈوانی کا قصور صرف یہ تھا کہ ۲۰۰۵ء میں کراچی میں اس نے بانی ٔپاکستان محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دے کر ان کو ایک عظیم شخصیت قرار دیا تھا ۔
۲۰۱۹ءمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے دنیا کو آر ایس ایس اور اس کے عزائم سے خبردار کیا تھا ۔ اس تقریر کے وسیع اثرات کو زائل کرنے کے لیے آرایس ایس کے سربراہ کو پہلی بار دہلی میں غیر ملکی صحافیوں کے کلب میں آکر میٹنگ کرکے وضاحتیں دینی پڑیں ۔ ورنہ آر ایس ایس کا سربراہ کبھی میڈیا کے سامنے پیش نہیں ہوتا۔ مگر شاید پاکستانی حکمرانوں کی تقدیر میں گفتار کے غازی کا ہوناہی لکھا ہے یا وہ صرف ایونٹ مینجمنٹ پر یقین رکھتے ہیں اور اس لیے ہمیشہ کی طرح تقریر کے بعد واہ واہ لوٹ کر خوش ہو جاتے ہیں ۔ اپنی تقریر کا فالو اَپ کرنے کی ان کو توفیق نصیب نہیں ہوتی ۔ کیا وقت نہیں آیا ہے کہ مغرب کو بتایا جائے کہ جس فاشزم کو انھوں نے شکست دی تھی، وہ کس طرح ان کے زیرسایہ، خود اُن کی جھولی میں کس طرح دوبارہ پنپ رہا ہے، اورجو بہت جلد امن عالم کےلیے ایک شدید خطرہ ثابت ہو سکتا ہے؟