عالمی سطح پر اُبھرنے والی چند شخصیات میں نیلسن منڈیلا [م:۵دسمبر ۲۰۱۳ء]کے بعد داتو سری انور ابراہیم [پ:۱۰؍اگست ۱۹۴۷ء]، موجودہ وزیراعظم ، ملایشیا، ایک ایسی شخصیت ہیں، جنھیں ہم تاریخ ساز اور سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز کرنے والی شخصیت کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ جنھوں نے ملایشیا کے نومبر۲۰۲۲ء میں منعقد ہونے والے ۱۵ویں عام انتخابات میں سب سے بڑی تعداد میں نشستیں جیتنے والے محاذ کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ انور ابراہیم کے محاذ کی یہ انتخابی کامیابی، دراصل ناانصافی کے خلاف عوام کا ردعمل ہے۔ تقریباً ۲۵سال کے طویل عرصے کے بعد انور ابراہیم کے ساتھ انصاف کیا گیا اور اُنھیں حکومت بنانے کے لیے مدعوکیا گیا۔ درحقیقت یہ انصاف کی کامیابی ہے۔
انورابراہیم جنھیں ۲۵ سال قبل ہی ملایشیا کےوزیراعظم بن جانا چاہیے تھا، لیکن ڈاکٹر مہاتیرمحمد سابق وزیراعظم ملایشیا کی پالیسی کے نتیجے میں انھیں نائب وزیراعظم کے عہدے سے محض اس بناپر علیحدہ کردیا گیا، کہ انھوں نے ملک میں برپا ہونے والی معاشی بدعنوانیوں اور انتظامی بے ضابطگیوں کے خلاف آواز اُٹھانا شروع کی تھی۔
ڈاکٹر مہاتیرمحمد نے اُنھیں نہ صرف برطرف کردیا بلکہ بے بنیاد الزامات لگاکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ ڈاکٹر موصوف کی اس ظالمانہ روش نے نہ صرف انورابراہیم کو نقصان پہنچایا، بلکہ خود ملک کو بھی نقصان پہنچایا۔ اگر ڈاکٹر مہاتیرمحمد اقتدار سے انور ابراہیم کو غیرفطری طریقے سے راستے سے نہ ہٹاتے تو آج ملایشیا، لاجواب ترقی کی منازل طے کرکے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں جگہ حاصل کرسکتا تھا۔
انورابراہیم نے مہاتیرمحمد کی جانب سے کی جانے والی ان تمام ناانصافیوں کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھی اور ایک نئی سیاسی جماعت پیپلزجسٹس پارٹی (PKR) کے قیام کا اعلان کیا۔ جس کی قیادت اُن کی اہلیہ ڈاکٹر وان عزیزہ [پ:۱۹۵۲ء]نے سنبھال لی اور ایک تاریخ ساز شخصیت بن کر ملایشیا کے سیاسی اُفق پر نمودار ہوئیں۔ انورابراہیم جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے اپنی آواز بلند کرتے رہے۔ ان کی حالیہ کامیابی اور اُن کا وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہونا دراصل ان کی اَن تھک جدوجہداور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ جو لوگ اسلام کے اجتماعی نظام کو پیش کرتے ہیں اور سیاسی نظام کی اصلاح چاہتے ہیں اور ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، اُنھیں انورابراہیم کی جدوجہد سے سبق سیکھنا چاہیے، اور اپنے عمل کو جہد ِ مسلسل میں تبدیل کردینا چاہیے۔
انورابراہیم نے بحیثیت اسٹوڈنٹ لیڈر، ملایشیا کی سماجی زندگی میں ۱۹۷۱ء میں ABIM (Muslim Youth Movement of Malaysia ) کے قیام کے ذریعے حصہ لیا اور پھر ۱۹۹۸ء تک مسلسل ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ملایشیا کی سیاست پر چھاگئے۔ اسلام سے اُن کی وابستگی اور اسلام کے آفاقی تصورنے اُنھیں ساری دُنیا میں جاری اسلامی انقلابی تحریک سے قریب کر دیا۔ وہ ملایشیا میں اسلامی جدوجہد کے طاقت ور نمایندے کی حیثیت سے اُبھرے اور ۱۹۸۲ء میں ملایشیا کی معروف سیاسی جماعت UMNO میں شریک ہوئے۔ پھر اسلامی سیاسی جماعت PAS کے ساتھ مل کر اسلامی نظامِ تعلیم کے لیے جدوجہد جاری رکھی، جس کے نتیجے میں ۱۹۸۳ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔بحیثیت وزیرتعلیم انور ابراہیم نے اسلامی یونی ورسٹی کی ترقی میں زبردست کردار ادا کیا۔یہ یونی ورسٹی آج عالمِ اسلام کی ایک بہترین درس گاہ کی حیثیت سے ممتاز مقام رکھتی ہے۔
۲۴نومبر ۲۰۲۲ء، شام پانچ بجے ملایشیا کے بادشاہ کی جانب سے اُنھیں وزیراعظم کا حلف دلایا گیا۔ ملایشیا کے بادشاہ شاہ سلطان عبداللہ سلطان احمد شاہ نے انور ابراہیم کے حق میں فیصلہ کرنے سے پہلے ملک کے بہت سے لوگوں سے مشورہ کیا اور آخر میں ملایشیا کی تیرہ ریاستوں کے بادشاہوں سے بھی مشورہ کیا۔ سبھی لوگوں نے انورابراہیم کووزیراعظم کی حیثیت سے قبول کرتے ہوئے اپنا تعاون پیش کیا۔
انورابراہیم کی پارٹی اور اُن کی اتحادی جماعتوں نے حالیہ انتخابات میں صرف ۸۲سیٹیں جیتی ہیں، اس لیے اُنھیں ملک کی مشہورومعروف سیاسی جماعت UMNO اور اُن کے محاذ، BN جنھوں نے ۳۰سیٹیں جیتی ہیں اور دیگرچھوٹی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا پڑی۔ اس طرح وہ ملک کے دسویں وزیراعظم بن کر سیاست کے ایوانوں میں شاندار طریقے سے واپس آئے ہیں۔ ۷۵سالہ سیاست دان انورابراہیم ملک کے تمام طبقوں اور نسلی گروپوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ وہ سب سے پہلے سیاسی استحکام کے لیے جدوجہد کریں گے۔ اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ اُن کی زیرقیادت حکومت کسی ایک سیاسی جماعت کی حکومت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ’متحدہ حکومت‘ ہے، جس میں کئی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ سب کا مقصد ملک کی معیشت کو بہتر بنانا اور عوام کی مشکلات کو آسان کرنا ہے۔
انور ابراہیم ملک کو مالی بدعنوانی اور بدانتظامی سے نجات دلانا چاہتے ہیں اور اسلامی بنیادوں پر ملک کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ لوگ اُن سے یہی اُمید کرتے ہیں کہ وہ اسلامی بنیادوں پر ملک کی تعمیر و ترقی کےلیے کام کریں گے۔ حالیہ انتخابات میں پارٹی کی سطح پر اسلامی جماعت نے سب سے زیادہ سیٹیں جیتی ہیں۔ اس لیے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے نوجوانوں کی اکثریت اسلامی خطوط پر ملک کی تشکیلِ نو چاہتی ہے۔ انورابراہیم کے لیے بحیثیت وزیراعظم سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ کیا وہ اسلامی شناخت اور سب کے ساتھ مل کر ملک کو روحانی اور اخلاقی بنیادوں پر ایک منفرد مقام دلانے میں کامیاب ہوں گے؟ اس کام کے لیے اُنھیں ملک کی اسلامی جماعتوں کا تعاون حاصل کرنا ہوگا۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ انورابراہیم بحیثیت وزیراعظم ملایشیا میں کامیاب ہوں گے اور ملک کو معاشی اور سیاسی مسائل سے نجات دلا کر ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔