سیرتِ طیبہ کا مطالعہ سعادت ہے۔ اس موضوع پر دل کی حضوری، احتیاط پسندی اور آخرت میں جواب دہی کے کڑے احساس کے ساتھ لکھنا تو بڑے نصیب کی بات ہے۔ ہزاروں افراد نے سیرتِ پاکؐ پر لاکھوں صفحے لکھے ہیں۔ دُنیابھر کی زبانوں میں سیرت پاکؐ پر لکھا جارہا ہے۔ یہ سیرتِ پاکؐ کی معجزاتی کشش ہے کہ جو ایک نہ بجھنے والی پیاس کی مانند ہرصاحب ِ ایمان و قلم کو آمادہ کرتی ہے کہ آپؐ پر لکھ کر درود و سلام بھیجے۔
منیراحمد خلیلی ایک سنجیدہ دانش ور ہیں۔ انھوں نے لڑکپن ہی سے تحریک اسلامی سے وابستگی اختیار کی، اور آج تک، ملک میں ہوں یا بیرونِ ملک، دعوتِ دین کی خدمت سے اس عملی وابستگی کو تازہ دم رکھا ہے۔ زیرنظرکتاب ان کے جذبۂ محبت ِ رسولؐ کی مظہر ہے۔ کارِ دعوت میں اسوئہ حسنہؐ کو بنیادی ذریعہ بنانے کی ضرورت نے انھیں یہ کتاب لکھنے پر آمادہ کیا۔ اس مقصد کے لیے وسیع مطالعے کے بعد یہ علمی کتاب شائع کی گئی ہے۔ (س م خ)
جب بھی دسمبرکا مہینہ آتا ہے تو سقوطِ مشرقی پاکستان کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ اُس سال پاکستان دو حصوں میں اس طرح تقسیم ہوا کہ اُس کی آبادی کے بڑے حصے پر، بھارت کی فوجی مدد اوربھارت کی پشت پناہی سے وہاں پر عوامی لیگ نے ایک قیامت برپا کی۔ مشرقی پاکستان میں ۳۴ہزار پاکستانی فوجی، چاروں طرف بھارتی یلغار سے گھرے، سپلائی لائن سے کٹے اور داخلی سطح پر عوامی لیگ کی تخریب کاری کا مقابلہ کرتے ہوئےساڑھے نو ماہ تک، ملک کے دفاع کے لیے میدان میں کھڑے رہے۔ افسوس کہ اُن کی شجاعت اور قربانیوں کا باب بھی آج تک تشنۂ تحریر ہے۔
اس جنگ کا یہ پہلو بڑا عبرت ناک ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کی سرپرستی میں، پاکستان کے خلاف جو بھی زہریلا پروپیگنڈا گھڑا اور پھیلایا گیا، اس کو جانچنے کے بجائے، من و عن قبول کرلیا گیا۔ صرف دشمن ہی نے نہیں، بلکہ خود پاکستان کے بہت سے لکھنے، بولنے والوں نے بھی، نہ صرف دشمن سے بڑھ کر دشمن کاموقف قبول کیا بلکہ بلاتحقیق اسے آگے پھیلایا۔ جس کا ایک شاخسانہ یہ الزام بھی ہے کہ ’’پاکستان کی فوج اور دفاعِ پاکستان کے لیے کھڑے محب ِ وطن پاکستانی بنگالیوں اور غیربنگالیوں نے، ’بنگالی عوام کا قتل عام‘ کیا‘‘۔ پھر یہی افسانہ، ’حقیقت‘ سمجھ کر قبولِ عام اختیار کرتا چلا گیا۔
عوامی لیگ اور اس کی مسلح تنظیم ’مکتی باہنی‘ نے حقیقی معنوں میں جس بڑے پیمانے پر غیربنگالی پاکستانیوں اور پاکستان کے دفاع کے لیے ثابت قدم بنگالیوں کا قتل عام کیا، اسے نہ کہیں بیان کیا گیا اور نہ شائع ہی کیا گیا۔ تحریک پاکستان کے ممتاز کارکن قطب الدین عزیز صاحب نے بڑی محنت سے ۱۹۷۴ء میں ایک کتاب Blood and Tears میں یہ ہولناک حقائق قلم بندکیے تھے، مگر افسوس کہ اس کتاب کو بھی بڑے پیمانے پر قومی یادداشت کا حصہ نہیں بنایا گیا (۴۰ برس بعد ہم نے اس کتاب کا اُردو ترجمہ خون اور آنسوؤں کا دریا کے نام سے منشورات سے شائع کیا)۔
جناب بریگیڈیئر کرّار علی آغا اپنی زیرتبصرہ کتاب میں عوامی لیگی درندگی کے دوسرے نظرانداز شدہ رُخ کو سامنے لائے ہیں۔ انھوں نے نہایت ذمہ داری سے یہ پہلو بیان کیا ہے کہ مشرقی پاکستان کے کن کن علاقوں میں، کس کس انداز سے مارچ سے مئی ۱۹۷۱ء کے دوران، غیربنگالی پاکستانیوں کی نسل کشی کی گئی، مگر وہ ساری مظلومیت دشمن کے پراپیگنڈے تلے دب کر رہ گئی۔
ہمارے لیے یہ امر آج تک حیرانی کا باعث ہے کہ دشمن کے اس منفی پراپیگنڈا کا مدلل، شافی اور عادلانہ جواب دینے اور صریح جھوٹ پر مبنی:بھارتی، مکتی باہنی و عوامی لیگ کی ابلاغی مہم اور اُن کے انسانیت کش جرائم کی حقیقی تصویرپیش کرنے سے ہمارے تعلیمی، تحقیقی، دفاعی اور صحافتی ادارے کیوں خاموشی اور لاتعلقی کا شکار رہے ہیں؟ بریگیڈیئر کرّار علی آغا نے اپنی کتاب میں مصدقہ حقائق پیش کیے ہیں۔ اس کتاب کو لیفٹیننٹ جنرل (ر) طاہرقاضی صاحب نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔جس پر مصنف اور قاضی صاحب تحسین کے مستحق ہیں۔ اس کتاب کا اُردو اور بنگلہ میں ضرور ترجمہ شائع ہونا چاہیے۔ (س م خ)
مسلمانوں کے ساتھ عموماً اور پاکستان کے ساتھ خصوصاً یہ ناقابلِ تصور المیہ وابستہ دکھائی دیتا ہے کہ ان کے ہاں علم تاریخ کے باب میں لاتعلقی کا رویہ پایا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں مخالف قوتیں بہت تیزی کے ساتھ، منفی اور جھوٹی چیزیں تھوپ دیتی ہیں اور پھر اگر کسی کو ہوش آئے تو و ہ محض وضاحتوں میں اُلجھ کر رہ جاتاہے۔ اس کی ایک بڑی مثال، مشرقی پاکستان میں ۱۹۷۱ء کے دوران بھارت نے اپنی مداخلت اوریلغار کو سہارا دینے کے لیے جس جھوٹے پراپیگنڈے کا سہارا لیا تھا، وہ سب کچھ آج تک، اسی طرح کی کذب بیانی کے ساتھ دُہرایا جارہا ہے، اور یہاں، وہاں اس پہ’اعتبار‘ بھی کیا جارہاہے۔
جناب افراسیاب ہاشمی، پاکستان کے سابق سیکرٹری وزارتِ خارجہ رہے اور ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمشنر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ وہ اعلیٰ تحقیقی اور تصنیفی ذوق رکھتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے حوالے سے منفی بھارتی اور عوامی لیگی پراپیگنڈے کے رَد کے لیے انھوں نے یہ کتاب مرتب کی ہے، جس میں علمی دیانت اور ادارتی خوب صورتی کے ساتھ، زیربحث موضوع کے حوالے سے جملہ اُمور پیش کر دیئے ہیں۔ اس ضمن میں منفرد کام یہ کیا ہے کہ بیش تر الزامات اور وضاحتی موقف کو بغیر کسی بحث کے من و عن پیش کیا ہے، جو تضاد کو بے نقاب کرنے کا معقول لوازمہ سامنے لاتا ہے۔
کتاب کا ہر باب انفرادیت کا حامل ہے:پہلا حصہ ۳۱۲ صفحات تک پھیلا ہوا ہے جس میں مذکورہ بالا اُمور ہیں: دوسرا حصہ ۳۱۳ سے ۴۳۹ تک ہے، اس میں تصاویر دی گئی ہیں ، جب کہ ضمیمہ جات کا حصہ ۴۴۱ سے ۶۶۱ تک محیط ہے۔ اس میں اہم دستاویزات کے متن ہیں۔ مثال کے طور پر سب سے پہلا اندراج ۱۶۰۰ء میں برطانوی ملکہ الزبتھ کی جانب سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو چارٹر دینے کا ہے، اور آخر میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش سہ فریقی معاہدہ وغیرہ وغیرہ۔ کتاب کے آخری حصے میں (۶۶۳-۶۸۸) ان بنگلہ دیشی نوجوانوں کی یادداشتوں سے اقتباسات دیئے ہیں جنھوں نے پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد اپنے مشاہدات و تاثرات قلم بند کیے۔ پھر ۱۹۷۱ء کے واقعات کا شمار دنوں کی ترتیب سے یکجا کردیا ہے۔
قومی درد، سلیقے اور ندرتِ خیال سے مرتب کردہ یہ کتاب سانحۂ مشرقی پاکستان پر ایک ’ریفرنس بُک‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر معلوم نہیں کیوں، جناب افراسیاب ہاشمی نے اسے مارکیٹ کے لیے نہیں پیش کیا۔(س م خ)
قارئین ترجمان القرآن کے لیے خرم مراد کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ ۱۹۹۱ء میں انھیں ترجمان کا مدیر مقرر کیا گیا تھا۔ وہ ’اشارات‘ لکھنے کے ساتھ بڑی محنت سے پرچے کی جملہ تحریروں کو منتخب اور مرتب کرتے تھے، جن سے ان کی بصیرت اور وسعت نظر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان کی زیرنظر آپ بیتی (ہرچند کہ وہ نامکمل ہے بایں ہمہ) اس سے اُن کے سوانح کے ساتھ ان کی شخصیت کی کچھ اور جہتیں سامنے آتی ہیں۔ بقول پروفیسر خورشیداحمد: ’’بلاشبہہ لمحات خرم کی شخصیت اور زندگی کا آئینہ ہے‘‘۔
خرم صاحب، کتاب کے مرتب کے اصرار پر وفات سے قبل اپنی یادداشتوں کو کیسٹوں میں محفوظ کرگئے، جنھیں مرتب نے بڑی احتیاط سے کاغذ پر اُتارکر ، مرتب کیا ہے۔
لمحات کا یہ ساتواں ایڈیشن ایک طویل وقفے کے بعد شائع ہوا ہے۔ اسے پڑھنا شروع کریں تو جی چاہتا ہے پڑھتے چلے جائیں۔ قاری کے ذہن پر کسی طرح کا بار نہیں پڑتا۔ خرم صاحب کی کہانی (حقائق پر مبنی ہے مگر) ناول و افسانے کی طرح دل چسپ ہے۔ اس کتاب میں دعوتِ دین کے مرحلے اور پاکستان کی تاریخ کے نازک موڑ بڑی باریک بینی سے مرتب ہوئے ہیں۔ اسے منشورات نے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ آخر میں نہایت محنت سے مرتب کردہ اشاریے شامل ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
کتاب کے بیرونی سرورق پر درج عبارت [اتحاد اُمت کا قابلِ عمل راستہ] سے مصنف کے موضوع کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ مصنف نے دردمندی سے اختلافِ اُمت کے مثبت اور منفی پہلوئوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ تفصیل کا اندازہ ابواب کے عنوانات سے بھی لگایا جاسکتا ہے:فرقہ پرستی کے نقصانات، آدابِ اختلاف، حقیقت اختلاف و رواداری، شیعہ سُنّی اختلاف، علاج۔
پروفیسر ڈاکٹر مفتی محمد یوسف خان کے بقول: ’’اس کتاب کو پڑھنے کے بعد واضح ہوگا کہ اختلاف نقصان دہ نہیں، مخالفت نقصان دہ ہے‘‘۔ مولانا زاہد الراشدی، مفتی محمد خان قادری، علامہ ثاقب اکبر اور شیخ ارشادالحق اثری نے عزمی صاحب کی زیرنظر کاوش کی تحسین کی ہے۔ کتاب قدرے مختصر ہوتی تو قارئین کا دائرہ وسیع تر ہوتا۔ طباعت و اشاعت اطمینان بخش اور قیمت مناسب ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
نور منارہ، لالہ صحرائی۔ ناشر: لالہ صحرائی فائونڈیشن، صادق آئی کلینک، خان میڈیکل سٹی، نشتر روڈ، ملتان۔فون : ۴۵۱۰۸۱۸-۰۶۱۔ملنے کا پتا: کتاب سرائے، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۲۳۹۔ قیمت: درج نہیں۔
محمد صلاح الدین شہید نے بجا طور پر لکھا ہے کہ بیسویں صدی سے تاحال احیائے اسلامی یا نفاذِ اسلام کے لیے دُنیا بھر میں جو جدوجہد ہورہی ہے، اس پر سیّد مودودی کے گہرے اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے ’’فکری اثرات صدیوں تک زندگی کی تاریک راہوں میں اُجالا بکھیرتے رہیں گے‘‘۔ (ص۱۲)
لالہ صحرائی کی معروف حیثیت ایک شاعر بلکہ ایک شاندار نعت گو کی ہے، مگر انھوں نے بڑا وقیع نثری ذخیرہ بھی یادگار چھوڑا ہے۔ زیرنظر کتاب سیّد مودودی پر ان کے درجن بھر مضامین کا مجموعہ ہے جو سیّد موصوف سے ان کی چالیس برسوں کی ملاقاتوں اور قربت کی یادوں کے تاثرات پر مبنی ہیں۔
مصنف نے واقعات و تاثرات ایسے دلچسپ اورخوب صورت اسلوب میں پیش کیے ہیں کہ قاری پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ مختلف پہلوئوں اور جہتوں سے اس کا مطالعہ کرنے اور مولانا کی عظمتوں کا انعکاس پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلاشبہہ زیرنظر کتاب سیّدمودودی کی پُرعظمت شخصیت کا بہترین مرقّع ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
خواتین کی حالت ِ زار، اور مختلف معاشروں میں ان کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک، کم و بیش ہزاروں برسوں سے ایک متنازع مسئلے کی حیثیت سے چلا آرہا ہے۔ ان تمام مباحث اور لکھنے والوں کی دماغی و قانونی ورزشوں کے باوجود، زمانے پر زمانے گزرنے کے بعد بھی، عورت کی مظلومیت میں کوئی بامعنی تبدیلی نہیں آئی۔ بلکہ عصرحاضر، جو عورت کی دستگیری کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کرتا ہے، اس میں تو یہ مظلومیت، جھوٹے نگوں کی سوداگری کے سوا کچھ نہیں۔
پروفیسر ثریا بتول علوی ، قدیم وجدید کا وسیع مطالعہ رکھتی ہیں، اور ایک قابلِ احترام استاد کے طور پر دین کی خدمت کے لیے ہمہ تن مصروف ِ کار ہیں۔ زیرنظر کتاب کے ۲۵ مضامین میں انھوں نے مغرب اور ہمارے معاشروں میں عورتوں کی زبوں حالی کو بڑی راست گوئی سے بیان کیا ہے۔ اس ظلم و زیادتی پر نقد و جرح کی ہے اور اسلام کی روشنی میں رہنمائی دی ہے کہ اسلامی تہذیب اور قانونِ معاشرت اور اسلامی عائلی نظام کس طرح عورت کے لیے رحمت کاسامان پیش کرتے ہیں۔ پھر یہ کتاب نام نہاد این جی اوز کی غوغا آرائی کا مسکت جواب بھی پیش کرتی ہے۔(س م خ)
[تقویٰ کیا ہے؟اوراس کے پانچ تقاضے، تقویٰ کیا نہیں ہے، نفاق اور منافقین کا کردار اور علامتیں__ قرآن و حدیث، سیرت صحابہ کرامؓ اورعصرحاضر کے تقاضوں کی روشنی میں منظرکشی اس طرح سے کی گئی ہے کہ متقی اور منافق کا کردار چلتی پھرتی تصویروں کی طرح نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ اپنے موضوع پر جامع اورمختصر کتاب۔]