۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثے کے بعد سے امریکی مراکز تحقیق نے مسلم ممالک میں رائے عامہ کے رجحانات کا گہرائی سے جائزہ لینا شروع کر دیا تھا اور امریکی پالیسی سازوں کو مشرق وسطیٰ میں پائے جانے والے عوامی رجحانات پر کڑی نظر رکھنے کے لیے زور دینا شروع کیا تھا۔ مسلم ممالک میں رائے عامہ کا سروے اور جائزہ لینے والے اہم ترین اداروں میں سے ایک ادارہ ’گیلپ انٹرنیشنل‘ہے۔ اس سروے کمپنی کا ہیڈکوارٹر واشنگٹن میں ہے۔ دوسرا ادارہ مرکز ’پیو‘ (PEW سینٹر) بھی ہے۔ ان اداروں نے متعدد ممالک میں رائے عامہ جاننے کا کام کیا ہے۔
ان مراکز کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک کے بعد ایک سروے رپورٹیں یہ واضح کرتی ہیں کہ مسلم ممالک کے عوام کے ذہنوں میں امریکا کی تصویر منفی ہے۔ ’’پیو‘‘ سینٹر کی ۲۰۰۲ء کی سروے رپورٹ میں ۶۹ فی صد مصریوں ، ۷۵ فی صد اردنی، ۵۹ فی صد لبنانی، ۶۹فی صد پاکستانی اور ۵۵ فی صد ترکوں نے واضح انداز میں امریکی پالیسیوں سے اپنی مخالفت ظاہر کی ہے۔ اسی طرح رپورٹ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت امریکی افکارو عادات کے بارے میں یہ خیال کرتی ہے کہ وہ ان کے معاشروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔
ادارہ ’زغبی‘ کے سروے نتائج بھی ’پیو‘ اور ’گیلپ‘ کے سروے نتائج ہی کی طرح کے ہیں۔ اس ادارے کے ذریعے کیے جانے والے سروے سے یہ واضح ہوا ہے کہ مسلم ممالک میں امریکی خارجہ پالیسی کو مسترد کرنے والوں کا تناسب ۴۸ اور ۸۷ فی صد کے درمیان ہے۔
اس صورت حال کی روشنی میں امریکا نے پبلک ڈپلومیسی کے لیے اپنا اسٹرے ٹیجک منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس کے لیے اس نے متنوع قسم کی تعلیمی، تدریسی، تحقیقی، ابلاغی اور ثقافتی سرگرمیوں کا سہارا لیا ہے۔ عوامی رجحانات پر اثرانداز ہونے کے ہدف کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے اندر بہت سا جھوٹا سچا مواد پھیلایا ہے اور ان کے ذہنوں میں امریکا کی مثبت تصویر کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ نے ان سرگرمیوں کو منظم کیا ہے۔ پبلک ڈپلومیسی ایجنسی اور امریکی انفارمیشن ایجنسی پر اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔ پھر ایک کا م یہ کیا ہے کہ پبلک ڈپلومیسی سے متعلق انڈر سکریٹری کے درجے کا عہدے دار متعین کیا ہے اور مسلم دُنیا کی فکر و رائے پر اثر انداز ہونے کے لیے طویل المدتی حکمت عملی ترتیب دی ہے۔
اس منصوبے میں وہ سرگرمیاں بھی شامل ہیں، جن کا ہدف مسلم ممالک کے صحافیوں پر اثرانداز ہوکر انھیں امریکی نقطۂ نظر اختیار کرنے اور امریکی پالیسی کا دفاع کرنے کے ساتھ اس بات پر مجبورکرنا بھی ہے کہ وہ واقعات کی رپورٹنگ کے لیے امریکی مآخذ و مصادر پرانحصار کریں۔
مسلم ممالک کے عوام پر اثرانداز ہونے کی امریکی حکمت عملی کا ایک حصہ جدید وسائل ابلاغ، مثلاً ریڈیو ’سوا‘ اور ’الحرۃ‘ چینل کا قیام بھی ہے۔ البتہ رائے عامہ کو متاثر کرنے کی غرض سے مسلم عوام کو ہدف بنانے والے ذرائع ابلاغ میں امریکی سرمایہ کاری کے باوجود ایسے کئی سوالات موجود ہیں، جن کے جوابات تلاش کرنے کے لیے گہرے مطالعے اور جائزے کی ضرورت ہے۔ ایک اہم ترین سوال یہ ہے کہ مسلم دُنیا میں اپنی تصویر کو بہتر بنانے کے سلسلے میں امریکا کو کہاں تک کامیابی مل سکی ہے اور مسلم عوام سے اپنی خارجہ پالیسی کو قبول کروانے میں کس حد تک کامیاب ہوسکا ہے؟
ایسے پہلو بڑے واضح طور پر سامنے ہیں، جن کے مطابق مسلم ممالک میں امریکی خارجہ پالیسی نے وہاں کے ذرائع ابلاغ پر اثر انداز ہونے میں کامیابی حاصل کی ہے اور حالات و واقعات کی رپورٹنگ امریکی نقطۂ نظر کے مطابق کرنے کے سلسلے میں وہاں کے صحافیوں کو بھی اپنے زیر اثر لے لیا ہے۔
لیکن اگر ہم امریکی ٹیلی ویژن چینلوں کے توسط سے پیش کیے جانے والے مواد کا تجزیہ کریں تو نتیجہ یہ سامنے آئے گا کہ یہ چینل، بالخصوص ’الحرۃ‘ ، ہنوز اسلامی عقیدے اور اسلامی اقدار کے خلاف نفرت کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ان چینلوں کے کچھ براڈکاسٹرز مستقل طور پر اسلام کے خلاف مسلسل حملہ آور رہتے ہیں۔اس طرح وہ امریکا کی تصویر یہ پیش کرتے ہیں کہ وہ اسلام کا دشمن ہے، اور یہ چیز مسلم ممالک میں امریکا کے خلاف دشمنی کو ہی ہوا دے گی۔
یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ امریکا ان چینلوں پر دل کھول کر خرچ کرتا اور تکنیکی صلاحیتیں فراہم کرتا ہے لیکن اتنا کافی نہیں ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ سنت نبویؐ کی صحت پر شکوک و شبہات پیدا کرنے اور اسلامی عقائد و اقدار کا مذاق اڑانے والے پروگراموں کو دیکھ کر امریکا کے خلاف دشمنی میں اضافہ ہی ہوگا۔
یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا اوصاف ہیں جن کی بنیاد پر امریکا، مسلم دُنیا میں اپنی صورت گری کرنا چاہتا ہے؟ کیا وہ یہی چاہتا ہے کہ مسلم عوام کے سامنے خود کو اس حیثیت سے پیش کرے کہ وہ اسلام دشمن ہے؟اور کیا وہ یہی چاہتا ہے کہ وہ اپنے نبیؐ کی سنت سے پلہ چھڑا لیں؟
اور کیا معلوم کسی وقت امریکا پر یہ منکشف ہو جائے کہ ’الحرۃ‘ جیسے چینلوں نے براڈکاسٹر کو سنت نبویؐ پرحملہ آور ہونے ، اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے اور اسلام کو حقارت کے ساتھ پیش کرنے کی اجازت دے کر امریکا کی تصویر کو بگاڑنے اور اس کے خلاف عوام دشمنی میں اضافہ کرنے میں حصہ لیا ہے۔