اس مضمون میں چند بڑے بنیادی سوال اُٹھائے گئے ہیں، جن پر ڈاکٹر شاہدحسن پہلے بھی متوجہ کرتے آئے ہیں۔ لیکن وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے، اور اس پر حکومت کی جانب سے عمل کی آمادگی نے اس ضرورت کو اور زیادہ بڑھایا ہے کہ ان کے اُٹھائے ہوئے سوالوں کا شافی جواب تلاش کیا جائے، اور موجودہ نظام کی خامیوں کو برقرار (perpetuate)نہ رکھا جائے، اور آگے بڑھنے سے قبل فوری طور پر ان کی اصلاح کی پختگی اور واضح شفافیت کے ساتھ تدابیر کی جائیں۔ اس لیے، اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ علما اور اسلامی معاشیات و مالیات کے ماہرین کا ایک بورڈ بنایا جائے، جو اس فیصلے کی روشنی میں درست طور پر اسلامی بنکاری نظام کے تمام خدوخال کو متعین کرے اور اس نظام کو محض وفاقی شرعی عدالت کی مبہم صورت سے نکال کر، حقیقی معنی میں ’شریعت کی بنیاد‘ (Shariah Based) بنائے۔ اس بورڈ کی رہنمائی اور اس کی تعمیل کا جائزہ پارلیمنٹ اور قوم کےسامنے وقتاً فوقتاً پیش کیا جائے۔ (ادارہ)
وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ۹نومبر ۲۰۲۲ء کو یہ حیران کن بیان دیا کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور نیشنل بنک آف پاکستان وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کےفیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں داخل کردہ اپیلیں فوری طور پر واپس لیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت سود کے خاتمے کے ضمن میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر جلد از جلد عمل درآمد کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔ جمعیۃ العلماء اسلام پاکستان، اسلامی نظریاتی کونسل اور چند ممتاز علمائے دین کی طرف سے اپیلیں واپس لینے کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ یاد رہے نجی شعبے کے تین بنکوں نے بھی وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیلیں دائر کی تھیں۔ اب تک ان بنکوں کی جانب سے اپیلیں واپس لینے کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا۔ چنانچہ انھی تین بنکوں کی اپیلوں کی وجہ سے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ معطل ہوجائے گا۔ اس طرح اسٹیٹ بنک اور نیشنل بنک کی جانب سے اپیلیں واپس لینا ایک بے معنی مشق بن کر رہ جائے گا۔
اگر وفاقی حکومت اور اسٹیٹ بنک کے دبائو پر نجی شعبے کے یہ تین بڑے بنک بھی اپنی اپیلیں واپس لیتے ہیں، تو اُس سے بھی ایک سنگین صورت پیدا ہوجائے گی، کیونکہ اپنے فیصلے میں وفاقی شرعی عدالت نے بغیرکسی تحقیق کے، اسلامی بنکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بنکوں میں رائج ڈیپازٹس، فنانسنگ اور سرمایہ کاری وغیرہ کی متعدد ایسی پراڈکٹس کو بھی شریعت کے مطابق قراردیا ہے، جو شرعی اصولوں سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتیں اور ان میں سود کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ اگر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی متعدد فاش غلطیوں کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کی جانب سے ٹھیک نہیں کیا جاتا، تو یہ دستورِ پاکستان کی شق ۳ اور ۳۸ (ایف) کی بھی خلاف ورزی ہوگی اور آیندہ کئی عشروں تک پاکستان میں ایک نہ ختم ہونے والی عدالتی کشاکش کے زیرسایہ رائج الوقت سودی نظامِ معیشت و بنکاری پوری آب و تاب سے پھلتا پھولتا رہے گا۔
اس تشویش ناک صورتِ حال کے پیش نظر ہم نے اسٹیٹ بنک اور بنکوں کی جانب سے اپیل دائر کرنے کے فیصلے کے فوراً بعد سپریم کورٹ کو خط لکھ کر استدعا کی تھی کہ ’’عدالت عظمیٰ ان اپیلوں کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرے اور وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے میں اسلامی بنکوں کی شریعت سے متصادم بعض پراڈکٹس کو اسلامی اصولوں کے مطابق قرار دینے کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دے‘‘۔
اب سے ۲۵برس قبل پاکستان کی وفاقی حکومت نے ۳۰جون ۱۹۹۷ء کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ سے استدعا کی تھی کہ ’’وفاقی شرعی عدالت کے ۱۹۹۱ء کے فیصلے کے خلاف ۱۹۹۲ء میں عدالت عظمیٰ میں دائر کردہ وفاقی حکومت کی اپیل واپس لینے کی اجازت دی جائے‘‘۔ شریعت اپیلیٹ بنچ نے حکومت کے سیاسی عزائم کو بھانپتے ہوئے اپیل واپس لینے کی وفاقی حکومت کی استدعا کو مسترد کر دیا تھا۔ اب ۲۵برس بعد تاریخ اپنے آپ کو دُہرا رہی ہے۔ وفاقی حکومت کے ایما پر اسٹیٹ بنک اور نیشنل بنک نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کردہ اپیلیں واپس لینے کی جو استدعا کی ہے، اس کے مضمرات پر غور کرتے ہوئے اس درخواست کو مسترد کرکے ان اپیلوں کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے۔
وفاقی حکومت، اسٹیٹ بنک اور نیشنل بنک اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے (۲۸؍اپریل۲۰۲۲ء) میں متعدد سقم موجود ہیں۔ ان دونوں بنکوں کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کرنے کا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ ملک میں اسلامی نظامِ معیشت و بنکاری کے نفاذ میں ممکنہ حد تک تاخیر جاری رہے اور رکاوٹیں کھڑی رہیں، کیونکہ اس نظام سے طاقت ور اور مال دار طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ یہ اپیلیں واپس لینے کے فیصلے سے موجودہ حکومت صرف سیاسی فائدہ حاصل کرناچاہتی ہے۔ ان اپیلوں کوواپس لینے کے باوجود متعدد وجوہ کی بناپر آنے والے برسوں میں معیشت سے سود کے خاتمے کے ضمن میں کسی معنی خیز پیش رفت کا امکان نہیں ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان اپیلوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کو موقع ملے گا کہ وہ شرعی عدالت کے فیصلے میں پائے جانے والے سقم اور غلطیوں کو درست کرسکے۔
مندرجہ بالا گزارشات کی مزید وضاحت کے لیے چند مزید حقائق پیش خدمت ہیں:
۱- وفاقی شرعی عدالت نے اپنے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے میں اسلامی بنکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بنکوں کی سود پر مبنی یا شریعت سے متصادم ڈیپازٹس اور فنانسنگ وغیرہ کی پراڈکٹس کو بلاتحقیق شریعت کے مطابق قراردیا ہے۔ چنانچہ، یہ اَزحد ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران ان پراڈکٹس کا باریک بینی سے جائزہ لے، خصوصی طور پراسپیشل مشارکہ پول، کرنسی سلم، کموڈیٹی مرابحہ، اور رننگ مشارکہ وغیرہ۔ اسلامی بنکوں کے نام سے کام کرنے والے اداروں میں رقوم جمع کرانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی بنکوں کی جانب سے ان کی رقوم پر ملنے والا منافع حلال ہے، حالانکہ شریعت سے متصادم پراڈکٹس کی آمدنی سے جو منافع کھاتے داروں کو ملتا ہے، اس میں سود کی آمیزش ہوتی ہے۔
۲- اسلامی بنک نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد پرجمع کرائی گئی رقوم پر اپنے کھاتہ داروں کو منافع شرعی اصولوں کے مطابق نہیں دے رہے۔ ایک بنک کی جاری کردہ اسلامک بنکنگ آپریشنز کے شریعہ بورڈ کی رپورٹ میں یہ اعتراف موجود ہے کہ کھاتہ داروں کو منافع اسٹیٹ بنک کی ہدایات کے مطابق دیا جارہا ہے، یعنی شرعی اصولوں کے مطابق نہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ اسلامی بنک درحقیقت سودی بنکوں کے مقابلے میں بھی کم شرح سے منافع دے رہے ہیں،جب کہ ایکویٹی کے تناسب سے اسلامی بنکوں کی اوسط سالانہ شرح منافع، سودی بنکوں کی اوسط سالانہ شرح منافع سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ناانصافی اور استحصال کی واضح مثال ہے۔ اسلام میں سود کو حرام اس لیے بھی قرار دیا گیا ہے کہ ’’یہ ظلم و ناانصافی کا سبب بنتا ہے‘‘۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں اسلامی بنکوں کی اس پراڈکٹ کو شریعت کے مطابق قرار دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کو اس بنیادی غلطی کو درست کرنا ہوگا۔
۳-اسٹیٹ بنک نے ۲۰۱۴ء میں جاری کردی سرکلر لیٹر نمبر۲ میں اسلامی بنکوں کو ’کرنسی سلم‘ یعنی کرنسیوں کی تاخیر یا مؤخر ادائیگی کی بنیاد پر تبادلے کی اجازت دی ہوئی ہے، حالانکہ یہ ’ربا‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ اسٹیٹ بنک کے یہ احکامات اجماعِ اُمت کے خلاف ہیں۔ دُنیا بھر میں علما اس امر پر متفق ہیں کہ جس طرح سونے اور چاندی کے درمیان تبادلہ دست بدست ہونا چاہیے، اسی طرح دو مختلف کرنسیوں کے درمیان تبادلہ بھی دست بدست ہونا چاہیے۔ چنانچہ اگر یہ تبادلہ تاخیر سے ہو تو یہ ‘ربا‘ ہے۔
آج کل سودی بنکاری کے تحت دُنیامیں دو مختلف کرنسیوں کے تبادلے کثرت سے ہوتے ہیں، مثلاً ڈالر اور روپے کا تبادلہ اس طرح ہوتا ہے کہ ایک کرنسی کی سپردگی مستقبل کی کسی تاریخ میں ہوتی ہے۔ یہ ایک طرف سود کا دروازہ کھولتا ہے اور دوسری طرف سٹے بازی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ چنانچہ اسلامی بنکاری کے تحت سود سے بچنے کے لیے ان دونوں کرنسیوں کا تبادلہ دست بدست ہونا چاہیے۔ انٹرنیشنل فقہ اکیڈمی جدہ اور اسلامی مالیاتی اداروں کی اکائونٹنگ اور آڈٹنگ کی تنظیم (ایافی) کا بھی یہ متفقہ موقف ہے کہ ’’کرنسی میں مستقبل کے سودے نہیں ہوسکتے‘‘۔ چنانچہ کرنسی میں سلم اور مؤخر مرابحہ نہیں ہوسکتا۔ اصول یہ ہے کہ موجودہ زرنقدی (کاغذی کرنسی) پر وہی شرعی احکام لاگو ہوتے ہیں، جو سونے اور چاندی (دینار اور درہم) کے ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے (۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء) میں ’ربا‘ کی تین اقسام کا بھی ذکر کیا ہے، مثلاً گندم کا گندم سے تبادلہ، اگر برابر نہ ہو اور دست بدست نہ ہو تو وہ ’ربا‘ ہے۔ اسی طرح گندم کا جَو کے ساتھ مؤخر سپردگی کے ساتھ تبادلہ ’ربا‘ ہے۔ یہ اقسام اب دُنیا میں رائج نہیں ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے بہرحال یہ نہیں بتلایا کہ اگر روپے اور ڈالر یعنی دومختلف کرنسیوں کے درمیان تاخیر یعنی مؤخر سپردگی کی بنیادپر تبادلہ ہو تو یہ بھی ’ربا‘ ہے۔ اس طرح کرنسی سلم کو عملاً سند ِ جواز عطا کردیا گیا ہے۔ چنانچہ کرنسی سلم کے تحت اسلامی بنکوں میں سودی کاروبار فروغ پاتارہے گا اور سودی کاروبار کی آمدنی سے اسلامی بنک اپنے کھاتے داروں کو منافع دیتے رہیں گے۔ سپریم کورٹ کے اپیلیٹ بنچ کو کرنسی سلم کی ممانعت کرنا ہوگی۔
۴- سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے جون ۲۰۰۲ء میں ’ربا‘ کا مقدمہ وفاقی شرعی عدالت کے پاس واپس بھیجا تھا، اور یہ ہدایت بھی دی تھی کہ وہ بیرونی کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور افراطِ زر کی روشنی میں انڈیکسیشن کے معاملے پر بھی فیصلہ دے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اس حکم کی پابندی نہیں کی اور اس پیچیدہ مسئلے سے پہلو بچایا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران شریعت اپیلیٹ بنچ کو اس ضمن میں بھی فیصلہ دینا ہوگا، وگرنہ آنے والے برسوں میں یہ معاملہ پھر عدالتوں کے پاس جائے گا۔
۵- سپریم کورٹ میں ۲۰۰۲ء میں سود کا مقدمہ زیرسماعت تھا، مگر فیصلہ اسلامی بنکاری کے نفاذ کا کیا گیا۔ اس پس منظر میں اب ۲۰۲۲ء میں بنکوں کی اپیلیں واپس لینے کا پُراسرار فیصلہ کیوں؟اب سے تقریباً ۲۰برس قبل جب سود کے مقدمے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ میں زیرسماعت تھیں، تو ایک اعلیٰ اختیاراتی اجلاس کے فیصلے کے تحت اسٹیٹ بنک کی سالانہ رپورٹ برائے مالی سال ۰۲-۲۰۰۱ء میں کہا گیا تھا کہ اگرچہ ’ربا‘ (سود) کا مقدمہ عدالت میں چلتا رہے گا، مگر اسٹیٹ بنک اسلامی بنکاری کے نظام کو سودی بنکاری کے ساتھ متوازی طور پر چلائے گا۔ علما و مفتی صاحبان یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بنکاری کا یہ متوازی نظام غیراسلامی ہے۔ یہ بات ہم نے اسی وقت بیان کردی تھی۔ اس متوازی نظام کو اسٹیٹ بنک کے شریعہ بورڈ کی آشیرباد حاصل ہی ہے۔ اس شریعہ بورڈکے سربراہ ڈاکٹر محمود احمد غازی اور مفتی تقی عثمانی بھی رہ چکے ہیں۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ اب ۲۰۲۲ء میں بھی اسلامی بنکوں میں جو پراڈکٹس استعمال کی جارہی ہیں، ان میں سے کچھ میں سود کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے جس کی توثیق ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں کردی گئی ہے۔
۶- وفاقی شرعی عدالت نے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے میں کہا ہے کہ کوئی بھی شخص یا ادارہ اگر یہ سمجھتا ہے کہ اسلامی بنکوں کی کوئی بھی پراڈکٹ شریعت کے مطابق نہیں ہے، تووہ کسی بھی وقت وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔
اگر سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلوں کی غلطیوں اور سقم وغیرہ کو درست نہیں کیا تو خدشہ یہ ہے کہ آنے والے برسوں میں نیک نیتی یا بدنیتی سے کوئی بھی شخص یا ادارہ وفاقی شرعی عدالت میں اسلامی بنکوں کی متعدد پراڈکٹس کو غیراسلامی قرار دینے یا افراطِ زر اور انڈیکسیشن وغیرہ کے مسئلے کو اُٹھا کر، یا کسی اور متنازع معاملے کو جواز بنا کر وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ اور پھر اس مقدمے کا فیصلہ آنے میں برس ہا برس لگ سکتے ہیں، جب کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ میں بھی دائر کی جاسکتی ہے۔
اس سنگین صورتِ حال سے بچنے کا واحد قابلِ عمل راستہ صرف یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا شریعت اپیلیٹ بنچ ۲۸؍اپیل ۲۰۲۲ء کے فیصلے کے خلاف دوبنکوں کی اپیلوں کی واپسی کی استدعا مسترد کرکے ان کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرے اور ان ماہرین سے بھی معاونت طلب کرے، جنھوں نے ۱۹۹۹ء میں ’ربا‘ کے مقدمے میں اپنی گزارشات عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کی تھیں، تاکہ تمام متنازع اُمور نمٹا کر سود کے خاتمے کے ضمن میں حتمی اور جامع فیصلہ صادر کیاجاسکے۔
آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شق ۳۸ (ایف) میں کہا گیا ہے: ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ (معیشت سے) جلد از جلد ربا کا خاتمہ کر دیا جائے۔ ہم تجویز پیش کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی منظوری سے اس شق میں یہ اضافہ کردیا جائے کہ ’’سود ہرشکل میں ربا کے زمرے میں آتا ہے‘‘۔ اس کے بعد شرعی عدالتوں میں سود کے حرام نہ ہونے کا معاملہ زیربحث لایا ہی نہیں جاسکے گا۔