دسمبر ۲۰۲۲

فہرست مضامین

سورئہ فاتحہ - ایک مطالعہ

خلیل الرحمٰن چشتی | دسمبر ۲۰۲۲ | مطالعۂ کتاب

Responsive image Responsive image

سورۃ الفاتحہ، قرآنِ مجید کی پہلی سورۃ ہے۔ دُنیا کی کئی زبانوں میں اور دُنیاکے کئی ملکوں کے سیکڑوںعلما نے اس کی تفسیر لکھی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد (وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی، اسلام آباد) نے عام ڈگر سے ہٹ کر سورئہ فاتحہ کے بنیادی موضوعات کو گہرائی اور گیرائی کے ساتھ سمجھانے کے لیے انگریزی داں نوجوان کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ مقالہ تحریر کیا ہے۔ یہ جہاں اسلام کو سمجھنے کے خواہش مند غیرمسلموں کے لیے بے حد مفید ہے، وہیں ہراُس مسلمان طالب علم کےلیے بھی مفید ہے، جو عربی اور اُردو سے بہت کم واقف اور انگریزی میڈیم کے مدارس کا تعلیم یافتہ ہے۔

ابتدا میں دس صفحات پر مشتمل ایک عالمانہ مقدمہ ہے، جو دوسرے مذاہب کی کتابوں کے مقابلے میں قرآن کی اصلی محفوظ زبان اور کلامِ الٰہی کی اہمیت کو اُجاگر کرتا ہے۔ پھرقرآنی اصطلاحات سےبحث کی گئی ہے۔ پہلی آیت کے سلسلے میں لفظ اِلٰہَ  کی وضاحت کی گئی ہے۔ اسلام میں خدا کے تصورکو دوسرے مذاہب کے تصورات سے موازنہ کرکے سمجھایا گیا ہے۔ قاری کو غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے: کیا ایک سے زیادہ خدا ہوسکتے ہیں؟ کیا خالق اور مخلوق برابرہو سکتے ہیں؟ کیا غیراللہ نے کوئی چیز پیدا کر کے دکھائی ہے؟توحید کی جامعیت کے تصور سے انسانی عقل و خرد پرکیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

قرآن کا آغاز بِسْمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ سے ہوا ہے۔ اللہ کے نام سے ہر کام کا آغاز کرنے سے انسان کے عقل و شعور پر کیا کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کس طرح اُس کی ذات میں عاجزی، انکساری اور شائستگی پیدا ہوتی ہے؟ کس طرح انسان اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوکر اُس سے اپنا گہرا تعلق قائم کرلیتا ہے؟ اسمِ مبالغہ الرَّحمٰن  اور اسمِ صفت الرَّحیم سے کس طرح اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوقات بالخصوص انسان سے اپنی لامحدودمحبت کا اظہار ہوتا ہے؟ کس طرح اللہ تعالیٰ سے ذہنی، قلبی اور جذباتی تعلق قائم ہوتا ہے؟ کس طرح انسان کے اندر ایک معتدل نفسیاتی کیفیت جنم لیتی ہے؟ اور کس طرح ایک متواضع شخصیت پروان چڑھتی ہے؟یہاں ایسے ہر سوال کا جواب ملتا جاتا ہے۔

ڈاکٹر انیس احمد ایک معلّم، ایک مربی اور ایک مزکی کی حیثیت سے، آہستہ آہستہ قاری کے دل میں بنیادی نکات اور فکر کو راسخ کرتے جاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کا قاری پچھلی باتوں  اور نکات کو اچھی طرح سمجھ کر دل و دماغ میں بٹھاتا اور آگے بڑھتا جائے۔

الْحَمْدُلِلّٰہِ  کو وہ تعریف اور شکر کی ایک کامل ثقافت گردانتے ہیں۔ وہ سمجھاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کئی خدائوں کے درمیان کوئی بڑا خدا نہیں ہے، بلکہ اَحَد   سب سے یگانہ، سب سے مختلف، ماورائے عقل طاقت ور خدا ہے، جس کا صحیح صحیح اِدراک علمِ وحی کے ذریعے دیئے گئے اسمائے حسنیٰ اور صفاتِ حسنیٰ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت ِ رحم کو اللہ تعالیٰ کی صفت ِ ربوبیت سے مربوط کر کے پیش کرتے ہیں۔ عبد اور معبود کے فرق کو واضح کر کے عبادت کا جامع مفہوم سامنے رکھتے ہیں۔

پھر اللہ تعالیٰ کی صفت ِ عدالت کی تشریح کرتے ہیں۔ روزِ جزا و سزا، اللہ تعالیٰ کی صفت ِ عدل کا لازمی مقتضا ہے۔ انصاف ہوکر رہے گا۔ اپنے قاری کو سمجھاتے ہیں کہ یہاں الدِّیْن  کا لفظ اگرچہ جزا و سزا اور روزِقیامت کےلیے استعمال ہوا ہے، لیکن یہ ایک ایسا نظامِ حیات ہے، جس کی تکمیل کی جاچکی ہے۔ سورۃ المائدہ کی تیسری آیت کی روشنی میں بتاتے ہیں کہ اس مکمل دین میں کتربیونت نہیں ہوسکتی۔

پھر تین نکات میں خلاصہ اس طرح پیش کرتے ہیں: ۱-انسان کی اُخروی کا میابی کا دارومدار اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عمل درآمد پر منحصر ہے۔ ۲- انسان کو خیروشر کی آزادی یعنی اخلاقی اختیار  سپرد کیا گیا ہے۔ ۳- خدائے رحمٰن و رحیم کے علاوہ کوئی اور قیامت کے دن فیصلہ نہ کرسکے گا۔

انسان کا یہ اَخلاقی اختیار، اُسے ایک ذمہ دار شہری بناتا ہے۔ عقیدئہ توحید کا عقلی تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت کرے۔ یہی سیدھا دین ہے۔ اُسی پروردگار سے ہدایت طلب کرے۔ اُسی کی بات مانے۔ وہی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرسکتا ہے، جو خالق بھی ہے، ربّ بھی ہے، معبود بھی ہے اور حاکم بھی۔ پھر وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’عبودیت‘ دراصل    اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اللہ تعالیٰ پر بھروسے اور توکّل کا نام ہے کہ تمام معاملات اپنے خالق کے سپرد کر دیئے جائیں۔ وہ سمجھاتے ہیں کہ اللہ کے تمام انبیائے کرام علیہم السلام، اللہ کے ’عبد‘ ہوتے ہیں۔ وہ کوئی خدائی میں شریک نہیں ہوتے۔ یہاں وہ دیگر مذاہب کی افراط و تفریط کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ  کا مطلب شرک سے بے زاری ہے اور اس بات کا اقرار و اعتراف ہے کہ ہم اپنے تنہا خالق اور اپنے اکیلے ربّ کے علاوہ، کسی اور کی غلامی اور اطاعت اختیارنہیں کرسکتے۔

ڈاکٹرانیس احمد سوال اُٹھاتے ہیں کہ اپنی پانچوں نمازوں میں اپنے خدا کے سامنے اس بات کے بار بار اعتراف کے باوجود کہ ہم اُس کے غلام اور اُس کے وفادار ہیں، اُسی کی عبادت و اطاعت کرتے ہیں۔ بھلا ہم کس طرح رنگ و نسل اور زبان وقوم کے نام نہاد دوسرے خدائوں کے وفادار ہوسکتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ یہاں قرآن انسانی عقل کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے ثقافتی بوجھ سے اپنے آپ کو آزاد کر کے دیکھے۔ عقل اور نری جذباتیت انسان کو سیدھا راستہ نہیں دکھا سکتی۔ یہ خدا ہی کا مقام و مرتبہ ہے کہ وہ ہدایت فراہم کرے۔ خدائی ہدایت ہی انسان کو ابدی حقیقتوں سے آشکار کرسکتی ہے۔

اپنے عقلی استدلال کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ہدایت کا ماخذ و منبع صحیح اور مستند علم ہو۔ وہ علمِ الٰہی کی روشنی میں انسان کو ہدایت کے لیے ایک پوری ثقافت کی تلاش کی دعوت دیتے ہیں۔ یہی وہ جذبہ ہے، جو انسان کو خدائے علیم و خبیر کی وحی پر مشتمل اَبدی ہدایت اور توحید کا راستہ دکھاتا ہے۔

ڈاکٹر انیس احمد آخر میں دل سوزی سے سمجھاتے ہیں کہ دین ابتدا سے ایک ہی رہا ہے۔ اُس کی اَخلاقی بنیادیں اور معیار کبھی نہیں بدلے۔ یہ راستہ ہمیشہ سے روشن اور نمایاں رہا ہے۔ قرآنی آیات کی روشنی میں یہ بات سمجھاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ لوگ کون رہے ہیں؟ اور کن قوموں پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا ہے؟ کتاب کے آخری حصے میں انھوں نے نو نکات پر مشتمل عملی تجاویز بیان کی ہیں: lانسان شکر کا رویہ اختیار کرے lاللہ کی ہدایت کو سامنے رکھتے ہوئے یک رنگی اختیار کرے lاللہ کی پیہم نوازشوں پر ہمیشہ شکر کی طرف مائل اور متوجہ رہےl اللہ تعالیٰ کی صفت ِ رحمانیت اور صفت ِرحیمیت پر مکمل اعتقاد بھی رکھے اور بھروسا بھی lاپنی توحید کی تصدیق اپنے رویوں سے ثابت کرے lانسانوں کے بنائے ہوئے خودساختہ نظریات سے اپنے آپ کو لاتعلق کرلے lموت کے بعد کی زندگی پر اپنے یقین اور اعتماد کی باربار تصدیق و تائید کرتا رہے lاللہ ہی  سے مسلسل ہدایت اور مدد طلب کرے lہر اُس کام سے دُور رہے ، جواللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بنتا ہے اور اللہ کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔

پروفیسر صاحب نے دین اسلام کے جامع تصورکو نہایت عمدگی کے ساتھ عصرحاضر کی زبان میں پیش کیا ہے۔ یہ کتاب اُن نوجوانوں کے شکوک و شبہات کو دُور کرنے میں ان شاء اللہ ضرور مددگار ثابت ہوگی، جو آج اکیسویں صدی میں الحاد اور تشکیک و تذبذب میں گرفتار ہیں، یا پھر مذاہب ِ عالم کی افراتفری دیکھ کر حیران و پریشان ہیں۔

امریکا، کینیڈا، یورپ، جنوبی افریقا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی ہند وغیرہ جیسے ممالک میں اور جہاں جہاں مسلمانوں کے بچّے کالجوں میں اسلام کے اصلی ماخذ اور اصلی زبان سے محروم کر دیے گئے ہیں، ان کے لیے یہ کتاب اسلام فہمی کا دروازہ کھولتی ہے اور ابتدا ہی میں اُن کو غلط فہمیوں سے دُور کرتے ہوئے اسلام کی حقانیت کو اُن کے دل ودماغ پر نقش کر دیتی ہے۔

یہ کتاب Reflections on Surah Al-Fatihah کے عنوان سے (۶۸ صفحات) دی اسلامک فائونڈیشن لسٹر (برطانیہ) اور قرآن ہائوس نیروبی (کینیا) نے شائع کی ہے۔