سوال : امانت رکھنے اور رکھوانے والے کو کیا کیا اصول ملحوظ رکھنے چاہییں؟
جواب :امانت اصل میں دو آدمیوں کے درمیان باہمی اعتماد کی بنا پر ہوتی ہے۔ جو شخص کسی کے پاس کوئی امانت رکھتا ہے، وہ گویا اس پر یہ اعتماد کرتا ہے کہ وہ اپنی حد ِ استطاعت تک پوری ایمان داری کے ساتھ اس کی حفاظت کرے گا۔ اور جو شخص اس امانت کو اپنی حفاظت میں لینا قبول کرتا ہے، وہ بھی امانت رکھنے والے پر یہ اعتماد کرتا ہے کہ وہ ایک جائز قسم کی امانت اس کےپاس رکھ رہا ہے، کوئی چوری کا مال یا خلافِ قانون چیز نہیں رکھ رہا ہے، نہ اس امانت کے ذریعے سے کسی قسم کا دھوکا یا فریب کرکے اسے نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پس دونوں پر اس کے سوا کسی اور چیز کی پابندی لازم نہیں ہے کہ وہ اس اعتماد کا پورا پورا حق ادا کریں۔ (اپریل ۱۹۴۶ء)
سوال : قرضِ حسن دینے اور لینے میں کن اُمور کا لحاظ ضروری ہے؟
جواب : قرض دینے اور لینے میں اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ حتی الامکان فریقین کے درمیان شرائط ِقرض صاف صاف طے ہوں، مدت کا تعین ہوجائے، تحریر اور شہادت ہو۔ جوشخص قرض دے وہ اس قرض کے دبائو سےکسی قسم کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہ کرے۔ مقروض کو احسان رکھ کر نہ ذلیل کرے اور نہ اذیت پہنچانے کی کوشش کرے۔ اور اگر مدت گزر جائے اور فی الواقع مقروض شخص قرضہ ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو اس کو جہاں تک ممکن ہو مہلت دے اور اپنے قرض کی وصولی میں زیادہ سختی نہ کرے۔ دوسری طرف قرض لینے والے کو لازم ہے کہ جس وقت وہ قرض ادا کرنے کے قابل ہو اسی وقت ادا کردے اور جان بوجھ کر ادائے قرض میں تساہل یا ٹال مٹول نہ کرے۔ (اپریل ۱۹۴۶ء)
سوال : مشترک کاروبار جس میں صالحین و فاجرین ملے جلے ہوں، پھرفاجرمیں شراب نوشی ، سودی کاروبار وغیرہ شامل ہوں، اس میں شرکت کرنا کیسا ہے؟
جواب :تجارت اگر بجائے خود حلال نوعیت کی ہو اور جائز طریقوں سے کی جائے، تو اس میں کسی پرہیزگار آدمی کی شرکت محض اس وجہ سے ناجائز نہیں ہوسکتی کہ دوسرے شُر کا اپنا مال حرام ذرائع سےکماکر لائے ہیں۔ آپ کا اپنا سرمایہ اگر حلال ہے، اور کاروبار حلال طریقوں سے کیا جارہا ہے، تو جو منافع آپ کو اپنے سرمایے پر ملے گا، وہ آپ کے لیے حلال ہوگا۔(فروری ۱۹۴۴ء)
سوال : کاسب ِ حرام کے ہاں ملازم رہنا یا اس کے ہاں سے کھانا پینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب : کاسب ِ حرام کی دو نوعیتیں ہیں: ایک تو وہ جس کا پیشہ فحشا کی تعریف میں آتا ہے، مثلاً زنان بازاری کا کسب۔ اس کے قریب جانا بھی جائز نہیں ، کجا کہ اس کے ہاں نوکر ہونا۔ دوسرا وہ کاسب ِ حرام ہے جس کا پیشہ حرام تو ہے ، مگر فحشا کی تعریف میں نہیں آتا، جیسے وکیل یا سودی ذرائع سے کمانے والا۔ اس کے کسی ایسے کام میں نوکری کرنا جس میں آدمی کو خود بھی حرام کام کرنے پڑتے ہوں، مثلاً سود خور کی سودی رقمیں فراہم کرنے کا کام یا وکیل کے محرّر کا کام، یہ حرام ہے۔ لیکن اس کے ہاں ایسے کام پر نوکری یا مزدوری کرنا جو بجائے خود حلال نوعیت کا ہو، مثلاً اس کی روٹی پکادینا یا اس کے ہاں سائیس یا ڈرائیور کا کام کرنا ہو، یا اس کا مکان بنانے کی مزدوری، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ رہا اس کے ہاں کھانا کھانا تو اس سے پرہیز ہی اولیٰ ہے۔(فروری ۱۹۴۴ء)