کتاب کے آغاز میں ایک مبسوط مقدمہ بھی درج ہے جس کا درج ذیل حصہ بڑی اہمیت رکھتا ہے: ’’محمد علی جناح، حیدرآباد دکن تشریف لائے تو چند نوجوانوں نے آپ سے کچھ سوالات کیے۔ یہ مکالمہ ’اورینٹ پریس‘ [نیوز ایجنسی]کی وساطت سے اخبارات میں شائع ہوا تھا۔ اس کے چند اقتباسات بانی ٔ پاکستان کی بصیرتِ قلبی اور دُور رس نگاہ کی یاد تازہ کریں گے۔
آپ سے سوال کیا گیا: ’’مذہب اور مذہبی حکومت کے لوازم کیا ہیں؟‘‘
آپ [قائداعظم] نے فرمایا:
’’جب میں انگریزی زبان میںReligion (مذہب) کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورے کے مطابق لامحالہ میرا ذہن خدا اور بندے کی باہمی نسبت اور رابطے کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ لیکن میں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک ’مذہب‘ کا یہ محدود اور مقید مفہوم یا تصور نہیں ہے۔ میں نہ تو کوئی مولوی ہوں نہ مُلّا، نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے۔ البتہ میں نے قرآنِ مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعے کی اپنے طور پر کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہرباب کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔
’’زندگی کا روحانی پہلو ہو یا معاشرتی، سیاسی ہو یا معاشی، غرض کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔ قرآن کی اصولی ہدایات اور سیاسی طریق کار نہ صرف مسلمانوں کے لیے بہترین ہیں بلکہ اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے لیے حُسنِ سلوک اور آئینی حقوق کا جو حصہ ہے اس سے بہتر تصور ناممکن ہے‘‘۔ (’ہمارے تعلیمی مسائل‘، مرتبہ: خلیفہ صلاح الدین ، ’مطبوعات‘، پروفیسر عبدالحمید صدیقی، ج۵۹، عدد۳،دسمبر ۱۹۶۲ء،ص ۵۸-۵۹)