ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی


حکومت ِ پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان ۳۰جون ۲۰۲۳ء کو اسٹاف کی سطح پر ہونے والے معاہدے کے بعد، آئی ایم ایف کے بورڈ نے ۱۲جولائی ۲۰۲۳ء کو ۹ماہ کی مدت کے لیے تین ارب ڈالر کے عبوری قرضے کی منظوری دیتے ہوئے اس قرضے کی پہلی قسط پاکستان کو فوری طور پر دے دی ہے ۔ اس قرضے کے ساتھ ہی دوست ممالک سے بھی رقوم ملنے سے معیشت میں بحرانی کیفیت ختم ہوگئی ہے اور معیشت میں عارضی استحکام آگیا ہے، جس سے فوری طور پر ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا ہے ، تاہم ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی، تجارتی و جاری حسابات کے خسارے میں اضافہ، ملکی و بیرونی قرضوں میں اضافہ اور معیشت کی شرحِ نمو سُست رہنے کی وجہ سے موجودہ سال میں غربت و بے روزگاری میں اضافے کا خدشہ ہے۔

عبوری مدت کا قرضہ ، ملکی و بیرونی اشرافیہ کا گٹھ جوڑ

آئی ایم ایف کے ۹ماہ کے عبوری مدت کے قرضے کو ملکی و بیرونی اشرافیہ کے گٹھ جوڑ نے حتمی شکل دی ہے۔ قرضے کی مدت وسط اپریل ۲۰۲۴ء میں ختم ہوگی، جب کہ منصوبے کے تحت نئی منتخب حکومت دسمبر ۲۰۲۳ءمیں آئی ایم ایف سے بیرونی رقم کے قرضے کے لیے رجوع کرے گی، جس کی منظوری میں چند ماہ لگ سکتے ہیں۔ سوچ یہ نظر آتی ہے کہ آئی ایم ایف کے تین ارب ڈالر کے موجودہ قرضے کے باوجود پاکستانی معیشت مشکلات میں گھری رہے۔ لیکن اگر حکومت خود کوئی بڑی غلطی نہ کرے تو آئی ایم ایف سے ۲۰۲۴ء میں بڑی رقم کے قرضے کی منظوری تک پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا جائے۔ البتہ ۲۰۲۴ء میں ملنے والے قرض کی معاشی اور سیاسی شرائط اتنی سخت ہوسکتی ہیں، جن کے نتیجے میں بڑے ڈیفالٹ کا خطرہ آنے والے برسوں میں حقیقت کا رُوپ دھار سکتا ہے۔ اس ’نجاتی پیکج‘ سے ’نئی سردجنگ‘ کے دور میں ’نیوگریٹ گیم‘ کے استعماری مقاصد میں معاونت پاکستان کے لیے تباہ کن ہوگی۔

نیو گریٹ گیم

پاکستان کو غیرمستحکم کرنا، پاکستانی معیشت کو کمزور اور اپنا دست نگر رکھنا اور حکومت و قوم، افواجِ پاکستان اور قوم اور وفاق و صوبوں کے درمیان اعتماد کا بحران پیدا کرنا، نائن الیون کے بعد امریکی پالیسی کا حصہ رہا ہے۔ ’نیوگریٹ گیم‘ کے مقاصد میں آنے والے برسوں میں پاکستان کے جوہری و میزائل پروگرام کو نقصان پہنچانا اور پاکستان کی سرحدوں میں خدانخواستہ تبدیلیاں لانا بھی شامل دکھائی دیتا ہے۔ ممتاز امریکی دانشور نوم چومسکی نے کہا تھا کہ’’ امریکا نے پاکستان کی اشرافیہ کو خرید لیا ہے‘‘۔ ہنری کسنجرنے نائن الیون کے بعد کہا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کی اصل جنگ اس وقت شروع ہوگی، جب افغانستان میں امریکی فوجی کارروائیاں دم توڑرہی ہوں گی اور اس کا محور افغانستان سے باہر ہوگا۔ افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان سے مفاہمت امریکا نے ایک حکمت عملی کے تحت کی ہے۔

صورتِ حال یہ ہے کہ گذشتہ دنوں خود افواجِ پاکستان کے سربراہ نے کہا: ’’افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کروائی جارہی ہیں‘‘، جب کہ حکومت عوام پر نت نئے ٹیکس عائد کرکے اقتصادی دہشت گردی کررہی ہے۔ امریکا، بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے پر متحرک ہے،اور بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بائیڈن مودی مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کے بے سروپا الزامات اور پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کی مالی معاونت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ سب خطرے کی گھنٹیاں ہیں۔

ڈیفالٹ کا اعلان کرنے کی مہم - ملکی و بیرونی اشرافیہ کا گٹھ جوڑ

وزیراعظم شہباز شریف نے۵جولائی ۲۰۲۳ء کو کہا تھا:’’کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے‘‘۔ اس ضمن میں ہم یہ عرض کریں گے کہ سابق صدر زرداری نے کہا تھا:’’ڈیفالٹ کرنے یا دیوالیہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔ جب کہ وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا: ’’پاکستان ڈیفالٹ کرچکا ہے،اورہم دیوالیہ ملک کے شہری ہیں‘‘۔

یاد رہے، اپریل ۲۰۱۹ء سے مارچ ۲۰۲۲ء تک عمران حکومت کے ناقابلِ فہم اور ناقابلِ دفاع فیصلوں سے پاکستان کی معیشت پرانتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہوئے، جب کہ شہباز حکومت نے بھی متعدد ایسے اقدامات کیے جن کے نتیجے میں مالی سال ۲۰۲۳ء میں معیشت کی کارکردگی پاکستان کی تاریخ کی بدترین کارکردگیوں میں سے ایک رہی اور ڈیفالٹ کا خطرہ پاکستان کے سر پر منڈلانے لگا۔ چنانچہ اشرافیہ کے کچھ طبقوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان ڈیفالٹ کرنے کا عندیہ دے۔

ان افراد کا یہ خیال تھا کہ اگر پاکستان ڈیفالٹ کردے تو پاکستان کو ایک بڑا نجاتی پیکج مل جائے گا اور پاکستان کونہ صرف مزید قرضے ملیں گے بلکہ کچھ بیرونی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ بھی ہوسکتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ معاشی سرگرمیاں تیز ہونے سے انھیں دولت کمانے کا موقع ملے گا۔ لیکن ان صاحبان نے اس خدشہ کو نظرانداز کردیا کہ آبادی کے لحاظ سے دُنیا کا پانچواں بڑا ملک، عالم اسلام کی پہلی جوہری قوت اور دفاع و تجارت کے لحاظ سے انتہائی اہم محل وقوع کا حامل ملک پاکستان اگر خدانخواستہ ڈیفالٹ کرتا ہے تو اس کے نتائج انتہائی ہولناک ہوں گے۔ پاکستان کے جوہری اثاثے اور اس کا شاندار محلِ وقوع ’نجاتی پیکج‘ کی آڑ میں ان اثاثوں اور جغرافیائی سرحدوں کو بھی خطرات کی زد میں لایا جاسکتا ہے۔ استعماری طاقتوں کے نزدیک پاکستان کو ڈیفالٹ کرانے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے کیونکہ افغانستان وغیرہ کے معاملات میں امریکا کو پاکستان کی اب بھی ضرورت ہے۔مگر آیندہ برسوں میں یہ صورت نہیں رہے گی۔

گذشتہ پانچ سال ، چند حقائق

گذشتہ پانچ برسوں میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کی حکومت نے اسٹیٹ بنک اور ایف بی آر سمیت متعدد اداروں کے تعاون اور ملکی و بیرونی اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں جو معاشی پالیسیاں اپنائیں، ان کے منفی نتائج کے ضمن میں چند حقائق اور اعدادو شمار پیش ہیں:

            ۱-         معیشت کی اوسط سالانہ شرحِ نمو ۲ء۶ فی صد رہی ، جب کہ اس سے قبل کی ۳۸برسوں میں یہ شرح اوسط ۴ء۷ فی صد سالانہ تھی۔

            ۲-         مالی سال ۲۰۱۸ء میں افراطِ زر کی شرح ۴ء۶۹ فی صد تھی، جب کہ مالی سال ۲۰۲۳ء میں یہ شرح ۲۹ء۴ فی صد ہوگئی۔ اس اضافے سے غریب و متوسط طبقے کے کروڑوں عوام بُری طرح متاثر ہوئے اور ان کی زندگیوں میں محرومیاں بڑھ گئیں۔

            ۳-         مالی سال ۲۰۱۸ء کے اختتام پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر ۱۲۲ روپے تھی، جو گرکر ۲۸۵روپے ہوگئی۔ روپے کی قدر میں اس زبردست کمی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

            ۴-         ان برسوں میں ملکی درآمدات ۲۹۲؍ارب ڈالر رہیں، جب کہ برآمدات کا مجموعی حجم صرف ۱۳۰؍ارب ڈالر رہا، یعنی اس مدت میں پاکستان کو تقریباً ۱۶۲؍ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا۔

            ۵-         پاکستان شاید دُنیا کا واحد ملک ہے جہاں جائز اور ناجائز دولت کو قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کروائے بغیر ملکی قانون کے تحت ملک سے باہر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں کھلی منڈی سے ڈالر خرید کر بنکوں کے ذریعے جو رقوم ملک سے باہر منتقل کی گئی ہیں ان سے متعدد ڈیم تعمیر کیے جاسکتے تھے۔ واضح رہے کہ گذشتہ تقریباً ۵۰برسوں میں پاکستان نے کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں کیا۔ پانی سے بنائی گئی بجلی کی لاگت تقریباً سات روپے فی یونٹ آتی ہے ، جب کہ فرنس تیل سے پیدا کرنے والی بجلی کی لاگت تقریباً ۴۸ روپے فی یونٹ آتی ہے۔

            ۶-         گذشتہ پانچ برسوں میں بیرونی ملکوں سے ۱۳۲؍ارب ڈالر کی ’ترسیلات‘  انکم ٹیکس آرڈی ننس کی شق ۱۱۱(۴) سے مستفید ہوکر پاکستان آئی ہیں۔ واضح رہے کہ ایک لاکھ ڈالر کی ترسیلات پر ٹیکسوں کی مد میں حکومت کو تقریباً ۵۰ لاکھ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

            ۷-         ایک تخمینے کے مطابق گذشتہ پانچ برسوں میں ایف بی آر نے ٹیکسوں کی مد میں اپنی استعداد سے تقریباً ۲۵ہزار ارب روپے کی کم وصولی کی۔ اس نقصان سے مال دار اور طاقت ور طبقات نے خوب فائدہ اُٹھایا ، جب کہ عوام نے موجودہ ۱۸فی صد کی شرح سے جنرل سیلز ٹیکس دیا۔ حکومت نے تعلیم، صحت اور ترقیاتی اخراجات کی مدات میں زبردست کٹوتیاں کیں۔

            ۸-         ملک میں تقریباً ۹کروڑ موبائل فون رکھنے والے ایسے افراد سے حکومت غیرقانونی طور پر ۱۵ فی صد پیشگی ٹیکس وصول کررہی ہے،حالانکہ ان کی آمدنی ۶لاکھ روپے سالانہ سے کم ہے۔

            ۹-         ۳۰ جون ۲۰۱۸ء کو پاکستان کے مجموعی قرضوں اور مالی ذمہ داریوں کا حجم ۲۹ ہزار ۸سو۷۹ ؍ارب روپے تھا جو پانچ سال بعد بڑھ کر ۷۲ ہزار۹سو۷۸ ؍ارب روپے ہوگیا۔ صاف ظاہر ہے کہ آزادی کے ۷۱ برس بعد قرضوں اور ذمہ داریوں کے مجموعی حجم کے مقابلے میں بھی کہیں زیادہ اضافہ گذشتہ پانچ برسوں میں ہوا۔

            ۱۰-      دسمبر ۲۰۱۸ء میں بنکوں نے صنعت، تجارت اور زراعت وغیرہ کے لیے ۷ہزار ۹سو۵۵ ارب روپے کے قرضے دیئے تھے، جو دسمبر ۲۰۲۲ء میں بڑھ کر ۱۱ہزار ۸سو۱۸ ؍ارب روپے ہوگئے، یعنی ۳ہزار ۸سو ۶۳ ؍ ارب روپے کا اضافہ۔اسی مدت میں بنکوں نے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو جو رقوم دے رکھی تھیں، ان کا حجم ۷ہزار۹سو۱۴ ؍ارب روپے سے بڑھ کر ۱۸ہزار ۴سو ارب روپے ہوگیا، یعنی ۱۰ہزار ۴سو۸۶ ؍ ارب روپے کا اضافہ۔ عالمی مالیاتی ادارے ایسی سرمایہ کاری کو ملک کا رسک (خطرہ) تصور کرتی ہیں۔ خدشہ ہے کہ آنے والے برسوں میں ان حکومتی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کرنے کے لیے پاکستان کو مجبور کیا جاسکتا ہے۔ یہ بیرونی قرضوں کے ممکنہ ڈیفالٹ سے بڑا خطر ہ ہے، جس سے پاکستان کے بنکاری نظام کو تباہ کن جھٹکا لگ سکتا ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف

۱۹۵۸ء سے جولائی ۲۰۲۳ء تک پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ قرضوں کے ۲۴ پروگرام حاصل کیے ہیں ، جب کہ آزادی کے بعد سے اب تک علاوہ نگران وزرائے اعظم کے، شہبازشریف ۱۷ویں وزیراعظم ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ تمام حکومتیں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کو اپنا فرضِ منصبی سمجھنا، جب کہ امریکا بھی پاکستان کو آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑے رکھنا چاہتا ہے، کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر وہ پاکستان کی معیشت کو اپنا دست ِ نگر بنائے رکھنے کے ساتھ ’نیوگریٹ گیم‘ کے مقاصد بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں حکومتیں آئی ایم ایف کی شرائط کی آڑ میں عوام پر نت نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالتے چلے جانے کے ساتھ ساتھ طاقت ور طبقوں کو بدستور مراعات دیتی چلی جاتی ہیں۔ بیرونی قرضے حاصل کرکے اپنے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے ساتھ امریکی حکمرانوں کی خوش نودی حاصل کرتی ہیں۔ اس ناپاک گٹھ جوڑ کو توڑے بغیر پاکستان کی معیشت میںپائیدار بہتری آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

پہلے فوجی حکمران ایوب خان نے سب سے پہلے ۸دسمبر ۱۹۵۸ء کو پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسایا تھا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، معین قریشی، محبوب الحق، ملک معراج خالد، نواز شریف، جنرل پرویز مشرف، آصف زرداری/یوسف رضا گیلانی، عمران خان اور شہباز شریف نے آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کیے۔ عمران خان اور شہباز شریف نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ پاکستان مالی سال ۲۰۲۴ء میں آئی ایم ایف سے بڑی رقم کا قرضہ حاصل کرے۔ حالانکہ بھارت نے آخری مرتبہ ۱۹۹۴ء میں ایسے وقت آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کیا تھا، جب بھارت کی معیشت تباہ ہوچکی تھی۔ یہ قرضہ لینے کے بعد بھارتی حکومت نے برق رفتاری سے معیشت میں بنیادی اصلاحات کیں اور پھر آئی ایم ایف کے قرضے سے بے نیاز ہوگیا۔ قوم کو سوچنا ہوگا کہ ہم یہ اصلاحات کرنے سے کیوں گریزاں ہیں اور ایسے فیصلے کیوں کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر نہ نکل سکیں؟

آئی ایم ایف پروگرام میں ناقابلِ فہم توسیع

تحریک ِ انصاف کی حکومت نے ۳جولائی ۲۰۱۹ء کو آئی ایم ایف سے قرضے کا جو پروگرام منظور کروایا تھا، وہ ستمبر ۲۰۲۲ء میں ختم ہورہا تھا۔ شہباز حکومت نے اس پروگرام کی جون ۲۰۲۳ء تک توسیع کروائی اور اس مدت میں آئی ایم ایف کی شرائط کی آڑ میں متعدد ایسے اقدام اُٹھائے، جن کے نتیجے میں معیشت تباہی کے کنارے پر پہنچ گئی۔ چند اعداد و شمار یہ ہیں:

            ۱-         مالی سال ۲۰۲۲ء میں افراطِ زر کی شرح ۱۲ء۲ فی صد تھی، جو مالی سال ۲۰۲۳ء میں بڑھ کر ۲۹ء۲ فی صد ہوگئی۔

            ۲-         مالی سائل ۲۰۲۲ء کے اختتام پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر ۲۰۴ روپے تھی، جب کہ مالی سال ۲۰۲۳ء کے اختتام پر یہ شرح مبادلہ ۲۸۵ روپے ہوگئی۔

            ۳-         مالی سال ۲۰۲۳ء میں گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں برآمدات میں ۴ء۱ ؍ ارب ڈالر اور ترسیلات میں ۴ء۳؍ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔ اسی مدت میں درآمدات میں ۲۴ء۹؍ ارب ڈالر اور تجارتی خسارہ میں۲۰ء۸؍ ارب ڈالر کی کمی ہونے کے باوجود اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں ۵ء۳؍ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔

            ۴-         مالی سال ۲۰۲۲ء میں معیشت کی شرحِ نمو، ناپائے دار اور ناہموار ہی سہی، مگر ۶ء۱ فی صد تھی، جب کہ موجودہ مالی سال میں یہ شرح منفی ہوسکتی ہے۔

ان حقائق کی روشنی میں یہ بات راز ہی رہے گی کہ شہباز حکومت نے آئی ایم ایف کے قرضے کی مدت کو ستمبر ۲۰۲۲ء سے بڑھوا کر جون ۲۰۲۳ء کیوں کرایا؟ کیونکہ متعدد تباہ کن ’شرائط‘ پر عمل درآمد کروانے کے باوجود آئی ایم ایف نے اس مدت میں پاکستان کو ایک ڈالر کا قرضہ بھی نہیں دیا۔

دانش مندانہ حکمت عملی یہ ہوتی کہ ستمبر ۲۰۲۲ء میں آئی ایم ایف کے قرضے کی مدت ختم ہونے کے چند ماہ بعد دسمبر ۲۰۲۲ء میں بڑی رقم کے قرضے کی درخواست پیش کر دی جاتی۔ اس وقت معیشت کی حالت آج کے مقابلے میں کہیں بہتر تھی۔ چنانچہ نسبتاً کم کڑی شرائط پر قرضہ مل جاتا اور ڈیفالٹ کا خطرہ بھی نہ ہوتا۔ اب قرضہ کی درخواست دسمبر ۲۰۲۲ء کے بجائے دسمبر ۲۰۲۳ء میں پیش کی جائے گی، جس کی شرائط معیشت اور ملکی سلامتی کے لیے تباہ کن ہوں گی۔ شہباز حکومت کو  اس پہاڑ جیسی غلطی کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔

معاشی اصلاحات کی قانونی شکل یا اجتماعی خودکشی

یہ بات بالکل واضح ہے کہ تحریک انصاف اور پھر نون لیگ کی اتحادی حکومت نے ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں کہ پاکستان ۲۰۲۴ء میں سخت ترین شرائط پر آئی ایم ایف سے بڑی رقم کا قرضہ حاصل کرے۔ یہ قرضہ امریکا کی سفارش پر ملے گا، جس کے لیے ’نیوگریٹ گیم‘ کے تحت امریکا کی اپنی شرائط ہوں گی جو معیشت اور سلامتی کے لیے خطرات لائیں گی۔شہباز حکومت نے جولائی ۲۰۲۳ء میں معیشت کے ضمن میں دو اہم باتیں کہی ہیں: اوّل یہ کہ اگلی حکومت کو معیشت کے شعبے میں صحیح معنوں میں اصلاحات کرنا ہوں گی، اور دوم کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے۔

ہم اس ضمن میں یہ عرض کریں گے کہ گذشتہ ۳۰برسوں میں کسی بھی حکومت بشمول فوجی حکومت اور اسٹیٹ بنک نے صحیح معنوں میں مؤثر معاشی اصلاحات نہیں کیں، کیونکہ ان سے طاقت ور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ چنانچہ اگلی حکومت سے یہ توقع کرنا کہ وہ یہ اصلاحات کرے گی، خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر یہ اصلاحات نہیں کی جاتیں تو پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

اس طرح معیشت کی بحالی، پاکستان کی سلامتی اور جوہری اثاثوں اور ہماری جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ انتخابات سے پہلے بنیادی معاشی اصلاحات کو لازماً قانونی شکل دے دی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ اجتماعی خودکشی کے مترادف ہوگا۔ میثاقِ معیشت کا نعرہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کواس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔ سپریم کورٹ بھی اس ضمن میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتا ہے۔

چند اہم تجاویز

            اس ضمن میں ہماری چار تجاویز ہیں:

            ۱-         اگلے چند روز میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے۔ اس میٹنگ میں حکومت سازی میں شریک کم از کم تین بڑی پارٹیوں کی قیادت سے ایک حلف نامے پر دستخط کرائے جائیں، جس میں درج ذیل نکات شامل ہوں:

                        (۱) وفاق اور صوبے ۱۰ لاکھ روپے سالانہ سے زائد ہرقسم کی آمدنی پر ٹیکس مؤثر طور پر اور منصفانہ طریقے سے نافذ اور وصول کریں گے۔

                        (۲) معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا اور پراپرٹی کی مالیت ہرسال مارکیٹ کے نرخوں کے برابر مقرر کی جائے گی۔

                        (۳) جنرل سیلز ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح (علاوہ اشیائے تعیش یا غیرضروری اشیا) ۷ء۵ فی صد ہوگی،جب کہ پٹرولیم لیوی (بھتہ) ختم کردیا جائے گا۔

                        (۴) انکم ٹیکس آرڈی ننس کی شق ۱۱۱(۴) کو منسوخ کردیا جائے گا۔

                        (۵) تعلیم اور صحت کی مد میں جی ڈی پی کا ۷ء۵ فی صد لازماً مختص اور خرچ کیا جائے گا۔

                        (۶) کھلی منڈی سے خریدی ہوئی بیرونی کرنسی کو علاوہ تعلیم و علاج معالجے کے اخراجات کے بنکوں میں بیرونی کرنسی کے کھاتوں کے ذریعے ملک سے باہر منتقلی پر پابندی عائد کردی جائے گی۔

                        (۷) توانائی کے شعبے میں ایسی اصلاحات کی جائیں گی کہ گردشی قرضہ پیدا نہ ہو اور بجلی کی تقسیم و ترسیل، بجلی کی چوری، اور بجلی کے بلوں کی عدم وصولی کے نقصانات عوام کو منتقل نہ کیے جائیں گے۔

                        (۸) بنکوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے کھاتے داروں کو منافع میں شریک کریں۔ وزارتِ خزانہ انکم ٹیکس آرڈی ننس کی شق ۲۶، ایف-۴، اور اسٹیٹ بنک شق ۴۰-الف پر عمل درآمد یقینی بنائیں گے۔

            ۲-         مندرجہ بالا نکات پر مشتمل حلف نامے پر دستخطوں کے بعد اس ضمن میں فوری طور پر مؤثر قانون سازی کی جائے، جس میں واضح طور پر کہا جائے کہ انتخابات کے بعد برسرِاقتدار آنے والی وفاقی و صوبائی حکومتیں، اس قانون پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہوں گی۔

            ۳-         الیکشن کمیشن کو پابند کیا جائے کہ سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب لڑنے والوں کے فارم میں بھی یہ حلف نامہ شامل کریں۔ یہ اہتمام اس لیے بھی ضروری ہے کہ عوام کے نمایندے معاشی ذمہ داری کی نزاکت کو سمجھیں اور قوم سے عہد کریں۔

حاصلِ گفتگو

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:

  • فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ۝۲(الحشر ۵۹:۲) پس عبرت حاصل کرو، اے دیدۂ بینا رکھنے والو!
  • اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۝۰ۭ (الرعد ۱۳:۱۱) اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔ 

حقائق، خدشات، حل

اس مضمون میں چند بڑے بنیادی سوال اُٹھائے گئے ہیں، جن پر ڈاکٹر شاہدحسن پہلے بھی متوجہ کرتے آئے ہیں۔ لیکن وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے، اور اس پر حکومت کی جانب سے عمل کی آمادگی نے اس ضرورت کو اور زیادہ بڑھایا ہے کہ ان کے اُٹھائے ہوئے سوالوں کا شافی جواب تلاش کیا جائے، اور موجودہ نظام کی خامیوں کو برقرار (perpetuate)نہ رکھا جائے، اور آگے بڑھنے سے قبل فوری طور پر ان کی اصلاح کی پختگی اور واضح شفافیت کے ساتھ تدابیر کی جائیں۔ اس لیے، اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ علما اور اسلامی معاشیات و مالیات کے ماہرین کا ایک بورڈ بنایا جائے، جو اس فیصلے کی روشنی میں درست طور پر اسلامی بنکاری نظام کے تمام خدوخال کو متعین کرے اور اس نظام کو محض وفاقی شرعی عدالت کی مبہم صورت سے نکال کر، حقیقی معنی میں ’شریعت کی بنیاد‘ (Shariah Based) بنائے۔ اس بورڈ کی رہنمائی اور اس کی تعمیل کا جائزہ پارلیمنٹ اور قوم کےسامنے وقتاً فوقتاً پیش کیا جائے۔ (ادارہ)

وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ۹نومبر ۲۰۲۲ء کو یہ حیران کن بیان دیا کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور نیشنل بنک آف پاکستان وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کےفیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں داخل کردہ اپیلیں فوری طور پر واپس لیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت سود کے خاتمے کے ضمن میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر جلد از جلد عمل درآمد کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔ جمعیۃ العلماء اسلام پاکستان، اسلامی نظریاتی کونسل اور چند ممتاز علمائے دین کی طرف سے اپیلیں واپس لینے کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ یاد رہے نجی شعبے کے تین بنکوں نے بھی وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیلیں دائر کی تھیں۔ اب تک ان بنکوں کی جانب سے اپیلیں واپس لینے کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا۔ چنانچہ انھی تین بنکوں کی اپیلوں کی وجہ سے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ معطل ہوجائے گا۔ اس طرح اسٹیٹ بنک اور نیشنل بنک کی جانب سے اپیلیں واپس لینا ایک بے معنی مشق بن کر رہ جائے گا۔

اگر وفاقی حکومت اور اسٹیٹ بنک کے دبائو پر نجی شعبے کے یہ تین بڑے بنک بھی اپنی اپیلیں واپس لیتے ہیں، تو اُس سے بھی ایک سنگین صورت پیدا ہوجائے گی، کیونکہ اپنے فیصلے میں وفاقی شرعی عدالت نے بغیرکسی تحقیق کے، اسلامی بنکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بنکوں میں رائج ڈیپازٹس، فنانسنگ اور سرمایہ کاری وغیرہ کی متعدد ایسی پراڈکٹس کو بھی شریعت کے مطابق قراردیا ہے، جو شرعی اصولوں سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتیں اور ان میں سود کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ اگر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی متعدد فاش غلطیوں کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کی جانب سے ٹھیک نہیں کیا جاتا، تو یہ دستورِ پاکستان کی شق ۳ اور ۳۸ (ایف) کی بھی خلاف ورزی ہوگی اور آیندہ کئی عشروں تک پاکستان میں ایک نہ ختم ہونے والی عدالتی کشاکش کے زیرسایہ رائج الوقت سودی نظامِ معیشت و بنکاری پوری آب و تاب سے پھلتا پھولتا رہے گا۔

اس تشویش ناک صورتِ حال کے پیش نظر ہم نے اسٹیٹ بنک اور بنکوں کی جانب سے اپیل دائر کرنے کے فیصلے کے فوراً بعد سپریم کورٹ کو خط لکھ کر استدعا کی تھی کہ ’’عدالت عظمیٰ ان اپیلوں کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرے اور وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے میں اسلامی بنکوں کی شریعت سے متصادم بعض پراڈکٹس کو اسلامی اصولوں کے مطابق قرار دینے کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دے‘‘۔

اب سے ۲۵برس قبل پاکستان کی وفاقی حکومت نے ۳۰جون ۱۹۹۷ء کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ سے استدعا کی تھی کہ ’’وفاقی شرعی عدالت کے ۱۹۹۱ء کے فیصلے کے خلاف ۱۹۹۲ء میں عدالت عظمیٰ میں دائر کردہ وفاقی حکومت کی اپیل واپس لینے کی اجازت دی جائے‘‘۔ شریعت اپیلیٹ بنچ نے حکومت کے سیاسی عزائم کو بھانپتے ہوئے اپیل واپس لینے کی وفاقی حکومت کی استدعا کو مسترد کر دیا تھا۔ اب ۲۵برس بعد تاریخ اپنے آپ کو دُہرا رہی ہے۔ وفاقی حکومت کے ایما پر اسٹیٹ بنک اور نیشنل بنک نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کردہ اپیلیں واپس لینے کی جو استدعا کی ہے، اس کے مضمرات پر غور کرتے ہوئے اس درخواست کو مسترد کرکے ان اپیلوں کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے۔

وفاقی حکومت، اسٹیٹ بنک اور نیشنل بنک اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے (۲۸؍اپریل۲۰۲۲ء) میں متعدد سقم موجود ہیں۔ ان دونوں بنکوں کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کرنے کا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ ملک میں اسلامی نظامِ معیشت و بنکاری کے نفاذ میں ممکنہ حد تک تاخیر جاری رہے اور رکاوٹیں کھڑی رہیں، کیونکہ اس نظام سے طاقت ور اور مال دار طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ یہ اپیلیں واپس لینے کے فیصلے سے موجودہ حکومت صرف سیاسی فائدہ حاصل کرناچاہتی ہے۔ ان اپیلوں کوواپس لینے کے باوجود متعدد وجوہ کی بناپر آنے والے برسوں میں معیشت سے سود کے خاتمے کے ضمن میں کسی معنی خیز پیش رفت کا امکان نہیں ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان اپیلوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کو موقع ملے گا کہ وہ شرعی عدالت کے فیصلے میں پائے جانے والے سقم اور غلطیوں کو درست کرسکے۔

چند بنیادی  حقائق

مندرجہ بالا گزارشات کی مزید وضاحت کے لیے چند مزید حقائق پیش خدمت ہیں:

۱-    وفاقی شرعی عدالت نے اپنے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے میں اسلامی بنکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بنکوں کی سود پر مبنی یا شریعت سے متصادم ڈیپازٹس اور فنانسنگ وغیرہ کی پراڈکٹس کو بلاتحقیق شریعت کے مطابق قراردیا ہے۔ چنانچہ، یہ اَزحد ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران ان پراڈکٹس کا باریک بینی سے جائزہ لے، خصوصی طور پراسپیشل مشارکہ پول، کرنسی سلم، کموڈیٹی مرابحہ، اور رننگ مشارکہ وغیرہ۔ اسلامی بنکوں کے نام سے کام کرنے والے اداروں میں رقوم جمع کرانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی بنکوں کی جانب سے ان کی رقوم پر ملنے والا منافع حلال ہے، حالانکہ شریعت سے متصادم پراڈکٹس کی آمدنی سے جو منافع کھاتے داروں کو ملتا ہے، اس میں سود کی آمیزش ہوتی ہے۔

۲-    اسلامی بنک نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد پرجمع کرائی گئی رقوم پر اپنے کھاتہ داروں کو منافع شرعی اصولوں کے مطابق نہیں دے رہے۔ ایک بنک کی جاری کردہ اسلامک بنکنگ آپریشنز کے شریعہ بورڈ کی رپورٹ میں یہ اعتراف موجود ہے کہ کھاتہ داروں کو منافع اسٹیٹ بنک کی ہدایات کے مطابق دیا جارہا ہے، یعنی شرعی اصولوں کے مطابق نہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ اسلامی بنک درحقیقت سودی بنکوں کے مقابلے میں بھی کم شرح سے منافع دے رہے ہیں،جب کہ ایکویٹی کے تناسب سے اسلامی بنکوں کی اوسط سالانہ شرح منافع، سودی بنکوں کی اوسط سالانہ شرح منافع سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ناانصافی اور استحصال کی واضح مثال ہے۔ اسلام میں سود کو حرام اس لیے بھی قرار دیا گیا ہے کہ ’’یہ ظلم و ناانصافی کا سبب بنتا ہے‘‘۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں اسلامی بنکوں کی اس پراڈکٹ کو شریعت کے مطابق قرار دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کو اس بنیادی غلطی کو درست کرنا ہوگا۔

۳-اسٹیٹ بنک نے ۲۰۱۴ء میں جاری کردی سرکلر لیٹر نمبر۲ میں اسلامی بنکوں کو ’کرنسی سلم‘ یعنی کرنسیوں کی تاخیر یا مؤخر ادائیگی کی بنیاد پر تبادلے کی اجازت دی ہوئی ہے، حالانکہ یہ ’ربا‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ اسٹیٹ بنک کے یہ احکامات اجماعِ اُمت کے خلاف ہیں۔ دُنیا بھر میں علما اس امر پر متفق ہیں کہ جس طرح سونے اور چاندی کے درمیان تبادلہ دست بدست ہونا چاہیے، اسی طرح دو مختلف کرنسیوں کے درمیان تبادلہ بھی دست بدست ہونا چاہیے۔ چنانچہ اگر یہ تبادلہ تاخیر سے ہو تو یہ ‘ربا‘ ہے۔

آج کل سودی بنکاری کے تحت دُنیامیں دو مختلف کرنسیوں کے تبادلے کثرت سے ہوتے ہیں، مثلاً ڈالر اور روپے کا تبادلہ اس طرح ہوتا ہے کہ ایک کرنسی کی سپردگی مستقبل کی کسی تاریخ میں ہوتی ہے۔ یہ ایک طرف سود کا دروازہ کھولتا ہے اور دوسری طرف سٹے بازی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ چنانچہ اسلامی بنکاری کے تحت سود سے بچنے کے لیے ان دونوں کرنسیوں کا تبادلہ دست بدست ہونا چاہیے۔ انٹرنیشنل فقہ اکیڈمی جدہ اور اسلامی مالیاتی اداروں کی اکائونٹنگ اور آڈٹنگ کی تنظیم (ایافی) کا بھی یہ متفقہ موقف ہے کہ ’’کرنسی میں مستقبل کے سودے نہیں ہوسکتے‘‘۔ چنانچہ کرنسی میں سلم اور مؤخر مرابحہ نہیں ہوسکتا۔ اصول یہ ہے کہ موجودہ زرنقدی (کاغذی کرنسی) پر وہی شرعی احکام لاگو ہوتے ہیں، جو سونے اور چاندی (دینار اور درہم) کے ہیں۔

وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے (۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء) میں ’ربا‘ کی تین اقسام کا بھی ذکر کیا ہے، مثلاً گندم کا گندم سے تبادلہ، اگر برابر نہ ہو اور دست بدست نہ ہو تو وہ ’ربا‘ ہے۔ اسی طرح گندم کا جَو کے ساتھ مؤخر سپردگی کے ساتھ تبادلہ ’ربا‘ ہے۔ یہ اقسام اب دُنیا میں رائج نہیں ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے بہرحال یہ نہیں بتلایا کہ اگر روپے اور ڈالر یعنی دومختلف کرنسیوں کے درمیان تاخیر یعنی مؤخر سپردگی کی بنیادپر تبادلہ ہو تو یہ بھی ’ربا‘ ہے۔ اس طرح کرنسی سلم کو عملاً سند ِ جواز عطا کردیا گیا ہے۔ چنانچہ کرنسی سلم کے تحت اسلامی بنکوں میں سودی کاروبار فروغ پاتارہے گا اور سودی کاروبار کی آمدنی سے اسلامی بنک اپنے کھاتے داروں کو منافع دیتے رہیں گے۔ سپریم کورٹ کے اپیلیٹ بنچ کو کرنسی سلم کی ممانعت کرنا ہوگی۔

۴-    سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے جون ۲۰۰۲ء میں ’ربا‘ کا مقدمہ وفاقی شرعی عدالت کے پاس واپس بھیجا تھا، اور یہ ہدایت بھی دی تھی کہ وہ بیرونی کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور افراطِ زر کی روشنی میں انڈیکسیشن کے معاملے پر بھی فیصلہ دے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اس حکم کی پابندی نہیں کی اور اس پیچیدہ مسئلے سے پہلو بچایا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران شریعت اپیلیٹ بنچ کو اس ضمن میں بھی فیصلہ دینا ہوگا، وگرنہ آنے والے برسوں میں یہ معاملہ پھر عدالتوں کے پاس جائے گا۔

۵-    سپریم کورٹ میں ۲۰۰۲ء میں سود کا مقدمہ زیرسماعت تھا، مگر فیصلہ اسلامی بنکاری کے نفاذ کا کیا گیا۔ اس پس منظر میں اب ۲۰۲۲ء میں بنکوں کی اپیلیں واپس لینے کا پُراسرار فیصلہ کیوں؟اب سے تقریباً ۲۰برس قبل جب سود کے مقدمے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ میں زیرسماعت تھیں، تو ایک اعلیٰ اختیاراتی اجلاس کے فیصلے کے تحت اسٹیٹ بنک کی سالانہ رپورٹ برائے مالی سال ۰۲-۲۰۰۱ء میں کہا گیا تھا کہ اگرچہ ’ربا‘ (سود) کا مقدمہ عدالت میں چلتا رہے گا، مگر اسٹیٹ بنک اسلامی بنکاری کے نظام کو سودی بنکاری کے ساتھ متوازی طور پر چلائے گا۔ علما و مفتی صاحبان یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بنکاری کا یہ متوازی نظام غیراسلامی ہے۔ یہ بات ہم نے اسی وقت بیان کردی تھی۔ اس متوازی نظام کو اسٹیٹ بنک کے شریعہ بورڈ کی آشیرباد حاصل ہی ہے۔ اس شریعہ بورڈکے سربراہ ڈاکٹر محمود احمد غازی اور مفتی تقی عثمانی بھی رہ چکے ہیں۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ اب ۲۰۲۲ء میں بھی اسلامی بنکوں میں جو پراڈکٹس استعمال کی جارہی ہیں، ان میں سے کچھ میں سود کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے جس کی توثیق ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں کردی گئی ہے۔

۶-    وفاقی شرعی عدالت نے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے میں کہا ہے کہ کوئی بھی شخص یا ادارہ اگر یہ سمجھتا ہے کہ اسلامی بنکوں کی کوئی بھی پراڈکٹ شریعت کے مطابق نہیں ہے، تووہ کسی بھی وقت وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔

اگر سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلوں کی غلطیوں اور سقم وغیرہ کو درست نہیں کیا تو خدشہ یہ ہے کہ آنے والے برسوں میں نیک نیتی یا بدنیتی سے کوئی بھی شخص یا ادارہ وفاقی شرعی عدالت میں اسلامی بنکوں کی متعدد پراڈکٹس کو غیراسلامی قرار دینے یا افراطِ زر اور انڈیکسیشن وغیرہ کے مسئلے کو اُٹھا کر، یا کسی اور متنازع معاملے کو جواز بنا کر وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ اور پھر اس مقدمے کا فیصلہ آنے میں برس ہا برس لگ سکتے ہیں، جب کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ میں بھی دائر کی جاسکتی ہے۔

اس سنگین صورتِ حال سے بچنے کا واحد قابلِ عمل راستہ صرف یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا شریعت اپیلیٹ بنچ ۲۸؍اپیل ۲۰۲۲ء کے فیصلے کے خلاف دوبنکوں کی اپیلوں کی واپسی کی استدعا مسترد کرکے ان کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرے اور ان ماہرین سے بھی معاونت طلب کرے، جنھوں نے ۱۹۹۹ء میں ’ربا‘ کے مقدمے میں اپنی گزارشات عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کی تھیں، تاکہ تمام متنازع اُمور نمٹا کر سود کے خاتمے کے ضمن میں حتمی اور جامع فیصلہ صادر کیاجاسکے۔

وفاقی حکومت کے کرنے کا اصل کام

آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شق ۳۸ (ایف) میں کہا گیا ہے: ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ (معیشت سے) جلد از جلد ربا کا خاتمہ کر دیا جائے۔ ہم تجویز پیش کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی منظوری سے اس شق میں یہ اضافہ کردیا جائے کہ ’’سود ہرشکل میں ربا کے زمرے میں آتا ہے‘‘۔ اس کے بعد شرعی عدالتوں میں سود کے حرام نہ ہونے کا معاملہ زیربحث لایا ہی نہیں جاسکے گا۔

  • تنبیہہ :وفاقی وزیرخزانہ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ’’موجودہ حکومت وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے پر جلد از جلد عمل درآمد کرنے کی پوری کوشش کرے گی‘‘۔ اس کے تباہ کن مضمرات کا سوچ کر ہماری روح کانپ جاتی ہے کیونکہ اس سے ایک طرف اسلامی بنکاری کے نام پر سودی نظام فروغ پاتا رہے گا، اور دوسری طرف یہ حقیقی خطرہ موجود رہے گا کہ اسلامی بنکاری کے جھنڈے تلے رائج اس نظام کو آگےچل کر شرعی عدالتیں غیراسلامی اور سود پر مبنی قرار دے سکتی ہیں۔

آئین کی شق ۳۸ (ایف) میں اضافہ کرکے سود کو ربا قرار دیا جائے

یہ امر خوش آیند ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نےاپنے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے میں ایک مرتبہ پھر سود کو ہرشکل میں حرام قراردیا ہے۔ دوسری طرف اسٹیٹ بنک اور کچھ بنکوں نے ربا کے اس مقدمے میں کچھ عملی مشکلات وغیرہ کو جواز بنا کر سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں اس فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کردی ہیں۔ اس سے قبل خود ہم نے شریعت اپیلیٹ بنچ کو ایک کھلا خط لکھا تھا، جس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں اسلامی بنکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والےبنکوں کی شریعت سے متصادم اور سود پر مبنی ڈیپازٹس اور فنانسنگ کی پروڈکٹس کو بھی بلاتحقیق شریعت کے مطابق قرار دے دیا ہے۔

پھر اس خدشے کا بھی اظہار کیا تھا کہ بنکوں کی جانب سے کی جانے والی ان اپیلوں میں تاخیری حربوں کے طور پرنت نئے نکات اُٹھائے جاتے رہیں گے تاکہ اصل معاملہ، یعنی اسلامی بنکوں میں سود پر مبنی یا شریعت سے متصادم پروڈکٹس کو غیراسلامی قرار دینے کا معاملہ، پس پشت ڈالا جاسکے۔ دوسری طرف حکومت سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اسٹیٹ بنک اور بنکوں کو احکامات دیئے جائیں کہ وہ اپنی اپیل واپس لیں۔ حالانکہ اسٹیٹ بنک قانونی طور پر ایک خودمختار ادارے کی صورت اختیار کرچکا ہے اور حکومت اسے احکامات دینے کا اختیار نہیں رکھتی۔ پھر ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ۲۸؍اپریل کے فیصلے کے مطابق تو اسلامی بنکوں میں سود پر مبنی یا شریعت سے متصادم ڈیپازٹس اور فنانسنگ کی پروڈکٹس کو قانونی تحفظ مل جائے گا، جو سود کو حرام قرار دیئے جانے کے باوجود پاکستان میں سودی نظام کو دوام بخشنے کے مترادف ہوگا۔ چوتھی بات یہ ہے کہ وزارتِ خزانہ کے مطابق وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے میں سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کی طرف سے ۲۴ جون ۲۰۰۲ء کو اُٹھائے گئے تمام سوالات کے جوابات کا مناسب طریقے سے احاطہ نہیں کیا گیا۔

اس وقت قابلِ عمل لائحہ عمل یہ نظر آتا ہے کہ معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے پہلے مرحلے میں ملک میں تمام روایتی بنکوں، یعنی سودی بنکوں کو۱۸ماہ کے اندر بلاسودی بنکوں میں تبدیل کردیا جائے۔ اور ان بنکوں کی کسی بھی پروڈکٹ میں سود کا شائبہ بھی نہیں رہنے دیا جائے۔ یہ بھی اَزحد ضروری ہے کہ افراد اور ادارے بنکوں کی فنانسنگ کی بروقت ادائیگیاں کریں۔ چنانچہ قانونی ذرائع اور عدالتوں سے بنکوں کی فنانسنگ کی وقت مقررہ کے چند ہفتوں کے اندر واپسی کو یقینی بنایا جائے۔ ۱۸ماہ کے بعد ان بنکوں کو اپنی نئی سرمایہ کاری صرف سود سےپاک پروڈکٹس میں ہی کرنا ہوگی۔ ہماری تجویز یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت نجی شعبے کی شراکت سے پاکستان میں ایک ماڈل اسلامی بنک قائم کرے، جس کی ڈیپازٹس اور فنانسگ کا کاروبار ۱۰۰ فی صد نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر ہو۔ یہ ماڈل اسلامی بنک، ملک میں اسلامی بنکاری کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال پیش کرسکے گا۔ اسلامی بنکاری دراصل اسلامی نظامِ معیشت کا حصہ ہے۔ چنانچہ اسلامی بنکاری کے مکمل نفاذ کے لیے معاشرے کی اصلاح کی کوششیں جاری رکھنے اور اسلامی نظامِ معیشت کو مکمل طور پر اپنانے کے ساتھ ملک کے تمام متعلقہ قوانین کو شریعت کے تابع بنانا ہوگا۔

اس ضمن میں یہ بات ذہن میں رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے ربا کے مقدمے کا فیصلہ کرنے میں بلاجواز تقریباً ۲۰برس کا عرصہ لگادیا۔ یہ یقینا ایک قومی المیہ ہے کہ اس دوران ایک مربوط حکمت عملی کے تحت پاکستان میں سود سے پاک معیشت کے لیے ماحول تیزی سے معاندانہ بنایا جاتا رہا۔ جون ۲۰۰۲ء میں شریعت اپیلیٹ بنچ کو حکومت نے یقین دلایا تھا کہ حکومت سودی قرضوں پر انحصار کم کرنے کی کوشش کرے گی، مگرعملاً اُلٹ ہی کیا گیا، مثلاً:

            ۱-  ۳۰ جون ۲۰۰۲ءکو پاکستان پر ملکی قرضوں کا حجم تقریباً ۱۸۰۰؍ ارب روپے تھا، جو ۳۱مارچ ۲۰۲۲ء کو بڑھ کر ۲۸,۸۰۶؍ ارب روپے ہوگیا۔ پاکستان کی تاریخ میں قرضوں کے حجم میں اضافے کی یہ تیزترین رفتار ہے۔ ۲۰۰۲ء میں حکومت نے یہ موقف اختیارکیا تھا کہ داخلی قرضوں کے اس اُونچے حجم کو اسلامی طریقوں کے مطابق تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے۔ گذشتہ تقریباً ۲۰برسوں میں ان سودی قرضوں کے حجم میں ناقابلِ یقین حد تک اضافہ کر دیا گیا ہے اور اب شریعت اپیلیٹ بنچ میں یہ موقف اپنایا جائے گا کہ ان قرضوں کو اگلے پانچ برسوں میں اسلامی طریقوں سے تبدیل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔

            ۲-  پاکستان میں تجارتی بنکوں نے ایک مربوط حکمت عملی کے تحت قرضوں کی فراہمی کے اپنے اصل کام کو ثانوی حیثیت دے کر گذشتہ برسوں میں حکومتی تمسکات میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی۔ نتیجتاً ۲۰۰۸ء اور جون ۲۰۲۲ء کے آخری ہفتے کے درمیان قرضوں کے حجم میں ۷,۷۱۳؍ ارب روپے اور سرمایہ کاری کے حجم میں اس کے دُگنے سے زیادہ، یعنی ۱۶,۳۳۲؍ ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ دُنیا بھر میں اور پاکستان میں تجارتی بنکوں میں اس قسم کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ پہلے بنکوں نے یہ مسئلہ پیدا کیا اور اب ان بنکوں کی جانب سے شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیلوں میں یہ موقف اپنایا جائے گا کہ اتنی بڑی رقوم کی سودی سرمایہ کاری کو مقررہ مدت میں اسلامی طریقوں سے تبدیل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ بنکوں کو احکامات دینا ہوں گے کہ وہ اپنے اصل کام کی طرف توجہ رکھیں تاکہ یہ مسئلہ مزید سنگین نہ ہو۔

سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں دائر اپیلوں کے ضمن میں ہماری یہ چار اضافی تجاویز ہیں:

            ۱- آئین پاکستان کی شق ۳۸ (ایف) میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ (معیشت سے) جلد از جلد ربا کا خاتمہ کر دیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر پارلیمنٹ کی منظوری سے اس شق میں واضح طور پر یہ اضافہ کردے کہ ’’سود ہرشکل میں ربا کے زمرے میں ہی آتا ہے‘‘، یعنی سود ہرشکل میں مکمل طور سے حرام ہے۔ اس طرح سود کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا اور بنکوں کی جانب سے سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیلوں کی سماعت کے دوران یہ مسئلہ زیربحث لایا ہی نہیں جاسکے گا، جو کہ بڑی کامیابی ہوگی۔

            ۲- دینی و مذہبی جماعتوں کو جو ربا کے مقدمے میں فریق ہیں، اس بات کو اوّلیت دینا ہوگی کہ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ ’اسلامی بنکوں‘ میں رائج ڈیپازٹس اور فنانسنگ کی ان تمام پروڈکٹس کو غیراسلامی قرار دے،جن میں یا تو سود کا عنصر شامل ہے یا وہ شریعت سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

            ۳-  پاکستان میں اسلامی بنکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بنکوں کو اس نام کے بجائے بلاسودی بنک قرار دیا جائے، بشرطیکہ ان بنکوں کی کسی بھی پروڈکٹ میں سود کا شائبہ بھی نہ رہنے دیا جائے۔

            ۴-  سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے۔

وطن عزیز میں اس وقت مہنگائی کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوگیا ہے۔ اس حقیقت کو اب تسلیم کرنا ہوگا کہ بنکوں کی جانب سے نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر فنانسنگ کرنے سے افراطِ زر کو قابو میں رکھنے میں مدد ملے گی کیونکہ اس نظام میں افراطِ زر اور اس کے منفی اثرات کو جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے سربراہ نےاپنے ۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے میں سودپر مبنی ملکی و بیرونی قرضوں کو اسلامی طریقوں کے مطابق تبدیل کرنے کے ضمن میں پیش کی گئی سفارشات کو جگہ دی ہے۔ اس معاملے پر عدالت عظمیٰ  کے اس فیصلے کے بعد بھی کافی قابلِ قدر کام ہوچکا ہے جس سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔ بنیادی بات بہرحال یہی ہے کہ اسلام میں دولت، وسائل اور اختیارات انسان ، اداروں اور حکومت کے پاس اللہ کی امانت ہوتے ہیں۔ اگر ان وسائل اور اختیارات کو اللہ کی امانت سمجھ کر استعمال کیا جائے، اپنے وسائل کے اندرزندہ رہنے اور خودانحصاری کے حصول کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دیا جائے، تو نئے قرضے لینے کی ضرورت بڑی حد تک کم ہوجائے گی۔ وفاق اورصوبوں کو متوازن بجٹ بنانا ہوں گے، بجٹ خسارے کی مالکاری کے لیے اور پالیسی سے منسلک بیرونی قرضوں سے اجتناب کرنا ہوگا۔ ملک پر موجودہ ملکی و بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے اسٹیٹ بنک اور وزارتِ خزانہ کو حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔

وزیراعظم شہبازشریف نے وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے کے بعد ایک ٹاسک فورس تشکیل دینے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اس ٹاسک فورس کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ ’’وہ معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے شریعت کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں ایک ٹھوس، واضح اور قابلِ عمل منصوبہ پیش کرے، تاکہ یہ اہم کام آگے بڑھایا جاسکے‘‘۔ تاہم، یہ معاملہ اب اختلافات کا شکار ہوچکا ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے ماضی میں جو ’کوششیں‘ کی جاتی رہی ہیں، ان میں سے چند پیش کی جارہی ہیں:

            ۱- اب سے تقریباً ۳۴ برس قبل ۱۵جون ۱۹۸۸ء کو صدر مملکت نے ’شریعت آرڈی ننس ۱۹۸۸ء‘ کا اجرا کیا تھا، لیکن اسے پارلیمنٹ کی منظوری کے لیے پیش ہی نہیں کیا گیا۔ چنانچہ یہ آرڈی ننس اور اس کا نظرثانی شدہ آرڈی ننس مقررہ تاریخ کے بعد غیرمؤثر ہوگیا۔

            ۲- وزیراعظم کی حیثیت سے نواز شریف نے ’شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء‘ کا اجرا کیا تھا۔ اس ایکٹ میں کہا گیا تھا کہ ریاست ایسے اقدامات اُٹھانے کو یقینی بنائے، جن کے تحت پاکستان کے معاشی نظام کو اسلامی نظامِ معیشت کے مقاصد، اصولوں اور ترجیحات کے مطابق استوار کیا جاسکے۔

            ۳- ’شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء‘ کے تحت معیشت کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے جولائی ۱۹۹۱ء میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کمیشن نے اپنے کام کو آگے بڑھانے کے لیے تین ورکنگ گروپ بھی قائم کیے تھے، مگر کوئی قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی ہی نہیں۔

            ۴- وزیراعظم کی حیثیت سے نوازشریف نے جولائی ۱۹۹۱ء میں تشکیل شدہ کمیشن کی تقریباً چھ برس بعد ۲مئی ۱۹۹۷ء کو تشکیل نو کی۔ اس کمیشن نے ربا کے خاتمے کے لیے اپنی رپورٹ اگست ۱۹۹۷ء میں پیش کی تھی۔ اس رپورٹ میں عمدہ تجاویز پیش کی گئی تھیں، مگر ان پر بوجوہ عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ نےسود کو ہرشکل میں حرام قرار دینے کے اپنے ۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے میں جو احکامات دیئے تھے، ان میں سے چند یہ ہیں:

            ۱- اس فیصلے کے ایک ماہ کے اندر اسٹیٹ بنک میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔ اس کمیشن کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ پاکستان کے مالیاتی نظام کو شرعی اصولوں کے مطابق تبدیل کرنے کے عمل کی پوری طرح نگرانی کرے۔

            ۲- اس فیصلے کے ایک ماہ کے اندر وزارتِ قانون اور پارلیمنٹری اُمور ایک ٹاسک فورس تشکیل دے۔ اس ٹاسک فورس کے ذمہ ایک اہم کام یہ ہوگا کہ وہ انسداد سود کے لیے ایک قانون کا مسودہ تیار کرکے پیش کرے۔

            ۳- اس فیصلے کے ایک ماہ کے اندر وزارتِ خزانہ اپنے ماہرین پر مشتمل ایک ٹاسک فورس تشکیل دے جس کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ سود کی بنیاد پر لیے ہوئے قرضوں کو اسلامی طریقوں پر منتقل کرنے کی حکمت عملی تیار کرے۔

 سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے مندرجہ بالا احکامات کی روشنی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن نے انتہائی محنت اورعرق ریزی سے اپنی حتمی رپورٹ اگست ۲۰۰۱ء میں پیش کردی تھی۔ اسی طرح وزارتِ قانون میں قائم ٹاسک فورس نے اپنی رپورٹ میں ایک آرڈی ننس کامسودہ بھی پیش کیا تھا۔ اس مسودہ میں کہا گیا تھا کہ ربا کا مطلب ہے، سود یا کوئی بھی اضافی رقم جو روپے کے لین دین کے معاملات میں اصل زر سے زائد ہو۔ اگر یہ آرڈی ننس جاری ہوجاتا تو سود کے ہرشکل میں حرام ہونے کا معاملہ اسی وقت طے ہوجاتا۔ بدقسمتی سے خود حکومت نے اس آرڈی ننس کے اجرا کی منظوری نہیں دی۔ یہ امرافسوس ناک ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل، مذہبی تنظیموں،علما، مفتی صاحبان اور مسلم ماہرین معاشیات وغیرہ کی طرف سے اس ضمن میں بروقت کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا گیاحالانکہ وفاقی وزیر برائے مذہبی اُمور نے کہا تھا کہ ۳۰جون ۲۰۰۱ء کو ۱۲بجے شب یہ مجوزہ آرڈی ننس قانون کی شکل اختیار کرلے گا۔

اسٹیٹ بنک میں ۴ستمبر۲۰۰۱ء کو مالیاتی نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے اجلاس فوجی حکمران کی صدارت میں منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس میں اسٹیٹ بنک کے گورنر، سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کے چیئرمین، وزارتِ قانون کمیٹی کے چیئرمین اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی شامل تھے۔ اس اجلاس میں سودی نظام کو دوام بخشنے، بنکاری کا متوازی نظام وضع کرنے کے غیرآئینی اور غیراسلامی فیصلے فوجی حاکم کے ایک حکم پر کردیئے گئے۔ اس تباہ کن فیصلے پر معاشرے میں کوئی ارتعاش پیدا نہیں ہوا۔یہ امر افسوس ناک ہے کہ اسی اجلاس کے شرکا میں وہ حضرات گرامی بھی شامل تھے، جنھیں معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کے ۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے پر عمل درآمد کی انتہائی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ وزارتِ خزانہ کی ٹاسک فورس کی رپورٹ اور حکومت پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں داخل کیا جانے والا حلف نامہ اور خود اسٹیٹ بنک کا حلف نامہ ایک ملی بھگت اور مربوط حکمت عملی کے تحت تیار کیے گئے تھے۔ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں سماعت صرف ۱۰ روز جاری رہی، اور اس بنچ نے عملاً ۴ستمبر ۲۰۰۱ء کو اسٹیٹ بنک میں ہونے والے غیرآئینی و غیر اسلامی فیصلے پر اپنی مُہر ثبت کردی اور ۱۴نومبر ۱۹۹۱ء اور ۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا۔

یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ حکومتی شعبے کے ایک بنک کے وکیل نے شریعت اپیلیٹ بنچ میں کہا تھا:

سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے میں اسلامی بنکاری کا جو نظام بتلایا گیا ہے، وہ دراصل اسلامی بنکاری کے نام کا غلط اطلاق ہے اور مشارکہ کے علاوہ تمویل (فنانسنگ) کے لیے دوسرے تمام طریقے صرف حیلے کے زمرے میں آتے ہیں، یعنی وہ طریقے جن پر عمل کے ذریعے ربا سے بچنا مقصود ہوتا ہے، مگر وہ دراصل ربا ہی ہوتے ہیں اور ان میں ظلم کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ طریقے نتائج کے اعتبار سے ان طریقوں سے زیادہ خراب ہیں جو مروجہ روایتی بنکاری میں استعمال کیے جارہے ہیں۔

مندرجہ بالا حقائق یقینا چشم کشا ہیں۔ ان حقائق سے یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ پاکستان کے بااثر مال دار و طاقت ور طبقے جو حکومت و اداروں کی پالیسیوں پراثرانداز ہوتے ہیں اور خود بیش تر فیصلہ ساز ادارے بھی عملاً نہیں چاہتے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی نظامِ معیشت و بنکاری شریعت کی روح کے مطابق استوار ہو کیونکہ عدل و سماجی انصاف پر مبنی اسلامی نظام سے قومی دولت لوٹنے والوں، ٹیکس چوری کرنے والوں، ٹیکسوں میں بے جا چھوٹ و مراعات حاصل کرنے والوں اور دوسرے غلط طریقوں سے دولت کے انبار اکٹھے کرنے والوں اور اس کے ایک حصے کو ملک سے باہر منتقل کرنے والوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑے گی۔ قابلِ احترام علما و مفتی صاحبان اور اسلامی معیشت کے ماہرین کو سود کے خاتمے کے ضمن میں، اس پیش آمدہ تمام صورتِ حال میں اپنی حکمت عملی اَزسرنو مرتب کرنا ہوگی۔

یہ بڑی واضح حقیقت ہے کہ معیشت سے سود کے خاتمے کے ضمن میں بہت زیادہ کام ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ نے ۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کو جو فیصلہ سنایا تھا اس میں بھی کہا گیا تھا کہ ’’یہ ثابت کرنے کے لیے کافی شہادت ہے کہ موجودہ مالیاتی نظام کو اسلامی نظام میں بدلنے کی تدبیر کے لیے بنیادی گرائونڈ ورک کرلیا گیا ہے‘‘۔ ہم اس میں یہ اضافہ کریں گے کہ گذشتہ ۲۲برسوں میں اس ضمن میں مزید مثبت کام اور ریسرچ ورک کیا گیا ہے۔ اب ضرورت کسی ٹاسک فورس کے قیام کی نہیں بلکہ درست فیصلوں اور ان پرتیزی سے عمل درآمد کی ہے۔ اوّلین ترجیح بہرحال یہی ہونا چاہیے کہ حکومت پر دبائو ڈالا جائے کہ پارلیمنٹ کی منظوری سے آئین کی شق ۳۸ (ایف) میں یہ اضافہ کردیا جائے کہ سود ہرشکل میں ربا کے زمرے میں آتا ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کروڑوں محبانِ اسلام اور عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کاروبارِ زندگی میں رخنہ ڈالے بغیر، پُرزور مگر پُرامن احتجاج کا راستہ اپنائیں تاکہ وفاقی حکومت اور ممبران پارلیمنٹ کو مجبورکیا جاسکے کہ وہ سود کو ربا کے زمرے میں قراردینے کے لیے آئین کی شق ۳۸ (ایف) میں اس اضافے کو فوری طور پر منظور کریں۔

اگر مندرجہ بالا تمام تجاویز پر تیزی سے عمل نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ خدانخواستہ اگلے چند عشروں میں بھی پاکستان میں سودی معیشت فروغ پاتی رہے گی۔

وفاقی شرعی عدالت نے اب سے تقریباً ۳۱ برس قبل ۱۴ نومبر ۱۹۹۱ء کو جو فیصلہ دیا تھا اُس میں بھی کہا گیا تھا کہ سود بھی ربوٰ کے زمرے میں آتا ہے، اور عدالت نے سود پر مبنی ۲۰قوانین کو کالعدم قرار دیا تھا۔ دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۳۸(ایف) میں بھی کہا گیا ہے کہ ’’ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جلد از جلد (معیشت سے) ربوٰ کا خاتمہ کردیا جائے‘‘۔ یہ بات بہرحال حیران کن ہے کہ شرعی عدالتوں میں ربوٰ کا مقدمہ تقریباً ۳۱ برس زیرسماعت رہا، جس کا قطعی کوئی جواز نہیں تھا۔ ان تاخیری حربوں میں مختلف حکومتوں اور اسٹیٹ بنک کا بھی بڑا اہم کردار رہا۔ یہ امرافسوس ناک ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل، بیش تر دینی و مذہبی جماعتوں، علما و مفتی صاحبان، دانش وروں اور وکلا وغیرہ کی طرف سے اس ضمن میں کوئی بہت زیادہ تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا، اور نہ معاشرے میں کوئی ارتعاش پیدا ہوا۔

سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ نے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے میں سود کو حرام قرار دیتے ہوئے سود کے خاتمے کے لیے ۳۰ جون ۲۰۰۱ء تک کی مہلت دی تھی۔ جون ۲۰۰۱ء میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ نے اس فیصلے پر عمل درآمد کی مدت میں بلا کسی جواز کے ایک سال کی توسیع، حکومت سے یہ تحریری ضمانت لیے بغیر کردی کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد یقیناً کرے گی اور توسیع صرف اس لیے مانگ رہی ہے کہ اس ضمن میں اقدامات اٹھانے کے لیے وقت درکار ہے۔ یہ فیصلہ اسلامی بنکاری کے نفاذ کی کوششوں کو بڑا دھچکا تھا۔

 سپریم کورٹ کے اس بینچ میں پاکستان کے ایک ممتاز اور عالمی شہرت کے حامل مفتی بھی عالم جج کی حیثیت سے شامل تھے۔ سپریم کورٹ کے ایک اور شریعت اپیلٹ بینچ نے جس میں دوعالم جج بھی شامل تھے، صرف ۱۰ روز کی سرسری اور رسمی سماعت کے بعد ۲۴ جون ۲۰۰۲ء کو ایک فیصلہ سنایا، جس کے تحت سود کو حرام قرار دینے کے ۱۴ نومبر ۱۹۹۱ء اور ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلوں کو ہی کالعدم قرار دے دیا اور مقدمہ واپس وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیا، جس نے تقریباً ۲۰برس بعد ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء کو فیصلہ سنایا جس میں سود کو حرام قرار دیتے ہوئے سود کے خاتمے کے لیے مزید پانچ برس کا وقت دے دیا۔ اگر ربوٰ کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جاتا تو سود کے خاتمے کے ضمن میں حوصلہ افزا پیش رفت ہوچکی ہوتی۔ بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں مقتدر طبقوںاور بنکاری کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے ایک مربوط حکمتِ عملی وضع کر رکھی ہے، جس کا مقصد یہ یقینی بنانارہا ہے کہ:

  • معیشت سے سود کے خاتمے کو لمبی مدت تک التوا میں رکھا جائے۔
  • اسلامی نظامِ بنکاری کے نام پر ۲۰۰۲ء میں شروع کیے جانے والے نظامِ بنکاری کو سودی نظام ہی کے نقشِ پا پر استوار کیا جائے۔
  • ’اسلامی بنکاری‘ اور سودی نظامِ بنکاری کو لمبی مدت تک ساتھ ساتھ، یعنی متوازی چلنے دیا جائے۔
  • اس دوران معیشت اور معاشرے میں اتنا زیادہ بگاڑ اور پیچیدگیاں پیدا کردی جائیں کہ ملک میں آنے والے عشروں میں بھی معیشت سے سود کے خاتمے کی طرف معنی خیز پیش رفت، محض خواب و خیال بن کر رہ جائے۔

مندرجہ بالا حکمت ِ عملی کے تحت کیے گئے فیصلوں اور اقدامات کے نتیجے میں ۲۰ برسوں کے دوران میں سود کے خاتمے کے لیے ماحول پہلے سے بھی زیادہ معاندانہ اور مخالفانہ ہوگیا ہے، مثلاً:

  •  ۳۰ جون ۲۰۰۲ء کو ملک کے داخلی قرضوں و ذمہ داریوں کا مجموعی حجم ۱۸۰۰؍ارب روپے تھا، جو ۳۱مارچ ۲۰۲۲ء کو ۳۰,۳۶۰؍ارب روپے ہوگیا۔
  •  ۳۰ جون ۲۰۰۲ء کو پاکستان کے بیرونی قرضوں کا مجموعی حجم ۳۵؍ارب ڈالر تھا، جو ۳۱مارچ ۲۰۲۲ء کو ۱۲۸؍ ار ب ڈالر ہوگیا۔

وزارتِ خزانہ نے جون ۲۰۰۱ء میں ربوٰکے مقدمے میں جو حلف نامہ سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا، اُس میں کہا گیا تھا کہ ’’سود کی بنیاد پر ملک کے داخلی قرضوں کو اسلامی فنانسنگ کے طریقوں کے مطابق تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے اور اگر ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلوں پر عمل درآمد کیا گیا تو پاکستان کے معاشی استحکام اور سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوجائیں گے‘‘۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ گذشتہ ۲۰ برسوں میں ملک کے قرضوں کے حجم میں زبردست اضافہ ہوچکا ہے، اور معیشت اور معاشرے میں اتنا زیادہ بگاڑ پیدا کردیا گیا ہے کہ معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے معنی خیز پیش رفت اُسی وقت ممکن ہے جب اس کے لیے متعدد انقلابی اقدامات اٹھائے جائیں، جس کے لیے زیادہ عوامی حمایت رکھنے والی سیاسی پارٹیوں میں کوئی عملی عزم نظر نہیں آرہا۔

غیر اسلامی اور غیر آئینی ، متوازی بنکاری

سپریم کورٹ سے ربوٰ کے مقدمے میں ایک سال کی توسیع ملنے کے صرف تین ماہ بعد ۴ستمبر ۲۰۰۱ء کو اُس وقت کے فوجی حاکم جنرل مشرف کی صدارت میں پاکستان کے ’مالیاتی نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے‘ کے نام پر ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں سودی نظام کو عملاً پاکستان میں تقویت دینے اور زندگی بخشنے کے لیے غیرآئینی اور غیر اسلامی فیصلے کیے گئے تھے۔ اس اجلاس میں اسٹیٹ بنک کے اس وقت کے گورنر، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور کچھ ارکان کے علاوہ سپریم کورٹ کے شریعت بینچ کے ایک ممتاز عالم جج بھی شامل تھے۔

ہم نے اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ ’’یہ متوازی بنکاری نظام، غیر اسلامی ہے، اور یہ کہ اس اجلاس میں شریک علما اور دوسرے ماہرین اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں‘‘۔ پھر یہ بھی معروضات پیش کیں: مروجہ ’اسلامی بنکاری‘ کی پشت پر علما و مفتی صاحبان اور اسٹیٹ بنک کی شریعہ کمیٹی کے چیئرمین اور ارکان بھی یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ متوازی نظام غیر اسلامی ہے اور اس کے ذریعے سودی نظام کو عملاً دوام مل گیا ہے، مگر وہ سب ۲۰ برس سے اس معاملے میں خاموش ہیں۔

بلاسودی بنکاری اور اسلامی بنکاری

سودی نظامِ بنکاری کے متبادل کے طور پر اسلامی بنکاری کا جو بھی نظام وضع کیا جائے اس میں مندرجہ ذیل عوامل لازماً شامل ہونے چاہییں:

  •   اسلامی نظامِ بنکاری میں سود کا شائبہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔
  •  اسلامی نظامِ بنکاری میں سودی نظام سے ہونے والے ہر قسم کے ظلم، ناانصافی اور استحصال کا لازماً خاتمہ ہونا چاہیے۔
  •  اسلامی بنکاری کے نفاذ سے اسلامی نظام معیشت کے مقاصد کی تکمیل میں لازماً معاونت ہونی چاہیے اور تمام پارٹیوں کو سماجی انصاف ملنا چاہیے۔

یہ مقاصد صرف اُس وقت حاصل ہوں گے، جب اسلامی بنکاری کی اساس ’نفع و نقصان میں شراکت‘ کی بنیاد پر ہو۔ اس کے لیے معاشرے کی اصلاح، اسلامی نظامِ معیشت کا مکمل نفاذ اور تمام ملکی قوانین کو شریعت کے تابع بنانا ہوگا۔ پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام استحصالی ہے اور اس سے بڑھ کر ظلم یہ کہ معیشت دستاویزی (documented) نہیں ہے۔ ان تبدیلیوں کے لیے اقتدار کے سرچشموں پر فائز طبقوں میں عزم موجود نہیں ہے۔ اسٹیٹ بنک نے ربوٰ کے مقدمے میں جو حلف نامہ جمع کرایا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ:

  •  بنکاری کے نظام کو اسلامی نظام بنکاری میں تبدیل کرنے کے ضمن میں متعدد خطرات ہیں اور اس کے نتیجے میں بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوگی۔ اس سے معیشت غیر مستحکم ہوجائے گی۔
  • اگر بنکاری میں نفع و نقصان میں شرکت کا اسلامی نظام اپنایا گیا تو بنکاری کے شعبے میں بحران پیدا ہوجائے گا اور ملک سے سرمائے کا فرار شروع ہوجائے گا۔

گذشتہ دو عشروں سے پاکستان میں ’اسلامی بنکاری‘ کے جھنڈے تلے جو نظام اپنایا گیا ہے اس کو ’اسلامی نظامِ بنکاری‘ کہا ہی نہیں جا سکتا بلکہ بنکوں کو اسلامی بنک بھی نہیں کہا جاسکتا۔ وہ علمائے کرام جو مروجہ اسلامی بنکاری کی پشت پر ہیں یا بنکوں کی شریعہ کمیٹی کے رکن ہیں، اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان بنکوں کو اسلامی بنک نہیں کہا جا سکتا، مگر گذشتہ ۲۰ برس سے ان کے ہاں بھی خاموشی ہے۔

اگر کوئی بنک سود سے پاک بنکاری کے نام پر کھاتے داروں کا استحصال کرتا ہے، سٹے بازی یا منافع خوری وغیرہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اسلامی نظام معیشت سے انحراف کرتا ہے تب بھی اسے ’بلاسودی بنک‘ کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں اسلامی بنکاری کے جھنڈے تلے جو بنک کام کررہے ہیں وہ دراصل بلاسودی بنک ہیں، البتہ ان بنکوں میں سود کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔

پاکستان میں اسلامی بنکاری کے نام پر جو نظام وضع کیا گیا ہے، وہ سودی نظام کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔ ایک اسلامی بنک کی شریعہ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’’بنک کا کاروبار شرعی اصولوں کے مطابق ہے‘‘، جب کہ اس اسلامی بنک کے کھاتے داروں کو منافع کی تقسیم اسٹیٹ بنک کی ہدایات کے تحت ہے، یعنی شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ ایک اور اسلامی بنک کی شریعہ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنک کا کاروبار بڑی حد تک شریعت کے مطابق ہے۔ حالانکہ شریعت میں ’بڑی حد تک‘ کی گنجائش نہیں ہوتی، اس کو ’مکمل طور پر‘ شریعت کے مطابق ہونا چاہیے۔

ان معروف اسلامی بنکوں میں کچھ ایسی پروڈکٹس یا اسکیمیں متعارف کرائی گئی ہیں، جو صاف صاف سود کے زمرے میں آتی ہیں۔ مثلاً رننگ مشارکہ، مشارکہ، تورّق، صکوک، کرنسی سلم، اسپیشل مشارکہ سرٹیفکیٹس اور صکوک البنک بیع معجل وغیرہ۔ اسی طرح پاکستان میں اسلامی بنک اپنے ڈیپازٹ کھاتے داروں کو مناسب شرح سے منافع نہیں دے رہے، جوکہ غیر اسلامی ہے۔اگر اسلامی بنک نفع و نقصان میں شرکت کو اپنائیں تو بنکوں کے کھاتے داروں کو زیادہ منافع ملے گا، تمام پارٹیوں سے انصاف ہوگا، افراطِ زر میں کمی ہوگی اور اسلامی معیشت کے فیوض و برکات بھی حاصل ہوں گے۔

اسلامی نظامِ معیشت کے خلاف گٹھ جوڑ

پاکستانی معیشت دراصل طاقت ور معاشی اور مقتدر طبقوں (Elite) کی معیشت ہے۔ ملک کے طاقت ور طبقے بشمول وفاقی و صوبائی حکومتیں و صوبائی اسمبلیاں، دوسرے فیصلہ ساز ادارے اور رائے عامہ پر اثرانداز ہونے والی متعدد اہم اور قابلِ احترام شخصیات بھی عموماً نہیں چاہتیں کہ پاکستان سے سود کا خاتمہ ہو اور اسلامی نظامِ معیشت اسلام کی حقیقی روح کے مطابق استوار ہو۔

عدل اور سماجی انصاف پر مبنی اسلامی نظام کے نفاذ سے ٹیکس چوری کرنے والوں، ٹیکسوں میں بے جا چھوٹ و مراعات حاصل کرنے والوں، کالا دھن رکھنے والوں، قومی دولت لوٹنے یا ناجائز طریقوں سے دولت بٹورنے والوں، قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کرائے بغیر ناجائز دولت کا قانونی تحفظ حاصل کرنے والوں، بنکوں سے غلط طریقوں سے قرضے معاف کرانے والوں، ذخیرہ اندوزی، اوور اور انڈر انوائسنگ، اسمگلنگ کرنے والوں اور اپنا جائز و ناجائز پیسہ قانونی و غیرقانونی (ہنڈی/ حوالہ وغیرہ) طریقوں سے ملک سے باہر منتقل کرنے والوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑے گی۔ چنانچہ اس ڈسپلن سے بچنے کے لیے ان سب میں ایک گٹھ جوڑ ہوچکا ہے۔

یہی نہیں، اقتدار میں آنے، اقتدار برقرار رکھنے اور اقتدار کو طول دینے کے لیے بیرونی اشرافیہ (استعماری طاقتیں اور آئی ایم ایف و عالمی بنک وغیرہ) کی حمایت بھی درکار ہوتی ہے۔ چنانچہ ملکی اور بیرونی اشرافیہ میں بھی عملاً ایک گٹھ جوڑہے۔ یہ سب پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کو روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جاتے رہے ہیں اور جاتے رہیں گے۔ البتہ یہ تمام قوتیں اسلامی بنکاری کے نام سے جاری ’بلاسودی نظام بنکاری‘ کے فروغ میں معاونت کرتی رہیں گی، کیونکہ یہ عملاً صرف نام کی تبدیلی اور سودی نظام کے نقشِ پا کی پختگی پر کھڑا ہے۔

اسلامی معیشت وبنکاری کے لیے اسلام جو مقاصدمتعین کرتا ہے، ان میں عدل وانصاف، معاشرے کی عمومی فلاح وبہود اور عدم ارتکاز دولت شامل ہیں ۔ ان مقاصد شریعہ کی روشنی میں ملک میں ’عمومی یا سود ی بنکوں‘ اور’ اسلامی بنکاری‘ کے تحت کام کرنے والے بنکوں کی کارکردگی کا جائزہ دیکھیے:

۱- بنکوں کے ڈیپازٹس اور قرضہ جات (فنانسنگ ) ملین روپے

نام            اسلامی بنک           عمومی بنک

ڈیپازٹ کھاتے         ۷ء۹۰      ۶۲ء۸۸

قرض خواہ کھاتے   ۰ء۲۴      ۳ء۹۰

تناسب (فی صد )    ۳ء۰۰      ۶ء۰۰

 محترم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے : ’’(سودی) بنک درحقیقت پوری قوم کا بلڈ بنک ہیں،جہاں پہ سرمایہ دار پوری قوم کا خون چوس چوس کر پھلتے پھولتے رہتے ہیں اور پوری قوم اقتصادی اعتبار سے نیم جان لاش رہ جاتی ہے ‘‘۔ درج بالا اعدادوشمار اس بات کی بڑی واضح تصویر پیش کرتے ہیں کہ’اسلامی بنک ‘درحقیقت’سودی بنکوں‘ کے مقابلے میں زیادہ استحصالی کردار ادا کررہے ہیں۔

۲- بنکوں کے قرضوں اور فنانسنگ کا حجم، فی صد حصہ (۳۱ دسمبر ۲۰۲۱ء کے مطابق)

شعبہ جات               اسلامی بنک           عمومی بنک

چھوٹے اور درمیانے درجہ کے ادارے ۲ء۳         ۴ء۸

زراعت    ۰ء۸         ۳ء۷

صارفین کی فنانسنگ             ۱۰ء۷      ۷ء۵

ان اعداد وشمار سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے ’اسلامی بنکوں ‘ نے’ عمومی سودی بنکوں‘ کے مقابلے میں صارفین کی فنانسنگ اسکیموں کے تحت گاڑیوں اور اشیائے تعیش کی خریداری کے لیے زیادہ فنانسنگ (قرضہ جات کی فراہمی )کی ہے ، جب کہ چھوٹے قرضوںکی اسکیم کے تحت چھوٹے کسانوں اور تاجروں کو سودی بنکوں نے زیادہ قرضے فراہم کیے ہیں ۔ یہ صورت حال اسلامی معیشت اوربنکاری کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

۳- بنکوں کی ایکویٹی پر قبل از ٹیکس منافع فی صد میں

نام            ۲۰۲۰ء   ۲۰۲۱ء

اسلامی بنک           ۳۶ء۴      ۳۲ء۶

عمومی بنک            ۲۳ء۲      ۲۴ء۰

ان اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ’ اسلامی بنک ‘اپنی ’ایکویٹی ‘ پر سودی بنکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ منافع کما رہے ہیں، مگر ’اسلامی بنک ‘اپنے کھاتہ داروں کو سودی بنکوں کے مقابلے میں کم منافع دے کر کھاتہ داروں کااستحصال کر رہے ہیں۔

اب ملک میں عام لوگ بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ’اسلامی نظام بنکاری‘ کے نفاذ سے جس بہتری کے دعوے گذشتہ کئی عشروں سے کیے جاتے رہے ہیں، وہ صرف کتابی باتیں ہیں اور گذشتہ ۲۰ برسوں میں یہ بہتری کہیں نظر نہیں آئی۔ یہ سوچ نتائج کے اعتبار سے انتہائی تباہ کن ہے۔

تجاویز

۱-شریعہ اسکالرز، اسلامی نظریاتی کونسل، اسٹیٹ بنک کے شریعہ بورڈ، مالیاتی سوجھ بوجھ رکھنے والے علما خصوصاً وہ علما جو پاکستان میں مروجہ اسلامی بنکاری کی پشت پر ہیں، ان سب کو واضح طور پر کہنا ہوگاکہ وہ ملک میں ’سودی بنکاری‘ اور ’اسلامی بنکاری‘ کو ساتھ ساتھ چلانے کی حکومت اور اسٹیٹ بنک کی پالیسی کو مسترد کرتے ہیں، کیونکہ یہ غیراسلامی ہے۔ اب ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء کو وفاقی شرعی عدالت نے سودکے خاتمے کے لیے پانچ سال کا وقت دیا ہے۔ چنانچہ ہم تجویز کرتے ہیں کہ اگر اس مدت کو مان کر کام کرنا ہے تو پھر ہر سال سودی بنکوں کے کاروبار کا ۲۰ فیصد بلاسودی بنکاری کے تحت تبدیل کیا جائے اور اسٹیٹ بنک اس ضمن میں احکامات جاری کرے۔

۲- اسٹیٹ بنک و بنکوں کے شریعہ بورڈ اور وہ علما جو مروجہ اسلامی نظامِ بنکاری کی پشت پر ہیں، اپنی ۲۰ سالہ خاموشی کو توڑ کر قوم کو واضح طور پر بتائیں کہ کیا پاکستان میں اسلامی بنکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بنکوں/ سودی بنکوں کی شاخوں اور سودی بنکوں کے اسلامی بنکاری کے ذیلی اداروں کو ’اسلامی بنک‘ کہنا درست ہے؟ اگر نہیں تو پھر انھیں ’بلاسودی بنک‘ کہا جائے مگر اس بات کویقینی بنایا جائے کہ ان کے کاروبار میں سود کا عنصر شامل نہ ہو۔

اس ضمن میں کیا ہی اچھا ہو کہ اسٹیٹ بنک یہ احکامات جاری کرے کہ یکم جولائی ۲۰۲۲ء سے یہ ’اسلامی بنک‘ ،بلاسودی بنک کہلائیں گے۔

۳- جون ۲۰۲۲ء میں پیش کیے جانے والے وفاقی اور صوبائی بجٹ کو ممکنہ حد تک اسلامی نظامِ معیشت کے اصولوں پر بنانا ہوگا۔ اس عمل سے یہ واضح ہوجائے گا کہ سود کے خاتمے کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے میں ہمارا حکومتی نظام کتنا مخلص ہے؟

۴-حکومت اور اسٹیٹ بنک وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے پر اپنے ردعمل میں بلاسود بنکاری، بلاسود معیشت اور اسلامی نظام بنکاری اور اسلامی نظام معیشت میں فرق واضح طور پر روا رکھیں، اور اس ضمن میں الگ الگ ٹائم فریم اور حکمت عملی کا اعلان کریں۔

وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ، ردِعمل اور لائحہ عمل

پاکستان میں کام کرنے والے ملکی اور غیر ملکی بنک، وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸ اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔دوسری طرف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں متعدد غلطیاں ہیں ۔ مثال کے طور پر کہا گیا ہے کہ سود پر مبنی جن قوانین کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ، وہ یکم جون ۲۰۲۲ء سے ہی کالعدم قرار پائیں گے۔ یہ بات آئین کی خلاف ورزی ہے ، کیونکہ دستور کے مطابق، اپیل کی مدت ختم ہونے تک یہ قوانین برقرار رہنے چاہئیں۔ اس کی آڑ میں پاکستان بنکس ایسوسی ایشن اس فیصلے کے متعدد نکات کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ کے شریعت بنچ میں اپیل دائر کر سکتی ہے ، اور اس فیصلے کے ضمن میں متعدد مشکلات کی آڑ لے کر اس کے اہم حصوں کو کالعدم قرار دینے کی استد عا کر سکتی ہے۔

’اسلامی بنکاری‘ کے ضمن میں ہماری مندرجہ بالا معروضات سے قطع نظر یہ ازحد ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کے شریعت بینچ میں فیصلے کی تاریخ کے دو ماہ کے اندر اپیل داخل کی جائے، جس میں درج ذیل نکات لازماً شامل ہوں:

۱- چونکہ’ اسلامی بنکاری‘ کے نام سے منسوب بنکوں کی متعدد ایسی پیش کشیں اور پراڈکٹس ہیں، جن میں سود کا عنصر شامل ہوتا ہے، اور وہ شرعی عدالت کے فیصلے کے باوجود جاری رہ سکتی ہیں، اس لیے ان تمام پیش کشوں اور پراڈکٹس کے خلاف اپیل ہونی چاہیے۔

۲-’ اسلامی بنک‘ نفع ونقصان میں شرکت کی بنیاد پر کھولے گئے کھاتوں پر منافع شرعی اصولوں کے بجائے اسٹیٹ بنک کے احکامات کے تحت دے رہے ہیں،جس کے خلاف اپیل ہونی چاہیے۔

۳- سپریم کورٹ سے درخواست کی جائے کہ ’اسلامی بنکوں ‘کو’ بلاسودی بنک ‘قرار دے۔

تنبیہ :پاکستان میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں ’بلاسود بنکاری‘ کا نفاذ کیا گیا ۔اس متوازی نظام کے شروع ہونے کے ساتھ ہی ۲۰برس سے ’بلاسودی بنکاری‘ کے جھنڈے تلے کام کرنے والے   ان بنکوں کو یک جنبش ’سودی بنک‘ اور ۲۰۰۲ء سے قائم ہونے والے بنکوں کو ’اسلامی بنک‘ قرار دے دیا گیا۔ ہم یہ حقیقت واشگاف الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ:اوّل: یہ متوازی نظام اپنی روح اور عمل کے اعتبار سے غیر اسلامی ہے۔ دوم: ان بنکوں کو اسلامی بنک کہا نہیں جاسکتا، اور سوم: ان بنکوں کی متعدد پروڈکٹس کے اسلامی اصولوں کے مطابق نہ ہونے کے متعدد شواہد موجود ہیں، جن میں سود کا عنصر بھی شامل ہے، اسے درست کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر ان ’اسلامی بنکوں‘ کو ’بلاسودی بنک‘ قرار نہ دیا گیا تو یہ سنگین خطرہ موجود ہے کہ مستقبل میں نیک نیتی یا بدنیتی سے ان ’اسلامی بنکوں‘ کو عدالتوں کی جانب سے بھی غیر اسلامی قرار دیا جا سکتا ہے، جس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔

دردمندانہ گزارش: اگر وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے کی درستگی کے لیے مقررہ تاریخ کے اندر سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں اپیل داخل نہ کی گئی تو خدشہ ہے کہ خدانخواستہ آنے والے عشروں میں بھی ’اسلامی بنکاری‘ کے نام پر سود پہ مبنی بلاسودی نظام جاری رہ سکتا ہے۔