حکومت ِ پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان ۳۰جون ۲۰۲۳ء کو اسٹاف کی سطح پر ہونے والے معاہدے کے بعد، آئی ایم ایف کے بورڈ نے ۱۲جولائی ۲۰۲۳ء کو ۹ماہ کی مدت کے لیے تین ارب ڈالر کے عبوری قرضے کی منظوری دیتے ہوئے اس قرضے کی پہلی قسط پاکستان کو فوری طور پر دے دی ہے ۔ اس قرضے کے ساتھ ہی دوست ممالک سے بھی رقوم ملنے سے معیشت میں بحرانی کیفیت ختم ہوگئی ہے اور معیشت میں عارضی استحکام آگیا ہے، جس سے فوری طور پر ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا ہے ، تاہم ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی، تجارتی و جاری حسابات کے خسارے میں اضافہ، ملکی و بیرونی قرضوں میں اضافہ اور معیشت کی شرحِ نمو سُست رہنے کی وجہ سے موجودہ سال میں غربت و بے روزگاری میں اضافے کا خدشہ ہے۔
آئی ایم ایف کے ۹ماہ کے عبوری مدت کے قرضے کو ملکی و بیرونی اشرافیہ کے گٹھ جوڑ نے حتمی شکل دی ہے۔ قرضے کی مدت وسط اپریل ۲۰۲۴ء میں ختم ہوگی، جب کہ منصوبے کے تحت نئی منتخب حکومت دسمبر ۲۰۲۳ءمیں آئی ایم ایف سے بیرونی رقم کے قرضے کے لیے رجوع کرے گی، جس کی منظوری میں چند ماہ لگ سکتے ہیں۔ سوچ یہ نظر آتی ہے کہ آئی ایم ایف کے تین ارب ڈالر کے موجودہ قرضے کے باوجود پاکستانی معیشت مشکلات میں گھری رہے۔ لیکن اگر حکومت خود کوئی بڑی غلطی نہ کرے تو آئی ایم ایف سے ۲۰۲۴ء میں بڑی رقم کے قرضے کی منظوری تک پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا جائے۔ البتہ ۲۰۲۴ء میں ملنے والے قرض کی معاشی اور سیاسی شرائط اتنی سخت ہوسکتی ہیں، جن کے نتیجے میں بڑے ڈیفالٹ کا خطرہ آنے والے برسوں میں حقیقت کا رُوپ دھار سکتا ہے۔ اس ’نجاتی پیکج‘ سے ’نئی سردجنگ‘ کے دور میں ’نیوگریٹ گیم‘ کے استعماری مقاصد میں معاونت پاکستان کے لیے تباہ کن ہوگی۔
پاکستان کو غیرمستحکم کرنا، پاکستانی معیشت کو کمزور اور اپنا دست نگر رکھنا اور حکومت و قوم، افواجِ پاکستان اور قوم اور وفاق و صوبوں کے درمیان اعتماد کا بحران پیدا کرنا، نائن الیون کے بعد امریکی پالیسی کا حصہ رہا ہے۔ ’نیوگریٹ گیم‘ کے مقاصد میں آنے والے برسوں میں پاکستان کے جوہری و میزائل پروگرام کو نقصان پہنچانا اور پاکستان کی سرحدوں میں خدانخواستہ تبدیلیاں لانا بھی شامل دکھائی دیتا ہے۔ ممتاز امریکی دانشور نوم چومسکی نے کہا تھا کہ’’ امریکا نے پاکستان کی اشرافیہ کو خرید لیا ہے‘‘۔ ہنری کسنجرنے نائن الیون کے بعد کہا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کی اصل جنگ اس وقت شروع ہوگی، جب افغانستان میں امریکی فوجی کارروائیاں دم توڑرہی ہوں گی اور اس کا محور افغانستان سے باہر ہوگا۔ افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان سے مفاہمت امریکا نے ایک حکمت عملی کے تحت کی ہے۔
صورتِ حال یہ ہے کہ گذشتہ دنوں خود افواجِ پاکستان کے سربراہ نے کہا: ’’افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کروائی جارہی ہیں‘‘، جب کہ حکومت عوام پر نت نئے ٹیکس عائد کرکے اقتصادی دہشت گردی کررہی ہے۔ امریکا، بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے پر متحرک ہے،اور بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بائیڈن مودی مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کے بے سروپا الزامات اور پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کی مالی معاونت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ سب خطرے کی گھنٹیاں ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے۵جولائی ۲۰۲۳ء کو کہا تھا:’’کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے‘‘۔ اس ضمن میں ہم یہ عرض کریں گے کہ سابق صدر زرداری نے کہا تھا:’’ڈیفالٹ کرنے یا دیوالیہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔ جب کہ وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا: ’’پاکستان ڈیفالٹ کرچکا ہے،اورہم دیوالیہ ملک کے شہری ہیں‘‘۔
یاد رہے، اپریل ۲۰۱۹ء سے مارچ ۲۰۲۲ء تک عمران حکومت کے ناقابلِ فہم اور ناقابلِ دفاع فیصلوں سے پاکستان کی معیشت پرانتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہوئے، جب کہ شہباز حکومت نے بھی متعدد ایسے اقدامات کیے جن کے نتیجے میں مالی سال ۲۰۲۳ء میں معیشت کی کارکردگی پاکستان کی تاریخ کی بدترین کارکردگیوں میں سے ایک رہی اور ڈیفالٹ کا خطرہ پاکستان کے سر پر منڈلانے لگا۔ چنانچہ اشرافیہ کے کچھ طبقوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان ڈیفالٹ کرنے کا عندیہ دے۔
ان افراد کا یہ خیال تھا کہ اگر پاکستان ڈیفالٹ کردے تو پاکستان کو ایک بڑا نجاتی پیکج مل جائے گا اور پاکستان کونہ صرف مزید قرضے ملیں گے بلکہ کچھ بیرونی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ بھی ہوسکتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ معاشی سرگرمیاں تیز ہونے سے انھیں دولت کمانے کا موقع ملے گا۔ لیکن ان صاحبان نے اس خدشہ کو نظرانداز کردیا کہ آبادی کے لحاظ سے دُنیا کا پانچواں بڑا ملک، عالم اسلام کی پہلی جوہری قوت اور دفاع و تجارت کے لحاظ سے انتہائی اہم محل وقوع کا حامل ملک پاکستان اگر خدانخواستہ ڈیفالٹ کرتا ہے تو اس کے نتائج انتہائی ہولناک ہوں گے۔ پاکستان کے جوہری اثاثے اور اس کا شاندار محلِ وقوع ’نجاتی پیکج‘ کی آڑ میں ان اثاثوں اور جغرافیائی سرحدوں کو بھی خطرات کی زد میں لایا جاسکتا ہے۔ استعماری طاقتوں کے نزدیک پاکستان کو ڈیفالٹ کرانے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے کیونکہ افغانستان وغیرہ کے معاملات میں امریکا کو پاکستان کی اب بھی ضرورت ہے۔مگر آیندہ برسوں میں یہ صورت نہیں رہے گی۔
گذشتہ پانچ برسوں میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کی حکومت نے اسٹیٹ بنک اور ایف بی آر سمیت متعدد اداروں کے تعاون اور ملکی و بیرونی اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں جو معاشی پالیسیاں اپنائیں، ان کے منفی نتائج کے ضمن میں چند حقائق اور اعدادو شمار پیش ہیں:
۱- معیشت کی اوسط سالانہ شرحِ نمو ۲ء۶ فی صد رہی ، جب کہ اس سے قبل کی ۳۸برسوں میں یہ شرح اوسط ۴ء۷ فی صد سالانہ تھی۔
۲- مالی سال ۲۰۱۸ء میں افراطِ زر کی شرح ۴ء۶۹ فی صد تھی، جب کہ مالی سال ۲۰۲۳ء میں یہ شرح ۲۹ء۴ فی صد ہوگئی۔ اس اضافے سے غریب و متوسط طبقے کے کروڑوں عوام بُری طرح متاثر ہوئے اور ان کی زندگیوں میں محرومیاں بڑھ گئیں۔
۳- مالی سال ۲۰۱۸ء کے اختتام پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر ۱۲۲ روپے تھی، جو گرکر ۲۸۵روپے ہوگئی۔ روپے کی قدر میں اس زبردست کمی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
۴- ان برسوں میں ملکی درآمدات ۲۹۲؍ارب ڈالر رہیں، جب کہ برآمدات کا مجموعی حجم صرف ۱۳۰؍ارب ڈالر رہا، یعنی اس مدت میں پاکستان کو تقریباً ۱۶۲؍ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا۔
۵- پاکستان شاید دُنیا کا واحد ملک ہے جہاں جائز اور ناجائز دولت کو قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کروائے بغیر ملکی قانون کے تحت ملک سے باہر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں کھلی منڈی سے ڈالر خرید کر بنکوں کے ذریعے جو رقوم ملک سے باہر منتقل کی گئی ہیں ان سے متعدد ڈیم تعمیر کیے جاسکتے تھے۔ واضح رہے کہ گذشتہ تقریباً ۵۰برسوں میں پاکستان نے کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں کیا۔ پانی سے بنائی گئی بجلی کی لاگت تقریباً سات روپے فی یونٹ آتی ہے ، جب کہ فرنس تیل سے پیدا کرنے والی بجلی کی لاگت تقریباً ۴۸ روپے فی یونٹ آتی ہے۔
۶- گذشتہ پانچ برسوں میں بیرونی ملکوں سے ۱۳۲؍ارب ڈالر کی ’ترسیلات‘ انکم ٹیکس آرڈی ننس کی شق ۱۱۱(۴) سے مستفید ہوکر پاکستان آئی ہیں۔ واضح رہے کہ ایک لاکھ ڈالر کی ترسیلات پر ٹیکسوں کی مد میں حکومت کو تقریباً ۵۰ لاکھ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
۷- ایک تخمینے کے مطابق گذشتہ پانچ برسوں میں ایف بی آر نے ٹیکسوں کی مد میں اپنی استعداد سے تقریباً ۲۵ہزار ارب روپے کی کم وصولی کی۔ اس نقصان سے مال دار اور طاقت ور طبقات نے خوب فائدہ اُٹھایا ، جب کہ عوام نے موجودہ ۱۸فی صد کی شرح سے جنرل سیلز ٹیکس دیا۔ حکومت نے تعلیم، صحت اور ترقیاتی اخراجات کی مدات میں زبردست کٹوتیاں کیں۔
۸- ملک میں تقریباً ۹کروڑ موبائل فون رکھنے والے ایسے افراد سے حکومت غیرقانونی طور پر ۱۵ فی صد پیشگی ٹیکس وصول کررہی ہے،حالانکہ ان کی آمدنی ۶لاکھ روپے سالانہ سے کم ہے۔
۹- ۳۰ جون ۲۰۱۸ء کو پاکستان کے مجموعی قرضوں اور مالی ذمہ داریوں کا حجم ۲۹ ہزار ۸سو۷۹ ؍ارب روپے تھا جو پانچ سال بعد بڑھ کر ۷۲ ہزار۹سو۷۸ ؍ارب روپے ہوگیا۔ صاف ظاہر ہے کہ آزادی کے ۷۱ برس بعد قرضوں اور ذمہ داریوں کے مجموعی حجم کے مقابلے میں بھی کہیں زیادہ اضافہ گذشتہ پانچ برسوں میں ہوا۔
۱۰- دسمبر ۲۰۱۸ء میں بنکوں نے صنعت، تجارت اور زراعت وغیرہ کے لیے ۷ہزار ۹سو۵۵ ارب روپے کے قرضے دیئے تھے، جو دسمبر ۲۰۲۲ء میں بڑھ کر ۱۱ہزار ۸سو۱۸ ؍ارب روپے ہوگئے، یعنی ۳ہزار ۸سو ۶۳ ؍ ارب روپے کا اضافہ۔اسی مدت میں بنکوں نے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو جو رقوم دے رکھی تھیں، ان کا حجم ۷ہزار۹سو۱۴ ؍ارب روپے سے بڑھ کر ۱۸ہزار ۴سو ارب روپے ہوگیا، یعنی ۱۰ہزار ۴سو۸۶ ؍ ارب روپے کا اضافہ۔ عالمی مالیاتی ادارے ایسی سرمایہ کاری کو ملک کا رسک (خطرہ) تصور کرتی ہیں۔ خدشہ ہے کہ آنے والے برسوں میں ان حکومتی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کرنے کے لیے پاکستان کو مجبور کیا جاسکتا ہے۔ یہ بیرونی قرضوں کے ممکنہ ڈیفالٹ سے بڑا خطر ہ ہے، جس سے پاکستان کے بنکاری نظام کو تباہ کن جھٹکا لگ سکتا ہے۔
۱۹۵۸ء سے جولائی ۲۰۲۳ء تک پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ قرضوں کے ۲۴ پروگرام حاصل کیے ہیں ، جب کہ آزادی کے بعد سے اب تک علاوہ نگران وزرائے اعظم کے، شہبازشریف ۱۷ویں وزیراعظم ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ تمام حکومتیں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کو اپنا فرضِ منصبی سمجھنا، جب کہ امریکا بھی پاکستان کو آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑے رکھنا چاہتا ہے، کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر وہ پاکستان کی معیشت کو اپنا دست ِ نگر بنائے رکھنے کے ساتھ ’نیوگریٹ گیم‘ کے مقاصد بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں حکومتیں آئی ایم ایف کی شرائط کی آڑ میں عوام پر نت نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالتے چلے جانے کے ساتھ ساتھ طاقت ور طبقوں کو بدستور مراعات دیتی چلی جاتی ہیں۔ بیرونی قرضے حاصل کرکے اپنے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے ساتھ امریکی حکمرانوں کی خوش نودی حاصل کرتی ہیں۔ اس ناپاک گٹھ جوڑ کو توڑے بغیر پاکستان کی معیشت میںپائیدار بہتری آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
پہلے فوجی حکمران ایوب خان نے سب سے پہلے ۸دسمبر ۱۹۵۸ء کو پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسایا تھا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، معین قریشی، محبوب الحق، ملک معراج خالد، نواز شریف، جنرل پرویز مشرف، آصف زرداری/یوسف رضا گیلانی، عمران خان اور شہباز شریف نے آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کیے۔ عمران خان اور شہباز شریف نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ پاکستان مالی سال ۲۰۲۴ء میں آئی ایم ایف سے بڑی رقم کا قرضہ حاصل کرے۔ حالانکہ بھارت نے آخری مرتبہ ۱۹۹۴ء میں ایسے وقت آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کیا تھا، جب بھارت کی معیشت تباہ ہوچکی تھی۔ یہ قرضہ لینے کے بعد بھارتی حکومت نے برق رفتاری سے معیشت میں بنیادی اصلاحات کیں اور پھر آئی ایم ایف کے قرضے سے بے نیاز ہوگیا۔ قوم کو سوچنا ہوگا کہ ہم یہ اصلاحات کرنے سے کیوں گریزاں ہیں اور ایسے فیصلے کیوں کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر نہ نکل سکیں؟
تحریک ِ انصاف کی حکومت نے ۳جولائی ۲۰۱۹ء کو آئی ایم ایف سے قرضے کا جو پروگرام منظور کروایا تھا، وہ ستمبر ۲۰۲۲ء میں ختم ہورہا تھا۔ شہباز حکومت نے اس پروگرام کی جون ۲۰۲۳ء تک توسیع کروائی اور اس مدت میں آئی ایم ایف کی شرائط کی آڑ میں متعدد ایسے اقدام اُٹھائے، جن کے نتیجے میں معیشت تباہی کے کنارے پر پہنچ گئی۔ چند اعداد و شمار یہ ہیں:
۱- مالی سال ۲۰۲۲ء میں افراطِ زر کی شرح ۱۲ء۲ فی صد تھی، جو مالی سال ۲۰۲۳ء میں بڑھ کر ۲۹ء۲ فی صد ہوگئی۔
۲- مالی سائل ۲۰۲۲ء کے اختتام پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر ۲۰۴ روپے تھی، جب کہ مالی سال ۲۰۲۳ء کے اختتام پر یہ شرح مبادلہ ۲۸۵ روپے ہوگئی۔
۳- مالی سال ۲۰۲۳ء میں گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں برآمدات میں ۴ء۱ ؍ ارب ڈالر اور ترسیلات میں ۴ء۳؍ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔ اسی مدت میں درآمدات میں ۲۴ء۹؍ ارب ڈالر اور تجارتی خسارہ میں۲۰ء۸؍ ارب ڈالر کی کمی ہونے کے باوجود اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں ۵ء۳؍ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔
۴- مالی سال ۲۰۲۲ء میں معیشت کی شرحِ نمو، ناپائے دار اور ناہموار ہی سہی، مگر ۶ء۱ فی صد تھی، جب کہ موجودہ مالی سال میں یہ شرح منفی ہوسکتی ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں یہ بات راز ہی رہے گی کہ شہباز حکومت نے آئی ایم ایف کے قرضے کی مدت کو ستمبر ۲۰۲۲ء سے بڑھوا کر جون ۲۰۲۳ء کیوں کرایا؟ کیونکہ متعدد تباہ کن ’شرائط‘ پر عمل درآمد کروانے کے باوجود آئی ایم ایف نے اس مدت میں پاکستان کو ایک ڈالر کا قرضہ بھی نہیں دیا۔
دانش مندانہ حکمت عملی یہ ہوتی کہ ستمبر ۲۰۲۲ء میں آئی ایم ایف کے قرضے کی مدت ختم ہونے کے چند ماہ بعد دسمبر ۲۰۲۲ء میں بڑی رقم کے قرضے کی درخواست پیش کر دی جاتی۔ اس وقت معیشت کی حالت آج کے مقابلے میں کہیں بہتر تھی۔ چنانچہ نسبتاً کم کڑی شرائط پر قرضہ مل جاتا اور ڈیفالٹ کا خطرہ بھی نہ ہوتا۔ اب قرضہ کی درخواست دسمبر ۲۰۲۲ء کے بجائے دسمبر ۲۰۲۳ء میں پیش کی جائے گی، جس کی شرائط معیشت اور ملکی سلامتی کے لیے تباہ کن ہوں گی۔ شہباز حکومت کو اس پہاڑ جیسی غلطی کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ تحریک انصاف اور پھر نون لیگ کی اتحادی حکومت نے ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں کہ پاکستان ۲۰۲۴ء میں سخت ترین شرائط پر آئی ایم ایف سے بڑی رقم کا قرضہ حاصل کرے۔ یہ قرضہ امریکا کی سفارش پر ملے گا، جس کے لیے ’نیوگریٹ گیم‘ کے تحت امریکا کی اپنی شرائط ہوں گی جو معیشت اور سلامتی کے لیے خطرات لائیں گی۔شہباز حکومت نے جولائی ۲۰۲۳ء میں معیشت کے ضمن میں دو اہم باتیں کہی ہیں: اوّل یہ کہ اگلی حکومت کو معیشت کے شعبے میں صحیح معنوں میں اصلاحات کرنا ہوں گی، اور دوم کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے۔
ہم اس ضمن میں یہ عرض کریں گے کہ گذشتہ ۳۰برسوں میں کسی بھی حکومت بشمول فوجی حکومت اور اسٹیٹ بنک نے صحیح معنوں میں مؤثر معاشی اصلاحات نہیں کیں، کیونکہ ان سے طاقت ور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ چنانچہ اگلی حکومت سے یہ توقع کرنا کہ وہ یہ اصلاحات کرے گی، خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر یہ اصلاحات نہیں کی جاتیں تو پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
اس طرح معیشت کی بحالی، پاکستان کی سلامتی اور جوہری اثاثوں اور ہماری جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ انتخابات سے پہلے بنیادی معاشی اصلاحات کو لازماً قانونی شکل دے دی جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ اجتماعی خودکشی کے مترادف ہوگا۔ میثاقِ معیشت کا نعرہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کواس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔ سپریم کورٹ بھی اس ضمن میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتا ہے۔
اس ضمن میں ہماری چار تجاویز ہیں:
۱- اگلے چند روز میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے۔ اس میٹنگ میں حکومت سازی میں شریک کم از کم تین بڑی پارٹیوں کی قیادت سے ایک حلف نامے پر دستخط کرائے جائیں، جس میں درج ذیل نکات شامل ہوں:
(۱) وفاق اور صوبے ۱۰ لاکھ روپے سالانہ سے زائد ہرقسم کی آمدنی پر ٹیکس مؤثر طور پر اور منصفانہ طریقے سے نافذ اور وصول کریں گے۔
(۲) معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا اور پراپرٹی کی مالیت ہرسال مارکیٹ کے نرخوں کے برابر مقرر کی جائے گی۔
(۳) جنرل سیلز ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح (علاوہ اشیائے تعیش یا غیرضروری اشیا) ۷ء۵ فی صد ہوگی،جب کہ پٹرولیم لیوی (بھتہ) ختم کردیا جائے گا۔
(۴) انکم ٹیکس آرڈی ننس کی شق ۱۱۱(۴) کو منسوخ کردیا جائے گا۔
(۵) تعلیم اور صحت کی مد میں جی ڈی پی کا ۷ء۵ فی صد لازماً مختص اور خرچ کیا جائے گا۔
(۶) کھلی منڈی سے خریدی ہوئی بیرونی کرنسی کو علاوہ تعلیم و علاج معالجے کے اخراجات کے بنکوں میں بیرونی کرنسی کے کھاتوں کے ذریعے ملک سے باہر منتقلی پر پابندی عائد کردی جائے گی۔
(۷) توانائی کے شعبے میں ایسی اصلاحات کی جائیں گی کہ گردشی قرضہ پیدا نہ ہو اور بجلی کی تقسیم و ترسیل، بجلی کی چوری، اور بجلی کے بلوں کی عدم وصولی کے نقصانات عوام کو منتقل نہ کیے جائیں گے۔
(۸) بنکوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے کھاتے داروں کو منافع میں شریک کریں۔ وزارتِ خزانہ انکم ٹیکس آرڈی ننس کی شق ۲۶، ایف-۴، اور اسٹیٹ بنک شق ۴۰-الف پر عمل درآمد یقینی بنائیں گے۔
۲- مندرجہ بالا نکات پر مشتمل حلف نامے پر دستخطوں کے بعد اس ضمن میں فوری طور پر مؤثر قانون سازی کی جائے، جس میں واضح طور پر کہا جائے کہ انتخابات کے بعد برسرِاقتدار آنے والی وفاقی و صوبائی حکومتیں، اس قانون پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہوں گی۔
۳- الیکشن کمیشن کو پابند کیا جائے کہ سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب لڑنے والوں کے فارم میں بھی یہ حلف نامہ شامل کریں۔ یہ اہتمام اس لیے بھی ضروری ہے کہ عوام کے نمایندے معاشی ذمہ داری کی نزاکت کو سمجھیں اور قوم سے عہد کریں۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: