گناہ بڑے بھی ہوتے ہیں اور چھوٹے بھی۔ ہم لوگ سمجھتے یہ ہیں کہ گرفت اور پکڑ خداوندتعالیٰ کی جانب سے صرف بڑے بڑ ے گناہوں کی ہوگی اور چھوٹے چھوٹے گناہوں کو تو ویسے ہی معاف کردیا جائے گا۔اسی لیے چھوٹے گناہوں کی طرف سے عام طور پر لاپروائی برتی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر غیبت اور دوسروں کی عیب جوئی کا معاملہ ہی لیجیے۔
ہم لوگوں کی عادت ہے کہ جس محفل میں بھی بیٹھتے ہیں تھوڑی ہی دیر میں دوسروں کی عیب جوئی کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کسی کی غیرموجودگی میں اسے بُرے لقب اور بُرے لفظوں سے یاد کرنا اتنی بُری بات ہے کہ خداوندتعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں اُسے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر قرار دیا ہے اور روایات میں اس بد عادت پر بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں۔
غور کیجیے کہ اس بُرائی کا منبع کیا ہے، اور ہم لوگ کیوں دوسروں کو ان کی غیرموجودگی میں بُرے لفظوں میں یاد کرتے ہیں؟ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ ہم کسی کی بُرائی اس کے سامنے کرنے کی ہمت اور اخلاقی جرأت نہیں رکھتے۔ اگر ہم کسی میں کوئی بُری عادت دیکھیں تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ نہایت اخلاق اور تہذیب و شائستگی سے اسے اس کی بُری عادت سے آگاہ کردیں۔ لیکن ہم ایسا نہیں کرتے ۔اس کے سامنے توہم خاموش رہتے ہیں اور اُس کے آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہی دوسروں سے اس کی شکایت اور لگائی بجھائی میں مگن ہوجاتے ہیں۔
اس طرح ہم اپنے اندر ایک طرح کا اطمینان محسوس کرتے ہیں جیسے ہم نے بدلہ لے لیا ہو، یا دوسرے کو اس کے کیے کی سزا دے دی ہو۔ مگر اس کا فائدہ کیا ہے؟ کیا ہماری شکایت اور لگائی بجھائی سے اس کی اصلاح ہوجاتی ہے جس کی ہم شکایت کرتے ہیں؟ نہیں، ہرگز بھی نہیں۔ اکثر صورتوں میں تو اس شخص کو پتا بھی نہیں چل پاتا کہ اس کی بابت غیرموجودگی میں کیا باتیں کی گئیں۔ قرآن حکیم میں آیا ہے کہ معمولی سے معمولی بُرائی کی بھی پکڑ ہے، اور چھوٹی سے چھوٹی نیکی کابھی اجر ہے۔ ذرا کبھی بیٹھ کر حساب تو لگائیں کہ ہم ایک روز میں اوسطاً کتنی دیر دوسروںکی غیبت کرتے ہیں اور پھر ہفتے میں کتنی دیر اور مہینے اور سال میں کتنی دیر اس عادتِ بد میں گرفتار رہتے ہیں؟ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ہم برسوں اور مہینوں میں اپنی عمر کا بڑاحصہ اسی گناہ کو سمیٹنے میں لگادیتے ہیں اور ہمارے اعمال میں صرف غیبت کی مد میں گناہوں کا ایک پہاڑ کھڑا ہوجاتا ہے۔جس کی طرف ہماری کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ روزِ حساب گناہوں کا یہ پہاڑ ہماری ساری نیکیوں اور ثواب کو ہڑپ کرلے گا اور ہمارے دامن میں جنّت میں جانے کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ صرف غیبت اور لگائی بجھائی ہی سے نہیں، ان تمام چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بچیں جو ہمیں روزِ آخرت رُسوا کرکے رہیں گے۔
اسی طرح ایک اور بیماری ہمارے اندر دوسروں کی دل آزاری ہے۔
ہم گفتگو کرتے وقت لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مخاطب کو کوئی ایسی بات ضرور کہہ دیتے ہیں ،جس سے اس کے دل کو تکلیف پہنچ جاتی ہے۔ ہم تو اپنی بات کہہ کر نکل جاتے ہیں، یا بھول جاتے ہیں، لیکن جس سے کہتے ہیں وہ اندرونی تکلیف میں مدتوں مبتلا رہتا ہے۔ دوسروں کا مذاق اُڑانا ، طنز کے تیر چلانا، سخت کلامی سے پیش آنا ___ یہ وہ باتیں ہیں جو براہِ راست دل کو اذیت پہنچاتی ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے بجا طور پر، یہ بار بار سمجھایا اور ذہن نشین کرانا چاہا ہے کہ ’’شرک کے بعد دوسرا بڑا گناہ جو معاف نہیں ہوگا وہ دل آزاری ہے‘‘ اور یہ بات بڑی حد تک سچی معلوم ہوتی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دل آزاری کے گناہ کو اس وقت تک معاف نہیں کرے گا جب تک وہ شخص معاف نہ کرے جس کا دل دُکھایا گیا ہے۔ اس لیے گفتگو کرتے ہوئے یا کسی سے معاملے کی بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے اور دل دکھانے والی کوئی بات منہ سے نادانستہ نکل ہی جائے، تو اس کی ضرور معذرت کرلینی چاہیے اور معاملہ صاف کرلینا چاہیے۔
اسی طرح ایک اور بیماری بے حسی کی ہے۔
اس کا تعلق لاپروائی سے ہے کہ ہم اپنی ذات اور اس کی تکلیف کے حوالے سے تو بہت حساس ہوتے ہیں، لیکن ہماری ذات سے دوسروں کو تکلیف پہنچ رہی ہے، اس بارے میں ہم بہت بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔مثال کے طور پر کسی کی گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی پارک کرنا، اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ دوسرے کے گھر کے سامنے پھینک دینا،گھر یا گاڑی میںزور زور سے گانے بجاکر پڑوسیوں اور راہگیروں کو اذیت پہنچانا، پبلک مقامات میں سگریٹ نوشی کے ذریعے دوسروں کو تکلیف دینا، بیچ راستے میں شامیانے لگا کر گھریلو تقریبات منعقد کرکے آنے جانے والوں کو پریشان کرنا، جلسوں اور جلوسوں کے لیے پوری پوری شاہراہیں بند کرکے ہزاروں مسافروں اور مجبوروں کو اذیت پہنچانا۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار مواقع پر ہم اپنی بے حسی سے دوسروں کے لیے تکلیف اور ذہنی کوفت کا سامان اکٹھا کرتے ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں ان باتوں کی پُرسش نہ ہوگی؟ یقینا ہوگی اور بہت سخت ہوگی۔
فقہ کا ایک اصول یہ ہےکہ چھوٹے گناہوں یعنی صغیرہ گناہوں پر اصرار اسے بڑا گناہ یعنی گناہِ کبیرہ بنادیتا ہے۔ اس لیے ہمیں چھوٹے گناہوں سے بہت ڈرنا چاہیے۔ بالکل اس طرح جیساکہ ہم چھوٹے چھوٹے مگر زہریلے کیڑے مکوڑوں سے ڈرتے ہیں۔