دینی مقدَّسات میں سب سے اہم: ذاتِ باری تعالیٰ ، ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ کریم ہیں۔اللہ تعالیٰ کی ذاتِ عالی صفات کے ساتھ ساتھ ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتِ شان اور آداب، خود قرآنِ کریم میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔ مسلمان عملی اعتبار سے کتنا ہی کمزور ہو، دینی مقدَّسات کی بے حرمتی پر اپنے جذبات پر قابو رکھنا اس کے لیے دشوار ہوجاتا ہے اوروہ اپنی جان ،مال ،آبرو، حتیٰ کہ اپناسب کچھ ان مقدّسات کی حُرمت پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواہ غیرمسلم دُنیا ہو یا مسلم دُنیا، جب اور جہاں بھی اس طرح کے واقعات ہوئے ، مسلمانوں نے بے اختیار اپنے ردِّعمل کا اظہار کیا ۔
سوال یہ ہے :’’مسلمان اپنے دینی مقدَّسات کی حرمتوں کا تحفظ کیسے کریں، ان دیدہ و دانستہ مذموم ابلیسی تحریکات کا سدِّباب کیسے کریں؟‘‘، یہ مسئلہ مسلمانوں کے اہلِ فکر ونظر کے لیے سنجیدہ اور گہرے غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے۔ اس میں سمجھنے کی پہلی بات یہ ہے کہ اکثر اوقات مسلم ممالک میں مسلمان احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں،اپنے جذبات اور ردِّعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اس حد تک یہ بات درست ، قابلِ فہم بلکہ ہمارے ایمان کا تقاضاہے ۔ لیکن جذبات سے مغلوب ہوکر اپنے ہی ملک میں قومی اور نجی املاک کو تباہ کرنا یا خدانخواستہ جانی نقصان ہوجانا، درست نہیں ہے۔ جب ہم ایک غلطی کے ازالے کے لیے نکلیں تو ردِّعمل میں ہمیں دوسری غلطی کا ارتکاب کرنا زیب نہیں دیتا۔ بالکل اسی طرح خدانخواستہ ملک کے اندر یا باہر دوسروں کے مذہبی اداروں ،اشخاص اورسفارت خانوںپر حملہ کرنا بھی مناسب نہیں ہے ، اگرچہ وقتی طور پر جذبات کو اس سے تسکین ملتی ہے، لیکن اس طرح کے عوامل آخر کار منفی نتائج کے حامل ہوتے ہیں ۔
ہماری سوچی سمجھی رائے ہے :’’مغربی ممالک میں وقتاً فوقتاً اس طرح کی مذموم حرکات (مثلاً: اہانتِ رسولؐ پر مبنی خاکے چھاپنا، قرآنِ کریم کو جلانا ، ہمارے دیگر دینی مقدَّسات کی بے حرمتی کرنا) دانستہ طور پر ہی کی جاتی ہیں‘‘ ، کیونکہ انھیں معلوم ہے : ’’مسلمان اس پر بے اختیار ردِّعمل کا مظاہرہ کریں گے اور وہ بعض مواقع یابعض مقامات پر حدود سے تجاوز بھی کر گزریں گے ‘‘، اس طرح وہ دنیا میں یہ پُرزور پروپیگنڈا کریں گے :’’مسلمان انتہا پسند ہیں، دوسروں کے خلاف نفرت انگیزی کرتے ہیں، دہشت گرد ہیں ، ان سے امنِ عالَم کو خطرہ ہے‘‘ اور ہمارے دیسی لبرل حضرات اُن سے بھی چار ہاتھ آگے ہوں گے: ’’یہی اسلاموفوبیا‘‘ ہے۔
اور جب اُن سے ایسے بدبختوں کو سزا دینے کی بات کی جائے، تواُن کی حکومتیں اور ہمارے ہاں اُن کے پروردہ عناصر یہ کہتے ہیں: ’’اظہارِ رائے کی آزادی اور پریس کی آزادی ہمارے تمدّن، نظام اور لائف اسٹائل کے لوازمات میں سے ہے‘‘۔ یعنی یہ چیزیں اُن کے لیے عقیدے کا درجہ رکھتی ہیں، جن پر وہ کسی طرح کی روک ٹوک عائد کرنے اور قدغن لگانے کے لیے تیار نہیں۔ مغربی اقوام ا سی مادر پدر آزاد ی پر مشتمل تہذیب کو دوسری اقوام پر مسلّط کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے وہ یک زبان ،یک جان اور یک سو ہوجاتی ہیں۔ چونکہ انھیں حربی ، مادّی ، اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے غلبہ حاصل ہے،نیز عالمی اداروں کی پالیسی سازی پر بھی انھی کی گرفت ہے ، اس لیے اُن کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ وہ تجارتی اور سفارتی پابندیاں لگادیتے ہیں، ترقی پذیر ممالک کا ناطقہ بند کردیتے ہیں، جس کا کوئی مؤثرتوڑ فی الحال اِن ممالک کے پاس نہیں ہے۔
وہی مغربی اقوام، جن کی حکومتیں مسلمانوں کی دل آزاری اور اذیت رسانی کے جرم کو پریس کی آزادی اور اظہارِ رائے کی آزادی کے پُرفریب نعروں کی آڑمیں تحفظ دیتی ہیں ،وہاں اگر کوئی جرمنی میں یہودیوں کی نسل کشی (ہولوکاسٹ) کا انکار کرے یا اسے محض افسانوی پروپیگنڈا قرار دے، تو یہ اہلِ مغرب کے نزدیک قابلِ تعزیر جرم ہے، کیونکہ اُن کے نزدیک اس کے ذریعے یہودیوں کی دل آزاری ہوتی ہے ۔الغرض اُن کے نزدیک کم وبیش ڈیڑھ کروڑ یہود کی دل آزاری جرم ہے ،مگر پونے دو ارب مسلمانوں کی دل آزاری سرے سے جرم نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ ایک قابلِ مذمت یا قابلِ افسوس فعل ہے۔ اس سے مسلمانوں کو اپنی قدراور پوزیشن کا بھی اندازہ لگالینا چاہیے کہ دنیا محض تعداد کو نہیں دیکھتی، بلکہ عالمی سیاست ،عالمی معیشت اور عالمی امور میں کسی کی اہمیت کو دیکھتی ہے۔ستاون مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اور خود عام مسلمانوں کو بھی اس سوال پر غور کرنا چاہیے۔
مسلم ممالک کے حکمرانوں کا ردِّعمل نیم دلانہ ،پست ہمتی اور کمزوری پر مبنی ہوتا ہے۔ علامتی طور پر مسلم ممالک کا ایک فورم ’اسلامی تعاون تنظیم‘ ہے، اسے عربی میں مُنَظِّمَۃُ التَّعَاوُنِ الْاِسْلَامی کہاجاتا ہے۔لیکن اس میں تنظیم ، تعاون ، اتحاد اور تحریک کی حقیقی روح موجود نہیں ہے، بس دفع الوقتی اور اپنے عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے وہ ایک آدھ اجلاس کرلیتے ہیں، کوئی چھوٹی موٹی، محتاط سی قرار داد پاس کرلیتے ہیں اور بس!
اس کا پہلا اور بنیادی حل یہی ہے کہ جس ملک میں اسلام کے دینی مقدّسات کی اہانت ہو، اُس کا اقتصادی ، سفارتی اورتجارتی بائیکاٹ کیا جائے۔ اقوامِ متحدہ اور حقوقِ انسانی کے عالَمی اداروں پر دبائو ڈالا جائے کہ اقوامِ عالَم اپنے اپنے ممالک میں دینی مقدسات کی اہانت کے بارے میں سخت قوانین بنائیں ، اسے قابلِ تعزیر جرم قرار دیں اور اس کے سدِّباب کے لیے سنگین سزائیں مقرر کرکے انھیں نافذ کریں۔ اقوامِ متحدہ سے بھی مطالبہ کیا جائے کہ’دہشت گردی‘کی ایک جامع و مانع اوراجماعی تعریف کی جائے ، کیونکہ ایک یا چند افراد کوزبان، مذہب یا رنگ ونسل کی بنیاد پر جسمانی اذیت پہنچانا اگردہشت گردی ہے، تو ایک یا چند افراد کاابلیسی حرکت کے ذریعے ڈیڑھ پونے دو ارب مسلمانوں کو ذہنی ، روحانی اور قلبی اذیت پہنچانے کو بھی دہشت گردی اور قابلِ تعزیر جرم قرار دیا جائے، کیونکہ درحقیقت یہ سب سے بڑی دہشت گردی ہے۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ خود پاکستان کے اندر سوشل میڈیا پر دینی مقدّسات کی توہین کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ دنوں ’’لیگل کمیشن آن بلاسفیمی‘‘کے چیئرمین جناب رائوعبدالرحیم ایڈووکیٹ نے ہمیں شواہد دکھائے کہ سوشل میڈیا پر اسلام کے دینی مقدّسات کے بارے میں کیا کچھ بیان کیا اور پیش کیا جارہا ہے۔ یہ آڈیو /وڈیو مناظر سن کر اور دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، جھرجھری طاری ہوجاتی ہے، دل دہل جاتا ہے،انسان سوچتا ہے: زمین پھٹ کیوں نہ گئی ،آسمان کیوں نہ ٹوٹ پڑا۔ کوئی مسلمان نہ ان مناظر کو بیان کرسکتا ہے اور نہ دیکھنے کی جسارت کرسکتا ہے۔ لیکن مقامِ افسوس ہے کہ جو لوگ سوشل میڈیا پر یہ کام کر رہے ہیں، ان کے نام مسلمانوں جیسے ہیں ۔ رائو صاحب نے بتایا :’’ہم نے سیکڑوں افراد کی نشاندہی کرکے حکام تک پہنچایا ، لیکن نہ تو قانون حرکت میں آتا ہے اورنہ عدالتیں بروقت فیصلے کرتی ہیں۔ہماری اعلیٰ عدالتوں کو سیاسی تھیٹر سے فرصت ہی نہیں کہ وہ دینی مقدّسات کی حُرمت کے تحفظ کے لیے اپنے منصبی اختیارات کو استعمال کریں، حالانکہ وہ اپنی ناموس کے لیے تو بہت حساس ہوتے ہیں، توہینِ عدالت کی دھمکی دیتے ہیں۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ کیا وہ دینی مقدّسات کی حُرمت کو اپنے منصب کی حرمت کے برابر بھی نہیں سمجھتے؟اسی طرح اگر کوئی فرد، کسی بااختیار اور طاقت ور شخصیت کی توہین کر بیٹھے اور ایسا گستاخ شخص ملک کے اندر موجود ہے، تو اُسے پاتال سے بھی باہر نکال کر لے آتے ہیں، لیکن یہ پھرتی دینی مقدّسات کی حُرمت کے تحفظ کے لیے نہیں دکھائی جاتی۔
جب ہم ان مذموم ابلیسی حرکات کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان کا شرعی حکم بیان کرتے ہیں، تو ہمارے نام نہاد ’روشن خیال‘، سیکولر اور لبرلز کو تکلیف ہوتی ہے اور وہ یہ بحث کرنے لگتے ہیں: ’’فتویٰ دینا کس کا کام ہے؟‘‘اُن کی خدمت میں گزارش ہے :فتوے اور قضا میں فرق ہے۔اس تحقیق میں جائے بغیر کہ بیان کردہ صورتِ مسئلہ درست ہے یا غلط، حقیقتِ حال کے مطابق ہے یا نہیں، ’مفتی ‘کا کام فقط یہ ہے کہ بیان کردہ صورتِ مسئلہ پر بتائے کہ اس کا حکمِ شرعی یہ ہے۔ الزام کی تحقیق کرنا ،ثبوت وشواہد کی جانچ پڑتال کرنا اورالزام کو ثابت یا ردّ کرنا یہ قاضی کا کام ہے۔ دونوں باتوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔
انھی حکومتوں اور میڈیا کو جب ضرورت پڑتی ہے تو پھر فتوے کے لیے علما سے رجوع کرتے ہیں۔ اگر حکومت کا اپنا قائم کردہ آئینی ادارہ ’اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان‘ یا ہماری عدالتیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انتظامیہ اپنے فرائض ٹھیک ٹھیک انجام دیں ،تو علمائے کرام کو ان امور میں دخل اندازی کا شوق نہیں ہے ۔لیکن جب دینی مقدّسات کی حُرمت کو پامال کیا جائے اور ہماری انتظامیہ ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ہر سطح کی عدالتوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے ،توپھر اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوں پر اللہ کی حجت کو قائم کرنا علمائے حق کی ذمے داری ہے اور اگروہ اس سے گریز کریں یا چشم پوشی کریں یا گوشۂ عافیت تلاش کریں ، تو یہ اُن کی طرف سے دینی ذمے داری سے غفلت اور پہلوتہی قرار پائے گا۔
ہم نے بارہا کہا ہے :’’ناموسِ رسالتؐ کی بے حُرمتی پر ایف آئی آر کے اندراج کو آسان بنایا جائے نہ کہ مشکل۔ اس طرح ملزم قانون کی تحویل میں چلا جائے گا ، پولس کی حفاظتی حراست میں رہے گااور کوئی اس پر دست درازی نہیں کرپائے گا، اُسے شواہد کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جائے‘‘۔ نیز دینی مقدسات کی توہین اور ناموسِ رسالتؐ کی بے حُرمتی کے مقدمات کا براہِ راست فیڈرل شریعت کورٹ میں ٹرائل کیا جائے اور ان کے فیصَل ہونے کے لیے زیادہ سے زیادہ تین ماہ کی مدت کا تعین کیا جائے۔ اس لیے قانون کے سریع العمل نفاذ میں جتنی رکاوٹیں پیدا کی جائیں گی، نظامِ عدل میں اتنی ہی خرابیاں پیدا ہوں گی، اور رشوت دَر آئے گی۔ اس پر اپیل صرف شریعت کورٹ اپیلٹ بنچ میں دائر ہونی چاہیے۔ اگر ہمارے روایتی آزاد خیال اور سیکولر مزاج کے حامل ججوں کے سامنے یہ مقدمات آئیں گے تو اُن کا حشر وہی ہوگا جو ماضی میں ان مقدمات کا ہوا۔ جب جج کے اپنے عقیدے میں دینی مقدسات کی ناموس کی کوئی حیثیت نہ ہو ،تو اُن کے پاس ثبوت وشواہد پر مشتمل مقدمات کو بھی ردّکرنے کے دسیوں حیلے بہانے اور فنّی حربے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آسیہ مسیح کے مقدمے میں جسٹس صاحب کی یہ دلیل عجیب تھی :’’جب ساٹھ عورتیں اس وقوعہ کو دیکھ رہی تھیں تو صرف چند نے گواہی دی اور باقی نے کیوں نہ دی؟‘‘، جب کہ قانونی تقاضا فقط یہ ہوتا ہے کہ شرعی معیار پر گواہی درست ہو اور نصابِ شہادت پورا ہو۔
پس لازم ہے کہ دینی مقدّسات کی سماعت کے لیے فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ میں دینی علوم کے ماہر جج مقرر کیے جائیں۔ جج صاحبان کے لیے دینی علوم کا ماہر ہونا ہی کافی نہیں ہے ،اُن کی دیانت وامانت اور فقاہت وثقاہت پر سب کا اعتماد ہونا چاہیے۔ یہ بہت بنیادی اصول ہے، ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں آمرمطلق صدر جنرل پرویز مشرف نے جون۲۰۰۲ء میں حُرمتِ سود کے مسئلے کو نمٹانے کے لیے دو علما جج ہی تلاش کیے تھے :جسٹس علامہ خالد محمود کو مانچسٹر، برطانیہ سے اور دوسرے جج جسٹس ڈاکٹر رشید احمد جالندھری تھے، جب کہ اس بنچ کی سربراہی جسٹس افتخار محمد چودھری کر رہے تھے۔یہ بنچ ۲۰۰۲ء میں ’سانپ سیڑھی کے کھیل‘ کی طرح حُرمتِ سود کے مسئلے کو ۹۹سے صفر پر لے آیاتھا۔
وزیر اعظم نے سویڈن میں اہانتِ قرآنِ کریم کے سانحے پر قومی جذبات کے اظہار کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کرایا اور جمعۃ المبارک کو ملک بھر میں احتجاج کی اپیل کی، جس کی تحسین کرتے ہیں ۔مگر یہ بھی گزارش کرتے ہیں کہ احتجاج اُن لوگوں کا حق ہے جو ایوانِ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں، حکومتِ وقت اور حکمرانوں کی ذمے داری یہ ہوتی ہے کہ وہ مؤثر اقدامات کریں ، او آئی سی کے ساتھ مل کراقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی ،سلامتی کونسل اور حقوقِ انسانی کے عالمی اداروں میں یہ مسئلہ اٹھائیں اور عالمی سطح پراس اصول پر مکالمے کا آغاز کریں کہ اس طرح کی مذموم کارروائیاں امنِ عالَم کے لیے خطرہ ہیں، اور انسانیت کے درمیان نفرت کا باعث ہیں ۔ صرف اظہارِ تاسّف اور مذمتی بیانات سے ان کا سدِّباب یا مداوا نہیں ہوسکتا۔ اسے عالمی سطح پر دہشت گردی کی طرح سنگین اور قابلِ تعزیرجرم قرار دیا جائے اور ایسی عالمی عدالتوں میں مسلمانوں کے معتمد نمایندوں کو بھی شامل کیا جائے۔
ہماری شدید خواہش تو ہے کہ عالمِ انسانیت کا ہر فرد ہمارے دینی مقدّسات کا احترام کرے، لیکن غیر مسلموں سے ہمارایہ مطالبہ نہیں ہے کہ وہ اسلام کے دینی مقدّسات کا لازماًاحترام کریں،کیونکہ احترام تب ہوتا ہے جب دل میں کسی کی تعظیم ہو۔ قرآنِ کریم میں فرمایا گیا ہے:’’اور جس نے اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کی تو بے شک یہی شعار دلوں کا تقویٰ ہے ،(الحج۲۲:۳۲)‘‘۔ البتہ ہمارا یہ مطالبہ ضرور ہے اور بجا ہے کہ وہ اسلام کے دینی مقدسات کی توہین نہ کریں اور خود اسلام بھی دوسرے مذاہب کو یہ ضمانت دیتا ہے، قرآنِ کریم میں ہے: ’’مسلمانو!یہ لوگ اللہ کے سوا جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں ،انھیں گالی نہ دو ،ورنہ وہ (ردِّعمل میں)سرکشی اور جہالت کی بنا پر اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے ،(الانعام۶:۱۰۶)‘‘۔
ہمارے ہاں لبرل اور سیکولر عناصر چند مثالیں ڈھونڈ کر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گستاخوں کو معاف کردیا تھا‘‘۔ اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے حق کو معاف کرنا صاحبِ حق کا اختیار ہوتا ہے ، کسی دوسرے کو یہ اختیار استعمال کرنے کا حق نہیں ہے۔ نیز فتح مکہ کے موقعے پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام مخالفین کے لیے عفوِ عام (General Amnesty) کا اعلان کیا تھا ،اُس وقت بھی آپؐ نے گستاخِ نبوت ابن خطل کو معاف نہیں کیا تھا اور اُسے جہنم رسید کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ اسی طرح جب ایک نابینا صحابی نے اپنی بیوی کو قتل کردیا اور اُسے بارگاہِ نبوت میں طلب کیا گیا،تو انھوں نے کہا تھا:یارسولؐ اللہ! مجھے اپنی اس بیوی سے بے انتہا محبت تھی ،اس سے میرے پیارے بچے ہیں، مگر یہ آپؐ کی شان میں گستاخی کرتی تھی، اس لیے میں نے اس کے پیٹ میں خنجر گھونپ کر اسے جہنم رسید کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے اس اقدام کے خلاف کوئی تعزیری کارروائی نہیں کی۔
یہ بھی گزارش ہے کہ کئی لوگ شانِ نبوت میں یا دینی مقدسات کی اہانت پر مبنی آڈیو وڈیوکلپس کو بڑے پیمانے پر پھیلاتے اور شیئر کرتے رہتے ہیں۔ اَزراہِ کرم یہ ہرگز نہ کریں۔ ایک ہی جیسے مناظر بار بار دیکھنے اور دکھانے سے اُن کی سنگینی میں کمی واقع ہوتی ہے اور مسلمانوں میں بے حسی پیدا ہوتی ہے، جس کے بارے میں معلوم ہو اُسے قانون کے حوالے کرنا چاہیے۔پارلیمنٹ پر لازم ہے کہ وہ کم از کم اپنے ملک کے اندر دینی مقدسات کی اہانت پر مشتمل مواد کو فلٹر کرنے کے لیے کوئی نظام وضع کرے اور ایسے لوگوں کے خلاف سخت اور سریع العمل کارروائی کے لیے سائبرکرائم میں نئی دفعات کا اضافہ کرے۔ نیز پارلیمنٹ دینی مقدّسات کی حُرمت کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات اُٹھائے۔
ہم دینی مقدسات کی توہین کے حوالے سے قانون کو ہاتھ میں لینے کی حمایت ہرگز نہیں کریں گے ، بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کریں گے ، کیونکہ اس کے منفی نتائج بھی ہوسکتے ہیں۔ تاہم، جب ہمارا قانون صرف قانون کی کتابوں کی زینت بنا رہے گااور ہمارے نظامِ عدل میں پورے دینی اور ایمانی عزم کے ساتھ نافذ نہیں ہوگا، تو اللہ تعالیٰ ،رسولِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ کریم کی تقدیس کے حوالے سے ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی بعض اشخاص ایسے ہوسکتے ہیں جو رَدعمل میں انتہائی اقدام کر بیٹھیں۔ ایسے اقدام کا سدِّباب صرف قانون کے شفاف اور سریع العمل نفاذ سے ہوسکتا ہے ،اس کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔