اگست ۲۰۲۳

فہرست مضامین

دین کی بنیادی تعلیم

سید عمر فاروق مودودی | اگست ۲۰۲۳ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

سورئہ بقرہ کی آخری تین آیات ہجرت سے ایک سال پہلے معراج کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں۔ مسلم شریف کی روایت سےمعلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر تین چیزیں حضوؐ ر کو عطا ہوئی ہیں۔ ایک سورئہ بقرہ کی آخری آیات، دوسرے پانچ وقت کی فرض نمازیں، اور تیسرے یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے جو شخص شرک سے مجتنب رہے گا، محفوظ رہے گا، اللہ تعالیٰ اس کے کبیرہ گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ ارشاد ہوا:

لِلّٰہِ  مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط (البقرہ ۲:۲۸۴)،اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔

’اللہ ہی کے لیے ہے‘ سے مراد یہاں اصل میں تین چیزیں ہیں:

ایک تو یہ کہ ملکیت اس کی ہے، یہ کائنات اسی نے پیدا کی ہے، اسی کی ملکیت ہے۔ دوسرے یہ کہ یہاں اختیار اور تصرف تنہا اسی کا کام ہے۔ نہ کوئی دوسرا یہاں کوئی اختیار رکھتا ہے، نہ کسی دوسرے کو یہاں تصرف کا حق اور طاقت حاصل ہے۔اور تیسری بات یہ کہ رجوع ہرامر کو آخرکار اللہ کی ہی طرف کرنا ہے۔ واپسی اسی کی جانب ہونی ہے۔ انجامِ کار اسی کے ہاتھ میں ہے۔

اسی لیے تو فرمایا: لِلّٰہِ  مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ،’’جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب اسی کا ہے‘‘۔ اس کے سوا اس کی ذات میں نہ کوئی اُس کا شریک ہے، نہ اس کی صفات میں کوئی اس کا شریک ہے، نہ اس کے حقوق میں کوئی اس کا ساجھی ہے، اور نہ اس کے اختیارات میں اس کا کوئی شریک ہے۔

وَ  اِنْ تُبْدُوْا  مَا  فِیْٓ  اَنْفُسِکُمْ  اَوْ تُخْفُوْہُ  یُحَاسِبْکُمْ  بِہِ  اللہُ  ط(۲:۲۸۴) اور چاہے تم ظاہر کرو جو کچھ کہ تمھارے نفسوں میں ہے، یعنی اپنے دل کی بات کو۔ اَوْ تُخْفُوْہُ یا اس کو چھپائو، یعنی جو کچھ انسان کے دل میں ہے وہ بروئے کار آجائے۔ قول کی صورت میں یا فعل کی صورت میں، یا دل کی بات دل ہی میں رہ جائے۔

یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللہُ  ط، اللہ تعالیٰ تم سے اس کا محاسبہ فرمائے گا۔

مطلب یہ ہوا کہ صرف قول و فعل اور عمل ہی کا محاسبہ نہیں ہوگا بلکہ دلوں میں چھپی ہوئی نیتوں اور دلوں میں چھپے ہوئے رازوں اور خیالات اور اسکیموں اور منصوبوں، ہرچیز کا محاسبہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ اس میں فرق صرف اتنا ہے کہ ایک چیز جو صرف وسوسے کے درجے میں رہے، اس کے اُوپر تو کوئی محاسبہ نہیں ہوگا اور اس کی کوئی سزا بھی نہیں ملے گی۔ لیکن وسوسے کے درجے سے گزر کر اگرکوئی چیز باقاعدہ خواہش کی صورت میں ڈھل جائے، آدمی ان خواہشوں کو پالتا رہے، پھر چاہے وہ رُوبہ عمل آسکیں یا نہ آسکیں، بہرحال اس کا محاسبہ ہوگا۔ یہ ایسا ہی ہے، کہ کوئی شخص فرض کیجیے کہ کسی کو قتل کردینے کے درپے رہے۔ قتل کرنا یا نہ کرنا یہ تو مشیت ِ ایزدی کے تحت ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ منصوبہ تو بناتا رہے، درپے بھی رہے لیکن وہ اس منصوبے پر عمل نہ کرپائے،تو چاہے اس نے عمل نہ کیا ہو پھر بھی اس کے اُوپر اس کا محاسبہ کیا جائے گا۔

اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ: الْقَاتِل وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ، سے اس پر روشنی پڑتی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ قاتل کا تو جہنم میں جانا بالکل واضح ہے اور سمجھ میں آتا ہے لیکن مقتول کیوں جہنم میں جائے گا؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ  ’’مقتول اس لیے جہنم میں جائے گا کہ وہ بھی تو اصل میں قاتل کو قتل ہی کرنا چاہتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اس کو قتل کرنے کی خواہش اور کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا‘‘۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ محاسبہ صرف افعال اور اعمال اور اقوال ہی کا نہیں ہوگا بلکہ دلوں میں چھپے ہوئے منصوبوں اور خواہشوں اور اسکیموں کا بھی ہوگا۔

فَیَغْفِرُ  لِمَنْ  یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ  مَنْ  یَّشَآءُ  ط ،پھر وہ جس کو چاہے گا بخش دے گا اور جس کو چاہے گا سزا دے گا۔

یہ اصل میں توحید کی آیت ہے۔

فَیَغْفِرُ لِمَنْ  یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ  مَنْ  یَّشَآءُ  ط ،یعنی معاف کرنے اور سزا دینے دونوں کا  کامل اختیار اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ اس میں اس کا کوئی مزاحم نہیں۔ وہ جس کو بخش دینا چاہے تو کوئی اسے مجبور نہیں کرسکتا کہ اس کو ضرورسزا دیجیے، اور جس کو سزا دینا چاہے اس کو اللہ تعالیٰ سے کوئی چھڑا کر لے جا نہیں سکتا۔اور فائدہ اس کے بیان کا یہ ہے کہ جب اختیارِ مطلق اللہ تعالیٰ ہی کا ہے تو اُمیدیں بھی اسی سے وابستہ ہونی چاہییں اور خو ف بھی صرف اسی کا دل میں ہونا چاہیے۔ اس کے سوا نہ کسی دوسرے سے کوئی اُمید رکھی جائے اور نہ کسی دوسرے کا کوئی خوف دل میں رہے۔

وَاللہُ  عَلٰی  کُلِّ  شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝۲۸۴  (۲:۲۸۴)، اللہ تعالیٰ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔

اٰمَنَ   الرَّسُوْلَ   بِمَآ   اُنْزِلَ   اِلَیْہِ   مِنْ رَّبِّہٖ    وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط (۲:۲۸۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھی اہل ایمان، ایمان لے آئے اس چیز پر جو اُن پر نازل کی گئی، یعنی ہدایت جو نازل کی گئی ان کے ربّ کی جانب سے ۔

کُلٌّ  اٰمَنَ  بِاللہِ  وَمَلٰٓئِکَـتِہٖ   وَکُتُبِہٖ  وَرُسُلِہٖ   قف (۲:۲۸۵) اور ان میں سے ہر ایک یعنی رسولؐ اور اہل ایمان، ایمان لایا اللہ پر، وَمَلٰٓئِکَـتِہٖ  اور اس کے فرشتوں پر۔ وَکُتُبِہٖ    اس کی کتابوں پر ۔ وَرُسُلِہٖ  اور اس کے رسولوںؑ پر۔

دراصل سورئہ بقرہ میں چونکہ ابتدا سے یہود کا ذکر ہوتا رہا ہے۔ اس کو، اگر اسی روشنی میں دیکھا جائے تو مطلب بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ یہود وہ قوم تھے کہ جن سے اللہ تعالیٰ نے نبوت اور شریعت اور امامت ِ عالم کا منصب لے کر،ان کو اس منصب سے معزول کرکے، اس منصب کو اُمت ِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کیا۔ تو یہاں اس بات کو واضح کیا گیا کہ اٰمَنَ الرَّسُوْلَ بِمَآ  اُنْزِلَ  اِلَیْہِ  مِنْ رَّبِّہٖ  وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط ، یعنی جو ہدایت بھی ان کے ربّ کی جانب سے نازل ہوئی ہے، اس کے اُوپر ایمان لے آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی۔

کُلٌّ  اٰمَنَ  بِاللہِ  وَمَلٰٓئِکَـتِہٖ   وَکُتُبِہٖ  وَرُسُلِہٖ   قف ،ان میں سے ہر ایک ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر۔ اللہ پر ایمان اگرچہ اہل کتاب بھی رکھتے تھے لیکن یہ ایمان ان کا خانہ ساز ایمان تھا۔ یہ ان تقاضوں کے مطابق نہیں تھا جن کے مطابق ایمان کو ہونا چاہیے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات میں اور اس کی صفات میں، دونوں میں نہ صرف یہ کہ شرک کو داخل کردیا تھا بلکہ اپنے من گھڑت نظریات کو بھی اس میں داخل کردیا تھا۔

ملائکہ پر ایمان کی اہمیت ہے ، جیساکہ دوسری جگہ قرآنِ مجید میں آیا بھی ہے کہ:

مَنْ  کَانَ  عَدُوًّا   لِّجَبْرِیْلَ(البقرہ ۲:۹۷)، یعنی یہودی، حضرت جبرئیلؑ کو اپنا دشمن فرشتہ سمجھتے تھے اور اسی حیثیت سے وہ ان کو دیکھتے تھے، تو یہاں ملائکہ کا ذکر کیا گیا کہ ہم تمام ملائکہ کے اُوپر ایمان لائے۔

وَکُتُبِہٖ ، اور اس کی کتابوں پر۔ یہاں بھی اصل میں یہود ہی کی تردید کرنی مقصود ہے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ ہم تو صرف انھی کتابوں کے اُوپر ایمان لانے کے پابند ہیں کہ جو بنی اسرائیل پر  نازل ہوئیں۔ جو کتابیںکہ بنی اسرائیل پر نازل نہیں ہوئی ہیں، ان کے اُوپر ہم ایمان لانے کے پابند نہیں ہیں۔

وَرُسُلِہٖ ، اور اس کے رسولوں ؑ پر ایمان۔یہ بھی اصل میں یہود ہی کی تردید میں کہا گیا ہے۔ اس لیے کہ یہود کا یہ کہنا تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اچھی طرح اس بات کو پہچان گئے تھے اور سمجھ گئے تھے کہ یہ وہی آخری نبیؐ ہیں جن کی پیش گوئیاں ہماری کتب ِ مقدسہ میں موجود ہیں اور جن کے بارے میں ہمارے انبیاؑ نے ہم کو اطلاع بھی دی تھی اور ہمیں ان پر ایمان لانے کی وصیت اور نصیحت بھی کی تھی، لیکن صرف ضد اور تعصب میں مبتلا ہوکر انھوں نے یہ کہہ کر حضورؐ پر ایمان لانے سے انکار کردیا تھا کہ ہم تو صرف بنی اسرائیلی انبیاؑ پر ہی ایمان لانے کے پابند ہیں۔

مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ: لَا نُفَرِّقُ  بَیْنَ  اَحَدٍ  مِّنْ  رُّسُلِہٖ قف (۲:۲۸۵)، ہم اللہ کے رسولوں ؑ میں سے کسی میں بھی کوئی تفریق نہیں کرتے۔ ہم تو اِن رسولوںؑ پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں اور ان رسولوںؑ پر بھی ایمان لاتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں، خواہ وہ اسرائیلی انبیاؑ ہوں یا غیراسرائیلی انبیاؑ ہوں۔ کسی قوم میں آئے ہوں، یا کسی ملک میں، اگر وہ اللہ کے رسولؑ ہیں تو ہم ان کے اُوپر ایمان لاتے ہیں۔

وَقَالُوْا سَمِعْنَا  وَاَطَعْنَا ۝۰ۤۡ (۲:۲۸۵)، یہاں گویا اہل ایمان کی زبان سے یہ کہلوایا گیا کہ تم سَمِعْنَا  وَاَطَعْنَاکہو۔ یہ سَمِعْنَا  وَاَطَعْنَا بھی اصل میں یہود کے سَمِعْنَا  وَعَصَیْنَا کے جواب میں ہے۔ ان سے جو نعمت چھین لی گئی تھی نبوت کی اور کتاب کی، اور شریعت کی اور امامت ِ عالم کی۔ اس کا سبب یہی تھا کہ انھوں نے ہمیشہ سَمِعْنَا  وَعَصَیْنَا کہا بھی اور اس کے اُوپر عمل بھی کیا۔ ہمیں یہ نصیحت کی گئی کہ اب، جب کہ ان سے یہ نعمتیں لے کر تم کو دی گئی ہیں، کہیں تم ان کی راہ پر نہ چلنا اور ان کی پیروی نہ کرنا۔تمھارا قول اور عمل دونوں سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا پر ہوں۔ اور فرمایا کہ وَقَالُوْا سَمِعْنَا  وَاَطَعْنَا ، وہ کہتےہیں کہ ہم نے سنا، وَاَطَعْنَا ، اور مانا ، اطاعت کی۔

غُفْرَانَکَ  رَبَّنَا (۲:۲۸۵)، ’’مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں‘‘۔ 

غُفْرَانَکَ  رَبَّنَا سے پہلے فعل معدوم ہے، یعنی نَشْھَدُکَ  غُفْرَانَکَ  رَبَّنَا__ اے پروردگار، ہم آپ سے آپ کی مغفرت اور ہم آپ سے آپ کی بخشش طلب کرتے ہیں۔ اس کے معدوم کرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ اس میں ظاہر یہ کرنا ہے کہ دُعا مانگنے والا اس میں __کے دراصل ساتھ دُعا کررہا ہے کہ اس کو اس میں ذرا برابر بھی خیر گوارا نہیں ہے، تو فعل کو معدوم کردیا۔

وَ  اِلَیْکَ  الْمَصِیْرُ ۝۲۸۵ (۲:۲۸۵)، لوٹنا اور واپسی تیری ہی جانب ہے۔ انجام تیری ہی طرف ہے۔

لَا یُکَلِّفُ  اللہُ  نَفْسًا   اِلَّا  وُسْعٰھَا ط (۲:۲۸۶)، اللہ تعالیٰ نہیں بوجھ ڈالتا کسی جان پر، نہیں تکلیف دیتا کسی جان کو، اِلَّا  وُسْعٰھَا  مگر اس کی وسعت کی حد تک۔

یہ گویا ایک جملہ معترضہ ہے جو دُعا کے بیچ میں آگیا ہے اور اس کا محل تسلّی کا محل ہے کہ بے شک اگرچہ ذمہ داری تو بہت بھاری اور بہت بڑی ہے جو اس اُمت پر ڈالی گئی ہے لیکن اللہ تعالیٰ بس اسی حد تک کسی پر بوجھ ڈالتا ہے جس حد تک وہ اسے اُٹھانے کی قوت اور سکت رکھتا ہو۔

لَھَا  مَا کَسَبَتْ  وَعَلَیْھَا  مَا اکْتَسَبَتْ  ط (۲:۲۸۶)، ہر جان کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے کمایا ہے، یعنی جو اعمال اس نے کیے ہوں گے اسی کا انعام اس کو ملے گا۔ وَعَلیْھَا مَا  اکْتَسبَتْ ، اور جو بداعمالیاں اس نے کی ہوں گی، بس انھی پر اس کو سزا ملے گی۔ وہ دوسر ے کے اعمال کا انعام پائے گا، نہ دوسرے کے اعمال کی سزا پائے گا۔

اب یہاں سے پھر دُعا شروع ہوئی۔ بیچ میں جملہ معترضہ جو آیا تھا وہ ختم ہوا۔

رَبَّنَا  لَا تُؤَاخِذْنَآ  اِنْ  نَّسِیْنَآ  اَوْ اَخْطَاْنَا ج (۲:۲۸۶)،اے ہمارے پروردگار! تو مواخذہ نہ فرما اگر ہم بھول جائیں یا خطا کریں۔

جہاں تک بھول چوک کا تعلق ہے وہ تو بالکل واضح ہے۔ اس کو تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے۔ اَخْطَاْنَا  کا مطلب یہ ہے کہ وہ گناہ جو بلاارادہ اور بلاقصد کے سرزد ہوجائے۔ ہم اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کر رہے تھے کہ تو ہم سے ان کا مواخذہ نہ کر، یعنی یہ نہیں کہہ رہے کہ تو ان کی سزا نہ دے بلکہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ تُو ان کا مواخذہ ہی نہ فرما۔ وہ سرے سے ہمارے حساب ہی میں نہ آئے۔ اس لیے کہ جس چیز کا حساب لے لیا گیا تو اس سے تو پھر عہدہ برآ ہونا بہت مشکل ہے۔

اس لیے فرمایا گیا: رَبَّنَا  لَا تُؤَاخِذْنَآ   ، تو مواخذہ نہ فرما۔ اِنْ نَّسِیْنَآ ، اگر ہم بھول جائیں،  اَوْ اَخْطَاْنَا یا ہم خطا کربیٹھیں۔ یعنی بلاقصد و ارادہ گناہوں کا ہم سے سرزد ہوجانا۔

رَبَّنَا  وَلَا تَحْمِلْ  عَلَیْنَآ  اِصْرًا  کَمَا  حَمَلْتَہٗ  عَلَی الَّذِیْنَ  مِنْ قَبْلِنَا ج (۲:۲۸۶)، اے ہمارے پروردگار اور ہم پر نہ لاد ایسے بھاری بوجھوں کو جو تُو نے لادے اُن لوگوں پر جو ہم سے پہلے گزرے (یعنی سابقہ اُمتوں پر)۔

یعنی جو سخت احکام ان کو دیئے گئے اور کڑی شریعتیں ان کو دی گئیں ان سے تو ہم کو محفوظ رکھ۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد ِ شریعت میں یہ چیز آتی ہے کہ آپؐ کا مقصد ِ بعثت جو تھا کہ آپؐ عُسر اور اغلال کو دُور فرمائیں۔ اس عُسر اور اغلال سے یہود کی شریعت بھری ہوئی تھی۔  ان میں سے بعض تو وہ چیزیں تھیں جو اُن کی شرارتوں کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ان کے اُوپر عائد کر دی تھیں، اور بعض وہ چیزیں تھیں جو ان کی فقہی موشگافیوں کے نتیجے میں انھوں نے اَزخود اپنے اُوپر عائد کر لی تھیں۔

مثال کے طور پر جیسے سبت کے احکام تھے۔ جیسے ہمارے لیے جمعہ کا دن ہے، ایسے ہی یہود کے ہاں سبت کا دن تھا لیکن ہمارے جمعہ کے دن میں بے انتہا سہولت اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے، جب کہ ان کے ہاں سبت کے احکام بڑے سخت تھے۔ سبت کے احکام یہ تھے کہ اس دن نہ تو کسی قسم کا کاروبار ہوسکتا تھا، نہ کوئی محنت مزدوری ہوسکتی تھی، حتیٰ کہ گھر میں بھی کوئی کام کاج نہیں ہوسکتا تھا۔ کھانا تک گھر میں نہیں پکایا جاتا تھا اور غلاموں اور ملازموں تک سے کام نہیں لیا جاسکتا تھا اور یہ احکام سارے دن کے لیے تھے۔ دن کے کسی ایک حصے کے لیے نہیں۔

اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں جو جمعہ کے احکام ہیں ان کے اندر بہت سہولت رکھی گئی ہے۔ آپ جمعہ کے سارے دن میں کام بھی کرسکتے ہیں، کاروبار بھی کرسکتے ہیں، محنت مزدوری بھی کرسکتے ہیں، گھروں میں بھی سارے کام کاج کیے جاسکتے ہیں۔ حکم صرف اتنا ہے کہ:

اِذَا نُوْدِیَ  لِلصَّلٰوۃِ  مِنْ  یَّوْمِ  الْجُمُعَۃِ   فَاسْعَوْا  اِلٰی ذِکْرِ اللہِ (الجمعہ۶۲: ۹)، جب اذان ہوجائے جمعہ کی تب سب کاروبار چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ کی یاد کی طرف لوٹ آئو۔

لہٰذا وہ سارا وقت جو جمعہ کی نماز میں اور مسجدمیں صرف ہوتا ہے اس کو زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دوگھنٹے سمجھ لیا جائے تو سارے احکام ان ڈیڑھ دو گھنٹوں کے اندر آجاتے ہیں۔ باقی جمعے کا دن ہرقسم کے کاموں کے لیے کھلا ہوا ہے۔ پھر اس کے بعد یہ بھی حکم ہے کہ’’ جب نماز ختم ہوجائے تو پھیل جائو دُنیا میں اور زمین میں اور اللہ کا فضل تلاش کرو‘‘۔

اسی کے ساتھ خود قرآنِ مجید ہی میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جب سبت کی علانیہ خلاف ورزی یہود کی ایک بستی میں ہونے لگی تو خدا کے کچھ بندوں نے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور اس سے باز رکھنے کی کوشش کی اور وہ پھر بھی نہیں مانے، انھی لوگوں کو بندر اور خنزیر بنادیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت پر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے، اس کا رحم و کرم ہے کہ آج ہمارے اندر بھی بے شمار لوگ جمعہ کے احکام کی علانیہ خلاف ورزی کرتے ہیں اور جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے نہیں جاتے لیکن ان میں سے کسی کو نہ بندر بنایا جاتا ہے ، نہ خنزیر بنایا جاتا ہے۔

اسی طرح ذبیحہ کے احکام کو لے لیجیے۔ اس کے اندر بھی عسر اور اغلال کی مثال مل جاتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ ہے کہ ہرحلال جانور کا صرف خون ہی حرام ہے۔ ذبح کرنے کے بعد، شہ رگ کاٹ کے ہم اس کا خون بہا دیتے ہیں۔ اس کے بعد اس کا گوشت، اس کی چربی، ہرچیز ہمارے لیے حلال ہوتی ہے لیکن یہود کے لیے خون کے ساتھ چربی بھی حرام کردی گئی اور پھر یہ کہ انھوں نے اپنی فقہی موشگافیوں سے کچھ اور چیزوں کو بھی حرام کرلیا تھا۔ مثال کے طور پران کے ہاں حلال جانور کا بھی صرف اگلے حصے کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ پچھلے حصے کاگوشت وہ ضائع کردیتے ہیں، اس کو نہیں کھاتے۔ اسی طرح اور بہت سی مثالیں اس کی مل جاتی ہیں۔

چنانچہ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ یوں دُعا کریں:

رَبَّنَا وَلَا  تَحْمِلْ عَلَیْنَآ  اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج (۲:۲۸۶)، ہماری دُعا یہ ہے کہ اے پروردگار! ہمارے اُوپر وہ بھاری بوجھ نہ ڈال جو تُو نے ہم سے پہلے والی اُمتوں پر ڈالے۔

رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ۝۰ۚ (۲:۲۸۶) ، اور جس چیز کی ہم میں طاقت نہ ہو وہ ہم پر نہ ڈال۔یعنی وہ ذمہ داریاں یا وہ آزمایشیں ہمارے اُوپر نہ ڈالی جائیں یا ان امتحانوں میں ہم کو نہ ڈالا جائے کہ جن میں پورا اُترنا ہمیں مشکل ہو۔

وَاعْفُ عَنَّا  ۝۰۪ وَاغْفِرْ لَنَا  ۝۰۪ وَارْحَمْنَا  ۝۰  ۪  اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۝۲۸۶ۧ  (۲:۲۸۶) پروردگار، جس بار کو اُٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔

یہ آیات جس وقت نازل ہوئی تھیں یعنی ہجرت سے ایک سال پہلے۔ اس وقت مسلمانوں کے اُوپر مکّے میں عرصۂ حیات اس قدر تنگ کر دیا گیا تھا کہ بہت سے لوگ مکہ چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور ہوگئے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان آیات کے ایک سال بعد مدینے ہجرت فرماگئے۔ یہ انتہائی سختی کا وقت تھا، جب یہ دُعا اہل ایمان کو سکھائی گئی تھی اور دُعا چونکہ خود اللہ تعالیٰ ہی نے سکھائی تھی، اس لیے اس کی قبولیت میں بھی کوئی شک نہیں ہوسکتا تھا۔