سورئہ بقرہ کی آخری تین آیات ہجرت سے ایک سال پہلے معراج کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں۔ مسلم شریف کی روایت سےمعلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر تین چیزیں حضوؐ ر کو عطا ہوئی ہیں۔ ایک سورئہ بقرہ کی آخری آیات، دوسرے پانچ وقت کی فرض نمازیں، اور تیسرے یہ بات کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے جو شخص شرک سے مجتنب رہے گا، محفوظ رہے گا، اللہ تعالیٰ اس کے کبیرہ گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ ارشاد ہوا:
لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط (البقرہ ۲:۲۸۴)،اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔
’اللہ ہی کے لیے ہے‘ سے مراد یہاں اصل میں تین چیزیں ہیں:
ایک تو یہ کہ ملکیت اس کی ہے، یہ کائنات اسی نے پیدا کی ہے، اسی کی ملکیت ہے۔ دوسرے یہ کہ یہاں اختیار اور تصرف تنہا اسی کا کام ہے۔ نہ کوئی دوسرا یہاں کوئی اختیار رکھتا ہے، نہ کسی دوسرے کو یہاں تصرف کا حق اور طاقت حاصل ہے۔اور تیسری بات یہ کہ رجوع ہرامر کو آخرکار اللہ کی ہی طرف کرنا ہے۔ واپسی اسی کی جانب ہونی ہے۔ انجامِ کار اسی کے ہاتھ میں ہے۔
اسی لیے تو فرمایا: لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ،’’جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب اسی کا ہے‘‘۔ اس کے سوا اس کی ذات میں نہ کوئی اُس کا شریک ہے، نہ اس کی صفات میں کوئی اس کا شریک ہے، نہ اس کے حقوق میں کوئی اس کا ساجھی ہے، اور نہ اس کے اختیارات میں اس کا کوئی شریک ہے۔
وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللہُ ط(۲:۲۸۴) اور چاہے تم ظاہر کرو جو کچھ کہ تمھارے نفسوں میں ہے، یعنی اپنے دل کی بات کو۔ اَوْ تُخْفُوْہُ یا اس کو چھپائو، یعنی جو کچھ انسان کے دل میں ہے وہ بروئے کار آجائے۔ قول کی صورت میں یا فعل کی صورت میں، یا دل کی بات دل ہی میں رہ جائے۔
یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللہُ ط، اللہ تعالیٰ تم سے اس کا محاسبہ فرمائے گا۔
مطلب یہ ہوا کہ صرف قول و فعل اور عمل ہی کا محاسبہ نہیں ہوگا بلکہ دلوں میں چھپی ہوئی نیتوں اور دلوں میں چھپے ہوئے رازوں اور خیالات اور اسکیموں اور منصوبوں، ہرچیز کا محاسبہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ اس میں فرق صرف اتنا ہے کہ ایک چیز جو صرف وسوسے کے درجے میں رہے، اس کے اُوپر تو کوئی محاسبہ نہیں ہوگا اور اس کی کوئی سزا بھی نہیں ملے گی۔ لیکن وسوسے کے درجے سے گزر کر اگرکوئی چیز باقاعدہ خواہش کی صورت میں ڈھل جائے، آدمی ان خواہشوں کو پالتا رہے، پھر چاہے وہ رُوبہ عمل آسکیں یا نہ آسکیں، بہرحال اس کا محاسبہ ہوگا۔ یہ ایسا ہی ہے، کہ کوئی شخص فرض کیجیے کہ کسی کو قتل کردینے کے درپے رہے۔ قتل کرنا یا نہ کرنا یہ تو مشیت ِ ایزدی کے تحت ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ منصوبہ تو بناتا رہے، درپے بھی رہے لیکن وہ اس منصوبے پر عمل نہ کرپائے،تو چاہے اس نے عمل نہ کیا ہو پھر بھی اس کے اُوپر اس کا محاسبہ کیا جائے گا۔
اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ: الْقَاتِل وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ، سے اس پر روشنی پڑتی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ قاتل کا تو جہنم میں جانا بالکل واضح ہے اور سمجھ میں آتا ہے لیکن مقتول کیوں جہنم میں جائے گا؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’مقتول اس لیے جہنم میں جائے گا کہ وہ بھی تو اصل میں قاتل کو قتل ہی کرنا چاہتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ اس کو قتل کرنے کی خواہش اور کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا‘‘۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ محاسبہ صرف افعال اور اعمال اور اقوال ہی کا نہیں ہوگا بلکہ دلوں میں چھپے ہوئے منصوبوں اور خواہشوں اور اسکیموں کا بھی ہوگا۔
فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ ط ،پھر وہ جس کو چاہے گا بخش دے گا اور جس کو چاہے گا سزا دے گا۔
یہ اصل میں توحید کی آیت ہے۔
فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ ط ،یعنی معاف کرنے اور سزا دینے دونوں کا کامل اختیار اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ اس میں اس کا کوئی مزاحم نہیں۔ وہ جس کو بخش دینا چاہے تو کوئی اسے مجبور نہیں کرسکتا کہ اس کو ضرورسزا دیجیے، اور جس کو سزا دینا چاہے اس کو اللہ تعالیٰ سے کوئی چھڑا کر لے جا نہیں سکتا۔اور فائدہ اس کے بیان کا یہ ہے کہ جب اختیارِ مطلق اللہ تعالیٰ ہی کا ہے تو اُمیدیں بھی اسی سے وابستہ ہونی چاہییں اور خو ف بھی صرف اسی کا دل میں ہونا چاہیے۔ اس کے سوا نہ کسی دوسرے سے کوئی اُمید رکھی جائے اور نہ کسی دوسرے کا کوئی خوف دل میں رہے۔
وَاللہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۲۸۴ (۲:۲۸۴)، اللہ تعالیٰ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔
اٰمَنَ الرَّسُوْلَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط (۲:۲۸۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھی اہل ایمان، ایمان لے آئے اس چیز پر جو اُن پر نازل کی گئی، یعنی ہدایت جو نازل کی گئی ان کے ربّ کی جانب سے ۔
کُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰٓئِکَـتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ قف (۲:۲۸۵) اور ان میں سے ہر ایک یعنی رسولؐ اور اہل ایمان، ایمان لایا اللہ پر، وَمَلٰٓئِکَـتِہٖ اور اس کے فرشتوں پر۔ وَکُتُبِہٖ اس کی کتابوں پر ۔ وَرُسُلِہٖ اور اس کے رسولوںؑ پر۔
دراصل سورئہ بقرہ میں چونکہ ابتدا سے یہود کا ذکر ہوتا رہا ہے۔ اس کو، اگر اسی روشنی میں دیکھا جائے تو مطلب بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ یہود وہ قوم تھے کہ جن سے اللہ تعالیٰ نے نبوت اور شریعت اور امامت ِ عالم کا منصب لے کر،ان کو اس منصب سے معزول کرکے، اس منصب کو اُمت ِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کیا۔ تو یہاں اس بات کو واضح کیا گیا کہ اٰمَنَ الرَّسُوْلَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط ، یعنی جو ہدایت بھی ان کے ربّ کی جانب سے نازل ہوئی ہے، اس کے اُوپر ایمان لے آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی۔
کُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰٓئِکَـتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ قف ،ان میں سے ہر ایک ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر۔ اللہ پر ایمان اگرچہ اہل کتاب بھی رکھتے تھے لیکن یہ ایمان ان کا خانہ ساز ایمان تھا۔ یہ ان تقاضوں کے مطابق نہیں تھا جن کے مطابق ایمان کو ہونا چاہیے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات میں اور اس کی صفات میں، دونوں میں نہ صرف یہ کہ شرک کو داخل کردیا تھا بلکہ اپنے من گھڑت نظریات کو بھی اس میں داخل کردیا تھا۔
ملائکہ پر ایمان کی اہمیت ہے ، جیساکہ دوسری جگہ قرآنِ مجید میں آیا بھی ہے کہ:
مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجَبْرِیْلَ(البقرہ ۲:۹۷)، یعنی یہودی، حضرت جبرئیلؑ کو اپنا دشمن فرشتہ سمجھتے تھے اور اسی حیثیت سے وہ ان کو دیکھتے تھے، تو یہاں ملائکہ کا ذکر کیا گیا کہ ہم تمام ملائکہ کے اُوپر ایمان لائے۔
وَکُتُبِہٖ ، اور اس کی کتابوں پر۔ یہاں بھی اصل میں یہود ہی کی تردید کرنی مقصود ہے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ ہم تو صرف انھی کتابوں کے اُوپر ایمان لانے کے پابند ہیں کہ جو بنی اسرائیل پر نازل ہوئیں۔ جو کتابیںکہ بنی اسرائیل پر نازل نہیں ہوئی ہیں، ان کے اُوپر ہم ایمان لانے کے پابند نہیں ہیں۔
وَرُسُلِہٖ ، اور اس کے رسولوں ؑ پر ایمان۔یہ بھی اصل میں یہود ہی کی تردید میں کہا گیا ہے۔ اس لیے کہ یہود کا یہ کہنا تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اچھی طرح اس بات کو پہچان گئے تھے اور سمجھ گئے تھے کہ یہ وہی آخری نبیؐ ہیں جن کی پیش گوئیاں ہماری کتب ِ مقدسہ میں موجود ہیں اور جن کے بارے میں ہمارے انبیاؑ نے ہم کو اطلاع بھی دی تھی اور ہمیں ان پر ایمان لانے کی وصیت اور نصیحت بھی کی تھی، لیکن صرف ضد اور تعصب میں مبتلا ہوکر انھوں نے یہ کہہ کر حضورؐ پر ایمان لانے سے انکار کردیا تھا کہ ہم تو صرف بنی اسرائیلی انبیاؑ پر ہی ایمان لانے کے پابند ہیں۔
مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ: لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ قف (۲:۲۸۵)، ہم اللہ کے رسولوں ؑ میں سے کسی میں بھی کوئی تفریق نہیں کرتے۔ ہم تو اِن رسولوںؑ پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں اور ان رسولوںؑ پر بھی ایمان لاتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں کچھ علم نہیں، خواہ وہ اسرائیلی انبیاؑ ہوں یا غیراسرائیلی انبیاؑ ہوں۔ کسی قوم میں آئے ہوں، یا کسی ملک میں، اگر وہ اللہ کے رسولؑ ہیں تو ہم ان کے اُوپر ایمان لاتے ہیں۔
وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۰ۤۡ (۲:۲۸۵)، یہاں گویا اہل ایمان کی زبان سے یہ کہلوایا گیا کہ تم سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاکہو۔ یہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا بھی اصل میں یہود کے سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا کے جواب میں ہے۔ ان سے جو نعمت چھین لی گئی تھی نبوت کی اور کتاب کی، اور شریعت کی اور امامت ِ عالم کی۔ اس کا سبب یہی تھا کہ انھوں نے ہمیشہ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا کہا بھی اور اس کے اُوپر عمل بھی کیا۔ ہمیں یہ نصیحت کی گئی کہ اب، جب کہ ان سے یہ نعمتیں لے کر تم کو دی گئی ہیں، کہیں تم ان کی راہ پر نہ چلنا اور ان کی پیروی نہ کرنا۔تمھارا قول اور عمل دونوں سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا پر ہوں۔ اور فرمایا کہ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ، وہ کہتےہیں کہ ہم نے سنا، وَاَطَعْنَا ، اور مانا ، اطاعت کی۔
غُفْرَانَکَ رَبَّنَا (۲:۲۸۵)، ’’مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں‘‘۔
غُفْرَانَکَ رَبَّنَا سے پہلے فعل معدوم ہے، یعنی نَشْھَدُکَ غُفْرَانَکَ رَبَّنَا__ اے پروردگار، ہم آپ سے آپ کی مغفرت اور ہم آپ سے آپ کی بخشش طلب کرتے ہیں۔ اس کے معدوم کرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ اس میں ظاہر یہ کرنا ہے کہ دُعا مانگنے والا اس میں __کے دراصل ساتھ دُعا کررہا ہے کہ اس کو اس میں ذرا برابر بھی خیر گوارا نہیں ہے، تو فعل کو معدوم کردیا۔
وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ۲۸۵ (۲:۲۸۵)، لوٹنا اور واپسی تیری ہی جانب ہے۔ انجام تیری ہی طرف ہے۔
لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعٰھَا ط (۲:۲۸۶)، اللہ تعالیٰ نہیں بوجھ ڈالتا کسی جان پر، نہیں تکلیف دیتا کسی جان کو، اِلَّا وُسْعٰھَا مگر اس کی وسعت کی حد تک۔
یہ گویا ایک جملہ معترضہ ہے جو دُعا کے بیچ میں آگیا ہے اور اس کا محل تسلّی کا محل ہے کہ بے شک اگرچہ ذمہ داری تو بہت بھاری اور بہت بڑی ہے جو اس اُمت پر ڈالی گئی ہے لیکن اللہ تعالیٰ بس اسی حد تک کسی پر بوجھ ڈالتا ہے جس حد تک وہ اسے اُٹھانے کی قوت اور سکت رکھتا ہو۔
لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ ط (۲:۲۸۶)، ہر جان کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے کمایا ہے، یعنی جو اعمال اس نے کیے ہوں گے اسی کا انعام اس کو ملے گا۔ وَعَلیْھَا مَا اکْتَسبَتْ ، اور جو بداعمالیاں اس نے کی ہوں گی، بس انھی پر اس کو سزا ملے گی۔ وہ دوسر ے کے اعمال کا انعام پائے گا، نہ دوسرے کے اعمال کی سزا پائے گا۔
اب یہاں سے پھر دُعا شروع ہوئی۔ بیچ میں جملہ معترضہ جو آیا تھا وہ ختم ہوا۔
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا ج (۲:۲۸۶)،اے ہمارے پروردگار! تو مواخذہ نہ فرما اگر ہم بھول جائیں یا خطا کریں۔
جہاں تک بھول چوک کا تعلق ہے وہ تو بالکل واضح ہے۔ اس کو تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے۔ اَخْطَاْنَا کا مطلب یہ ہے کہ وہ گناہ جو بلاارادہ اور بلاقصد کے سرزد ہوجائے۔ ہم اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کر رہے تھے کہ تو ہم سے ان کا مواخذہ نہ کر، یعنی یہ نہیں کہہ رہے کہ تو ان کی سزا نہ دے بلکہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ تُو ان کا مواخذہ ہی نہ فرما۔ وہ سرے سے ہمارے حساب ہی میں نہ آئے۔ اس لیے کہ جس چیز کا حساب لے لیا گیا تو اس سے تو پھر عہدہ برآ ہونا بہت مشکل ہے۔
اس لیے فرمایا گیا: رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ ، تو مواخذہ نہ فرما۔ اِنْ نَّسِیْنَآ ، اگر ہم بھول جائیں، اَوْ اَخْطَاْنَا یا ہم خطا کربیٹھیں۔ یعنی بلاقصد و ارادہ گناہوں کا ہم سے سرزد ہوجانا۔
رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج (۲:۲۸۶)، اے ہمارے پروردگار اور ہم پر نہ لاد ایسے بھاری بوجھوں کو جو تُو نے لادے اُن لوگوں پر جو ہم سے پہلے گزرے (یعنی سابقہ اُمتوں پر)۔
یعنی جو سخت احکام ان کو دیئے گئے اور کڑی شریعتیں ان کو دی گئیں ان سے تو ہم کو محفوظ رکھ۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد ِ شریعت میں یہ چیز آتی ہے کہ آپؐ کا مقصد ِ بعثت جو تھا کہ آپؐ عُسر اور اغلال کو دُور فرمائیں۔ اس عُسر اور اغلال سے یہود کی شریعت بھری ہوئی تھی۔ ان میں سے بعض تو وہ چیزیں تھیں جو اُن کی شرارتوں کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ان کے اُوپر عائد کر دی تھیں، اور بعض وہ چیزیں تھیں جو ان کی فقہی موشگافیوں کے نتیجے میں انھوں نے اَزخود اپنے اُوپر عائد کر لی تھیں۔
مثال کے طور پر جیسے سبت کے احکام تھے۔ جیسے ہمارے لیے جمعہ کا دن ہے، ایسے ہی یہود کے ہاں سبت کا دن تھا لیکن ہمارے جمعہ کے دن میں بے انتہا سہولت اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے، جب کہ ان کے ہاں سبت کے احکام بڑے سخت تھے۔ سبت کے احکام یہ تھے کہ اس دن نہ تو کسی قسم کا کاروبار ہوسکتا تھا، نہ کوئی محنت مزدوری ہوسکتی تھی، حتیٰ کہ گھر میں بھی کوئی کام کاج نہیں ہوسکتا تھا۔ کھانا تک گھر میں نہیں پکایا جاتا تھا اور غلاموں اور ملازموں تک سے کام نہیں لیا جاسکتا تھا اور یہ احکام سارے دن کے لیے تھے۔ دن کے کسی ایک حصے کے لیے نہیں۔
اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں جو جمعہ کے احکام ہیں ان کے اندر بہت سہولت رکھی گئی ہے۔ آپ جمعہ کے سارے دن میں کام بھی کرسکتے ہیں، کاروبار بھی کرسکتے ہیں، محنت مزدوری بھی کرسکتے ہیں، گھروں میں بھی سارے کام کاج کیے جاسکتے ہیں۔ حکم صرف اتنا ہے کہ:
اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللہِ (الجمعہ۶۲: ۹)، جب اذان ہوجائے جمعہ کی تب سب کاروبار چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ کی یاد کی طرف لوٹ آئو۔
لہٰذا وہ سارا وقت جو جمعہ کی نماز میں اور مسجدمیں صرف ہوتا ہے اس کو زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دوگھنٹے سمجھ لیا جائے تو سارے احکام ان ڈیڑھ دو گھنٹوں کے اندر آجاتے ہیں۔ باقی جمعے کا دن ہرقسم کے کاموں کے لیے کھلا ہوا ہے۔ پھر اس کے بعد یہ بھی حکم ہے کہ’’ جب نماز ختم ہوجائے تو پھیل جائو دُنیا میں اور زمین میں اور اللہ کا فضل تلاش کرو‘‘۔
اسی کے ساتھ خود قرآنِ مجید ہی میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جب سبت کی علانیہ خلاف ورزی یہود کی ایک بستی میں ہونے لگی تو خدا کے کچھ بندوں نے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور اس سے باز رکھنے کی کوشش کی اور وہ پھر بھی نہیں مانے، انھی لوگوں کو بندر اور خنزیر بنادیا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت پر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے، اس کا رحم و کرم ہے کہ آج ہمارے اندر بھی بے شمار لوگ جمعہ کے احکام کی علانیہ خلاف ورزی کرتے ہیں اور جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے نہیں جاتے لیکن ان میں سے کسی کو نہ بندر بنایا جاتا ہے ، نہ خنزیر بنایا جاتا ہے۔
اسی طرح ذبیحہ کے احکام کو لے لیجیے۔ اس کے اندر بھی عسر اور اغلال کی مثال مل جاتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ ہے کہ ہرحلال جانور کا صرف خون ہی حرام ہے۔ ذبح کرنے کے بعد، شہ رگ کاٹ کے ہم اس کا خون بہا دیتے ہیں۔ اس کے بعد اس کا گوشت، اس کی چربی، ہرچیز ہمارے لیے حلال ہوتی ہے لیکن یہود کے لیے خون کے ساتھ چربی بھی حرام کردی گئی اور پھر یہ کہ انھوں نے اپنی فقہی موشگافیوں سے کچھ اور چیزوں کو بھی حرام کرلیا تھا۔ مثال کے طور پران کے ہاں حلال جانور کا بھی صرف اگلے حصے کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ پچھلے حصے کاگوشت وہ ضائع کردیتے ہیں، اس کو نہیں کھاتے۔ اسی طرح اور بہت سی مثالیں اس کی مل جاتی ہیں۔
چنانچہ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ یوں دُعا کریں:
رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج (۲:۲۸۶)، ہماری دُعا یہ ہے کہ اے پروردگار! ہمارے اُوپر وہ بھاری بوجھ نہ ڈال جو تُو نے ہم سے پہلے والی اُمتوں پر ڈالے۔
رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ۰ۚ (۲:۲۸۶) ، اور جس چیز کی ہم میں طاقت نہ ہو وہ ہم پر نہ ڈال۔یعنی وہ ذمہ داریاں یا وہ آزمایشیں ہمارے اُوپر نہ ڈالی جائیں یا ان امتحانوں میں ہم کو نہ ڈالا جائے کہ جن میں پورا اُترنا ہمیں مشکل ہو۔
وَاعْفُ عَنَّا ۰۪ وَاغْفِرْ لَنَا ۰۪ وَارْحَمْنَا ۰ ۪ اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ۲۸۶ۧ (۲:۲۸۶) پروردگار، جس بار کو اُٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔
یہ آیات جس وقت نازل ہوئی تھیں یعنی ہجرت سے ایک سال پہلے۔ اس وقت مسلمانوں کے اُوپر مکّے میں عرصۂ حیات اس قدر تنگ کر دیا گیا تھا کہ بہت سے لوگ مکہ چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور ہوگئے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان آیات کے ایک سال بعد مدینے ہجرت فرماگئے۔ یہ انتہائی سختی کا وقت تھا، جب یہ دُعا اہل ایمان کو سکھائی گئی تھی اور دُعا چونکہ خود اللہ تعالیٰ ہی نے سکھائی تھی، اس لیے اس کی قبولیت میں بھی کوئی شک نہیں ہوسکتا تھا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دَور میں احیاے نظامِ اسلامی کے سلسلے میں جو کچھ کیا گیا‘ اس کا جائزہ لینے سے پہلے مناسب ہوگا کہ ایک مختصر سی طائرانہ نظر اُن سے ماقبل کے دَور پر ڈال لی جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آخر ان کے دَور میں نظامِ اسلامی کے احیا کا سوال ہی کیوں پیدا ہوا اور مؤرخین نے ان کے دور کو تجدید و اصلاح کے دَور کی حیثیت سے کیوں دیکھا اور خود ان کو ایک مجدّد اورمصلح کا مقام و مرتبہ کیوں دیا---؟
تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کے اختتام نے جو حالات پیدا کر دیے تھے ان کے نتیجے میں وہ قدیم جاہلی رجحانات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور خلافت ِ راشدہ کے اثر سے دب گئے تھے‘ نیم تربیت یافتہ مسلمانوں اور نوخیز عربی نسل میں پوری طرح اُبھر آئے۔ حکومت کا محور جس پر اُس کا نظام گردش کرتا تھا‘ کتاب و سنت نہ رہا بلکہ عربی سیاست اور مصالح ملکی بن گیا۔ تفاخر اور عربی عصبیت کی روح جس کو اسلام نے بالکل مضمحل کر دیا تھا‘ دوبارہ تندرست و توانا ہوکر مسلم معاشرے میں در آئی۔ قبائلی غرور اور خاندانی عصبیت جو خلفاے راشدین کے زمانے میں سخت عیب اور معصیت سمجھی جاتی تھی‘ ایک خوبی کے طور پر معاشرے میں پوری طرح رچ بس گئی۔ بیت المال ذاتی ملکیت اور خاندانی جاگیر بن گیا۔ عدالتوں میں امیر اور غریب اور صاحب ِاقتدار اور بے کس میں امتیاز برتا جانے لگا۔ خلافت کا مزاج اس لحاظ سے تو بدلا ہی تھا کہ وہ جمہور کی آزاد مرضی سے منعقد ہونے کے بجاے خاندانی میراث کے طور پر باپ سے بیٹے کو منتقل ہونے لگی‘ لیکن اس کے ساتھ ہی بلکہ اس کے لازمی نتیجے کے طور پر حکمران عوام سے دُور ہوتے چلے گئے۔ عوام کے لیے آزادی کے ساتھ اپنے حکمرانوں کی خدمت میں پہنچ کر اپنی شکایات پیش کرنا ناممکن ہوگیا۔ ظلم اور جبر کا چلن عام ہو گیا‘ بات بات پر واں زبان کٹنے لگی۔ پیشہ ور شعرا‘ خوشامدی درباریوں اور آبروباختہ مصاحبین کا ایک طبقہ پیدا ہوگیا جس پر مسلمانوں کی دولت بے دریغ صرف ہوتی تھی اور ان کی بدعنوانیوں سے چشم پوشی کی جاتی تھی۔ گانا سننے کا ذوق اور موسیقی میں انہماک حد کو پہنچ گیا تھا۔ الغرض ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے زخم خوردہ جاہلیت اپنے فاتح حریف سے انتقام لینے پر تلی ہوئی ہے اور ۴۰ برس کا حساب چند روز میں چکانا چاہتی ہے۔
ان حالات میں صَفر ۹۹ھ میں سلیمان بن عبدالملک کا انتقال ہوتا ہے اور اس کی وصیت کے نتیجے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز سریر آراے خلافت ہوتے ہیں۔ آپ مصر کے گورنر عبدالعزیز بن مروان کے بیٹے اور مروانی خاندان کی سلطنت کے معمار اول عبدالملک بن مروان کے بھتیجے اورداماد تھے اور خود ایک عرصے تک مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ کے گورنر رہ چکے تھے۔ آپ کی زندگی بڑے ٹھاٹ باٹ اور آن بان کی زندگی تھی۔ اچھا کھاتے تھے‘ اچھا پہنتے تھے اور نازونعمت میں رہتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی آپ عمر بن خطابؓ کے نواسے بھی تھے۔ بچپن میں آپ نے مدینہ منورہ کی پاک فضا میں حضرت عبداللہ بن عمرؓکے دامنِ فیض میں تربیت پائی تھی اور اپنے وقت کے امام صالح بن کیسان سے حدیث اور تفسیر کا علم حاصل کیا تھا۔ یہ چیزیں اثر کیے بغیر نہ رہ سکیں اور خلافت ملتے ہی آپ کی زندگی میں عظیم الشان تغیر واقع ہوا۔
سلیمان بن عبدالملک کی تجہیز و تکفین کے بعد جب آپ کے سامنے شاہی سواری پیش کی گئی تو آپ نے اسے واپس کر دیا اور فرمایا: ’’میرے لیے میرا خچر کافی ہے‘‘۔ اس کے بعد شہر کا کوتوال نیزہ لے کر آپ کے آگے آگے چلنے لگا‘ تو آپ نے اسے بھی روک دیا اور کہا: ’’میں بھی تمام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں‘‘۔
گھر پہنچے تو فکر اور تردّد سے چہرے کا رنگ اُڑا ہوا تھا۔ اہلیہ محترمہ نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو فرمایا: ’’اس سے بڑھ کر فکروتشویش کی بات کیا ہوگی کہ مشرق و مغرب میں اُمت محمدیہؐ کا کوئی فرد ایسا نہیں ہے جس کا مجھ پر حق نہ ہو اور بغیر مطالبے اور اطلاع کے اس کا ادا کرنا مجھ پر فرض نہ ہو‘‘۔
لوگو! میری خواہش اور عام مسلمانوں کی رائے لیے بغیر مجھے خلافت کی ذمہ داریوں میں مبتلا کیا گیا ہے۔ اس لیے میری بیعت کا جو طوق تمھاری گردن میں ہے‘ میں خود اُسے اُتارے دیتا ہوں۔ تم جسے چاہو اپنا خلیفہ منتخب کرو۔
لوگ جانتے تھے کہ تمام بنی اُمیہ میں آپ سب سے بہتر آدمی ہیں۔ اس لیے وہ بہ یک آواز بول اُٹھے: ’’ہم سب آپ کی خلافت سے راضی ہیں۔ آپ اللہ کا نام لے کر کام شروع کردیجیے‘‘۔
امابعد۔ تمھارے نبیؐ کے بعددوسرا نبی آنے والا نہیں ہے‘ اور اللہ نے اس پر جو کتاب اُتاری ہے اس کے بعد دوسری کتاب آنے والی نہیں ہے۔ اللہ نے جو چیز حلال کر دی وہ قیامت تک کے لیے حلال ہے اور جو حرام کر دی وہ قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ میں اپنی جانب سے کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں بلکہ صرف احکامِ الٰہی کو نافذ کرنے والا ہوں۔ خود اپنی طرف سے کوئی نئی بات پیدا کرنے والا نہیں ہوں بلکہ محض پیرو ہوں۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں اس کی اطاعت کی جائے۔ میں تم میں کا کوئی ممتاز آدمی بھی نہیں ہوں بلکہ معمولی فرد ہوں۔ البتہ تمھارے مقابلے میں اللہ نے مجھے زیادہ گراں بار کیا ہے۔
غور کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒنے اپنے اس خطاب میں دستوری نوعیت کے نکات بھی پیش کیے ہیں‘ حکومت کی حدود بھی قائم کی ہیں اور حکمران کی حیثیت کا تعین بھی کیا ہے اور یہ فرما کر کہ ’’میں فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں بلکہ فیصلوں کو نافذ کرنے والا ہوں اور میں اپنی طرف سے کوئی نئی بات پیدا کرنے والا نہیں ہوں بلکہ محض پیرو ہوں‘‘--- حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ان مختصر سے فقروں میں خلیفہ کی آئینی حیثیت کی وضاحت کر دی‘ یعنی خلیفہ ایک انتظامی سربراہ ہے‘ مطلق العنان حکمران نہیں۔ فیصلے کرنا شوریٰ کا کام ہے۔ خلیفہ کا کام شوریٰ کے فیصلوں کا نفاذ ہے اور وہ شریعت میں کسی کمی بیشی یا کتربیونت کا حق نہیں رکھتا۔ اس کا کام یہ ہے کہ جو قانون اسے جس حال میں ملا ہے وہ اس کی سیدھی سیدھی پیروی کرتا رہے۔ یہاں ضمنی طور پر یہ تذکرہ کر دینا بھی ضروری ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے تقسیم اختیارت کا جو اصول بیان فرمایا ہے اس کو آپ نے اپنے زمانۂ خلافت میں عملاً جاری بھی کیا تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ازالۃ الخفاء میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ہر صوبے میں مستقلاً اپنی طرف سے تین نمایندے بھیجتے تھے۔ ایک والی‘ دوسرا قاضی اور تیسرا افسرخزانہ۔ حضرت شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ یہ تینوں عہدے کسی ایک کے ماتحت نہیں ہوتے تھے بلکہ ہر ایک براہِ راست خلیفہ کے سامنے جواب دہ تھا۔
اس کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے سلطنت کے ہر شعبے میں کانٹ چھانٹ اور تراش خراش کا عمل شروع کر دیا۔ سب سے مقدم فرض رعایا کے کمزور اور زیردستوں کے اس مال و جایداد کی واپسی تھی جسے شاہی خاندان کے ارکان‘ اموی گورنروں‘ امرا اور وزرا نے طاقت کا سہارا لے کر غصب کر لیا تھا۔ یہ ایسا نازک کام تھا جس کو ہاتھ لگانا سارے شاہی خاندان کی دشمنی مول لینا تھا۔ لیکن آپ نے پوری بے خوفی کے ساتھ اہل خاندان کو جمع کر کے فرمایا:
بنی مروان! تم کو شرف اور دولت کا بڑا حصہ ملا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اُمت کا نصف یا دو تہائی مال تمھارے قبضے میں ہے۔
ان لوگوں نے جواب دیا کہ ’’اللہ کی قسم! جب تک ہمارے سر تن سے جدا نہ ہو جائیں اس وقت تک یہ جایدادیں واپس نہیں ہو سکتیں‘ نہ ہم اپنے آباواجداد کو کافر بنا سکتے ہیں اور نہ اپنی اولاد کو مفلس بنائیں گے‘‘۔
اللہ کی قسم! اگر اس حق میں تم میری مدد نہ کرو گے تو میں تم کو ذلیل اور رسوا کر کے چھوڑوں گا۔
ان لوگوں (یعنی اموی خلفا) نے ہم ارکانِ خاندان کو ایسی جاگیریں اور عطیے دیے جن کے دینے کا ان کو کوئی حق نہ تھا اور نہ ہمیں ان کے لینے کا کوئی حق تھا۔ اب میں ان سب کو ان کے اصلی حق داروں کو واپس کرتا ہوں اور اس کی ابتدا اپنی ذات اور اپنے خاندان سے کرتا ہوں۔
اس تقریر کے بعد آپ نے جاگیروں کی اسناد کا رجسٹر منگوایا۔ آپ کا سیکرٹری اسناد پڑھتا جاتا تھا اور آپ انھیں قینچی سے کاٹ کاٹ کر پھینکتے جاتے تھے۔ صبح سے لے کر ظہر کی نماز تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آپ نے اپنی اور اپنے خاندان کی تمام ناجائز منقولہ اور غیر منقولہ املاک واپس کر دی۔ حتیٰ کہ اپنے پاس ایک نگینہ تک نہ رہنے دیا۔ آپ کی بیوی فاطمہ کو ان کے باپ عبدالملک نے ایک قیمتی ہیرا دیا تھا۔ آپ نے ان سے کہا کہ یا تو اسے بیت المال میں داخل کر دو یا مجھے چھوڑنے کے لیے تیار ہو جائو۔ چنانچہ وہ ہیرا اسی وقت بیت المال میں داخل کر دیا گیا۔ انھی جاگیروں میں فدک کا علاقہ بھی تھا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے بیت المال کی مِلک قرار دے دیا تھا اور حضرت فاطمہؓ کو بھی نہیں دیا تھا۔ اس فدک کے علاقے کو مروان نے اپنی جاگیر بنا لیا تھا۔ مروان کی موت کے بعد وہ وراثتاً منتقل ہوتا ہوا حضرت عمر بن عبدالعزیزؒکے حصے میں آیا۔ لیکن جب آپ نے اپنی اور اپنے خاندان کی جاگیریں واپس کیں تو اسے بھی واپس کر دیا اور بنی مروان سے فرمایا کہ ’’فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص تھاجس کی آمدنی آپؐ اپنی اور بنی ہاشم کی ضروریات پرصرف فرماتے تھے۔ فاطمہؓ نے اسے آپؐ سے مانگا تھا لیکن انھوں نے نہیں دیا۔ پھر مروان نے اسے اپنی جاگیر بنا لیا اور اس طرح وہ وراثتاً میرے قبضے میں آیا۔ لیکن جو چیز رسولؐ اللہ نے فاطمہؓ کو نہیں دی اس پر میرا کوئی حق نہیں ہو سکتا۔ اس لیے میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ فدک کی جو صورت رسولؐ اللہ کے زمانے میں تھی‘ میں اس کو اسی حالت پر لوٹاتا ہوں‘‘۔
اپنی اور اپنے خاندان کی جاگیروں کو واپس کرنے کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ عام غصب شدہ اموال کی واپسی کی طرف متوجہ ہوئے اور گورنروں کے پاس تاکیدی احکام بھیج کر تمام ممالک محروسہ (وہ ممالک جو کسی بادشاہ کے تابع ہوں) کے غصب شدہ مال و املاک کو واپس کرایا۔ عراق میں اس کثرت سے مال حق داروں کو واپس کیا گیا کہ وہاںکا خزانہ خالی ہوگیا اور آپ کو عراق کی حکومت کے اخراجات کے لیے مرکز سے روپیہ بھیجنا پڑا۔ ملکیت کے ثبوت کے لیے بھی آپ نے بڑی سہولت رکھی تھی۔ معمولی شہادت پر مال واپس مل جاتا تھا‘اور جولوگ مرچکے تھے ان کے ورثا کو ملتا تھا۔ یہ سلسلہ آپ کی وفات تک برابر جاری رہا۔
اموی حکمرانوں نے بیت المال کو ذاتی خزانہ بنا لیا تھا۔ اس کی آمدوخرچ میں جائز و ناجائز کی کوئی تمیز نہیں برتی جاتی تھی۔ بیت المال کا بڑا حصہ ان کے ذاتی تعیشات پر صرف ہوتا تھا۔ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے تمام ناجائز مصارف یک قلم بند کردیے۔ اموی امیرزادوں اورشہزادوں کو جو وظائف ملتے تھے‘ سب روک دیے۔ ایک ایسے ہی وظیفہ خوار عینیہ ابن سعد نے آپ سے شکایت کی کہ امیرالمومنین آپ پر ہم لوگوں کا بھی حق ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ ’’میرے ذاتی مال میں تمھارا حق ہو سکتا ہے مگر اس میں اتنی گنجایش نہیں اور بیت المال میں تمھارا حق اس سے زیادہ نہیں ہے جتنا برک غماد کے آخری حدود میں رہنے والے کا۔ بخدا اگر ساری دنیا تم لوگوں کی ہم رائے ہو جائے تو ان پر اللہ کا عذاب نازل ہو‘‘۔
غرض آپ نے خاندان کے سارے وظائف بند کر دیے۔ شاہی شان و شوکت کے تمام سامان ختم کر دیے۔ جب شاہی اصطبل کے داروغہ نے آپ سے اصطبل کے اخراجات مانگے تو آپ نے حکم دیا کہ تمام سواریوں کو بیچ کر ان کی قیمت بیت المال میں داخل کر دی جائے۔ میرے لیے میرا خچر کافی ہے۔ آپ نے خود اپنا تمام ذاتی سامان بیچ کر قیمت بیت المال میں داخل کر دی۔
عبدالملک اور ولید کے زمانے میں حجاج بن یوسف بیت المال کی آمدنی بڑھانے کے لیے نومسلموں سے بھی جزیہ وصول کرتا تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے یہ سلسلہ بالکل بند کر دیا اور ایک عام حکم جاری کر دیا کہ جو لوگ مسلمان ہو جائیں ان کا جزیہ چھوڑ دیا جائے۔ اس پر صرف مصر میں اتنے آدمی مسلمان ہوئے کہ مصر کے گورنر نے آپ کو لکھا کہ آپ کے اس حکم کی وجہ سے اس کثرت سے لوگ مسلمان ہوئے ہیں کہ آمدنی گھٹ گئی ہے اور مجھے قرض لے کر تنخواہیں اداکرنی پڑی ہیں۔ آپ نے اسے لکھا کہ (مسلمان ہونے والوں پر سے) جزیہ بہرحال موقوف کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہادی بناکر بھیجے گئے تھے نہ کہ تحصیل دار۔
اس کے ساتھ ہی آپ نے تمام ناجائز ٹیکس‘ خراج اور چنگیاں بند کر دیں۔ آپ نے دفتری اخراجات میں بھی تخفیف کر دی۔ تمام عمال کو ہدایت بھیجی کہ ’’قلم باریک کر دو اور گٹھا ہوا لکھو اور ایک ہی پرچے پر بہت سی ضرورتیں لکھ دیا کرو‘ اس لیے کہ مسلمانوں کو ایسی لمبی چوڑی بات کی ضرورت نہیں جس سے خواہ مخواہ بیت المال پر بار پڑے‘‘۔
آپ نے عوام کی دیکھ بھال کی طرف توجہ کی۔ ملک میں جتنے مجبور اور معذور اشخاص تھے ان سب کے نام رجسٹروں میں درج کر کے ان کے وظیفے مقرر کر دیے۔ اس سلسلے میں کسی عامل سے اگر ذرا سی غفلت بھی ہوتی تھی تو سخت تنبیہ فرماتے تھے۔ ان کے قرضوں کی ادایگی کے لیے ایک مستقل مد قائم کی۔ شیرخوار بچوں کے لیے وظائف مقرر کیے۔ ایک عام لنگرخانہ قائم کیا جس سے فقرا اور مساکین کوپکا پکایا کھانا مل جاتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک شخص کو آپ نے غربا میں صدقات تقسیم کرنے کے لیے کچھ بھیجنا چاہا۔ اس نے عذر کیا کہ میں ناواقفیت کی وجہ سے وہاں کے امیر و غریب میں تمیز نہیں کر سکتا۔ فرمایا: ’’جو تمھارے سامنے ہاتھ پھیلائے اسے دینا‘‘۔
ناجائزآمدنیوں کے سدِّباب‘ لوٹ مار اور رشوت کے انسداد اور صدقات و خیرات کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام آسودہ حال ہوگئے۔ افلاس اور غربت کا خاتمہ ہوگیا۔ حتیٰ کہ صدقہ قبول کرنے والے نہ ملتے تھے۔
اس کے ساتھ ہی آپ نے ظالم‘ راشی اور بدعنوان عہدہ داروں کی طرف توجہ فرمائی۔ حجاج بن یوسف کے پورے خاندان کو جو سب سے زیادہ ظالم تھا‘ یمن میں بھیج دیا اور وہاں کے گورنر کو لکھا کہ میں تمھارے پاس آلِ عقیل کو بھیج رہا ہوں جو عرب میں بدترین خاندان ہے۔ ان کو اپنے حدودِ حکومت میں منتشر کر دو۔ ایک گورنر عبدالحمید کو لکھا کہ وسوسۂ شیطانی اور حکومت کے ظلم و ستم کے بعد انسان کی بقا نہیں ہوسکتی۔ اس لیے میرا خط ملتے ہی ہر حق دار کو اس کا حق ادا کرو۔
اموی خلفا کے زمانے میں ذرا ذرا سی بدگمانی پر سنگین سزائیں دے ڈالنا ایک معمولی بات تھی۔ آپ نے یہ طریقہ بالکل بند کر دیا۔ موصل میں چوری وغیرہ کی وارداتیں زیادہ ہوتی تھیں۔ وہاں کے گورنر نے لکھا کہ ’’جب تک لوگوں کو شبہے میں نہ پکڑا جائے اورسزا نہ دی جائے‘ اس وقت تک یہ وارداتیں بند نہیں ہو سکتیں‘‘۔ آپ نے جواب میں لکھا کہ ’’صرف شرعی ثبوت پر مواخذہ کرو۔ اگر حق ان کی اصلاح نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح نہ کرے‘‘۔
خراسان کے گورنر نے لکھا کہ اہل خراسان کی روش نہایت خراب ہے۔ ان کو کوڑے اور تلوار کے سوا کوئی چیز درست نہیں کر سکتی۔ اگرامیرالمومنین مناسب سمجھیں تو اس کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ آپ نے گورنر کو جواب میں لکھا کہ ’’تمھارا یہ کہنا کہ اہل خراسان کوکوڑے اور تلوار کے سوا کوئی اور چیز درست نہیں کر سکتی‘ بالکل غلط ہے۔ ان کو عدل اور حق درست کر سکتے ہیں۔ انھی کو جہاں تک ہوسکے عام کرو‘‘۔
ظلم کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ عمال اشیا کے نرخ گھٹا کر کم قیمت پر خرید لیا کرتے تھے۔ آپ نے قانون بنا دیا کہ کوئی عامل کسی شخص کا مال کم قیمت پر نہیں خرید سکتا۔
کسی حکمران کے عدل و انصاف اور ظلم و جور کے جانچنے کا سب سے بڑا معیار یہ ہے کہ وہ اپنی ماتحت اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ اس لحاظ سے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا دَور بہترین دَور تھا۔ آپ نے اپنے گورنروں کو حکم دے رکھا تھا کہ ’’ذمیوں کے ساتھ نرمی برتو اور ان میں جو بوڑھا اور نادار ہو جائے اس کی کفالت کا انتظام کرو۔ اگر اس کا کوئی صاحب ِ حیثیت رشتہ دار ہو تو اسے اس کی کفالت کا حکم دو--- ورنہ بیت المال سے انتظام کرو‘‘۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے جس طرح حکومت کا سیاسی ڈھانچہ بدلا اور اس کے ہر شعبے میں اصلاحات کیں‘ اسی طرح خالص دینی امور کی طرف بھی توجہ کی۔
اموی دَور میں اس وقت تک خلیفہ صرف حاکم و بادشاہ ہوتا تھا۔ اس کو لوگوں کے اعمال و اخلاق کی طرف توجہ کرنے کی نہ فرصت ہوتی تھی نہ اہلیت۔ نہ اس کا یہ منصب سمجھا جاتا تھا کہ وہ لوگوں کو دینی مشورے دے‘ ان کے اخلاق و رجحانات کی نگرانی کرے اور وعظ و نصیحت کا منصب اختیار کرے۔ یہ کام علما اور محدثین کا سمجھا جاتا تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اس دُوئی کو مٹایا اور انھوں نے زمامِ خلافت ہاتھ میں لیتے ہی سول حکام اور فوجی افسروں کو مفصل خطوط اور فرمان لکھے جو انتظامی سے زیادہ دینی اور اخلاقی نوعیت کے ہوتے تھے اور ان میں حکومت کی روح سے زیادہ مشورہ اور نصیحت کی روح ہوتی تھی۔ اس باب میں ان کے شغف کا یہ حال تھا کہ عاملوں اور گورنروں کے نام جو فرامین خلافت سے ان کے زمانے میں جاری ہوتے تھے‘ ان کے متعلق مؤرخین کا بیان ہے کہ اُن میں یا توکسی ظلم کا ازالہ ہوتا یا کسی سنت کے زندہ کرنے کا حکم‘ یا کسی بدعت کے مٹانے کا فرمان‘ یا کسی کا وظیفہ مقرر کرنے کی ہدایت ہوتی‘ یا کوئی نیکی کی بات‘ اور یہ اس وقت تک ہوتا رہا جب تک وہ زندہ رہے۔
اسلام کے کچھ حدود و قوانین و سنن ہیں ‘ جو اُن پر عمل کرے گا اس کے ایمان کی تکمیل ہوگی اور جو عمل نہیں کرے گا‘ اس کا ایمان نامکمل رہ جائے گا۔ اگر زندگی نے وفا کی تو میں تمھیں اس کی تعلیم دوں گا اور تمھیں ان پر چلائوں گا۔ اگر اس سے پہلے میرا وقت آگیا تو میں تمھارے درمیان رہنے پر کچھ ایسا حریص بھی نہیں ہوں‘‘۔
نماز کے وقت تمام کام چھوڑ دو کیونکہ جس شخص نے نماز کو ضائع کر دیا‘ وہ دیگر فرائض اسلام کا سب سے زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔
عام بگاڑ کے سبب سے دوسرے تعیشات کے ساتھ شراب نوشی کا رواج بھی معاشرے میں ہو چلا تھا۔ آپ نے تمام عمال کے نام حکم جاری کر دیا کہ کوئی ذمی مسلمانوں کے شہروں میں شراب نہ لانے پائے اورشراب کی دکانوں کو حکماً بند کر دیا جائے۔
مجھے معلوم ہوا ہے کہ بیوقوفوں کی عورتیں زمانۂ جاہلیت کی طرح موت کے وقت بال کھولے نوحہ کرتی ہوئی نکلتی ہیں۔ اس نوحہ و ماتم پر قدغن لگائو۔ اہل عجم چند چیزوں سے جنھیں شیطان نے ان کی نگاہ میں محبوب کر دیا تھا‘ دل بہلاتے تھے۔ مسلمانوں کو اس لہولعب اور راگ باجے سے روکو اور جو نہ مانے اسے اعتدال کے ساتھ سزا دو۔
لوگوں کے اعمال کے ساتھ ساتھ آپ کو ان کے عقائد کی بھی فکر رہتی تھی۔ آپ کے زمانے میں معبد جہنی اور غیلان دمشقی نے قضا و قدر کا مسئلہ چھیڑ رکھا تھا اور عوام کو لایعنی بحثوں میں اُلجھا رہے تھے۔ آپ نے انھیں بلا کر غلط عقائد سے توبہ کرائی اور علما کو لکھا کہ وہ ان خیالات کو قبول نہ کریں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اسلامی حکومت کے رقبے میں توسیع کے بجاے خود اسلام کی توسیع واشاعت کو مقصود قرار دیا اور اپنی ساری توجہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں صرف کر دی اور اس سلسلے میں ہر طرح کے مادی و اخلاقی ذرائع استعمال کیے۔ فوجی افسروں کو ہدایت کی کہ وہ رومیوں کی کسی جماعت سے اس وقت تک جنگ نہ کریں جب تک کہ انھیں اسلام کی دعوت نہ دے لیں۔ تمام عمال کو حکم تھا کہ وہ ذمیوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ جو ذمی اسلام قبول کر لے‘ اس کا جزیہ معاف کر دیں۔ آپ کی اس پالیسی کا نتیجہ تھاکہ صرف ایک صوبے خراسان میں ۴ ہزار ذمی مسلمان ہو گئے۔ افریقہ اور اندلس کے تازہ مفتوحہ علاقوں میں اشاعت ِ اسلام کی طرف آپ نے خاص طور پر توجہ فرمائی اور اپنے دست ِ مبارک سے دعوتی خطوط لکھ لکھ کر روانہ کیے۔ علامہ بلاذری فتوح البلدان میں لکھتے ہیں: ’’پھر جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور آیا تو انھوں نے اسماعیل بن عبداللہ بن ابی المہاجر کو مغرب کا گورنر مقرر کیا۔ انھوں نے نہایت عمدہ روش اختیار کی اور بربروں کو اسلام کی دعوت دی۔ اس کے بعد خود حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ان کے نام دعوتی خطوط لکھے۔ اسماعیل نے جب یہ خطوط ان کو پڑھ کر سنائے تو مغرب پر اسلام غالب آگیا‘‘۔
اس طرح آپ نے سندھ کے حکمرانوں اور زمین داروں کو بھی دعوتی خطوط لکھے۔ چنانچہ ان میں سے بیشتر نے اسلام قبول کر لیا۔
اشاعت اسلام کے لیے ضروری تھا کہ خود علم دین کی طرف توجہ کی جاتی۔ اس سلسلے میں آپ کا سب سے بڑا کارنامہ حدیث کی تدوین تھا۔ اپنے زمانے کے ایک بڑے عالم ابوبکر بن حزم کو تدوین حدیث کی طرف متوجہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی جو کچھ حدیثیں تم کو ملیں ان کو تحریری شکل میں لے آئو۔ اس لیے کہ مجھے خطرہ ہے کہ علما رخصت ہو جائیں گے اور علم مٹ جائے گا‘‘۔
اس پر بھی آپ کو اطمینان نہیں ہوا تو اپنی سلطنت کے تمام عہدے داروں کے نام فرمان جاری کیا کہ ’’رسولؐ اللہ کی احادیث کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کرو‘‘۔
پھر اس پر اکتفا نہیں کیا۔ علما کو اشاعت علوم کی طرف متوجہ کیا۔ ایک فرمان میں آپ لکھتے ہیں: ’’لوگوں کو چاہیے کہ عام طور پر علم کی اشاعت کریں اور تعلیم دینے کے لیے حلقۂ درس قائم کریں تاکہ جو لوگ نہیں جانتے وہ بھی جان لیں کیونکہ علم اس وقت تک برباد نہیں ہوتا جب تک کہ اسے مخفی نہ رکھا جائے‘‘۔
حمص کے گورنر کو لکھا: ’’جن لوگوں نے دنیا کو چھوڑ کر اپنے آپ کو فقہ کی تعلیم کے لیے وقف کر رکھا ہے ان میں سے ہر ایک کو جس وقت میراخط پہنچے‘ بیت المال سے ۱۰۰ دینار دو تاکہ وہ لوگ اس حالت کو قائم رکھ سکیں‘‘۔
حضرت نافع کو جو حضرت عبداللہ بن عمرؒ کے غلام اور مدینہ منورہ کے محدث اورفقیہہ تھے‘ خاص طور پر مصر بھیجا تاکہ وہاں کے لوگوں کو فقہ اور حدیث کی تعلیم دیں۔
ایک اور تبدیلی جو آپ کے عہد میں آئی وہ یہ تھی کہ آپ کے پیش رو اموی خلفا کے گرد شاعروں‘ خوشامدیوں‘سازندوں اور گویوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ آپ جب خلیفہ ہوئے تو آپ نے اپنے زمانے کے مشہور تابعین اور علما کو اپنے ارد گرد جمع کیا۔ یہی لوگ درحقیقت آپ کی شوریٰ تھے جن سے آپ روز مرہ کے معاملات میں مشورہ لیتے تھے۔ رفقاے کار اور اربابِ صحبت میں جن اوصاف کا ہونا آپ کے نزدیک ضروری تھا اُن کی آپ نے خود تصریح فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ پہلی صفت یہ ہے کہ:
۱- اگر میں انصاف کی راہ نہ پائوں تو وہ میری رہنمائی کرے۔
۲- نیکی کے کاموں میں میرا مددگار ہو۔
۳- جو لوگ مجھ تک اپنی حاجت نہیں پہنچا سکتے وہ مجھ تک ان کی حاجت پہنچائے۔
۴- میرے پاس کسی کی غیبت نہ کرے۔
۵- امانت دار ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے امورِ خلافت کے انتظام و انصرام میں حضرت فاروق اعظمؓ کو اپنے لیے نمونہ بنایا تھا۔ چنانچہ آپ حضرت فاروق اعظمؓ کے پوتے حضرت سالمؒ بن عبداللہ بن عمر کو جو خود ایک ممتاز تابعی تھے‘ ایک خط میں لکھتے ہیں کہ: ’’اگر اللہ مجھ کو استطاعت دے تو میں رعایا کے معاملات میں عمرؓ بن خطاب کی روش اختیار کروں۔ اس لیے تم میرے پاس اُن کی وہ تحریریں اور فیصلے بھیج دو جو انھوں نے مسلمانوں اور ذمیوں کے بارے میں کیے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہے تو میںان کے نقشِ قدم پر چلوں گا‘‘۔
حضرت عمرؓ بن خطاب کی پیروی کی یہی رُوح ہے جو اُن کے ہر کام میں جاری و ساری تھی ۔جس بے خوفی اور جانفشانی سے انھوں نے انتہائی نامساعد حالات میں‘ احیاے نظامِ اسلامی کا کٹھن فریضہ ادا کیا وہ سب ان کی اسی نیت کا فیض تھا۔ دو سال کی مختصر سی مدتِ خلافت میںکتنا عظیم الشان تغیر واقع ہو گیا تھا ‘ اس کا اندازہ آپ اس سے لگایئے کہ مشہور مدنی امام اور حضرت ابوبکرؓکے پوتے حضرت قاسمؒ بن محمد بن ابی بکر نے آپ کی خلافت کا رنگ دیکھ کر فرمایا تھا: الیوم ینطق من کان لا ینطق، اب وہ بھی بولیںگے جو پہلے نہیں بولتے تھے۔
ایک مورخ آپ کے پیش رو خلفا ولید بن عبدالملک اور سلیمان بن عبدالملک کے ساتھ آپ کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ولید عمارات کا بانی تھا‘ اس لیے اس کے زمانے میں عام مذاق یہی ہو گیا تھا۔ لوگ آپس میں جب ملتے تھے تو تعمیر اور عمارتوں پر گفتگو کرتے تھے۔ سلیمان کو عورتوں اورنکاح سے دل چسپی تھی‘ اس لیے اس کے زمانے میں اس کا چرچا تھا اور لوگوں کا موضوعِ گفتگو شادی اور لونڈیاں ہوتی تھیں۔ لیکن جب عمر بن عبدالعزیزؒ نے تخت ِ خلافت پرقدم رکھا تو مذہب‘ عبادت اور اس کی تفصیلات موضوع بن گئیں۔ جہاں چار آدمی جمع ہوتے تو ایک دُوسرے سے پوچھتے کہ رات کو تم کون سے اوراد وظائف پڑھتے ہو۔ تم نے کتنا قرآن یاد کیا ہے۔ تم قرآن کب ختم کرو گے۔ مہینے میں کتنے روزے رکھتے ہو۔
احیاے نظام اسلامی کے لیے جو کوششیں آپ نے کیں اور جس حد تک آپ کو ان میں کامیابی ہوئی ‘اس کا ایک سرٹیفکیٹ تو یہ تھا جس کا ذکر ابھی آپ نے سن لیا۔ اور دوسرا سرٹیفکیٹ وہ تھا جو آپ کے خاندان والوں نے آپ کو دیا‘ یعنی ایک ہزار اشرفیاں رشوت دے کر ایک غلام کے ذریعے آپ کو زہر دلوا دیا اور اس طرح آپ سے ’’نجات‘‘ حاصل کی اور آپ دو سال کی مدت ِ خلافت کے بعد ۳۹ سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے! (آئین‘ ۹ جولائی ۱۹۷۲ئ)