مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جماعت اسلامی کی تاسیس سے بھی تقریباً ۱۵ سال قبل اقامت ِ دین کے نصب العین اور دعوت دین کے کام کا آغاز کر دیا تھا۔ مرکزی مجلس ِ شوریٰ نے یہ طے کیا ہے کہ جماعت ِ اسلامی کی دعوت زیادہ زور شور سے پیش کرنے، عوام میں اسے وسیع پیمانے پر روشناس کرانے، اور خود جماعت میں نئے ولولہ اور یکسوئی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھنے کا عزم بیدار کرنے کے لیے خصوصی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جائے۔
گذشتہ برسوں میں ہم کن کن مراحل سے گزرے؟ کیا کیا رکاوٹیں راستے میں پیش آئیں؟ ہم نے کیا کیا پیش قدمیاں کیں؟ یہ ایک طویل داستان ہے۔ اس داستان کی تاریخ بعض احباب نے لفظوں میں لکھی ہے، اور بہت کچھ عمل کے ذریعے لکھی جا رہی ہے۔ ہم ماضی و حال کی روشنی میں، یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آج کس مرحلے میں ہیں، ہمیں کیا چیلنج درپیش ہیں، ان کا مقابلہ کس طرح کر رہے ہیں، اور آیندہ ہمیں کیا کچھ کرنا ہے؟
آج سے ایک صدی پہلے بھی تقریباً ساری مسلم دُنیا مغربی تہذیب اور مغربی سامراج کے تسلط میں تھی۔ اس کا اکثر حصہ، برصغیر پاک و ہند سمیت، براہِ راست برطانوی سامراج کی مضبوط گرفت میں تھا۔ جس میں اسلام کا نام بھی تھا، مذہبی مراسم بھی ادا کیے جاتے تھے، دینی دعوت و تعلیم بھی جاری تھی، لیکن دین کے اس تصور کا شعور خال خال لوگوں میںپایا جاتا تھا کہ اس کا قیام ہی ہرمسلمان کا انفرادی طور پر، اور اُمت ِ مسلمہ کا بحیثیت مجموعی، مقصد ِ حیات ہے۔ بحیثیت ایک جامع نظامِ زندگی کے بھی دین کا تصور اکثر لوگوں کی نظروں سے اُوجھل ہو گیا تھا۔ دین کے قیام کے لیے جدوجہد میں زندگی کے آثار بھی مفقود تھے۔ ان حالات میں پوری مسلم دُنیا مایوسی اور افسردگی کا شکار تھی۔
برصغیر کے مسلمان، آٹھ سو سال حکومت کرکے، انگریز کی غلامی میں جا چکے تھے۔ خلافت ِ عثمانیہ کا خاتمہ، تحریک ِخلافت کی ناکامی، برہمنی سامراج کی سازشیں، پہلے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اکثریتی ہندو حکومتوں کے مظالم___ ان سب عوامل کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمانوں پر افسردگی کے بہت گہرے سائے چھائے ہوئے تھے۔
مایوسی کے اس عالَم میں کچھ علما ضرور مسلمانوں کو دین کی طرف دعوت دے رہے تھے۔ پھر علامہ محمداقبال ؒنے بھی اُمید کی ایک شمع روشن کر رکھی تھی۔ لیکن ان سب کا کام، زیادہ تر صرف پیغام تک محدود تھا۔ ان میں سے کوئی بھی آگے بڑھ کر، اقامت ِ دین کا پرچم اُٹھا کر، منظم جدوجہد کی راہ پر قدم بڑھانے کے لیے حوصلہ، ہمت اور آمادگی اپنے اندر نہ پاتا تھا۔
ان حالات میں، خالص دین کی بنیاد پر مسلمانوں کی صف بندی کرنے کے لیے عملی تحریک برپا کرنے کی سعادت مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کے حصے میں آئی۔ اُنھوں نے اپنی تحریروں سے نہ صرف مغربی تہذیب کا طلسم توڑا، اسلام کا تصور بحیثیت ایک جامع نظامِ زندگی کے اُجاگر کیا، بلکہ اسلام میں جہاد کی حقیقی روح و تقاضوں اور اس کی اہمیت کا احیاء بھی کیا۔
مولانامودودی نے مسلمانوں کو پکارا کہ جن حالات سے ان کو سابقہ درپیش ہے: ان حالات میں اقامت ِ دین فرضِ کفایہ نہیں بلکہ فرضِ عین ہوتا ہے، اور ہر وہ شخص قابلِ مواخذہ ہوگا جو قدرت و استطاعت کے باوجود اقامت دین اور حفاظت ِ دین کے لیے جان لڑانے سے گریز کرے گا۔ احکامِ کفر کے مقابلے میں احکامِ الٰہی کے اجرا کی کوشش بہرحال اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا، اس کے لیے جماعت کا وجود اور جو جماعت موجود ہو اس کا التزام، ضروری ہے۔ (ماہ نامہ ترجمان القرآن، جولائی۱۹۵۷ء)
اُنھوں نے کھول کھول کر یہ بات سمجھائی کہ اقامت ِ دین کا مقصد ہی وہ اصل مقصد ہے جس کی خاطر انبیا علیہم السلام بھیجے گئے، اوریہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کامقصد تھا:
یہی اُمت ِ مسلمہ کا اصل مقصد اور فریضہ ہے۔ اُمت کے ہر فرد پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ فریضۂ اقامت ِ دین کی اس منظم جدوجہد میں اپنا حصہ ادا کرے، اور اس کے لیے اپنے آپ کو ایک جماعتی نظم کے سپرد کر دے:
اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا راستہ بھی یہی ہے کہ ایک مومن اپنی پوری زندگی اور تمام وسائل اور ساری صلاحیتیں، اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اس جہادِزندگانی میں لگا دے۔
یہی وہ دو باتیں تھیں، جنھوںنے بے شمارسعید رُوحوں کو مضطرب کر دیا، اُنھوں نے مولانامودودی کی پکار پر لبیک کہا، اور ۲۶؍اگست۱۹۴۱ء کو لاہور میں جماعت ِ اسلامی قائم ہو گئی۔
برسوں پہلے اگرچہ چند ہی رفقائے کاراکٹھے ہوئے، وہ بھی اکثر متوسط درجہ کے بے وسائل نوجوان، لیکن مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ سفر اس یقین کے ساتھ شروع کیا کہ ایک وقت آئے گا کہ سرمایہ داری نظام کو واشنگٹن اور لندن میں اور اشتراکیت کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی۔ اسلام کو نظامِ غالب بنانے کی یہ تحریک بظاہر بے سروسامانی کی حالت میں شروع کی گئی۔ لیکن اس کا اصل سرمایہ چند صالح افراد کا اخلاص اور یہ ایمان تھاکہ ’حق بذاتِ خود ایک قوت ہے‘۔ ان کو یقین تھا کہ جب اہلِ حق اخلاص کے ساتھ راہِ حق میں نکلتے ہیں تو اللہ کی نصرت آتی ہے، اور فیصلہ کرنے والی ذات اللہ رب العالمین ہے۔ اگر دین کی راہ پر، قول و فعل کی صداقت کے ساتھ چلنے والے افراد کا ایک ایسا گروہ وجود میں آ جائے، جو اس کے راستے میں مخلصانہ جدوجہد کرکے ثابت کر دے کہ وہ زمین کی وراثت کی صلاحیت رکھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ دُنیا کی زمامِ کار مفسدین سے اس کی طرف منتقل کردیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان گزشتہ برسوں میںمولانا مودودیؒ کی دعوت پر جمع ہونے والوں کا قافلۂ حق کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہے۔ اگست ۱۹۴۱ء کے اجتماع میں اگر ۷۵؍افراد تھے، اور اب لاکھوں افراد جماعت ِ اسلامی سے وابستہ ہیں۔
جماعت کے اجتماع ارکان میں طے کردہ، انتخابات کا طریقہ ہی، وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنا اصل مقصد’زمامِ کار کی تبدیلی یا انقلابِ امامت‘حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ۱۹۴۹ء کی قرار دادِ مقاصد، ۱۹۵۶ اور ۱۹۷۳ء کے دستور، بلاشبہہ حد درجہ بنیادی اقدامات ہیں، لیکن ان کے باوجودمطلوبہ نتائج نمودار نہیں ہوئے، اور اسلامی معاشرہ وجود میں نہیں آیا۔تاہم، ان اقدامات، جمہوری ذرائع سے اور کشت و خون کے بغیر، پاکستان کو کس طرح اسلامی ریاست کے راستے سے منسوب کر دیا، اور اس راستہ پر کتنا آگے بڑھا دیا؟ اس کا اندازہ ترکی، مصر، شام،سوڈان، عراق اور انڈونیشیا جیسے ممالک کو دیکھ کر آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔
بلاشبہہ معاشرے میںبگاڑ بڑھا ہے، لیکن ذرا تصور کیجیے کہ ہماری اصلاح و تعمیر اور دعوت کی سرگرمیوں کے بغیر یہ معاشرہ کہاں پہنچ چکا ہوتا، اس کا اندازہ کرنا کچھ دشوار نہیں۔ دعوت ِحق کے نتیجے میں لاکھوں افراد نہ صرف اپنی زندگیاں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق گزارنے میں لگے ہوئے ہیں، بلکہ عملاً معاشرے کو، دعوت کے صبر آزما کام کے ذریعے، اسلامی بنانے کے لیے اپنا جان و مال لگا رہے ہیں۔ آج آپ کسی شعبۂ زندگی میں چلے جائیں، آپ کو جماعت ِ اسلامی کی دعوت کے اثرات نظر آجائیں گے۔ وطن عزیز ہی نہیں بلکہ آپ دُنیا کے کسی حصے میں جائیں، وہاں اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والوں میں اقامت ِ دین اور تحریک اسلامی کے حوالے سے جماعت ِ اسلامی کے وابستگان کو متحرک پائیں گے۔
یہ جو کچھ حاصل ہوا ہے، محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوا ہے۔ اس پر ہم اس کا جتنا شکر ادا کریں، وہ کم ہے۔ جو کچھ نہ ہو سکا، اورجتنا ہم منزل سے دور ہیں، وہ سراسر ہماری کمزوریوں اور خامیوں کا نتیجہ ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر جس چیز کا شکر ہم پر واجب ہے اور جو چیز ، یہ ساری دُنیاوی کامیابیاں نہ بھی حاصل ہوں تو بھی، ہماری اصل متاع اور حاصل جدوجہد ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میںجو بنیادی مقاصد، ہم نے اپنے لیے متعین کیے تھے، الحمدللہ، ہم انھی مقاصد کی طرف چل رہے ہیں۔ اور اسی طریقِ کار کے مطابق چل رہے ہیں، جو ہم نے قرآن و سنت کی روشنی میں اخذ کیا تھا۔
انفرادی لغزشوں اور غلط فیصلوں سے انسانوں کی کوئی اجتماعیت خالی نہیں ہے۔ حالات میں تغیرات کے مطابق پالیسی، نظام، تدابیر، وسائل اور تکنیک میں تبدیلیاں بھی کی جاتی رہی ہیں، اور ۱۹۴۷ء ہی سے کی جاتی رہی ہیں، لیکن یہ تبدیلیاں انھی اصولوں کی روشنی میں کی جاتی رہی ہیں، جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں، جن کی وضاحت خود داعی تحریک اسلامی نے فروری۱۹۵۷ء میں ماچھی گو ٹھ (ضلع رحیم یار خاں) میں ارکانِ کے اجتماع کے دوران کی تھی، اور جن کی بھر پور تائید ارکانِ جماعت نے کر دی تھی۔ قرآن و سنت کے منصوص احکام کو تبدیل کرنا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں، اور جو جماعت اقامت ِ دین کی جدوجہد کے لیے اُٹھے اس کے لیے تو یہ لازم ہے کہ وہ اسی طریقِ کار سے اپنی منزل کی طرف بڑھے، جو طریقِ کار رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیاتھا۔ آپؐ کی طے کردہ حدود کے اندر ہی رہے، جن چیزوں سے آپؐ نے روکا ہے اُن سے رکی رہے، اور جن وسعتوں اور جس تنوع (diversity)کو آپؐ نے اختیار کیا یا اجازت دی، ان سے اجتناب برتنے اور تنگی اختیار کرنے سے احتراز کرے۔
ہمیں اس بات میں کوئی شبہہ نہیں، اور یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان ہے، کہ ہم آج وہی الفاظ بلاتامل دُہرا سکتے ہیں جو الفاظ مولانا مودودی نے ۱۹۵۷ء میں ارشاد فرمائے تھے۔ یہ الفاظ جماعت کے ان چند لوگوں کو مخاطب کرکے کہے گئے تھے، جو خود مولاناؒ کی تحریروں سے مولاناؒ کے خلاف یہ مقدمہ قائم کر رہے تھے کہ ’’۱۹۴۷ء کے بعد جماعت نے اُن کی قیادت میں پالیسی اور تدابیر میں جو تبدیلیاں کی ہیں، اور جو تیز تر عوامی اور سیاسی جدوجہد شروع کر دی ہے، اس کی وجہ سے وہ اپنے اس اصل طریقِ کار سے ہٹ گئی ہے جس کی خود اُنھوں نے تعلیم دی تھی۔ دینی احکام میں حکمت ِ عملی کے نام پر تبدیلی کر دی گئی ہے، ترمیم و تحریف کا اختیار حاصل کر لیا گیا ہے، جماعت اسلامی کا اخلاقی و دینی معیار گر گیاہے‘‘ وغیرہ۔
اس سب کے جواب میں مولانا مودودی نے فرمایا:انفرادی لغزشوں اور کوتاہیوں سے تو بہرحال کوئی جماعت بھی خالی نہیں ہو سکتی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اجتماعی حیثیت سے جماعتِ اسلامی ان اصولوں کی پوری پابندی کرتی رہی ہے [جو عقیدہ، نصب العین، شرائط رکنیت اور مستقل طریقِ کار کے تحت دستور میں درج کیے گئے ہیں]۔ یہ سراسر اللہ کا فضل ہے کہ بے اصولی کے وہ انتہائی صبرآزما طوفان بھی، جن کے درمیان اِس ملک میں برسوں کام کرنا پڑا ہے، اسے ایک بے اصول جماعت بنا دینے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے ہیں___ جماعتِ اِسلامی ابتدا سے ایک سوچے سمجھے نقشے پر کام کر رہی ہے۔ اس نقشے کی تفصیلات تو ہمارے ذرائع ووسائل کی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھتی اور پھیلتی رہی ہیں، لیکن اس کے بنیادی خطوط وہی رہے ہیں جو اوّل روز سے اِس کام میں ہمارے پیش نظر تھے۔ (سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، جولائی۱۹۷۳ء، ص۵۹،۷۲،۷۳)
جماعت ِ اسلامی اگر اپنے نصب العین اور بنیادی اصولوں پر قائم رہی ہے، تو یہ سراسر اللہ تعالیٰ کے فضل، قرآن و سنت کی طرف رجوع اور اُن کے التزام کی سعی، اور مولانا مودودی کی بصیرت سے بھرپور رہنمائی کا نتیجہ ہے۔
تحریک اسلامی کا لائحۂ عمل اور طریقِ کار
جماعت ِاسلامی نے جو طریقِ کار کتاب اللہ اور سنت ِ نبویؐ سے اخذ کیا وہ چار بنیادی اصولوں اور حدود پر مبنی تھا:
صداقت و دیانت کے منافی ذرائع کے استعمال سے اجتناب، اصلاح و انقلاب کے لیے جمہوری و آئینی طریقوں سے کام کرنا، رائے عامہ کے ذریعے مطلوبہ تغیرات بروئے کار لانا، کھلم کھلا اور علانیہ کام کرنا _غور کیا جائے تو یہ سب اصول درج بالا چار اصولوں ہی کا منطقی نتیجہ ہیں، انھی سے اخذ کردہ ہیں۔
اس کام کے لیے معقول اور فطری طریقہ یہی ہے کہ اللہ کی طرف دعوت دینے والا سب سے پہلے اپنی ذات سے ابتدا کرے۔ وہ اپنی زندگی میں تضادات کو دور کرنے، اللہ کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ دینے، اور خود اپنی دعوت کا نمونہ بن جانے کی مسلسل کوشش میں لگ جائے۔ ساتھ ہی وہ اپنے گھر اور اہل و عیال، اعزہ و اقربا اور اپنے ہمسایوں تک یہ دعوت پہنچائے۔
اس کے ساتھ اس کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ پوری قوم کو اور حسب ِ استطاعت عالم ِ انسانیت کو اللہ کی طرف دعوت دے، اور اصلاحِ معاشرہ، تبدیلیٔ معاشرہ، تبدیلیٔ حکومت اور انقلابِ قیادت کے لیے بھی مقدور بھر کام کرے۔ ان میں سے کوئی کام کسی دوسرے کام کی خاطر نہ ملتوی کیا جاسکتا ہے، نہ مؤخر کیا جا سکتا ہے، اور نہ اسے ترک کیا جا سکتا ہے۔ ہاں، کسی پہلو میں کمی بیشی اور تقسیمِ کار ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی اس کا فرض ہے کہ نظم جماعت اس سے جو کام لینا چاہے، جہاں اور جس ذمہ داری پر لگانا چاہے، وہ پوری وفاداری سے اپنی صلاحیتیں اس کے سپرد کردے۔
نظمِ جماعت کے لیے، ابتدا سے قرآن و سنت کی روشنی میں جو اصول وضع کیے گئے، ان میں سمع و طاعت فی المعروف، مشاورت، باہمی الفت و محبت اور احتساب اہم ترین اصولوں کے طور پر شامل تھے۔
ان اصولوں اور اس نقشۂ کار کی پابندی جس طرح روزِ اول سے کی جا رہی ہے، آج بھی کرنا ضروری ہے بلکہ آج زیادہ ضروری ہے۔ آج ہمیں سنگین تر چیلنجوں سے سابقہ درپیش ہے۔ ہماری تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب معاشرے کا بگاڑ بھی بڑھ گیا ہے۔ دُنیا ایک آنگن بن گئی ہے، اور تحریک اسلامی ایک عالم گیر حقیقت۔ اب اس کے دشمن اپنے ملک میں ہی نہیں ہیں، بلکہ عالم گیر سامراجی قوتیں بھی اس کے درپے ہیں۔ نقل و حمل کے جدید وسائل اور ذرائع ابلاغ نے غالب لادینی تہذیب کو ایک ایک گھر میں گھسنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ ان حالات میں جماعت کا کوئی ادنیٰ کارکن بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ تحریک اپنے بنیادی اصولوں اور نقشۂ کار میں کچھ ترک کرکے یا کچھ لچک پیدا کرکے اپنے نصب العین کی طرف پیش قدمی کر سکتی ہے۔
جماعت اسلامی نے انھی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے، آج کے اس مرحلے میں دعوت کے کام کو اپنے منصوبوں میں اوّلین ترجیح دی ہے، اور یہی ہدایت سارے کارکنوں کو دی ہے۔ صرف اولین ترجیح دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا ہے، بلکہ دعوت الیٰ اللہ کے بنیادی موضوعات واضح کیے ہیں، طریقوں کا تعین کیا گیا ہے، گھر گھر کو ہدف بنا کر دعوت پہنچانے کا پابند کیا گیا ہے، وفود بناکر اور دعوتی کیمپ لگا کر دعوت پہنچانے کا پروگرام دیا گیا ہے۔
ہر کارکن کو ایک محنت کار کی طرح دو افراد مسلسل زیرِ تربیت رکھنے اور اہل خانہ کی تربیت کے لیے ان کا اجتماع کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اگر ہم اپنے گھروں میں ایک اسلامی ماحول قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو نہ صرف افراد خانہ ایک دوسرے کے پشتی بان بنیں گے، بلکہ وہ اپنے ماحول میں بھی ایک خوش گوار تبدیلی پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔
عملی طور پر، دعوتی لٹریچر کے ہزاروں سیٹ نہایت ارزاں قیمت پر کارکنوں کو فراہم کیے جاتے ہیں، اور عمومی ابلاغ کے لیے جدید ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح اپنی تربیت اور اقامتِ صلوٰۃ اور نماز باجماعت کی پابندی، اور محلوں میں توسیع دعوت کے مقاصد کے لیے فجر کی نماز میں حاضری، اور مساجد کے گرد احباب کے حلقے بنانے کا پروگرام دیا گیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کارکن اس پورے منصوبے کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھیں، اور اس کو عملی جامہ پہنانے کا بھرپور عزم ایک دفعہ پھر تازہ کریں۔
عوام میں اثر و نفوذ کی تیز تر کوششوں کے باوجود، تربیت کے ضمن میں معمول کے سارے پروگرام اسی طرح جاری ہیں، جس طرح وقتاً فوقتاً وضع کیے جاتے رہے ہیں۔ مرکزی تربیت گاہ سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دائرہ تعلیم و تربیت کا آغاز کرکے ایک ایسی تربیت گاہ کے اس خواب کو بھی عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو دُنیا میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے بہترین کارکن تیارکرے۔ لیکن تربیت کی یہ ساری کوششیں کافی نہیں ہیں۔ ان کو تیز تر اور وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے۔
سالانہ منصوبۂ کار میں جو بنیادی رہنما اصول طے کیے جاتے ہیں اور جو طریقے تجویز کیے جاتے ہیں، کارکنوں اور جماعتوں کو پورے اہتمام سے ان کا التزام کرنا چاہیے۔ خصوصاً ہر کارکن کو ’اپنی تربیت آپ‘ کے اصول پر، سب سے بڑھ کر اپنی سیرت و کردار کی تعمیر کی کوشش میں لگا رہنا چاہیے۔ تربیت یافتہ کارکن، ہماری تحریک میں مرکز و محور اور ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتے ہیں۔ تحریک کے لیے موجودہ مرحلے میں عوام کو سنبھالنے کے لیے باصلاحیت، تربیت یافتہ کارکنوں کی شدید ضرورت ہے۔
یہاں دعوت و تربیت کے ضمن میں یہ اعتراف ضروری ہے کہ ہدایات اور فکر انگیز منصوبوں کے باوجود عملی کارکردگی میں بہت کوتاہیاں ہیں۔ مگر انسانوں میں عزائم، منصوبوں اور ہدایات اور ان پر عمل اور نتائج کے درمیان ہمیشہ فرق ہو اکرتا ہے۔ انسان عزم کا کچا ہے۔ یہ بات خامیوں، کوتاہیوں اور سہل انگاریوں کے لیے وجۂ جواز ہرگز نہیں بنائی جا سکتی۔ لیکن اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ یہ فرق ہمیشہ رہا ہے: تعلیم ِ بالغاں ہو، اعلیٰ درجہ کی تربیت گاہ کا قیام ہو، نئے نظامِ تعلیم کے مطابق درد مندی، ہمدردی اور خدمت کے جذبے سے قائم اسکول اور اداروں کا قیام ہو، علمی و تحقیقی کام ہو، معیارِ ارکان کا معاملہ ہو، حلقۂ حامیان کا وہ پروگرام ہو جو ۱۹۵۱ء میں پنجاب کے پہلے انتخابات کے بعد وضع کیا گیا اور جسے ماچھی گوٹھ میں منظور کردہ قرار داد کے ساتھ منسلک کیا گیا___ عزائم اور عمل کا یہ فرق ہر جگہ موجود رہا ہے، یہ آج بھی موجود ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود گذشتہ برسوں میں جماعت اسلامی نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ اور ان شاء اللہ آیندہ بھی کرے گی۔
بعض اوقات جماعت میں ارکان اوروابستگان کے معیار کے گرنے کا مسئلہ بھی بار بار ذہنوں میں اُٹھتا ہے، اُٹھایا جاتا ہے، مگر یہ بحث بھی روزِ اول سے چلی آ رہی ہے۔ جماعت کی ابتدائی رودادیں ارکانِ جماعت کی حالت پر شکایات سے بھری ہوئی ہیں۔ ۱۹۵۶ء میں جائزہ کمیٹی نے بھی کچھ ایسی ہی تصویر کھینچی تھی _کہ مولانا مودودی کو یہ کہنا پڑا تھا: ’’اگر ساری جماعت بحیثیت مجموعی بگڑ گئی ہے تو اسے توڑ دیجیے‘‘۔ (آیندہ لائحہ عمل، ص۱۷۴) اورپھر یہ بھی فرمایا: ’’پوری جماعت کے متعلق___ ہر پہلو سے کامل اطمینان کی رپورٹ شاید آپ کبھی نہ پا سکیں گے‘‘۔ اس ضمن میں اُن کی یہ بات بھی اہم ہے کہ ’’میرے علم میں ایسا کوئی طریقِ تربیت اب تک نہیں آیا ہے، جو معیارِ مطلوب کے آدمی تیار کرنے کی سو فی صدی ضمانت دیتا ہو۔ ہر جائزہ آپ کو یہی رپورٹ دے گا کہ آپ کے درمیان ایک ناقابلِ اطمینان عنصر موجود ہے‘‘۔ (ایضاً،ص۱۷۷)
لیکن ہم پھر بھی یہ کہیں گے کہ یہ باتیں جواز، تاویل اور غفلت کی ہرگز بنیاد نہیں بننا چاہییں۔ ہاں، مایوسی سے بچنے اور رومانوی دُنیا سے نکل کر حقیقت پسند بننے کے لیے ان کا ادراک ناگزیر ہے۔
جماعت کی ترقی کا راز جہاں اپنے نصب العین، بنیادی اصولوں اور نقشۂ کار کی پابندی میں مضمر ہے، وہاں یہ بات ثبات و تغیر کے ان حکیمانہ اصولوں پر کاربند رہنے کا نتیجہ بھی ہے، جن کی تعلیم قرآن و سنت میں دی گئی ہے، اور جن کی وضاحت مولانا مودودی نے ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں بڑی تفصیل سے فرمائی ہے۔ آج کے مرحلے میں بھی جماعت اگر پیش قدمی کر سکتی ہے تو اسی بصیرت، اور ثبات و تغیر کی اسی حکمت ِ عملی کو اختیار کرکے کر سکتی ہے جو مولانا مودودی نے اختیار کی۔ جو جماعتیں یہ نہ سمجھ سکیں کہ کیا بدل سکتا ہے اور کیا نہیں بدل سکتا، جو ہر چیز بدلنے کو تیار ہوں یا پھر ہرتبدیلی سے بدکتی ہوں، وہ اپنے مقصد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتی ہیں، اوراُن کو زمانہ ایک بھولی بسری داستان بنا کر چھوڑ دیتا ہے:
ثبات و تغیر کے ان اصولوں کا اطلاق ہم گذشتہ برسوں میں جس طرح کر تے رہے ہیں اس کا ایک مختصر جائزہ فائدہ سےخالی نہ ہوگا۔
مولانا مودودی نے ۱۹؍فروری۱۹۴۸ء کو پنجاب یونی ورسٹی لا کالج، لاہو رمیں تقریر کرتے ہوئے چار نکاتی مطالبۂ نظامِ اسلامی پیش کیا، اور اسی طرح اگست۱۹۵۲ء میں مطالبۂ دستورِ اسلامی پیش کیا۔ ان مطالبات کو منوانے کے لیے جماعت نے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے عوام سے جذباتی اپیل بھی کی، اور عوامی جدوجہد بھی شروع کر دی: ’’یوں ہماری تحریک نے ایک نئے دور میں قدم رکھا‘‘ (آیندہ لائحہ عمل، ص۱۴۰)۔ بعد میں مرکزی مجلسِ شوریٰ نے، اور آٹھ سال بعد ارکان کے اجتماعِ عام نے اس دُور رس تبدیلی کی توثیق کر دی۔
مولانا مودودی کے الفاظ میں: ’’ہم سخت نادان ہوتے اگر اس موقعے کو ہاتھ سے کھودیتے اور اپنے آپ کو قبل تقسیم ہی کی پوزیشن میں سمجھے بیٹھے رہتے‘‘(آیندہ لائحہ عمل، ص۱۲۸)۔ ’’بلکہ اگر ہم ان حالات میں قبل تقسیم کے طریقے ہی پر کام کرتے رہتے تو اپنے مقصد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیتے‘‘۔(ایضاً، ص۱۲۰،۱۲۱)
اس طرح ہم نے اپنے اپیل کے طریقے میں تبدیلی کی۔ ہم نے اپنے کام کے ڈھنگ میں تبدیلی کی۔ پہلے ہم دعوت کا کام چند متعین طریقوں سے بہت محدود پیمانے پر کر رہے تھے۔ اب ہم نے مطالبۂ نظامِ اسلامی کے وسیلے سے لاکھوں آدمیوں تک دعوت پہنچانے، اور ہزاروں کو اپنی تحریک کے ساتھ وابستہ کرنے کا کام شروع کر دیا۔ ہم نے یہ سمجھ لیا کہ مستحکم توسیع تو ’’دھیمی رفتار سے محدود پیمانے پر ہی ہو سکتی ہے‘‘۔اور اس وقت تک کام اسی دھیمی رفتار سے چل رہا تھا۔ اس مستحکم مگر سست رفتار توسیع سے نئے حالات کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ اوریہ بات بھی صحیح نہ ہوتی کہ ’’بڑے پیمانے پر توسیع کے جو مواقع ہمیں حاصل ہوئے تھے ان کو ہم چھوڑ دیتے اور بجائے خود اس توسیع کے جو فوائد ہیں ان کو نظر انداز کر دیتے‘‘۔ اس طرح ہم نے اپنی پیش قدمی کی رفتار بھی تبدیل کی، اور ’’کش مکش کے تدریجی ارتقاء ہی کے [ساتھ بڑھتے بڑھتے] ہم نے دفعتاً جدوجہد کے مرحلے میں قدم رکھ دیا___ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دستورِ اسلامی کے مطالبہ پر کش مکش کا آغاز کر دیا‘‘۔ (ایضاً، ص۱۴۳-۱۴۶)
جب عوامی جدوجہد کےمیدان میں قدم رکھا تو ریزولیشن بھی پاس ہوئے، جلوس بھی نکلے، زندہ باد کے نعرے بھی لگے، جھنڈے بھی بنے، استقبالیے بھی دیے گئے، اور یوم شوکت ِ اسلام بھی منایا گیا۔ یہ سب کچھ مولانا مودودیؒ کی زیرِ قیادت ہوا، حالانکہ خود اُن کی یہ تحریر موجود تھی کہ ریزولیشن، جلوس، نعرے وغیرہ اس تحریک کے لیے سمِ قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن وہ فقیہ تھے، لکیر کے فقیر نہ تھے۔
ان میں سے کوئی بھی تبدیلی نہ تو اصول کی تبدیلی تھی، اورنہ بنیادی تبدیلی۔ لیکن بعض لوگ عمل درآمد کی ہر نئی شکل کو دیکھ کر مضطرب ہو جاتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ اصول بدل گئے اور جماعت اپنی راہ سے ہٹ گئی۔ ان کو بتایا گیا: ’’جو شخص حالات اور مواقع اور ذرائع کی تبدیلی کے ساتھ ان اصولوں پر عمل درآمد کی شکلیں نہ بدل سکے، اس کی مثال اسی عطائی طبیب کی سی ہے، جو کسی حکیم کی بیاض کا ایک نسخہ لے کر بیٹھ جائے اور آنکھیں بند کرکے تمام مریضوں پر اسے جوں کا توں استعمال کرتا چلا جائے‘‘۔(آیندہ لائحہ عمل، ص۱۷۷)
آج بھی پبلک ریلیاں، بڑے بڑے جلوس، سیاسی و انتخابی اتحاد، نوجوانوں کی تنظیمات، وغیرہ___ یہ سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔یہ تاریخ کا تسلسل ہے جو جاری ہے، اور جاری رہے گا۔ ۱۹۴۷ء کےبعد بھی تبدیلیاں، نئی تدابیر، اور ایک ہی اصول کےعمل کی بدلتی ہوئی شکلیں دیکھ کر کچھ لوگ مضطرب ہو جایا کرتے تھے، اور آج بھی ایسا ہوتا ہے۔ ان احباب کو نہ صرف ثبات و تغیر کے درج بالا وہ چھ اصول سامنے رکھنا چاہییں، جن کو مولانا مودودیؒ نے بیان فرمایا، بلکہ اُن کے یہ الفاظ بھی یاد رکھنا چاہییں کہ ’’تبدیلی کے معنی یہ نہیں کہ پہلے طریقے کو ہم نے بالکل ترک کر کے صرف اس دوسرے طریقے ہی پر اعتماد کر لیا۔ اس توسیعی کوشش کے ساتھ ہم اپنے سابقہ طریقے کے مطابق استحکام کی سعی بھی کرتے رہے ہیں اور اس کی اہمیت و ضرورت ہماری نگاہوں میں علیٰ حالہٖ قائم ہے‘‘۔(آیندہ لائحہ عمل، ص۱۴۴)
آج کے مرحلے میں ہماری تحریک کو جو بڑے بڑے چیلنج درپیش ہیں، جن بدلتے ہوئے حالات کا سامنا ہے، وہ ہماری بنیادی فکر کا منطقی نتیجہ ہیں۔ کیونکہ ہم آئینی و جمہوری طریقوں، رائے عامہ کے تغیر، اور انتخابات کے ذریعے مطلوبہ انقلاب لانے کے پابند ہیں، اس لیے عامۃ المسلمین کو اپنے نصب العین کی حمایت میں کھڑا کر دینا ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ کیونکہ دُنیا میں، اور خود ہمارے ملک میں، اصل غلبہ مغرب کی لادینی تہذیب اور استعماری قوتوں کو حاصل ہے۔ اس لیے ہمیں اسلامی تحریکات کے خلاف عالمی طاقتوں کے منصوبوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہے۔ یہ ہمارے لیے دوسرا بڑا چیلنج ہے۔
ان دونوں باتوں کو مولانا مودودیؒ نے اگست ۱۹۴۱ء میں تحریک کے آغاز ہی میں بڑے خوب صورت انداز میں یوں واضح کر دیا تھا:ہماری تعمیری کوششیں بے سود ہو جائیں گی، اگر ساتھ ساتھ ان کی پُشت پر ایک مضبوط رائے عام بھی تیار نہ ہوتی رہے۔ جس طرح تعمیری کاموں کے بغیر کوئی اسلامی انقلاب رُونما نہیں ہو سکتا، اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ عامۃ الناس میں اسلام کی دعوت پھیلائے بغیر ایسا کوئی انقلاب برپا ہو سکے۔ ہمیں نہ صرف [اپنے ملک] میں، بلکہ حتی الامکان دُنیا کے گوشے گوشے میں اپنی آواز پہنچانی ہوگی۔ کیونکہ آج کسی ایک ملک میں کوئی حقیقی انقلاب واقع نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وسیع پیمانے پر بین الاقوامی رائے عام اس کی تائید میں تیار نہ کر لی جائے۔ اربوں انسانوں کو ہمارے پیغام سے واقف ہونا چاہیے، کرورڑوں انسانوں کو کم از کم اس حدتک اس سے متاثر ہوجانا چاہیے کہ وہ اس چیز کو حق مان لیں جس کے لیے ہم اُٹھ رہے ہیں، لاکھوں انسانوں کو ہماری پُشت پر اخلاقی اور عملی تائید کے لیے آمادہ ہونا چاہیے، اور ایک کثیر تعداد ایسے سرفروشوں کی تیار ہونی چاہیے جو بلند ترین اخلاق کے حامل ہوں اور اس مقصدِ عظیم کے لیے کوئی خطرہ، کوئی نقصان، کوئی مصیبت برداشت کرنےمیں تامل نہ کریں۔ (رُوداد جماعت اسلامی، اوّل، ۶۶-۶۷)
کیونکہ صرف کسی ایک ملک میں، عالمی دعوت کے بغیر، انقلاب برپا نہیں ہو سکتا، خصوصاً آج کے سیٹلائٹ کے دورمیں، جب عالمی طاقتیں اسلامی تحریکات کو ناکام بنانے کے لیے عرصے سے منصوبہ بندی کر رہی ہیں، اس لیے اس مرحلے میں رفقائے جماعت کو بین الاقوامی صورتِ حال کا بھی پورا ادراک ہونا چاہیے۔
جن دنوں برصغیر ہندوپاک میں جماعت ِ اسلامی کی تحریک برپا ہو رہی تھی، اُنھی دنوں میں مصر میں اخوان المسلمون کی تحریک حسن البناشہید کی رہنمائی میں مصروفِ عمل تھی۔ اس کے مقاصد بھی وہی تھے، جو جماعت ِ اسلامی کے مقاصد تھے۔ طریقِ کار میں جزوی فرق موجود تھا، لیکن طریقِ کار کے اصول چونکہ قرآن و سنت کی رہنمائی میں طے کیے گئے تھے، اس لیے یہ کوئی بنیادی فرق نہیں تھا۔
جماعت اسلامی اور اخوان کی یہ دو تحریکیں ہی وہ تحریکیں ہیں، جن کو اس وقت دُنیا بھر کی اسلامی تحریکیں بنیادی تحریکیں یا Mother Movements قرار دیتی ہیں۔ الاستاذ المودودی اور امام حسن البنا اس دور کی اسلامی تحریکوں کے دو مُسلمّہ رہنما ہیں۔ ان تحریکوں نے مسلمانوں کی جدید پڑھی لکھی نسل کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ کیونکہ جدید تعلیم یافتہ نسل کو ان تحریکوں کے لٹریچر میں اپنے تمام ذہنی سوالات کے جوابات مل گئے، اور انھیں یہ یقین حاصل ہو گیا کہ اسلام موجودہ دور میں نہ صرف قابلِ عمل ہے بلکہ ان تمام انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے، جن سے جدید دور کے انسان کو سامنا ہے۔
نئی نسل کا اس طرح اسلامی تحریک کی طرف لپکنے کا سبب دیکھ کر استعماری قوتیں پریشان ہو گئیں۔ ان کی یہ پریشانی ان کے دانش وروں کی نگارشات، ان کے جرائد اور اخبارات، اور ان کی نشریات میں صاف جھلکتی ہے۔ اٹلی کے وزیر خارجہ سے مشہور جریدے نیوزویک نے انٹرویو لیتے ہوئے پوچھا: ’’اب، جب کہ ’معاہدہ وارسا‘ کے ممالک مغرب کے لیے خطرہ نہیں رہے، تو ’نیٹو‘ (NATO)کا فوجی معاہدہ کس کے خلاف ہے؟‘‘ انھوںنے جواب دیا: ’’ہمیں نیٹو کے ممالک کے درمیان پائی جانے والی یک جہتی کوبرقرار رکھنا ہے، تاکہ اگر مستقبل میں مسلمان ممالک یورپ کے لیے خطرہ بنیں تو ان کا مقابلہ کیا جا سکے‘‘۔
لندن کے مشہور جریدہ اکانومسٹ نے امریکا کے تین سو ارب ڈالر کے سالانہ دفاعی بجٹ پر بحث کرتے ہوئے پوچھا:’’اشتراکی روس کے انہدام کے بعد یہ دیوہیکل دفاعی بجٹ کس کے خلاف ہے؟‘‘ تو خود اسے بھی مستقبل میںمسلمانوں کا خطرہ نظرآیا ہے۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مغرب کو اس مسلم دُنیا سے کیا خطرہ ہے جو ۵۸ سے زیادہ ٹکڑیوں میں منقسم ہے، اور یہ چھوٹی ٹکڑیاں بھی آپس میں اُلجھی ہوئی ہیں۔ بیش تر ٹکڑوں پر ایسی حکومتیں مسلط ہیں، جو استعماری مصلحتوں کے تابع ہیں۔ ان ممالک کے زیادہ تر وسائل مغربی تہذیب و ثقافت کی ترویج اور اسلامی تہذیب کی بیخ کنی پر صرف ہو رہے ہیں۔ ان کی معاشی منصوبہ بندی استعماری قوتوں کے سیاسی، معاشی، فوجی بلکہ تہذیبی مفادات کے تابع ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مغربی دُنیا کو خطرہ موجودہ مسلم حکمرانوں سے نہیں ہے۔ انھیں خطرہ اس سے ہے کہ تمام مسلم ممالک میں ایک مضبوط توانا اسلامی تحریک پورے اعتماد اور عزم سے پیش قدمی کر رہی ہے۔ اسلامی تحریک نے قربانی کی تاریخ میں ایک لازوال باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ شوقِ شہادت اور جدبۂ جہاد کے بل بوتے پر اس نے افغانستان میں دُنیا کی بڑی جنگی قوت کو پسپائی پر مجبور کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مغرب کی استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کر رہی ہے اور افغانستان سے اشتراکی روس کے نکلنے کے بعد امریکا کو قطعاً یہ اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ نئے رنگ میں انھیں غلامی کی زنجیریں پہنا سکیں۔
کشمیر کے عوام نے غلامی کی صدیوں پرانی جکڑ بندیوں کو توڑکر دُنیا کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا۔ وہ خالص اسلامی جذبے سے سرشار ہو کر، تھوڑے ہی عرصے میں اتنی زبردست تحریک شروع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ فلسطین کے مظلوموں نے، ’’حماس‘‘ کے زیرِ اہتمام، اسلامی جذبے سے سرشار ہو کر، انتفاضہ کی تحریک شروع کر دی۔ وہ تنگ نظر قومیتی سیکولرزم کے جال کو توڑنے میں کامیاب ہوئے۔ الجزائر، تیونس اور شمالی افریقہ کے دوسرے ممالک کی اسلامی تحریکوں نے نئی آب و تاب پیدا کی ہے۔
سب سے زیادہ اُمید افزا تبدیلی وسط ایشیا میں آئی ہے۔ ہزاروں مقفل مساجد کو مسلمانوں نے آگے بڑھ کر کھول دیا۔ اشتراکی آمریت میں جکڑے مقبوضہ مدارس کو پھر سے تعلیم و تربیت کے لیے اپنے انتظام میں لینے کی بامعنی سرگرمی کی۔ وسط ایشیا کی مسلم ریاستوں کا سفر کرکے آنے والوں کا مشاہدہ ہے کہ مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوئی ہیں، اور عشاء کے بعد جب بچے مسجدوں میں قرآن سیکھنے کے لیے جاتے ہیں تو تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ یہ اس علاقے کی صورتِ حال ہے جہاں دسمبر۱۹۹۱ء سے پہلے ہمیں چند ایسے مسلمان بھی بڑی مشکل سے ملتے تھے، جو روسی زبان میں ترجمہ کیاہوا ہمارا لٹریچر قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔
عالمِ اسلام میں یہ بیداری اچانک بلا سبب وجود میںنہیں آ گئی۔ اس کی پشت پر اسلامی تحریکوں کی طویل جدوجہد کارفرما ہے۔ خود اپنے معاشرے میں اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہمیں اسلامی تحریکوں کے دوش بدوش چلنا ہے۔
اپنے معاشرے میں ہمارا اصل ہدف کیا ہے؟ مولانا مودودیؒ کے ارشاد کے مطابق:
انقلابِ قیادت کی جدوجہد، یعنی ’سیاست‘ کوئی عارضہ نہ تھا، جو جماعت ِ اسلامی کو قیامِ پاکستان کے بعد کسی وقت یکایک لاحق ہو گیا ___میں بلاخوفِ تردید یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ دراصل یہی وہ امتیازی وصف ہے جو زمانۂ قریب کی تاریخ میں، جماعت ِ اسلامی کی تحریک کو دوسری تحریکوں سے ممیز کرتا ہے (آیندہ لائحہ عمل، ص۸۵-۸۶) ۔ دعوت ہو یا تنظیم، تربیت ہو یا اصلاح معاشرہ ’’یہ سارے کام کرنے کا فائدہ کیا ہے، اگر آپ ان کاموں سے حاصل ہونے والے نتائج کو اصل مقصد کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ساتھ ساتھ استعمال نہ کرتے چلے جائیں‘‘۔ (ایضاً، ص۷۰)
آپ خود سوچیے کہ اگر یہ ہدف آئینی اور جمہوری ذرائع سے حاصل ہونا ہے،اور انتخابات کے ذریعے ہونا ہے، تو وسیع پیمانے پر رائے عام کو اپنے ساتھ لینے کے علاوہ مقصد تک پہنچنے کا راستہ اور کیا ہو سکتا ہے؟
چنانچہ ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے قیام کے بعد ہی وہ عوامی تحریک برپا کرنے کی کوشش شروع کر دی گئی، جو اس سے پہلے مدھم اور سست مگر مستحکم توسیع کے کام کی خاطر مؤخر کی جا رہی تھی۔ اب ہمیں اس تحریک کو آگے بڑھانا ہے۔ پیچھے دیکھنے یا پلٹنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ انقلاب کے لیے ہر زمانے میں ذرائع اور مواقع اور حالات کے لحاظ سے مسلسل جدوجہد کی جاتی رہی ہے۔ آج کے حالات کے لحاظ سے بھی ماضی کے ورثے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے، اسی جدوجہد کو ہمیں آگے بڑھانا ہے۔
اس مقصد کے لیے ہمیں لٹریچر، تقریر، تعلیم، گفتگو، مکالمے، جلسے، جلوس، ریلی، نمائش، ویڈیو، بازار، گویا تمام ممکن ذرائع سے وسیع پیمانے پر کام کرنا ہے۔ عوام کو اسلامی نظام کی حمایت میں ایک ایسی منظم قوت بنا دینا ہے ’’جو دفاع اور ہجوم دونوں کا بل بوتا رکھتی ہو‘‘۔ اس مقصد کے لیے ہمیں زندگی کے سلگتے ہوئے مسائل و معاملات میں دخل دینا ہوگا، اور مخالف تحریکوں اور طاقتوں کے ساتھ دلیل، ابلاغ اور رائے عامہ کے میدان میں زور آزمائی بھی کرنا ہوگی۔ اگر ہم نے ان مسائل میں دخل دینے اور مخالفین کے ساتھ زور آزمائی کرنے سے گریز کیا تو مطلوبہ تغیر کی رفتار بہت سست رہے گی۔
یہ عوامی تحریک خود ایک دعوتی کام ہے۔ بعض لوگ دعوت کا کام صرف وہ شمار کرتے ہیں جس پر لفظ دعوت کا عنوان لگا ہو۔ وہ کام جن پر سیاست یا عوامی تحریک کا عنوان چسپاں ہو، وہ اسے سیاسی ہڑبونگ کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ اور یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اس عنوان کے تحت بھی دعوت کا کوئی کام ہوا ہے یا کیا جا سکتا ہے۔ مولانا مودودی کے الفاظ میں:
آپ ہزار کتابیں لکھ کر [یا پڑھ کر] بھی اتنا کام نہیں کر سکتے جتنا اس صورت میں کرسکتے ہیں کہ جس وقت کوئی اہم مسئلہ لوگوں کے سامنے درپیش ہو، اس وقت میدان میں آکر اس مسئلے میں ان کو صحیح رہنمائی دیں۔ (آیندہ لائحہ عمل، ص۱۲۷-۱۲۸)
ملک کے اندر تحریک کو آج جو بہت بڑا چیلنج درپیش ہے وہ مولانامودودیؒ کے درج بالا ارشاد کے دوسرے حصے سے متعلق ہے۔ یعنی یہ کہ، پاکستان بننے کے بعد ہم نے ایک مسلم معاشرے کے عوام میں تحریک برپا کرکے جس حد تک کام کرلیا ہے، اب اس کو کس طرح آگے بڑھائیں کہ اپنی اصل منزل تک پہنچ سکیں؟ دوسرے لفظوں میں، برسوں کی کاشت کاری کے ذریعے ہم نے ہزاروں انسانوں کی جو فصل تیار کی ہے، اور جس کا عشر عشیر بھی ابھی اصل مقصد کے لیے کام نہیں آ رہا، اس کو کام میںلگا کر اس مسلم معاشرے کی معتدبہ تعداد کو کس طرح انقلابِ امامت کے مقصد کے لیے متحرک کر دیا جائے؟
جماعت اسلامی کے لائحہ عمل کا ایک حصہ یہ بھی رہا ہے: ’’ہمارے معاشرے میں جو ایک بچا کھچا صالح عنصر موجود ہے، مگر منتشر ہونے کی وجہ سے یا اصلاح کی پراگندہ کو شش کرنے کی وجہ سے کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر رہا ہے، اسے چھانٹ چھانٹ کر ایک مرکز پر جمع کیا جائے، اور ایک حکیمانہ پروگرام کے مطابق اس کو اصلاح و تعمیر کی منظم سعی میںلگا دیا جائے‘‘ (آیندہ لائحہ عمل)۔ اور اب تو اس صالح عنصر میں خود ہمارے وابستگان کی ایک کثیر تعداد بھی شامل ہے۔ حلقۂ متفقین کا پروگرام اسی غرض کے لیے تھا، لیکن سچ بات ہے کہ وہ بھی قابل ذکر حد تک عملی جامہ نہیں پہن سکا۔
عوامی تحریک کا ایک اہم جزو عورتوں کا حلقہ ہے۔ وہ ہماری آبادی کا نصف حصہ ہیں۔ عورتوں کی راہ سے بگاڑ بھی تیزی سے آ رہا ہے۔ انھی کے ذریعے اصلاح کی رفتار بھی تیز تر ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ہم کو ایک ہی لگے بندھے طریقے سے کام کرنے کے بجائے حالات کے لحاظ سے موزوں تدابیر وضع کرنا ہوں گی۔
یہ سارا کام جماعت کی تنظیم میںمحبت و الفت، سمع و طاعت، اور مشاورت واحتساب کے نظام کا متقاضی ہے۔ تمسخر، تنابز بالالقاب، بدظنی، تجسّس، غیبت، ہمز، بلا تحقیق نقل وغیرہ سے پاک ہو کر چلنا ہوگا۔ ایک دوسرے کے لیے عزّت، احترام، محبت، الفت اور ذکرِ خیر کی صفات کو پروان چڑھانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جماعت میں اطاعت، شورائیت اور احتساب کا نظام اپنا کام کررہا ہے۔ لیکن ان اخلاقی فضائل کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
تحریک ِ اسلامی کے چار نکاتی لائحہ ٔ عمل کا یہ فطری تقاضا ہے کہ جوں جوں عوام ہمارے ساتھ آئیں گے، اور ہم انقلابِ قیادت کی منزل کے قریب پہنچیں گے اور اس کی گہما گہمی میں اضافہ ہوگا۔ ہمیں عوامی پذیرائی حاصل ہوگی تو کئی بالکل نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ ہمارے مستحکم توسیعی اور تربیتی کام کو اس گہماگہمی سے متاثر نہیں ہونا چاہیے، اور نہ اس گہماگہمی سے گھبرانا چاہیے۔ کیونکہ ابتدا ہی سے ہم نے ان کے درمیان توازن پیدا کرکے چلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس لیے ہم پوری دلجمعی سے دعوت الی اللہ کا کام کریں، عوام کو ساتھ لائیں، جو لوگ قریب آئیں ان کی وسیع پیمانے پر دینی اور اخلاقی تربیت کا انتظام کریں، اور انھیں منظم کریں۔ پھر اس پوری قوت کو اصلاحِ معاشرہ کے کام پر لگا دیں، اور عوامی بیداری پیدا کرکے انقلابِ قیادت کا راستہ ہموار کریں۔
ایک کام کی وجہ سے دوسرا کام ترک نہ کریں۔ کاموں میں کمی بیشی ہو سکتی ہے، تقسیمِ کار ہوسکتی ہے، دوسرے تنظیمی ڈھانچے بن سکتے ہیں، لیکن لائحۂ عمل کے کسی جز کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ایسا ہونا چاہیے، نہ یہ غلط مفروضہ قائم کرنا چاہیے کہ اگر عوامی کام ہو رہا ہے تو اس کے متوازی تعمیری مساعی کو ترک کیا جا چکا ہے۔
الحمدللہ! ہم اس طریقِ کار کے مطابق اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ منزل جوں جوں قریب آتی ہے، شوقِ منزل بڑھتا ہے اور رفتار میں اضافہ ہوتا ہے ع
تیز ترک گام زن منزل ما دور نیست
(پمفلٹ منشورات سے دستیاب ہے)