قرآن مزدوروں یا کاشت کاروں یا کارخانہ داروں کو نہیں پکارتا بلکہ انسانوں کو پکارتا ہے۔ اس کا خطاب انسان سے بحیثیت انسان ہے اور وہ صرف یہ کہتا ہے کہ اگر تم خدا کے سوا کسی کی بندگی، اطاعت، فرماں برداری کرتے ہو تو اسے چھوڑدو، اور اگر خود تمھارے اندر خدائی کا داعیہ ہے تو اُسے بھی چھوڑ دو کہ دوسروں سے اپنی بندگی کرانے اور دوسروں کا سر اپنے آگے جھکوانے کا حق بھی تم میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ تم سب کو ایک خدا کی بندگی قبول کرنی چاہیے اور اس بندگی میں سب کو ایک سطح پر آجانا چاہیے:
آئو ہم اور تم ایک ایسی بات پر جمع ہوجائیں جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور خداوندی میں کسی کو خدا کا شریک بھی نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے بجائے امرونہی کا مالک بھی نہ بنائے۔ (اٰل عمرٰن۳:۶۴)
یہ عالم گیر اور کُلی انقلاب کی دعوت ہے۔ قرآن نے پکار کر کہا ہے کہ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط (الانعام ۶:۵۷) ’’حکومت سوائے خدا اور کسی کی نہیں ہے‘‘۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ بذاتِ خود انسانوں کا حکمران بن جائے اور اپنے اختیار سے جس چیز کا چاہے حکم دے اور جس چیز سے چاہے روک دے۔ کسی انسان کو بالذات امرونہی کا مالک سمجھنا دراصل خدائی میں اسے شریک کرنا ہے اور یہی بنائے فساد ہے۔ اللہ نے انسان کو جس صحیح فطرت پر پیدا کیا ہے اور زندگی بسر کرنے کا جوسیدھا راستہ بتایا ہے، اُس سے انسان کے ہٹنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ لوگ خدا کو بھول جائیں اور نتیجتاً خود اپنی حقیقت کو بھی فراموش کردیں۔ اس کا نتیجہ لازمی طور پر یہی ہوتا ہے کہ ایک طرف بعض اشخاص یا خاندان یا طبقے خدائی کا کھلا یا چھپا داعیہ لے کر اُٹھتے ہیں اور اپنی طاقت سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر لوگوں کو اپنا بندہ بنالیتے ہیں۔ دوسری طرف اس خدافراموشی اور خود فراموشی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا ایک حصہ ان طاقتوروں کی خدائی مان لیتا ہے اور ان کے اس حق کو تسلیم کرلیتا ہے کہ یہ حکم کریں اور وہ اس حکم کے آگے سر جھکا دیں۔ یہی دُنیا میں ظلم و فساد اور ناجائز انتفاع کی بنیاد ہے۔ قرآن پہلی ضرب اسی پر لگاتا ہے۔ وہ ہانکے پکارے کہتا ہے:
وہ لوگوں سے پوچھتا ہے: ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ۳۹ۭ (یوسف ۱۲: ۳۹)، یعنی یہ بہت سے چھوٹے بڑے خدا جن کی بندگی میں تم پسے جارہے ہو، اِن کی بندگی قبول ہے یا اُس خدائے واحد کی جو سب سے زبردست ہے؟ اگر اس خدائے واحد کی بندگی قبول نہ کرو گے تو ان چھوٹے اور جھوٹے خدائوں کی آقائی سے تمھیں کبھی نجات نہ مل سکے گی، یہ کسی نہ کسی طور سے تم پر تسلط پائیں گے اور فساد برپا کرکے رہیں گے:
اسلام کی دعوتِ توحید و خدا پرستی محض اس معنی میں ایک مذہبی عقیدے کی دعوت نہ تھی جس میں اور دوسرے مذہبی عقائد کی دعوت ہوا کرتی ہے، بلکہ حقیقت میں یہ ایک اجتماعی انقلاب کی دعوت تھی۔ اس کی ضرب بلاواسطہ ان طبقوں پر پڑتی تھی جنھوں نے مذہبی رنگ میں پروہت بن کر، یا سیاسی رنگ میں بادشاہ بن کر اور رئیس اور حکمران گروہ بن کر، یا معاشی رنگ میں مہاجن اور زمیندار اور اجارہ دار بن کر عامۃ الناس کو اپنا بندہ بنا لیا تھا۔ یہ کہیں علانیہ ارباب من دون اللہ بنے ہوئے تھے۔ دُنیا سے اپنے پیدائشی یا طبقاتی حقوق کی بنیاد پر اطاعت و بندگی کا مطالبہ کرتے تھے اور صاف کہتے تھے کہ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرِيْ۰ۚ (القصص ۲۸:۳۸) (میں تو اپنے سوا تمھارے کسی خدا کو نہیں جانتا)، اور اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى۲۴ۡۖ (النازعات ۷۹:۲۴) (میں تمھارا سب سے بڑا ربّ ہوں)، اور اَنَا اُحْیِ وَاُمِیْتُ (البقرہ ۲:۲۵۸) (زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے)، اور مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً ط (حم السجدہ ۴۱:۱۵) (کون ہے ہم سے زیادہ زورآور؟)، اور کسی جگہ اُنھوں نے عامۃ الناس کی جہالت کو استعمال کرنے کے لیے بتوں اور ہیکلوں کی شکل میں مصنوعی خدا بنا رکھے تھے جن کی آڑ پکڑ کر یہ اپنے خداوندی حقوق بندگانِ خدا سے تسلیم کراتے تھے۔ پس کفروشرک اور بُت پرستی کے خلاف قرآن کی دعوت اور خدائے واحد کی بندگی و عبودیت کے لیے قرآن کی تبلیغ براہِ راست حکومت اور اس کو سہارا دینے والوں یا اُس کے سہارے چلنے والے طبقوں کی اغراض سے متصادم ہوتی تھی۔ اس وجہ سے جب کبھی کسی نبی ؑ نے يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۰ۭ (الاعراف۷:۵۹)کی صدا بلند کی ، کہ اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمھارا کوئی خدا نہیں ہے، تو حکومت ِ وقت فوراً اس کے مقابلے میں آن کھڑی ہوئی اور تمام ناجائز انتفاع کرنے والے طبقے اس کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے کیونکہ یہ محض ایک مابعد الطبیعی قضیہ کا بیان نہ تھا بلکہ ایک اجتماعی انقلاب کا اعلان تھا۔
آپ نے بہت سی شخصیات کے قبولِ اسلام کے واقعات سنے ہوں گے، مگر یوسف اوک نامی لندن کے رہائشی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بہت منفرد واقعہ تھا۔ اُن کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ اولڈ ٹریفرڈ میں واقع مانچسٹر یونائیٹڈ سٹیڈیم سے قرآن کے نسخے کی دریافت سے ہوا۔
یہ ۲۰۰۷ء کی بات ہے جب یوسف مانچسٹر فٹ بال یونائیٹڈ کلب کے لیے کام کرتے تھے۔ ایک روز انھیں سٹیڈیم سے قرآن کا ایک نسخہ ملا۔اسلام کو تلاش کرنے کے اپنے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے پیدائشی کیتھولک نومسلم یوسف نے بتایا کہ’ ’یہ تھوڑا عجیب واقعہ تھا، یعنی اسٹیڈیم سے قرآن کا ملنا۔ جب مجھے وہ قرآن کا نسخہ ملا تو وہ تھوڑا گرد آلود تھا۔ اس نسخے کو دیکھتے ہی میرے اندر ایک احساس پیدا ہوا کہ میں اسے اٹھاؤں اور اسے صاف کروں‘‘۔ نیلی جلد والے قرآن کو صاف ستھرا کرنے کے بعد انھوں نے اسے اپنے کمرے میں رکھ لیا۔ یہ جان کر کہ گھر میں قرآن موجود ہے، یوسف کی بیوی نے اُن سے اختلاف کیا اور اس بات پر ناراض ہو گئیں اور یوسف سے کہا کہ ’’یہ کتاب ہمارے گھر میں نہیں ہونی چاہیے۔ میں اسے کوڑے دان میں پھینک دوں گی‘‘۔
یوسف نے بتایا کہ میں نے جواب دیا کہ اس سے پہلے کہ تم اس قرآن کو پھینکو، میں تمھیں کہیں پھینک دوں گا۔
میرا یہ جواب سُن کر بیوی نے سوال کیا کہ ’’تم مسلمان نہیں ہو تو پھر ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘ میں نے جواب دیا کہ ’’تم نے اس کتاب کی ایک لائن بھی نہیں پڑھی، پھر بھی تم اسے فوراً پھینک دینا چاہتی ہو‘‘۔میرے بھرپور دفاع کی وجہ سے قرآن کا نسخہ اسی گھر میں موجود رہا۔
اگرچہ اس وقت یوسف نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ خود حیرت زدہ تھے کہ ان میں اسلام کا دفاع کرنے کی شدید خواہش کیوں موجود ہے؟ انھوں نے اسے ’فطرت کی طرف واپس آنے کی خواہش‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔اور انھیں اپنے اندر چھپی اس خواہش کا احساس اس وقت بھی ہوا جب وہ اور اُن کے دوست سپین کے ایک سیاحتی مقام پر چھٹیاں گزار رہے تھے۔ وہ سیاحتی مقام ایسے نوجوانوں میں کافی مقبول ہے جو پارٹی اور شراب پینے میں وقت گزارنا چاہتے ہوں۔
وہ اور اُن کے دوست ’ایڈن‘ نامی نائٹ کلب کی طرف جا رہے تھے۔ اس نائٹ کلب کا تعمیری نقشہ کسی مسجد سے بہت ملتا جلتا تھا، جس پر سنہری گنبد اور مینار بھی تھے۔ یوسف کے مطابق نائٹ کلب کے سامنے پہنچ کر ایک بار پھر ایک عجیب سا احساس میرے اندر پیدا ہوا اور اس احساس کے تحت میں کلب میں داخل نہیں ہونا چاہتا تھا۔
جب میں نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ ’میں آج رات کلب نہیں جاؤں گا‘ تو وہ ناراض ہوگئے۔ ایک دوست نے کہا کہ’ ’تم تو مسلمان نہیں ہو تو پھر تم اس جگہ کیوں نہیں جانا چاہتے؟‘‘ اس موقع پر سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ۔ بہرحال میں نائٹ کلب میں داخل نہیں ہوا اور اپنی راہ لی۔
بقول یوسف ان دو واقعات کے بعد اسلام قبول کرنے کی خواہش میرے دل میں روز بروز بڑھتی گئی، لیکن ساتھ ہی وہ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتا تھا کہ میرا یہ فیصلہ مکمل طور پر درست اور صحیح ہو۔چنانچہ میں نے ایسے بہت سے افراد سے رابطہ کیا جنھوں نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیا تھا۔ پھر مسلم علما سے بھی رابطہ کیا اور سوالات پوچھے۔
یوں اسلام قبول کرنے کا فیصلہ اس وقت اور بھی پختہ ہو گیا جب میں ایک ایسے مسلمان سے ملا جو اسلام کے بارے میں ان کے سوالات کا تسلی بخش جواب دے سکتے تھے اور جب مجھے اسلام کے بارے میں مختلف سوالات کے جوابات ملے تو اسلام قبول کرنے کے اپنے فیصلے کے حوالے سے پُراعتماد ہوگیا۔اور پھر وہ موقع آیا جب میں نے اپنے گھر کے قریب واقع ایک مسجد کی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور کلمہ پڑھ لیا۔
یہیں سے یوسف کی ظاہری اور باطنی شخصیت کی مسلمان ہونے کی طرف منتقلی شروع ہوئی، جس کی ابتدا ایسی عادتوں کو ترک کرنے سے ہوئی جو اسلام میں جائز نہیں۔ انھوں نے داڑھی رکھ لی اور ہمیشہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی کوشش کرتے۔ یوسف کہتے ہیں کہ سچ پوچھیں تو تبدیلی کا یہ سفر آسان نہیں ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جو خواتین اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں، ان کے لیے یہ تبدیلی اور بھی زیادہ مشکل ہے۔ میرا مشورہ یہی ہے کہ اس دوران ثابت قدم رہیں۔ جو خواتین اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں انھیں مردوں کے مقابلے میں اور زیادہ قوت اور جذبۂ ایمانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
برطانیہ میں ۲۰۲۱ء کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی تعداد مجموعی ملکی آبادی کا۶ء۵ فی صد ہے، جب کہ ۲۰۱۱ء میں ۴ء۹ فی صد تھی۔(بی بی سی لندن، انڈونیشیا سروس)
سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ’شریعت‘ سے مراد کیا ہے؟ بعد میں یہ عرض کروں گا کہ اس کے نفاذ کا کیا مطلب ہے، اور آخر میں یہ بتائوں گا کہ پاکستان میں اس کے نفاذ کے امکانات کیا ہیں اور کیا ضروری شرائط ہیں؟
’شریعت‘ سے مراد محض قانون نہیں ہے، جس کو عدالتوں کے ذریعے نافذ کیا جائے۔ ’شریعت‘ قانون کے ہم معنی نہیں۔ ’شریعت‘ سے مراد زندگی کا پورا نظام ہے، جو عقائد و ایمانیات سے شروع ہوتا ہے ، اور عبادات واخلاقیات پر منتج ہوتا ہے۔یہ زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے۔
مثال کے طور پر آپ سے عرض کرتا ہوں کہ حدودِ شریعہ میں سے ایک شرعی حد یہ ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دو۔ اس کے اُوپر عمل وہی لوگ کرسکتے ہیں، جن کے دلوں میں ایمان ہو۔ وہ سچّے دل سے یہ سمجھتے ہوں کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ سچّے دل سے یہ مانتے ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی اور کلام نازل ہوا ہے۔ یہ اللہ کا حکم ہے، جو رسولؐ کی زبان سے جاری ہورہا ہے، اور سچّے دل سے یہ مانتے ہوں کہ اگر ہم نے اس کے نافذ کرنے میں ذرّہ برابر بھی کوتاہی کی تو آخرت میں ہمیں اللہ کے رُوبرو جواب دہ ہونا پڑے گا۔ اگر یہ چیزیں موجود نہیں ہیں تو حدودِ شرعیہ کا اجراہو نہیں سکتا، ممکن ہی نہیں۔
کوئی ایسا فرد جس کو قانون کی شکل میں حد ِ شرعی ملے، لیکن وہ اس پر ایمان نہ رکھتا ہو، تو وہ پہلی فرصت تلاش کرے گا جس میں اس قانون کو منسوخ کرے اور اپنے لیے نیا قانون بنائے۔ اسی طرح جن لوگوں پر یہ قانون نافذ کیا جاتا ہے، اگر ان کے اندر ایمان نہ ہو، وہ یہ نہ مانتے ہوں کہ قرآن برحق ہے اور اسلام کے قانون میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہی ہے۔ اگر وہ اس کے اُوپر یقین نہ رکھتے ہوں، تو ہوسکتا ہے کہ کسی غریب، چھوٹے اور بے اثر آدمی کے ہاتھ تو کاٹ دیئے جائیں، لیکن اگر کسی بااثر آدمی کا ہاتھ کاٹنے کی نوبت آجائے تو بغاوت برپا ہوجائے۔ وہ آبادی اس چیز کو برداشت ہی نہیں کرے گی کہ یہ قانون نافذ ہو ۔ اس لیے شریعت سب سے پہلے جس چیز کا تقاضا کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس کو نافذ کرنے والے اور جن لوگوں پر اس کا نفاذ کیا جائے ان کے اندر ایمان ہو، ان کے دلوں میں ایمان ہو۔
آپ دیکھیے کہ فقہ کی کتابیں بابِ عبادت سے شروع ہوتی ہیں۔ دُنیا کا کوئی قانون آپ کو ایسا نہیں ملے گا، جس کے اندر طہارت کے مسئلے سے بحث کی گئی ہو، بلکہ حقیقت میں دُنیا کی کسی زبان میں طہارت کا ہم معنی لفظ موجود نہیں۔ مغربی ممالک جانتے ہی نہیں کہ طہارت کس چیز کو کہتے ہیں؟ ان کی زبان میں اس کا ہم معنی لفظ موجود نہیں، لیکن اسلامی شریعت، طہارت سے بحث کرتی ہے جو کہ ایک فرد کا معاملہ ہے، اور پھر افراد کے اندر طہارت پیدا کرتی ہے۔ افراد کے اندر اسلامی اخلاق پیدا کرتی ہے۔ افراد کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے آمادہ کرنا، ان کو بندگی کے طریقے سکھانا، یہ شریعت کا کام ہے۔ پھر افراد کو جوڑ کر ایک جماعت بنانا اور اس جماعت کے اندر اسلامی طریقے رائج کرنا۔ عبادات سے لے کر نکاح کے معاملات تک اور تجارت سے لے کر سیاست اور قانون و عدالت کے معاملات تک، جنگ سے لے کر صلح تک اور ملک کی مالیات سے لے کر ملک کی صنعت و حرفت تک، ہرچیز کے بارے میں قانون موجود ہے۔
اس چیز کو اگر نافذ کرنا ہے تو آدمی یہ سمجھ لے کہ انسانوں کی پوری زندگی کو بدل ڈالنا ہے۔ یہ نہیں ہے کہ صرف ایک پہلو سے ان کی زندگی کو بدلا جائے، بلکہ ان کی پوری زندگی کو ہرپہلو سے، افراد سے لے کر جماعت تک، پوری آبادی کو بدلنا ہے۔ ان کے اندر ایمان اُتارنا ہے۔ ان کے اندر اخلاقیات پیدا کرنی ہیں۔ ان کے اندر آمادگی پیدا کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قانون کی پابندی کریں اور اس کے بعد تمام معاملات کو اس کے مطابق ڈھالنا ہے۔ مارکیٹ میں جو لین دین ہورہا ہے، اس کے اُوپر بھی شریعت کو نافذ کرنا ہے۔ بنکوں میں جو مالیاتی لین دین ہورہا ہے ، ان کو بھی شریعت کے مطابق بدلنا ہے۔ یہ انشورنس کمپنیاں جو چل رہی ہیں، ان کو بھی شریعت کے مطابق بدلنا ہے۔ حکومت جو ٹیکس لگاتی ہے اور ٹیکس لگا کر جس طرح خرچ کرتی ہے، ان دونوں چیزوں میں، پھر جو قرض دیتی ہے اور جو قرض لیتی ہے، اور قرض لے کر جس طرح خرچ کرتی ہے، ان سب پر بھی شریعت کے احکام کو نافذ کرنا ہے۔ عدالتوں میں بھی شریعت کے احکام کو نافذ کرنا ہے۔
حکومت کے انتظامی شعبوں کو بھی شریعت کے مطابق بدلنا ہے۔ مثال کے طور پر اگر پولیس کے محکمے میں کثیرتعداد بے ایمان ملازمین کی ہے تو اسلامی شریعت کا نفاذ نہیں ہوسکتا۔ وجہ یہ ہے کہ ایک بے ایمان پولیس کے ہاتھ میں اسلامی شریعت دے دی جائے تو وہ پوری آبادی کو نچوا دے گی۔ اس لیے پوری انتظامی پالیسی کو بدلنا ضروری ہے۔ رشوت خور لوگ اسلامی شریعت کو نافذ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
اس طرح سے شریعت کی اس حیثیت کو نگاہ میں رکھیے کہ یہ پوری زندگی کا قانون ہے، کسی ایک پہلو کا ضابطہ نہیں۔ یہ ایمان سے لے کر معاملات کے چھوٹے سے چھوٹے اجزا تک، حتیٰ کہ سڑکوں کی صفائی تک سے بھی بحث کرتی ہے۔ سڑک پر کوئی شخص کانٹے بچھاتا ہے، یا لوگوں کو تکلیف دینے والی چیز ڈالتا ہے، کوئی نجاست پھینکتا ہے تو وہ ایک گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ ان سارے معاملات پر شریعت حاوی ہے اور رہنمائی دیتی ہے۔
شریعت کے زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہونے کے پہلو کو نگاہ میں رکھنے کے بعد اب دیکھیے کہ اس کے نفاذ کا کیا مطلب ہے؟
اس کے نفاذ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے مدرسوں میں بیٹھ کر صرف شریعت کی کتابیں پڑھیں۔ اس کے نفاذ کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ وعظوں میں، تقریروں میں اور اپنے خطبوں میں اس کو محض بیان کریں۔ اس کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ احکامِ شریعت کو پوری طاقت، شعور، عقل اور عدل سے نافذ کیا جائے۔ جو کام صدرِ مملکت کا ہے وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کرے۔ جو وزیراعظم کے کرنے کا کام ہے وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کرے۔ جو گورنروں اور صوبے کے وزراء کا کام ہے، وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کریں۔ جو مالیات کے محکمے کا کام ہے، جو عدالت کے محکمہ کا کام ہے، جو اقتصادیات کے محکموں کا کام ہے، جو صحت و تندرستی کے محکموں کا کام ہے، وہ سارے کے سارے شریعت کے مطابق چلیں۔ یعنی صرف کوئی ایک چیز نہیں ہے جو درکار ہو، بلکہ پوری کی پوری حکومت کا نظام، پورے کا پورا تجارت و صنعت و حرفت و اقتصادیات کا نظام، پورے کا پورا عدالتی اور معاشرتی نظام، سب کچھ اس کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہرچیز میں اس کو نافذ کرنا چاہیے۔ جو چیز محلّے کے لوگوں کے نافذ کرنے کی ہے، اسے وہ نافذ کریں۔ جو میونسپلٹیوں کے نافذ کرنے کی ہیں، انھیں وہ نافذ کریں۔ جو چیز لیجسلیٹو اسمبلی کے کرنے کی ہے، وہ اپنے دائرے میں اسے نافذ کرے۔ پوری کی پوری گورنمنٹ اس کے مطابق ہونی اور چلنی چاہیے۔ نہ یہ کہ کسی فرد کو ’شیخ الاسلام‘ بناکر بٹھا دیا جائے، یا وزارتِ مذہبی اُمور بنا دی جائے اور سمجھ لیا جائے کہ شریعت کا نفاذ ہوگیا۔یہ بات نہیں ہے، بلکہ پورے کے پورے نظامِ حکومت کو تبدیل کرنا اور اسلام کے مطابق چلانے کا نام ہے نفاذِ شریعت۔ یہ پہلو مختصراً عرض کررہا ہوں، ورنہ اس کی تفصیل زیادہ ہے۔
اب دیکھیے کہ پاکستان میں اس کا نفاذ کیسے ہوسکتا ہے؟
پاکستان میں نفاذِ شریعت کیوں نہیں ہوا؟
پاکستان میں اس کے نفاذ میں اختلاف کیوں پیدا ہوا؟ ویسے تو ہم ایک مسلمان قوم ہیں، اور پاکستان اسلام کا نام لے کر بنایا گیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا اور فطرتاً آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ آپ سے آپ ہونا چاہیے تھا کہ جس روز پاکستان بنا تھا، شریعت ِاسلامی اسی روز نافذ ہوجاتی۔ لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا؟ اس کی کچھ وجوہ ہیں:
ایک وجہ یہ ہے کہ ایک مدتِ دراز تک یہاں کفر کی حکومت مسلط رہی ہے۔ اس نے تعلیم کا نظام ایسا بنایا کہ جس نے لوگوں کے ذہن بدل کر رکھ دیئے، سوچنے کے انداز بدل دیئے۔ اُس نظامِ حکومت نے اپنی تعلیم کے اثر سے لوگوں کو اس حد تک بہکایا کہ قلیل تعداد تعلیم یافتہ لوگوں کی ایسی رہ گئی، جو واقعی دل میں ایمان رکھتی ہو اور سچّے دل سے مانتی ہو کہ اللہ کے رسولؐ جو کچھ لائے وہ برحق ہے، ورنہ ایک کثیر تعداد ایسی تیار ہوگئی، جو اس بات کی قائل ہی نہیں تھی کہ وحی آسکتی ہے۔ جو اس بات کی قائل ہی نہیں رہی تھی کہ نبوت بھی کسی چیز کا نام ہے، جو سمجھتے تھے کہ نبوت اور وحی افسانے ہیں۔ ان کے نزدیک جو کچھ یورپ اور امریکا سے آتا ہے، بس وہی برحق ہے۔ اس کے بارے میں کوئی سوال کرنے کی حاجت نہیں، جیساکہ وہ آرہا ہے جوں کا توں مان لیں گے۔ اس میں کوئی چیز شک کی اور دریافت طلب بات نہیں ہے۔ مگر وہ کتاب جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ لاریب فیہ، ان کے نزدیک اس میں ہرریب اور شک کی گنجایش ہے۔ تو یہ اُس تعلیم کے اثرات تھے۔
ان میں جن لوگوں نے اپنا ایمان کچھ بچایا، ان کی فکر اسلامی نہیں تھی اور سوچنے کا انداز اسلامی نہیں تھا۔ جنھوں نے سوچنے کا انداز اسلامی بنانے کی کوشش کی، ان کے پاس علم اسلامی نہیں تھا۔ وہ یہ بات جانتے ہی نہیں تھے کہ اسلام کیا ہے،اس کے احکام کیا ہیں اور کس قسم کا نظام وہ چاہتا ہے؟
جس وقت ہم نے یہ نام لینا شروع کیا کہ ’اسلامی نظامِ حکومت قائم ہونا چاہیے‘ تو لوگ پوچھتے تھے کہ ’اسلامی نظامِ حکومت سے کیا مراد ہے؟‘ عام لوگ ہی نہیں، بلکہ بعض دفعہ خود علما کے لیے بھی یہ سمجھنا مشکل ہوتا تھا۔ بعض لوگوں نے ہم سے یہاں تک کہا کہ ’یہ تم کس چیز کی باتیں کر رہے ہو۔ یہ اس زمانے میں چلنے والی چیز نہیں‘ اور میں نے ان سے یہ عرض کیا کہ ’حضور اگر یہ چلنے والی چیز نہیں تو اس پر ایمان کیوں رکھتے ہیں؟ پھر جو چلنے والی چیز ہے اس پر ایمان لایئے‘۔ بعض علما سے میری بات چیت ہوئی، جس میں انھوں نے مجھ سے یہ بات کہی اور میں نے ان سے یہی عرض کیا۔
ایک اچھا خاصا گروہ یہ سمجھتا تھا کہ اگر ’شیخ الاسلامی‘ قائم ہوجائے اور قضائے شرعی کا انتظام ہوجائے تو بس اسلام کا نفاذ ہوجائے گا، سمجھ لیجیے اسلامی نظام نافذ ہوگیا۔ جب ہمارے دینی مدارس کے فارغ التحصیل لوگوں کے یہ خیالات تھے، تو آپ اندازہ لگایئے کہ کالجوں اور یونی ورسٹیوں سے نکلنے والے لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ ان کے اندر ایسے لوگ بھی موجود تھے، جو یہ کہتے تھے کہ اگر ہم اسلامی نظام یہاں نافذ کریں گے تو ہم دُنیا کو کیا منہ دکھائیں گے کہ یہ چودہ سو برس پہلے کا قانون یہاں نافذ کر رہے ہیں۔ یہ باتیں ہم نے خود سنی ہیں، جب ہم نے یہ سوال اُٹھایا کہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیے۔ اس بات کا اس وجہ سے ذکر کر رہا ہوں کہ آپ کو وہ رکاوٹیں سمجھ میں آجائیں۔
باوجود اس کے کہ یہ ایک مسلمان قوم تھی اور اس نے اسلام کا نام لے کر پاکستان قائم کیا تھا، لیکن وہ اسلام کا نظام نافذ نہیں کرسکی۔ کیوں نہیں کرسکی؟ اس کے جو کارفرما لوگ تھے، جن کے ہاتھ میں اقتدار اور نظام تھا، ان کی تعلیم و تربیت کسی اور طرز پر ہوئی تھی۔ وہ جانتے بھی نہ تھے کہ اسلام کیا ہے؟ ان کے سوچنے کا انداز بھی اسلامی نہ تھا اور ان کے اندر خواہش بھی اسلامی نظام کو نافذ کرنے کی نہیں تھی۔ نہ اس کو وہ جانتے تھے کہ اسلامی نظام کیا چیز ہے، نہ اس کو مانتے تھے کہ وہ برحق ہے اور نہ وہ یہ ارادہ رکھتے تھے کہ اس کو نافذ کرنا چاہیے۔ ظاہر بات ہے یہ پھر کیسے نافذ ہوسکتا تھا؟
جہاں تک عام آبادی کا تعلق تھا اور ہے، اس کے اندر اسلام کے ساتھ عقیدت موجود ہے۔ بلاشبہہ یہ بہت بڑا سرمایہ ہے۔ اس کے اندر ایمان بھی مجمل طور پر موجود ہے۔ چاہے وہ ایمان کی تفصیلات نہ جانتے ہوں، لیکن مجمل طور پر ایمان ان میں ہے۔ وہ خدا کو مانتے ہیں، رسولؐ کو مانتے ہیں بلکہ رسولؐ کے نام پر جان دینے کو تیار ہیں۔ قرآن کو برحق مانتے ہیں، اس کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں۔ آخرت کے بھی منکر نہیں ہیں۔ یہ ساری چیزیں موجود ہیں لیکن کفّار کی ایک طویل مدت کی حکومت اور کافرانہ قوانین کے اجرا نے اور ان کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کردینے نے، اس مدتِ دراز کے اندر لوگوں کے عادات و خصائل بدل ڈالے ہیں۔
مسلمان جانتا ہے کہ یہ گناہ ہے لیکن اس میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہی چیز اس پر مسلط ہے۔ ہر طرف سے وہ اس پر محیط ہے، مثلاً سود کو کون مسلمان نہیں جانتا کہ سود حرام ہے، مگر جب سود ہی پر سارا نظام قائم ہوجائے، تجارت کا، صنعت و حرفت کا، مالیات کا، تو کون آدمی اس سے بچے؟ اس میں مبتلا ہوتے وقت مسلمان کو یہ فکر ہوتی ہے کہ کسی طرح اسے بھی حلال کر دیا جائے کیونکہ حرام کو حرام جانتے ہوئے اس کو کرنا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ یہ تو وہ کرنہیں سکتا کہ حرام سے اجتناب کرے، مگر چاہتا یہ ہے کہ کسی طرح حرام کو حلال کردیا جائے۔ اب تک میرے پاس ایسے لوگ آتے ہیں، جو اسی طرح کے سوالات کرتے ہیں اور میں ان سے کہتا ہوں کہ بھائی حرام کو حلال کرنے کے اختیارات مجھے حاصل نہیں۔ پھر کیسے آپ کے لیے حلال قرار دوں؟
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک کافرانہ نظام کے تسلط کی بدولت لوگوں کے سوچنے کے انداز ہی نہیں بدلتے، عادات بھی بدل جاتی ہیں اور ان کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ نظام اسلامی کو برحق ماننے کے باوجود اس کے برعکس چیز سے پرہیز کریں۔ اب اس کے بعد جب ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی حکومت آئی جو نہ اسلام کو جانتے تھے، نہ اسلام کو نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، نہ اسلام کو نافذ کرنے کی قابلیت رکھتے تھے، تو ان کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ اگر ہم اس بات کو پھیلنے دیں کہ ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہو اور عام لوگوں کے اندر اس بات کی طلب پیدا ہوجائے، تو پھر ہمارا چراغ کہاں جلے گا؟ لوگ ہماری طرف کیسے توجہ کریں گے؟ پھر لازماً اس کی تلاش ہوگی جو اسے نافذ کرسکے۔
اس لیے انھوں نے گذشتہ برس اس کام پر صرف کیے کہ قوم کے مزاج کو بدلا جائے۔ ان کے اخلاق کو بدلا جائے۔ ان کے اندر بُرائیوں کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔ اس کو زیادہ سے زیادہ اخلاق باختگی کا رسیا بنایا جائے۔ اس کے اندر جہاں تک ہوسکے شراب خوری پھیلائی جائے۔ اس کو زیادہ سے زیادہ سود میں مبتلا کیا جائے، اتنے سود میں جتنا انگریز کے زمانے میں بھی نہیں تھا۔ اس میں مخلوط تعلیم رائج کی جائے تاکہ عورتوں اور مردوں کے میل جول سے جو کچھ تہذیب و تمدن کا ستیاناس ہوتا ہے اور ہورہا ہے، وہ اور زیادہ ہو۔ غرض یہ کہ انھوں نے ہرممکن طریقے سے پوری قوم کو بگاڑ دینے کا پروگرام بنایا، جس پر برابر عمل ہوتا رہا ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ نفاذِ شریعت کے لیے جس قسم کا ماحول چاہیے اس نوعیت کا ماحول بنانے کے بجائے، اس کے برعکس نوعیت کا ماحول بنایا گیا۔
اب جب ہم یہ سوچنے کے لیے بیٹھیں گے کہ ہم یہاں نفاذِ شریعت کیسے کریں؟ تو اس کے لیے سب سے پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان اُتارنا پڑے گا۔
ان راستوں سے گزرنے کے بعد بھی بدر و اُحد کے دنوں کو یاد کیجیے اور حُنین کا معرکہ بھی یاد کرلیجیے۔ ایسے تمام حالات میں اپنے سے کئی کئی گنا زبردست طاقتوں کے مقابلے میں آدمی کھڑا ہو اور ہرمصیبت اور ہرمشکل و تکلیف کو یاد کرلے اور کوئی پروا نہ کرے کہ مقابلے میں کتنی بڑی طاقت ہے۔ کوئی پروا نہ کرے کہ کتنی زیادہ چوٹ مجھے لگتی ہے۔ کتنا میں قید کیا جاتا ہوں اور کتنی مجھے اذیت دی جاتی ہے، اور کیسے کیسے زبردست دشمنوں سے مجھے سابقہ پیش آرہا ہے۔ کس آگ کے گڑھے کی طرف لے جایا جارہا ہوں۔ اس سب کچھ کی پروا کیے بغیر جو لوگ آگے بڑھیں گے، وہ یہاں نظامِ شریعت نافذ کرسکتے ہیں اور باطل پر قابو پاسکتے ہیں۔
آپ یہ بات ضرور یاد رکھیے کہ آپ کو جان مار کر ایک مدت دراز تک کام کرنا پڑے گا، یہاں تک کہ وہ مرحلہ آجائے، جس میں ذرا سی عقل رکھنے والے لوگ بھی اَزخود جگہ خالی کردیتے ہیں، اور خود ہٹ جاتے ہیں۔ وہ مرحلہ جب آجاتا ہے تو ان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اب ہمارا چراغ اس قوم میں نہیں جل سکتا، اس لیے بہتر ہے کہ وہ خود ہی پیچھے ہٹ جائیں۔ اس مرحلے پر پہنچ کر وہ اگر نہ ہٹیں تو ان کو ہٹانا کوئی مشکل کام نہیں رہ جاتا، بشرطیکہ قوم کے اندر پورا عزم پایا جائے۔
میں نے ایک عام تصوّر آپ کے سامنے رکھ دیا ہے کہ شریعت اسلامی کیا ہے؟ اور یہ بھی آپ کے سامنے واضح ہوگیا ہے کہ اس کے نفاذ کے کیا معنی ہیں؟ اور یہ بھی آپ کے سامنے آگیا ہے کہ اس کو نافذ کرنے کا راستہ کیا ہے؟ اب یہ ایک سوال باقی رہ جاتا ہے کہ کیا یہاں اس کا امکان ہے؟
آپ سے عرض کرتا ہوں کہ امکان کے سوال کے دو جواب ہیں:
اس کام کو وہی لوگ کرسکتے ہیں جو یہ شرط نہ لگائیں کہ ہم اس کو اپنے سامنے نافذ ہوتا ہوا دیکھیں۔ اس لیے کہ نامعلوم کتنوں کو اس کے نفاذ کی کوشش میں پہلے ہی جان دینی پڑے۔ ذرا سوچیے، بدر میں جن لوگوں نے شہادت پائی اگر وہ جان نہ دیتے اور یہ کہتے کہ ’ہمیں تو اس وقت کے لیے زندہ رہنا ہے جب اس نظام کو نافذ ہوتا دیکھیں گے ، دُنیا پر غالب ہوتا دیکھیں گے‘، تو دُنیا پر اسلام غالب نہیں ہوسکتا تھا۔ مگر یہ غالب ہوا اس طرح کہ بکثرت لوگ اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔ انھوں نے اس بات کی فکر نہیں کی کہ یہ نافذ ہوسکے گا یا نہیں۔ انھوں نے صرف یہ دیکھا کہ یہی ہمارا فرض ہے۔ ہمیں اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنی ہے، جس کے نتیجے میں شہادت آتی ہے تو اس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں۔ اس نظریئے کے ساتھ، اس سوچ کے ساتھ وہ آئے اور انھوں نے آکر کام کیا۔ ان کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ پہلے ہی قبول کرنے والا تھا، وہ قبول ہوگئیں۔ لیکن جو جان لڑانے والے تھے اور بچ رہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ سے دین اس طرح سے غالب کیا کہ دُنیا کے بڑے حصے پر چھا گیا۔
حضرت لوط علیہ السلام کے قصّے میں آتا ہے، جس وقت فرشتے قومِ لوطؑ پر عذاب دینے کے لیے بھیجے گئے تو انھوں نے کہا: فَمَا وَجَدْنَا فِيْہَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ۳۶ۚ (الذاریات ۵۱:۳۶)، یعنی پوری قوم میں ایک مسلم گھر تھا اور کوئی نہیں۔اب اس کے بعد ہوتا کیا ہے؟ جو مسلم گھر تھا، اس کے لوگوں سے کہا گیا کہ نکل جائو اور حضرت لوطؑ سے کہا گیا کہ بیوی کو چھوڑ جائو، یہ عذاب میں پکڑی جائے گی، یعنی اس گھر میں بھی کافرہ موجود تھی اور وہ گھر پورے کا پورا مومن نہیں تھا۔ ان کو چھوڑ دیا گیا اور اس کے بعد جو عذاب لایا گیا وہ آپ جانتے ہیں کہ قرآن پاک میں واضح ہے۔ لہٰذا، اگر ایک قوم نہ چاہتی ہو کہ ان کے اُوپر اسلامی نظام نافذ ہو، ایک قوم اگر نہ چاہتی ہو کہ اس کے معاملات ایمان دار اور خداترس لوگ چلائیں، ایک قوم خود بددیانت اور بے ایمان لوگوں کو چاہتی ہو، تو اللہ تعالیٰ ان کو زبردستی نیک لوگ نہیں دیتا۔ان نیک لوگوں کا اجر اللہ کے پاس ہے، وہ ناکام نہیں ہیں۔ اگر ان کی بات نہ چلے تو وہ ناکام نہیں ہیں، ناکام تو وہ قوم ہے جس نے ان کا ساتھ نہ دیا۔
مومن کا کام تو یہ ہے کہ اگر اس کے نافذ ہونے کا ایک فی صد امکان نہ ہو بلکہ ایک فی ہزار بھی امکان نہ ہو، تب بھی وہ اس کے لیے جان لڑائے۔ اس راستے میں کوشش کرتے ہوئے اُس کا جان دے دینا کامیابی ہے، اور کسی غلط راستے پر جاکر وزیراعظم اور صدراعظم بن جانا کامیابی نہیں، بلکہ کھلی ناکامی ہے۔
بالکل اسی طرح وہ آدمی جو اسلام کا سچّے دل سے قائل ہے، وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ دوسرے وہ راستے جن میں آسانیاں ہیں، سہولتیں ہیں، عیش ہے، فائدے ہیں، ان کی طرف جائے کہ انھی کا امکان ہے اور اسلام کا کوئی امکان نہیں۔ ایک مسلمان کے سوچنے کے قابل بھی وہ چیز نہیں ہے۔ وہ اُس طرف کبھی حسرت بھری نگاہ بھی نہیں ڈالے گا۔ ان کے محلات اور ان کی کوٹھیوں پر اور ان چیزوں کے بارے میں وہ کبھی نہیں سوچے گا کہ کاش یہ دولت میرے پاس آئے! اس وجہ سے صرف وہی لوگ اس کام کو کرسکتے ہیں، جو کامیابی کے امکان کو چھوڑ کریہ دیکھیں کہ ہمارا فرض کیا ہے؟ اور اس فرض کو ادا کرنے کے لیے ہرتکلیف، ہرمصیبت اور ہرمشکل برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہی ان کے کرنے کا کام ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کر دیئے اور انھوں نے پوری ہمت کے ساتھ اس کے لیے کام کیا، تو میں یہ نہیں سمجھتا کہ کون سی طاقت یہاں ایسی ہے، جو انھیں آگے بڑھنے سے روک سکے۔ اللہ نے چاہا تو اس میں کامیابی ہی ہوگی۔
میں نے دوسرا پہلو آپ کے سامنے پیش کیا، وہ اس لیے کہ کامیابی کی شرط کے ساتھ آپ کام نہ کریں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اس ملک کے اندر ایک مٹھی بھر تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہو، جو پوری تنظیم کے ساتھ، پورے ڈسپلن کے ساتھ، عقل و ہوش کے ساتھ اور دیوانگی کے ساتھ، کہ یہ دونوں چیزیں ساتھ چاہییں، یہ کام کریں، اس میں جان لڑائیں اور مسلسل جان لڑاتے چلے جائیں اور ہرتکلیف اور خطرے کو انگیز کرنے کے لیے تیار ہوں، تو وہ لوگ جو اس وقت ایک غیر اسلامی نظام کو چلا رہے ہیں، وہ ایسی طاقت نہیں رکھتے کہ ان کے سامنے ٹھیرسکیں۔
نظامِ باطل بظاہر بڑے زور کے ساتھ نافذ ہوتا ہے، لیکن اصل میں کھوکھلا ہوتا ہے۔ اس میں قائم رہنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ ایسے لوگوں کو موقع دیا جائے، تو انھیں موقع ملتا ہے۔ وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے عقل مندی کرکے وہ تمام راستے بند کردیئے ہیں جن سے خطرہ آسکتا ہے، لیکن ایک راستہ اللہ تعالیٰ نے ایسا رکھ چھوڑا ہے جدھر سے اس کو خطرہ لانا ہوتا ہے، اس راستے کو وہ بند نہیں کرسکتے۔ اس طرح سے ایسے نظام جو قائم ہوتے ہیں، وہ بار بار جمتے اور اُکھڑتے ہیں۔ حالات اس انتظار میں ہیں کہ کوئی ایسا گروہ آئے، جو ایک مضبوط بنیاد پر ان کے لیے ایک نظامِ حق قائم کرے۔ جب تک ایسا گروہ سامنے نہیں آئے گا اور اس مرحلے تک نہیں پہنچ جائے گا کہ وہ نظامِ حق کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرسکے، اس وقت تک یہاں کھوکھلے نظام ہی قائم ہوتے اور بدلتے رہیں گے۔ انھیں چلانے والے اشخاص بدلتے چلے جائیں گے اور وہ کھوکھلا نظام جوں کا توں رہے گا۔
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قوم کو کوئی بھی چیز بچا سکتی ہے تو وہ یہی نظامِ حق ہے۔ وہ یہاں مضبوط بنیادوں پر قائم ہو، قبل اس کے کہ اللہ کا عذاب فیصلہ کردے کہ اس قوم کو زندہ نہیں رہنا چاہیے۔
کسی بڑے مقصد اور انقلابی نصب العین کو اپنی زندگی کا پہلا اور آخری فریضہ قرار دینے والوں سے اس کے بہت سے مطالبات ہوتے ہیں۔ ان میں سے تین مطالبے سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں:
نصب العین جتنا بلندہوگا، اس کی نسبت سے ان تینوں اجزاء کی اہمیت اور ضرورت بھی اتنی ہی زیادہ بڑھی ہوئی ہوگی۔ اگر نصب العین بلند بھی ہو اور ساتھ ہی اپنی نوعیت میں منفرد بھی، تو اس کے تعلق سے ان تینوں امور کی اہمیت اور ضرورت بھی انتہا کو پہنچی ہوئی ہوگی۔ ایسی انتہا کو، جس کے آگے کوئی اور حد شاید باقی بچی نہ ہوگی۔
ایک اسلامی تحریک، یعنی اللہ کے دین کی شہادت، نصرت اور اقامت کی تحریک ایسا ہی ایک بلند اور منفرد و ممتاز نوعیت کا نصب العین رکھنے والی تحریک ہوتی ہے۔ نہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ صرف وہی ایک ایسی تحریک ہوتی ہے، جسے واقعی بلند انقلابی اور شان دار انفرادیت رکھنے والی تحریک کہاجاسکتا ہے۔
ہم اور آپ ایسی ہی ایک دعوت اور تحریک سے وابستہ ہیں۔ پھر یہ کسی اور کے کہنے سے نہیں ، بلکہ اپنی آزاد مرضی سے ’خودگرفتارآمدی‘ کی قدیم رسم دُہرائی ہے اور جرأت کے ساتھ پُرعزم لہجے میں اس کا اعلان بھی کیے ہوئے ہیں، اور یہ جانتے ہوئے کیے ہوئے ہیں کہ اگر یہ دنیا جہان کی سب سے بڑی سعادت اور سب سے بڑا شرف ہے، تو ساتھ ہی ایسا عہدِ وفا بھی ہے جس کا سچا احساس، دلوں کا سکون درہم برہم کیے اور دنیا کی لذتوں کو ڈھاکر رکھ دیئے بغیر نہیں چھوڑتا۔ جس کے حق کی ادائیگی اس وقت تک ممکن ہی نہیں ہوسکتی، جب تک انسان اس کے لیے یکسو نہ ہوجائے اور ان تمام سرگرمیوں، مشغولیتوں اور دلچسپیوں سے دست کش نہ ہورہے، جو اس کے حقیقی تقاضوں سے براہِ راست کوئی تعلق نہ رکھتی ہوں۔
ہمارے اس اعلان اور عہدِوفا کا یہ کھلا تقاضا ہے کہ اپنے نصب العین کے ان تینوں اوّلین اور بنیادی مطالبات کی طرف سے اپنے اوپر کبھی غفلت نہ طاری ہونے دیں، جن کی ابھی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس وقت میری معروضات کا دائرہ صرف ایک مسئلہ یعنی دعوت کے صحیح فکرو فہم، دوسرے لفظوں میں دعوت کی فکری سلامتی تک محدود رہے گا۔
اس ضمن میں یہ حقیقت پہلے ہی سے واضح رہنی چاہیے کہ صحیح دعوتی فکرو فہم کے مفہوم میں دعوت و تحریک کی مزاج شناسی بھی لازماً شامل ہے۔ کیونکہ کسی دعوت کا فطری علم و فہم اس وقت تک اس کا صحیح اور واقعی علم و فہم کہلانے کا مستحق ہوہی نہیں سکتا، جب تک کہ اس کے اندر مزاج شناسی کی کیفیت نہ پیدا ہوگئی ہو۔
دعوت کی مزاج شناسی کا مطلب یہ ہے کہ فرد کے دل و دماغ میں دعوت کی روح اس طرح رَچ بس گئی ہو اور اس کے حقیقی تقاضوں کا اندازہ کرلینے کی ایسی استعداد بہم پہنچ گئی ہو، کہ جب اس کے سامنے کسی تحریکی قدم کے اٹھانے یا نہ اٹھانے کا، یا قریبی نوعیت کے دو رُخوں میں سے ایک کو موزوں اور مناسب قرار دینے کا سوال آکھڑا ہو، تو اس کا دعوتی وجدان کسی بحث و تمحیص کے بغیر آپ سے آپ بتادے اور کم و بیش نوّے فی صد بالکل صحیح بتادے، کہ اس سوال کا جواب یہ ہے۔ یہیں پر یہ بھی جان لینا چاہیے کہ یہ گوہرِ گراں مایہ کیسے ہاتھ آتا ہے؟ دعوت و تحریک کا مزاج شناس کس طرح بنا جاسکتا ہے؟ بات بالکل صاف اور واضح ہے۔ دعوت کی مزاج شناسی اس کے نصب العین کے تقاضوں پر گہرے غوروفکر سے اور اس دعوت کے اعلیٰ ترین معیاری و مثالی علَم برداروں یعنی حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی مقدس زندگیوں اور ان کی دعوتی سرگزشتوں کے گہرے اور وسیع مطالعے ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
یاد رکھیے، دعوت کاصحیح علم وفہم اور اس کی مزاج شناسی وہ لنگر ہے، جس کے بغیر ہم حالات کے دھارے میں اپنی کشتی کو نہ محفوظ رکھ سکتے ہیں، اور نہ صحیح سمت میں آگے بڑھاسکتے ہیں۔ سطح پر دکھائی دینے والی ہماری تحریکی سرگرمیاں اس دعوت کے صحیح فہم و شعور اور اس کے حقیقی مزاج سے جتنی زیادہ ہم آہنگ ہوںگی، ان کی کامیابی کے امکانات اتنے ہی روشن ہوںگے۔ اسی طرح یہ ہم آہنگی جتنی کم ہوگی، منزل مقصود کی طرف پیش قدمی اتنی ہی کم بلکہ ناقابل اعتبار ہوگی۔ دعوت کے حقیقی مزاج اور مصالح کو نظرانداز کرکے جو بھی تگ و دو کی جائے گی، وہ بہت سے گوشوں سے داد و تحسین تو شاید حاصل کرلے گی، لیکن اُس میں ربِ کائنات کی تائید شامل نہ ہوگی، جس کے بغیر کوئی تحسین، تحسین نہیں رہ جاتی۔ اس لیے اس حقیقت کو ہر آن تازہ رکھنا چاہیے کہ دعوت کا صحیح علم و فہم اور اس کا حقیقی مزاج جب بھی نظرانداز ہوجائے گا تو وہ صرف کھونے کا وقت ہوگا، اس میں کچھ بھی پایا نہ جاسکے گا۔ اور یہ بات بھی اس دعوت کی انفرادیت کی شان کا ایک امتیازی مظہر ہے۔
دوسری تحریکیں خصوصاً یکسر غیراسلامی تحریکیں، اپنا مزاج پسِ پشت ڈال دیے جانے کے بعد بھی کچھ نہ کچھ حاصل کرسکتی ہیں۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے سے بہت دور اور باہم مخالف ہونے کے باوجود سب کی سب ’غیراسلامی‘ ہوتی ہیں اور ’غیراسلام‘ پورے کا پورا’ملت واحدہ‘ ہوتاہے۔ ’ملت واحدہ‘ کے مختلف اجزا میں بہت کچھ یا کم از کم کچھ نہ کچھ مشترک بھی ہونا چاہیے، اور یقینا و لازماً ہوتا بھی ہے۔ اس لیے کفر یاغیراسلام کی کوئی بھی تحریک اپنے محور سے چاہے جتنی بھی ہٹا دی جائے اور اس کے اصل مقصد اور مزاج میں خواہ جیسی بھی آمیزش کردی جائے، اسے اپنے تئیں یہ سمجھے رہنے کی گنجائش بہرحال موجود رہے گی، کہ وہ اپنے اعلان کردہ مقصد اور نصب العین سے بدستور وابستہ ہے۔ مگر کسی اسلامی تحریک کے بارے میں ایسی کسی گنجائش کا خیال یا امکان بالکل ہی ناقابلِ تصور ہے کہ وہ اسلامی مقصد اور مزاج اور اخلاقیات میں غیر اسلامی فکروعمل کو ملانے کے بعد بھی اپنے آپ کو اسلامی تحریک کہہ یا سمجھ سکے۔
میں اس وقت اسلامی تحریکوں کے صحیح مزاج اور ان کے مخصوص اندازِ فکر و عمل کے دو ایک نمایاں اور اہم پہلوئوں پر تھوڑی سی روشنی ڈالے دے رہا ہوں۔ امید ہے کہ اس سے بات کو سمجھ لینے میں کافی آسانی ہوجائے گی:
پہلی بات تو یہ کہ اسلامی تحریک کا مزاج نہایت احتیاط اور پوری مضبوطی کے ساتھ قدم جماکر چلنے اور آگے بڑھنے کا ہوتاہے۔ غیرمحتاط دوڑ لگانے کا نہیں ہوتا، بالخصوص اپنے ابتدائی مراحل میں تو وہ ایسی جلدبازی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔کیونکہ اسے نظامِ دین حق کی جو عمارت بنانی ہے اور جس کا ماڈل اس کے سامنے صرف چودہ صدیوں قبل کا مدنی ماڈل ہے۔ یہ عمارت کچی پکی اینٹیں اُوپر تلے رکھتے چلے جانے اور اوپر سے سفیدی پھیردینے سے نہیں بن سکتی۔ ایسی بودی تعمیر تو حوادث کا ایک معمولی جھکڑ بھی برداشت نہیں کرسکتی، اور دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہوکر رہ جانے والی ہوگی۔
ابھی کچھ ہی عرصے پہلے اس کا ایک سبق آموز مشاہدہ کراچی کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ جہاں تحریک اسلامی ملک کے سب سے بڑے شہر پر بظاہر پوری طرح چھاگئی تھی، مگر یکایک ایک لسانی قوت کے طوفان نے اُٹھ کر اس طرح پانی پھیر دیاکہ حیرت ہوتی ہے۔ یہ حیرت انگیز المیہ ہر گز ظہور میں نہیں آسکتاتھا، اگر وہاں تحریک نے اپنی دعوت کا سپاہی اور علَم بردار صحیح ، سنجیدہ اور ٹھوس طریقہ سے بنایا ہوتا، اور پوری توجہ اور مسلسل کوششوں سے کام لے کر ان کے دلوں میں حق کی سچی محبت اتاری ہوتی۔ ایسی محبت کہ جسے کوئی بھی نسلی، لسانی، طبقاتی یا علاقہ جاتی رشتہ زیرکرلینے کا بل بوتہ نہ رکھتا۔
دوسری بات یہ کہ اسلامی تحریک کے رفقائے کار کی طرح اس کی سوچ بھی حددرجہ صابرانہ، مدبرانہ اور منضبط ہوتی ہے۔ وہ صرف اتنی ہی بات کا خیال اور اہتمام نہیں رکھتی کہ اپنے صحیح مزاج ومفاد کے مخالف کوئی فکری یا عملی روش نہ اختیار کربیٹھے۔ اس سے آگے بڑھ کر اس پر بھی کڑی نگاہ رکھتی ہے کہ ان کاموں سے بھی بہت دنوں تک اپنے کو روکے رکھے، جو اس کے مزاج و مفاد کے برعکس اور مخالف نہ ہوں بلکہ خود اسے مطلوب ہی ہوں۔ حق کے عین مطابق اور فرض کی حد تک مطلوب ہوں، مگر ان کی انجام دہی کا ابھی ٹھیک وقت اور موقع نہ آیا ہو۔
مثال کے طورپر ’ہجرت‘ اور ’جہاد‘ کی بات کو لے لیجیے۔ ان دونوں اعمالِ خیر کے بلند پایہ ہونے سے ہم سب واقف ہیں۔ تمام اعمال میں یہ افضل ترین اعمال ہیں۔ یہ ایمان اور غیرایمان میں فرق وامتیاز کی کسوٹی ہیں۔ لیکن اللہ رب العالمین کے ایک پیغمبر حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم کے مسلسل انکار سے تنگ آکر جب ہجرت کربیٹھے، تو یہ ہجرت ان کے لیے اجرو ثواب کا موجب بننے کے بجائے الٹے اللہ کے سخت عتاب کا موجب بن گئی۔ اور ایسا صرف اس وجہ سے ہواکہ وہ یہ اقدام وقت سے کچھ پہلے کربیٹھے تھے۔
اسی طرح جب قریش کے مسلسل مظالم کے باعث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ کے صبر کا پیمانہ چھلکنے پر آگیا اور یہ دیکھ کر انھیں ضبط کا یارا نہ رہ گیا۔ پھر مدینہ ہجرت کرکے آجانے کے بعد بھی ان ظالموں کی خشمگیں نگاہیں ان بے بس اور مظلوم صحابہؓ کے تعاقب سے باز نہیں آرہی تھیں، دوسری طرف جو کمزور اور بے بس اہل ایمان مکہ سے نکل آنے کی کوئی سبیل نہیں پاسکے تھے،ان پر ان کی مشق ستم بدستور جاری رہی بلکہ اس میں کچھ اور شدت ہی آچکی۔ اِدھر ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آکر انھیں ایک آزاد ماحول و مقام بھی میسر آچکاتھا اور اس بے چارگی سے نجات مل چکی تھی، جس میں وہ پہلے مکہ کے دارالعذاب میں گرفتار تھے۔ اس لیے ان کے دلوں میں اب اس ظلم کے پنجہ کو مروڑ کر رکھ دینے کے جذبات ابھر آئے، جو ایک فطری بات تھی۔ ان جذبات کا زبانوں سے اظہار بھی ہونے لگا۔ صورت حال کو اس موڑ پر پہنچتے دیکھ کر خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے ہدایت آئی:
كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ ۰ۚ (النساء۴:۷۷)(نہیں، ابھی) اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو، نماز کی اقامت اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے رہو۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’ہاتھوں کو روکے رکھنے‘‘ کا یہ حکم واضح اور صریح طورپر صرف اس لیے تھا کہ اس کے نزدیک ابھی اس اقدام کا ٹھیک وقت اور صحیح موقع نہیں آیاتھا۔ کیوں اور کن وجوہ سے نہیں آیاتھا؟
اس سوال پر اگر گہرائی اور تفصیل سے غور کیاجائے، تو ذہن کئی اور باتوں کی طرف بھی جاسکتا ہے۔ مگر اس طرح کی کسی کاوش سے کام لینے کی اس وقت کوئی خاص ضرورت نہیں۔ وہی ایک وجہ اس ہدایتِ خداوندی کی ضرورت اور حکمت سمجھادینے کے لیے کافی ہے، جس کی طر ف كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ کے بعد کے لفظوں وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ نے خود رہنمائی کردی ہے، یعنی یہ کہ جنگی اقدام کرنے سے قبل تم اہل ایمان کو بحیثیت مجموعی اپنی معنوی قوت کو مزید سدھار اور نکھار لینے کی ضرورت ہے۔ اس لیے دین وخداپرستی کی دونوں عملی بنیادوں، یعنی اقامت نماز اور ادائے زکوٰۃ کی طرف پوری طرح متوجہ رہ کر، حتی الوسع اس ضرورت کا حق ادا کرلو۔ تب وہ وقت آئے گا، جب دین کے دشمنوں کے خلاف تمھارے اٹھنے والے ہاتھ کامیاب و بامراد ہوں گے۔ اس سے پہلے تمھارا میدان میں کُود پڑنا، بے وقت، نامناسب اور حکمت و احتیاط کے خلاف ہوگا اور ناکامی اور زیاں کاری کے اندیشوں کی مسلسل زد میں رہے گا۔
اِن دو تین واقعاتی مثالوں میں ہمارے لیے روشنی کا بہت کچھ سامان موجود ہے۔
اس روشنی میں ہم صاف دیکھ سکتے ہیں کہ ایک صحیح معنوں کی اسلامی تحریک، جہاں اپنے افراد کی ایمانی، اخلاقی، عملی اور دعوتی تربیت کا مسلسل اہتمام رکھتی ہے اور انھیں اپنے نصب العین کا سچا اور یکسو وحنیف داعی اور مخلص و جانباز سپاہی بنائے رکھنے کی طرف سے کبھی غافل نہیں رہتی، وہیں اپنے جماعتی طریق کار اور عملی اقدامات کے بارے میں بھی حددرجہ محتاط اور عاقبت اندیش ہوتی ہے۔ وہ کبھی کوئی ایسی روش اختیار نہیں کرتی، جو اس کےصحیح مزاج و مفاد سے میل نہ کھاتی ہو، عجلت پسندی سے کام نہیں لیتی، سطحیت اور ظاہر بینی کے قریب نہیں جاتی، قدموں کو مضبوطی سے جمائے بغیر آگے بڑھ جانے کی بے بصیرتی کا مظاہرہ نہیں کرتی، حتیٰ کہ اچھے اور شرعاً مطلوب و محمود سرگرمیوں اور کاموں کو بھی اس وقت تک اپنی عملی جدوجہد کا ہدف بنالینے سے صبر وضبط کے ساتھ رکی رہتی ہے، جب تک کہ اس کا صحیح موقع نہ آجائے۔
یہی وہ صراط مستقیم ہے جس پر ہمیں چلنا اور چلتے رہنا ہے۔ مگر معلوم رہنا چاہیےکہ راستہ ہموار اورکھلاہوا نہیں ہے۔ طرح طرح کے مخالف عوامل سے اَٹا ہواہے۔ ان میں سے تین عوامل اپنی بے پناہ قوتِ مخالفت کے باعث خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتاہے کہ ان کے بارے میں آگاہی حاصل کرلی جائے:
۱- پہلا مخالف عامل تو وہی جذبۂ عجلت پسندی ہے، جو اور سبھی افراد انسانی کی طرح ہماری سرشت میں بھی رچا بسا ہے اور جو کبھی نچلا نہیں بیٹھاکرتا۔ ابھی آپ واقعات کی زبان سے سن چکے ہیں کہ کتنی عظیم شخصیتوں پر بھی حملہ کرنے سے وہ باز نہیں رہا۔ لہٰذا، انتہائی ضروری ہے کہ پوری پامردی سے اس کا مقابلہ کیاجاتا رہاہے، اور اس کے جال میں پھنسنے سے پوری ہوشیاری سے اپنے کو بچائے رکھاجائے، اورپوری طرح سنبھل کر چلاجائے۔ اس کی پروا بالکل نہ کی جائے کہ قدم تھوڑے ہی آگے بڑھ پارہے ہیں۔ پروا اس کی رکھی جائے کہ جو قدم بھی اٹھیں اور آگے بڑھیں وہ پوری مضبوطی اور جمائو کے ساتھ اُٹھیں اور درست سمت میں آگے بڑھیں۔
۲- دوسرا عامل موجودہ ’جاہلیت‘ کی طوفانی یلغار کا ہے۔ یہ جاہلیت ہمیشہ ہی اللہ کے دین اور اس کی دعوتوں کی راہ روکتی ہے، لیکن پرانے زمانے کی جاہلیتوں کا دائرہ اثر محدود ہوا کرتا تھا۔ وہ فکری اعتبارسے کچھ زیادہ جان دار بھی نہیں ہواکرتی تھیں۔ ان کا تانا بانا بھی سادہ بلکہ پھُسپھُسا ہواکرتا تھا، جب کہ آج کی جاہلیت، معاذاللہ اس کا غلبہ و تسلط اتنا آفاق گیر ہے کہ بحرو بر کا کوئی گوشہ اس سے بچا ہوا نہیں رہ گیا ہے۔ یہ نظری، علمی اور فلسفیانہ دلائل سے بھی پوری طرح سے مسلح ہے، اور معاشی، صنعتی ، سائنسی، سیاسی، حربی قوتوں سے پوری طرح لیس ہے۔ ساری دنیا اس کے ہاتھوں میں مجبور اور قیدی بنی ہوئی ہے۔ زندگی کے کسی میدان میں بھی فکر وعمل کی جوراہیں وہ متعین کردیتی ہے، مجبوراً سبھی کو اسی پر چلنا ہوتا ہے۔ اس سے بالکل ہٹ کر کوئی نیا راستہ تجویز نہیں کیاجاسکتا اور اگر تجویز ہو بھی گیا تو اس پر چلنے والوں کو آنکھیں ڈھونڈتی ہی رہ جاتی ہیں۔ اگر کوئی ملک یا قوم اپنی تعمیر و ترقی کے لیے کوئی خاص لائحۂ عمل اپنانا یا اپنے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی نئی تحریک چلانا چاہتی ہے، تو اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس غالب تہذیب اور جابرانہ نظام کے فکرو فلسفہ سے اس کی سندِ توثیق حاصل کرے۔ یہ سندِ توثیق اسے حاصل اسی وقت ہوسکے گی، جب اس کے بنیادی مقاصد اور اصولِ کار اس کے لیے اگر پسندیدہ نہیں تو کم از کم قابل گوارا تو ضرورہی ہوں۔ اگر ایسا نہ کیاگیا ، کسی تحریک یا جماعت نے وقت کے اس جاہلیت پر مبنی حکمرانی نظام کی پسند اور ناپسند کی پروا نہ کی، اور اپنی مرضی کی آپ مالک بنے رہنے کے عزم کا اعلان کرتی رہی تو کچھ نہیں کہاجاسکتاکہ وہ اپنے اس عزم اور اعلان کابھرم کب تک قائم رکھ سکے گی۔
کسی اور طرح کے نظامِ نو کی حد تک تو یہ ممکن بھی ہے کہ یہ نظامِ جاہلیت اس کے سلسلہ میں کچھ نرمی اور چشم پوشی سے کام لے لے۔ لیکن اس نظام کے بارے میں ، جسے اسلامی نظام کہتے ہیں، اور اس تحریک کے معاملے میں جو اسلامی یا اقامتِ دین کی تحریک ہوتی ہے، اس جاہلیت کے نظام کے یہاں کسی نرمی، کسی چشم پوشی اور کسی رواداری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جاہلیت اس کی راہ روکنے، اس کی تصویر مسخ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرتےر ہنے کے ساتھ، اس پر الزامات اور تہمتوں کی مسلسل باڑ مارتے رہنے کی ایسی مہم چلادیتی ہے۔ علانیہ بھی اور خفیہ بھی، براہ راست بھی اور بالواسطہ بھی، حتیٰ کہ خود نام نہاد مسلم حکمرانوں اور دانش وروں کے ذریعے بھی، کہ خود اسلامی تحریک کے کارکنوں اور لیڈروں کے اعصاب بسااوقات جواب دینے لگتے ہیں۔ ایسے سخت اندھیرے اور پُرشور ماحول میں ہمیں کتنی مضبوطی ، کتنی ثابت قدمی، کتنی حکمت، کتنے تدبر اور کتنی عزیمت سے کام لینے کی ضرورت ہے؟اس کا اندازہ ہم میں سے ہر شخص بآسانی خود لگا سکتا ہے۔
۳- تیسرا مخالف عامل امت مسلمہ کی بالعموم، اور ملت اسلامیہ کی بالخصوص ، وہ زبوں حالی ہے جس سے وہ ان دنوں دوچار ہے۔ مسائل اور مشکلات کا، پریشانیوں اور محرومیوں کا، بے چارگیوں اور پست حالیوں کا ایک طوفان ہے جو اسے بری طرح گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ اس ملت میں جو تھوڑے بہت حساس اور دھڑکنے والے دل ہیں، وہ بھی بری طرح پریشان ہیں کہ آخر اس حالتِ زار کا کیا علاج کیاجائے اور کیسے کیاجائے؟ زخم، گہرے گہرے زخم، دوچار نہیں، ہزاروں ہیں۔ پورا جسد ِملی چھلنی بناہوا ہے۔ مرہم کہاں کہاں رکھاجائے!
یہ صورت حال اسلامی تحریکوں کے اپنے بنیادی اور حقیقی موقف کے لیے بڑی سخت آزمائش بن رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ملّت کی اس زبوں حالی کا صحیح اور کارگر علاج ان کے نزدیک اس کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا کہ اسے اپنے بھولے ہوئے اور پس پشت ڈالے ہوئے مقصدِ وجود کو پھر سے اپنالینااور اسی کا بن کر رہ جانا چاہیے۔ مگر نہایت افسوس کے ساتھ دیکھنے میں آرہا ہے کہ بہت سی اسلامی تحریکیں اس خوداعتمادی کا مظاہرہ نہیں کرپارہی ہیں اور خود اپنی جگہ چھوڑتی جارہی ہیں۔
انھوںنے حالات کے غیرمعمولی دبائو اور ملت کے حالِ زار سے غلط انداز میں متاثر ہوکر اس کے علاج کے لیے اُن ہی تدبیروں کی طرف لپکنا شروع کردیا جو خدااور دین، کتاب اور سنت کی رہنمائیوں اور پابندیوں سے آزاد افراد اور جماعتیں اختیارکیاکرتی ہیں۔ بعض بڑی اور اہم تحریکیں تو اس جھونک میں اتنی تیزی سے آگے بڑھتی اور اپنا رنگ بدلتی جارہی ہیں کہ ان پر دینی اور اسلامی تحریک ہونے کا گمان کم،اور علاقائی یا قومی تحریک ہونے کا گمان زیادہ ہونے لگتاہے۔
مشکل یہ ہے کہ قومیت بالعموم ہمیشہ ہی سکہ رائج الوقت رہی ہے اور اب تو اس کی مقبولیت ایمان وعقیدت کامقام حاصل کرچکی ہے۔ ایک طرف تو یہ جذبۂ قومیت افراد کی فطرت کا ایک قوی ترین جذبہ ہوتا ہے، اور شاید سب سے زیادہ منہ زور بھی۔ یہ جب بھڑکنے پر آجاتاہے تو حق و صداقت کی بڑی سے بڑی چٹانوںکو بھی بہالے جاتا ہے۔ دوسری طرف عالمی پیمانہ پر وہی ہر ملک اور ہر قوم کی حیاتِ اجتماعی کا مرکز بناہوا ہے۔ یعنی افراد نے بھی اپنے انفرادی دائروں میں اسے تقدس کی حد تک عقیدت کا مستحق تسلیم کررکھا ہے اور قوموں نے بھی اپنے اجتماعی دائروں میں سب سے اونچا مقام دے رکھا ہے۔ پھر یہ بھی کہ اس کے اشاروں میں بلاکی کشش ہوتی ہے۔ اس کی پذیرائی دادوتحسین کے نذرانے پیش کرایا کرتی ہے،اس کی علَم برداری لوگوں کی آنکھوں کا تارا بنادیاکرتی ہے۔
دوسری طرف دین کی طرف اور دین کی اقامت کے لیے بلانے والوں کا، اور ان کی آواز پر لبیک کہنے والوں کا استقبال کسی اور ہی انداز میں ہوتا ہے۔ ہوتارہتا ہے اور ہوتا رہے گا۔ اس لیے کہ ایک مدت تک صحرا میں صدا لگاتے رہنے کے بعد اگر کروڑوں پر مشتمل ملت اسلامیہ میں سے چند ہزار ساتھی بھی نہ مل سکیں اور اس بنا پر تحریک کے علَم برداروں اور کارکنوں کے دل و دِماغ بھی تکان اور بے کیفی و بددلی محسوس کرنے لگ جائیں، ان کی سوچ میں غیرمحسوس طورپر تغیر راہ پالے۔ قوم کی محبت حقیقی نہیں، معروف معنوں کی محبت، انھیں اپنے خیمے کی طرف کھینچنے لگے اور وہ بھی کھنچتے نظر آنے لگیں، تو یہ بات چاہے کتنی ہی قابلِ افسوس ہو، مگر اسے خلاف توقع اور اَنہونی نہیں کہا جاسکتا۔
حق کی راہ میں حائل ان خاص موانع کی طرف خصوصی توجہ درکارہے جو انتہائی صبرو ہمت آزما ہی نہیں، ایمان و یقین آزما بھی ہیں۔
یہ ہیں وہ سوالات، جو ممکن ہیں کہ جماعت کے پرانے ارکان و کارکنان کے نزدیک زیادہ دلچسپی کا باعث نہ ہوں، لیکن جو بے شمار نئے رفقا جماعت کو میسر آئے ہیں، اور مستقبل میں جو ان شاء اللہ جماعت اسلامی کے قریب آئیں گے، اُن کے لیے یہ یقینا دلچسپی کے حامل ہوں گے۔ کیونکہ ایسے حضرات اور خواتین کو کماحقہٗ علم نہیں کہ جماعت اسلامی کی غرض اور مقصد ِ وجود کیا ہے؟ وہ شاید اس کو بھی دیگر دینی و مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی طرح کی ہی یا اُن سے نسبتاً کچھ زیادہ منظم جماعت خیال کرتے ہوں۔ ایسی غلط فہمی کے پیدا ہونے کی وجہ وہ خامیاں اور کوتاہیاں ہیں، جو رُکن سازی کا کام ماتحت جماعتوں کے سپرد ہوجانے کے بعد جگہ جگہ نیم پختہ کارکنوں کو جماعت میں شامل کرلینے کے نتیجے میں جماعت میں پیدا ہوگئی ہیں، اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی کی اصل حیثیت کو واضح کردوں۔
جماعت اسلامی ایک ہمہ گیر جماعت: جماعت اسلامی نہ عام مذہبی اور دینی و مذہبی جماعتوں کی طرح محض ایک مذہبی و دینی جماعت ہے اور نہ عام سیاسی یا اصلاحی جماعتوں کی طرز کی کوئی محض سیاسی، اصلاحی اور رفاہی جماعت ہے۔ یہ دراصل اللہ کے اُن صاحب ِ احساس و شعور بندوں کی جماعت ہے، جواپنے اُس فرض کی ادائیگی کے لیے اُٹھے ہیں جو انسان کی تخلیق و آفرینش کا اصل مقصد ہے، جسے ہمارے خالق و مالک اور پروردگار نے ہمیں انسان اور مسلمان کی حیثیت سے پیدا کرکے ہمارے ذمے لگایا ہے، اور جس کی ادائیگی کے بغیر بحیثیتِ انسان اور بحیثیتِ مسلمان ہم اپنے انسانی و اسلامی منصب کی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوسکتے ہیں۔ صرف آخرت ہی نہیں بلکہ اس دُنیا میں بھی ہم اس شرف اور مقام سے ہم کنار نہیں ہوسکتے، جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا اور اس کی دسترس میں رکھا ہے۔
یہ فریضہ اور یہ ذمّہ داری کیا ہے؟ اسے خالق کائنات نے اِس طرح بیان فرمایا ہے: ’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا، تو وہ اسے اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور وہ اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اس کو اُٹھا لیا‘‘۔(الاحزاب۳۳:۷۲)
یہ امانت جسے انسان نے آگے بڑھ کر اُٹھا لیا، کیا تھی؟ دراصل یہ ’خلافت‘ کی ذمہ داری تھی، چنانچہ اس عظیم منصب پر انسان کے تقرر کی رسم یوں ادا کی گئی:
جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے لگا ہوں‘‘، تو انھوں نے عرض کیا: ’’ آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خون ریزیاں کرے گا؟‘‘ (البقرہ ۲: ۳۰)
اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرشتوں کو اس بات کا مشاہدہ کرایا کہ مَیں انسان کو ’خلافت‘ ہی نہیں اس کے ساتھ علم اور ہدایت بھی دے رہا ہوں اور اس کے بعد فرشتوں کو بھی آدم کی اطاعت کا پابند کردیا: ’’اور ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے سامنے سجدہ ریز ہوجائو‘‘(البقرہ ۲: ۳۴)۔ درحقیقت ’خلافت‘ کا یہ منصب صرف حضرت آدم ؑ کے لیے خاص نہیں تھا۔ ہرانسان اس منصب پر فائز ہے۔
قرآنِ مجید میں وضاحت ہے کہ: ’’وہی ہے جس نے تم لوگوں کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دیئے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اُس میں تمھاری آزمایش کرے‘‘۔ (الانعام ۶:۱۶۵)
پھر یہ منصب ِ خلافت کسی ایک دور کے لوگوں تک محدود نہیں رکھا گیا ہے، ہر دور اور ہرنسل کے لوگ اس منصب ِ خلافت پر فائز ہیں اور ان کا امتحان لیا جارہا ہے کہ وہ اس کا حق کیسے ادا کرتے ہیں؟ ارشاد ہوتا ہے: ’’پھر ان کے بعد ہم نے تمھیں زمین کا خلیفہ بنایا کہ دیکھیں کہ تم کیا کرتے ہو‘‘۔ (یونس۱۰:۱۴)
’خلیفہ‘ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس دائرئہ زندگی میں خلافت (آزادی سے کام کرنے کا اختیار دیا ہے) وہ خود بھی خدا کی اطاعت و بندگی کی راہ اور اس کا پسندیدہ نظامِ زندگی اختیار کرے اور دوسرے لوگوں کو بھی اس کی طرف دعوت دے اور اس کا پابند بنائے اور انھیں خالق کی سرکشی سے باز رکھے۔
احکامِ الٰہی کی پابندی کیوں؟ :انسان کو آزادی اور حقِ خود اختیاری حاصل ہونے کے باوجود اِسے احکام و ہدایاتِ خداوندی اور اس کے مقرر کردہ نظامِ زندگی کی پابندی کیوں کرنی چاہیے؟ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں دلیل ارشاد فرمائی ہے :
آگاہ رہو کہ مخلوق اس کی ہے تو پھر اُس پر حکم بھی اُسی کا چلنا چاہیے۔(الاعراف ۷:۵۴)
نیز فرمایا کہ تمھارے چاروں طرف زمین و آسمان کی ہرشے اپنے خالق و مالک کی فرماں برداری کی راہ پر چل رہی ہے تو کیا تم باقی ساری مخلوق سے الگ کوئی اور طرزِ عمل اختیار کرنا چاہتے ہو؟
اصل الفاظ یہ ہیں: ’’اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دینُ اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقِ زندگی اختیار کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں اللہ ہی کی فرماں برداری کی راہ پر چل رہی ہیں اور آخرکار ان سب کو پلٹ کر بھی اُسی کے پاس جانا ہے‘‘۔ (اٰلِ عمرٰن۳:۸۳)
خدا کی مخلوق بسے اس کی زمین پر، تمام سامانِ زندگی وہ عطا فرمائے، پھر اطاعت اور بندگی اُس خالق و مالک کی چھوڑ کر کسی اور کی کیوں اور کیسے کرنے کا حق دار ہے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے: یہ خدا کا مقرر کردہ نظامِ زندگی (دینُ اللہ) کیا ہے؟
بلکہ جو لوگ یہ صحیح راہ پالینے کے بعد اسے چھوڑ کر کوئی دوسری راہ اختیارکریں ان کے لیے تو پھر سیدھی راہ پانے کا راستہ ہی بند کردیا جاتا ہے۔ اس طرح کے کج رو لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے:
كَيْفَ يَہْدِي اللہُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِہِمْ وَشَہِدُوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۸۶ (اٰلِ عمرٰن ۳:۸۶)آخر اللہ ایسے لوگوں کو کیسے اور کیوں صحیح راہ دکھائے جنھوں نے نعمت ِ ایمان پالینے اور رسول کے حق ہونے کی گواہی دینے کے بعد پھر کفر کی راہ اختیار کرلی اور ان کے پاس روشن نشانیاں بھی آچکی ہیں۔ اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
تمام انبیائے علیہم السلام کا دین ایک ہی رہا ہے اور وہ اسلام ہے۔ یہ ایک ظاہر سی بات ہے کہ جب انسان وہی ہے، کائنات اور ماحو ل وہی ہے، انسان کی فطرت اور جذبات و نفسیات اور ضروریاتِ زندگی بنیادی طور پر وہی ہیں، تو اس کے لیے زندگی کا نظام اور قانون بھی وہی رہے گا، جو ابتدا سے انسانی فطرت پر مبنی رائج ہے۔ پانی، ہوا، روشنی، گرمی، سردی، نباتات و جمادات اور ذرّے سے لے کر آفتاب تک کے لیے اوّل روز سے آج تک قوانینِ قدرت کا ایک ہی مجموعہ رائج ہے، جن کے تابع یہ تمام اشیاء کام کرتی ہیں اور جن کی وہ پابند ہیں۔ ان میں کبھی کسی ترمیم کی ضرورت پیش نہیں آئی ہے کیونکہ اُن کی فطرت و ماہیت، اُن سے متعلق قوانین میں بھی کسی ترمیم اور تبدیلی کی ضرورت پیش نہیں آئی اور نہ آئے گی۔
جب تک پانی پانی ہے اور ہوا ہوا ہے، ان سے متعلق قوانینِ قدرت وہی رہیں گے جو اوّل روز سے ان پر لاگو ہیں۔ بلکہ ان کے اٹل اور غیرمتبدل ہونے پر ہی علومِ طبیعی اور تمام سائنسی ترقیات کا مداروانحصار ہے۔ جس قدر انسان ان قوانین کے بارے میں اپنی معلومات اور ان پر ٹھیک ٹھیک عمل درآمد کرنے کی استعداد بڑھاتا جارہا ہے، اس کے علمی اور سائنسی کمالات حیرت انگیز رفتار سے ترقی کرتے جارہے ہیں۔ ہر صاحب ِ عقل انسان یہ امرواقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ انسانی ترقی کا سارا راز اللہ تعالیٰ کے قوانین کو ٹھیک ٹھیک جاننے اور زیادہ سے زیادہ خوبی کے ساتھ ان پر عمل درآمد کرنے میں پوشیدہ ہے، خواہ اس کا تعلق انسان کی مادی اور طبعی زندگی سے ہو، جدید سائنس کا میدان ہو یا اخلاقی اور دینی زندگی کا، جس کے بنیادی قوانین و ضابطے ہمیں قرآن و سنت بتاتے ہیں۔
انسانی فطرت کی پکار :ان حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر غور کیا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اگر انسان اپنی اختیاری زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق بھی وہ ضابطے اور قواعد و آداب سمجھتے ہوئے اختیار کرلے جو انسانی فطرت کے ٹھیک اسی طرح مطابق ہیں جیساکہ پانی، ہوا اور روشنی اور انسانی جسم کی طبعی صحت سے متعلق خالق کائنات کے بنائے ہوئے قوانینِ قدرت ہیں، پھر اُن کے مطابق اپنی زندگی کا نظام تعمیر کرے تو وہ اپنی معاشرتی، سیاسی، قومی اور بین الاقوامی زندگی میں بھی مطابقت، باہمی اتفاق اور تعاون کے وہی کرشمے دیکھے گا، جو لوہے اور دھات کے ٹکڑوں کو قانونِ خداوندی میں جکڑ کر چاند اور مریخ تک پہنچنے کی شکل میں دیکھ رہا ہے۔
اس کائنات اور خود انسان کی زندگی کے طبعی دائرے کے لیے مقرر قوانینِ قدرت، اور انسانی زندگی کا اختیاری شعبوں کے لیے مقرر قوانینِ خداوندی دونوں کا سرچشمہ اورقانون ساز وہی قادرِ مطلق خالق ارض و سما ہے۔ مثال کے طور پر خالق نے کائنات اور خود انسان کے ذرّے ذرّے پر کچھ قوانین کو جبری طور پر نافذ کردیا ہے۔ اس لیے اس سے انحراف کی سزا اور انجامِ بد فوراً ظاہر ہوجاتاہے۔ جیسے: کوئی شخص زہر کھالے، یا آگ میں ہاتھ ڈال دے، یا بجلی کی رو کو چھوجائے تو نتیجہ خود واضح کردے گا کہ یہ غلط کام کیا گیا ہے۔ اس لیے ایسے جبری قوانین کو سکھانے کے لیے کسی نبی اور رسول کو بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انسانی تجربہ و مشاہدئہ قدرت ہی اس کے لیے کافی تھے۔
اسی طرح ایک دوسری قسم ہے قوانین کی، جن میں انسان کو اختیار دیا گیا ہے، آزادی دی گئی ہے۔ ذرا دیکھیے: سچائی میں ہمیشہ فائدہ اور فریب میں ہمیشہ نقصان نہیں ہوتا۔ انصاف و شرافت برتنے کا انجام ہمیشہ بھلائی اور ظلم و سفاکی سے ہمیشہ خرابی نمودار نہیں ہوتی۔ خدا کی اطاعت و بندگی کی راہ اختیار کرکے آدمی بسااوقات مشکلات و مصائب میں گھر جاتا ہے اور خدا کی نافرمانی و سرکشی کی راہ اختیار کرکے عیش و فراوانی کی زندگی بھی گزارتا ہے۔ اس لیے کہ اس دائرئہ زندگی سے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے قوانینِ قدرت کو جبری طور پر نافذ نہیں کیا، بلکہ ان کو اختیار کرنا، یا ان کو رَد کرنا انسان کے اختیاراتِ تمیزی پر منحصر رکھا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو آزمایش و امتحان اور خلافت کا سوال ہی باقی نہ رہتا۔ ان قوانین کو چونکہ انسان تجربے و مشاہدے اور سائنسی طریقوں سے ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں کرسکتا تھا، اس لیے پہلے ہی روز انسان کو بتادیا کہ دائرئہ خلافت میں اس کے لیے ضابطۂ حیات اللہ تعالیٰ خود بتائے گا:
ہم نے کہا کہ ’’تم سب یہاں سے اُتر جائو۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے ، وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔(البقرہ ۲: ۳۸-۳۹)
lدین ، دُنیا میں عملًا قائم کرنے کے لیے ہـے :چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے جو طریقِ زندگی (دین) مقرر کیا ہے، وہ ہر دور اور ہرنبی اور رسول کے زمانے میں ایک ہی رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اس کائنات کی دوسری چیزوں کی طرح انسان ہمیشہ سے وہی ابنِ آدم اور اسی فطرت پر ہے جس فطرت پر وہ آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا، تو اس کی زندگی کے لیے مقرر کردہ اللہ کا دین اور ضابطۂ حیات مختلف زمانوں میں مختلف کیسے ہوسکتا تھا؟ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا:
اے محمدؐ! کہہ دو کہ ہم ایک اللہ کو مانتے ہیں، اُس کے اس دین کو مانتے ہیں جو ہم پر اُترا، جو ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاق ؑ، یعقوبؑ اور اولادِ یعقوبؑ پر اُترا اور جو موسٰی اور عیسٰیؑ کو اور دوسرے انبیاؑ کو اُن کے ربّ کی طرف سے دیا گیا۔ ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم تو صرف اللہ کے تابع فرمان ہیں۔(اٰلِ عمرٰن ۳:۸۴)
دوسری جگہ اس صراحت کے ساتھ یہ بھی واضح کردیا کہ دین زبانی اور صرف انفرادی طور پر ماننے اور عمل کرنے کے لیے نہیں ہے۔ یہ دُنیا میں قائم اور نافذ کرنے کے لیے ہے:
اُس (اللہ) نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جسے اب (قرآن کی صورت میں) تمھاری طرف وحی کیا ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیمؑ، موسٰی اور عیسٰیؑ کو دیا تھا۔ (اور سب کو یہ حکم دیا تھا) کہ اس دین کو قائم کرو اور اس کام میں کوئی اختلاف نہ کرو۔(شوریٰ۴۲:۱۳)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض :حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک سے زائد مرتبہ وضاحت سے فرمایا:’’اس نے اپنے رسولؐ کو دین حق اور اس بارے میں ضروری ہدایات دے کر اس غرض کے لیے بھیجا کہ وہ خدا کے دین کو دوسرے تمام نظام ہائے زندگی پر غالب کردے‘‘۔(التوبہ۹:۳۳ ، الکہف۱۸:۲۸، الصف۶۱:۹)
چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسولؐ ہیں اور آپؐ کے بعد اب کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے۔ اس لیے آں حضورؐ کے بعد آپؐ کے مشن کو تاقیامت جاری اور برپا کرنے کی ذمہ داری آپ سے آپ آپؐ کی پیرواُمت پر آجاتی ہے، لیکن اسے قیاس اور اندازے لگانے پر نہیں چھوڑ دیا گیا۔ اُمت کو صاف صاف بتا دیا گیا:
اللہ نے تمھارا نام مسلمان (اپنی تابع فرمان رعیّت) رکھا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس منصب پر فائز لوگوں کا یہی نام رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی تمھارا نام یہی رکھا گیا ہے (اور یہ اس لیے کیا گیا ہے) کہ رسولؐ تم پر خدا کے دین کی شہادت قائم کرے اور تم دوسرے لوگوں پر اس کی شہادت قائم کرو۔ (الحج۲۲: ۷۸)
اور اس طرح ہم نے تمھیں اُمت وسط بنایا تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر خدا کے دین کے گواہ بنو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔ (البقرہ۲:۱۴۳)
اس فریضے کی ادائیگی سے کسی حال میں کوئی مسلمان سبکدوش نہیں ہوسکتا۔ حضورؐ نے فرمایا:
تم میں سے جو کوئی خدا کی نافرمانی کی حالت کو دیکھے اس کا فرض ہے کہ اسے قوتِ بازو سے اطاعت ِ الٰہی کی حالت سے بدل دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو لازم ہے کہ اس صورتِ حال کے خلاف آواز بلند کرے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو سب سے کم تر درجہ یہ ہے کہ اس سے دل سے نفرت کرے۔[مسلم، باب النھی عن المنکر من الایمان، حدیث:۱۸۶]
بـے وفائی کا مسئلہ :ان تمام حقائق و احکام کو سامنے رکھ کر سوچیے کہ اگر کوئی بادشاہ کسی شخص کو اپنی مملکت کے کسی حصے کا گورنر یا کسی ضلع کا حاکم بنا کر بھیجے، اور وہ اپنی حکومت کے احکام بجا لانے اور نافذ کرنے کے بجائے اپنی من مانی کرنے لگ جائے، یا کسی دوسری حکومت کی اطاعت کرنے لگے، تو اس کو مقرر کرنے والی حکومت ایسے نمک حرام گورنر اور ضلعی افسر سے کیا سلوک کرے گی؟ وہی جو ایک نمک حرام کے ساتھ ہونا چاہیے یا کچھ اور؟
اسی طرح اگر ہم لوگ، جن کو خو د خالقِ کائنات نے انسان کی حیثیت سے پورے کرئہ ارض کی مخلوق میں سے چُن کر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا، اسلام کی روشنی اور اس پر ایمان کی نعمت سے نوازا۔ ہم نے گلی گلی اعلان کیا کہ ہمیں اگر تو انگریز اور ہندو کی غلامی سے آزاد ملک عطا فرمائے، تو ہم تیرے شکرگزار بندے بن کر تیرا پسندیدہ نظامِ زندگی یہاں قائم کریں گے اور تیرے دین کی شہادت ایک مثالی اسلامی معاشرے اور ریاست کی صورت میں ساری دُنیا کے سامنے پیش کریں گے۔ اس پر اُس نے ہمیں دُنیا کی ایک بڑی مسلم مملکت عنایت فرمائی، لیکن ہماری طرف سے بحیثیت قوم سوائے بے وفائی اور وعدہ خلافی کے کوئی چیز سامنے نہ آئی، تو مالک ِ کائنات سے ہمیں اپنے ساتھ کس سلوک کی توقع کرنی چاہیے؟
آدھے سے زیادہ ملک کھو چکے ہیں اور باقی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
جماعت اسلامی کا مقصد :جماعت اسلامی زمین پر خلافتِ الٰہی کے اسی انسانی فرض اور فریضۂ اقامت ِ دینِ حق کو واحد نصب العین قرار دے کر وجود میں آئی ہے۔ اوّل روز سے اس کے سامنے یہی ایک مقصد رہا ہے۔ آج بھی اُسی کے حصول کے لیے کوشاں ہے اور جب تک ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہرشعبے میں شریعت ِ الٰہی کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی، جماعت اسلامی اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ اس نصب العین کو جماعت کے دستور کی دفعہ۴ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’جماعت اسلامی کا نصب العین اوراس کی تمام سعی وجہد کا مقصود عملاً اقامت ِ دین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاحِ اُخروی کا حصول ہوگا‘‘۔
جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں میں فرق :ملک میں بہت سی مذہبی اور سیاسی اور اصلاحی جماعتیں کام کر رہی ہیں، جن کی کاوشوں کی ہم قدر کرتے ہیں۔ ان سے ہماری کوئی رقابت نہیں ہے۔ لیکن امرواقعہ یہی ہے کہ وہ مذہبی، سیاسی یا اصلاحی جماعتیں ہیں ___ ان میں سے کوئی بھی جامع اسلامی جماعت نہیں کیونکہ اگر وہ مذہبی ہیں تو ان میں ہرمسلمان شامل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ کوئی دیوبندی مکتب ِ فکر کی ترجمان جماعت ہے، کوئی بریلوی مسلک سے وابستہ ہے، کوئی اہل حدیث، کوئی سنیوں کے کسی ایک گروہ کی اور کوئی شیعوں کی نمایندہ۔ ان کا اصل زور اپنے اپنے فقہی مسائل کی ترویج، اشاعت اور دفاع پر ہے۔ سیاسی اور اجتماعی حصہ صرف انتخابات میں شرکت کی حد تک ہے۔
سیاسی جماعتیں ہیں تو ان کے پروگرام بیش تر یکساں اور سیکولر ہیں۔ صرف شخصیتوں کے اختلافات نے ان کو مختلف جماعتوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اسلام اور دین کا نام وہ ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے تو لیتی ہیں، لیکن ان کی سوچ اور پروگراموں کو اسلام سے عام طور پر اس سے زائد تعلق نہیں کہ ان کے بنانے والے مسلمان ہیں۔ اسلام سے رہنمائی لینا اور اس کی پابندی ضروری نہیں ہے۔ ذہنی انتشار و پراگندگی کا اندازہ اس ایک بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انھیں اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت میں کوئی تضاد نہیں نظر آتا۔ وہ اسلام کا نام بھی لیتی ہیں اور مسلمانوں کو امیر اور غریب، مالک اور مزارع اور کارخانہ دار اور مزدور میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا بھی کررہی ہیں۔
جماعت اسلامی ان کے برعکس اسلام کے عقیدے، طریقِ تنظیم اور اخلاقی پابندیوں پر قائم کی گئی ہے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے کچھ زیادہ عقل کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر کسی جماعت کے کارکن تو درکنار لیڈر تک فرائضِ اسلام کی پابندی، کبائر سے اجتناب اور صریح حلال و حرام کا امتیاز بھی نہیں کرتے، اپنا جماعتی نظام آمریت پر چلا رہے ہیں، تو ایسے لوگ ملک کو اسلام اور جمہو ریت پر کیسے اور کن لوگوں کے ذریعے قائم کریں گے؟
اسی طرح اگر مسلمانوں پر مشتمل کسی جماعت کے پیش نظر وہی مقصد ہو، جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور مسلمانوں پر مشتمل کسی جماعت کا مقصد اس کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا اور نہ ہونا چاہیے، تو سو چنے کی بات ہے کہ اگر کوئی شخص جو فرائض کی پابندی اور کبائر سے بھی اجتناب نہ کرتا ہو، اور حرام و حلال کی پروا تک نہ کرے اور نظامِ جماعت کا پابند نہ ہو، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت میں شامل ہوسکتا تھا یا اس میں شامل رہ سکتا تھا؟ وہاں تو منافقین تک کو یہ سارے کام مخلص مومنین کی طرح کرنے پڑتے تھے، لیکن ہمارے یہاں تو کسی جماعت کے کسی چھوٹے یا بڑے لیڈر کے لیے بھی فریضۂ دین کی پابندی یا کبیرہ گناہوں سے اجتناب کی ضرورت نہیں ہے۔
جماعت اسلامی کی تنظیم اور نظام :جماعت اسلامی اپنے کام کا آغاز ملک کے تمام لوگوں کو اسلام کے عقیدے اور اس کے کم سے کم تقاضوں پر عمل کی دعوت سے کرتی ہے۔ جو لوگ اس عقیدہ کا احترام کرنے اور اس کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار ہوں، اُن کو اپنے سے باقاعدہ وابستہ کرتی ہے۔
جماعت اسلامی اپنی ’رکنیت‘ صرف ان لوگوں کودیتی ہے جو کلمۂ توحید اور اُس کے تقاضوں کو اچھی طرح سے سمجھ کر اس سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو اُٹھانے کا عہد کریں۔ خدا کو حقیقتاً اپنا مالک و معبود اور ہادی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عملاً اپنا رہنما و پیشوا بناکر کلمۂ طیبہ کی شہادت دیں۔ اسلام کے عائد کردہ فرائض کی پابندی، کبائر سے اجتناب، حرام و حلال کی تمیز اور جماعت کے نظم کی پابندی کا عہد کریں اور اپنے عمل سے اِن سب باتوں کا ثبوت فراہم کردیں۔ جماعت کا ’رکن‘ ان شرائط پر پورا اُترنے والے لوگوں کو ہی بنایا جاتا ہے۔
جو حضرات مذکورہ بالا باتوں سے اتفاق اور اس کے اہتمام کی کوشش کا عہد کریں، اقامت ِ دین یعنی اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کو اپنا نصب العین بنالیں لیکن رکنیت کی ذمہ داریاں پوری طرح اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوں یا کسی وجہ سے اس بارے میں معذور ہوں۔ اُن کو ’متفق‘ بنا لیا جاتا ہے اور ان کی مزید تربیت کی جاتی ہے کہ وہ آیندہ رکنیت کے لیے آمادہ اور تیار ہوجائیں۔
جماعت کی مالیات کا سارا انحصار جماعت کے ارکان، متفقین اور عام حامیوں کی اعانت، زکوٰۃ، عشر اور جماعتی لٹریچر کی فروخت کی آمدنی پر ہے۔ ہرسال مرکزی مجلس شوریٰ سال بھر کے کاموں اور اخراجات کا تخمینہ لگاکر مرکزی بجٹ تیار کرتی ہے اور اسے صوبائی جماعتوں پر تقسیم کردیا جاتا ہے۔ صوبائی جماعتیں اپنے ذمّے کی رقم میں اپنے سال بھر کے اخراجات شامل کرکے صوبائی مجلس شوریٰ کے ذریعے صوبائی بجٹ تیار کرتی ہیں اور اسے اپنی ضلعی جماعتوں پر تقسیم کردیتی ہیں، اور پھر ضلعی جماعتیں اسی طرح مقامی جماعتوں، حلقہ ہائے جماعت اور منفرد ارکان پر اُسے عائد کردیتی ہیں۔ اس طرح نیچے سے رقم جمع ہوکر مرکز تک پہنچتی ہے اور جماعت کے سارے کام چلتے ہیں۔
جماعت میں فیصلے کا طریقہ یہ ہے کہ:
۱- قرآن و سنّت کے واضح احکام کی پیروی کی جاتی ہے۔
۲- پالیسی اور پروگرام اور دوسرے اُن اُمور جن میں قرآن و سنت میں واضح ہدایات موجود نہ ہوں، ان کے آخری فیصلے کا اختیار ارکانِ جماعت کے اجتماع عام کو حاصل ہوتا ہے۔ اجتماع عام کی غیرموجودگی میں یہ فیصلے مرکزی مجلس شوریٰ میں کیے جاتے ہیں۔ مرکزی مجلس شوریٰ میں عام طور پر اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، خواہ اس میں زیادہ وقت صرف ہوجائے، لیکن اختلاف باقی رہنے کی صورت میں آخرکار فیصلہ اکثریت کی رائے کے مطابق ہوتا ہے، جس کی پابندی پھر سب پر لازم ہوتی ہے۔
۳- جماعت اسلامی، کسی قسم کے تشدد، سازش، خفیہ جوڑ توڑ، اداروں سے سازباز یا اسلحے کے زور پر کسی قسم کی تبدیلی پر یقین نہیں رکھتی، بلکہ دستوری، اصولی اور اخلاقی بنیادوں پر ان کی سخت مذمت بھی کرتی ہے، اور ایسے عناصر کو جماعت کی تنظیم کے قریب تک نہیں پھٹکنے دیتی۔
جماعت اسلامی فی الحقیقت اسلام کی عالم گیر دعوت کی علَم بردار ہے۔ اپنے ملک میں اپنی کوششوں کو اس امر پر مرتکز کیے ہوئے ہے کہ اسے ایک مثالی اسلامی ریاست اور معاشرہ بناکر دُنیا کے سامنے نمونے کے طور پر پیش کیا جائے کہ کس طرح اسلام انسان کے تمام مسائل کو بہترین طریق پر اور پورے انصاف کے ساتھ حل کرتا ہے۔
جماعت کی دعوت خدا کے فضل سے دُنیا کے بیش تر ممالک میں پہنچ چکی ہے۔ ۴۵ سے زائد زبانوں میں اس کے لٹریچر کی متعدد کتابوں کے تراجم شائع ہورہے ہیں۔ بیرونِ ملک تبلیغ کا کام ہورہا ہے۔ کئی ممالک میں اس دعوت سے متاثر لوگوں نے خود دعوتی مشن شروع کردیے ہیں اور وہ بہت خوبی سے اس کام کو کر رہے ہیں۔
عربی زبان کے لفظ’ دعوۃ‘ کا سادہ مفہوم پکارنا، بلانا اور دعوت دینا ہے۔قرآن مجید میں یہ لفظ بنی نوع انسان کو اُس سچائی یا سیدھے راستے کی طرف بلانے یا دعوت دینے کے لیے استعمال ہوا ہے، جو انسانوں کے مالک اور خالق نے ان کے لیے متعین کیا ہے۔ قرآن میں ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ (النحل ۱۶:۱۲۵) ’’اے نبیؐ، اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دو‘‘۔ البتہ اس اہم کام کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگر کرنے کے لیے کچھ دیگر اصطلاحات بھی قرآن میں اکثر مقامات پر استعمال ہوئی ہیں۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں:
لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۰ۭ(البقرہ ۲:۱۴۳) تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔
لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ۰ۚۖ (الحج ۲۲:۷۸) تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔
وَاَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِيْنٌ۶۸ (الاعراف ۷: ۶۸) اور تمھارا ایسا خیرخواہ ہوں، جس پر بھروسا کیا جاسکتا ہے۔
وَلَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِيْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ (ھود ۱۱:۳۴ ) اب اگر میں تمھاری کچھ خیرخو اہی کرنا بھی چاہوں تو میری خیرخواہی تمھیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔
يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۰ۭ (المائدہ ۵: ۶۷) اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمھارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچادو۔
وَاُوْحِيَ اِلَيَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِہٖ وَمَنْۢ بَلَغَ ط (الانعام ۶: ۱۹) اور یہ قرآن میری طرف بذریعۂ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمھیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبہ کردوں۔
اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۴۵ۙ (احزاب ۳۳: ۴۵) اے نبیؐ، ہم نے تم کو شہادت دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔
اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ۲ (النحل ۱۶: ۲) (لو گوں کو) آگاہ کردو، میرے سوا کوئی تمھارا معبود نہیں ہے، لہٰذا تم مجھی سے ڈرو۔
فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى۹ۭ (الاعلٰی ۸۷: ۹) لہٰذا تم نصیحت کرو اگر نصیحت نافع ہو۔
لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللہِ حُـجَّــۃٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ۰ۭ (النساء ۴: ۱۶۵) تاکہ ان رسولوںؑ کو مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے۔
لوگوں کو اللہ کے احکام کی اطاعت کی نصیحت یا تبلیغ کرنا اور بدی کی ان تمام طاقتوں کی ساری بُری ترغیبات کا مقابلہ کرنا، جن میں شیطان، ظالم حکمران، ظالم حکومتیں، گروہ، پارٹیاں اور اس کے علاوہ خود اپنا نفسِ امّارہ شامل ہے۔
بنی نوع انسان کے درمیان سچائی کے پیغام کو پھیلانا۔
حق و صداقت کے قبول کرنے سے سامنے آنے والے ان مثبت نتائج کی بشارت دینا جو دُنیا و آخرت دونوں میں حاصل ہوں گے۔
لوگوں کو اس خدائی ہدایت کے رَد کردینے یا اسے محض نظرنداز کردینے کے فوری اور دُور رس منفی نتائج سے آگاہ کرنا۔
لوگوں کو اس بھولی ہوئی حقیقت کی یاد دہانی کراناکہ اس زندگی میں کامیابی اور آخرت کی نجات صرف اللہ کے بتائے ہوئے نظامِ حیات پر عمل کرنے ہی پر منحصر ہے۔
سچائی کے پیغام کو اس حد تک لوگوں کے ذہن نشین کرانا کہ کوئی شخص جو اس پیغام کے بارے میں بے پروائی برتتا ہے وہ بھی اس بہانے کی آڑ نہ لے سکے کہ وہ اس پیغامِ الٰہی سے ناواقف تھا۔
دیہی آبادی میں اسلامی تحریک کا کام کیسے ہونا چاہیے؟ اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے دیہاتی لوگوں کی زندگی کے پس منظر سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس پس منظر کو سامنے رکھ کرہی کام کا نقشہ مرتب کیا جاسکتا ہے:
۱- دیہات میں تعلیم کم ہے اور لوگ ناخواندہ، اور ان کی معلومات بہت محدود اورسطحی نوعیت کی ہیں۔
۲- لوگوں کے پیش نظر مقامی اور علاقائی مسائل ہوتے ہیں، اس لیے ان کی گفتگو علاقائی نوعیت کی ہی ہوتی ہے۔ وسیع اور بلند مقصد سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
۳- مزاج جذباتی ہوتا ہے۔ سنسنی خیز باتوں پر فوراً یقین کرلیتے ہیں، تنقید بالکل برداشت نہیں کرتے، جلد آگ بگولا ہوجاتے ہیں۔
۴- دین داری کا تصور محدود ہوتا ہے۔ قوی ایمان ہونے کے باوجود اس پر عمل کم پایا جاتا ہے۔
ماحول:(الف) دیہات میںا کثر فساد کی بنیاد معاشرتی رسومات ہوتی ہیں جیساکہ انتقامی کارروائی اور رشتہ میں اَدل بدل کا طریقہ وغیرہ۔ چنانچہ اغوا اور قتل کے واقعات بہت زیادہ نظرآتے ہیں۔ چوری بھی زیادہ تر انھی بنیادوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔
(ب) انتقامی کارروائی کی وجہ سے پورے علاقے میں عام لوگوں کے درمیان اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف قبیلوں کی باہمی لڑائیاں اور جھگڑے آئے دن کامعمول ہیں۔ یہ دشمنیاں اور لڑائیاں سالہا سال تک چلتی رہتی ہیں۔
(ت) دیہات میں وڈیرے، جاگیردار اور پیر وغیرہ بااثر لوگ ہوتے ہیں۔
(ث) دیہات میں اقتدار اعلیٰ پولیس اور چوروں کے تعاون سے وڈیرے کو حاصل ہے۔ لوگوں کی جان و مال اور عزّت و آبرو سب بڑے زمین داروں کے رحم و کرم کی محتاج ہے۔
(ج) مقدمہ بازی، پولیس کی پکڑ دھکڑ ، دیہی زندگی کا معمول ہے۔
ان حالات میں سمجھا جاسکتا ہے کہ دیہات میں دعوتِ دین کا کام کرنا کتنا دشوار ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا مثبت پہلو بھی ہے۔ دیہاتی لوگوں میں بعض اہم نوعیت کی خوبیاں بھی ہیں، جن کا اسلامی روایات سے گہرا تعلق ہے جس کی وجہ سے کام کے اثرات کی توقع رکھی جاسکتی ہے:
۱- ابتدائی زمانے میں مسلمانوں کا مزاج بدویانہ تھا۔ عرب میں شہر بہت کم تھے خود مدینہ طیبہ کی اس وقت کی آبادی چھ سات ہزار سے زیادہ نہ تھی اور وہ بھی دوکلومیٹر میں پھیلی ہوئی تھی۔
۲- دیہاتی لوگ بہادر، جرأت مند اور غیرت مند ہوتے ہیں۔ اب صرف ان کا رُخ تبدیل کرنا ہے۔
۳- دیہات میں بہت ساری لڑائیاں مقدمات سے نہیں بلکہ برادری کے دبائو سے ختم ہوجاتی ہیں۔
۴- وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ۰ۭ (آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو۔ البقرہ ۲:۲۳۷) کا مظاہرہ دیہات میں ہوگا۔
۵- صلہ رحمی، دیہات کے مزاج کا حصہ ہے۔
۶- مہمان نوازی بھی دیہاتی کلچر کا خاصہ ہے۔
ہمارے دیہات میں عربوں اور اسلامی حکومتوں کے اثرات ابھی تک بدرجہ اَتم قائم ہیں، اس لیے دیہاتی تہذیب پر ایک حد تک اسلامی پرتو بھی نظر آئے گا:
(الف) جہاں دو گھر ہوں گے وہاں مسجد ضرور قائم ہوگی۔
(ب) السلام علیکم کا رواج عام ہے۔
(ج) مہمانوں سے حال احوال اور خیر خیریت پوچھنے اور کھانا کھلانے کا رواج قائم ہے۔
(د) عورتوں اور مردوں کے درمیان حجاب قائم ہے۔ گوٹھ یا گائوں میں داخل ہوتے ہی گھوڑے پر سوار آدمی گھوڑے سے اُتر کر پیدل چلے گا۔
(ہ) شعائر اسلام کا احترام اب تک قائم ہے۔
(و) گھر کی تعمیر کا رُخ قبلہ کی مناسبت کا خیال رکھ کر کیا جانا ان کے رواج میں شامل ہے۔
(ظ) معاشرت میں سادگی اور بے تکلفی کا رواج ہے۔
(ح) گفتگو میں اسلامی روایات کا خیال رکھنا، بات بات پر ماشاء اللہ اور اللہ پر توکّل رکھنے کے الفاظ عام ہیں۔
(ط) عورتوں میں شرم و حیا کی فضا اب تک برقرار ہے۔
(ی) چھوٹوں کے دلوں میں بڑوں کے لیے اب تک احترام موجود ہے۔
یہ ہے دیہات کا وہ ماحول اور پس منظر، جس میں ہمیں کام کرنا ہے اور انھی حالات میں دیہات کے اندر کام کا نقشہ تیار کرنا ہوگا۔
سب سے پہلے کام کرنے کے لیے عزم چاہیے۔ خود کو اس قابل بنایا جائے کہ لوگ بات سن سکیں۔ لہٰذا دعوت کے نقطۂ نگاہ سے زیادہ اہمیت کارکنوں کو حاصل ہے اور کارکنوں میں مندرجہ ذیل صفات کا ہونا ضروری ہے:
۱- جذبۂ عمل اور حکمت دونوں ساتھ ہونے چاہییں: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ اور علم نفسیات۔
۲- کردار بُرائیوں سے پاک اور بے داغ ہونا چاہیے۔ کردار میں بڑی زبردست کشش ہے۔ ہیرا مٹی کے ڈھیر میں ہوگا تو دُور سے نگاہیں اس کی چمک محسوس کریں گی۔
۳- کارکن، جاہلیت کے رسوم و رواج سے محفوظ ہو۔
۴- وہ تحریک کو اچھی طرح سمجھ چکا ہو اور اس پر عامل ہو۔
۵- کارکن جلد باز نہ ہو، مستقل مزاج ہو، وہ کسان کی طرح محنت کش ہو۔
۶- مشکلات میں ہمت ہارنے والا نہ ہو۔
۷- مکّی زندگی کی مشکلات کا تصور اس کے سامنے پوری طرح ہو۔
۸- لباس اور نشست و برخاست میں سادگی اور وضع قطع اسلامی انداز کی ہو۔
۹- دیانت دار ی، وعدہ وفا کرنے کی توفیق کے لیے دُعائیں۔ جماعت کے ساتھ نماز کی پابندی، تلاوت قرآنِ مجید کا اہتمام، شب خیزی کی عادت۔
یہ تمام صفات تحریک اسلامی کے کارکنوں کے لیے لازمی ہیں:
۱- مساجد کو دینی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے۔
__ممکن ہو تو مساجد کی امامت اختیار کی جائے۔
__دوسری صورت میں امام مسجد سے بہتر تعلقات استوار کیے جائیں۔
__مسجد کے معاملات اور اُمور میں بھرپور حصہ لیا جائے۔
__مسجد میں درس قرآن یا دینی کتاب کے پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا جائے، لیکن اس کے لیے مناسب وقت کا انتخاب بہت ضروری ہے۔
__جمعہ کے دن مسجد میں خطبہ یا تقریر کرنے کا اہتمام و انتظام کیا جائے اور حکمت عملی کے ساتھ یہ کام اپنے ہاتھ میں لیا جائے۔
__ دیہات میں ہونے والی مذہبی تقریبات میں پیش قدمی کی جائے۔
۲- دیہات میں اوطاق (بیٹھک) معاشرتی سرگرمیوں کا مرکز ہوتی ہے۔
__ اوطاق میں جاکر عوامی مجلسوں میں حصہ لیا جائے اور وہاں پُروقار انداز سے اپنی بات کی جائے۔
__عوامی مجلسوں میں حکمت عملی کے ساتھ گفتگو کا رُخ اسلام کی طرف موڑا جائے۔
__وہاں اسلام کے مجاہد سپاہیوں کے واقعات سنائے جائیں، اس لیے کہ اس میں لوگ عام طور پر دلچسپی لیتے ہیں۔
__ بزرگانِ دین کے نصیحت آمیز واقعات بھی سنائے جائیں۔
__انھی چیزوں پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ پھر لوگوں سے شخصی تعلقات قائم کیے جائیں۔
۳- دیہات کے ذمہ داروں سے تعلقات رکھنے کی کوشش کی جائے: اِذْہَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰي۲۴ۧ
__اسکول کے اساتذہ اور نوجوانوں سے تعلقات میں استواری کوخصوصی اہمیت دی جائے۔
__ دیہات میں بزرگوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، ان سے بھی رابطہ رکھا جائے۔
__لوگوں کی شادی و غمی میں ضرور شرکت کی جائے۔
__تنقید بنیادی طور پر اصولی ہونی چاہیے۔
__ تنقید میں افراد کا نام نہ لیا جائے،فانی تافکون۔
__ تنقید کے لیے پہلے فضا ہموار کی جائے اور اس وقت کی جائے جب دیکھا جائے کہ لوگوں میں برداشت کا مادہ موجود ہے۔
۴- رفاہی کاموں میں بھرپور حصہ لیا جائے۔
__ اس سلسلے میں مسجد کی تعمیرو مرمت کے کام کو اہمیت دی جائے۔
__قرآن پاک کی تعلیم و ترجمۂ قرآن پڑھنے کے لیے مدرسہ قائم کیا جائے اور اگر پہلے سے مدارس موجود ہوں ، تو ان کی توسیع میں تعاون کیا جائے۔
__تعلیم بالغاں کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے، جہاں بھی ممکن ہو یہ تعلیم شروع کردی جائے۔
__راستے، کنویں، مال و مویشی کے لیے چراگاہیں، بجلی وغیرہ کے حصول میں بھرپور دلچسپی لی جائے۔ شادی و غمی میں رہائش کے لیے جگہ اور چٹائیوں اور برتن وغیرہ کا انتظام کیا جائے۔
__دیہات میں لوگوں پر انفرادی طور پر جو مظالم ہوتے ہیں ان کی داد رسی کا انتظام کیا جائے۔
__بیماروں، بیوائوں، یتیموں اور محتاجوں کی خدمت کرنے کی کوشش کی جائے۔
دیہاتی ماحول میں ان کاموں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکن اگر ان خطوط پر کام کرنا شروع کردیں تو دیہات میں بڑے پیمانے پر ہماری دعوت پھیل سکتی ہے اور ہمارے لیے پیدا شدہ رکاوٹیں دُور ہوسکتی ہیں۔ دیہات میں ان خطوط پر کام کرنے والا کوئی گروہ اور طبقہ موجود نہیں ہے اور ایک زبردست خلا ہے۔ اس خلا کو بہترطور پر ہمارے کارکن ہی پورا کرسکتے ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ دیہات خصوصاً سندھ کے دیہات کے لوگ فطرتاً احسان شناس لوگ ہیں۔ ایک بار اگر کسی کی تھوڑی بہت مدد بھی کی گئی تو وہ مرتے دم تک اسے یاد رکھتے ہیں اور اپنے محسن کا شکریہ ادا کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ سارے کام خدا کی خوشنودی، اور صرف اللہ کی رضا کے لیے کرنے چاہییں۔
عورت کے بغیر انسانی معاشرے کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گھر بنتا ہی عورت سے ہے۔ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ کوئی گھر بغیر عورت کے وجود میں آسکے، اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ کوئی معاشرہ عورت کی کوشش، دخل اور اثر کے بغیر بن یا بگڑ سکے۔
مردوں عورتوں کی تعداد تقریباً ہر زمانے میں برابر رہتی ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ عورت کمزور ہے اور مرد طاقت ور۔ اس لیے جب مرد اور عورت مل جل کر رہتے ہیں، تو مرد کی مرضی پوری ہوکر رہتی ہے۔ لیکن اگر حالات کو ذرا گہری نگاہ سے دیکھا جائے تو معاملہ برعکس ہے۔ مرد باوجود طاقت ور ہونے کے ہرمعاملے میں بالکل بے بس ہے، جب تک یہ ’کمزور‘ مخلوق اپنا دلی تعاون پیش نہ کردے۔ گویا مرد کی مرضی نہیں بلکہ عورت کی مرضی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ وہ سب پر چھا جاتی ہے اور سب کو اپنا مطیع وفرماں بردار بنا لیتی ہے۔
عورت میں سختی کے بجائے لچک ہے۔ ظاہر ہے کہ سخت چیزیں ٹوٹ جاتی ہیں لیکن لچک دار چیزیں عارضی طور پر جھک تو جاتی ہیں، لیکن ٹوٹتی نہیں۔ فرعون باوجود ’فرعون‘ ہونے کے حضرت آسیہ کو اپنی راہ سے نہ روک سکا، بلکہ خود اپنے لائولشکر سمیت غرق ہوگیا۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے جب اپنی خوشی سے آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نیکی اورپرہیزگاری کو قبول فرما لیا تو قوم اور خاندان کی مخالفت یا اپنے تمدن یا معاشی مرتبے کا خیال ان کی راہ میں کچھ بھی مزاحم نہ ہوسکا۔ اسی طرح کوئی عورت اگر بگاڑ پر تُل جائے تو پیغمبر ؑ تک اس کی اصلاح نہیں کرسکتے۔ حضرت نوح اور حضرت لوط علیہم السلام کی بیویوں نے غلط منصوبے باندھے اور غرق یا تباہ ہونے تک انھی پر اَڑی رہیں۔
ہے تو سب کچھ اللہ کے اختیار میں، کہ وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ لاریب، جب کسی قوم کے بھلے دن آتے ہیں تو اس کی عورتیں خدا پرست بن جاتی ہیں اور آخرکار مردوں کو بھی ویسا ہی بناکر چھوڑتی ہیں، اور جب کسی معاشرے کا زوال شروع ہوتاہے تو اس کی عورتیں خدا کے بجائے ادنیٰ چیزوں کی پرستش شروع کردیتی ہیں۔ جب عورت کا دل دُنیا میں اَٹک جائے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ اپنے شوہر، بچوں اور دوسرے مددگاروں کو بھی حصولِ دُنیا میں مشغول نہ کردے؟ اور جب کسی عورت کو آخرت کی فکر ہو تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے عزیزوں اور اپنے جگرگوشوں کو اپنی اس فکر میں شریک نہ کرے؟ اسے جب کوئی ہلکی سی مغموم کرنے والی خبر ملتی ہے تو وہ روپیٹ کر سب کو پریشان کردیتی ہے۔ پھر جب اسے دوزخ جیسی خوفناک چیز کا یقین ہو، اور وہ دیکھ رہی ہو کہ اس کے بچّے، شوہر، باپ، بھائی اس کی طرف اندھا دھند لپک رہے ہیں اور اس میں گرنے کے بالکل قریب ہیں تو وہ کیسے چپ بیٹھ سکتی ہے؟ وہ یہ کیسے گوارا کرسکتی ہے کہ جن جسموں کو لذیذ کھانوں، عمدہ لباسوں اور صاف سجے ہوئے گھروں میں آرام پہنچاتی رہی، پالتی رہی اور ان کے آرام و آسایش کی خاطر راتوں کی نیند اور دن کا آرام اپنے اُوپر حرام کرلیا۔ وہ جسم دوزخ میں جلنے کی تیاریاں کرنے لگیں۔ اور وہ بھی اس کی نظروں کے سامنے۔
عورت، مرد سے بڑھ کر دُور اندیش ہوتی ہے۔ بیٹی اور بیٹا جوان ہوجائے تو مرد سے بڑھ کر اس کو یہ فکر کہ اس کے لیے زیادہ جہیز تیار ہو، اچھی جگہ رشتہ ہو۔ مکان نہ ہو تو مرد سے بڑھ کر اسے حاصل کرنے کی دُھن سوار ہوتی ہے۔ گھر میں غلّہ ایندھن وغیرہ ختم ہوں تووہ پریشان۔ افراد کنبہ کے کپڑے پھٹ جائیں تو اس کو بے چینی۔ کوئی بچہ بیمار ہو تو اس کے دوا علاج کے لیے وہ سرگرداں، غرض کسی وقت وہ آرام سے نہیں بیٹھ سکتی۔ عورت کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ سب کا غم کھائے اور سب کو سُکھ پہنچائے۔ خصوصاً ان کو جو اس کے اپنے عزیز ہوں، یا کم از کم جن کو وہ اپنا عزیز سمجھتی ہو اور جن کی جان اس کو پیاری ہو،ان کے بھلے بُرے کی فکر تو اس کو اپنے سے بڑھ کر رہتی ہے۔
آپ دیکھتے نہیں، آج کل عورت ہی تو ہے جو مادہ پرستی کی سب سے بڑی مبلغ بنی ہوئی ہے۔ اس نے ادنیٰ چیزوں کو اپنا خدا بنا لیا ہے اور وہ انھی جھوٹے خدائوں کی بندگی پر باپ،بھائی، شوہر، بچوں اور دُور و نزدیک کے سب رشتے داروں، پڑوسیوں، ملنے والوں کو آمادہ کر رہی ہے۔ عورت کی زبان تو مشہور ہے کہ کسی وقت بیکار نہیں رہتی۔ بس جس چیز کو عورت سب سے بہتر خیال کرے، جس کی محبت اس کے دل میں بیٹھ جائے، چوبیس گھنٹے وہ اسی کی خوبیوں کے گن گاتی رہے گی۔ پھر ماں کا راگ بچوں کا راگ ہوگا اور بچوں کا راگ پوری قوم کا راگ بن کر رہتا ہے کیونکہ وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور بالآخر وہی ہوتا ہے جو عورت چاہے۔
مگر افسوس کہ ان دنوں اس نے فکر ِ آخرت سے بے نیازی اختیار کرلی ہے۔ اسے جنّت کی نعمتوں اور دوزخ کی تکلیفوں کا یقین نہیں رہا، تو یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پوری قوم ہی اس یقین اور ایمان سے بے نیاز ہوگئی ہے۔ جب ماں نے اپنا مقصد ِ زندگی صرف کھانے، پہننے اور عیش کرنے کا بنالیا تو اس کے بچّے کیوں نہ یہی سبق سیکھتے؟ صدر اور وزیراعظم سے لے کر معمولی معاشی سرگرمی میں مصروف فرد تک، سب عورت ہی کے بچّے ہیں اور اس کے سکھائے ہوئے اسباق پر عمل کر رہے ہیں۔ اگر وہ، ان کو اپنے قول و عمل سے یہ سکھاتی کہ ’’اللہ تمھارا اصل مالک و حاکم ہے، تم اس دُنیا میں اپنے مالک و مختار نہیں ہو بلکہ اس آقا کے نوکر ہو‘‘ تو خدا فراموشی کے یہ مناظر آپ کو کیوں نظر آتے؟
آپ کی آنکھوں کے سامنے شراب چل رہی ہے، جوا چل رہا ہے، سود خوری ہورہی ہے، ظلم و بے انصافی کی کوئی حد نہیں۔ غریب بھوکے مر رہے ہیں اورقوم کے رہنما اپنے عیش میں مست ہیں۔ قتل، چوری، دھوکابازی، رشوت، غبن، کون سا جرم ہے جس کا ارتکاب نہیں ہورہا؟ عورتوں اور مردوں کو جو کچھ دیکھنا حرام تھا، آپ کے فرزندانِ ارجمند اور دخترانِ نیک اَطوار پیسے خرچ کرکے وہ کچھ دیکھ رہی ہیں۔ جو کچھ سننا ممنوع تھا، اسے سننے کے لیے بڑی سے بڑی قیمت ادا کی جاتی ہے۔ جو کچھ کھانا حرام تھا، اس کو کھلم کھلا کھایا جارہا ہے اور جس طرزِ لباس کو اختیار کرنے کی ممانعت تھی، اسی کو آپ کی بیٹیاں علی الاعلان اختیار کررہی ہیں۔ جو مشاغل مردوں کے لیے مخصوص تھے وہ عورتیں اختیار کرر ہی ہیں۔ اور جو صفات اور عادات و اَطوار عورتوں کا زیور تھے وہ مرد اپنا رہے ہیں۔
یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ کیا صرف اس لیے کہ مرد نے ایسا کرنا چاہا؟ ہرگز نہیں! عورت نے خود ایسا کرنے کی اجازت اور بسااوقات حکم دیا تب ایسا ہوسکا۔ اب عورت ہی اپنا رُخ پلٹے گی، اپنا قبلہ بدلے گی۔ لندن، نیویارک اور ماسکو کی اندھی تقلید کے بجائے مدینہ منورہ کی ان رہنما خواتین کی پیروی اختیار کرے گی جن کو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت دی تھی، تو قوم کی حالت بدل سکے گی، ورنہ نہیں۔
سیاست جو کچھ بھی ہو، فی زمانہ بدنام شعبۂ زندگی ہے۔ ایک نوجوان تعلیم سے فارغ ہوا تو اس سے کسی بزرگ نے پوچھا: ’تم اب کیا کروگے؟‘ باہمت نوجوان نے کہا: ’میں سیاست اختیار کروں گا‘۔ بزرگ نے کہا: ’بیٹا! یہ کوئی پیشہ ہے،یہ تو بدنامی کا گھر ہے۔ اس میں داخل ہوکر آدمی راست باز اور دیانت دار نہیں رہ سکتا‘۔
سیاست کے بارے میں یہ تاثر صرف مشرق ہی میں نہیں، خود مغرب میں بھی پایا جاتا ہے۔ برطانیہ کے ایک اخبار نے رائے عامہ کو جاننے کے لیے سروے کیا کہ ’لوگ سیاست کو کیا سمجھتے ہیں؟‘ تو اس اخبار کے نمایندے نے ایک خاتون سے پوچھا: ’محترمہ، آپ کے خیال میں سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں؟ اس نے رُک رُک کر جواب دیا: ’حصہ لینا چاہیے ___ لیکن زیادہ نہیں کہ اس میں وقت ضائع ہوتا ہے، مگر حاصل کچھ نہیں ہوتا‘۔
جس طرح ہمارے ہاں سیاست کو جھوٹ، مکر اور فریب سے تعبیر کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح یورپ میں بھی اسے دھوکے بازی کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ برطانیہ کے ایک رکن پارلیمنٹ نے کہا: ’جو آدمی سیاست کو ترجیح دیتا ہے وہ سچا مسیحی ہونا تو کجا ایک مہذب شخص بھی نہیں رہ سکتا‘۔
سیاست کے بارے میں یہ عمومی تصور ہے کہ یہ حصولِ اقتدار کا ذریعہ ہے۔ صرف وہی لوگ سیاست میں حصہ لیتے ہیں، جواقتدار، جاہ اور شہرت کے طالب ہوں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ عام مشاہدہ بھی یہی ہے، جس کے دل میں شہرت، نام وری اور حب ِجاہ چٹکیاں لیتی ہے، وہ سیاست اور اسٹیج کا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ اس سے آدمی کے احساسِ برتری کو تسکین ملتی ہے، اور یہ بھی صحیح ہے کہ سیاست میں آدمی راست بازی اور اصول کے راستے پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس سلسلے میں انتخابی وعدوں اور بعد کے طرزِعمل کا تقابل کیجیے۔ ان ارکان اسمبلی کو دیکھیے، جو پیچھے رہ جانے والی پارٹی سے نکل کر آگے نکل جانے والی پارٹی میں جاشامل ہوتے ہیں۔ جہاں اقتدار دیکھتے ہیں، وہیں برات لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً غیرجماعتی سیاست کے نفاذ نے تو ہمارے ہاں اور بھی غضب ڈھایا۔ جب جماعتیں نہ رہیں تو پیسہ اور برادری چلنے لگی، اور اب سیاست نے ایک اور رنگ دکھایا ہے کہ آدمی کے پاس پیسہ اور ایوانِ اقتدار سے کوئی تعلق ہو تو وہ قوم کا قائد بن سکتا ہے۔
صدرفیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب نے ایک روز گورنر ہائوس لاہور میں مولانا مودودی کو ملاقات کی دعوت دی۔ کچھ دیر تبادلۂ خیالات کے بعد، مشفقانہ انداز میں ایوب خان صاحب نے فرمایا: ’مولانا، یہ سیاست تو بڑا گندا کام ہے، آپ جیسے بلند کردار اور پاکیزہ نفس لوگ اس میں کیوں پڑگئے ہیں؟ آپ اسے چھوڑ دیں اور ملک کے اندر بھی اور دُنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اسلام کی تبلیغ فرمائیں اور خلقِ خدا کی اصلاح کریں۔ سیاست، سیاسی لوگوں کو کرنے دیں، کیونکہ اس دلدل میں جو بھی قدم رکھے گا کیچڑ سے لت پت ہوگا۔ آپ مذہب کا اور تبلیغ کا کام کریں تو ہماری حکومت آپ سے تعاون کرے گی‘۔
مولانا مودودی نے جنرل ایوب صاحب کو جواب میں فرمایا: ’جنرل صاحب، آپ ٹھیک ہی فرماتے ہیں کہ اس وقت سیاست کو غلط کار اور خوفِ خدا سے عاری لوگوں نے ایک گندا کھیل بنادیا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ حکومت کی خرابی تمام خرابیوں کی جڑ ہے، اور اسی خرابی نے ہماری زندگی کے ہر دوسرے شعبے کو فلتھ ڈپو (گندگی کا مرکز) بنادیا ہے۔ اس لیے جب تک سیاست کو گندگی سے پاک نہیں کیا جائے گا، زندگی کے کسی شعبے کو بھی درست اور صحت مند نہیں بنایا جاسکے گا۔ اجتماعی نظامِ زندگی سے اس گندگی کو دُور کرنے کی کوشش ہمارے نزدیک کوئی سیاسی کام نہیں بلکہ یہ سراسر ایک دینی فریضہ ہے‘۔
ایوب خان صاحب نے فرمایا: ’مولانا، پھر یہ کام کرتے ہوئے تو آپ اپنے کو غلاظت سے آلودہ ہونے سے نہیں بچاسکتے‘۔
مولانا مودودی نے جواب دیا: ’اس میں کیا شک ہے کہ جو شخص بھی غلاظت اور سیوریج صاف کرنے کا کام کرے گا، وہ چاہے کتنی ہی احتیاط برتے، کچھ نہ کچھ چھینٹے تو اس کے کپڑوں پر ضرور پڑیں گے۔ لیکن اگر اس خوف سے سیوریج صاف ہی نہ کیا جائے تو پھر لامحالہ سارے شہر کی صحت خطرے میں پڑ جاتی ہے‘ [میاں طفیل محمد، مشاہدات، ص ۳۲۲، ۳۲۳]۔ ذرا زچ ہوکر ایوب صاحب نے کہا:’آج تک یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی، کہ سیاست کا اسلام سے کیا تعلق ہے؟‘مولانا نے برملا کہا: ’جنرل صاحب، یہ تو صرف آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا، مگر دوسری طرف پوری قوم کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ فوج کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟‘___ اور اس کے بعد دونوں میں گفتگو ختم ہوگئی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ہرمصلح کو اسی نوع کے اعتراضات کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے قوم سے کہا:’جھوٹے خدائوں کو چھوڑ کر سچے خدا کی عبادت کریں اور اپنے مال سے اپنے معذور اور نادار بھائیوں کی مدد کریں‘ تو انھوں نے پلٹ کر کہا: ’کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ تو ہمارے عقائد میں دخل دے اور ہم کو اپنے مال و دولت کے خرچ کے طریقے بتائے؟‘
حضر ت شعیب علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ’’میں تو تمھاری اصلاح کرنا چاہتا ہوں، جہاں تک بھی میرا بس چلے‘‘۔
اللہ کے نیک بندے سیاست میں اس مقصد کے لیے داخل ہوتے ہیں اور اسی مقصد کو لے کر جماعت اسلامی سیاست میں گئی۔ وہ اقتدار کے لیے نہیں بلکہ اصلاح کے لیے سیاست میں داخل ہوئی۔ بلاشبہہ اس میدان کو اہل ہوس نے بدنام کردیا ہے، لیکن مولانا رومؒ کے بقول:
کار پاکاں را قیاس ازخود مگیر
گرچہ باشد در نوشتن شیر شِیر
پاکیزہ لوگوں کو اپنے اُمورپر قیاس مت کرو۔ شیر اور شِیر لکھنے میں ایک ہیں، لیکن معنی میں ان کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ شیر پھاڑنے والا درندہ ہے، جب کہ شِیر (دودھ) حیات بخش غذا ہے۔
کسی دینی اور اصولی جماعت کا سیاست میں آنا اہل دنیا کے لیے ہمیشہ سے تعجب کا سبب رہا ہے۔ ایک انٹرویو نگار نے مولانا مودودی سے دریافت کیا: ’آپ نے سیاست کیوں اختیار کی؟‘ مولانا نے جواب میں فرمایا:
کیا سیاست بھی کوئی پیشہ ہے جسے اختیار کیا جائے؟___ دراصل سیاست کو لوگوں نے آج کل اُوپر چڑھنے کا زینہ اور شہرت کا ہتھکنڈا بنالیا ہے۔ میں نے سیاست اختیار نہیں کی۔ جو لوگ اپنا کوئی مقصد ِ زندگی رکھتے ہیں، وہ اجتماعی زندگی کے معاملات میں کچھ اختیار کرکے دل چسپی نہیں لیا کرتے بلکہ ان کے مقصد کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے میں دلچسپی لیں، جس کا اثر ان کے مقصد پر موافق یا مخالف پڑتا ہو___میں نے جب اسلام کو شعوری طور پر قبول کیا، تو اس طرح لامحالہ میری زندگی کا یہ مقصد بن گیا کہ میں اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے کوشش کروں اور پھر اس نشاتِ ثانیہ کے لیے جس جس پہلو میں بھی کام کرنے کی ضرورت پیش آتی گئی، اس کی طرف عین اپنے مقصد کے تقاضے سے توجہ کرتا چلا گیا۔ اس کے لیے یہ بھی ضرورت تھی کہ اسلام کو غالب کرنے کی راہ میں جوجو طاقتیں مزاحم ہیں، ان کی مزاحمت کو دُور کیا جائے۔یوں آپ سے آپ اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں کی طرف توجہ کرنی پڑی،بغیر اس کے کہ کسی روز بیٹھ کر یہ ارادہ کرتا کہ مجھے فلاں چیز اختیار کرنی چاہیے۔[انٹرویو نگار، علی سفیان آفاقی، ہفت روزہ اقدام، لاہور، اکتوبر ۱۹۵۳ء]
یہ ایک بامقصد شخص کے سیاست میں داخل ہونے کا فطری عمل ہے۔ مولانا مودودیؒ سیاست میں مقصد ِزندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے داخل ہوئے۔ جہاں جہاں مقصد کو پیش قدمی کی ضرورت محسوس ہوئی وہاں قدم زن ہوتے گئے۔ انتخابات کا وقت آیا تو محسوس ہوا کہ جہاں دُنیادار نمایندے اپنا پروگرام قوم کے سامنے پیش کر رہے تھے، وہاں اگر دین کا پیغام بھی قوم تک پہنچا دیا جائے تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا؟ چنانچہ جماعت اسلامی انتخابی میدان میں بھی اُتر آئی۔ لیکن مولانا مودودیؒ کے نزدیک خود دین اور سیاست کا بھی تقاضا ہے کہ اس میں دخل دیا جائے۔ قرآن میں دین کو قائم کرنے کا حکم ہے اور اس حکم کی تعمیل نہیں ہوسکتی جب تک اقتدار دین کے تابع نہ ہو۔ اسی طرح حکومت زبردست اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ یہ خراب ہوجائے تو معاشرے کو خرابی سے نہیں بچایا جاسکتا۔ اسی لیے مولانا نے فرمایا: ’حکومت کی خرابی خرابیوں کی جڑ ہے‘۔ پھر مولانا مودودیؒ نے ایک مرتبہ تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
دین قائم نہیں ہوسکتا جب تک معاشرے کی اجتماعی قوت اصلاح پذیر نہ ہو۔ ناگزیر ہے کہ وہ طاقت صالح اور رُوبہ خیر ہو، جو ملک اور معاشرے کے تمام وسائل و ذرائع پر قبضہ و اقتدار رکھتی ہو۔ جب ہم یہ بات کہتے ہیں تو ہمیں سیاست کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ لیکن میں پوچھتا ہوں کہ اسلام کے مکمل ہونے کا اعلان مکہ میں ہوا تھا، یا مدینے میں؟ اللہ کا دین اس وقت تک قائم نہیں ہوا جب تک آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی حکومت قائم نہیں کرلی اور اقتدار کی طاقت کو اسلام کے لیے وقف نہیں کردیا۔ اسلامی نظام مکہ میں قائم نہیں ہوا تھا، مدینہ میں ہوا تھا۔
۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی شریک ہوئی تو اس پر ٹھیک اس اندازسے الزامات اور اتہامات کی بوچھاڑ کردی گئی، جس طرح دعوتِ حق سے اپنے اقتدار کو خطرے میں دیکھ کر ہر مقتدر طبقہ، داعی حق پر حملہ آور ہوتا ہے: ’یہ تو اقتدار حاصل کرنے کی چال ہے‘۔
مولانا مودودیؒ نے ان تمام الزامات کے جواب میں فرمایا: بلاشبہہ ہم اقتدار چاہتے ہیں، لیکن اپنے لیے نہیں اسلام کے لیے چاہتے ہیں۔ اور یہی چیز جماعت اسلامی کی سیاست کو دُنیادار سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں سے ممتاز اور ممیز کرتی ہے۔
جماعت اسلامی کسی ذاتی غرض کے لیے نہیں بلکہ خیرخواہی کے اصول و مقصد کے حصول کے لیے سیاست میں آئی۔ اس کی انتخابی مہم حقیقت میں ایک دعوتی مہم ہوتی ہے اور اس کو اس کی کبھی طلب نہیں ہوئی کہ وہ اصول توڑ کر یا دعوت سے دست بردار ہوکر کامیابی حاصل کرے۔ ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں، جب جماعت اسلامی کا اُمیدوار چند ووٹوں سے رہ گیا۔ وہ ووٹ خریدنے کے لیے تیار ہوتا تو بآسانی جیت سکتا تھا، مگر اس نے ناکامی کو ترجیح دی لیکن اصول شکنی نہیں کی۔ کیونکہ جماعت اسلامی کے نزدیک اصل کامیابی انتخابات میں کامیابی نہیں، بلکہ دعوت، اصول اور اخلاق پر استقامت میں ہے، یعنی آخرت کے ہرفائدے کو دُنیاوی فائدے کے مقابلے میں سچ جاننا اور ہرخوف اور لالچ کے مقابلے میں اپنے موقف سے سرموانحراف نہ کرنا ہی اس سیاست کا دائرئہ کار ہے۔
تاریخ اس بات پر بھی شاہد ہے کہ جن دُنیادار پارٹیوں نے کسی مقصد کے لیے سیاست کی، انھوں نے بھی اصولوں کے مقابلے میں اقتدار کو ٹھکرانے کی بڑی ولولہ انگیز مثالیں پیش کی ہیں۔
دُنیا نے سیاست کو ہمیشہ غیر اخلاقی اور غیراصولی کھیل سمجھا ہے۔ جماعت اسلامی نے پہلی مرتبہ عملاً دکھایا کہ سیاست میں اخلاق اور اصول کا دامن چھوڑے بغیر بھی حصہ لیاجاسکتا ہے اور ملک کو حقیقی ترقی اس وقت ملتی ہے، جب سیاست میں اخلاق اور اصول آتے ہیں۔
جماعت اسلامی کی سیاست میں دوسری بڑی خدمت یہ ہے کہ اس نے نہ بکنے والے اور نہ جھکنے والے امانت دار، وعدے اور عہد کے سچّے، اور اخلاق و اصول کے پابند سیاسی کارکن پیدا کیے۔ اپنی دعوت کا عملی نمونہ بن کر دکھانا، یہ جماعت اسلامی کا بنیادی اصول ہے۔ مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:
صرف اتنی بات کافی نہیں کہ ایک صحیح نظریہ موجود ہے بلکہ ایسے لوگ درکار ہیں جو اس نظریے پر سچا ایمان رکھتے ہوں۔ ایک صحیح نظریے کی پشت پر ایسے صادق الایمان لوگوں کی جماعت جب تک نہ ہو، محض نظریہ خواہ کتنا ہی بلندپایہ ہو، کتابوں کے صفحات سے منتقل ہوکر ٹھوس زمین میں کبھی جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ زمین اتنی حقیقت پسند ہے کہ جب تک کسان اپنے صبر، اپنی محنت، اپنے بہتے ہوئے پسینے اور اپنی جفاکشی سے اس پر اپنا حق ثابت نہیں کردیتا، وہ لہلہاتی ہوئی کھیتی غلّہ اُگلنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔
مولاناؒ اکثر فرمایا کرتے تھے:
ہمارے لیے خارج سے بڑھ کر باطن اہمیت رکھتا ہے… ہمیں ایک عوامی تحریک چلانے سے پہلے ایسے آدمی تیار کرنے کی فکر کرنی چاہیے، جو بہترین سیرت کے حامل ہوں، اور ایسی اعلیٰ درجے کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیر افکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دوہرے فرائض بھی سنبھال سکیں۔ان کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو، اور ان کے وعدوں اور دعوئوں میں مبالغہ آمیزی نہ ہو۔
جماعت اسلامی کو سیاست میں حصہ لیتے وقت ایک مدت ہوچکی ہے۔ اس کے بعض افراد بڑی بڑی ذمہ داریوں پر فائز ہوئے۔ ان کے بارے میں اور دسیوں شکایات ہوں گی لیکن کوئی ان پر امانت میں خیانت کا الزام عائد نہ کرسکا۔ جماعت اسلامی کے دس بیس نہیں سیکڑوں کارکن گرفتار ہوئے، لیکن ایک مثال نہیں دی جاسکتی کہ جماعت کے کسی ادنیٰ کارکن نے بھی معافی مانگی ہو۔
ہندستان میں دیکھتے ہیں کہ اندراگاندھی کی ایمرجنسی [۷۷-۱۹۷۵ء: ۲۱ ماہ] کے دوران اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کے ساتھ وہاں کی جماعت اسلامی بھی اس کی زد میں آگئی اور اس کے سیکڑوں کارکن گرفتار کر لیے گئے تب غیرمسلم انتظامیہ کو پہلی مرتبہ سچے مسلمانوں سے واسطہ پڑا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ جہاں سیاسی کارکن جیل کے ضابطے توڑنے میں کوئی تامل نہیں کرتے، وہاں یہ لوگ ضابطہ توڑنے کا موقع پاکر بھی نہیں توڑتے۔ پولیس نے غلطی سے کسی اور کو پکڑ لیا تو اصل مطلوب اَزخود تھانے پہنچ گیا۔
دسمبر۱۹۷۱ء میں بالکل یہی منظر بنگلہ دیش بننے کے بعد مجیب الرحمان کی فسطائی حکمرانی سے لے کر ان کی بیٹی حسینہ واجد کے دورِ ستم تک میں ساری دُنیا نے دیکھا کہ جماعت اسلامی کے کارکن نہ پھانسیوں سے ڈرے، نہ قید، گولی اور کاروبار کی تباہی سے اُن کے قدم ڈگمگائے اور نہ کارِ سیاست میں ان کے دامن پر کوئی دھبہ لگا۔
دنیادار لوگ، سیاست میں سچائی اور اخلاق کا مذاق اُڑاتے ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی، جب تک اس کی سیاست اور اجتماعی زندگی اصولوں کی پابند نہ ہو۔جماعت اسلامی جن اصولوں کے ساتھ سیاست میں داخل ہوئی، ان کی روشنی میں موجود منظرنامے پر ایک نگاہ ڈالیں تو دو سوال پیدا ہوتے ہیں:
[ترمیم و اضافہ: س م خ]
تحریک اسلامی کو ایک جنین کی طرح ذہن کی گہرائیوں سے اُبھرنے اور تناور درخت بننے تک کئی مرحلوں سے گزرنا پڑا۔پہلا مرحلہ وہ تھا جب وہ ایک مبہم سا احساس تھی، اور ایک واضح شکل اختیار کرنے کے لیے مضطرب تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندستان میں ہندو سیاسی طور پر منظم ہوچکے تھے، ان کی تنظیم بھی وجود میں آچکی تھی اور وہ اپنی قیادت پر بھی متفق ہوچکے تھے۔ اس کے مقابلے میں مسلمان ایک بے سری فوج ہوکر رہ گئے تھے۔ ان کی نہ تو کوئی فعال تنظیم تھی، اور نہ اپنی قیادت پر متفق الرائے تھے۔ تلاشِ منزل میں وہ کبھی انڈین نیشنل کانگریس کے قافلے میں جاشامل ہوتے، تو کبھی مایوس ہوکر پلٹ آتے۔ دوسری جانب ہندو یکسوئی کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے۔ لیکن مسلمانوں میں کبھی ہجرت کی تحریک اُٹھی، اور کبھی خلافت کی۔ پھر ان تحریکوں سے ان کو جس طرح صدمے پہنچے اس سے ان کا سفر اور بھی کٹھن ہوگیا۔ وہ ایک طرف آزادیٔ وطن کے لیے کوشاں تھے، تو دوسری طرف ان کو اپنے دین کی مدافعت میں معاندانہ یلغاروں کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا تھا۔ مسلمانوں کا یہی تذبذب دیکھ کر ہندوئوں کے رہنما مسٹر گاندھی نے ان سے کہا تھا: ’’تم ہمارے ساتھ چلتے ہو، ٹھیک ہے، نہیں چلتے تو ہمارا قافلہ تمھارے انتظار میں رُکے گا نہیں‘‘۔
یہ حالات تھے، جن میں مولانا مودودیؒ نے دین کے دفاع میں الجہاد فی الاسلام لکھنے کے لیے قلم اُٹھایا۔اس معرکہ آرا تصنیف کی تسوید کے دوران میں مولانا پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ مسلما ن دُنیا کی عام قوموں کی طرح محض ایک قوم نہیں ہیں، جس کو صرف سیاسی آزادی درکار ہو، بلکہ وہ ایک ایسی قوم ہے جس کا ایک مقصد اور ایک مشن ہے اور وہ اس کو بروئے کار لانے کے لیے اُٹھائی گئی ہے۔ مقصد ِ دین کا یہ پہلا احساس تھا جس سے گزر کر تحریک اسلامی اپنے واضح اور روشن نصب العین کی جانب رواں ہوئی۔
پہلا مرحلہ اس صدی کے تیسرے عشرے میں ۱۹۲۴ء سے ۱۹۲۹ء پر محیط ہے۔ دوسرا مرحلہ چوتھے عشرے کے آغاز سے شروع ہوتا ہے۔ اسی زمانے میں کانگریس کی طرف سے مسلمانوں کو متحدہ قومیت کی جانب کھینچنے کے لیے رابطۂ مسلم عوام مہم چلائی گئی تھی۔ اگرچہ مسلمانوں کا عمومی ذہن اس مسئلے کے سلسلے میں صاف نہیں تھا کیونکہ متحدہ قومیت کی دعوت کا پرچم بہت سے اہل دین بھی اُٹھائے ہوئے تھے، تاہم مسلمان اس سے کھنچتے تھے۔ مسلمانوں کی اس نیم دلی نے مولانا مودودی پر دوسری حقیقت یہ منکشف کی کہ مسلمان چونکہ ایک الگ مقصد ِ زندگی رکھتے ہیں، اس لیے وہ کسی دوسری تہذیب اور قومیت میں جذب نہیں ہوسکتے۔ دوسری قوموں کی بنیاد اگر زبان، تہذیب، رنگ اور نسل ہے، تو مسلمانوں کی قومیت کی اساس مذہب ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس حقیقت کو وضاحت کے ساتھ مسئلہ قومیت اور اپنی ایک دوسری کتاب مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش میں بیان فرمایا۔
اسی اثنا میں حالات نے مسلمانوں کو بھی منظم ہونے کی طرف متوجہ کیا اور ان کے اندر اپنی جداگانہ قومیت کا احساس نمو پانے لگا۔
تحریک اسلامی کا تیسرا مرحلہ اسی زمانے میں آیا، یعنی ۱۹۴۰ء سے اگست ۱۹۴۱ء تاسیس جماعت تک۔ اس دوران کُل ہند مسلم لیگ کی طرف سے قرارداد لاہور پیش ہوتی ہے، جس میں مسلمان اکثریتی علاقوں کے لیے الگ نظام بنانے کا مطالبہ تھا۔ اس قرارداد کے بعد تحریک ِ پاکستان بڑی تیزی سے مسلمانانِ ہند میں مقبول ہوگئی۔ لیکن تھوڑی ہی مدت میں نمایاں ہوگیا کہ یہ تحریک خالص قوم پرستانہ رنگ میں ڈھلتی جارہی ہے۔ مولاناؒ کو خدشہ ہوا کہ قوم پرستی کے جذبات کہیں قوم کو دینی مقاصد سے اجنبی نہ بنادیں۔ چنانچہ انھوں نے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا کہ قومی ریاست اور اسلامی ریاست کا فرق واضح فرمایا۔
مولاناؒ نے بتایا کہ مسلمانوں کی کسی قومی مملکت کے وجود پذیر ہونے کا یہ لازمی مطلب نہیں کہ اسلامی ریاست بھی قائم ہوگئی ۔ اسلامی ریاست اور قومی ریاست کے مقصد اور طریق کار میں جوہری فرق ہے۔ مولاناؒ نے یہ وضاحت ایک تقریر میں فرمائی جو بعد میں اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ یہ حقیقت ہے کہ مولاناؒ کی یہ تقریر عصرحاضر کے اسلامی لٹریچر میں ایک انقلابی موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مولاناؒ نے جب قوم کو یہ بتانا چاہا کہ قرآن کی رُو سے مسلمانوں کا مقصود قومی نہیں اصولی اسلامی ریاست ہے، تو تحریک ِ اسلامی تیسرے مرحلے میں داخل ہوگئی۔
اس کے بعد چوتھا مرحلہ آتا ہے جو اگست ۱۹۴۱ء یعنی تاسیسِ جماعت سے قیامِ پاکستان تک چلتا ہے۔ اس مرحلے میں مولانا کی تمام تر توجہ دو اُمور پر مرکوز رہی:
دین کی حقیقت کے سلسلے میں مولانا نے بتایا کہ دین کسی مجموعۂ عبادت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک نظامِ حیات ہے جس کا منطقی تقاضا ہے کہ مسلمان کی زندگی انفرادی طور پر ہی نہیں اجتماعی طور پر بھی غیرمسلموں یا اسلام کی راہ پر نہ چلنے والوں سے مختلف ہو۔ مولاناؒ کا سب سے بڑا کارنامہ اسلام کی بحیثیت نظامِ زندگی وضاحت ہے۔ آپ نے بتایا کہ اسلام کسی زبانی اقرار یا زندگی میں جزوی تبدیلی کا نام نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر انقلاب ہے جو زندگی کو اپنے حسب ِ منشا نئی بنیادوں پر اُٹھاتا ہے۔
اسلام کی اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت ہے جو جاہلی (غیراسلامی) تہذیب و ثقافت سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ اسلامی زندگی میں مصالحت اور دورنگی نہیں ہوتی یکسوئی ہوتی ہے اور مسلمان، مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں جب تک اس کی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں کی منہ بولتی تصویر نہ ہو۔
مولاناؒ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ اسلام اور مسلمان ہم معنی نہیں۔ اسلام وہ نہیں جو مسلمان کرتے ہیں۔ اسلام اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کی غیرمشروط اطاعت کا نام ہے۔ اس میں ذاتی ذوق نہیں چلتا، مکمل سرافگندگی ہوتی ہے۔
مولاناؒ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کی تشریح اس اسلوب سے کی جس کو جدید ذہن سمجھ سکتاہے۔ انھوں نے بتایا کہ اسلام ایک انقلابی تحریک کا نام ہے جو انسانی زندگی کو نئی قدریں عطا کرتی ہے اور اسلام کا فریضہ صرف تبلیغ سے ادا نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ہمہ گیر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ مولاناؒ کے اسی اسلوبِ بیان کا نتیجہ ہے کہ مغربی تعلیم یافتہ ذہن سے اسلام کے بارے میں بہت سے غلط تصورات صاف اور غلط فہمیاں دُور ہوگئیں۔
مولاناؒ نے جہاں دعوتِ دین کی وضاحت میں انقلاب بپا کیا، وہاں اسلامی و غیراسلامی تحریک کا فرق بھی نمایاں کیا۔ انھوں نے بتایا کہ عام سیاسی تحریکیں مسائل پر چلتی ہیں، جب کہ اقامت دین کی تحریک کی بنیاد، کردار ہوتا ہے۔
تنظیم کے سلسلے میں مولانا کا ایک یادگار کارنامہ اسلامی جماعتی زندگی کی عملی تعبیر ہے۔ جماعتی زندگی سمع و اطاعت، مشورے اور محاسبے سے چلتی ہے۔ اس میں اختلاف ہوتا ہے لیکن حدود کے اندر۔پھر مقصد ِ جماعت کو کارکنان میں زندہ و تازہ رکھنے کے لیے ہفتہ وار اجتماعات کا جو نظام قائم کیا وہ عدیم النظیر اور اثرات کے اعتبار سے حیرت انگیز ہے۔ ہفتہ وار اجتماعات کی بدولت نصب العین جماعت ایک زندہ حقیقت اور قوتِ نافذہ بن گیا۔انھی کی سبب سے جماعت اسلامی ایک منظم پارٹی بنی، جس کا اس کے بڑے سے بڑا دشمن بھی اعتراف پر مجبور ہے۔
تنظیم جماعت کے ساتھ ساتھ تربیت ِ کارکنان پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ مولاناؒ کے نزدیک کوئی جماعت حالات کا اس وقت تک مقابلہ نہیں کرسکتی جب تک اس کے ارکان پختہ ایمان اور پختہ سیرت کے مالک نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت کے کسی ادنیٰ سے ادنیٰ کارکن نے بھی آج تک معافی مانگ کر رہائی حاصل کی اور نہ بکا، نہ جھکا۔
تربیت کے سلسلے میں مولانا ہمیشہ دو صفات پر زور دیتے تھے: صبراور حکمت۔اور سچّی بات ہے کہ طویل اجتماعی تنظیمی تجربے نے بتایا ہے کہ ایک تنظیم میں یہی دوصفات، اصل زادِ راہ ہیں۔
اس کے بعد ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کا مرحلہ آگیا۔ جماعت اسلامی بھی ہندستان کی دو بڑی جماعتوں کانگریس اور مسلم لیگ کی مانند دو حصوں میں بٹ گئی۔ اپنے اپنے ملک کے مخصوص احوال و ظروف کی وجہ سے پاکستان اور ہندستان کی جماعتوں کی راہیں الگ ہوگئیں اور انھیں الگ الگ اندازِ کار اپنانے پڑے۔ ہندستان میں مسلمانوں کو اکثریتی فرقے کے آئین کے تحت زندگی گزارنا تھی، جب کہ پاکستان میں اُنھیں دستورِ مملکت خود بنانا تھا۔
بنابریں پاکستان میں جماعت اسلامی کو اپنی جدوجہد کا آغاز دستوری مہم سے کرنا پڑا۔ جماعت اسلامی نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کے دستور کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ اللہ پر رکھی جائے۔ جماعت اسلامی کے اس مطالبے کو حیرت انگیز پذیرائی حاصل ہوئی۔ پوری قوم نے اس مطالبے کو اپنا مطالبہ بنالیا۔ اسی کے نتیجے میں ’قرارداد مقاصد‘ منظور ہوئی جو دُنیا کی دستوری تاریخ میں ایک انقلابی موڑ ثابت ہوئی۔
جماعت اسلامی ہند نے جن حالات میں اپنے کام کا آغاز کیا وہ انتہائی حوصلہ شکن اور نامساعد تھے۔ مسلمانوں پر مایوسی کی سی کیفیت طاری تھی۔ جماعت اسلامی ہند کی سب سے بڑی ملّی خدمت یہ ہے کہ اس نے ہندستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو حوصلہ بخشا۔ پھر جماعت اسلامی ہند نے دو بنیادوں پر اپنے کام کا آغاز کیا:
۱- مسلمانوں میں عزم و حوصلہ پیدا کرنا اور غیرمسلموں کے سامنے اپنی عملی زندگی سے اسلام کی سچی تصویر پیش کرنا۔
۲- غیرمسلموں کو اسلام کے صحیح تعارف سے روشناس کرانا۔
ہندستان کے مسلمانوں کو اکثریتی تہذیب سے بچانے کے لیے جماعت اسلامی نے اسلامی تعلیم گاہوں کا جو جال بچھایا ہے، وہ ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ اس سے بھارت کے مسلمانوں کی آیندہ نسلیں نہ صرف غیرمسلم اثرات سے محفوظ ہوگئیں بلکہ مسلمانوں کی زبان بھی اکثریتی زبان کی دست برد سے بچ گئی۔
تقسیم ہند جس زمانے میں ہوئی ہے وہ عالمی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ جنگ ِ عظیم دوم نے پرانے سماجی اور سیاسی نظام کو منہدم کردیا تھا اور دُنیا بھر میں ایک نئے آفاقی نظام کی طلب پیدا ہوگئی تھی۔ ٹھیک اس زمانے میں تحریک اسلامی کے لٹریچر کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوکر پھیلنے لگے۔ اس سے عالمی تحریک ِ اسلامی کا ہیولا بتدریج اُبھرنے لگا۔ تحریکِ اسلامی کو اس وسعت سے مختلف مسائل اور چیلنجوں کا سامنا بھی ہوا۔ کہیں دبی ہوئی مسلمان اقلیتیں تھیں جن کے لیے اصل مسئلہ اپنے ثقافتی تشخص کی بحالی تھا، کہیں خودمختار مسلمان اکثریتیں تھیں جو اپنے داخلی، خارجی، اور آئینی مسائل میں اُلجھی ہوئی تھیں۔ اگر اسلام تمام مسائل کا حل ہے تو پھر تحریک اسلامی کے لیے یہ چیلنج تھا کہ وہ بتاتی کہ عصرحاضر کے پیچیدہ سیاسی، اقتصادی اور سماجی مسائل کے اسلامی حل کیا ہیں؟ الحمدللہ کہ تحریک اسلامی نے اس چیلنج کو قبول کیا اور ہرشعبۂ زندگی کے مسائل کے لیے کتاب و سنت سے رہنما اصول پیش کر دیئے، حتیٰ کہ تحریک اسلامی کی مساعی سے اسلامی ریاست کا ایک ماڈل دستور بھی تیار ہوگیا جو صرف مسلم ریاستوں ہی کے لیے نہیں غیرمسلم دُنیا کے لیے بھی روشنی کا مینار ہے۔
پاکستان کے اندر جماعت اسلامی کو کن مراحل سے گزرنا پڑا، وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ تحریکیں کتابی راستوں سے نہیں اَن دیکھی راہوں سے بڑھتی ہیں۔ اصل ضرورت اپنے بنیادی اصولوں کی سختی سے پابندی ہوتی ہے۔الحمدللہ کہ جماعت اسلامی نے اپنے بنیادی اصولوں پر کبھی مصالحت گوارا نہ کی۔
پاکستان میں جماعت اسلامی کے لیے پہلا بنیادی مسئلہ پاکستان کے آئینی قبلے کی راستی تھا۔ اس کے بعد دوسرا مسئلہ دین دار قیادت کی فراہمی تھی، یعنی پاکستان میں ایسی قیادت برسرِاقتدار آئے جو دین کا صحیح فہم بھی رکھتی ہو اور اس کے نفاذ میں بھی مخلص ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے ہرانتخابی عمل میں شرکت کا فیصلہ کیا۔
سیاسی تجربے میں جماعت اسلامی کو اُن ملتی جلتی حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑا، جو اسلام کو اس کے مدنی دور میں پیش آئی تھیں۔ جاہلی تعصبات، منافقت، خدا واسطے کا بیر، وسائل کی کمی، اندرونی جماعتی کمزوریاں اور بیرونی مزاحمتیں۔ لیکن اپنے تجربے کی بنا پر یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اللہ پر صدقِ دل سے بھروسا کیا جائے تو راہ خود بخود صاف ہوتی چلی جاتی ہے۔
تمام مخالفتوں اور مزاحمتوں کے باوجود جماعت اسلامی نے پاکستان کی تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔ جماعت اسلامی کی کامیابی کو اسمبلی کی نشستوں سے نہیں ناپنا چاہیے۔ اس کی سیاسی کامرانیوں سے جانچنا چاہیے۔ جماعت اسلامی کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے اسلام کو پاکستان کا قومی نصب العین بنادیا:
۱- یہ جماعت اسلامی کی مطالبہ اسلامی دستور مہم تھی جس کے نتیجے میں تاریخ ساز قرارداد مقاصد منظورہوئی۔ اس سے مستقلاً طے پاگیا کہ پاکستان کی منزل اسلامی نظام ہے۔
۲- اسلامی نظام اب جماعت اسلامی ہی کا نہیں غیردینی سیاسی پارٹیوں کا بھی نعرہ بن گیا ہے۔ کسی اُمیدوار کی انتخابی مہم اس کے بغیر چل نہیں سکتی، جب تک وہ اسلامی نظام کے قیام کا وعدہ نہ کرے۔ اسلامی نظام کو قومی نصب العین بنادینا کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں ہے۔
۳- یہ ہر دور میں جماعت اسلامی کا دبائو تھا جس نے دساتیر میں اسلامی دفعات کو قائم رکھا۔ ۱۹۷۱ء کے بعد ایسا وقت بھی آیا جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں اشتراکی سیکولر نصب العین رکھنے والوں کی غالب اکثریت تھی۔ ان کی جانب سے پوری کوشش کی گئی کہ پاکستان کے دستور کو سیکولر رنگ دے دیا جاتا۔ لیکن الحمدللہ کہ یہ اسمبلی کے اندر جماعت اسلامی کے مٹھی بھر نمایندوں اور باہر سے اس کا تنظیمی دبائو تھا، جس نے ان کو مجبور کیا کہ وہ اسلامی دفعات کو من و عن قائم رکھیں اور وعدہ کریں کہ دس سال کے اندر پاکستان کے تمام قوانین کتاب و سنت کے مطابق بنادیئے جائیں گے۔
۴- پاکستان میں متعدد مرتبہ ایسے آمرانہ نظام آئے کہ عامۃ المسلمین کے بنیادی حقوق معطل کردیئے گئے۔ یہ جماعت اسلامی کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ عوام کے حقوق بحال ہوئے۔ ملک و قوم کی فلاح کا جب بھی معاملہ آیا جماعت اسلامی یا تو تن تنہا اُٹھ کھڑی ہوئی یا تعاون علی البر پر دوسروں سے اتحاد کیا۔ ایوب خان کے غیرجمہوری فسطائی نظام کے خلاف جب تحریک بپا ہوئی تو اس کے سالارِ قافلہ جماعت اسلامی کے بانی ہی تھے اور بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مولانا مرحوم کی تقریریں تھیں جنھوں نے قوم کا شعور بیدار اور ظالمانہ نظام کی بندشیں ڈھیلی کیں۔
فکری لحاظ سے تحریک اسلامی نے حجت تمام کردی ہے۔ اگلا مرحلہ نفاذ کا ہے۔ جس طرح فکری مرحلہ طے ہوا ہے ان شاء اللہ عملی نفاذ کا مرحلہ بھی طے ہوجائے گا۔ پاکستان میں ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ اسلامی نظام اب سامنے کی بات دکھائی دیتا ہے۔
تذکیر کے طور پر یہاں صرف ایک چیز کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ اسلامی تحریک کی تمام تر بنیاد اسلامی سیرت و کردار ہیں، وہ نہ ہوں تو منزل پاکر بھی ہم نامراد رہیں گے۔ اس لیے تحریک اسلامی سے متعلق کارکنوں کو اس حقیقت سے کبھی غافل نہیں رہنا چاہیے کہ دعوتِ دین کے فروغ کا تمام تر دارومدار ان کی اپنی سیرت اور کردار پر ہے۔ ان میں دین کی جھلک نہ ہوئی تو الفاظ کے دریا بہا دینے سے بھی تنکا بھر اسلامی انقلاب نہ آئے گا۔
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جماعت اسلامی کی تاسیس سے بھی تقریباً ۱۵ سال قبل اقامت ِ دین کے نصب العین اور دعوت دین کے کام کا آغاز کر دیا تھا۔ مرکزی مجلس ِ شوریٰ نے یہ طے کیا ہے کہ جماعت ِ اسلامی کی دعوت زیادہ زور شور سے پیش کرنے، عوام میں اسے وسیع پیمانے پر روشناس کرانے، اور خود جماعت میں نئے ولولہ اور یکسوئی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھنے کا عزم بیدار کرنے کے لیے خصوصی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جائے۔
گذشتہ برسوں میں ہم کن کن مراحل سے گزرے؟ کیا کیا رکاوٹیں راستے میں پیش آئیں؟ ہم نے کیا کیا پیش قدمیاں کیں؟ یہ ایک طویل داستان ہے۔ اس داستان کی تاریخ بعض احباب نے لفظوں میں لکھی ہے، اور بہت کچھ عمل کے ذریعے لکھی جا رہی ہے۔ ہم ماضی و حال کی روشنی میں، یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آج کس مرحلے میں ہیں، ہمیں کیا چیلنج درپیش ہیں، ان کا مقابلہ کس طرح کر رہے ہیں، اور آیندہ ہمیں کیا کچھ کرنا ہے؟
آج سے ایک صدی پہلے بھی تقریباً ساری مسلم دُنیا مغربی تہذیب اور مغربی سامراج کے تسلط میں تھی۔ اس کا اکثر حصہ، برصغیر پاک و ہند سمیت، براہِ راست برطانوی سامراج کی مضبوط گرفت میں تھا۔ جس میں اسلام کا نام بھی تھا، مذہبی مراسم بھی ادا کیے جاتے تھے، دینی دعوت و تعلیم بھی جاری تھی، لیکن دین کے اس تصور کا شعور خال خال لوگوں میںپایا جاتا تھا کہ اس کا قیام ہی ہرمسلمان کا انفرادی طور پر، اور اُمت ِ مسلمہ کا بحیثیت مجموعی، مقصد ِ حیات ہے۔ بحیثیت ایک جامع نظامِ زندگی کے بھی دین کا تصور اکثر لوگوں کی نظروں سے اُوجھل ہو گیا تھا۔ دین کے قیام کے لیے جدوجہد میں زندگی کے آثار بھی مفقود تھے۔ ان حالات میں پوری مسلم دُنیا مایوسی اور افسردگی کا شکار تھی۔
برصغیر کے مسلمان، آٹھ سو سال حکومت کرکے، انگریز کی غلامی میں جا چکے تھے۔ خلافت ِ عثمانیہ کا خاتمہ، تحریک ِخلافت کی ناکامی، برہمنی سامراج کی سازشیں، پہلے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی اکثریتی ہندو حکومتوں کے مظالم___ ان سب عوامل کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمانوں پر افسردگی کے بہت گہرے سائے چھائے ہوئے تھے۔
مایوسی کے اس عالَم میں کچھ علما ضرور مسلمانوں کو دین کی طرف دعوت دے رہے تھے۔ پھر علامہ محمداقبال ؒنے بھی اُمید کی ایک شمع روشن کر رکھی تھی۔ لیکن ان سب کا کام، زیادہ تر صرف پیغام تک محدود تھا۔ ان میں سے کوئی بھی آگے بڑھ کر، اقامت ِ دین کا پرچم اُٹھا کر، منظم جدوجہد کی راہ پر قدم بڑھانے کے لیے حوصلہ، ہمت اور آمادگی اپنے اندر نہ پاتا تھا۔
ان حالات میں، خالص دین کی بنیاد پر مسلمانوں کی صف بندی کرنے کے لیے عملی تحریک برپا کرنے کی سعادت مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کے حصے میں آئی۔ اُنھوں نے اپنی تحریروں سے نہ صرف مغربی تہذیب کا طلسم توڑا، اسلام کا تصور بحیثیت ایک جامع نظامِ زندگی کے اُجاگر کیا، بلکہ اسلام میں جہاد کی حقیقی روح و تقاضوں اور اس کی اہمیت کا احیاء بھی کیا۔
مولانامودودی نے مسلمانوں کو پکارا کہ جن حالات سے ان کو سابقہ درپیش ہے: ان حالات میں اقامت ِ دین فرضِ کفایہ نہیں بلکہ فرضِ عین ہوتا ہے، اور ہر وہ شخص قابلِ مواخذہ ہوگا جو قدرت و استطاعت کے باوجود اقامت دین اور حفاظت ِ دین کے لیے جان لڑانے سے گریز کرے گا۔ احکامِ کفر کے مقابلے میں احکامِ الٰہی کے اجرا کی کوشش بہرحال اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا، اس کے لیے جماعت کا وجود اور جو جماعت موجود ہو اس کا التزام، ضروری ہے۔ (ماہ نامہ ترجمان القرآن، جولائی۱۹۵۷ء)
اُنھوں نے کھول کھول کر یہ بات سمجھائی کہ اقامت ِ دین کا مقصد ہی وہ اصل مقصد ہے جس کی خاطر انبیا علیہم السلام بھیجے گئے، اوریہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کامقصد تھا:
یہی اُمت ِ مسلمہ کا اصل مقصد اور فریضہ ہے۔ اُمت کے ہر فرد پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ فریضۂ اقامت ِ دین کی اس منظم جدوجہد میں اپنا حصہ ادا کرے، اور اس کے لیے اپنے آپ کو ایک جماعتی نظم کے سپرد کر دے:
اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا راستہ بھی یہی ہے کہ ایک مومن اپنی پوری زندگی اور تمام وسائل اور ساری صلاحیتیں، اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اس جہادِزندگانی میں لگا دے۔
یہی وہ دو باتیں تھیں، جنھوںنے بے شمارسعید رُوحوں کو مضطرب کر دیا، اُنھوں نے مولانامودودی کی پکار پر لبیک کہا، اور ۲۶؍اگست۱۹۴۱ء کو لاہور میں جماعت ِ اسلامی قائم ہو گئی۔
برسوں پہلے اگرچہ چند ہی رفقائے کاراکٹھے ہوئے، وہ بھی اکثر متوسط درجہ کے بے وسائل نوجوان، لیکن مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ سفر اس یقین کے ساتھ شروع کیا کہ ایک وقت آئے گا کہ سرمایہ داری نظام کو واشنگٹن اور لندن میں اور اشتراکیت کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی۔ اسلام کو نظامِ غالب بنانے کی یہ تحریک بظاہر بے سروسامانی کی حالت میں شروع کی گئی۔ لیکن اس کا اصل سرمایہ چند صالح افراد کا اخلاص اور یہ ایمان تھاکہ ’حق بذاتِ خود ایک قوت ہے‘۔ ان کو یقین تھا کہ جب اہلِ حق اخلاص کے ساتھ راہِ حق میں نکلتے ہیں تو اللہ کی نصرت آتی ہے، اور فیصلہ کرنے والی ذات اللہ رب العالمین ہے۔ اگر دین کی راہ پر، قول و فعل کی صداقت کے ساتھ چلنے والے افراد کا ایک ایسا گروہ وجود میں آ جائے، جو اس کے راستے میں مخلصانہ جدوجہد کرکے ثابت کر دے کہ وہ زمین کی وراثت کی صلاحیت رکھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ دُنیا کی زمامِ کار مفسدین سے اس کی طرف منتقل کردیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان گزشتہ برسوں میںمولانا مودودیؒ کی دعوت پر جمع ہونے والوں کا قافلۂ حق کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہے۔ اگست ۱۹۴۱ء کے اجتماع میں اگر ۷۵؍افراد تھے، اور اب لاکھوں افراد جماعت ِ اسلامی سے وابستہ ہیں۔
جماعت کے اجتماع ارکان میں طے کردہ، انتخابات کا طریقہ ہی، وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنا اصل مقصد’زمامِ کار کی تبدیلی یا انقلابِ امامت‘حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ۱۹۴۹ء کی قرار دادِ مقاصد، ۱۹۵۶ اور ۱۹۷۳ء کے دستور، بلاشبہہ حد درجہ بنیادی اقدامات ہیں، لیکن ان کے باوجودمطلوبہ نتائج نمودار نہیں ہوئے، اور اسلامی معاشرہ وجود میں نہیں آیا۔تاہم، ان اقدامات، جمہوری ذرائع سے اور کشت و خون کے بغیر، پاکستان کو کس طرح اسلامی ریاست کے راستے سے منسوب کر دیا، اور اس راستہ پر کتنا آگے بڑھا دیا؟ اس کا اندازہ ترکی، مصر، شام،سوڈان، عراق اور انڈونیشیا جیسے ممالک کو دیکھ کر آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔
بلاشبہہ معاشرے میںبگاڑ بڑھا ہے، لیکن ذرا تصور کیجیے کہ ہماری اصلاح و تعمیر اور دعوت کی سرگرمیوں کے بغیر یہ معاشرہ کہاں پہنچ چکا ہوتا، اس کا اندازہ کرنا کچھ دشوار نہیں۔ دعوت ِحق کے نتیجے میں لاکھوں افراد نہ صرف اپنی زندگیاں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق گزارنے میں لگے ہوئے ہیں، بلکہ عملاً معاشرے کو، دعوت کے صبر آزما کام کے ذریعے، اسلامی بنانے کے لیے اپنا جان و مال لگا رہے ہیں۔ آج آپ کسی شعبۂ زندگی میں چلے جائیں، آپ کو جماعت ِ اسلامی کی دعوت کے اثرات نظر آجائیں گے۔ وطن عزیز ہی نہیں بلکہ آپ دُنیا کے کسی حصے میں جائیں، وہاں اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والوں میں اقامت ِ دین اور تحریک اسلامی کے حوالے سے جماعت ِ اسلامی کے وابستگان کو متحرک پائیں گے۔
یہ جو کچھ حاصل ہوا ہے، محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوا ہے۔ اس پر ہم اس کا جتنا شکر ادا کریں، وہ کم ہے۔ جو کچھ نہ ہو سکا، اورجتنا ہم منزل سے دور ہیں، وہ سراسر ہماری کمزوریوں اور خامیوں کا نتیجہ ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر جس چیز کا شکر ہم پر واجب ہے اور جو چیز ، یہ ساری دُنیاوی کامیابیاں نہ بھی حاصل ہوں تو بھی، ہماری اصل متاع اور حاصل جدوجہد ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میںجو بنیادی مقاصد، ہم نے اپنے لیے متعین کیے تھے، الحمدللہ، ہم انھی مقاصد کی طرف چل رہے ہیں۔ اور اسی طریقِ کار کے مطابق چل رہے ہیں، جو ہم نے قرآن و سنت کی روشنی میں اخذ کیا تھا۔
انفرادی لغزشوں اور غلط فیصلوں سے انسانوں کی کوئی اجتماعیت خالی نہیں ہے۔ حالات میں تغیرات کے مطابق پالیسی، نظام، تدابیر، وسائل اور تکنیک میں تبدیلیاں بھی کی جاتی رہی ہیں، اور ۱۹۴۷ء ہی سے کی جاتی رہی ہیں، لیکن یہ تبدیلیاں انھی اصولوں کی روشنی میں کی جاتی رہی ہیں، جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں، جن کی وضاحت خود داعی تحریک اسلامی نے فروری۱۹۵۷ء میں ماچھی گو ٹھ (ضلع رحیم یار خاں) میں ارکانِ کے اجتماع کے دوران کی تھی، اور جن کی بھر پور تائید ارکانِ جماعت نے کر دی تھی۔ قرآن و سنت کے منصوص احکام کو تبدیل کرنا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں، اور جو جماعت اقامت ِ دین کی جدوجہد کے لیے اُٹھے اس کے لیے تو یہ لازم ہے کہ وہ اسی طریقِ کار سے اپنی منزل کی طرف بڑھے، جو طریقِ کار رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیاتھا۔ آپؐ کی طے کردہ حدود کے اندر ہی رہے، جن چیزوں سے آپؐ نے روکا ہے اُن سے رکی رہے، اور جن وسعتوں اور جس تنوع (diversity)کو آپؐ نے اختیار کیا یا اجازت دی، ان سے اجتناب برتنے اور تنگی اختیار کرنے سے احتراز کرے۔
ہمیں اس بات میں کوئی شبہہ نہیں، اور یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان ہے، کہ ہم آج وہی الفاظ بلاتامل دُہرا سکتے ہیں جو الفاظ مولانا مودودی نے ۱۹۵۷ء میں ارشاد فرمائے تھے۔ یہ الفاظ جماعت کے ان چند لوگوں کو مخاطب کرکے کہے گئے تھے، جو خود مولاناؒ کی تحریروں سے مولاناؒ کے خلاف یہ مقدمہ قائم کر رہے تھے کہ ’’۱۹۴۷ء کے بعد جماعت نے اُن کی قیادت میں پالیسی اور تدابیر میں جو تبدیلیاں کی ہیں، اور جو تیز تر عوامی اور سیاسی جدوجہد شروع کر دی ہے، اس کی وجہ سے وہ اپنے اس اصل طریقِ کار سے ہٹ گئی ہے جس کی خود اُنھوں نے تعلیم دی تھی۔ دینی احکام میں حکمت ِ عملی کے نام پر تبدیلی کر دی گئی ہے، ترمیم و تحریف کا اختیار حاصل کر لیا گیا ہے، جماعت اسلامی کا اخلاقی و دینی معیار گر گیاہے‘‘ وغیرہ۔
اس سب کے جواب میں مولانا مودودی نے فرمایا:انفرادی لغزشوں اور کوتاہیوں سے تو بہرحال کوئی جماعت بھی خالی نہیں ہو سکتی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اجتماعی حیثیت سے جماعتِ اسلامی ان اصولوں کی پوری پابندی کرتی رہی ہے [جو عقیدہ، نصب العین، شرائط رکنیت اور مستقل طریقِ کار کے تحت دستور میں درج کیے گئے ہیں]۔ یہ سراسر اللہ کا فضل ہے کہ بے اصولی کے وہ انتہائی صبرآزما طوفان بھی، جن کے درمیان اِس ملک میں برسوں کام کرنا پڑا ہے، اسے ایک بے اصول جماعت بنا دینے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے ہیں___ جماعتِ اِسلامی ابتدا سے ایک سوچے سمجھے نقشے پر کام کر رہی ہے۔ اس نقشے کی تفصیلات تو ہمارے ذرائع ووسائل کی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھتی اور پھیلتی رہی ہیں، لیکن اس کے بنیادی خطوط وہی رہے ہیں جو اوّل روز سے اِس کام میں ہمارے پیش نظر تھے۔ (سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، جولائی۱۹۷۳ء، ص۵۹،۷۲،۷۳)
جماعت ِ اسلامی اگر اپنے نصب العین اور بنیادی اصولوں پر قائم رہی ہے، تو یہ سراسر اللہ تعالیٰ کے فضل، قرآن و سنت کی طرف رجوع اور اُن کے التزام کی سعی، اور مولانا مودودی کی بصیرت سے بھرپور رہنمائی کا نتیجہ ہے۔
تحریک اسلامی کا لائحۂ عمل اور طریقِ کار
جماعت ِاسلامی نے جو طریقِ کار کتاب اللہ اور سنت ِ نبویؐ سے اخذ کیا وہ چار بنیادی اصولوں اور حدود پر مبنی تھا:
صداقت و دیانت کے منافی ذرائع کے استعمال سے اجتناب، اصلاح و انقلاب کے لیے جمہوری و آئینی طریقوں سے کام کرنا، رائے عامہ کے ذریعے مطلوبہ تغیرات بروئے کار لانا، کھلم کھلا اور علانیہ کام کرنا _غور کیا جائے تو یہ سب اصول درج بالا چار اصولوں ہی کا منطقی نتیجہ ہیں، انھی سے اخذ کردہ ہیں۔
اس کام کے لیے معقول اور فطری طریقہ یہی ہے کہ اللہ کی طرف دعوت دینے والا سب سے پہلے اپنی ذات سے ابتدا کرے۔ وہ اپنی زندگی میں تضادات کو دور کرنے، اللہ کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ دینے، اور خود اپنی دعوت کا نمونہ بن جانے کی مسلسل کوشش میں لگ جائے۔ ساتھ ہی وہ اپنے گھر اور اہل و عیال، اعزہ و اقربا اور اپنے ہمسایوں تک یہ دعوت پہنچائے۔
اس کے ساتھ اس کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ پوری قوم کو اور حسب ِ استطاعت عالم ِ انسانیت کو اللہ کی طرف دعوت دے، اور اصلاحِ معاشرہ، تبدیلیٔ معاشرہ، تبدیلیٔ حکومت اور انقلابِ قیادت کے لیے بھی مقدور بھر کام کرے۔ ان میں سے کوئی کام کسی دوسرے کام کی خاطر نہ ملتوی کیا جاسکتا ہے، نہ مؤخر کیا جا سکتا ہے، اور نہ اسے ترک کیا جا سکتا ہے۔ ہاں، کسی پہلو میں کمی بیشی اور تقسیمِ کار ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی اس کا فرض ہے کہ نظم جماعت اس سے جو کام لینا چاہے، جہاں اور جس ذمہ داری پر لگانا چاہے، وہ پوری وفاداری سے اپنی صلاحیتیں اس کے سپرد کردے۔
نظمِ جماعت کے لیے، ابتدا سے قرآن و سنت کی روشنی میں جو اصول وضع کیے گئے، ان میں سمع و طاعت فی المعروف، مشاورت، باہمی الفت و محبت اور احتساب اہم ترین اصولوں کے طور پر شامل تھے۔
ان اصولوں اور اس نقشۂ کار کی پابندی جس طرح روزِ اول سے کی جا رہی ہے، آج بھی کرنا ضروری ہے بلکہ آج زیادہ ضروری ہے۔ آج ہمیں سنگین تر چیلنجوں سے سابقہ درپیش ہے۔ ہماری تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب معاشرے کا بگاڑ بھی بڑھ گیا ہے۔ دُنیا ایک آنگن بن گئی ہے، اور تحریک اسلامی ایک عالم گیر حقیقت۔ اب اس کے دشمن اپنے ملک میں ہی نہیں ہیں، بلکہ عالم گیر سامراجی قوتیں بھی اس کے درپے ہیں۔ نقل و حمل کے جدید وسائل اور ذرائع ابلاغ نے غالب لادینی تہذیب کو ایک ایک گھر میں گھسنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ ان حالات میں جماعت کا کوئی ادنیٰ کارکن بھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ تحریک اپنے بنیادی اصولوں اور نقشۂ کار میں کچھ ترک کرکے یا کچھ لچک پیدا کرکے اپنے نصب العین کی طرف پیش قدمی کر سکتی ہے۔
جماعت اسلامی نے انھی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے، آج کے اس مرحلے میں دعوت کے کام کو اپنے منصوبوں میں اوّلین ترجیح دی ہے، اور یہی ہدایت سارے کارکنوں کو دی ہے۔ صرف اولین ترجیح دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا ہے، بلکہ دعوت الیٰ اللہ کے بنیادی موضوعات واضح کیے ہیں، طریقوں کا تعین کیا گیا ہے، گھر گھر کو ہدف بنا کر دعوت پہنچانے کا پابند کیا گیا ہے، وفود بناکر اور دعوتی کیمپ لگا کر دعوت پہنچانے کا پروگرام دیا گیا ہے۔
ہر کارکن کو ایک محنت کار کی طرح دو افراد مسلسل زیرِ تربیت رکھنے اور اہل خانہ کی تربیت کے لیے ان کا اجتماع کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اگر ہم اپنے گھروں میں ایک اسلامی ماحول قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو نہ صرف افراد خانہ ایک دوسرے کے پشتی بان بنیں گے، بلکہ وہ اپنے ماحول میں بھی ایک خوش گوار تبدیلی پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔
عملی طور پر، دعوتی لٹریچر کے ہزاروں سیٹ نہایت ارزاں قیمت پر کارکنوں کو فراہم کیے جاتے ہیں، اور عمومی ابلاغ کے لیے جدید ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح اپنی تربیت اور اقامتِ صلوٰۃ اور نماز باجماعت کی پابندی، اور محلوں میں توسیع دعوت کے مقاصد کے لیے فجر کی نماز میں حاضری، اور مساجد کے گرد احباب کے حلقے بنانے کا پروگرام دیا گیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کارکن اس پورے منصوبے کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھیں، اور اس کو عملی جامہ پہنانے کا بھرپور عزم ایک دفعہ پھر تازہ کریں۔
عوام میں اثر و نفوذ کی تیز تر کوششوں کے باوجود، تربیت کے ضمن میں معمول کے سارے پروگرام اسی طرح جاری ہیں، جس طرح وقتاً فوقتاً وضع کیے جاتے رہے ہیں۔ مرکزی تربیت گاہ سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دائرہ تعلیم و تربیت کا آغاز کرکے ایک ایسی تربیت گاہ کے اس خواب کو بھی عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو دُنیا میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے بہترین کارکن تیارکرے۔ لیکن تربیت کی یہ ساری کوششیں کافی نہیں ہیں۔ ان کو تیز تر اور وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے۔
سالانہ منصوبۂ کار میں جو بنیادی رہنما اصول طے کیے جاتے ہیں اور جو طریقے تجویز کیے جاتے ہیں، کارکنوں اور جماعتوں کو پورے اہتمام سے ان کا التزام کرنا چاہیے۔ خصوصاً ہر کارکن کو ’اپنی تربیت آپ‘ کے اصول پر، سب سے بڑھ کر اپنی سیرت و کردار کی تعمیر کی کوشش میں لگا رہنا چاہیے۔ تربیت یافتہ کارکن، ہماری تحریک میں مرکز و محور اور ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتے ہیں۔ تحریک کے لیے موجودہ مرحلے میں عوام کو سنبھالنے کے لیے باصلاحیت، تربیت یافتہ کارکنوں کی شدید ضرورت ہے۔
یہاں دعوت و تربیت کے ضمن میں یہ اعتراف ضروری ہے کہ ہدایات اور فکر انگیز منصوبوں کے باوجود عملی کارکردگی میں بہت کوتاہیاں ہیں۔ مگر انسانوں میں عزائم، منصوبوں اور ہدایات اور ان پر عمل اور نتائج کے درمیان ہمیشہ فرق ہو اکرتا ہے۔ انسان عزم کا کچا ہے۔ یہ بات خامیوں، کوتاہیوں اور سہل انگاریوں کے لیے وجۂ جواز ہرگز نہیں بنائی جا سکتی۔ لیکن اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ یہ فرق ہمیشہ رہا ہے: تعلیم ِ بالغاں ہو، اعلیٰ درجہ کی تربیت گاہ کا قیام ہو، نئے نظامِ تعلیم کے مطابق درد مندی، ہمدردی اور خدمت کے جذبے سے قائم اسکول اور اداروں کا قیام ہو، علمی و تحقیقی کام ہو، معیارِ ارکان کا معاملہ ہو، حلقۂ حامیان کا وہ پروگرام ہو جو ۱۹۵۱ء میں پنجاب کے پہلے انتخابات کے بعد وضع کیا گیا اور جسے ماچھی گوٹھ میں منظور کردہ قرار داد کے ساتھ منسلک کیا گیا___ عزائم اور عمل کا یہ فرق ہر جگہ موجود رہا ہے، یہ آج بھی موجود ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود گذشتہ برسوں میں جماعت اسلامی نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ اور ان شاء اللہ آیندہ بھی کرے گی۔
بعض اوقات جماعت میں ارکان اوروابستگان کے معیار کے گرنے کا مسئلہ بھی بار بار ذہنوں میں اُٹھتا ہے، اُٹھایا جاتا ہے، مگر یہ بحث بھی روزِ اول سے چلی آ رہی ہے۔ جماعت کی ابتدائی رودادیں ارکانِ جماعت کی حالت پر شکایات سے بھری ہوئی ہیں۔ ۱۹۵۶ء میں جائزہ کمیٹی نے بھی کچھ ایسی ہی تصویر کھینچی تھی _کہ مولانا مودودی کو یہ کہنا پڑا تھا: ’’اگر ساری جماعت بحیثیت مجموعی بگڑ گئی ہے تو اسے توڑ دیجیے‘‘۔ (آیندہ لائحہ عمل، ص۱۷۴) اورپھر یہ بھی فرمایا: ’’پوری جماعت کے متعلق___ ہر پہلو سے کامل اطمینان کی رپورٹ شاید آپ کبھی نہ پا سکیں گے‘‘۔ اس ضمن میں اُن کی یہ بات بھی اہم ہے کہ ’’میرے علم میں ایسا کوئی طریقِ تربیت اب تک نہیں آیا ہے، جو معیارِ مطلوب کے آدمی تیار کرنے کی سو فی صدی ضمانت دیتا ہو۔ ہر جائزہ آپ کو یہی رپورٹ دے گا کہ آپ کے درمیان ایک ناقابلِ اطمینان عنصر موجود ہے‘‘۔ (ایضاً،ص۱۷۷)
لیکن ہم پھر بھی یہ کہیں گے کہ یہ باتیں جواز، تاویل اور غفلت کی ہرگز بنیاد نہیں بننا چاہییں۔ ہاں، مایوسی سے بچنے اور رومانوی دُنیا سے نکل کر حقیقت پسند بننے کے لیے ان کا ادراک ناگزیر ہے۔
جماعت کی ترقی کا راز جہاں اپنے نصب العین، بنیادی اصولوں اور نقشۂ کار کی پابندی میں مضمر ہے، وہاں یہ بات ثبات و تغیر کے ان حکیمانہ اصولوں پر کاربند رہنے کا نتیجہ بھی ہے، جن کی تعلیم قرآن و سنت میں دی گئی ہے، اور جن کی وضاحت مولانا مودودی نے ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں بڑی تفصیل سے فرمائی ہے۔ آج کے مرحلے میں بھی جماعت اگر پیش قدمی کر سکتی ہے تو اسی بصیرت، اور ثبات و تغیر کی اسی حکمت ِ عملی کو اختیار کرکے کر سکتی ہے جو مولانا مودودی نے اختیار کی۔ جو جماعتیں یہ نہ سمجھ سکیں کہ کیا بدل سکتا ہے اور کیا نہیں بدل سکتا، جو ہر چیز بدلنے کو تیار ہوں یا پھر ہرتبدیلی سے بدکتی ہوں، وہ اپنے مقصد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتی ہیں، اوراُن کو زمانہ ایک بھولی بسری داستان بنا کر چھوڑ دیتا ہے:
ثبات و تغیر کے ان اصولوں کا اطلاق ہم گذشتہ برسوں میں جس طرح کر تے رہے ہیں اس کا ایک مختصر جائزہ فائدہ سےخالی نہ ہوگا۔
مولانا مودودی نے ۱۹؍فروری۱۹۴۸ء کو پنجاب یونی ورسٹی لا کالج، لاہو رمیں تقریر کرتے ہوئے چار نکاتی مطالبۂ نظامِ اسلامی پیش کیا، اور اسی طرح اگست۱۹۵۲ء میں مطالبۂ دستورِ اسلامی پیش کیا۔ ان مطالبات کو منوانے کے لیے جماعت نے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے عوام سے جذباتی اپیل بھی کی، اور عوامی جدوجہد بھی شروع کر دی: ’’یوں ہماری تحریک نے ایک نئے دور میں قدم رکھا‘‘ (آیندہ لائحہ عمل، ص۱۴۰)۔ بعد میں مرکزی مجلسِ شوریٰ نے، اور آٹھ سال بعد ارکان کے اجتماعِ عام نے اس دُور رس تبدیلی کی توثیق کر دی۔
مولانا مودودی کے الفاظ میں: ’’ہم سخت نادان ہوتے اگر اس موقعے کو ہاتھ سے کھودیتے اور اپنے آپ کو قبل تقسیم ہی کی پوزیشن میں سمجھے بیٹھے رہتے‘‘(آیندہ لائحہ عمل، ص۱۲۸)۔ ’’بلکہ اگر ہم ان حالات میں قبل تقسیم کے طریقے ہی پر کام کرتے رہتے تو اپنے مقصد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیتے‘‘۔(ایضاً، ص۱۲۰،۱۲۱)
اس طرح ہم نے اپنے اپیل کے طریقے میں تبدیلی کی۔ ہم نے اپنے کام کے ڈھنگ میں تبدیلی کی۔ پہلے ہم دعوت کا کام چند متعین طریقوں سے بہت محدود پیمانے پر کر رہے تھے۔ اب ہم نے مطالبۂ نظامِ اسلامی کے وسیلے سے لاکھوں آدمیوں تک دعوت پہنچانے، اور ہزاروں کو اپنی تحریک کے ساتھ وابستہ کرنے کا کام شروع کر دیا۔ ہم نے یہ سمجھ لیا کہ مستحکم توسیع تو ’’دھیمی رفتار سے محدود پیمانے پر ہی ہو سکتی ہے‘‘۔اور اس وقت تک کام اسی دھیمی رفتار سے چل رہا تھا۔ اس مستحکم مگر سست رفتار توسیع سے نئے حالات کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔ اوریہ بات بھی صحیح نہ ہوتی کہ ’’بڑے پیمانے پر توسیع کے جو مواقع ہمیں حاصل ہوئے تھے ان کو ہم چھوڑ دیتے اور بجائے خود اس توسیع کے جو فوائد ہیں ان کو نظر انداز کر دیتے‘‘۔ اس طرح ہم نے اپنی پیش قدمی کی رفتار بھی تبدیل کی، اور ’’کش مکش کے تدریجی ارتقاء ہی کے [ساتھ بڑھتے بڑھتے] ہم نے دفعتاً جدوجہد کے مرحلے میں قدم رکھ دیا___ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دستورِ اسلامی کے مطالبہ پر کش مکش کا آغاز کر دیا‘‘۔ (ایضاً، ص۱۴۳-۱۴۶)
جب عوامی جدوجہد کےمیدان میں قدم رکھا تو ریزولیشن بھی پاس ہوئے، جلوس بھی نکلے، زندہ باد کے نعرے بھی لگے، جھنڈے بھی بنے، استقبالیے بھی دیے گئے، اور یوم شوکت ِ اسلام بھی منایا گیا۔ یہ سب کچھ مولانا مودودیؒ کی زیرِ قیادت ہوا، حالانکہ خود اُن کی یہ تحریر موجود تھی کہ ریزولیشن، جلوس، نعرے وغیرہ اس تحریک کے لیے سمِ قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن وہ فقیہ تھے، لکیر کے فقیر نہ تھے۔
ان میں سے کوئی بھی تبدیلی نہ تو اصول کی تبدیلی تھی، اورنہ بنیادی تبدیلی۔ لیکن بعض لوگ عمل درآمد کی ہر نئی شکل کو دیکھ کر مضطرب ہو جاتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ اصول بدل گئے اور جماعت اپنی راہ سے ہٹ گئی۔ ان کو بتایا گیا: ’’جو شخص حالات اور مواقع اور ذرائع کی تبدیلی کے ساتھ ان اصولوں پر عمل درآمد کی شکلیں نہ بدل سکے، اس کی مثال اسی عطائی طبیب کی سی ہے، جو کسی حکیم کی بیاض کا ایک نسخہ لے کر بیٹھ جائے اور آنکھیں بند کرکے تمام مریضوں پر اسے جوں کا توں استعمال کرتا چلا جائے‘‘۔(آیندہ لائحہ عمل، ص۱۷۷)
آج بھی پبلک ریلیاں، بڑے بڑے جلوس، سیاسی و انتخابی اتحاد، نوجوانوں کی تنظیمات، وغیرہ___ یہ سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں، جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔یہ تاریخ کا تسلسل ہے جو جاری ہے، اور جاری رہے گا۔ ۱۹۴۷ء کےبعد بھی تبدیلیاں، نئی تدابیر، اور ایک ہی اصول کےعمل کی بدلتی ہوئی شکلیں دیکھ کر کچھ لوگ مضطرب ہو جایا کرتے تھے، اور آج بھی ایسا ہوتا ہے۔ ان احباب کو نہ صرف ثبات و تغیر کے درج بالا وہ چھ اصول سامنے رکھنا چاہییں، جن کو مولانا مودودیؒ نے بیان فرمایا، بلکہ اُن کے یہ الفاظ بھی یاد رکھنا چاہییں کہ ’’تبدیلی کے معنی یہ نہیں کہ پہلے طریقے کو ہم نے بالکل ترک کر کے صرف اس دوسرے طریقے ہی پر اعتماد کر لیا۔ اس توسیعی کوشش کے ساتھ ہم اپنے سابقہ طریقے کے مطابق استحکام کی سعی بھی کرتے رہے ہیں اور اس کی اہمیت و ضرورت ہماری نگاہوں میں علیٰ حالہٖ قائم ہے‘‘۔(آیندہ لائحہ عمل، ص۱۴۴)
آج کے مرحلے میں ہماری تحریک کو جو بڑے بڑے چیلنج درپیش ہیں، جن بدلتے ہوئے حالات کا سامنا ہے، وہ ہماری بنیادی فکر کا منطقی نتیجہ ہیں۔ کیونکہ ہم آئینی و جمہوری طریقوں، رائے عامہ کے تغیر، اور انتخابات کے ذریعے مطلوبہ انقلاب لانے کے پابند ہیں، اس لیے عامۃ المسلمین کو اپنے نصب العین کی حمایت میں کھڑا کر دینا ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ کیونکہ دُنیا میں، اور خود ہمارے ملک میں، اصل غلبہ مغرب کی لادینی تہذیب اور استعماری قوتوں کو حاصل ہے۔ اس لیے ہمیں اسلامی تحریکات کے خلاف عالمی طاقتوں کے منصوبوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہے۔ یہ ہمارے لیے دوسرا بڑا چیلنج ہے۔
ان دونوں باتوں کو مولانا مودودیؒ نے اگست ۱۹۴۱ء میں تحریک کے آغاز ہی میں بڑے خوب صورت انداز میں یوں واضح کر دیا تھا:ہماری تعمیری کوششیں بے سود ہو جائیں گی، اگر ساتھ ساتھ ان کی پُشت پر ایک مضبوط رائے عام بھی تیار نہ ہوتی رہے۔ جس طرح تعمیری کاموں کے بغیر کوئی اسلامی انقلاب رُونما نہیں ہو سکتا، اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ عامۃ الناس میں اسلام کی دعوت پھیلائے بغیر ایسا کوئی انقلاب برپا ہو سکے۔ ہمیں نہ صرف [اپنے ملک] میں، بلکہ حتی الامکان دُنیا کے گوشے گوشے میں اپنی آواز پہنچانی ہوگی۔ کیونکہ آج کسی ایک ملک میں کوئی حقیقی انقلاب واقع نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وسیع پیمانے پر بین الاقوامی رائے عام اس کی تائید میں تیار نہ کر لی جائے۔ اربوں انسانوں کو ہمارے پیغام سے واقف ہونا چاہیے، کرورڑوں انسانوں کو کم از کم اس حدتک اس سے متاثر ہوجانا چاہیے کہ وہ اس چیز کو حق مان لیں جس کے لیے ہم اُٹھ رہے ہیں، لاکھوں انسانوں کو ہماری پُشت پر اخلاقی اور عملی تائید کے لیے آمادہ ہونا چاہیے، اور ایک کثیر تعداد ایسے سرفروشوں کی تیار ہونی چاہیے جو بلند ترین اخلاق کے حامل ہوں اور اس مقصدِ عظیم کے لیے کوئی خطرہ، کوئی نقصان، کوئی مصیبت برداشت کرنےمیں تامل نہ کریں۔ (رُوداد جماعت اسلامی، اوّل، ۶۶-۶۷)
کیونکہ صرف کسی ایک ملک میں، عالمی دعوت کے بغیر، انقلاب برپا نہیں ہو سکتا، خصوصاً آج کے سیٹلائٹ کے دورمیں، جب عالمی طاقتیں اسلامی تحریکات کو ناکام بنانے کے لیے عرصے سے منصوبہ بندی کر رہی ہیں، اس لیے اس مرحلے میں رفقائے جماعت کو بین الاقوامی صورتِ حال کا بھی پورا ادراک ہونا چاہیے۔
جن دنوں برصغیر ہندوپاک میں جماعت ِ اسلامی کی تحریک برپا ہو رہی تھی، اُنھی دنوں میں مصر میں اخوان المسلمون کی تحریک حسن البناشہید کی رہنمائی میں مصروفِ عمل تھی۔ اس کے مقاصد بھی وہی تھے، جو جماعت ِ اسلامی کے مقاصد تھے۔ طریقِ کار میں جزوی فرق موجود تھا، لیکن طریقِ کار کے اصول چونکہ قرآن و سنت کی رہنمائی میں طے کیے گئے تھے، اس لیے یہ کوئی بنیادی فرق نہیں تھا۔
جماعت اسلامی اور اخوان کی یہ دو تحریکیں ہی وہ تحریکیں ہیں، جن کو اس وقت دُنیا بھر کی اسلامی تحریکیں بنیادی تحریکیں یا Mother Movements قرار دیتی ہیں۔ الاستاذ المودودی اور امام حسن البنا اس دور کی اسلامی تحریکوں کے دو مُسلمّہ رہنما ہیں۔ ان تحریکوں نے مسلمانوں کی جدید پڑھی لکھی نسل کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ کیونکہ جدید تعلیم یافتہ نسل کو ان تحریکوں کے لٹریچر میں اپنے تمام ذہنی سوالات کے جوابات مل گئے، اور انھیں یہ یقین حاصل ہو گیا کہ اسلام موجودہ دور میں نہ صرف قابلِ عمل ہے بلکہ ان تمام انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے، جن سے جدید دور کے انسان کو سامنا ہے۔
نئی نسل کا اس طرح اسلامی تحریک کی طرف لپکنے کا سبب دیکھ کر استعماری قوتیں پریشان ہو گئیں۔ ان کی یہ پریشانی ان کے دانش وروں کی نگارشات، ان کے جرائد اور اخبارات، اور ان کی نشریات میں صاف جھلکتی ہے۔ اٹلی کے وزیر خارجہ سے مشہور جریدے نیوزویک نے انٹرویو لیتے ہوئے پوچھا: ’’اب، جب کہ ’معاہدہ وارسا‘ کے ممالک مغرب کے لیے خطرہ نہیں رہے، تو ’نیٹو‘ (NATO)کا فوجی معاہدہ کس کے خلاف ہے؟‘‘ انھوںنے جواب دیا: ’’ہمیں نیٹو کے ممالک کے درمیان پائی جانے والی یک جہتی کوبرقرار رکھنا ہے، تاکہ اگر مستقبل میں مسلمان ممالک یورپ کے لیے خطرہ بنیں تو ان کا مقابلہ کیا جا سکے‘‘۔
لندن کے مشہور جریدہ اکانومسٹ نے امریکا کے تین سو ارب ڈالر کے سالانہ دفاعی بجٹ پر بحث کرتے ہوئے پوچھا:’’اشتراکی روس کے انہدام کے بعد یہ دیوہیکل دفاعی بجٹ کس کے خلاف ہے؟‘‘ تو خود اسے بھی مستقبل میںمسلمانوں کا خطرہ نظرآیا ہے۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مغرب کو اس مسلم دُنیا سے کیا خطرہ ہے جو ۵۸ سے زیادہ ٹکڑیوں میں منقسم ہے، اور یہ چھوٹی ٹکڑیاں بھی آپس میں اُلجھی ہوئی ہیں۔ بیش تر ٹکڑوں پر ایسی حکومتیں مسلط ہیں، جو استعماری مصلحتوں کے تابع ہیں۔ ان ممالک کے زیادہ تر وسائل مغربی تہذیب و ثقافت کی ترویج اور اسلامی تہذیب کی بیخ کنی پر صرف ہو رہے ہیں۔ ان کی معاشی منصوبہ بندی استعماری قوتوں کے سیاسی، معاشی، فوجی بلکہ تہذیبی مفادات کے تابع ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مغربی دُنیا کو خطرہ موجودہ مسلم حکمرانوں سے نہیں ہے۔ انھیں خطرہ اس سے ہے کہ تمام مسلم ممالک میں ایک مضبوط توانا اسلامی تحریک پورے اعتماد اور عزم سے پیش قدمی کر رہی ہے۔ اسلامی تحریک نے قربانی کی تاریخ میں ایک لازوال باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ شوقِ شہادت اور جدبۂ جہاد کے بل بوتے پر اس نے افغانستان میں دُنیا کی بڑی جنگی قوت کو پسپائی پر مجبور کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مغرب کی استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کر رہی ہے اور افغانستان سے اشتراکی روس کے نکلنے کے بعد امریکا کو قطعاً یہ اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ نئے رنگ میں انھیں غلامی کی زنجیریں پہنا سکیں۔
کشمیر کے عوام نے غلامی کی صدیوں پرانی جکڑ بندیوں کو توڑکر دُنیا کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا۔ وہ خالص اسلامی جذبے سے سرشار ہو کر، تھوڑے ہی عرصے میں اتنی زبردست تحریک شروع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ فلسطین کے مظلوموں نے، ’’حماس‘‘ کے زیرِ اہتمام، اسلامی جذبے سے سرشار ہو کر، انتفاضہ کی تحریک شروع کر دی۔ وہ تنگ نظر قومیتی سیکولرزم کے جال کو توڑنے میں کامیاب ہوئے۔ الجزائر، تیونس اور شمالی افریقہ کے دوسرے ممالک کی اسلامی تحریکوں نے نئی آب و تاب پیدا کی ہے۔
سب سے زیادہ اُمید افزا تبدیلی وسط ایشیا میں آئی ہے۔ ہزاروں مقفل مساجد کو مسلمانوں نے آگے بڑھ کر کھول دیا۔ اشتراکی آمریت میں جکڑے مقبوضہ مدارس کو پھر سے تعلیم و تربیت کے لیے اپنے انتظام میں لینے کی بامعنی سرگرمی کی۔ وسط ایشیا کی مسلم ریاستوں کا سفر کرکے آنے والوں کا مشاہدہ ہے کہ مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوئی ہیں، اور عشاء کے بعد جب بچے مسجدوں میں قرآن سیکھنے کے لیے جاتے ہیں تو تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ یہ اس علاقے کی صورتِ حال ہے جہاں دسمبر۱۹۹۱ء سے پہلے ہمیں چند ایسے مسلمان بھی بڑی مشکل سے ملتے تھے، جو روسی زبان میں ترجمہ کیاہوا ہمارا لٹریچر قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔
عالمِ اسلام میں یہ بیداری اچانک بلا سبب وجود میںنہیں آ گئی۔ اس کی پشت پر اسلامی تحریکوں کی طویل جدوجہد کارفرما ہے۔ خود اپنے معاشرے میں اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہمیں اسلامی تحریکوں کے دوش بدوش چلنا ہے۔
اپنے معاشرے میں ہمارا اصل ہدف کیا ہے؟ مولانا مودودیؒ کے ارشاد کے مطابق:
انقلابِ قیادت کی جدوجہد، یعنی ’سیاست‘ کوئی عارضہ نہ تھا، جو جماعت ِ اسلامی کو قیامِ پاکستان کے بعد کسی وقت یکایک لاحق ہو گیا ___میں بلاخوفِ تردید یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ دراصل یہی وہ امتیازی وصف ہے جو زمانۂ قریب کی تاریخ میں، جماعت ِ اسلامی کی تحریک کو دوسری تحریکوں سے ممیز کرتا ہے (آیندہ لائحہ عمل، ص۸۵-۸۶) ۔ دعوت ہو یا تنظیم، تربیت ہو یا اصلاح معاشرہ ’’یہ سارے کام کرنے کا فائدہ کیا ہے، اگر آپ ان کاموں سے حاصل ہونے والے نتائج کو اصل مقصد کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ساتھ ساتھ استعمال نہ کرتے چلے جائیں‘‘۔ (ایضاً، ص۷۰)
آپ خود سوچیے کہ اگر یہ ہدف آئینی اور جمہوری ذرائع سے حاصل ہونا ہے،اور انتخابات کے ذریعے ہونا ہے، تو وسیع پیمانے پر رائے عام کو اپنے ساتھ لینے کے علاوہ مقصد تک پہنچنے کا راستہ اور کیا ہو سکتا ہے؟
چنانچہ ۱۹۴۷ء میں پاکستان کے قیام کے بعد ہی وہ عوامی تحریک برپا کرنے کی کوشش شروع کر دی گئی، جو اس سے پہلے مدھم اور سست مگر مستحکم توسیع کے کام کی خاطر مؤخر کی جا رہی تھی۔ اب ہمیں اس تحریک کو آگے بڑھانا ہے۔ پیچھے دیکھنے یا پلٹنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ انقلاب کے لیے ہر زمانے میں ذرائع اور مواقع اور حالات کے لحاظ سے مسلسل جدوجہد کی جاتی رہی ہے۔ آج کے حالات کے لحاظ سے بھی ماضی کے ورثے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے، اسی جدوجہد کو ہمیں آگے بڑھانا ہے۔
اس مقصد کے لیے ہمیں لٹریچر، تقریر، تعلیم، گفتگو، مکالمے، جلسے، جلوس، ریلی، نمائش، ویڈیو، بازار، گویا تمام ممکن ذرائع سے وسیع پیمانے پر کام کرنا ہے۔ عوام کو اسلامی نظام کی حمایت میں ایک ایسی منظم قوت بنا دینا ہے ’’جو دفاع اور ہجوم دونوں کا بل بوتا رکھتی ہو‘‘۔ اس مقصد کے لیے ہمیں زندگی کے سلگتے ہوئے مسائل و معاملات میں دخل دینا ہوگا، اور مخالف تحریکوں اور طاقتوں کے ساتھ دلیل، ابلاغ اور رائے عامہ کے میدان میں زور آزمائی بھی کرنا ہوگی۔ اگر ہم نے ان مسائل میں دخل دینے اور مخالفین کے ساتھ زور آزمائی کرنے سے گریز کیا تو مطلوبہ تغیر کی رفتار بہت سست رہے گی۔
یہ عوامی تحریک خود ایک دعوتی کام ہے۔ بعض لوگ دعوت کا کام صرف وہ شمار کرتے ہیں جس پر لفظ دعوت کا عنوان لگا ہو۔ وہ کام جن پر سیاست یا عوامی تحریک کا عنوان چسپاں ہو، وہ اسے سیاسی ہڑبونگ کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ اور یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اس عنوان کے تحت بھی دعوت کا کوئی کام ہوا ہے یا کیا جا سکتا ہے۔ مولانا مودودی کے الفاظ میں:
آپ ہزار کتابیں لکھ کر [یا پڑھ کر] بھی اتنا کام نہیں کر سکتے جتنا اس صورت میں کرسکتے ہیں کہ جس وقت کوئی اہم مسئلہ لوگوں کے سامنے درپیش ہو، اس وقت میدان میں آکر اس مسئلے میں ان کو صحیح رہنمائی دیں۔ (آیندہ لائحہ عمل، ص۱۲۷-۱۲۸)
ملک کے اندر تحریک کو آج جو بہت بڑا چیلنج درپیش ہے وہ مولانامودودیؒ کے درج بالا ارشاد کے دوسرے حصے سے متعلق ہے۔ یعنی یہ کہ، پاکستان بننے کے بعد ہم نے ایک مسلم معاشرے کے عوام میں تحریک برپا کرکے جس حد تک کام کرلیا ہے، اب اس کو کس طرح آگے بڑھائیں کہ اپنی اصل منزل تک پہنچ سکیں؟ دوسرے لفظوں میں، برسوں کی کاشت کاری کے ذریعے ہم نے ہزاروں انسانوں کی جو فصل تیار کی ہے، اور جس کا عشر عشیر بھی ابھی اصل مقصد کے لیے کام نہیں آ رہا، اس کو کام میںلگا کر اس مسلم معاشرے کی معتدبہ تعداد کو کس طرح انقلابِ امامت کے مقصد کے لیے متحرک کر دیا جائے؟
جماعت اسلامی کے لائحہ عمل کا ایک حصہ یہ بھی رہا ہے: ’’ہمارے معاشرے میں جو ایک بچا کھچا صالح عنصر موجود ہے، مگر منتشر ہونے کی وجہ سے یا اصلاح کی پراگندہ کو شش کرنے کی وجہ سے کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر رہا ہے، اسے چھانٹ چھانٹ کر ایک مرکز پر جمع کیا جائے، اور ایک حکیمانہ پروگرام کے مطابق اس کو اصلاح و تعمیر کی منظم سعی میںلگا دیا جائے‘‘ (آیندہ لائحہ عمل)۔ اور اب تو اس صالح عنصر میں خود ہمارے وابستگان کی ایک کثیر تعداد بھی شامل ہے۔ حلقۂ متفقین کا پروگرام اسی غرض کے لیے تھا، لیکن سچ بات ہے کہ وہ بھی قابل ذکر حد تک عملی جامہ نہیں پہن سکا۔
عوامی تحریک کا ایک اہم جزو عورتوں کا حلقہ ہے۔ وہ ہماری آبادی کا نصف حصہ ہیں۔ عورتوں کی راہ سے بگاڑ بھی تیزی سے آ رہا ہے۔ انھی کے ذریعے اصلاح کی رفتار بھی تیز تر ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ہم کو ایک ہی لگے بندھے طریقے سے کام کرنے کے بجائے حالات کے لحاظ سے موزوں تدابیر وضع کرنا ہوں گی۔
یہ سارا کام جماعت کی تنظیم میںمحبت و الفت، سمع و طاعت، اور مشاورت واحتساب کے نظام کا متقاضی ہے۔ تمسخر، تنابز بالالقاب، بدظنی، تجسّس، غیبت، ہمز، بلا تحقیق نقل وغیرہ سے پاک ہو کر چلنا ہوگا۔ ایک دوسرے کے لیے عزّت، احترام، محبت، الفت اور ذکرِ خیر کی صفات کو پروان چڑھانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جماعت میں اطاعت، شورائیت اور احتساب کا نظام اپنا کام کررہا ہے۔ لیکن ان اخلاقی فضائل کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
تحریک ِ اسلامی کے چار نکاتی لائحہ ٔ عمل کا یہ فطری تقاضا ہے کہ جوں جوں عوام ہمارے ساتھ آئیں گے، اور ہم انقلابِ قیادت کی منزل کے قریب پہنچیں گے اور اس کی گہما گہمی میں اضافہ ہوگا۔ ہمیں عوامی پذیرائی حاصل ہوگی تو کئی بالکل نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ ہمارے مستحکم توسیعی اور تربیتی کام کو اس گہماگہمی سے متاثر نہیں ہونا چاہیے، اور نہ اس گہماگہمی سے گھبرانا چاہیے۔ کیونکہ ابتدا ہی سے ہم نے ان کے درمیان توازن پیدا کرکے چلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس لیے ہم پوری دلجمعی سے دعوت الی اللہ کا کام کریں، عوام کو ساتھ لائیں، جو لوگ قریب آئیں ان کی وسیع پیمانے پر دینی اور اخلاقی تربیت کا انتظام کریں، اور انھیں منظم کریں۔ پھر اس پوری قوت کو اصلاحِ معاشرہ کے کام پر لگا دیں، اور عوامی بیداری پیدا کرکے انقلابِ قیادت کا راستہ ہموار کریں۔
ایک کام کی وجہ سے دوسرا کام ترک نہ کریں۔ کاموں میں کمی بیشی ہو سکتی ہے، تقسیمِ کار ہوسکتی ہے، دوسرے تنظیمی ڈھانچے بن سکتے ہیں، لیکن لائحۂ عمل کے کسی جز کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ نہ ایسا ہونا چاہیے، نہ یہ غلط مفروضہ قائم کرنا چاہیے کہ اگر عوامی کام ہو رہا ہے تو اس کے متوازی تعمیری مساعی کو ترک کیا جا چکا ہے۔
الحمدللہ! ہم اس طریقِ کار کے مطابق اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ منزل جوں جوں قریب آتی ہے، شوقِ منزل بڑھتا ہے اور رفتار میں اضافہ ہوتا ہے ع
تیز ترک گام زن منزل ما دور نیست
(پمفلٹ منشورات سے دستیاب ہے)
چند برس پہلے کی بات ہے، سات آٹھ افراد کے ہمراہ مجھے ایک دعوت پر سرکاری وفد کے ساتھ ہندستان جانے کا اتفاق ہوا۔ جب ہم دلی ایئرپورٹ پراُترے تو وہاں بہت زیادہ ہجوم تھا۔ تاہم، پاکستانیوں کے لیے ایک ہال مخصوص تھا، لیکن وہاں پہنچنے کے بعد ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ اب آگے کہاں جانا ہے؟ ایک خالی کائونٹر نظر آیا ، تو مَیں وہاں جاکر کھڑا ہوگیا۔ سامنے ایک صاحب ماتھے پر تلک لگائے بیٹھے تھے۔ تلک اُن کی مذہبی پہچان کرا رہا تھا۔ وہ چھوٹتے ہی بولے: ’’یہاں کہاں کھڑے ہو؟‘‘ میں نے کہا کہ ’’میں سمجھا کہ ہمیں یہاں کھڑے ہونا ہے‘‘۔ تو موصوف نے عجیب زہریلے لہجے میں کہا :’’آپ کے سمجھنے سے کیا ہوتا ہے؟‘‘ یہ بات سن کر مجھے غصہ سا آگیا اور پلٹ کر اُس سے کہا: ’’بھائی، آٹھ سو برس تک تو ہمارے سمجھنے سے ہی سب کچھ ہوتاتھا۔ اب کوئی سو ڈیڑھ سو برس ہوئے ہیں کہ آپ کے سمجھنے سے بھی کچھ کچھ ہونے لگا ہے‘‘۔ اس پر وہ صاحب تلملا کر رہ گئے اور جواب نہ بن پڑا تو بلندآواز میں کہنے لگے: ’’ہاں، دیکھ لیں گے‘‘۔ اور اُن کے کہنے کا انداز بھی بازاری سا تھا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ واپس بھیج دیں گے تو کیا؟ مجھے بھی وہاں جانے کا کوئی شوق نہ تھا۔ بالکل بے فکر ہوکر میں یہ سب تماشا دیکھتا رہا۔
اتنے میں وہاں پر ایئرپورٹ مینیجر آگیا، جو ایک سکھ تھا۔ اس نے شورشرابا کرنے والے اس مہاشے کو ڈانٹ کر کائونٹر سے ہٹا دیا اور بڑے احترام سے مجھے کہا کہ ’’آپ اِدھر آجایئے۔ آپ کو کچھ فارم بھرنے ہیں، وہ ذرا پُر کر لیجیے‘‘۔ اس فارم میں کچھ معلومات تھیں کہ آپ کون ہیں؟ آپ کو کس نے بلایا ہے اور کہاں جانا ہے ؟ وغیرہ۔ ہم لوگ فارم پکڑے پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں ایک نوجوان لڑکا ہمارے پاس آکر پوچھنے لگا کہ’’ آپ کو کیا پریشانی ہے؟‘‘ ہم نے کہا کہ ’’سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس فارم کو کیسے پُر کریں؟‘‘ اس نے کہا کہ ’’کوئی بات نہیں۔ لایئے میں پُر کردیتا ہوں‘‘۔ وہ ہم سات آٹھ افراد کو ایک کونے میں لے گیا اور بڑی احتیاط اور نرمی سے پوچھ پوچھ کر، ایک ایک کا فارم پُر کردیا۔ ظاہر ہے کہ اس میں اُس کا کچھ وقت بھی لگا۔ میں نے اس کی خدمت میں کچھ پیسے نذر کرنا چاہے۔ اس نے ایک نظر پیسے دیکھے اور پھر میری طرف دیکھا تو اس کے چہرے سے یوں عیاں ہوا کہ جیسے اسے دھچکا لگا ہو کہ اس کے اخلاص کی قدر نہیں کی گئی۔ میں گھبرا گیا اور اسے کہا کہ آپ کی بڑی مہربانی اور پھر وہ چلا گیا۔
میرے دل میں ایک سوال پیدا ہوا کہ ’’کیا یہ کوئی مسلمان تھا؟‘‘ میں نے اس کے پلٹتے ہی وہاں کھڑے سامان اُٹھانے والے سے پوچھا کہ ’’ان صاحب کا نام کیا تھا؟‘‘ اُس نے جو نام بتایا وہ واضح طور پر ہندووانہ نام تھا۔ یہ سنتے ہی میرے ذہن کے اندر کچھ نئے تناظرات پیدا ہونے لگے اور آنِ واحد میں کچھ پرانے تناظر ٹوٹ گئے۔ وہ تناظر یہ تھاکہ ہم انسان کی قدر نہیں کرتے۔ اللہ نے اس کو احترام اور فضیلت کی سند دی ہے۔ سب سے پہلے وہ صرف بنی آدم ہے، اور پھر کوئی دوسرا حوالہ!
ہر انسان،اللہ کی تخلیق کا شاہکار ہے۔ ہم انسان کو اس نظر سے نہیں دیکھتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو بھی غیرمسلم ہے وہ گویا ہمارے ساتھ حالت ِ جنگ میں ہے۔ ہمارا ذہن اس طرح کا بن گیا ہے، حالانکہ ہماری فقہ میں ہے کہ محارب سے جنگ کرو، لیکن غیرمحاربین کو نقصان پہنچانے سے منع کیا گیا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اس کے لیے واضح طور پر ہدایات دی تھیں۔ ہمارے ہاں چیزوں کو دیکھنے کا انسانی حوالہ الا ماشاءاللہ ختم ہوچکا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارا ایک داعی جو غیرمسلموں میں تبلیغ کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اس میں بنیادی خیرخواہی کی کمی ہوتی ہے۔ حالانکہ آپ کی محبت اس تک پہنچے گی تو جبھی وہ آپ کی دلیل تک پہنچے گا۔ اگر وہ بنیادی انسانی قدر، یعنی خیرخواہی سے کٹ کر محض دلیل ہی پر آجائے تو آپ کیسے اس کو قائل(convince) کریں گے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے ذہن میں منطق اور ابلاغ کی یلغار غالب آچکی ہے، اور یہ جدید ذہن سمجھتا ہے کہ اب لوگ صحیح یا غلط کی جس عالم گیر منطق پر چیزوں کو قبول یا رَد کرتے ہیں اور ہم بھی اسی منطق پر استوار دماغ کے مالک بن گئے ہیں۔ یہ دین کی تبلیغ اور اسلام کی دعوت پیش کرنے کا کوئی مناسب طریقہ نہیں ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے مکالمہ یا مناظرہ کرکے دین نہیں پہنچایا بلکہ وہ خود مجسم اور متحرک، حق کی کنونسنگ دلیل بن گئے تھے۔ انھوں نے اپنے مفتوحین کو یہ تاثر دینے کی کبھی کوشش نہیں کی کہ ہم نے تمھیں شکست دی ہے اور تم پر فتح پالی ہے، اس لیے تم غلام اور ہم آقا ہیں۔ نہیں، انھوں نے اس سے بڑھ کر جو اگلا قدم اُٹھایا وہ یہ تھا کہ ’’ہم تمھارے خیرخواہ ہیں اور تمھارے ساتھ برابری کی سطح پر رہنا چاہتے ہیں اور ہم تمھیں اپنے سے کم تر نہیں سمجھتے، یعنی تم ایک فرد اور ہم ایک فرد۔ تم اسلام نہیں لائے اور ہم مسلمان ہیں۔ اللہ کی طرف سے جو احترامِ آدمیت تفویض کیا گیا ہے، ہم اس کی بنیاد پر تمھیں مساوات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ مساوات، مواخات میں بدل جائے اور تمھارا سماجی مرتبہ ہم سے بھی بڑھ جائے‘‘۔ بجا طور پر اس جذبے پہ اعتبار دلوا دینے کے نتیجے میں اسلام پھیلا ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو بالاتر سمجھیں اور دوسروں کو حقیر سمجھ کر انھیں تبلیغ کریں تو یہ مؤثر نہ ہوگی۔ لوگوں میں حق پہنچانے کا سارا کام جذبۂ خیر اور حکمت سے ہوتا ہے نہ کہ احساسِ برتری کے تحت۔
فرض کیجیے کہ اگر یہودی طاقت پکڑلیں اور ان کا ایک فرقہ جو تبلیغ کو مانتا ہے، حالانکہ کلاسیکل یہودیت میں تبلیغ کا تصور موجود نہیں ہے، وہ فرقہ ہمیں کہے کہ تم ایمان لے آئو، ورنہ ہم تمھیں بھنگی بنادیں گے تو کیا ہم مانیں گے؟ انھیں ایک نسلی تیقن ہے کہ ہم نبیوں کی اولاد ہیں،اور مسلمانوں نے بھی اور قرآنِ کریم نے اُن کے اس مریضانہ نسلی تفاخر کی تصدیق کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم دھونس پر مبنی ان کی اس بات کو نہیں مانیں گے۔
اس پس منظر میں لوگوں کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ انسان ایسی مخلوق ہے کہ جس کے وجود میں اللہ تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی ہے۔ مطلب یہ کہ بنی آدم کی صورت میں اللہ نے ایک مخلوق بنائی اور اس میں کوئی ایسی چیز پھونک دی جو اپنی کسی اور مخلوق میں نہیں پھونکی۔ لہٰذا ہر آدمی جو روح اللہ کا مظہر ہے، اس کا احترا م کرنا چاہیے۔
غیرمسلموں کے عقائد یقینا غلط ہیں۔ جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نہیں ہے، وہ یقینا خسارے اور گھاٹے کے راستے پر ہے،اور اس بات میںہمیں کوئی شبہہ نہیں ہے۔ پھر یہ دین ہی واحد دینِ الٰہی ہے اور قیامت تک یہی شرطِ نجات ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی بخشے جائیں گے وہ مشیت ِ حق کی بنا پر بخشیں جائیں گے، کسی استحقاق کی بنیاد پر نہیں۔استحقاقِ مغفرت یا استحقاقِ جنّت وغیرہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے سے نسبت رکھتا ہے اور یہی حقیقت ہے۔ ہم اسی عقیدے کے ماننے والے ہیں۔ ہرمسلمان اس پر متفق ہے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہرمسلمان باقی عالمِ انسانیت سے تعلق کے مسنون ادب اور مخصوص تقاضے پورے نہیں کررہا۔ مسنون ادب یہ ہے کہ اسوئہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اگر غیرمسلموں نے کوئی خدمت انجام دی ہے، یا اچھا کام کیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تحسین فرمائی ہے۔ حلف الفضول کے واقعے کی آپؐ نے تحسین فرمائی ہے اور فرمایا: اب بھی مجھے کوئی ایسا موقع ملے تو ایسے معاہدے کے لیے تیار ہوں۔ اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں کہ جن میں اچھائی کرنے والا مرتے دم تک مسلمان نہیں ہوا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی اس کا تذکرہ فرماتے تھے تو بھلائی اور ممنونیت سے ذکر فرماتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کی بھلائی کو یاد رکھا اور اس کی بھلائی کو اپنے ساتھ اختلاف پر ترجیح دی۔ حاتم طائی کی بیٹی آئی تو اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر اپنی چادر بچھائی۔اس وقت جب آپؐ اس کی تعظیم کر رہے تھے تو وہ مسلمان نہیں ہوئی تھی۔
یہ بات کہتے ہوئے دُکھ محسوس کرتا ہوں کہ عمومی طور پر ہم لوگ، انسان دوست نہیں ہیں۔ اگر اس حقیقت کو زبردستی جھٹلائیں تو اور بات ہے۔ خاص طور پر پچھلی دو صدیوں میں ہم کوئی نمایاں کارنامہ انجام نہیں دے سکے۔ یہ کہ مسلمانوں نے سب انسانوں کی سہولت کے لیے کوئی چیز ایجاد کی ہو، یا زندگی میں آسانی پیدا کرنے والا کوئی طریقہ ایجاد کیا ہو۔ بدلتے ہوئے معاشی ڈھانچے میں کوئی معاشی نظریہ ایجاد کرکے واقعی دُنیا کے سامنے پیش کیا ہو، جو سب کے کام آئے۔ اس سے پہلے کی صدیوں میں بلاشبہہ مسلمانوں نے بہت سے کارنامے انجام دیئے ہیں جو انسانیت کی میراث ہیں، لیکن پچھلے دو سو برسوں کی تاریخ میں کوئی نمایاں کارنامہ نہیں نظر آتا۔ ہم مواقع سے فائدہ تو اُٹھاتے ہیں، مگر ساتھ ہی احسان فراموشی کرتے ہیں، اور خطرناک بات یہ ہے کہ اس احسان فراموشی کو دینی حمیت کا نام بھی دیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ ’’گنگارام [۱۸۵۱ء-۱۹۲۷ء] ایک مشرک اور بُت پرست ہی تو تھا، وغیرہ۔ یہ گویا ایک خاص اسلوب اور تحقیر میں اس کے سارے احسان پر پانی پھیر دینا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہاں کے لوگوں پر گنگارام کا احسان ہے۔ اگر اس ہسپتال کا نام بدل کر بوعلی سینا [۹۸۰ء-۱۰۳۷ء]ہسپتال رکھ دیا جائے تو کیا یہ اسلام کا تقاضا ہوگا؟ ہرگز نہیںاور اگر پنجاب کا مسلمان سرگنگارام کی خدمات کا اعتراف نہیں کرتا، تو یہ عمل اِتباعِ سنت کے منافی ہے۔ اسی طرح اگر کراچی میں پارسیوں کی خدمات کو وہاں کے شہری تسلیم نہیں کرتے تو وہ متبعِ سنت نہیں بلکہ احسان فراموش ہیں۔ احسان فراموشی کی روش، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی مزاجی نسبت نہیں پیدا ہونے دیتی۔
ہندستان کے سفر کے دوران صرف اس ایک واقعہ نے ، بغیر بحث مباحثہ کے مجھے ایک بہت ہی بنیادی کمزوری اور ہلاکت سے نکال دیا۔ وہ ہندو لڑکا اور ایک دوسرا فرد مجھے روز احسان مندی کے ساتھ یاد آتے ہیں۔ محسن کا حق دوست سے زیادہ ہوتاہے۔ اس نے چونکہ احسان کیا ہے، لہٰذا اس کو دوستوں سے بلند درجہ دینا ضروری ہے۔ دوستوں میں بھی اصل خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ ہمارے محسن ہوتے ہیں۔ دوستی میں بھی اصل وجۂ فضیلت احسان ہی ہے۔
اس سفرِہند میں ہمیں دہلی سے حیدرآباد دکن بھی جانا تھا۔ جب ہم حیدرآباد پہنچے تو رات ہوگئی تھی۔ ہمیں جس ہوٹل میں ٹھیرایا گیا، وہ ایک مسلمان کی ملکیت تھا اور اس کا سارا عملہ بھی مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ استقبالی کائونٹر پر کلمہ لکھا ہوا تھا۔ کائونٹر پر کھڑے لڑکے سے میں نے پوچھا کہ ’’بھئی، یہاں مسجد کہاں ہے؟‘‘ مجھے مسجد دیکھنے کا شوق ہوا اور یہ بھی کہ وہاں جماعت سے نماز پڑھوں، حالانکہ میں ایک مسافر تھا، کمرے میں بھی نماز پڑھ سکتا تھا اور باقی ساتھیوں کے ساتھ وہیں جماعت کے ساتھ بھی نماز پڑھ سکتا تھا۔ جس طرح سیاحوں کا ایک جذبہ ہوتا ہے کہ مسجد دیکھی جائے، یہی شوق میرے اندر پیدا ہوگیا۔ اس نوجوان نے کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ نماز کے لیے چلوں گا۔
سردیوں کا موسم تھا۔ جب نمازِ فجر سے کچھ پہلے اُٹھا تو رات کے وقت یہ پوچھنا بھول گیا کہ فجرکی نماز کا وقت کیا ہے؟ خیر، جب نماز کے لیے اُٹھا تو دیکھا کہ وہی لڑکا کائونٹر پر سر رکھ کر گہری نیند سو رہا تھا۔ یہ سوچ کر کہ اسے اب کیا اُٹھائوں؟ اکیلا خود ہی نکل پڑا۔ ابھی فجر کا وقت نہیں ہوا تھا، تہجد کا وقت تھا۔ قریب ہی سڑک پر بس اسٹینڈ تھا، وہاں ایک صاحب داڑھی اور لمبے لمبے بالوں والے کھڑے نظر آئے۔ میں نے انھیں السلام علیکم کہا اور انھوں نے بھی وعلیکم السلام کہا۔ میرے لاشعور میں یہی تھا کہ یہ مسلمان ہی ہوگا۔ میں نے پوچھا کہ ’یہاں مسجد کہاں ہے؟‘ اس نے کہا کہ ’مسجد تھوڑی دُور ہے اور اگر میں راستہ بتائوں تو تم وہاں پہنچ نہیں سکو گے۔ کیا تم یہاں نئے ہو؟‘ میں نے کہا: ’جی ہاں‘۔ پھر وہ شخص مجھے لے کر گلیوں میں اِدھر اُدھر گھومتے ہوئے مسجد کی طرف لے چلا۔ اندازہ ہے ایک ڈیڑھ کلومیٹر ضرور فاصلہ طے کیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے پوچھا: ’کیا آپ واپسی پر بھی ساتھ ہوں گے؟‘اس نے کہا: ’نہیں، البتہ میں واپسی کا راستہ بتا دیتا ہوں، وہ سیدھا ہے‘۔ جب ہم مسجد کے قریب پہنچے تو فجر کی اذان ہوئی۔ میں نے ان سے کہا: ’آپ کی بڑی مہربانی، آپ اپنا نام تو بتا دیجیے‘۔ اس نے اپنا نام رام داس بتایا۔ جیسے ہی میں نے یہ نام سنا تو مجھے یوں لگا جیسے ڈھیروں پانی پڑگیا ہو۔ میں نے سوچا کہ یہ تو بس کے انتظار میں کھڑا تھا اور یہاں آنے میں کم از کم ۴۰منٹ لگے اور کچھ وقت اسے واپسی میں بھی لگے گا، اس پر میں حیران رہ گیا۔ پھر اس شخص نے مجھ سے صرف یہ کہا کہ’آپ میرے لیے دُعا کرنا‘ اور یہ کہہ کر اور واپسی کا راستہ سمجھا کر وہ چلا گیا۔
جب کبھی میرے اندر ان دونوں افراد کی یاد اُٹھتی ہے، تو وہ یاد احسان مندی کے جذبے کے ساتھ ہی اُٹھتی ہے، حالانکہ میں ان کے ساتھ آشنا بھی نہیں تھا اور یہ تعلق محض انسانی تعلق کے جذبے کا نتیجہ تھا۔ بالکل یوں محسوس ہوتا ہےکہ مجھے رسولؐ اللہ کی اِتباع کا راستہ مزاجاً مل گیا ہو، وہ بھی بغیر کسی کوشش اور کسی مجاہدے کے۔ لہٰذا، اس پر مجھے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس طرح اسوئہ رسولؐ اللہ کا ایک اسوہ مل گیا ہے اور اللہ نے اس سے ایک مناسبت پیدا کردی ہے۔
یہ چیزیں ہم کو احساس تو دلاتی ہیں کہ ہم نے اس دین سے نسبت تو پیدا کرلی ہے، لیکن اس دین کی راہ میں رکاوٹ بھی ہم خود ہی ہیں۔ ہمارے دین میں بظاہر جو بھی ضعف پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے، وہ دین میں نہیں بلکہ وہ ہماری معاشرت میں، علم میں، مذہبیت میں ہے۔ ہم نے ان کو رسولؐ اللہ کے ’مزکی‘ پیدا ہونے کے پہلو سے اپنایا ہی نہیں، نبیؐ سے مزاجی مناسبت کو کوئی اہمیت نہیں دی اور آپؑ کی ان سنتوں سے جو رحمۃ للعالمینی سے اظہار پاتی ہیں، ان کو سیکھا سکھایا، اپنایا ہی نہیں۔
اس لیے یہی درخواست کرتا ہوں کہ انسان کی قدر کرو کہ انسان کی ناقدری کرکے اللہ کی تعظیم نہیں کی جاسکتی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک عجیب طرح کا activism، اور جارحانہ مزاج، ایک عجیب طرح کی لاتعلقی یا غیرمسلموں کےساتھ ایک تحقیری رویہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں گہری جڑپکڑ چکا ہے۔
اب دیکھیے، کیا کبھی رمضان کے دوران میں یہ خیال آیا کہ جو عیسائی ہمارے ہاں کام کرتے ہیں ان کی کچھ خبرگیری بھی ہو؟ ان کو یہ احساس دلایا جائے کہ رمضان بہت بابرکت ہوتا ہے۔ اپنے حُسنِ سلوک سے ان سے یہ تو کہلوا دیں کہ مسلمانوں کا رمضان، صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ سب انسانوں کے لیے بھی بابرکت ہوتا ہے۔ اگر زکوٰۃ انھیں نہیں دے سکتے، مگر انفاق کا حکم تو زیادہ بڑا ہے۔ انفاق میں تو کوئی قید نہیں ہے۔ نبیؐ غیرمسلموں کی مدد بھی فرماتے تھے اور ان سے قرض بھی لیتے تھے۔ معاشرت میں مساوات کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ میں آپ سے قرض لوں کیونکہ قرض لینے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ میں نے آپ کو مساوی سمجھا ہے۔ اس طرح صحابۂ کرامؓ نے بھی غیرمسلموں سے قرض لیا اور ان کی مدد بھی کرتے تھے۔
رمضان کی برکت سے ہمارے اندر رقّت قلبی پیدا ہوجائے کہ ہمارا دوسرے سے تعلق خیرخواہی کی بنیاد پر استوار ہو۔گویا دوسرے کی خیرخواہی ایک جوہرِاخلاق ہے، وہ ہمارے اندر پیدا ہوجائے۔ اُس فرد کو باطل پر سمجھتے ہوئے اور اسے گمراہی پر مانتے ہوئے بھی یہ تعلق انسانیت اور ہمدردی کا عنصر رکھتا ہو۔ یہ خیرخواہی اس طرح کی نہیں ہے کہ ’’تم بھی ٹھیک ہو، اور ہم بھی ٹھیک ہیں‘‘۔ یہ کہنے کا ہمیں کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن یہ کہنا لازم ہے کہ اگرتمھیں ضرورت ہے تو میں اپنی ضرورت چھوڑ کر تمھاری ضرورت پوری کردوں گا۔ یہ رویہ اگر مسلمانوں کا ہوتا تو آج دُنیا میں اکثریت مسلمانوں کی ہوتی۔
عیسائی مشنریوں نے اپنا مذہب پھیلانے کے لیے جیسی قربانی دی ہے، ہم اُس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ان کی خدمت خلق کی وجہ سے، ان کی شفقت کی وجہ سے اور اُسی سطح کی زندگی اختیار کرنے کی وجہ سے، جس سطح پر بسنے والوں کو وہ اپنا دین منوانے آئے تھے، ساری ساری زندگی افریقہ کے غیرشہری لوگوں اور افریقہ و ایشیا کے مرطوب علاقوں میں گزار دی۔ایک جرمن نژاد خاتون ڈاکٹر روتھ فائو [۱۹۲۹ء-۲۰۱۷ء] جنھوں نے شادی بھی نہیں کی اور ۴۰سال سے وہ پاکستان میں جذام کا علاج کرتی رہی تھیں اور ۱۹۹۵ء میں جذام کو پاکستان سے ختم کرنا ان کا بڑا احسان ہے۔ جذامیوں کے لیے بنائے گئے ہسپتال کے ایک کمرے میں انھوں نے ۴۰ سال گزارے اور کہا کہ میں جرمنی واپس نہیں جائوں گی۔یہیں فوت اور یہیں دفن ہوئیں۔
مدر ٹریسا [۱۹۱۰ء-۱۹۹۷ء] کی سماجی خدمات دیکھیں تو ہند میں گاندھی [م:۱۹۴۸ء] کے اتنے سماجی اثرات نہیں، جتنے مدر ٹریسا کے ہیں۔ وہ ایک آشرم میں رہتی تھیں۔کبھی کوڑھیوں کو نہلا رہی ہوتیں، اور خدمت خلق کے عجیب عجیب کام کرتیں۔ ظاہر ہے کہ میں ان کے مذہب کو حق نہیںسمجھتا، لیکن اس دُنیا میں رہنے کے لیے جو خوبیاں درکار ہیں اور اس دُنیا میں جس نظامِ مراتب کے تحت لوگ کسی کو بڑا سمجھتے ہیں اور کسی کو چھوٹا، وہ ایک آفاقی اور اخلاقی نظام کے خدوخال پر قائم ہے۔ اس نظام کے تحت مدر ٹریسا جیسی مثالیں اپنی طرف سے فی زمانہ پیش کرنے میں خاصی دِقّت محسوس ہوتی ہے۔
یہ باتیں صرف اس وجہ سے ہیں کہ ہم اپنے دین کی بنیادی انسانی، آفاقی اور اخلاقی قدروں سے وفاداری کا ثبوت نہیں دے رہے۔ ہم رسولؐ اللہ کے متبع بننے کی کوشش نہیں کر رہے۔ ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ایک حتمی، قطعی اور ابدی فضیلت کو اہمیت نہیں دیں گے تو پھر یہی کچھ ہوگا۔ ذرا سی کوئی بات کرو تو سوال اُٹھا دیتے ہیں کہ یہ جنّت میں جائے گا، اور یہ نہیں؟ جنّت کا اصول اور فیصلہ تو خالق حقیقی نے کرنا ہے، میرے فتوے نے نہیں کرنا۔ ہمیں اسلام اور شریعت کے قانونِ جنّت کے ساتھ خود جنّت جانے اور دوسروں کو جنّت میں لے جانے اور دُنیا کو جنّت بنانے کے لیے ذمہ داری ادا کرنی چاہیے کہ یہی چیز اسلام کے قانونِ دعوت کی بنیاد ہے۔