برطانیہ میں قائم ۲۱فلاحی اداروں کی نمایندہ تنظیم ’آکسفیم‘ (Oxfam) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ Survival of the Richest(مال داروں کی بقا) کے عنوان سے شائع کی ہے۔ یہ رپورٹ دنیا میں تیزی سے بڑھتی معاشی ناہمواری کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
آج کی دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے: ایک جانب مال دار ہیں اور دوسری جانب محتاج۔ اس وقت دنیا میں ٹیکس وصولی کا رائج نظام اور نیو لبرل معاشی ڈھانچا ایک چھوٹے سے اشرافیائی طبقے کے لیے سود مند ہے، جب کہ باقی اکثریتی آبادی کے لیے یہ نظام محض بھوک، مہنگائی، غربت اور نابرابری جیسے بحران جنم دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک اقلیتی مال دار طبقہ دنیا کی سیاسی اقتصادیات کو قبضے میں کر لیتا ہے اور اکثریتی آبادی کے لیے معاشرتی ترقی کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔
دنیا کے تمام ممالک میں اس وقت عوام کی اکثریت بیک وقت کئی بحرانوں سے لڑنے میں مصروف ہے، لیکن اس لڑائی میں فتح صرف ایک چھوٹے سے اقلیتی طبقے کی ہوتی ہے۔ ۲۰۲۰ء کے بعد سے کوویڈ-۱۹ کے اثرات بھی بڑے واضح ہیں۔ حیرت انگیز بلکہ وحشت ناک بات یہ ہے کہ اس وبا کے دوران دنیا کے ایک فی صد امیر ترین طبقے نےنئے جمع شدہ سرمائے کا دو تہائی اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔ ارب پتی لوگ روزانہ ۷ء۲؍ ارب ڈالر اپنی جیبوں میں ڈال رہے تھے،جب کہ عوام کی اکثریت اسی دوران بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت، اور طوفان کی طرح مسلط ہورہی بے روزگاری سے نبردآزما تھی۔
ہم جس زمانے میں رہ رہے ہیں، یہ اکثریت کے لیے بحرانوں کا زمانہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شدید غربت کے خاتمے کے لیے کی جانے والی عالمی کوششیں دم توڑ چکی ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کا کہنا ہے کہ سال ۲۰۲۳ء کے دوران دنیا کی ایک تہائی معیشت بحران کا شکار رہے گی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے UNDP کا کہنا ہے کہ دنیا کے ۱۰ میں سے ۹ ممالک کے اندر انسان کا معیار زندگی بہتری کے بجائے مزید گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔
آکسفیم کے مطابق مہنگائی کی وجہ سے دنیا کے ایک ارب اور ۷۰کروڑ محنت کشوں کی اُجرت مزید کم ہو چکی ہے۔ ترقی پذیر ممالک اپنے قرضوں کی ادائیگیاں کرتے کرتے دیوالیہ ہونے والے ہیں،جب کہ غریب ترین ممالک اپنی بنیادی ضروریات یعنی تعلیم اور صحت وغیرہ کے مقابلے میں اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے زیادہ وسائل صرف کر رہے ہیں۔ اخراجات کو کم کرنے کے لیے ان ممالک میں جو کوششیں کی جاتی ہیں، وہ غریب عوام کی زندگی مزید اجیرن کر نے کا باعث بنتی ہیں اور یوں امیر اور غریب کے درمیان فرق مزید بڑھ جاتا ہے۔
خصوصاً عالمی وبا کے بعد جب دنیا بھر کے اکثریتی عوام غربت کی چکی میں پس رہے تھے، تو ان کی مصیبتوں کا براہِ راست فائدہ سرمایہ دار وں کو ہو رہا تھا، جو اس دوران دونوں ہاتھوں سے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف تھے۔ اس کی وجہ دنیا کا وہ معاشی نظام ہے، جو فقط ایک فی صدی مال دار طبقے کے مفاد میں ہے۔ حالیہ مہنگائی سے پیدا ہونے والا ضروریات زندگی کا بحران بھی اس اقلیتی مال دار طبقے کی دولت کے ذخائر میں روزانہ اضافے کا ذریعہ بنا۔ چنانچہ اس بحران کو ’اخراجاتِ زندگی کے بحران‘ کے بجائے ’منافع کا بحران‘ کہنا چاہیے جس کی ہرسطح پر قیمت غریب ادا کر رہے ہیں۔
یہ رپورٹ دعویٰ کرتی ہے کہ ہر ارب پتی سیٹھ ہمارے نظام اور پالیسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دولت کا حد درجہ ارتکاز نہ صرف معاشرے میں سیاسی بُعد (Polarization) کو جنم دیتا ہے بلکہ یہ معیشت کے لیے بھی خرابی کا باعث ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حق میں ہمیشہ دہرائی جانے والی یہ دلیل بھی غلط ثابت ہو چکی ہے کہ ’’بالائی طبقات میں مرتکز ہونے والی دولت رفتہ رفتہ غریب طبقات تک بھی پہنچ جاتی ہے‘‘۔ واقعی یہ نظام امیر کی بھلائی کے لیے تشکیل دیا گیا ہے، جسے روزِ اوّل سے محصولات کی ادائیگی میں چھوٹ حاصل ہے۔ پھر ٹیکس کا نظام ایسا ہے کہ امارت بڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹیکس اسی تناسب سے کم ہوتا جاتا ہے۔ اس نظام کا فائدہ سرمایہ دار کے سوا کسے ہو سکتا ہے؟
اکثر ممالک بالخصوص غریب یا اوسط آمدن رکھنے والی ریاستوں میں امارت اور وراثت پر ٹیکس کا کوئی تصور موجود نہیں، حالانکہ ان ممالک میں طبقاتی تقسیم سب سے نمایاں ہے۔ اس رپورٹ کا ماحصل یہ ہے کہ غربت، بھوک اور افلاس سے پاک ایک مساوی اور پائے دار معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ امیروں کے طبقے پر ٹیکس عائد کیے جائیں اور گذشتہ چار عشروں سے جاری پالیسیوں کو اَز سرِ نو تشکیل دیا جائے۔ محصولات کا دائرہ بڑھنے سے ریاستوں کے پاس سرمایہ زیادہ اکٹھا ہوسکے گا، جو معاشی، سیاسی اور سماجی ناہمواریوں کو کم کرنے اور مساوات کے اصول پر قائم معاشرے کی تعمیر میں استعمال ہو سکے گا۔
یواین ڈی پی (UNDP) کی ۲۰۲۱ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بھی اسی سمت اشارے کیے گئے تھے کہ پاکستان کا ایک چھوٹا سا اشرافیائی طبقہ کس قدر مراعات یافتہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ طبقہ ریاست کی جانب سے سالانہ ۱۷ ارب اور۴۰کروڑ ڈالر کے مساوی مراعات حاصل کرتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ امیروں پر ٹیکس عائد کر کے اس رقم کو اکثریتی عوام کی فلاح پر خرچ کیا جائے کہ جن کا خون نچوڑ کر ٹیکس لیے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ غربا کو ٹیکسوں تلے پیس کر حاصل ہونے والے وسائل سے اشرافیہ کو مراعات دی جاتی ہیں۔
پاکستان کے نظامِ محصولات میں بھی دولت کا ٹیکس کے ساتھ معکوس (regressive)رشتہ ہے، یعنی بڑھتی دولت کے ساتھ ٹیکس کی شرح کم ہوتی جاتی ہے، جس کا نقد فائدہ پاکستانی اشرافیہ ہی کو ہوتا ہے۔ جیسا کہ روزیٹا آرمٹیج (Rosita Armytage) نے اپنی کتاب Big Capital in an Unequal World: The Micropolitics of Wealth in Pakistan میں ثابت کیا ہے، پاکستانی معاشرے پر اشرافیہ قابض ہے۔ ہمارے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام پر ایک اقلیتی مال دار طبقے کا ہمہ پہلو قبضہ ہے، جس کے ہوتے ہوئے اکثریتی عوام کی بھلائی کا تصور ناممکن ہے۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا، اور اسلام ایک ترقی پسند مذہب ہے، اور یہ کہ انسانیت کو درپیش تمام مسائل کا حل اسلامی تعلیمات میں مضمر ہے۔ چنانچہ موجودہ زمانے میں اسلامی تعلیمات انسانی بھلائی کے لیے کیونکر معاون ہو سکتی ہیں؟ اس پر رہنمائی کرنے کی ذمہ داری اسلامی اسکالروں کی ہے۔
پھر اہم سوال یہ ہے کہ سیاسی، معاشرتی اور معاشی برابری، مساوات، سخاوت، انصاف، ہمدردی، آزادی، بھائی چارے، اور اخوت سے متعلق اسلامی تعلیمات موجودہ عہد میں کس طرح قابل عمل ہیں؟
اسلامی تعلیمات کو نئے سرے سے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان تعلیمات کی نئی تشریح کر کے انھیں موجودہ حالات میں لاگو کرنا ضروری ہے۔ ان اقدار کو عملی طور پر معاشرتی ڈھانچے کا حصہ بنائے بغیر فقط ان کی زبانی تبلیغ سے گوہرمقصود حاصل نہ ہو گا۔
اس ضمن میں اسلامی تعلیمات کو بنیاد بنا کر ہمیں سیاست، معیشت اور قانونی ڈھانچہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے، لیکن اس سے قبل کچھ سوالوں کا جواب تلاش کرنا بھی ضروری ہے، تا کہ اس نظام کے حقیقی خدوخال تلاش کیے جا سکیں:کیا اسلامی تعلیمات میں ایک ایسے معاشرے کی گنجائش موجود ہے جو دو طبقوں (مفلس اور مال دار) میں بٹا ہوا ہو؟ یا اسلام ایک غیر طبقاتی سماج کی نمایندگی کرتا ہے؟ اسلام دولت اور وسائل کے ارتکاز کی اجازت دیتا ہے یا ان کی برابر تقسیم کا علَم بردار ہے؟ اسلام کی نظر میں معاشرے کی مجموعی ترقی زیادہ فوقیت رکھتی ہے یا انفرادی بھلائی؟ کیا اسلام غریب سے چھین کر امیر کو دینے کی بات کرتا ہے یا اسلامی تعلیمات اس کے برعکس ہیں؟*
ان سوالوں پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارا موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی نظام اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی اور بدترین استحصالی بنیادوں پر قائم ہے، جس میں صرف ایک اقلیتی اشرافیہ کے مفادات کا محافظ ہے۔ چنانچہ اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اس نظام کو بدل کر بھلائی کا رُخ اکثریت کی طرف موڑ دیا جائے۔
_______________
*اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے دیکھیے: l سیّدابوالاعلیٰ مودودی ،معاشیاتِ اسلام [مرتبہ: خورشیداحمد] l سیّدقطب شہید، اسلام میں عدل اجتماعی [ترجمہ: نجات اللہ صدیقی] l امام ابویوسف، اسلام کا نظامِ محاصل [کتاب الخراج کا ترجمہ:نجات اللہ صدیقی] lباقرالصدر ہماری معاشیات l ڈاکٹر محمدعمرچھاپرا ، Islam and the Economic Challenge/ Morality and Justice in Islamic Economics and Finance / The Future of Economics: An Islamic Perspective/
بعض حلقے یہ بات کہتے ہیں کہ ’’مسلم دُنیا کی نظریاتی تحریکیں کوئی دیرپا کامیابی حاصل نہیں کرسکیں، خاص طور پر کئی مسلم ادارے یا تنظیمیں‘‘۔ اس بات کے اسباب کا تعین نہ پیچیدہ ہے نہ مشکل، لیکن مسئلہ کے حل پر عمل کرنا تقریباً مشکل ہے۔ ناکامی یا ضُعف کی مثالیں گنوانے کے بجائے صرف یہ چاہوں گا کہ یہ سوال اٹھے کہ ’’آخر ایسا کیوں سوچا جاتا ہے؟‘‘ حقیقت کا دکھائی دینا مشکل نہیں، مگر اس کو قبول کرنا مشکل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو کرۂ ارض پر ایک ایسا نظام قائم کرنے کے لیے بھیجا ہے، جو انصاف، ہمدردی اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس پر قائم ہو اور اس وجہ سے سب باشندگانِ زمین کے حق میں بہتر ہو۔ اس قابل بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اپنی کتاب، قرآن مجید کی شکل میں نازل کی اور بہترین استاد اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں بھیجے، جنھوں نے ہمیں اللہ کے تجویز کردہ نظام کے مطابق رہنا سکھایا اور رہ کر دکھلایا۔
اللہ کی یہ لا محدود رحمت ،ہمارے لیے سکون، اطمینان اور خوش حالی کی زندگی کو ہمارا مقدر بنانے کے لیے ہے۔ اسی لیے اسلام انسانی زندگی کے ہر شعبے کے لیے ہدایات کا جامع نظام دیتا ہے، تاکہ انسان اپنی پوری زندگی پر محیط معاملات کی انجام دہی کے قابل ہو جائے۔ معاملات خواہ سماجی ہوں یا معاشرتی، عدالتی ہوں یا انتظامی، شادی بیاہ کے ہوں یا وراثت کے، جنگ سے متعلق ہوں یا امن کے، کھانےپینے اور پہننے کے ہوں یا دوسروں کی امداد کرنے کے، کمانے سے متعلق ہوں یا خرچ سے، نماز، عبادت کے بارے میں ہوں یا ایثار اور قربانی کے___ اسلام ہر شعبۂ زندگی کے لیے نظام کار وضع کرنے کے لیے ہدایات دیتا ہے۔اس لیے، اسلام صرف ایک تصوراتی نظریہ نہیں، بلکہ مجسم اور متحرک عمل ہے۔اس کی طاقت، اس کی ہدایات کا محض علم رکھنے پر نہیں، ان پر عمل کرنے میں ہے۔علم اور عمل میں فرق کا پیدا ہونا ہی وہ جال ہے جس سے ہمیں بچنا ہے۔
اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ہمیں ذرائع اور اوزار چاہییں۔ مثال سے یوں سمجھیے کہ ہمارے پاس گاڑیاں بنانے کے لیے لکھی گئی کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ ہم ہر صبح کا آغاز کتابیں پڑھنے سے کرتے ہیں، گاڑیاں بنانے کے طریقوں اور صنعت کے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں، اور پھر شام کو گھر چلے جاتے ہیں۔ مگر کتابیں پڑھتے رہنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ اگر واقعی اپنے علم کو بروئے کار لانا ہے تو اس کے لیے ہم کو گاڑیاں بنانے والا کارخانہ قائم کرنا ہوگا۔ اس طرح نہ صرف ہم خود اپنی سواری کے لیے گاڑی بنا لیں گےبلکہ دنیا کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلیں گے۔
اب اگر کوئی یہ پوچھے:’’جب ہمارے پاس انجن کے کام کو جاننے والے زبردست اہلِ علم موجود ہیں، تو ہمیں ان سب کارکنوں اور انجینئروںوغیرہ کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘ تو اس کو آپ یہی جواب دیں گےکہ ’’محض یہ جاننے سے کہ انجن کس طرح کام کرتا ہے اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہو گا جب تک تم خود انجن نہ بنا لو گے، اور ایک ایسے نظام میں لگائو گے جو انجن کی پیدا کردہ طاقت کو حرکت میں بدل کر گاڑی چلا دے‘‘۔ اس لیے یہ سوال کہ ’’زیادہ اہمیت کس کی ہے —سائنس دان کی، انجینئر کی، یا ڈرائیور کی ؟‘‘ ایک بے معنی بات ہے، ہر ایک کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔
نظریاتی تنظیموں یا تحریکوں کو پائے دار کامیابی نہ ملنے کی ایک وجہ دانش وروں کا کارکنوں کے کام کو اہم نہ سمجھنا، یا کارکنوں کا اہلِ دانش کے علم اور اُن کی فکرمندی کو اہمیت نہ دینا ہے۔ ناکامی کی وجہ نہ نظریہ ہےاورنہ طریق کار، بلکہ ایک بالکل مختلف معاملہ ہے، دونوں سے زیادہ اہم، اور وہ ہے انسانی رویہ۔
ہم اس قابل نہیں کہ اختلاف کے ساتھ معاملہ نبھائیں، اختلاف رائے کے ہوتے آگے بڑھیں، علم اور تجربہ اور مہارت کا احترام کریں۔ ناکامی اس لیے سامنے آتی ہے کہ ہم میں یہ احساس نہیں کہ ہمیں واقعی ’دوسرے‘کی ضرورت ہے، اور یہ کہ’ دوسرے‘ کے بغیر ہمارا ’اپنا‘ نظریاتی عمل نامکمل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم روایتی غلطیوں سے سبق حاصل کریں اور ان کو دُہرانے سے بچیں۔ اس ضمن میں اکثر ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں:
اس کا انحصار اس بات پر ہےکہ آیا وہ تحریک اپنے نظریے پر عمل درآمد میں سنجیدہ ہے، یا نہیں۔یہ بالکل اس طرح کا سوال ہے کہ کیا صحت عامہ کے لیے چلائی جانے والی مہم کوہسپتال قائم کرنا یا قائم شدہ ہسپتالوں کی امداد بھی کرنا چاہیے؟ظاہر ہے کہ یہ موشگافی بے معنی ہے، درحقیقت تنظیمیں تو ذرائع کی طرح ہیں۔ یہ نظریاتی ’کیوں‘ کاعملی جواب ’کیسے‘ ہوتی ہیں۔نظریہ جہاں جدوجہد کا مقصد بتاتا ہے وہاں تنظیم اس مقصد کے حصول کے لیے ذرائع فراہم کرتی ہے۔
مثال کہ طور پر دیکھیے کہ سودی کاروبار کی ممانعت کے حکم الٰہی کا نفاذاقامت ِدین کا ایک جزو ہے۔ اسلامی بنیادوں پر بینک یا اس جیسے ادارے قائم کیے بغیر آپ یہ کام کیسے کر سکتے ہیں؟ اگر اسلام کی تعلیمات کے مطابق لوگوں کے لیے ادھار رقم حاصل کرنے کاکوئی طریقہ نہ ہو، تو بے شک آپ سارا دن سود کے حرام ہونے کی گردان کرتے رہیں، کبھی کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوگی۔ ویسٹ منسٹر فلر کے الفاظ میں:’’کسی فرسودہ نظام سے چھٹکارا پانے کے لیے آپ اس سے متعلق سوچ کے اندرتبدیلی نہیں لاتے، بلکہ ایک نئی سوچ بروئے کار لا کرپرانی سوچ کو ختم کرتے اور نیا نظام لاتے ہیں‘‘۔
تنظیمیں وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے نظریے کو حقیقت کی دنیا میں پائے دار بنیادوں پر نافذ کیا جاتا ہے۔ تنظیموں کے بغیر ایک نظریے پر عمل درآمدمحض وقتی اور’جھٹ پٹ‘ قسم کا ہو گا کہ جس کا کبھی اطلاق ہوا بھی تو وہ جزوی ہی ہو گا، اور کبھی اتنا بھی نہیں ہو گا۔
ایک اور مثال لیجیے: ۲ہجری تک زکوٰۃ فرض ہو چکی تھی اور مال غنیمت کی تقسیم سے متعلق قوانین (سورئہ انفال) واضح کر دیے گئے تھے، لیکن باقاعدہ مربوط معاشرتی بہبود کا کام حضرت عمرؓ کےدورمیں بیت المال کا ادارہ قائم ہونے کے بعد ہی شروع ہوا۔اس سے پہلے خیرات کا کام ’اچانک‘ اور ’ہنگامی‘ طور پر ہوتا تھا۔ مگر اب بیت المال کے ادارے کاقیام ہر ضرورت مند کو بروقت امداد ملنے کا ضامن بنا۔
اسی طرح کا معاملہ ایک مسقل سپاہ اور فوج کے قیام کا ہے۔ جس میں سپاہیوں اور کارکنوں کو دشمن سے ملنے والے مال غنیمت یا زمینوں پر قبضے کے بجائے باقاعدہ تنخوہ اور مشاہرہ ملنے شروع ہوئے۔اس سے پہلے، جنگ میں ملنے والی دشمن کی ہزاروں مربع کلومیٹر رقبے کی زمین بے کار پڑی رہتی تھی کہ اس کے نئے مالکان کو کاشت کاری سے کوئی واسطہ نہ تھا اور پرانے مالکان جو کسان تھے وہ اس سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ایسی مفتوحہ زمینوں کو ریاست کے نظم میں لے کر سخت مخالفت کے باوجود ان کے پرانے مالکان کے حوالے کر دیا اور محصولات (ٹیکس) کا ایسا نظام وضع کیا جیسا کہ اللہ کے رسولؐ نے فصلوں اور پیداوار پر عشر کے حوالے سے دیا تھا۔ اس اقدام سے ریاست کو بہت فائدہ ہوا، جو بصورت دیگروسیع زمین فتح کرنے کے باوجود وسائل کی کمی کا شکار رہتی۔
ایک اور مثال لیجیے، جس سے واضح ہو گا کہ تنظیموں اور خاطر خواہ انتظام کے بغیر خلوص نیت بارآور نہیں ہوتا۔ کوئی مسلمان اور اس کے والدین تزکیہ نفس اور تعمیر اخلاق کی ضرورت سے انکاری نہیں۔ مگر، اپنے ارد گرد دیکھیے۔ کیا مسلمان معاشرے میں کہیں بھی ان کا کوئی اثر نظر آتا ہے؟ آپ کے گھر میں؟ خود آپ پر؟ اگر کچھ اثر ہے تو وہ آپ کا کمال ہے یا استثنائی صورت؟ برسرِ زمین حقیقی صورت حال تو یہی ہے کہ ہمارے معاشرتی اور باہمی مسائل کی بڑی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات کے ان دونوں عناصر کا فقدان ہے۔
اس لیے کہ اس کے نفاذ کے لیے ادارے یا تنظیم نہیں ہے۔ محض بیانات میں اس پر زور دینے سے اپنا اور معاشرے کا تزکیہ ممکن نہیں ہے۔
ایک اور مثال معروف مذہبی جماعت میں تقسیم در آنے کی ہے۔ جس میں اَنا اور ہٹ دھرمی نے دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ایک مفید نظریاتی تحریک کو تقسیم کر کے رکھ دیا۔ ایک صدی تک منبر سے اکرامِ مسلم کی باتوں کے بعد جب باہمی اکرام کاوقت آیا تو قیادت توازن پیدا کرنے کا سبق بھول کر نقصان کے راستے پر گامزن ہو گئی۔ تنازعے کے حل کے لیے نہ کوئی نظام ہے، نہ کوئی ایسا ادارہ جو بیچ بچائو اور مصالحت کرا دے۔ ایسا اس لیے نہیں ہو رہاکہ کوئی نظریہ موجود نہیں ، بلکہ یہ اس لیے ہو رہا ہے کہ تنظیم نہیں ہے، اور اس وجہ سے یہ اُفتاد پڑی ہے۔
نہ صرف یہ کہ اداروں کے قیام سے اقامت دین کے کام میں کوئی حرج نہیں ہوتا، بلکہ ان کے نہ ہونے سے اقامت دین کا کام ہو ہی نہیں سکتا۔
یہ اس وقت ممکن ہے جب ایک شخص ’دوسرے‘ شخص کے تجربے کا احترام کرے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اختلاف اور مختلف رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں پایا جاتا۔ ہم اختلاف رائے کو سرکشی اور بغاوت گردانتے اور اس سے اسی طرح نمٹتے ہیں۔ منصوبہ خواہ کچھ ہو، اس رویے سے تعاون کی بنیاد ہی ڈھے جاتی ہے جس کا مطلب ناکامی مقدر ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ کامیاب ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ کامیاب کیسے ہوا جاسکتا ہے؟ اور تبدیلی کا آغاز’اپنے‘ سے ہی ہوتا ہے۔
احتساب کے عمل کا آغاز باہمی تعاون سے ہدف کے تعین، کامیابی کے پیمانوں کے متعلق فیصلے اور کارکردگی کے جائزے سے ہوتا ہے۔ ’باہم‘ اس لیے کہتا ہوں کہ احتساب کی بنیاد مختلف افراد کی مختلف مہارتوں، علم اور ہنر پر ہو گی، نہ کہ آجر اور اجیر یا قائد اور ماتحت کی بنیاد پر۔ یہ ترقی اور بڑھوتری کا اندازہ لگانے کی اجتماعی کوشش ہو گی اور یہ عمل اعتراض سے پاک ہونا چاہیے اور اس کا ہدف واضح ہونا چاہیے: مقصد کے حصول میں کامیابی کے لیے احتساب سے پہلے باہم احترام کی فضا قائم کرنا ہو گی۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے، یہ ادارےکامیابی کے لیے مناسب ذرائع و اوزار استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ناکام ہوتے ہیں۔ جذبہ، لگن اور خلوص کی اہمیت اپنی جگہ، مگر مہارت اور ہنرمندی کی ضرورت بھی اپنی جگہ۔ اللہ کے رسولؐ نے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ یا حضرت علیؓ کو سپاہ کی قیادت کے لیے مقرر نہیں فرمایا، گو کہ یہ سب حضرات علوم اسلامی میں گہری نگاہ رکھنے والے، مخلص اور ایثار کیش، اور مختلف مہارتوں کے حامل تھے۔ اللہ کے رسول نے اس کام کے لیے حضرت خالدبن ولیدؓ کو نامزد فرمایا، جوعلم ومرتبہ میں تو ان اصحاب جیسے نہ تھے مگر سپہ گیری میں مشاق اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل جنگی قائد تھے۔ اللہ کے رسولؐ نے اہلیت کی بنیاد پر فیصلہ فرمایا، نہ کہ دوستی، رشتہ داری یا پسند و ناپسند کی بنیاد پر۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مقصد ہمیشہ نگاہ میں رہے اور ذاتی انا، یا پسند و ناپسند کو بیچ میں آ کرکامیابی کا راستہ کھوٹہ نہ کرنے دیا جائے۔ ہمیں اپنے فیصلوں پر کڑی نظر رکھنا ہو گی، خاص طور پر جب معاملہ کسی ایسے شخص کا ہو جو کام کے لیے تو موزوں ہو مگر جس کی رائے سے ہم کو اختلاف ہویا جسے ہم زیادہ پسند نہ کرتے ہوں۔
ابہام تو مشاہدے میں آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو حضرات مختلف نظریاتی تحریکوں کے اہم مناصب پر فائز ہیں۔ انھیں اختیارات اور ذمہ دایوں کی تقسیم، پیشہ ورانہ تعاون، اور مل جل کر مختلف اُمور کی انجام دہی جیسے عوامل کا شعور نہیں ہے۔زیادہ تر ’یونی ورسٹی یا مدرسہ‘ کی تعلیم کے ساتھ ’حاکمانہ‘ انداز رکھتے ہیں، اندھی پیروی اور بے چون و چرا ہر بات تسلیم کرنے کو خوبی گردانتے، جب کہ سوال اٹھانے کو گستاخی یا بغاوت سمجھتے ہیں۔ اس طرزِ عمل کو بدلنا ایک مشکل کام ہے۔ مگر جب تک ایک دوسرے کا احترام کرنا نہیں سیکھیں گے، اکٹھے ہو کر کوئی فائدہ مند کام انجام نہ دے سکیں گے۔ اکثرنظریاتی رہنماؤں کا حال یہ ہے کہ وہ خودپسند ہوتے ہیں، اور اختلاف کی جرأت کرنے والوں کی اپنے سامنے یا پشت پیچھے تحقیر کرتے ہیں۔ اس رویے کی درستی کے بغیر بہتری ممکن نہیں۔
تحقیقی کام کے سلسلے میں پہلی چیز جو ہماری نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے :
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۵ۙ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۶ۭ (الم نشرح۹۴:۵-۶﴾ )،پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔
تنگی یا مشکل سے مراد ہے محنت۔کیوں کہ محنت کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اگر آدمی محنت کرتا ہے تو اس کے بعد اس کا پھل ملتا ہے ۔ محنت کے بغیر زندگی میں کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے محنت کو اپنی عادت بنائیں۔ مثلاً اگر عربی نہیں آتی تو اسے سیکھنے کی کوشش کریں۔ ضروری نہیں ہے کہ کسی ادارے میں جاکر ہی سیکھی جائے، گھر میں بیٹھ کر بھی سیکھی جاسکتی ہے۔ عربی سیکھنا تو ویسے بھی بہت ہی ضروری ہے۔ کیوں کہ جب تک آپ عربی نہیں جانیں گے تو قرآن حکیم کی مٹھاس سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ ترجمہ پڑھنا تو ایسا ہی ہے کہ آپ کے پاس شہد آیا اور کسی نے اُس کی شیرینی نکال دی اور باقی آپ کو دے دیا۔ عربی سیکھنا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ کتاب عربی کا معلّم جو کہ چار جلدوں پر مشتمل ہے ، اس کام کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ آج کل تو عربی سیکھنے کے جدید طریقے سامنے آگئے ہیں جن سے عربی سیکھنا اور بھی آسان ہوگیا ہے۔ قرآن وحدیث کو عربی میں سمجھے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ عام آدمی کے لیے تو یہ نہیں کہا جاسکتا، لیکن جو لوگ اسلامک اسٹڈیز میں کام کر رہے ہیں ، ان کے لیے عربی کے بغیر کوئی مفر نہیں۔ اگر آپ عربی نہیں سیکھ رہے ہیں تو آپ اسلام کی اچھی طرح خدمت نہیں کرسکتے۔
جہاں تک تحقیق کا تعلق ہے تو اس کام میں محنت کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہے۔ اگر آپ اس کے لیے تیار نہ ہوں اور گھنٹوں کے حساب سے ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پر وقت صرف کریں ، تو زندگی میں کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ خصوصاً علمی کام تو ہوہی نہیں سکتا۔ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ سے حاصل شدہ معلومات محض وقتی ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں آپ کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو وہ آپ کو یاد رہتی ہے ۔ اگر کچھ پڑھا ہوا بھول گئے ہیں تو دوبارہ کتاب دیکھ سکتے ہیں۔ جتنا زیادہ مطالعہ کرسکیں، کیجیے۔ مطالعے کابھی طریقہ یہ ہے کہ پڑھنے کے بعد نوٹس لیں۔ اگر لائبریری کی کتاب ہے تو اپنے کارڈ پر یا کسی اور جگہ نوٹس لے لیں۔ اگر آپ کوئی مقالہ لکھ رہے ہیں تو اس کے نوٹس بنائیے ۔ موضوع کی مناسبت سے پڑھیں اور نوٹس لیں۔ اس کے بعد اپنے خاکے (Outline) کی مناسبت سے لکھیں۔
ہمارے ہاں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تحریر کے معاملے میں پہلی کوشش ہی کافی ہے اور اس سے زیادہ بہتر تو لکھا ہی نہیں جاسکتا۔ اگر تکبر کا عنصر آجائے تو وہاں علم کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ تکبر اور علم ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اپنے لکھے ہوئے کو کئی مرتبہ دُہرائیں۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اس کام میں بہت وقت اور محنت لگتی ہے، لیکن اس کے بغیر کام بھی نہیں بنتا۔ لکھے ہوئے کو خود بھی دُہرائیں اور دوسروں کو تبصرے کے لیے دیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ تبصرے کے لیے دیتے ہیں تو صرف تعریف کی امید رکھتے ہیں۔ اگر آپ نے ان پر کوئی تنقید کردی تو ان کا پارہ چڑھ جاتا ہے۔ یہ رویہ ہوتو بہت زیادہ سیکھا نہیں جاسکتا۔ اس کے لیے بھی تیار ہونا چاہیے کہ اگر کوئی غلط قسم کی تنقید بھی کردے تب بھی ناراض نہ ہوں۔ اچھی طرح غور کرکے دیکھیں کہ اس کی تنقید درست ہے یا نہیں؟ درست ہے تو اپنی تحریر کو بہتر بنائیں اور صحیح نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیں۔
کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اچھے رسالے کے لیے مقالہ لکھیں اور محنت سے لکھیں۔ اس کے بعد بھی اس چیز کے لیے تیار رہیں کہ مبصرین کے جو تبصرے آئیں گے اس کی مناسبت سے آپ اس میں بہتری لائیں گے۔ گویا سب سے پہلے محنت، بہت سا مطالعہ کرنا اور خاص طور سے اگر کوئی مضمون لکھنا ہے تو اس سے متعلق چیزوں کا مطالعہ کرنا ، نوٹس لینا، پھر مقالہ لکھنا ، اس کو کئی بار دُہرانا، لوگوں کو تبصرے کے لیے دینا اورتبصروں کی مناسبت سے دُہرانا ہے۔ پھر فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا کے مصداق آپ کو آپ کی محنت کا صلہ مل جائے گا۔ آپ کو خوشی ہوگی جب آپ کا مقالہ کسی عمدہ رسالے میں چھپے گا، لوگ اس پر اچھے تبصرے کریں گے اور آپ کی عزت بڑھے گی۔ جو محنت کرنے اور تنقید سننے کے لیے تیار نہیں ہے وہ عالم نہیں بن سکتا۔ اپنا مطالعہ وسیع تر کریں۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ کے دورانیے کو کم کریں اور وہ وقت مطالعے میں صرف کریں۔ شام کو گھر پر جاکر ضرور مطالعہ کریں۔ چھٹی والے دن اور معمول کے دنوں میں بھی، فرق صرف یہ ہونا چاہیے کہ چھٹی کے دن آدمی گھر میں کام کرے اور اس کا دفتر آنے جانے کا وقت بچے۔ زندگی میں اپنے سامنے اس بات کو نشانِ راہ کے طور پر رکھیں: ’’محنت کے بغیر کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا، اور محنت کے ذریعے سب کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔
باہر کے ممالک میں لوگ تحقیق کے لیے بہت زیادہ محنت کرتے ہیں جو ہمارے ہاں نہیں ہے۔ دوسرے ممالک میں لوگ اپنے مقالہ جات کو خود بار بار پڑھتے ہیں، لوگوں کے تبصرے لیتے ہیں، لوگوں کے ساتھ اس پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں اور اس دوران میں نوٹس لیتے رہتے ہیں۔ ان کی روشنی میں مقالے کو مزید بہتر کرتے ہیں۔ یہ ایک اسکالر کی صفات ہیں۔
بعض اوقات دفتروں کے اندر بھی لوگ نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان چیزوں سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ کیوں کہ مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا، اور جب تک اللہ نہ چاہے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بظاہرآپ کے خلاف کسی نے سازش ہی کی ہو، لیکن بعد میں آپ کو پتا چلے کہ یہ تو آپ کے حق میں بہت بہتر ہوگیا: وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۰ۚ (البقرہ۲:۲۱۶﴾)’’ممکن ہے تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمھارے حق میں اچھی ہو‘‘۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کو ترقی نہ ملے اور آپ اپنے افسر کو برا بھلا کہنے لگیں لیکن ترقی دینے والا آپ کا افسر بالا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اگراللہ نے چاہا تو آپ کی ترقی کو کوئی روک نہیں سکتا اوراگر اللہ تعالیٰ نے نہ چاہا تو کوئی ترقی دے نہیں سکتا۔ ہمارایہ عقیدہ مضبوط ہو کہ جتنا ہمیں ملے گا ،اللہ ہی کی ذات سے ملے گا اور اسی کے سامنے آدمی دستِ طلب بھی دراز کرے، اور اسی کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کرے تو زندگی میں ترقی ہی ترقی ہے۔
ہندستان کے مسلمان جس دور سے گزر رہے ہیں اور جن چیلنجوں کا انھیں سامنا ہے، اس پس منظر میں تحریک اسلامی کے لیے یہ بڑا اہم اور فیصلہ کُن دور ہے، یہ مواقع اور امکانات کا دور ہے۔ امرواقعہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار اسلام اتنے بڑے پیمانے پر موضوعِ بحث بنا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دُنیا تو ایک طرف خود ہمارے ملک میں بھی اسلام کی ایک ایک بات، اس کا ایک ایک حکم، اس کی ایک ایک تعلیم بڑے پیمانے پر پبلک سکروٹنی اور عوامی تحقیق، تجزیے اور بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اسی بناپر یہ تحریک اسلامی کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے۔ ہم صدیوں تک بھی کوشش کرتے رہتے تو اس بڑے پیمانے پر عام عوام کے اندر اسلام کے حوالے سے دلچسپی پیدا نہیں کرپاتے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے موجودہ زمانے میں پیدا فرمادی ہے۔
اپنی تمام تر حشر سامانیوں، نفرتوں اور سازشوں کے باوجود ہندستان میں ’ہندوتوا‘ کی موجودہ لہر، ایک عارضی لہر ہے۔ اس کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ فتنہ و فساد، خون خرابا، شرانگیزی کی عمر کبھی طویل نہیں ہوتی۔ ایسے ظلم کا طویل ہونا اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے۔ پوری انسانی تاریخ کی شہادت کے خلاف ہے کہ ایسی چیزوں میں کوئی دوام یا permanency پائی جائے۔ یہ بہرحال ایک عارضی چیز ہے۔ یہ سب اُس آندھی کی مانند ہے، جو تیزی سے چلتی ہے اور بڑی تباہی بھی لاتی ہے، لیکن اس کی عمر بہرحال بہت مختصر ہوتی ہے۔ آندھی چھٹتی ہے، غبار بیٹھتا ہے تو پھر منظر صاف ہوجاتا ہے۔ ’ہندوتوا‘ لہر بھی ایک آندھی کی مانند ہے اور یہ آندھی ان شاء اللہ ضرور چھٹے گی، اس کا زور کم ہوگا اور اس کے بعد ہند میں بڑی اصلاحات کی راہ ہموار ہوگی۔
گویا کہ یہ ایک طے شدہ بات ہے اور نوشتۂ دیوار ہے کہ دُنیا میں جب بھی اس طرح کی انسانیت سوز صورتِ حال پیدا ہوئی،تو اس نے ہمیشہ بڑی اصلاحات کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ پہلی جنگ ِ عظیم اور دوسری جنگ ِ عظیم میں پوری دُنیا میں تباہی مچی، لیکن اس کے بعد دُنیا میں پہلی بار بین الاقوامی افہام و تفہیم کا دورشروع ہوا۔ عالمی ادارے بنے، انٹرنیشنل قوانین بنے، دُنیا میں امن و امان کے لیے ادارے تشکیل پائے اور فنانشنل ریگولیشن کے لیے ادارے بنے۔
چند عشرے قبل، مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک میں ظلم و ستم کی انتہا کی گئی، اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں پر انتہائی بہیمانہ مظالم توڑے گئے۔ لیکن جب ۹۰ کے عشرے کا آغاز ہوا تو اس پورے خطے میں بڑی غیرمعمولی تبدیلیاں آئیں۔ آج کثیرثقافتی سیاسیات اور ملٹی کلچرل ازم کا معتدل نمونہ مشرقی یورپی ممالک میں پایا جاتا ہے۔ انھوں نے اس فتنہ و فساد سے سبق سیکھا، اپنے ریاستی دساتیر بدلے اور بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اور اصلاحات سامنے آئیں۔اسی طرح ’ہندوتوا‘ کی یہ آندھی جب تھمے گی تو یہاں کا اجتماعی ضمیر بڑی اصلاحات کا مطالبہ کرے گا اور اس جانب متوجہ ہوگا۔ یہ بھی تحریک ِ اسلامی کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہوگا۔
دوسری طرف خود اُمت مسلمہ کے اندر نئی توانائیاں بیدار ہورہی ہیں، روایتی طور طریقے بدل رہے ہیں، پرانے بت زمین بوس ہورہے ہیں، نئی راہوں کی تلاش کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے۔ تحریک ِ اسلامی کی سوچ اور فکر کو وسیع سطح پر قبولِ عام حاصل ہو رہاہے۔ روایتی دینی مدارس کے اساتذہ اور نوجوانوں کا اسلامی تحریک کی طرف رجوع بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک ایسی صورتِ حال ہے جس کا اس سے پہلے تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ سب ہمارے لیے غیرمعمولی مواقع ہیں۔ عام طور پر صرف مشکلات اور چیلنجوں کا ہی تذکرہ کیا جاتاہے، لیکن ان چیلنجوں کی تہہ میں جو مواقع اور امکانات پوشیدہ ہیں انھیں بھی دیکھنا چاہیے۔ تحریک ِ اسلامی سے وابستہ ہونے کے ناتے ہمارا اصل مطمح نظر وہ مواقع ہونے چاہییں، جو اللہ تبارک و تعالیٰ مسلسل پیدا کر رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ مشکلات اور چیلنجوں ہی کے دوران نئے راستے پیدا کرتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس اُمت نے ہمیشہ مشکلات سے زندگی حاصل کی ہے۔ چیلنجوں ہی سے اس کو توانائی، تابندگی اور حرارت ملی ہے۔ دل گواہی دیتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اُمت کے بڑے احیاء کا سامان پیدا فرما رہا ہے۔ اب یہ تحریک کے ایک ایک کارکن کی ذمہ داری ہے کہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، اس کی اہمیت کو سمجھیں۔ یہ بہت قیمتی لمحات ہیں۔ ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ ایک ایک لمحے کو ہم پکڑ لیں، اس کو مفید بنائیں اور اس کا بھرپور استعمال کریں۔ یہ ہماری کوشش اور جستجو ہونی چاہیے۔ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا ہے؟ اس ضمن میں چند گزارشات پیش ہیں:
سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ ہمیں اُمت کے اندر ہمت، حوصلہ اور جرأت پیدا کرنا ہے۔ حالات کو دیکھنے کا مثبت زاویہ پیدا کرنا ہے۔ ہم خود بھی مواقع دیکھیں اوراُمت کو بھی ان مواقع سے روشناس کرائیں۔ ہم خود بھی یاد رکھیں اور اُمت کو بھی یاد دلائیں کہ قرآنِ مجید نے ہمارے اندر یہ یقین پیدا کیا ہے کہ اُمت مسلمہ کا طاقت ور سے طاقت ور دشمن بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وٹس ایپ پر پیغامات آتے ہیں، اخبارات میں مضامین لکھے جارہے ہیں کہ نسل کشی (Genoside) ہونے والی ہے، اس کے آٹھ مراحل طے ہوچکے ہیں، ہمارے بچّے اور ہمارا مستقبل محفوظ نہیں ہے۔ درحقیقت یہ باتیں ہمارے ایمان کے خلاف ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں صاف صاف یہ بات فرمائی ہے کہ طاقت ور سے طاقت ور دشمن بھی اہلِ ایمان کا کچھ نہیںبگاڑ سکتا۔ اہلِ ایمان پر اگر مشکلات یا مصیبتیں آتی ہیں، تو یہ صرف اور صرف ان کی اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُھُمْ شَـيْـــًٔـا۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳:۱۲۰) مگر ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی، بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔
بے شک اس وقت اسلام دشمن طاقتوں کی سازشیں ہم کو بظاہر کامیاب نظر آتی ہیں لیکن جیساکہ ہم نے عرض کیا ہے کہ یہ وقتی اور عارضی مرحلہ ہے۔ وہ اپنی چال چلتے ہیں اور اللہ اپنی چال چلتا ہے:
وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللہُ۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِـرِيْنَ۳۰(الانفال ۸:۳۰) وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔
جس طرح لَا الٰہ کے ساتھ اِلَّا اللہ کہنا ضروری ہے۔ اگر صرف لَا الٰہ کہا جائے گا تو یہ کلمۂ کفر ہوگا، یعنی یہ کہنا کہ کوئی خدا نہیں ہے۔ مسلمانوں کا کلمہ مکمل ہوتا ہے اِلَّا اللہ کے ساتھ۔ لَاالٰہ کے ساتھ جب ہم اِلَّا اللہ کہیں گے تو تب ہی ہماری بات مکمل ہوگی۔ اسی طرح يَمْكُـرُوْنَ کے ساتھ يَمْكُرُ اللہُ ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہمارا مکمل کلمہ وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللہُ۰ۭ ہے کہ وہ اپنی سازشیں کررہے ہیں اور اللہ اپنی چال چل رہا ہے۔
ہمارے اخبارات، صحافتی کالم، تقریریں اورخطبات اور گفتگوئیں، اُمت میں یہ کہہ کہہ کر مایوسی پھیلا رہے ہیں کہ وَيَمْكُـرُوْنَ ، یعنی وہ سازشیں کر رہے ہیں۔ یہ ایک اَدھوری بات ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکنان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو مکمل طور پر لوگوں کے سامنے پیش کریں کہ وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللہُ۰ۭ ’’یعنی وہ اپنی سازشیں کررہے ہیں اور اللہ اپنی چال چل رہا ہے‘‘۔
اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم اُمت کے اندر ایک متبادل طرزِفکر اور طرزِبیان اور Narrative لے کر آئیں۔ ایک ایسا طرزِ بیان جو حوصلہ، ہمت اور عمل پر مبنی ہو۔
قرآنِ مجید جب نازل ہورہا تھا تو وہ ایک ایسے دور میں نازل ہورہا تھا، جب اللہ کے رسولؐ اور اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی سخت آزمایشوں سے گزر رہے تھے۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مکی زندگی آزمایشوں کی زندگی تھی اور مدنی زندگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ریاست قائم کرلی تھی، اس لیے وہاں اتنی سخت آزمایشیں نہیں تھیں۔ تاہم، جن لوگوں کی سیرتِ رسولؐ پر نظر ہے، وہ جانتے ہیں کہ مدنی زندگی بھی کچھ کم آزمایشی زندگی نہیں تھی۔ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاروں طرف سے دشمنوں کی یلغار کے درمیان تھے۔ اُس وقت کی عالمی طاقتیں آپؐ کی دشمن تھیں۔ مدینہ کی چھوٹی سی اسلامی ریاست کو کرئہ ارض سے ختم کرنے کے لیے ایک طرف قریش تھے تو دوسری طرف مدینہ میں یہودی تھے، آس پاس کے مشرکین تھے اور روم اور فارس کی طاقتیں تھیں۔ لہٰذا مکّی زندگی ہو یا مدنی زندگی، نبی اکرمؐ کی پوری ۲۳سالہ زندگی شدید مشکلات اور شدید آزمایشوں اور چیلنجوں سے بھری زندگی تھی، اور اسی دوران قرآنِ مجید نازل ہورہا تھا۔ چنانچہ موجودہ حالات میں ہمارے لیے طرزِفکر، طرزِ بیان اور طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟ اس کے لیے قرآنِ مجید سے بہتر رہنمائی اور کہاں سے مل سکتی ہے؟
قرآنِ مجید کو پڑھا جائے تو اس میں دو خصوصیات نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں:
پہلی بات قرآنِ مجید یہ کہتا ہے کہ ’اسلام‘ کے جو دشمن ہیں، وہ انتہائی کمزور لوگ ہیں۔ قرآن نے سب سے پہلے اُن کا رعب اور بھرم توڑا کہ ان کے اندر کوئی طاقت ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ قریش جو مکہ کا سب سے طاقت ور قبیلہ ہے، وہ انتہائی کمزور لوگ ہیں۔ یہودی جن کی مکاریاں ، چال بازیاں اور سازشیں مشہور ہیں، وہ انتہائی کمزور لوگ ہیں۔ روم اور فارس کی عالمی طاقتیں بھی انتہائی کمزور لوگوں پر مشتمل ہیں:
فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِيَاۗءَ الشَّيْطٰنِ۰ۚ اِنَّ كَيْدَ الشَّيْطٰنِ كَانَ ضَعِيْفًا۷۶ۧ (النساء۴:۷۶) پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں۔
اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاۗءَہٗ ۰۠ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۱۷۵ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۷۵) اب تمھیں معلوم ہوگیا ہے کہ وہ دراصل شیطان تھا، جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا رہا تھا، لہٰذا آیندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحب ِ ایمان ہو۔
قرآنِ مجید نے اسلام دشمن قوتوں کے بارے میں فرمایا ہے : ان کے دل آپس میں پھٹے ہوئے ہیں۔ وہ کبھی متحد نہیں ہوسکتے اور اُن کے مقابلے میں جو کچھ مشکلات ہیں وہ ہماری اپنی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔اس کا ذمہ دار کوئی بیرونی عنصر نہیں ہے، کسی بیرونی طاقت کی سازش ہمیں نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ ہماری اپنی کمزوریاں ہمیں نقصان پہنچاتی ہیں۔ اگر ہم اپنی کمزوریاں دُور کرلیں، اپنے آپ کو سدھار لیں تو ہم بڑی سے بڑی طاقت پر غالب آسکتے ہیں۔ یہ قرآنِ مجید کے طرزِ بیان کی پہلی خصوصیت ہے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ قرآنِ مجید نے کبھی مظالم، مشکلات اور مصیبتوں کا ذکر نہیں کیا۔ آپ پورا قرآن پڑھ ڈالیں، آپ کو کہیں نہیں ملے گا کہ حضرت بلال حبشیؓ پر آگ کی سلیں ٹھنڈی کی گئیں۔ حضرت خباب بن ارتؓ کے جسم کی چربی سے آگ بجھائی گئی۔ حضرت سمیہؓ کو برچھی مار کر سرِبازار شہید کیا گیا۔ یہ سب ظلم وستم سیرت کی کتابوں اور احادیث سے ہمیں ٹھیک ٹھیک معلوم ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید نے کبھی حالات کی خرابی کا ماتم نہیں کرایا، کبھی باریکی سے تفصیلات بیان نہیں کی ہیں کہ ایسا ظلم ہورہا ہے، ایسی مصیبتیں ٹوٹ پڑی ہیں، اور آنےوالے زمانے میں یہ ہوسکتا ہے۔ یہ سب آپ کو قرآنِ مجید میں نہیں ملے گا۔ قرآنِ مجید کی زبان پوری طرح سے عملی زبان ہے۔ وہ صرف یہ بتاتا ہے کہ ایسے حالات میں کرنا کیا ہے؟ ہم حالات کو کیسے بہتر بناسکتے ہیں؟ یہ ماتم کناں ہونے کی نہیں معرکہ زن ہونے کی زبان ہے۔ قرآن کی زبان یہ ہے کہ آپ کیسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ اس کے لیے آپ کو کیا راستہ اور کیا حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی؟
اُمت مسلمہ کو اگر ہم ان حالات میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور حالات کے پیدا کردہ مواقع کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو اس کے لیے ایک بڑی تبدیلی درکار ہے۔ اس کے لیے اُمت کے اندر ایک نفسیاتی تبدیلی لانی ہوگی اور طرزِبیان کو بدلنا ضروری ہے۔ تحریک اسلامی کو اس حوالے سے قیادت کرنی چاہیے۔ آج اخبارات اور مضامین میں صرف حالات کا رونا رویا اور حالات کا ماتم کیا جاتا ہے۔ ہمیں آگے بڑھ کر یہ بتانا چاہیے کہ نصرتِ الٰہی سے ہم ان حالات کو کیسے بدل سکتے ہیں؟ حالات کو کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے؟ اور یہ اعتماد بھی پیدا کرنا ہے کہ حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور اس کا راستہ بھی دکھاناہے۔
حالات کیسے بہتر ہوسکتے ہیں؟ اس پر اُمت کو قائل کرنا ہے کہ حالات کو بہتر بنانے کے لیے صرف فوری اور محض وقتی تدابیر کافی نہیں ہیں۔ وقتی تدابیر کی مثال تو ایسے ہے کہ اگر بارش میں ہمارے گھر کی چھت ٹپکنے لگے تو فوری طور پر ہم پولی تھین لاکر اسے ڈھانپ دیتے ہیں تاکہ برساتی پانی کے فوری ٹپکے سے بچ جائیں اور رات سکون سے گزر جائے۔ اگر اسی برساتی کو ہم مسئلے کا حل سمجھ لیں، اپنا ذہنی ارتکاز اسی پر رکھیں، تو ظاہر ہے کہ ایسا شخص دُنیا کا احمق ترین آدمی شمار ہوگا۔
موجودہ حالات میں مزاحمت، احتجاج، جلوس، دھرنے اور قانونی کارروائیاں وغیرہ یہ سب وقتی تدابیر ہیں۔ یہ بھی ضروری ہیں اور ان کی افادیت اپنی جگہ ہے، لیکن ان سے مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل نہیں ہوسکتا۔ اگر اسی پر ہمارا ارتکاز رہے، اسی کے بارے میں ہم سوچتے رہیں اور اسے اپنے حواس پر طاری کرلیں، تو قیامت تک ہم ان حالات سے باہر نہیں آسکتے۔ ان حالات سے باہر آنے کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی اور سنجیدگی اور صبرواستقامت کے ساتھ جدوجہد کرنی ہوگی۔ تحریک ِ اسلامی انھی کاموں کی طرف متوجہ کررہی ہے۔ ان اُمور پر ہمیں ارتکاز کرنا ہوگا:
سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ اس ملک کی سوچ بدلے، اس ملک کی اکثریت کا ذہن بدلے اور یہ مہم بڑے پیمانے پر ہم کو چلانی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ صرف جماعت اسلامی ہند ہی نہیں بلکہ پورے ۲۰کروڑ سے زیادہ مسلمان اس مہم سے جڑجائیں۔ اس کے لیے ہمیں بڑے پیمانے پر تحریک چلانی ہے۔
لوگ سوال اُٹھاتے ہیں کہ جماعت اسلامی ہند نے ۷۵برسوں میں کیا کیا ہے؟ ہمارا جواب ہے کہ ان برسوں میں جماعت اسلامی نے مسلمانوں کی سوچ میں ٹھوس تبدیلی پیدا کی ہے۔ اس جدوجہد میں صرف جماعت اسلامی ہی شامل نہیں ہے بلکہ دیگر دینی جماعتوں نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں مسلمان پہلے سے زیادہ اسلام سے وابستہ ہیں اور دین سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں بدعات اور رواجی خرافات پہلے سے کم ہوگئی ہیں۔ دین کا شعور عام ہورہا ہے۔ آج پڑھے لکھے لوگ بھی دین کی بات کررہے ہیں اور ان کی سوچ بدلی ہے اور ان کی فکر میں تبدیلی آئی ہے۔
دوسری طرف غیرمسلموں کی طرف دیکھیں تو منفی تبدیلی آئی ہے۔ آج پہلے سے زیادہ ان کے ذہن مسموم ہیں۔ ان میں پہلے سے زیادہ اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں اور نفرت پائی جاتی ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ گذشتہ برسوں میں جو کام ہمارے بزرگوں نے کیا ہے، آیندہ ۱۰،۲۰برسوں میں وہی کام بڑے پیمانے پر ہمیں برادرانِ وطن میں کرنا ہے۔ جس طرح مسلمانوں کی سوچ بدلنے کے لیے جماعت اسلامی ہند کے ساتھ ساتھ مختلف جماعتوں، علمائے کرام اور چھوٹے بڑے گروپوں نے مل کرکام کیا۔ اب آیندہ ۱۰، ۲۰ برسوں میں اسی طرح برادرانِ وطن کی سوچ اور فکر بدلنے کے لیے کوشش کرنا ہے۔ اسی کے نتیجے میں ان شاء اللہ ضرور تبدیلی آئے گی اور اس کے علاوہ تبدیلی کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ فرقہ پرست اور نسل پرست فسطائی قوتوں نے ذہن سازی کرکے طاقت حاصل کی ہے۔ اگر ان کو سیاسی میدان میں شکست بھی دے دی جائے، ۲۰۲۴ء میں حکومت بدل بھی جائے، تو یقین مانیے کہ اس سے حالات میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی، کیونکہ مسئلہ سیاسی جوڑ توڑ کا نہیں، معاملہ ذہنی و فکری تبدیلی کا ہے۔اس لیے کہ اگر لوگوں کی سوچ بدل چکی ہے تو آیندہ جو حکومت بھی آئے گی، وہ عوام کی سوچ کے مطابق چلنے پر مجبور ہوگی۔ عدلیہ، بیوروکریسی اور حکومت سب اس پر مجبور ہوں گے۔ لہٰذا مسئلے کا حل صرف سیاسی نہیں ہے، نہ سماجی ہے اور نہ صرف قانونی ہی ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف سوچ میں تبدیلی اور رائے عامہ کی تشکیل میں ہے۔ بڑے پیمانے پر پوری اُمت کے دعوت کے کام میں لگنے ہی سے یہ ہدف حاصل ہوسکے گا۔ یہ ہیں وہ ناگزیر اقدامات جن کے نتیجے میں ملک کے حالات سدھر سکیں گے۔
درحقیقت، مسلمان دوسری قوموں کی طرح ایک قوم نہیں ہیں، بلکہ وہ اعلیٰ نصب العین کی حامل ایک اُمت ہیں۔ اس حیثیت سے مسلمانوں کے مقام و مرتبے سے یہ کم تر بات ہے کہ ان کی سوچ محض اپنے مسائل و مفادات تک محدود رہے۔ جب استحصال پسند طبقے اور تخریب کار قوتیں اپنے مفادات کی خاطر، ملک اور معاشرے میں ناانصافی، عدمِ مساوات اور نابرابری کو فروغ دے رہی ہوں، تو اس فساد بھرے ماحول میں مسلمانوں کو ایسا سیاسی پروگرام اور سماجی لائحہ عمل اور انسانیت نواز نظریہ لے کر آگے بڑھنا چاہیے، جو ملک کے تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کا سامان رکھتا ہو۔ جس میں سب کے لیے عدل کی ضمانت ہو اور ہر ایک کے حقوق کی حفاظت ممکن ہو۔مسلمان، اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں سارے انسانوں کے مفادات کے علَم بردار بن کر اُبھریں کہ جس میں تمام منفی پروگراموں اور منصوبوں کے برعکس بجا طور پر ایک بہترین پیغام پیش کیا جائے۔
دوسرا ضروری کام اُمت مسلمہ کی بہتری اور تعمیر کے لیے جدوجہد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُمت کی دینی حالت بہترہو، وہ دین پر عمل کا نمونہ بنے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ وہ تعلیم میں آگے بڑھے، معیشت اور تجارت میں ترقی کرے، ملک کی تعمیروترقی میں کردار ادا کرے۔ معیشت، تعلیم غرض ہرمحاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تبدیلی بھی بڑے پیمانے پر لانے کی کوشش کرنا ہوگی۔
یہ دونوں کام ہمیں صبراور حکمت کے ساتھ کرنے ہوں گے۔ تحریک اسلامی کے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِن دونوں اُمور کے لیے اُمت میں بیداری لائیں اور پوری اُمت کو ان کاموں کے لیے کھڑا کریں۔ ہمیں ملک کے کچھ شہروں کو ماڈل بناکر اس کام کو کرنا چاہیے۔ کوشش کیجیے کہ سارے مسلمان، علمائے کرام ، دانش ور، ڈاکٹر، وکلا، اساتذہ کرام، صحافی، نوجوان، طلبہ، خواتین اور ملّی جماعتیں اور ملّی ادارے، سب اس کام کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ اس کے لیے طریقے ڈھونڈیئے۔ منصوبے اور آئیڈیئے سوچیے اور کوشش کیجیے کہ یہ دونوں اہداف حاصل ہوسکیں۔ اگر یہ ایک ملک گیر تحریک بن جائے، تو اسی کے نتیجے میں ان شاء اللہ حالات نے جو مواقع اور امکانات پیدا کیے ہیں، وہ بھرپور طریقے سے استعمال ہوسکیں گے۔
اگر ہم ان دو محاذوں پر ثابت قدم رہے، اُمت کی نفسیات اور جذبات کو صحیح رُخ دیا اور اُمت کو صحیح رُخ پر متحرک کرنے میں کامیاب ہوگئے، تو پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ حالات جو بظاہر مشکل حالات محسوس ہوتے ہیں، ان شاء اللہ بڑی مثبت تبدیلی کا ذریعہ بنیں گے۔ اللہ کی سنت یہی ہے کہ وہ انھی مشکل حالات سے تابناک اور روشن مستقبل کی راہیں ہموار کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، بہتر اور مؤثر ترین راستوں کی طرف رہنمائی فرمائے۔ ان راستوں پر آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے، صلاحیت اور مواقع عطا فرمائے، رکاوٹوں اور مشکلات کو دُور فرمائے اورہرقدم پر اپنی مدد اور نصرت ہمارے شاملِ حال فرمائے، آمین!
ریاستہائے متحدہ امریکا میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ اگرچہ کئی صدیوں پر محیط ہے، مگر مسلمانوں کے اثرات اوران کے قابل ذکر اداروں کا قیام پچھلے پانچ عشروں میں ہی عمل میں آیا ہے ۔کسی بھی ایسے ملک کی طرح جہاں مسلمان ایک مختصر اقلیت میں ہیں ، امریکا میں رہنے والے مسلمانوں نے ایک طویل اور صبر آ زما جدوجہد کے بعد ایک اجنبی معاشرے میں یہ مقام حاصل کیا ہے۔ امریکا میں مسلمان کُل آ بادی کا ۲سے ۴ فی صد حصہ ہیں۔
میرے والد محترم ۱۹۶۵ء میں پہلی مرتبہ امریکا آ ئے تھے،اور وہ بتاتے تھے کہ اس زمانے میں مساجد نہ صرف ناپید تھیں بلکہ حلال کھانے کی تلاش ایک بڑا مشکل مرحلہ ہوتا تھا۔ انھوں نے یہاں چھ مہینے تک قیام کے دوران بمشکل چند مساجد دیکھیں اور گنتی کے چند مسلمانوں سے واسطہ پڑا۔ اسلامک اسکول ، باحجاب خواتین اور حفظ کے مدارس کا تو تصور بھی محال تھا۔
۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کے عشرے میں امریکا میں منظم، اسلامی سر گرمیوں کی داغ بیل ڈالی گئی ۔اس طرح جہاں برصغیر پاک و ہند سےتعلق رکھنے والوں نے ’اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا‘ (ICNA) اور اس کی ذیلی تنظیموں کو اپنے اعتماد سے نوازا، وہاں مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے دُوراندیش مسلمانوں اور قائدین نے ’اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا‘(ISNA)، ’مسلم امریکن سوسائٹی‘ (MAS)، ’کو نسل آف امریکن ریلیشن‘ ( CAIR) اور دیگر تنظیموں میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کی بقا اور دوام کے لیے منظم جدوجہد کا انتظام کیا۔
ایک اور انتہائی قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ اس پورے دورمیں سیاہ فام امریکی مسلمانوں کی تنظیموں اور قائدین نے بھی دین کی اشاعت اور ترویج میں بھرپور حصہ لیا ۔ یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ سیاہ فام مسلم تنظیموں کی اپنی تاریخ ڈیڑھ سوسال سے زیادہ پرانی ہے۔ ملک شہباز میلکم ایکس جیسے لیڈروں کے نام نہ صرف امریکا کے سیاہ فام مسلمانوں کے لیے بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے زندہ کردار ہیں اور سول رائٹس کی جدوجہد میں امریکا کی تاریخ کا اَنمٹ حصہ ہیں۔ انفرادی و سماجی مطالعات کے مشہور تحقیقاتی ادارے (PEW)کے مطابق سیاہ فام، امریکا کی آ بادی کا ۱۳ء۴ فی صد ہیں اور ان میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب اس کا پانچواں حصہ یا ۲۰ فی صد ہیں۔ سیاہ فام امریکی مسلمانوں کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ ’’مختلف ممالک سے آنے والے مسلمانوں کی تحریکات کو سیاہ فام مسلمانوں کے اندر زیادہ نفوذ کرنا چاہیے تھا، اور ان کی اسلامی اور سماجی نشوونما اور اُٹھان کے لیے مزید اور ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہیے تھے‘‘، جس سے اصولی طور پر کسی کو اختلاف نہیں۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی سراسر نا انصافی ہو گی کہ خود اُن سعادت مند انسانوں کی جدوجہد کو ہلکا بناکر پیش کیا جائے، کہ جنھوں نے پچھلے ۵۰برسوں میں امریکا میں جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے ہجرت کر کے اپنی پوری زندگی امریکا میں اسلام کی بقا اور ترویج کے لیے وقف کردی۔
ایسا ملک جہاں چند عشرے پہلے حلال کھانا ناپید، ٫ مسجدوں اور عبادت گاہوں کا تصور محال اور مسلمان نسلوں کی اسلامی تعلیمات کا کوئی انتظام نہ تھا۔ آ ج وہاں لگ بھگ ۲۸۰۰مساجد ، سیکڑوں اسلامک اسکول اور قرآن حفظ کرنے کے ادارے، قدم قدم پر حلال کھانے کے مراکز اور یہاں تک کہ اسلامی علوم حاصل کرنے کی یونی ورسٹیاں تک قائم ہیں۔ امریکی ایوانوں سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونی ورسٹیوں میں باحجاب خواتین کی موجودگی ، ’مسلم اسٹوڈنٹس ایسو سی ایشن‘ (MSA) اور ’ینگ مسلمز‘ (YM) سے وابستہ ہزاروں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، ۶۰ ہزار سے زائد امریکی مسلمان ڈاکٹر ، ہزاروں آئی ٹی ماہرین ، وکلا، ججز اور ماہرین تعلیم نے، اپنی موجودگی اور دعوت سے عام امریکی معاشرے پر اپنے گہرے اثرات چھوڑ ے ہیں ۔
امریکا میں ہونے والے اسلامک کنونشن اسلامی تہذیب ، دینی علم کے فروغ، مسلم فیملی سسٹم کی مضبوطی اور دین سے وابستگی کا ایک مؤثر ذریعہ ہیں۔ گذشتہ برس اکنا کے سالانہ مرکزی کنونشن میں ۲۲ ہزار سے زائد افراد اپنے خاندانی یونٹوں کے ساتھ امریکا کے طول و عرض سے شریک ہوئے۔ اکنا کے کنونشن میں برصغیر سے تعلق رکھنے والے ، امریکی اور افریقی سیاہ فام ، وہائٹ امریکن ، مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے ، غرض کے ہر رنگ و نسل اور ہر عمر کے لوگ شریک ہوئے۔ کنونشن شرکا کے بقول جب ۱۵ سے ۲۰ ہزار مسلمان باجماعت نماز پڑھتے ہیں تو حرم میں مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کا بہ یک وقت اللہ تعالیٰ کے حضور سر بہ سجود ہونے کا منظر تازہ ہوجاتا ہے کہ ان شرکا میں تمام رنگ و نسل کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔
آ ج امریکا میں پیدا ہونے والے اور اسلام کی تعلیم حاصل کرنے والے چند نوجوان اسکالر مسلمانوں میں مقبول ترین اسکالر اور اسلام کے داعی سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح اکنا اور دیگر اسلامی تحریکوں کے تحت چلنے والی سوشل ویلفیئر کی تنظیمیں امریکا کے مسلم اور غیر مسلم دونوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی خدمت خلق کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔
امریکا کی کارفرما اسلامی تحریکوں کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مقامی افراد کی دعوتِ دین کی جدوجہد میں شرکت کو وسعت دیں۔ واضح رہے کہ مقامی (indigenous) امریکیوں میں تین اہم اکائیاں شامل ہیں: پہلی غالب اکثریت سفیدفام امریکیوں کی ہے جو مجموعی آبادی کا ۷۶ فی صد ہے۔ دوسری بڑ ی آبادی سیاہ فام باشندوں کی ہے جو امریکا کی آ بادی کا ۱۳ء۴ فی صد ہیں۔ تیسرا بڑا حصہ ہسپانوی نژاد باشندوں پر مشتمل ہے، جو آبادی کا ٪۱۰ فی صد ہے۔
اسلامی تحریک سے وابستہ بالخصوص وہ افراد جو معاشرے میں موجود پسماندہ افراد کا درد رکھتے ہیں ، رول ماڈل بنیں۔ مقامی امریکیوں کی آبادیوں میں اسلامک سنٹر قائم کریں۔ سب سے بڑھ کر ان کی آ بادیوں میں میل جول بڑھائیں۔ ان پہلوئوں پر دردمندی سے نظر رکھنے والے بجا طور پر امریکا کی اسلامی تحریکوں کے لیے کچھ مفید مشورے دے سکتے ہیں۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ضروری ہے کہ پچھلے پانچ عشروں میں ہونے والے غیرمعمولی کام کو معمولی یا کمزور بنا کر نہ پیش کیا جائے۔
اللّہ سبحانہٗ وتعالیٰ، امریکا میں رہنے، بسنے اور دعوت و تربیت میں مصروف ساتھیوں کو اپنے رب سے کیے وعدے اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ۰ۭ قَالُوْا بَلٰي۰ۚۛ شَہِدْنَا۰ۚۛ (اعراف ۷:۱۷۲) کو ایفا کرنے اور اپنی زندگیوں کو نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت اور اطاعت پر گزارنے کی توفیق دے۔(آ مین!)
دنیا کی تمام مساجد تمام لوگوں کے لیے کھلی ہوئی ہیں۔ مسلمان کسی قوم، نسل، طبقے یا رنگ کے اختلاف سے قطع نظر ایک ہی صف میں کندھے سے کندھا ملا کر نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ اسلامی مساوات کی ہی تاثیر ہے کہ انڈیا کے دلتوں سے لے کر امریکا و یورپ میں سفیدفام اور افریقی النسل اس دین میں داخل ہو رہے ہیں۔
تاہم، اس غالب حقیقت کو بعض اوقات اسلامی اقدار سے متصادم کچھ انفرادی رویوں کو بنیاد بنا کر متاثر کیا جاتا ہے۔کچھ مسلمان شیطان کی چال میں آجاتے ہیں اور نسلی کمتری وبرتری کا گمراہ کن کھیل کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ تمام انسان یکساں ہیں اور ایک ہی مرد اور عورت کی اولاد ہیں (الحجرات ۴۹:۱۳) ،کچھ لوگ خود کو ماڈرن اور دوسروں کو دقیانوسی تصور کرتے ہیں اور ان کے خلاف تعصب کوہوا دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہم خود کو اس جال میں پھنسنے سے کیسے بچائیں؟ ہم نسل پرستی اور قوم پرستی کی ہلاکت خیزیوں سےمحفوظ رہنے میں ایک دوسرے کی مدد کیسے کریں؟ ہم ایک بہتر انسان بننے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟اس سلسلے میں یہاں چند نکات پیش کیے گئےہیں، جن کے مطابق ہم اس مرض کے خلاف جدوجہد شروع کر سکتے ہیں ۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے،تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل (روک) دے۔ اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتاہو، تو پھر اپنی زبان سے بدل دے۔ اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتاہو، تو پھر اسے اپنے دل میں برا جانے، اوریہ ایمان کا کم تر ین درجہ ہے‘‘ [صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب کون النھی عن المنکر من الایمان، حدیث:۹۵]۔
غیبت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کسی کی غیر موجودگی میں اس کے تعلق سے ایسی بات کہنا جو اگر اس کی موجودگی میں کہی جاتی تو اسے ناگوارگزرتی، غیبت ہے‘‘۔ اس پر ایک صحابی نے سوال کیا ، یا رسولؐ اللہ ! جو بات بیان کی جا رہی ہو، وہ اگر واقعی اس شخص کے اندر موجود ہو تو؟ اس پر آپ ؐ نے جواب دیا: ’’اگر وہ بات اس کے اندر موجود ہے تبھی تو یہ غیبت ہے، اور اگر موجود نہ ہو تو کہنے والا بہتان کا مرتکب ہوگا ‘‘ (جو غیبت سے بھی بدتر ہے)۔ [صحیح مسلم، کتاب البّر والصلۃ والآداب، باب تحریم الغیبۃ، حدیث: ۴۷۹۶]
ذرا غور کریں کہ بہتان طرازی کس قدر سنگین گناہ ہے۔ اس پر زور دینے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ زنا سے بھی بدترگناہ ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص زنا کرنے کے بعد توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے، لیکن بہتان لگانے والے کو اس وقت تک معاف نہیں کیا جائے گا جب تک کہ خود وہ شخص اسے معاف نہ کر دے،جس پر بہتان لگایا گیا ہے‘‘۔ [بیہقی، شعب الایمان، التاسع والثلاثون من شعب الایمان، حدیث: ۶۴۴۷]۔
قرآن کی اس آیت پر غور کریں: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ کوئی گروہ (مرد) دوسرےگروہ (مردوں) کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں‘‘ (الحجرات ۴۹:۱۱) ۔
اس طرح کا تکلیف دہ اور نادانی پر مبنی مذاق واضح طور پر ان آداب کے خلاف ہے، جس کی اللہ اور اس کے رسولؐ ہمیں ہدایت کرتے ہیں۔ اسلام میں کسی بھی مخلوق کا تمسخر اڑانا، یا اسے تضحیک کا موضوع بنانا گناہ ہے، اوریہ گناہ شدید تر ہو جاتا ہے، جب کسی طبقے کے خلاف اس کا ارتکاب کیا جائے۔
الحمد للہ، اکثر مسلمان تحقیر آمیز الفاظ کا استعمال نہیں کرتے۔ لیکن کبھی کبھار ہم ایسے نام سنتے ہیں، جنھیں ہمیں چیلنج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ افراد افریقی نژاد لوگوں کے لیے لفظ ’کالا‘ استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ اس کا لفظی مطلب ہے’سیاہ‘، لیکن اکثر اس کا استعمال تضحیک و توہین کے لیے کیا جاتا ہے۔ کاکیشین کے لیے اردو میں ’گورا‘ اسی زمرے میں آتا ہے ۔ اگرچہ اس کا مطلب محض ایک سفید فام شخص ہے، لیکن یہ اصطلاح سفید نوآبادکاروں یا حملہ آوروں کے تاریخی عدم اعتماد اورفریب کاریوں سے منسوب ہے۔ دوسری طرف زیادہ تر جنوبی ایشیائی لوگوں کو ’شوربے کی بُو والے‘ پاکستانیوں کو ’پاکی‘ کہہ کر پکارا اور یاد کیا جاتا ہے۔ اکثر یہ اصطلاح ایک نسل کے لوگ اپنی نسل کی برتری کے زعم میں دوسری نسل کے افراد سے متعلق حقارت سے استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح بعض عرب سیاہ فام لوگوں کے لیے’ عبد‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصطلاح کو استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔ کچھ عرب پاکستانیوں کے لیے ’رفیق‘ (ساتھی) کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ پھر لفظ ’ابن الخنزیر‘ (سور کا بچہ) عربوں میں خصوصاً یہودیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ القاب پیغمبرؐ اسلام کےماننے والوں کے شایان شان نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک دوسرے کے والدین کی توہین نہ کرنے کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےحکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔ [صحیح بخاری و صحیح مسلم]
اسلامی اصطلاح ’کافر‘ کا استعمال بھی بہت احتیاط کے ساتھ کرنا چاہیے۔ یہ قرآنی اصطلاح نفرت کے اظہارکی اصطلاح نہیں بننی چاہیے۔
نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا اہلِ ایمان کے فرائض میں سے ہے۔ آئیے حکمت اور صبر کے ساتھ اس فرض کو پوراکریں۔ شائستگی کادامن نہ چھوڑیں اور اس راستے پر ثابت قدم رہیں۔
اس حدیث پر غور کیجیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ اَخِیْہِ ، رَدّاللہُ عَنْ وَجْھِہٖ النَّارَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ’’جس نے کسی کو کسی مسلمان بھائی کی غِیبت سے روکا، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اُس کے منہ سے دوزخ کی آگ دُور کردے گا‘‘۔ [ترمذی، کتاب الذبائح، ابواب البّر، باب ماجاء فی الذّبّ عن عرض المسلم، حدیث: ۱۹۰۳]
اگر آپ کسی کے سامنے ایسی زبان بولتے ہیں، جو اسے سمجھ میں نہیںآتی تو اس سے بدگمانی اور بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ایسے موقعوں پر وہ مشترکہ زبان استعمال کریں جو سب کے لیے قابل فہم ہو۔مثلاً اگر آپ اور اکبر دونوں پشتو بولتے ہیں، لیکن علیم پشتو نہیں جانتا تو آپ پشتو میں بات کرنے کی بجائے اُردو میں بات کریں،تاکہ علیم خود کو الگ تھلگ محسوس نہ کرے۔ اگر کسی محفل میں آپ اس رویے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو انھیں بتائیں کہ یہ غیر منصفانہ عمل ہے۔ اگراس ناانصافی کے مرتکب خود آپ ہیں، تو یہ کہہ کر اپنے رویے کادفاع نہ کریں کہ ’’آپ کو ہماری زبان سیکھ لینی چاہیے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’جب تین افراد اکٹھے ہوں توان میں سے دو کوئی خفیہ بات نہ کریں،اور تیسرے کو اکیلا نہ چھوڑ دیں، یہاں تک کہ بہت سارے لوگوں کے ساتھ مل جائیں۔ کیونکہ یہ اس کے لیے تکلیف دہ ہو سکتا ہے‘۔ [صحیح مسلم، کتاب السلام، باب تحریم مناجاۃ الاثنین دون الثالث بغیر رضاہ، حدیث: ۴۱۴۸]
میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو مسلمانوں کی مہمان نوازی کی وجہ سے مسلمان ہوئے ہیں۔ کھانا لوگوں کو اکٹھا کرنے اور دوسروں کو جاننے کا بہترین ذریعہ ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ کھانا ساجھاکریں۔بلا شبہہ غذا میں ایک سماجی توانائی بھی ہے ، اس کا استعمال کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’تمھارا اپنے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے‘ [ترمذی، ابواب البّر والصلۃ عن رسول اللہ، باب ماجاء فی صنائع المعروف، حدیث: ۱۹۲۸]۔ لیکن صرف اپنے لوگوں کے لیے نہیں۔اپنی مسکراہٹ کو اتنا وسیع کریں کہ اس میں سب شامل ہو جائیں کہ مسکراہٹ بند دلوں کو کھول دیتی ہے۔
اس حدیث پر غور کریں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کےقریب ترین وہ لوگ ہیں جو سلام کرنےمیں پہل کرتے ہیں [ابوداؤد کتاب الادب، ابواب النوم، باب فی فضل من بدأ السلام، حدیث: ۴۵۴۳]۔
سلام کرنا مسلمانوں کے درمیان باہمی محبت بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے،خواہ مخاطب کا تعلق کہیں سے بھی ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو گے جب تک تم ایمان نہ لاؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ میں ایک ایسی چیز کی طرف تمھاری رہنمائی کرتا ہو، جو باہم محبت کرنے کاذریعہ ہے: سلام کے پیغام (السلام علیکم) کو عام کرو‘۔[صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان أنّہ لا یدخُلُ الجنّۃ اِلَّا المؤمنون، حدیث: ۱۰۶]
اللہ تعالیٰ ایک مظلوم شخص کو ظلم کا اسی مقدار میں بدلہ لینے کی اجازت دیتا ہے، لیکن اس کی نظر میں معاف کردینا بہتر ہے: ’’برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے، اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘ (الشوریٰ ۴۲:۴۰)۔
ارشاد ربانی ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائےہو ، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب ، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی پٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘(النساء ۴:۱۳۵)۔
المختصر،آج مسلمانوں کی شبیہ میڈیا اور سیاسی رہنمائوں کے ذریعے دن رات مسخ کی جا رہی ہے۔ ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایک بہتر انسان کے طور پر ابھریں، بجائے اس کے کہ اپنی صفائی دینے کے چکر میںاس شیطانی کھیل کا حصہ بن جائیں۔جو دوسروں کو حقارت کی نظروں سے دیکھنے لگتا ہے، وہ پہلے خوداپنی انسانیت کا قتل کرتا ہے۔ تعصب، نسل پرستی اور قوم پرستی ایک ہی طرح کی بیماریاں ہیں۔ سبھی کے پاس یہ اختیار ہے کہ یا تو وہ اپنی مذہبی تعلیمات کو استعمال کرتے ہوئے اعلیٰ انسانی اقدار کے لیے اٹھ کھڑے ہوں یا قوم پرستی کی دلدل میں غرق ہو جائیں۔
نسل پرستی اور قوم پرستی دوہری برائیاں ہیں۔ آئیے نسل پرستی کے خلاف ذاتی سطح پر جدوجہد شروع کریں۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔
عالم کے پروردگار نے انسانیت پر بیش بہا احسانات کیے۔ ان میں سے چند کا تذکرہ خصوصیت سے کیا۔ حکمت بھی انھی نعمتوں میں ایک نعمت عظمیٰ ہے۔ ارشاد باری ہے: یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ ج وَمَنْ یُّوْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط (البقرہ ۲:۲۶۹) ’’(اللہ) جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے‘ اور جسے حکمت ملی اسے درحقیقت بڑی دولت مل گئی‘‘۔ اسی طرح اللہ نے اپنے نیک بندے لقمان کا ذکر کیا کہ انھیں حکمت عطا کی گئی۔ حضرت دائود علیہ السلام کو اللہ نے سلطنت اور حکمت سے نوازا۔ حکمت کی یہی دولت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی دی گئی اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کو بھی۔ قرآن کا بیان ہے کہ اس نعمت سے جملہ انبیا و مرسلین سرفراز ہوئے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف اس نعمت کا حظ وافر عطا کیاگیا بلکہ یہ بات آپؐ کے فرائض نبوت میں شامل کر دی گئی کہ اُمت کو بھی اسی کی تعلیم دیں: وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ (البقرہ ۲:۱۵۱) ’’اور یہ رسول تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔ اس کے بعد اہل ایمان کو براہ راست مخاطب کر کے فرمایا: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُط (النحل ۱۶:۱۲۵) ’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور ان لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘۔
نبی کریمؐ نے فرمایا ہے: ’’حکمت کی بات مومن کی گم شدہ میراث ہے۔ جہاں سے ملے وہ اُس کا زیادہ حق دار ہے‘‘ (ترمذی)۔ دانائی کا اعلیٰ ترین مقام اللہ کا خوف ہے۔
امام مالکؒ نے اپنی مؤطا میں حضرت لقمان ؑکا یہ قول نقل کیا ہے: بے شک اللہ حکمت کے نور سے دلوں کو زندگی بخشتا ہے جیسے کہ وہ آسمان کی بارش سے مردہ زمین کو زندگی عطا کرتا ہے۔
حکمت سے مراد: مفسرین قرآن کے نزدیک حکمت سے مراد دین کی سمجھ بوجھ ہے (علامہ ابن کثیر)۔ مولانا حمیدالدین فراہیؒ نے حکمت اس قوت اور صلاحیت کو کہا ہے جس سے انسان معاملات کا فیصلہ حق کے مطابق کرتا ہے۔ اخلاق کی پاکیزگی اور تہذیب بھی اسی کے ثمرات میں سے ہے۔ اہل عرب حکمت کا لفظ اس قوت اور صلاحیت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں جو عقل و رائے کی پختگی اور شرافت کی جامع ہو‘ چنانچہ دانش مند آدمی کو حکیم کہا جاتا ہے۔مولانا مودودیؒ کے نزدیک حکمت کا لفظ وسیع ہے‘ جس میں وہ تمام دانائی کی باتیں آجاتی ہیں جو نبیؐ لوگوں کو سکھاتے تھے۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے مطابق حکمت سرتاسر قرآن ہی سے ماخوذ و مستنبط ہے۔ ان کے نزدیک جو لوگ حکمت سے مراد حدیث لیتے ہیں ان کی بات میں بڑا وزن ہے۔علامہ شاطبیؒ کے نزدیک کتاب سے مراد شریعت ہے اور حکمت سے مراد وہ فلسفہ ہے جو شریعت کے فوائد و ثمرات کو واضح کرتا ہے۔
سید قطبؒ کے مطابق حکمت تعلیم کتاب کا نتیجہ اور ایسا ملکہ ہے جو تمام معاملات کو ان کی جگہ رکھنے اور تمام امور کو ان کی اصل قیمت اور وزن دینے کی صلاحیت عطا کرتا ہے اور یہ فہم عطا کرتا ہے کہ ان احکامات و ہدایات کا اصل منشا کیا ہے۔
چنانچہ حکمت کے معنی دین کی سمجھ بوجھ‘ تفقہ فی الدین کے بھی ہیں اور معاملات میں فہم و فراست اور قوت فیصلہ کے بھی ہیں‘ ہر قدر کو پرکھنے کی صلاحیت کے بھی ہیں اور چیزوں کا اصل وزن اور قیمت معلوم کرنے کے لیے درکار بصیرت کے بھی‘ نیز اخلاق و کردار میں پختگی‘ طور اطوار میں شرافت اور تہذیب میں شائستگی بھی حکمت ہے۔ ان سب معاملات میں ساری انسانیت کے لیے نبیؐ کا اسوہ حسنہ بہترین نمونہ حکمت ہے اور سب سے بڑھ کر دانائی اللہ کا خوف اور اس کے سامنے جواب دہی کا احساس ہے ۔ گویا حکمت کتاب اللہ سے الگ اپنا مستقل مقام رکھتی ہے اور حکمت کے نتیجے میں ہی انسان کے دل میں شکر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ حکمت کی معراج اللہ کا خوف ہے‘ نیز حکمت ہی کے ذریعے انسان شیطان کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
حکمت کی ضرورت: دین کا تعلق انسان کی ساری زندگی سے ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ دین ہر دور‘ ہر علاقے میں رہنے بسنے والوں کے لیے ہے۔ چنانچہ اللہ رب العالمین نے اس کا نظام ایسا بنایا کہ ہر دور‘ ہر علاقے اور ہر قسم کے انسانوں کی سوچ‘ فکر اور عمل کے دائروں سے ہم آہنگ ہو سکے۔ نیز انسان خواہ اونٹ پر سفر کرنے والا ہو یا جیٹ جہاز میں‘ کسی بھی دور اور کسی بھی جگہ کا انسان اس دین پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو پیچھے جاتا ہوا یا وقت کے دھارے سے کٹتا ہوا محسوس نہ کرے‘ بلکہ ہر پیش آمدہ چیلنج کا مقابلہ کر سکے اور ہر جدت یا ایجاد کو (اگر وہ دین کے مجموعی نظام سے ہم آہنگ ہو) خوش آمدید کہہ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے صرف ان امور کی تفصیلات بیان کیں جو زمان و مکاں کی قید سے آزاد تھیں‘ جب کہ دیگر معاملات میں صرف اشارات دیے اور رہنما اصول قائم کیے‘ مثلاً وراثت کے احکامات تو نہایت وضاحت سے دیے‘ حلال و حرام کا تعین نہایت صراحت سے کیا (کیونکہ یہ امور ہر جگہ اور ہر دور کے لیے ناقابلِ تغیرتھے) لیکن سیاست‘ تمدن‘ معیشت‘ معاشرت اور دیگر شعبہ ہاے زندگی کے لیے صرف رہنما اصول دیے جن کی روشنی میں تفصیلات مرتب کی جا سکتی ہیں۔
اسی روش کی تعلیم آپؐ نے حضرت معاذ ؓ بن جبل کو دی۔ جب ان کو یمن کا گورنر مقررکیا تو پوچھا کہ معاملات کیسے حل کرو گے؟ انھوں نے جواب دیا: قرآن کی روشنی میں۔ فرمایا: اگر وہاں نہ پائو‘ تو۔ وہ بولے: رسولؐ اللہ کی سنت میں دیکھوں گا۔ فرمایا: اگر وہاں بھی نہ ملے‘ تو۔ بولے: اپنی رائے سے معاملہ حل کروں گا اور اس کوشش میں ہرگز کوتاہی نہیں کروں گا۔ اس پر آپؐ نے انھیں شاباش دی اور اس طریقۂ کار کو اُمت کے لیے پسند فرمایا۔ چنانچہ دین کے معاملات میں حکمت کی دوہری ضرورت ہے‘ یعنی جو احکامات واضح ہیں ان کو ٹھیک سمجھنے اور عمل کرنے کے لیے بھی اور جو واضح نہیں ان کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں تلاش کرنے کے لیے بھی۔
اگر غورکیا جائے تو دین کے نظام میں چند بنیادی حکمتیں کارفرما ہیں۔ ان کو سمجھے بغیر دین سمجھنا مشکل ہے۔
سب سے پہلی چیز جو دین کے مطالعے سے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ دین آسان ہے۔ انسانوں کے بس میں ہے۔ اس کا کوئی مطالبہ ایسا نہیں جو انسانوں کے بس سے باہر ہو۔ چنانچہ فرمایا: وَنُیَسِّرُکَ لِلْیُسْرٰیج (الاعلٰی ۸۷:۸) ’’اور ہم تمھیں آسان طریقے کی سہولت دیتے ہیں‘‘۔ اس کو نبیؐ نے اپنی تاکید سے مزید واضح فرمایا: یسّروا ولا تعسّروا ’’دین میں آسانی پہنچائو‘ تنگی پیدا نہ کرو‘‘۔ اسی چیز کو آپؐ نے مستقل سنت کے طوراپنایا۔ ہمیشہ دو راستوں میں سے آسان راستے کا انتخاب کیا۔ دو کام پیش نظر ہوتے تو پہلے آسان کام سرانجام دیتے۔ نماز اور کھانا ایک وقت میں آجاتے تو پہلے کھاناکھا لیتے۔ گویا رہبانیت کا یہ تصور کہ زیادہ تکلیف اور مشقت میں زیادہ ثواب ہے‘ اسلام کا تصور نہیں۔
فتح مکہ کے سفر میں چونکہ رمضان تھا‘ صحابہؓ کی سہولت کے پیش نظر آپؐ نے سرعام روزہ افطار کیا۔ آپؐ کی دیکھا دیکھی صحابہؓ نے بھی افطار کرلیا۔ لیکن کچھ لوگ روزے سے رہے۔ جب پڑائو پر پہنچے تو جو افطار کر چکے تھے انھوں نے سارا کام جلدی سے کیا‘ جب کہ روزہ دار نڈھال تھے۔ آپؐ نے فرمایا: آج سارا ثواب ان افطار کرنے والوں نے لوٹ لیا‘ یعنی روزے دار اس اجر سے محروم رہ گئے۔ گویا ثواب اور اجر کا تعلق ظاہری عمل کے بجائے انسان کی نیت اور اتباع سنت سے ہے۔ چنانچہ وہ کام جو اتباعِ سنت میں کیا جائے‘ اپنی نوعیت کے لحاظ سے آسان اور دل چسپ ہی کیوں نہ ہو‘ بہت بڑے اجر کا باعث ہے۔
یہاں سوال کیا جا سکتا ہے کہ دین کے بعض مطالبات مشکل کیوں نظر آتے ہیں‘ جب کہ دین کو آسان کہا گیا ہے۔ اس کی وجہ جہالت‘ لاعلمی اور فکرآخرت سے غفلت ہے۔ جیسے ہی انسان جہالت سے نکل کر علم کی روشنی میں آتا ہے‘ اسے حکمت کی دولت ملتی ہے تو وہ سنور جاتا ہے۔ چنانچہ دین کے وہ مطالبات جو اس سے پہلے اس کے لیے وبال جان تھے اب اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور سکون قلب کا سامان بن جاتے ہیں۔ اسی چیز کو قرآن نے یوں بیان کیا: وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّعَلَی الْخٰشِعِیْنَ o الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّھِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ o (البقرہ ۲:۴۵-۴۶) ’’صبراور نماز سے مدد چاہو۔ بے شک یہ سخت مشکل کام ہیں‘ مگر ان فرماں برداروں کے لیے مشکل نہیں جو سمجھتے ہیں کہ آخرکار انھیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے‘‘۔
دوسری چیز جو کتاب و سنت کے مطالعے سے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دین انسانی فطرت سے بالکل ہم آہنگ ہے۔ انسانی فطرت لچک اور تنوع کی خواہاں ہے۔ چنانچہ دین کے تمام احکامات میں انسان کی اس فطری خواہش بلکہ ضرورت کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ نمازوں کے اوقات متعین کرتے وقت اول و آخر وقت کی نشان دہی کر دی گئی تاکہ انسان ان کے درمیان کسی وقت پڑھ لے۔ کسی گناہ کا کفارہ بتایا تو متعدد یا کم از کم دو متبادل بتائے‘ مثلاً رمضان کا روزہ قصداً توڑ دیا تو دو ماہ مسلسل روزے رکھو اور اگر یہ نہ کر سکو تو ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلا دو۔ نماز کے لیے وضو کرو‘ لیکن اگر عذر اور مجبوری ہو تو تیمم کرلو۔ حرام چیزوں کو صراحت کے ساتھ واضح کیا لیکن اضطرار کا دروازہ کھلا رکھا۔ اسی طرح فرائض کا بار کم سے کم رکھا اور سنن و نوافل میں زیادہ کم پڑھنے کی آزادی دی۔ اعمال سرانجام دیتے ہوئے اگر ممکن ہوا تو ایک سے زائد انداز اختیار کیے‘ مثلاً نماز میں ہاتھ سینے پر باندھے‘ ناف پر بھی اور کھلے بھی چھوڑے تاکہ جسے جو ادا پسند آئے‘ اپنا لے۔ حج کے موقع پر جب لاکھ سے اوپر لوگ موجود تھے‘ بعض افراد نے سر منڈوانے‘ قربانی کرنے اور شیطان کو کنکریاں مارنے کی ترتیب کے بارے میں پوچھا کیونکہ لوگوں نے یہ کام ہجوم کی وجہ سے مختلف ترتیب سے کیے تھے۔ آپؐ نے سب کو ایک ہی جواب دیا: لا باس‘ یعنی کوئی حرج نہیں۔ گویا اس بھیڑ میں اہمیت ترتیب کی نہیں عمل کی ہے۔
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرائی گئی کہ دین کے مآخذ صرف دو ہیں‘ اللہ کی کتاب اور رسولؐ اللہ کی سنت۔ جو چیز ان سے ثابت ہے وہی دین ہے‘ اور جو عمل جس درجے میں رکھا گیا اس کی اہمیت وہی ہے۔ جو مقام فرض کا ہے وہ سنن کا نہیں‘ جو درجہ جہاد کا ہے ذکر و تسبیحات کا نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اہم امور میں اطاعت کا حکم دیا گیا لیکن باقی معاملات میں اتباع کا تصور دیا‘ یعنی جو آپؐ کی محبت میں جس قدر بڑھ جائے‘ اور آپؐ کی عادات واطوار جس قدر اپنا لے یہ اس کا اپنا ظرف ‘اپنا شوق اور اپنی محنت ہے۔ اس کے بارے میں کوئی معیار اور پیمانہ مقرر نہیں کیا جا سکتا۔
یہ تصور بھی ذہن نشین کرایا گیا کہ نیکی صرف چند خاص اعمال سرانجام دینے کا نام نہیں بلکہ اس کا میدان وسیع ہے۔ چنانچہ زندگی کا ہر کام اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کے مطابق کیا جائے تو وہ نیکی ہے‘ چاہے وہ اپنے نفس کے حقوق کی ادایگی ہو‘ والدین اور بیوی بچوں کی دیکھ بھال ہو‘ یا کوئی اور چھوٹے سے چھوٹا عمل‘ بلکہ فرمایا: لا تحقرن من المعروف شیئا ولو ان تلقی اخاک بوجہ طلیق (مسلم) ’’نیکی کے کسی (چھوٹے) کام کو بھی حقیر نہ سمجھو۔ چاہے یہ اپنے بھائی سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملاقات ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ اسی طرح کسی کے ساتھ زیادتی‘ جھوٹ‘ بہتان‘ غیبت یا وہ چھوٹے سے چھوٹا عمل جس سے کسی بے گناہ انسان حتیٰ کہ جانور کو بھی ضرر پہنچے‘ گناہ ہے۔ فرمایا: ا لمسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔
حلال و حرام کا مسئلہ چونکہ بہت اہم اور حساس ہے لہٰذا اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔ اس باب میں یہ اصول بتایا گیا کہ تمام پاکیزہ چیزیں حلال ہیں‘ اور نجس چیزیں حرام ہیں۔ سابقہ شریعتوں میں بھی یہ چیزیں وضاحت کے ساتھ بیان کر دی گئی تھیں لیکن ان اُمتوں نے ان معاملات میں خود اپنی خواہشات کا اتباع شروع کر دیا اور افراط و تفریط کا شکار ہوگئے۔ یا تو اتنے جری ہوئے کہ حرام چیزوں کو حلال ٹھیرانے لگے اور یا اتنے متشدد کہ حلال چیزوں کوحرام قرار دے دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے ذریعے ان معاملات کو ایک بار پھر واضح فرمایا: الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰئۃِ وَالْاِنْجِیْلِز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْط (الاعراف ۷:۱۵۷) ’’(پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبر‘ نبی اُمی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے‘ بدی سے روکتا ہے‘ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے‘ اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے‘‘۔
حلت و حرمت کے ان قوانین کا آخری مجموعہ سورہ مائدہ میں نازل کیا گیا جو کہ مدنی دور کے آخر میں نازل ہوئی‘ ساتھ ہی دین کی تکمیل کا مژدہ جانفزا بھی سنا دیا گیا۔ گویا حلال و حرام کا یہ قانون قطعی اور اٹل ہے۔ اس میں اب ترمیم نہیں کی جائے گی۔ اس کے ساتھ اس بات سے بھی شدت سے منع کیا گیا کہ اس قانون کو چھیڑا جائے یا اس میں رد و بدل کی کوشش کی جائے‘ یہاں تک کہ آپؐ کو بھی یہ اختیار نہیں دیا گیا۔ فرمایا: یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ج (التحریم ۶۶:۱) ’’اے نبیؐ، تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمھارے لیے حلال کی ہے‘‘۔
یہ تعلیم دی گئی کہ جس چیز کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے وہ کسی بھول چوک کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تم پر نظرکرم کرنا چاہتا ہے۔ وہ علیم و حکیم ہے‘ سمیع وبصیر ہے‘ کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں‘ کوئی امر اس کے احاطۂ علم سے باہر نہیں۔ لہٰذا ایسی چیزوں کے پیچھے نہ پڑو اور بہت زیادہ سوال کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اگر کسی چیز کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے تو یہ اس کی جانب سے تمھارے لیے رحمت ہے‘ اس کا فائدہ اٹھائو۔
سیرت النبیؐ کا مطالعہ کیا جائے تو آپؐ کی سیرت حکمت کے مظاہر سے بھرپورنظر آتی ہے۔ آپؐ نے انسانوں کو جس طرح جمع کیا‘ منظم کیا‘ ان کی تربیت فرمائی‘ انھیں اپنے وقت کا قائد اور امام بنا دیا۔ اس سارے کارنامے کا راز اگر معلوم کرنا ہے تو قرآن نے اسے پہلے ہی افشا کر دیا ہے۔ فرمایا: فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَص (آل عمران ۳:۱۵۹) ’’یہ توسراسر اللہ کی رحمت ہے کہ آپ ؐ ان کے لیے نرم خو ہیں‘ اگر آپؐ ترش رو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپؐ کے گرد سے چھٹ جاتے‘‘۔ نیز فرمایا: لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o (التوبہ ۹:۱۲۸) ’’تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے ۔تمھارا نقصان میں پڑنا اسے ناگوار ہے‘ تمھاری فلاح کا وہ حریص ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور مہربان ہے‘‘۔
خرم مراد مرحوم نے اصلاح معاشرہ میں حکمت رسولؐ کے عنوان سے سیرت النبیؐ سے ایسے واقعات جمع کیے ہیں۔ ایک بدو آیا اور مسجد نبویؐ کے صحن میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا۔ صحابہؓ اس کی طرف لپکے لیکن آپؐ نے انھیں منع کر دیا۔ جب وہ فارغ ہوگیا تو اسے پاس بلا کر بٹھایا اور مسجد کے آداب کی تعلیم دی۔ پھر صحابہؓ کو حکم دیا کہ گندگی کو پانی بہا کر صاف کر دیں۔ ساتھ ہی فرمایا: تم خوشی اور بشارت دینے والے ہو‘ تنگی اور مشکل پیدا کرنے والے نہیں۔
اسوہ حسنہ کی اس مثال کو سامنے رکھ کر آج کی مساجد میں جاری اصلاحی سرگرمیوں کا جائزہ لیجیے‘ کوئی پتلون پہن کر نماز کے لیے آجائے‘ یا ننگے سرہو‘ یا معصوم بچہ اگلی صف میں چلا جائے‘ اس کا جو حشر کیا جاتا ہے وہ ہماری اجتماعی سوچ اور ذہنی کیفیت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔
انسانوں کی اصلاح کرتے وقت آپؐ نے ان کے دلوں کو نرم کرنے اور نفوس کو رام کرنے کے لیے تالیف قلب کا قرآنی تصور مدنظر رکھا اور افراد کی دلجوئی کا حتی المقدور اہتمام کیا۔ سید قطب شہیدؒ نے اپنی تفسیر میں سورۃ الاعلیٰ کی تفسیر لکھتے ہوئے سیرت کا دل چسپ واقعہ نقل کیا ہے۔
ایک بدو آپؐ کے پاس آیا اور کچھ مانگا۔ آپؐ نے اسے کچھ دے دیا اور پوچھا: کیا میں نے تم سے اچھا سلوک کیا؟ بدو نے کہا: نہیں۔ آپؐ نے مجھ سے اچھا سلوک نہیں کیا۔ مسلمانوں کو اس پر غصہ آگیا اور وہ (اسے مارنے کے لیے) بڑھے۔ آپؐ نے اشارے سے انھیں روک دیا۔ پھر آپؐ گھر تشریف لے گئے۔ بدو کو بلایا اور اسے کچھ اور عطا کیا جس پر وہ خوش ہو گیا اور آپؐ کے حق میں کلماتِ خیر کہے۔ آپؐ نے اسے کہا کہ یہی بات میرے ساتھیوں کے سامنے بھی کہہ دو تاکہ ان کے دلوں سے بھی رنجش نکل جائے۔
اگلے روز اس نے آپؐ کے ساتھیوں کے سامنے بھی یہی بات کہہ دی۔ تب رسولؐ اللہ نے فرمایا: میری اور اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی شخص کی اونٹنی اس سے بھاگ گئی۔ لوگ اس کے پیچھے دوڑے تو وہ اور دُور بھاگ گئی۔ پھر مالک کچھ گھاس لے کر آگے بڑھا اور آہستہ آہستہ اسے واپس لے آیا۔ وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ تب اس نے اس پر کجا وہ کسا اور سوارہو گیا۔ تو اگر میں تمھیں چھوڑ دیتا اور تم اس شخص کو قتل کر دیتے تو یہ دوزخ میں پہنچ جاتا۔
آپؐ کی سیرت کا اگر اس پہلو سے جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں ہونے کے باوجود آپؐ نے ایک اسلامی ریاست قائم کی۔ اس کے بعد تقریباً ایک عشرے تک مسلسل تگ و تاز میں مصروف رہے لیکن اس دوران کم سے کم قوت استعمال کر کے‘ کم سے کم خون بہا کر ایک ایسا انقلاب برپا کر دیا کہ اس کی نظیر لانا ممکن نہیں۔
آپؐ نے دشمن کی نقل و حرکت پر بھرپور نظر رکھی اور اس کے عزائم کا بروقت نوٹس لیا۔ ہمیشہ دشمن کی توقع سے پہلے غفلت کی حالت میں اسے جا پکڑا۔ خبررسانی اور جاسوسی کا بہترین نظام قائم کیا اور فرمایا: الحرب خدعہ‘ جنگ تو چالوں سے لڑی جاتی ہے۔
ٹکرائو سے حتی الامکان اجتناب کیا‘ گرہیں کھولنے کی کوششیں کی۔ بند راستوں سے ٹکرانے کے بجائے انھیں وا کرنے کی سعی فرمائی۔ ہر معاملے میں متعدد راستوں کی نشان دہی فرمائی۔ خود قرآن نے اس بارے میں رہنمائی فرمائی۔ فرمایا: دشمن کے سامنے کمزوری نہ دکھائو۔ اسے صلح کی پیش کش نہ کرو لیکن اگر دشمن صلح چاہے تو یہ پیش کش قبول کر لو۔
دشمن کے ساتھ معاہدات کا بھرپور احترام کیا لیکن اگر ان معاہدات میں کچھ کمزور پہلو رہ گئے تو ان کا فائدہ اٹھایا۔ صلح حدیبیہ میں یہ شق کہ اگر کوئی مسلمان مکہ سے بھاگ کر مدینہ جائے تو اسے واپس کیا جائے گا‘ اس کا پورا احترام کیا گیا۔ لیکن جب خواتین مکہ سے بھاگ کر آئیں تو انھیں واپس نہ کیا اور کہا کہ معاہدے میں خواتین کا ذکر نہیں۔
دشمنان اسلام سے یکساں رویہ نہیں رکھا بلکہ وقت اور حالات کے پیش نظر اس میں نرمی و سختی آتی رہی۔ اہل کتاب اور مشرکین سے لڑنے اور انھیں قتل کرنے کے احکامات قرآن میں موجود ہیں لیکن اس کے ساتھ اہل کتاب سے احسن انداز میں گفتگو کرنے اور انھیں مشترکہ بنیادوں کی طرف دعوت دینے کے احکامات بھی موجود ہیں‘ نیز مشرکین کے بارے میں بھی صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے مواقع پر نرم رویے کی مثالیں موجود ہیں۔
یہ ہے حکمت کا وہ بھرپور خزانہ جس کی کچھ جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔ آج کے دور میں اسلامی تحریک کو دین کی دعوت ‘جو کہ اجنبی بن چکی ہے‘ عام فہم‘ پُرکشش اور موثرانداز میں پیش کرنا ہے۔ پوری ملت کے اندر ایک نئی تڑپ پیدا کرنی ہے اور سب سے بڑھ کر دیارِ مغرب کا رخ تبدیل کرنا ہے اور ان کے سامنے اس بیش بہا خزانے کو رکھنا ہے۔ اس عظیم تر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت دین کو سمجھنا اور ہرمعاملے میں ملحوظ خاطر رکھنا ازبس ضروری ہے۔
قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کتاب کے ذریعے اللہ تعالیٰ بہت سی قوموں کو اُوپر اٹھاتا ہے‘ اور بہت سی قوموں کو نیچے گراتا ہے۔ خود قرآن کا بڑا حصہ قوموں کے عروج و زوال کی داستان پر مشتمل ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے علومِ قرآنی کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں سے ایک حصے کو تذ کیر بایام اللّٰہ ’’اللہ کے دنوں کے ذریعے تذکیر‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے۔
قوموں کے عروج و زوال کی داستان انسانی تاریخ کے صفحات پر اس طرح ثبت ہے کہ انسان اس پر غوروفکر کیے بغیر نہیں گزر سکتا۔ جماعتیں اور گروہ گم نامی کے گوشے سے اٹھتے ہیں اور دنیا کے اُوپر چھا جاتے ہیں‘ تہذیب و تمدن کے عروج پر پہنچتے ہیں اور اس کے بعد بعض سو جاتے ہیں‘ بعض قعر مذلت میں گر جاتے ہیں‘ اور بعض کی فصل تو اس طرح کٹ جاتی ہے کہ اُن کا نام تاریخ کے صفحات میں ایک داستان عبرت بن کر رہ جاتا ہے۔ فَجَعَلْنٰھُمْ اَحَادِیْثَ وَمَزَّقْنٰھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍط (السبا ۳۴:۱۹) ’’آخرکار ہم نے انھیں افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انھیں بالکل تتر بتر کر ڈالا‘‘۔ تہذیب و تمدن کی ساری سربلندیوں کے باوجود‘ بعض کا خاتمہ اس طرح ہوتا ہے گویا آگ بجھ گئی ہو‘ یا کھیتی کٹ چکی ہو۔ حَتّٰی جَعَلْنٰھُمْ حَصِیْدًا خَامِدِ یْنَo (الانبیاء ۲۱:۱۵) ’’یہاں تک کہ ہم نے ان کو کھلیان کر دیا‘ زندگی کا ایک شرارہ تک ان میں نہ رہا‘‘۔
انسان سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اُس کی فطرت میں جستجو کا مادہ ہے‘ اور وہ جاننا چاہتا ہے کہ انسانی جماعتیں اور گروہ ترقی کی منزلیں کیسے طے کرتی ہیں اور ایسا کیسے ہو جاتا ہے کہ جب وہ بامِ عروج پر پہنچ جاتی ہیں تو اس کے بعد زوال کی طرف چل پڑتی ہیں‘اور بالآخر اس کا شکار ہو جاتی ہیں۔
ہماری عادت یہ ہے کہ ہم چیزوں کو سمجھنے کے لیے ایسی مثالیں لاتے ہیں جو ہمارے لیے زیادہ قابل فہم ہوں۔ جب انسان نے قوموں کے عروج و زوال پر غور کیا تو اُس نے خیال کیا کہ قوموں کی زندگی کا عمل بھی شاید اُسی طرح ہے جس طرح ایک فرد کی زندگی ہوتی ہے جس کو وہ جانتا اور پہچانتا ہے۔ انسان پیدا ہوتا ہے‘ بچپن کی حدود میں داخل ہوتا ہے‘ جوانی کے دور میں داخل ہوتا ہے‘ اور پھر اس پر بڑھاپا طاری ہو جاتا ہے‘ اور بالآخر وہ موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسان نے سوچا شاید قوموں کی زندگی بھی اسی طرح ایک حیاتیاتی عمل ہے اور یہ بھی بالکل انسانی زندگی کی طرح‘ بچپن‘ جوانی‘ بڑھاپا اور موت کی منازل سے گزرتی ہے۔ کبھی انسان شام و سحر کی طرف نظر دوڑاتا ہے کیونکہ تاریخ کا زمانے سے بڑا گہرا تعلق ہے‘ لہٰذا اس نے یہ فتویٰ صادر کر دیا کہ قوموں کی زندگی ایک چکر کی مانند ہے۔ جس طرح صبح کے بعد شام اور پھر صبح ہوتی ہے‘ اسی طرح قوموں کی زندگی میں بھی یادگار لمحے آتے رہتے ہیں۔
کچھ لوگوں نے اندازہ لگایا کہ ان سارے چکروں کے نتیجے میں انسانیت بحیثیت مجموعی ترقی و ارتقا کی طرف بڑھ رہی ہے‘ بالخصوص پچھلی تین چار صدیوں میں جب یورپ نے سائنس اور ٹکنالوجی کی طرف عظیم الشان جست لگائی اور فطرت کے راز بے نقاب کیے‘ اور قدرت کی طاقتوں پر کنٹرول حاصل کیا تو یورپ نے دیکھا کہ اب ہم بغیر الہامی ہدایت کے قدرت کے اُوپر قابو حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ اب یہ نظریہ پیش کردیا گیا کہ انسانیت بحیثیت مجموعی ترقی کی طرف جا رہی ہے بلکہ تاریخ کے اندر ترقی ایک لازمی امر ہے جو کہ روپذیر ہو کر رہے گا۔ اگر قوموں پر ادوار آتے ہیں تو یہ ان کے اپنے معاملات ہیں‘ انسانیت بحیثیت مجموعی ترقی پذیر ہے۔
اس نظریے کو ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ پہلی جنگ عظیم میں انسانیت کو ۸۰ لاکھ لاشوں اور ڈھائی کروڑ معذور و اپاہج انسانوں کا تحفہ ملا۔ یوں ترقی کے یہ سارے خواب چکناچور ہو گئے اور یورپ کو یہ سوچنا پڑا کہ انسان کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے‘ اُس کی عقل کتنی ہی آگے کیوں نہ بڑھ جائے‘ قدرت کی طاقتوں اور فطرت کے رازوں پر اُس کو خواہ کتنا ہی کنٹرول حاصل ہو جائے لیکن ضروری نہیں کہ انسانیت ترقی کی طرف جا رہی ہو۔
قوموں اورانسانیت کے عروج و زوال اور ترقی پذیری کے بارے میں پائے جانے والے ان نظریات کے جائزے کی ضرورت اس لیے تھی کہ اس کی روشنی میں قرآن نے اس حوالے سے جو عظیم الشان اور فکرانگیز تعلیمات پیش کی ہیں ان کو سمجھنا آسان ہو جائے اور ان کی قدروقیمت کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے۔
اگر ان سارے نظریات پر غور کیا جائے تو اس میں تین چیزیں نمایاں نظر آئیں گی۔ ان میں سے ایک جبریت ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان مجبورِ محض ہے۔ وہ بچپن‘ جوانی اور بڑھاپے کے مراحل سے گزر کر بالآخر موت کی آغوش میں چلا جائے گا۔ اس میں اُس کے فعل کا‘ اخلاق کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ وہ مجبوراً چاروناچار موت کی طرف اپنا سفر طے کرتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ میں لازماً ترقی ہو رہی ہے‘ جب کہ انسان مجبور ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس ترقی کے پیچھے پیچھے چلے۔ اگر ہم کہیں کہ تاریخ کے اندر ساری ترقی مادی قوتوں اور عوامل اور سائنس اور ٹکنالوجی کا نتیجہ ہے‘ تو یہ بھی وہ چیزیں ہیں جو انسان کو مجبور کرتی ہیں۔ جبریت اور مادیت ان تمام نقطہ ہاے نظر کا خلاصہ ہے جو انسان نے تاریخ کے بارے میں قائم کیے ہیں۔
تاریخ کے بارے میں جستجو صرف فلسفیانہ اہمیت نہیں رکھتی‘ بلکہ اس کی بڑی زبردست عملی اہمیت ہے۔ اس لیے کہ انسان کی ساری تگ و دو کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ’’کیوں‘‘ کا جواب حاصل کر لے‘ بلکہ وہ یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ کوئی نسخہ اور راستہ ایسا ہے جو اس کو زوال سے بچا سکے اور عروج کی طرف لے جاسکے؟
آج بحیثیت مسلمان اور بحیثیت پاکستانی سب سے بڑھ کر ہمیں اسی سوال سے دل چسپی ہے اور ہونی چاہیے۔ آج کہیں پاکستان کے بارے میں گفتگو ہو تو افسردگی اور قنوطیت کی ایسی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے جو موسموں کو منجمد کر ڈالے‘ مذمت اور تبصرے بازی اور برائیوں کی ایسی داستان ہوتی ہے جس کے ساتھ غیظ و غضب کی حرارت شامل ہوتی ہے۔ جس گفتگو میں بھی آپ شریک ہو جائیں‘ اور جس محفل میں بھی آپ بیٹھ جائیں‘ بہت کم امیدافزا فقرے سننے کو ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو ملک ہم نے ۱۹۴۷ء میں حاصل کیا تھا ۲۵ سال بعد ہی اس کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ آج ہم قومی زندگی کے جس پہلو کو بھی لیں‘ ہم صرف مرثیہ ہی پڑھ سکتے ہیں۔
وہ تہذیب اور قوم جس نے بحیثیت مسلمان ہزار سال دنیا پر حکمرانی کی‘ عروج کی منزلیں طے کیں‘ پچھلے ڈھائی‘ تین سو سال میں‘ آہستہ آہستہ زوال کا شکار ہو گئی۔ ایک ایک کر کے ہمارے علاقے‘ ہماری حکومتیں اور ہماری قومیں یورپ کی غلامی میں آتی چلی گئیں‘ انڈونیشیا گیا‘ ہندستان گیا‘ الجیریا گیا‘ مراکش گیا‘ نائیجیریا گیا۔ اگر ہم پلٹ کر مسلم دنیا پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سعودی عرب اور افغانستان جیسے چند ملکوں کو چھوڑ کر کوئی مسلمان ملک آزاد نہیں تھا۔ آج بھی آزادی کے سارے دعوئوں کے باوجود‘ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمان اپنی قسمت کی تعمیر کے لیے آزاد نہیںہیں۔ ایک چھوٹے سے ۳۰ لاکھ کے اسرائیل کا خنجر اُمت مسلمہ کے سینے میں گھونپ دیا گیا ہے اور مسلمان اس کا مقابلہ کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ہمارے پاس لاکھوں کروڑوں ڈالرہیں‘ بے شمار انسانی وسائل ہیں‘ دنیا کے بہترین خطے ہیں‘ ہم دنیا کی اہم شاہراہوں اور گزرگاہوں پر واقع ہیں‘ لیکن اس کے باوجود پوری دنیا میں بے وزن ہیں۔ آخر ایسا کیوںہے؟ یہ بات قابل غور ہے!
تاریخ کی یہ داستان ہمارے لیے صرف علمی گفتگو اور فلسفیانہ کاوش کی حیثیت نہیں رکھتی‘ بلکہ ہمیں اس سے دل چسپی اس لیے بھی ہونی چاہیے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آیا ہمارے جو مسیحا مشرق سے لے کر مغرب تک ہماری قوموں کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں‘ ان کے ہاتھوں کیا یہ اُمت یا پاکستان عروج کی منزل کی طرف جا سکے گا؟ کیا وہ ٹکنالوجی اور سائنس جس کو ہم لاکھوں ڈالر دے کر حاصل کر رہے ہیں‘ اس سے ہماری قومیں ترقی کی منزلیں طے کر سکیں گی؟ کیا معاشی ترقی کے ان پنج سالہ منصوبوں کے ذریعے‘ جو ہم ایک کے بعد ایک وضع کررہے ہیں اور انھیں عملی جامہ پہنا رہے ہیں‘ ہماری قوم فی الواقع عروج کی منزل تک پہنچ سکے گی؟ ان سارے نسخوں اور مسائل کے حل کی فی الواقع حقیقت کیا ہے؟ چنانچہ ہمارے لیے اس سوال کی اہمیت صرف علمی اور فلسفیانہ ہی نہیں ہے‘ بلکہ بڑی عملی ہے۔ یہ سوال اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم غور کریں اور جانیں کہ قرآن مجید اس کا کیا جواب دیتا ہے‘ اوراس کے پاس ان مسائل کا حل اور امت و ملّت کے عروج و سربلندی کا راستہ کون سا ہے؟
اگر دعوے کا لفظ کتاب الٰہی کے لیے درست ہو تو میں کہوں گا کہ یہ بڑا زبردست دعویٰ ہے جو قرآن نے کیا ہے کہ قوموں کا عروج و زوال‘ نہ مادی قوتوں پر منحصر ہے‘ نہ سائنس اور ٹکنالوجی کا اس میں عمل دخل ہے اور نہ علمی ترقیوں پر ہی اس کا انحصار ہے۔ یہ خالصتاً اخلاقی اور معنوی اقدار کے اُوپر منحصر ہے۔ یہ انسان کے اخلاقی کسب اعمال کا نتیجہ ہے جس کے نتیجے میں قومیں عروج یا زوال کی طرف جاتی ہیں۔
قرآن مجید نے بہت وضاحت کے ساتھ‘ قوموں کے عروج و زوال کا جو بیان کیا ہے‘ وہ ایک فرد کی زندگی سے بالکل مختلف ہے۔ فرد اس بات پر مجبور ہے کہ وہ موت کی طرف جائے‘ اور اس میں اُس کی اخلاقی زندگی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اگر کوئی صالح ہوگا اس کو بھی موت آئے گی اور اگر کوئی فاسق ہوگا تو اُس کو بھی موت کا سامنا کرنا ہوگا‘ لیکن قوموں کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ قومیں لازماً موت سے ہم کنار نہیں ہوتیں۔ اُن کی موت اس لیے واقع ہوتی ہے کہ وہ اپنے نفس کے اُوپر ظلم کرتی ہیں‘ حالانکہ فرد کی موت کا تعلق اُس کے اپنے نفس پر ظلم کے ساتھ نہیں ہوتا۔ وہ اپنی فطری موت مرتا ہے۔ کسی قوم کا مٹ جانا یا اس کی موت واقع ہونا‘ یہ ناگزیر عمل نہیں ہے جو اسے لازماً پیش آئے۔ جس طرح کوئی فرد اپنی اخلاقی زندگی میں اچھا بننا چاہے تو اچھا بن سکتا ہے‘ اور برا بننا چاہے تو برا بن سکتا ہے ‘ اس طرح قومیں بھی آزاد ہیں کہ وہ اچھائی کی روش پر چلنا چاہیں تو چل سکتی ہیں‘ ترقی کی راہیں طے کر سکتی ہیں‘ اخلاقی اور معنوی اقدار حاصل کر سکتی ہیں‘ اور اگر برائی کی طرف جانا چاہیں‘ اپنے اُوپر ظلم کریں‘ دنیا کے اندر ظلم اور فساد کا دروازہ کھولیں تو وہ تباہی کی طرف جاسکتی ہیں‘ اور یہ عمل ایسا بھی نہیں ہے کہ لوٹایا نہیں جا سکتا۔ آدمی جوان ہونے کے بعد بچہ نہیں بن سکتا‘ اور بوڑھا ہونے کے بعد جوان نہیں ہو سکتا‘ لیکن قومیں زوال پذیر ہونے کے بعد ایک بار پھر عروج کی طرف آسکتی ہیں اور سربلند ہو سکتی ہیں۔
اگر یہ بات صحیح نہ ہوتی تو انبیاے کرام گری ہوئی قوموں کے سامنے اپنی دعوت لے کر کھڑے نہ ہوتے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ نسخہ ایسا ہے کہ جس سے کوئی قوم خواہ کتنی ہی نیچے گر چکی ہو‘ اگر وہ چاہے تو دوبارہ عروج کی طرف گامزن ہو سکتی ہے۔ انھوں نے قوموں سے اس بات کا وعدہ کیا‘ اور خوش خبری بھی دی کہ اگر تم نے یہ دعوت قبول کر لی تو بالآخر تم عروج کی طرف چلے جائو گے۔ خود نبی کریم ؐ نے عرب کے لوگوں کو یہ مژدہ سنایا کہ اگر تم نے میری دعوت مان لی تو تم عرب اور عجم دونوں کے مالک بن جائو گے۔ چنانچہ اس کا انحصار نہ سائنس پر تھا نہ ٹکنالوجی پر‘ نہ مادی ترقی پر اور نہ معاشی ترقی کے منصوبوں پر‘ بلکہ اس کا تمام تر انحصار اس دعوت کے اوپر تھا جس کو انبیاے کرام نے پیش کیا۔
انگریزی میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ قوموں کے زوال کا عمل irreversible نہیں ہے‘ جب چاہے اس کو روکا اور پلٹا جا سکتا ہے۔ کسی قوم کی زندگی میں کبھی کوئی مقام ایسا نہیں ہوتا کہ جہاں مایوسی اور افسردگی ہمیشہ کے لیے ہو۔ جب بھی کوئی قوم چاہے اپنے آپ کو اُوپر اُٹھا سکتی ہے۔
قرآن نے اس بات کو مختلف انداز سے واضح کیا ہے‘ اور ہر مرتبہ یہی بات کہی ہے کہ اس کا تعلق صرف اعمال اور اخلاق سے ہے۔ فَھَلْ یُھْلَکُ اِلاَّ الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ o (الاحقاف ۴۶:۳۵) ’’کیا کسی کو ہلاک کیا جاتا ہے سوائے اُن قوموں کے جو فسق کا راستہ اختیار کریں‘‘۔ وَتِلْکَ الْقُرٰٓی اَھْلَکْنٰھُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا (الکھف ۱۸:۵۹) ’’یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمھارے سامنے موجود ہیں۔ انھوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انھیں ہلاک کر دیا‘‘۔ مزید فرمایا: ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم ۳۰: ۴۱) ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے‘ لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘۔ اس فساد کی لوگوں کی بداعمالیوں کے علاوہ کوئی اور وجہ نہ تھی۔ قوم عاد کا تذکرہ یوں کیا: عاد کو دیکھو‘ جب انھوں نے یہ نعرہ بلند کیا کہ مَنْ اَشَدُّ قُوَّۃً مِنَّا ’’ہم سے طاقت ور کون ہے؟‘‘ وہ اس غرور کے اندر آگئے تو ہم نے ان کو ہلاک کر دیا۔ قوم عاد پر خدا کی پھٹکار پڑنے اور انھیں دور پھینک دینے کا سبب یہ تھا: وَتِلْکَ عَادٌ قف جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَعَصَوْا رُسُلَہٗ وَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍعَنِیْدٍ o (ھود ۱۱:۵۹) ’’یہ ہیں عاد‘ اپنے رب کی آیات سے انھوں نے انکار کیا‘ اس کے رسولوں کی بات نہ مانی‘ اورہر جبار دشمنِ حق کی پیروی کرتے رہے‘‘۔
لہٰذا یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ جس قوم کو بھی زوال و تباہی سے سابقہ پیش آیا‘ وہ صرف اس لیے آیا کہ اس نے بغاوت‘ نافرمانی‘ بدامنی اور ظلم کی راہ اختیار کی۔ قرآن نے ایک پوری تہذیب کی مثال دی ہے: وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ o (النحل ۱۶:۱۱۲) ’’اور اللہ ایک بستی کی مثال دیتاہے۔ وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوںکا کفران شروع کر دیا۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں‘‘۔
ایک ایسی قوم جس پر ہر طرف سے معاشی ترقی کے دروازے کھلے ہوئے تھے‘ رزق بے پناہ آ رہا تھا لیکن جب اُس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے تھے‘ ٹکنالوجی میں پیچھے رہ گئے تھے‘ اُن کے پاس معاشی ترقی کے پنج سالہ منصوبے نہیں تھے بلکہ وہ جو جو اعمال کرتے تھے (بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ) اس کی بنا پر زوال آشنا ہوئے۔ اسی وجہ سے اللہ نے خوف‘ حزن‘ مصیبتوں اور پریشانیوں کو ان پر مسلط کر دیا۔ اگر بظاہر آفات ارضی و سماوی کسی قوم کو تباہ کرتی دکھائی دیں‘ تو قرآن کہتا ہے کہ اس کی ذمہ داری ان آفات ارضی و سماوی پر نہیں ہے‘ بلکہ اس انسان کے اُوپر ہے جس نے سرکشی اور نافرمانی کی روش اختیار کی۔ اللہ نے کہا کہ کسی پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائی‘ کسی کو کڑک نے آن پکڑا‘ کسی کو ہم نے زمین میں دھنسادیا‘ کسی کو ہم نے پانی میں غرق کر دیا‘ لیکن یہ مت خیال کرنا کہ ان کی تباہی کڑک‘ طوفان یا زلزلے کی وجہ سے ہوئی تھی بلکہ اصل وجہ یہ تھی: فَکُلاًّ اَخَذْنَا بِذَ نْبِہٖ ج (العنکبوت ۲۹:۴۰) ’’آخرکار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا‘‘۔ پھر فرمایا: وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَo (العنکبوت ۲۹:۴۰) ’’اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا‘ مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے‘‘۔
یہ قرآن کا اتنا واضح‘ کھلا اور بیّن سبق ہے کہ ممکن نہیں کہ انسان قرآن کو پڑھے اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ قوموں کی ترقی مادی عوامل اور مادی عناصر کے اوپر ہے۔
وہ کیا چیزیں ہیں اور کون سی اقدار ہیں جوقوموں کو عروج کی طرف لے کر جاتی ہیں؟ قرآن مجیدکے مطالعے سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بنیادی طور پر یہ چار اقدار ہیں جن پرقوموں کی ترقی منحصر ہے۔ ایک ایمان‘ دوسراتقویٰ‘ تیسرا صبر‘ اور چوتھا توبہ و استغفار۔
قرآن کریم کی بے شمار آیات‘ان چاروں صفات کے فیصلہ کن ہونے پر دلیل ہیں۔ وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (اعراف۷:۹۶) ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اورتقویٰ کا راستہ اختیار کرتے تو ہم اُن کے اوپر آسمانوں سے بھی اور زمین سے بھی برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘۔غورکرنے کی بات یہ ہے کہ یہاں پر ایمان اور تقویٰ کے ساتھ ہمارے سامنے روحانی اوراخلاقی انعامات آتے ہیں اور اسی طرح جنت اوردوزخ کی بات آتی ہے‘ اور یہ بات بھی واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ قرآن نے دنیا کی ترقی کوبھی ایمان اور تقویٰ کے ساتھ مشروط کر دیا ہے کہ اگر انسان ایمان اورتقویٰ کا راستہ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں نازل کرتے۔
اسی طرح فرمایا گیا ہے‘ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لاَ یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًاط (آل عمران ۳:۱۲۰) ’’ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘‘۔ گویا تمھاری تعداد خواہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو‘ لیکن تمھارے پاس صبر اور تقویٰ ہو تو تمھارے دشمنوں کی کوئی تدبیر‘ کوئی سازش تمھیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہ آیت آج کل کے زمانے میں خاص طور پر قابل غور ہے۔ ہم اپنے قومی سانحے اورمصیبت کے اسباب میں ان سازشوں کو تلاش کرتے ہیں‘ جو ہمارے دشمن ہمارے خلاف کرتے ہیں لیکن قرآن کا بیان بالکل صاف رہنمائی کرتا ہے کہ اگر تمھارے اندر صبر اور تقویٰ ہو‘ تو تمھارے دشمنوں کی کوئی سازش‘ کوئی مکر‘ کوئی تدبیر‘ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ بنی اسرائیل جو مصر کے اندر مغلوب اور محکوم تھے‘ انتہائی ذلت اور مصیبت کی زندگی گزار رہے تھے۔ قرآن نے انھیں یُسْتَضْعَفُوْن کہا ہے‘ یعنی ’’ان کو کمزور بنا دیا گیا تھا‘‘۔انھی لوگوں کے بارے میں فرمایا: وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَاط وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ بِمَا صَبَرُوْا ط (الاعراف ۷: ۱۳۷) ’’ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے‘ اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا۔ اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدئہ خیر پورا ہوا کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا‘‘۔ گویا بنی اسرائیل کے اوپر جو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تمام ہوئیں‘ اُس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے صبر کی روش اختیار کی۔
چوتھی چیز استغفار ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس بات پر تعجب ہو کہ استغفار جس کے معنی گناہوں کی معافی مانگنا ہے‘ اس کا قوم کے عروج اور دنیاوی ترقی کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ لیکن قرآن نے جہاں بھی استغفار کی دعوت دی ہے اُس کے ساتھ ہی اُس نے مادی ترقیوں کا وعدہ بھی کیا ہے۔
حضرت ہود ؑنے اپنی قوم کو دعوت دی کہ اللہ کے آگے استغفار کرو اور توبہ کی روش اختیار کرو: یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ (ھود ۱۱:۵۲) ’’وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمھاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا‘‘۔ حضرت نوح ؑ نے رات اور دن اپنی قوم کو پکارا‘ کھلے عام بھی دعوت دی اور چھپے ہوئے بھی دعوت دی اور اس کے نتیجے سے بھی آگاہ کیا: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ط اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا o یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا o وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْھٰرًا o (نوح ۷۱: ۱۰-۱۲) ’’میں نے کہا‘ اپنے رب سے معافی مانگو‘ بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا‘ تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا‘ تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کر دے گا‘‘۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ استغفار کا وہ عمل جس سے ہمارے ذہن میں یہ تصور آتا ہے کہ ہمارے گناہ معاف ہوں گے‘ اور آخرت میں ہم جنت میں داخل ہوں گے‘ اللہ تعالیٰ نے اُسی عملِ استغفار کے ساتھ‘ اس دنیا کی ساری مادی ترقیوں کا وعدہ فرمایا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایمان‘ تقویٰ ‘ صبر اور استغفار کے اندر وہ کیا راز ہے جس کی وجہ سے قومیں ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھ سکتی ہیں؟
ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ جان لیں کہ قرآن کی لغت‘اصطلاح اوردعوت میں ایمان صرف لفظوں کے ایک فارمولے کو زبان سے ادا کرنے کا نام نہیں ہے۔ وہ ایسے گروہوں کا ذکر کرتا ہے جو زبان سے ایمان کا اقرار کرتے ہیں‘ لیکن اُن کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوتا ہے۔ ایک جگہ فرمایا: قَالُوْا اٰمَنَّا بِاَفْوَاھِھِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُھُمْ ج (المائدہ ۵:۴۱) ’’کچھ لوگ زبان سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے لیکن ان کے دل ایمان نہیں لائے ہوتے‘‘۔ قرآن کہتا ہے کہ ایسے نہ کہو‘ بلکہ یوں کہو: وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط (الحجرات ۴۹:۱۴) ’’ان سے کہو‘ تم ایمان نہیں لائے‘ بلکہ یوں کہو کہ ’’ہم مطیع ہو گئے‘‘۔ ایمان ابھی تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے‘‘۔
ایمان کے لغوی معنی تو اعتماد‘ بھروسے‘ یقین اور اپنے آپ کو سپرد کر دینے کے ہیں۔ دراصل ایمان وہ دولت ہے جس کے عوض آدمی اپنی پوری زندگی کا سودا چکا دیتا ہے۔ یہ وہ ایمان ہے کہ جو دل و دماغ حتیٰ کہ ساری زندگی کے اُوپر غالب ہوتا ہے۔ ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ زندگی کا ایک ہدف اور ایک مقصد ہو‘ جس ذات کے اُوپر ہم ایمان لائے ہیں‘ اُسی کی خاطر پوری زندگی گزرے۔ یہ پوری زندگی کا سودا ہے جس میں آدمی اپنی پوری زندگی خدا کے ہاتھ جنت کے عوض فروخت کر دیتا ہے۔
ایمان کا پہلا رُکن محبت ہے۔ اگر غور کیا جائے تو پوری زندگی میں خرابیاں اسی محبت میں خرابیوں کا نتیجہ ہے۔ جب محبت کے معیار اُلٹ پلٹ ہو جاتے ہیں‘ اور وہ محبتیں غالب آجاتی ہیں جن کو غالب نہیں آنا چاہیے تو پھر قومیں زوال کی طرف جانا شروع ہو جاتی ہیں‘ مثلاً گھر کی محبت‘ دنیا کی محبت‘ خاندان کی محبت‘قبیلے کی محبت‘ نسل و رنگ کی محبت اور زبان کی محبت وغیرہ۔ قوموں کے پاس جب ایسا مقصد ہو جو ان ساری محبتوں کے اوپر غالب آ جائے تو پھر یہ ساری محبتیں مغلوب ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے قرآن نے فرمایا ہے کہ ایمان کا پہلا رُکن محبت ہے۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِط (البقرہ ۲:۱۶۵) ’’ایمان رکھنے والے اللہ کو سب سے بڑھ کر محبوب رکھتے ہیں‘‘۔ ایمان لانے والے رنگ‘ نسل‘ قوم‘ زبان اور مال اور دولت سے بڑھ کر‘ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔
ایمان کا لازمی ثمرہ جدوجہد بھی ہے۔ اس لیے کہ اگر زندگی کا کوئی مقصد ہے‘ تو اُس کی طلب‘ اُس کی طرف دوڑنا اور اُس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا‘ اُس کا لازمی تقاضا ہے۔ قرآن نے بھی یہ کہا ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ o (الحجرات ۴۹:۱۵) ’’حقیقت میں تومومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لائے پھر انھوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں‘‘۔
ایمان سے مایوسی کی جڑ کٹ جاتی ہے‘ اس لیے کہ ایمان اورمایوسی دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ اللہ کی رحمت سے وہی مایوس ہوتا ہے‘ جو کافر اور گمراہ ہو چکا ہو۔ خوف‘ حزن‘ بیماری‘ پریشانی اور فکر یہ ساری چیزیں ایمان سے ختم ہو جاتی ہیں۔ ایمان کی تاثیر یہ ہے کہ وہ ایک فرد کی توجہ کو ایک بڑے مقصد کے اُوپر مرتکز کر دیتا ہے اور تمام قومی وسائل کو بھی مربوط کرکے ایک ہدف کی طرف گامزن کر دیتا ہے۔ فرد اور قوم کے دل میں اس ہدف کا حصول اور اس کی محبت‘ ہر چیز کے اُوپر غالب ہوتی ہے۔ پھر خود انسان اُس کے پیچھے چلتا ہے اور اس پر اپنی پوری قوتیں لگا دیتا ہے۔
تقویٰ کے معنی اپنے آپ کو بچانا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اس کے اندر کئی معنی پوشیدہ ہیں۔ ہم اپنے آپ کو کس چیز سے بچاتے ہیں؟ ہر اُس چیز سے جو ہم کو نقصان پہنچانے والی ہو۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ تقویٰ کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ہم درست اور غلط کا‘نیکی اور بدی کا ایک معیار مقرر کر لیں۔ ہم مان لیں کہ اس دنیا میں کچھ چیزیں ہم کو نقصان پہنچانے والی ہیں‘ اور کچھ ایسی ہیں جو فائدہ پہنچانے والی ہیں۔ اس کے بعد ہم اس پر یقین بھی رکھیں اور اسے عملی زندگی میں تسلیم بھی کریں کیونکہ اس کی پابندی کرنے کی استعداد بھی ہمارے اندر موجود ہے۔
تقویٰ ظاہری مظاہر سے زیادہ اُس قوت کا نام ہے‘ جس کے بل پر ہم جس چیز کو غلط سمجھتے ہیں‘ اُس سے بچ جائیں اور جس کو صحیح خیال کرتے ہوں اُس کی طرف لپک کر جائیں۔ قرآن نے اس کو باربار واضح کیا ہے۔ کیونکہ تقویٰ قوت اور استعداد کا نام ہے‘ اس لیے تقویٰ کا اصل مقام انسان کا دل ہے۔ اہل ایمان تو وہ ہیں جو اللہ کے شعائر کا احترام کرتے ہیں‘ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ o (الحج ۲۲:۳۲) ‘ جو نبی علیہ السلام کے سامنے اپنی آواز پست کرتے ہیں‘ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰیط (الحجرات ۴۹:۳) اُن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے۔
تیسری چیز صبر ہے۔ صبر کے معنی بے بسی کے نہیں ہیں۔ اس کے معنی بے چارگی کے بھی نہیں ہیں بلکہ صبر عزم اور ارادے کی قوت کا نام ہے جس کے بل پر وہ مقصد اور ہدف جس پر ایمان ہو‘ جو مقصود ہو‘ جس کی طرف جانا ہے‘ جو درست اور غلط کا معیار ہے‘ اُس پر استقامت اورثابت قدمی کے ساتھ انسان اپنے آپ کو باندھ لے۔ صبر کے لغوی معنی باندھ لینے اور جم جانے کے ہیں۔ اس راہ میں جو بھی مشکل پیش آئے اس کو تحمل کے ساتھ سہنے کا نام صبر ہے۔صبر کے اندر جوش اور تڑپ‘ سعی اور عمل بھی شامل ہے۔ اس لیے کہ صبر اُس وقت ہوتا ہے جب آپ اپنے مقصد کا تعین کریں‘ غلط اور درست کے معیار کو متعین کر لیں اور اُس کے اُوپر جم کر اس کے حصول کے لیے جدوجہد کریں۔ قوموں کی زندگی کے اندر ضبط‘ جسے انگریزی میں cohesion کہتے ہیں‘ صبر کے ذریعے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ انتشار سے محفوظ رہتی ہیں۔ قرآن نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے کے لیے صبر کا لفظ استعمال کیا ہے: وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوَۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَلاَ تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْھُمْج (الکھف ۱۸:۲۸) ’’اپنے آپ کو باندھ لو صبر کے ساتھ اُن لوگوں کی معیت میں جو تمھاری طرح اللہ کے طلب گار ہیں‘ اور صبح و شام اُس کو پکارتے ہیں اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو‘‘۔
چوتھی صفت استغفار ہے۔ استغفار سارے انبیا کی دعوت کا بنیادی جز ہے۔ اللہ نے فرمایا: وَاللّٰہُ یَدْعُوْآ اِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ ج (البقرہ ۲:۲۲۱)’’اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے‘‘۔ وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَ رْضُ (اٰل عمران ۳:۱۳۳) ’’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے‘‘۔ سَابِقُوْآ اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لا (الحدید ۵۷:۲۱) ’’دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے‘‘۔
استغفار کی صفت کیوں اہم ہے؟ دراصل استغفار کی بنیاد یہ ہے کہ ہم نہ صرف غلط اور صحیح کا احساس اور یقین رکھیں‘ غلط سے بچیں اور صحیح پر عمل کرنے کی کوشش کریں‘ بلکہ ہر وقت اپنے نگہبان اور نگران رہیں‘ اپنا احتساب کرتے رہیں ‘اور جہاں غلطی کا احساس ہو وہاں غلطی کا اعتراف بھی کریں‘ اُس کی تلافی بھی کریں اور اُس کو دوبارہ کرنے سے بچنے کی بھرپور کوشش کریں۔
افراد اور قوموں کی زندگی صحیح راہ پر عروج کی طرف اُس وقت آتی ہے‘ جب قومیں احتساب کے عمل سے گزرتی ہیں۔ احادیث میں اس بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ احتساب و استغفار کی روح یہ ہے کہ آدمی گناہوں کا اعتراف کرے اور یہ بات سمجھے کہ اس کو برے نتائج اور عواقب پیش آنے والے ہیں۔ اُس کے بعد اُس قوت اور سرچشمے کی طرف رجوع کرے جو اس کو غلطیوں سے محفوظ رکھنے والی ہے۔ گویا استغفار کی صفت بھی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اندر قوموں کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
اگر ہم ان چاروں چیزوں پر غور کریں‘ تو محسوس ہوگا کہ یہ کس قدر بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ اگر کسی قوم کے سامنے کوئی واضح مقصد نہ ہو‘ اور اُس مقصد سے عشق اُس پر غالب نہ ہو (اور اللہ کی رضا سے بڑھ کر اور کون سا مقصد ہوسکتا ہے)‘ اور جب تک اُس کے اندر اتنی استعداد اور قوت نہ ہو کہ جس کو صحیح کہے اُس پر عمل کرے‘ اورجس کو غلط سمجھے اُس سے بچ جائے‘ جسے درست سمجھا ہے اُس کے ساتھ چمٹی رہے‘ اُس کے لیے کوشش کرے‘ اور اپنے احتساب کا عمل جاری رکھے‘ جہاں غلطی ہو اس کا اعتراف کرے‘ اور پھر اس غلطی کے برے اثرات سے بچنے کے لیے کوشش کرے‘ وہ عروج کے راستے پر نہیں چل سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی ایمان‘ تقویٰ‘ صبر اور استغفار کی بدولت کوئی قوم عظمت‘بلندی اور عروج پاسکتی ہے۔
اگر ان چاروں صفات کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ قرآن نے قوموں کے عروج کا جو انحصار ان پر کیا ہے‘ وہ بالکل صحیح ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہم جو ایمان بھی رکھتے ہیں‘ تقویٰ بھی رکھتے ہیں‘ استغفار بھی کرتے ہیں اور صبر بھی کرتے ہیں‘ قرآن پر بھی ہمارا ایمان ہے لیکن اس سب کے باوجود ہم دنیا کے اندر مغلوب اور کفار غالب ہیں؟
اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ ایمان فی نفسہٖ ایک قوت ہے‘اور قدرت کی ترازو کے اندر وزن ایمان ہی کا ہے۔ اس کے ہاں نفاق کا کوئی وزن نہیں ہے۔ یہ ایمان اگر باطل کے اُوپر ہے‘ جیسا کہ قرآن نے اصطلاح استعمال کی ہے‘ امنوا بالباطل‘ گویا باطل پر بھی ایمان ہو سکتا ہے‘ تو باطل پر ایمان حق کے ساتھ نفاق پر ہمیشہ غالب آئے گا۔ اس لیے کہ ایمان سے جوقوت پیدا ہوتی ہے خواہ باطل کی خاطر ہو‘ وہ دنیا کے اندر آگے بڑھے گی۔ نفاق اور تضاد کے ساتھ آدمی کمزور ہوتا ہے۔ اور اگر نفاق اور تضاد اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوں تو انسان اور زیادہ غضب کا شکار ہوگا۔
دنیا کے اندر اصل چیز ایمان ہے۔ اس وقت جو قومیں دنیا کے اندر غالب ہیں‘ اُن کے مقاصد اور اہداف اگرچہ غلط ہیں‘ لیکن وہ اُن کے اوپر ایمان اور یقین رکھتی ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے جو غلط اور درست کا معیار مقرر کر رکھا ہے‘ ہمیں اس سے اتفاق ہو یا نہ ہو‘ وہ اس کی پیروی کرتی ہیں‘ اُس کے ساتھ منافقت نہیں کرتی ہیں۔ اُن کے اندر احتساب کا عمل موجود ہے‘ اور جو اُن کے مقاصد ہیں اُن کے پیچھے وہ چلتی ہیں۔
لوگ امریکہ کی مثال دیتے ہیں کہ امریکہ ترقی کی شاہراہ پر کیسے پہنچا۔ امریکہ کی تاریخ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ جن لوگوں نے اس ملک کو اس مقام تک پہنچایا ہے انھوں نے برسوں بڑی محنت کے ساتھ‘ لگن اور صبر کے ساتھ کام کر کے پورے وسائل کو فتح کیا ہے۔ ہم لوگ خیال کرتے ہیں کہ یورپ نے پوری دنیا کے اندر جو غلبہ حاصل کیا ہے‘ وہ اُن کی سائنس اور ٹکنالوجی کا نتیجہ ہے۔ لیکن اگر یورپ کی تاریخ کو پڑھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جس جذبے نے یورپ کی قوموں کو یورپ سے نکال کر‘ دنیا کی تسخیر کی راہ پر ڈالا وہ وحشیوں (barbarians) کو ترقی دینے اور مہذب بنانے کا جذبہ تھا۔ یہ مقصد تھا جس کا عشق انھیں دنیا کے کونے کونے تک لے گیا۔ جوکوئی بھی گیارھویں صدی کی صلیبی جنگوں سے لے کر اٹھارھویں صدی تک کے یورپ کی تاریخ پڑھے گا اس پر واضح ہو جائے گا کہ ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ ہم دنیا کو تہذیب سے کیسے روشناس کرائیں۔
اسلام کی مثال خود ہمارے سامنے ہے۔ مسلمانوں کے پاس نہ سائنس اور ٹکنالوجی تھی‘ نہ اسلحہ اور وسائل تھے‘ لیکن مقصد سے لگن اور محبت اُن پر غالب ہوئی تو پھر وہ دنیا کے اندر پھیلتے چلے گئے اور صرف ۲۰۰سال کے اندر انھوں نے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد ڈال دی جو ہزار سال تک دنیا کے اُوپر غالب رہی اور اب بھی زندہ ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میں ایمان وتقویٰ ‘ صبر و استغفار کی کوئی مادی تعبیر کر رہا ہوں بلکہ میں نے صرف یہ کہا ہے کہ جہاں اس کا فقدان ہے‘ خواہ صحیح بات کے لیے ہو‘ وہ مغلوب ہوگا‘ اور جہاں یہ موجود ہے ‘خواہ غلط بات کے لیے ہو‘ وہ غالب ہوگا۔
اُمت مسلمہ کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اس سے الگ ایک اور قانون بھی بیان کیا ہے‘ اوروہ قانون یہ ہے کہ مسلمان قوم کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک معاہدہ اور ایک عہد ہے۔ جب تک یہ اُمت اُس عہد کو پورا نہ کرے گی‘ یہ دنیا کے اندر غالب نہ ہو سکے گی۔ اگر ہم یہ چاہیں کہ ہم دیگر قوموں کی طرح اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر صرف مادی اور معاشی مقاصد کو اپنی زندگی کا مقصد بنا کر کامیاب ہو جائیں تو یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ہم اس طرح ترقی کی منزلوں کو سرکرلیں۔
اس پوری صدی کی تاریخ اس حقیقت کے اُوپر گواہ ہے۔ میں ایک مثال سے اپنی بات واضح کروں گا۔ اس صدی کے شروع میں دو ملکوں نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ ہماری ترقی مغرب کی پیروی کے اندر پوشیدہ ہے‘ ایک ترکی اور دوسرا جاپان۔ ان دونوں نے اس صدی کے شروع میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ آج جاپان دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے لیکن ترکی ابھی تک اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں سے اُس نے سفر کا آغاز کیا تھا۔ حالانکہ انسانی وسائل کے لحاظ سے اور اُن طریقوں کی پیروی کے لحاظ سے جو مغرب میں ترقی کے لیے پائے گئے ہیں‘ دونوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ ترکی نے قانون بھی وہی اختیار کیا‘ وسائل بھی وہی اختیار کیے‘ تہذیب بھی وہی اختیار کی‘ یہاں تک کہ نصاب بھی وہی اختیار کرلیالیکن وہ ترقی کی منازل طے نہ کر سکا۔ یہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ مسلمانوں کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ محض مادی وسائل کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں‘ اور عروج کی شاہراہ پر آگے بڑھیں۔
اگر ہم اپنی قوم اور اُمت مسلمہ کا جائزہ لیں توہمیں اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ صرف ۲۵سال میں یہ ملک دولخت کیوں ہو گیا؟ اور ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں ایسا کیوں ہوا کہ کروڑوں کی تعداد لاکھوں سے شکست کھا گئی؟ ہوائی جہاز زمین پر کھڑے کے کھڑے کیوں تباہ ہو گئے؟ ہماری پوری کی پوری فوج کمانڈر نے دشمن کے سامنے کیوں سرنڈر کر دی اور آج ہم تعداد میں چھ گنا ہونے کے باوجود اپنے دشمن کو مغلوب کیوں نہیں کر سکتے؟ ان سوالات کے جوابات کے لیے بھی ایک مثال موجود ہے۔ لبنان میں محض ایک چھوٹاسا گروہ جب اپنے مقصد کے عشق سے سرشار ہو کر کھڑا ہوا اور مرنے مارنے کے لیے تیار ہوگیا تو اُس نے اسی طاقت کا ناطقہ بند کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کے قیام کے بعد‘ پورے ۴۰‘۵۰ سال میں قوم کو کیا مقصد دیا--- معاشی ترقی کا مقصد؟ ہم نے پنج سالہ منصوبے بنائے تومعاشی ترقی کے لیے‘ وسائل جھونکے تو اسی کے لیے‘ تعلیم کے معاملے پر غور کیا تو اس لیے کہ سائنس اور ٹکنالوجی میں کس طرح ترقی کریں گے۔ پچھلے تمام عرصے میں یہی فکر‘ یہی سوچ اور یہی تعلیم قوم کو دی جاتی رہی‘ اور یہی زہر اُس کی رگ رگ میں پھیلایا جاتا رہا۔ جب معاشی ترقی ہی مقصود ٹھیری تو پھر ملکی ترقی سے پہلے صوبائی ترقی مقصود کیوں نہ ہو؟ اور اس سے پہلے محلے کو ترجیح کیوں نہ ہو‘ اور محلے سے پہلے میرے گھر کی باری کیوں نہ آئے؟ کہتے ہیں کہ سارے امراض کی جڑ اس فلسفے کے اندر ہے کیونکہ رشوت لوں گا تو اپنے گھر کی سوچوں گا‘ اُس سے آگے بڑھوںگا تو اپنے صوبے کے بارے سوچوں گا کہ سندھ‘ بلوچستان یا پنجاب یا پھر سرحد کی ترقی ہو۔ اس لیے کہ دوڑ کس بات کی ہے؟ معاشی ترقی کی۔ مقصد کیا ہے؟ معاشی ترقی اور ذاتی مفاد۔ ہمارے ’’خدا‘‘ (میں یہ لفظ انگریزی سے لے کر استعمال کر رہا ہوں‘ اس میں دوسرے خدائوں‘ دیوتائوں کے لیے خدا کا لفظ استعمال ہوتا ہے) ہمارے ’’دیوتا‘‘ کیا ہیں؟ مجموعی قومی آمدنی (جی این پی)! بس ہمارا معیار زندگی بلندہونا چاہیے۔ سارے صدر اور وزرا جو پہلے دن سے آج تک گزرے ہیں ‘ انھوں نے پوری قوم کو یہی مقصد دیا ہے۔ ان کی تقریروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اگر آج ہم اس کا رونا روتے ہیں کہ کرپشن اور چوربازاری عام ہے‘ لوگ ایمان داری سے کام نہیں کرتے‘ فرائض ادا نہیں کرتے‘ تعلیمی نظام ناقص ہے‘ تجارت خسارے میں جا رہی ہے‘ تو یہ دراصل ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَo (العنکبوت ۲۹:۴۰) ’’اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا‘ مگر وہ خود ہی اپنے اُوپر ظلم کر رہے تھے‘‘۔
آج جس طرح مجھے اس بات کا یقین ہے کہ دن کے بعد رات آئے گی‘ اسی طرح مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ ہم کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرلیں‘ کتنے ہی منصوبے کیوں نہ بنا لیں‘ اور کتنی ہی معاشی ترقی کیوں نہ کر لیں‘ لیکن ۱۰۰ سال بعد بھی یہ قوم اسی مقام پر کھڑی ہوگی جس طرح ترکی آج ۷۰ سال بعد اسی مقام پر کھڑا ہے۔ معاشی مسائل ویسے ہی ہوں گے‘ غربت ویسی ہی ہوگی‘ جہالت ویسے ہی ہوگی‘ افراط زر اسی طرح ہوگا اور لوگ بھی اسی طرح پریشان حال اور مصیبت میں ہوں گے۔
ضرورت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اوپر ایمان کی تجدید کریں۔ یہ بات میں صرف وعظ کے رنگ میں نہیں کہہ رہا۔ ہمارے کُل قومی وسائل ‘ پانچ سالہ منصوبے‘ ریڈیو اور ٹیلی وژن اور تمام ذرائع ابلاغ اس کے لیے وقف ہونے چاہییں کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور یقین مضبوط ہو‘ اس کی محبت پیدا ہو‘ استغفار اور تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔ ہم جس بات کو صحیح مانیں اس کو اختیار کرنے کی قوت ہمارے اندر پیدا ہو۔ جس بات کو غلط کہیں اُس سے بچنے کی قوت ہمارے اندر ہو اوراگر غلطی کریں تو بلاجھجک اس کا اعتراف کریں اور اُس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ جب یہ سب کچھ ہوگا تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ لازماً ہمیں عظمت و سربلندی اور عروج عطا کرے گا: وَلاَتَھِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o ( اٰل عمران ۳:۱۳۹) ’’دل شکستہ نہ ہو‘ غم نہ کرو‘ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔ (کیسٹ سے تدوین: ارشادالرحمٰن)
(کتابچہ دستیاب ہے‘ قیمت: ۵ روپے۔ منشورات ‘ منصورہ‘ لاہور)
سیرت نبوی ؐ کا ایک اہم باب اور عنوان ’’ وفود عرب کی بارگاہ رسالتؐ میں آمد ہے‘‘۔ قدیم مآخذ سیرت میں عمومافتح مکہ کے بعد اشاعت اسلام کے ضمن میں و فود عرب کا تذکرہ ہوا ہے۔ ۹ھ اور ۱۰ھ میں یہ وفود اس کثرت سے آئے کہ مؤرخین اور سیرت نگاروں نے اس سنہ کو ’’ عام الوفود ‘‘ یعنی وفود کا سال قرار دیا۔ متعدد مورخوں اور سیرت نگاروں نے ان وفود کی تفصیلات قلم بند کی ہیں۔ مختلف روایات کے مطابق وفود کی تعداد ۱۴۰ کے قریب تھی۔ اردو ادب سیرت میں صرف انھی وفود کا تذکرہ ملتا ہے جن سے سیرت نبویؐ کے کسی خاص پہلو پر روشنی پڑتی ہے۔
ان وفود کے مطالعے سے جہاں سیرت طیبہؐ کے کئی نمایاں پہلو اجاگر ہوتے ہیں وہاں قبائل عرب کے جغرافیائی حالات ، ان کے معتقدات، میلانات و رجحانات اور بدوی مزاج کا بھی پتا چلتا ہے۔ یہ وفود پورے جزیرہ نما عرب کے مختلف حصوں سے حاضر خدمت ہوئے تھے۔ جو قبائل اپنے نمایندے یاترجمان کی حیثیت سے بارگاہ نبویؐ میں حاضر ہوئے، ان کے ارکان کی تعداد بعض اوقات ۴۰۰ یا اس سے زائد ہوتی تھی۔ بعض وفود اسلام قبول کرنے کے لیے آتے اور بعض تعلیم وتربیت کے لیے حاضر خدمت ہوتے اور بعض امن و صلح کے لیے بھی آئے۔ رسولؐ اللہ ہر قبیلے کے سردار یا قائد کو عموماً ذمہ دار بناتے کہ وہ اپنے قبیلے میں دعوت کا فریضہ سرانجام دے۔ اس طرح یہ وفود بذات خود دعوت و تبلیغ کا اہم اور مؤثر ترین ذریعہ تھے۔ (مولانا جلال الدین عمری،’’عرب کے وفود دربارِ رسالت میں‘‘ سہ ماہی تحقیقات اسلامی (علی گڑھ)‘ جلد ۷‘ شمارہ ۱‘ ۱۹۸۸ء‘ ص ۵-۱۶)
قبائل عرب اپنے وفود کی روانگی کے لیے بڑا اہتمام کرتے تھے۔ اس کے لیے شیوخ و سردار، اعیان و اشراف ، شعرا و خطبا اور باشعور افراد کا انتخاب ہوتا تھا۔ ان سب کے نام لکھے جاتے تھے اور ارکان وفد اپنے روایتی اور قبائلی لباس وہیئت میں سج دھج کر مدینہ منورہ میں حاضر ہوتے تھے۔ (تفصیل کے لیے: وفد وائل بن حجر‘ ابن کثیر‘ البدایۃ ۵/۲۹)
یہاں ان کی حیثیت کے مطابق قیام و طعام کا انتظام کیا جاتا تھا۔ آپؐ ان کی نفسیات و رجحانات کے مطابق معاملہ فرماتے ان کی تعلیم وتربیت کا بندوبست کرتے اور ان کے مسائل کو حل فرماتے۔
ذیل میں ان وفود کے ساتھ آپؐ کے طریق دعوت و تربیت کی چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں۔
رسولؐ اللہ کے پاس آنے والے ان وفود کا تعلق عرب کے مختلف قبائل سے تھا۔ان میں چند مشترکہ محاسن و معائب تھے۔بعض قبائل اپنی انفرادی شان وشوکت رکھتے تھے اور بعض کی وجہ شہرت بہادری اور بعض سخاوت و مہمان نوازی میں مشہور تھے۔ ہر قبیلہ عرب میں اپنا مخصوص مقام رکھتا تھا۔ ان دعوتی وفودمیںبعض عمدہ خصلت وسیرت کے مالک ہوتے اور بعض سخت مزاج۔ ان میں سردار اور قائد بھی تھے اور قبیلے کے عام افراد بھی‘ غرض یہ کہ ہر مزاج اور فکر کے افراد ہوتے تھے۔
رسولؐ اللہ نے دعوت قرآنی کے اصولوں کے مطابق دعوتِ حق کو پیش فرمایا۔ قبائلی اور علاقائی نفسیات کا لحاظ فرمایا۔ اسی کا اثر تھا کہ ان وفود میںسے اکثریت دولت ایمان سے مشر ف ہو ئی اور آپؐ کے حسن اخلاق اور حسن معاملہ کی بدولت جو وفود بظاہر صلح و امن کی غرض سے حاضر خدمت ہوئے وہ بھی مشرف بہ اسلام ہوئے ۔
آپؐ وفد کے پہنچتے ہی دعوت دینی شروع نہیں کر دیتے تھے بلکہ دعوت کے لیے مناسب ماحول پیدا فرماتے تھے۔ دعوت سے قبل مدعو کی مہمان دار ی ، تکریم و تحریم کا مکمل اہتمام فرماتے تھے۔اس حوالے سے چند قابل ذکر پہلو یہ ہیں:
ان وفود کی رہایش کا اہتمام ایک صحابیہ رملہؓ بنت الحارث کے گھر کیا جاتا ، اس کے علاوہ کبھی کبھی یہ و فود کسی صحابی جو اسی قبیلے کا ہوتا اس کے ہاں ٹھہرتے، اور بعض کو آپؐ مسجدنبویؐ میں ٹھہرانے کا حکم دیتے۔
جہاں تک نفس دعوت و تبلیغ کا تعلق ہے تویہاں بھی آپ ؐنے مخاطب کی ذہنی نزاکتوں کا پورا پورا خیال رکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ آدمی کی ذہنیت کو تبدیل کرنا اور اس کے نقطہء نظر یا نصب العین کو تبدیل کرنا آسان کام نہیں۔اس کے لیے غیر معمولی ذہانت‘حکمت و تدبر اور سب سے بڑھ کر ایسے استدلال سے کام لینا پڑتا ہے جو مخاطب کو ذہنی طورپرہموار کر کے نئی بات قبول کرنے پر آمادہ کر سکے۔جس طرح ایک بیج کی نشوونما کے لیے فقط بیج کی صلاحیتوں پر ہی نظر نہیں رکھنی پڑتی بلکہ زمین کی آمادگی و مستعدی اور فصل وموسم کی سازگاری و موافقت کا بھی لحاظ رکھنا پڑتا ہے ،اسی طرح ایک داعی کو بھی لازماً تخم ایمان کی آبیاری کے لیے قلوب و اذہان کی آمادگی و موافقت کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے اور یہ آمادگی اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب کہ استدلال مستحکم اور پایدار ہو۔
یہی وجہ ہے کہ رسولؐ اللہ نے عقائد اور تعلیمات دین کو دلوں میں اتارنے کے لیے ایک طرف توایسے دلائل وبراہین سے کام لیا جس کا ادراک ایک ادنیٰ سے ادنیٰ عقل رکھنے والا آدمی بھی کر سکتا ہے‘نیز ان دلائل و آثار میں تنوع کا خیال بھی رکھاتاکہ تفہیم و ابلاغ کا حق ادا ہو سکے ،اور دوسری طرف رسول اللہ ؐ نے اہل عرب کی تمام خوبیوں اور خرابیوں ‘ ان کی انفرادی و قومی روایات اور ان کے عادات وخصائل کی رعایت رکھتے ہوئے کشت ِایمان کی آبیاری کی۔آفاق کے قوانین و ضوابط ‘فطرت کے یقینیات ‘تاریخ کے مسلمات، اور بنیادی اخلاقیات میں سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں مشرق و مغرب اور عرب وعجم سب ایک ہی نقطہء نظر رکھتے ہیں ۔رسول ؐاللہ نے اپنے اور مخاطب کے درمیان اسی قدر ِمشترک کو تلاش کیااور اس کو بناے استدلال بنایا۔ وفود کے مطالعے سے اس کی چند ایک مثالیں سامنے آتی ہیں ۔
بعض افراد سلیم الفطرت ہوتے ہیں۔ان میں اعلیٰ اخلاقی صفات بااتم موجود ہوتی ہیںاور اگر کوئی ان کی تعریف وتحسین کر دے اور ان کے اس حسن سیرت و صورت کی نشان دہی کرے تو ان میں مزید بہتری کی تحریک پیدا ہو جاتی ہے‘اور اس تحرک (motivation)کی بدولت ان میں استحکام نصیب ہوتاہے اور وہ ہر آن بداخلاقی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔رسول ؐاللہ کے پاس آنے والے وفود میں بعض افراد باجود جاہلی تعصبات و خرافات کے عمدہ اخلاق و سیرت کے مالک ہوتے ۔چنانچہ رسولؐ اللہ ایسے وفود کے اراکین سے ان کے اخلاقی اوصاف کو مدنظر رکھتے اور دعوت پیش کرتے وقت، وفد کے اراکین یا قائد کی ان صفات عالیہ کا تذکرہ ضرورفرماتے جس سے وہ متصف ہوتے تاکہ آغاز کلام میں ہی ان کے اندر اس پیغامِ حق کے لیے قبولیت کا جذبہ پیدا کر دیا جائے جس کی دعوت دی جا رہی ہے کہ یہ پیغام بھی اس خاصیت اور صفات کا داعی ہے جس سے وہ متصف ہیں ۔اس طرح ابتدا سے ہی مدعو سے بے تکلف تعارف او ر کلمات داد وتحسین سے مدعو پر نفسیاتی اثر ہوتا اور وہ دین حق کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جاتا۔اس طرز فکر کی چند ایک مثالیں بھی وفود کے مطالعے سے ظاہر ہوتی ہیں۔
۱- وفد ازد کی وضع قطع او رخوش کلامی آپ ؐ کو بہت پسند آئی۔آپؐ نے دعوت پیش کرنے سے پہلے ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو ؟انھوں نے عرض کیا ہم مومن ہیں ۔آپؐ مسکرائے ۔آپؐ نے فرمایا: ہر بات کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ بتاؤ تمھارے قول اور ایمان کی کیاحقیقت ہے؟انھوں نے عرض کیاکہ ہم میں ۱۵خصلتیں ہیں۔ان میں پانچ تو ایسی ہیں جن کے متعلق آپؐ کے قاصدوں یعنی(مبلغین یا داعیان اسلام)نے ہمیں دعوت دی ہے اور پانچ ایسی ہیں ‘جن کے متعلق ہدایت کی ہے کہ ان پر عمل کریں ‘اور پانچ وہ ہیں ‘ جن کا ہم زمانۂ جاہلیت سے پابند ہیںاور اب تک ان پر قائم ہیں۔
حضورؐنے پوچھا کہ وہ پانچ باتیں کون سی ہیں جن پرتم کو ایمان رکھنے کاحکم دیاگیا ہے؟ انھوں نے عرض کیا: ۱- اللہ پر ایمان ۲- اس کے فرشتوں پر ایمان ۳- اس کی کتابوں پر ایمان ۴- اس کے رسولوں پر ایمان ۵- مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: وہ پانچ باتیں کیا ہیں جن پر تمھیںعمل کرنے کی ہدایت کی گئی ؟ انھوں نے عرض کیا: ۱- ہم اقرار کریں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ۲- نماز کی پابندی کریں ۳- زکوٰۃ ادا کریں ۴- رمضان کے روزے رکھیں ۵- اگر استطاعت ہو بیت اللہ کا حج کریں ۔
آپؐ نے فرمایا:اچھا! اب وہ پانچ باتیں بتاؤ جن پر تم زمانۂ جاہلیت سے کار بند ہو؟ انھوں نے کہا: ۱- خوشحالی کے وقت شکر کرنا ۲- مصیبت پر صبر کرنا ۳- راضی برضاے الٰہی رہنا ۴- آزمایش کے وقت راست بازی پر قائم رہنا ۵- دشمنوں کی مصیبت پر ہنسی نہ اڑانا۔
جب آپؐنے ان کی حکمت اور دانائی کی باتیں سنیں تو تعریف فرمائی اور ان پر دوام کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم لوگ تو بڑے حکیم اور عالم نکلے ‘تمھاری حکمت ودانش گویا انبیا کی حکمت ودانش ہے‘‘۔
اس طرح ان کے اندر مزید بھلائی او رنیکی کی تحریک پیداہوئی اور جب دیکھا کہ اس طرح کے اقوال اور نصیحت کو یہ لوگ اختیار کرتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں،تو آپؐ نے ان کو مزید پانچ اور نصیحتیں فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا:
۱۔ ضرورت سے زیادہ مکانات نہ بناؤ(یا وہ مکان نہ بناؤ جس میں تمھیں بسنا نہ ہو)
۲۔ ضرورت سے زیادہ اشیاے خوردونوش جمع (ذخیرہ )نہ کرو۔
۳۔ جس چیز کو چھوڑ کر کل تمھیں چلا جانا ہے ا س میں ایک دوسرے کی حرص نہ کرو۔
۴۔ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ ڈرتے رہو جس کی طرف پھر تمھیں لوٹنا ہے اور اس کے حضور جواب دہ ہوناہے۔
۵۔ ان چیزوں سے رغبت رکھو جو آخرت میں تمھارے کام آئیں گی جہاں تمھیں ہمیشہ رہنا ہے۔(زرقانی‘ المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، بیروت ۱۹۹۶ء‘ ج ۵، ص ۲۲۶)
اہل وفد نے رسولؐ اللہ کے ان ارشادت کو قبول کیا اور وطن واپس جا کر ہمیشہ ان پرعمل کیا۔اس طریقۂ دعوت میں آپؐ نے منطقی وتدریجی اسلوب اختیار کرتے ہوئے پہلے ان کے خیالات و افکار کو جانا اور ان کی عمدہ باتوں کی تعریف وتوثیق فرمائی اور اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے مزید پانچ خصلتوں کی نصیحت فرمائی جن کا مضمو ن سابقہ باتوں سے مختلف تھا ۔جب آپؐ نے جان لیا کہ یہ افراد ایمان وعبادات پر یقین رکھتے اور عمل کرتے ہیںاور اخلاق عالیہ سے بھی مزین ہیں تو آپ ؐ نے پانچ ایسی عادات و معمولات کا تذکرہ فرمایاجس سے ان کے سابقہ اعمال میں پختگی آئے اور عبادات میں اخلاص و محبت پیدا ہو۔چنانچہ آپؐ نے جن پانچ باتوں کی تلقین فرمائی ان میں آخرت کا مضمون بیان ہوا اور احتساب و ذمہ داری پر زیادہ زور دیا گیا۔شاید اسی کی کمی آپؐ نے ان کے اندر محسوس کی ہو‘اوراس کے مطابق ان معمولات کواختیار کرنے کی دعوت دی ہو۔
قبیلہ بنی حارث بن کعب ‘سارے عرب میں شجاعت اوربہادری میں مشہور تھا۔فتح مکہ کے بعد بھی یہ لوگ کفر وضلالت پر قائم رہے۔۱۰ہجری میں رسول اللہ ؐ نے حضرت خالدؓ بن ولید کو دعوت اسلام کے لیے ان کی طرف بھیجا ۔حضرت خالدؓ کی دعوت پر سارا قبیلہ ایمان لے آیااور انھوں نے ایک وفد حضورؐ کے پاس تعلیم و تربیت کے لیے بھیجا۔وفد کے اراکین بارگاہ رسالتؐ میں پہنچتے ہیں تو رسولؐ اللہ ان سے پوچھتے ہیں کہ : ’’زمانۂ جاہلیت میں جو تم سے لڑا وہ ہمیشہ مغلوب رہا ۔اس کا کیا سبب ہے‘‘؟ انھوں نے عرض کیا کہ: یا رسولؐ اللہ اس کے تین سبب تھے: ۱- ہم اپنی طرف سے کسی پر ظلم یا زیادتی نہیں کرتے تھے۔ ۲- ہم خود کسی پر چڑھ کر نہیں جاتے تھے اور نہ لڑائی میں پہل کرتے تھے۔ ۳-جب ہم پر کوئی لڑائی تھوپ دیتاتو میدان جنگ میں ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے اور کبھی منتشر نہ ہوتے تھے۔
حضورؐ نے فرمایا: تم سچ کہتے ہو۔جو فوج یا جماعت ان اصولوں کے مطابق لڑے گی ہمیشہ غالب رہے گی۔(ابن سعد ، الطبقات الکبریٰ ، ج۱‘ ص۳۳۹، وابن ہشام ج ۴، ص ۲۶۴)
رسولؐ اللہ وفد کے ایمان ویقین سے واقف تھے اور آپ ؐ کو یہ بھی معلوم تھا کہ قبیلہ بنی حارث بن کعب شجاعت و بہادری میں کمال رکھتا ہے اور یہی ان کی عظمت و فضیلت ہے۔چنانچہ آپ ؐ نے ان کی نفسیا ت و حالات کو جانتے ہوئے ان کے اس مخصوص شعبے میں مہارت کا ذکر فرمایاکہ جس کے سبب وہ ہمیشہ غالب رہے اور ظاہر ہے جب کسی کی خاص صفت یا بھلائی و عظمت اس کی وجہ شہرت ہو یا ا س کی پہچان کا سبب ہو‘اس کاتذکرہ کیا جائے تو یہ بات اس کو دنیا و مافیھا سے بہتر لگتی ہے۔ آپؐ نے اسی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے ان سے دریافت فرمایا کہ کس سبب سے وہ ہمیشہ غالب رہے ۔جب انھوں نے تین اسباب کا ذکر کیا جو کہ تعلمیات محمدی ؐ کے بھی عین مطابق تھے تو آپ ؐ نے نہ صرف ان کی تعریف و توثیق فرمائی بلکہ یہ بھی فرمایا کہ یقینا جو کوئی ان اصولوں کے مطابق لڑے گا وہ ہمیشہ غالب رہے گا۔اس طرح وفد کے اراکین آپ ؐ کی تعلیمات سے مطمئن ہوئے اور آپ ؐ کی صحبت سے مزید اکتساب فیض کے لیے چند دن ٹھہرے۔
عبدالقیس کا وفد ،عبداللہ بن عوف الاشج کی قیادت میں بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوا۔آپؐ کو بتایا گیا کہ یہ عبدالقیس کا وفد ہے۔آپؐ نے ان کو مرحبا کہااور فرمایا: عبدالقیس بھی کیسی اچھی قوم ہے۔ان لوگوں نے آپؐ کو سلام کیا ۔ آپؐ نے ان کو دعوت اسلام دی اور وہ مشرف باسلام ہوئے۔ رسولؐ اللہ نے دریافت فرمایا کہ تم میں عبداللہ الاشج کون ہے؟۔عبداللہ ؓ نے عرض کیا: یا رسولؐ اللہ میں حاضر ہوں (وہ کریہ منظر بد شکل تھے)۔ رسولؐ اللہ نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ انسان کی کھال کی مشک نہیں بنائی جاتی البتہ آدمی کی دو سب سے چھوٹی چیزوں کی حاجت ہوتی ہے ،ایک ا س کی زبان اور دوسرا اس کا دل۔
رسولؐ اللہ نے فرمایا: اے عبداللہؓ تم میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ حضرت عبد اللہ ؓنے عرض کیاکہ وہ کون سی؟ حضورؐ نے فرمایا:حلم اور وقار ۔ انھوں نے عرض کیا کہ یہ چیز پیدا ہو گئی ہے یا میری خلقت اسی پر ہوئی ہے۔آپؐ نے فرمایا کہ تمھاری خلقت اسی پر ہوئی ہے۔
اس تبلیغی وفد کی آمد اور ان کے ساتھ آپؐ کے دعوتی اسلوب او رانسانی نفسیات کے لحاظ کی چند باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں۔
۱- سب سے پہلے قبیلہ عبدالقیس کے وفد کی آمد پر خوش آمدید کہا۔
۲- اس وفد اور اس کے رئیس کی مدح و توصیف فرمائی۔
۳- اس کے رئیس و قائد حضرت عبداللہؓ بن عوف الاشج ،جو بظاہر بدشکل ہیں ان کی ظاہری شکل و صورت کے برعکس ان کی داخلی صفات اور خوبیوں کا ان سب اراکین وفد کے سامنے ذکر فرمایا کہ حقیقت میں اصل خوب صورتی اور حسن ،رنگ ونسل کا نہیں بلکہ وہ اخلاق حمیدہ ہیں جن سے انسان متصف ہوتا ہے‘ اور حضرت عبداللہؓ الاشج میںجو دو خصلتیں اورخوبیاں(حلم اور وقار) ہیں یہی ان کی خوب صورتی اور حسن ہے۔اس طرح آپ ؐ نے ان کی صفات حمیدہ کا ذکر کر کے ان کے (inferiority complex)کو ختم کیا۔
۴- تمام اہل وفود کو انعامات و عطیات سے نوازا اور حضرت عبداللہؓ الاشج کو جو کہ وفد کے رئیس تھے سب سے زیادہ انعام دلایا۔(بخاری ‘ مسلم‘ طبقات ابن سعد۱/ ۳۱۵، رزقانی ، ۵/۱۳۳)
بعض دفعہ اہل وفد یا وفد کے کسی خاص فرد میں کوئی عیب ،برائی یا جاہلیت کا مظاہرہ دیکھتے تو حکمت اور نفسیات انسانی کالحاظ رکھتے ہوئے اس کی طرف اشارہ فرمادیتے تاکہ اہل وفد عموماً اور وہ فرد خصوصاً اس سے اجتناب کرے۔
وفد بلہجیم میں ابو جری جابر بن سلیم جو کہ وفد کے قائد تھے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ ایک قطری تہبند باندھے ہوئے تھے ۔اس کے کنارے قدموں تک تھے جس سے تکبروغرور ظاہرہوتا ہے۔انھوں نے عرض کیا کہ مجھے نصیحت فرمائیں جو مجھے نفع دے تو آپ ؐ نے فرمایا: تم کسی کو گالی نہ دینا۔کسی نیکی کو حقیر نہ سمجھنا گو اسی قدر ہو کہ تم اپنے ڈول سے کسی پیاسے کے برتن میں پانی ڈال دو یا اپنے بھائی سے شگفتہ روئی سے بات چیت کرو۔اپنا تہبند (یا ازار) پنڈلیوں تک اونچا رکھو اور تہبند کو زیادہ نیچا لٹکانے سے پرہیز کرو کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے اوراللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں ۔ (ابوداؤد، کتاب اللباس ، باب ما جاء فی اسبال الازار، رقم حدیث ۳۵۶۲)
یہاں بھی آپ ؐ نے براہ راست اور آغاز گفتگو ہی میں مدعو کے تکبرانہ لباس پر تنقید نہیں کی بلکہ جب خود ہی مدعو نے نصیحت کا مطالبہ کیا ،جو اس کے لیے نفع بخش ہو تو آپؐ نے دیگر مواعظ کے علاوہ تہبند لٹکانے سے پرہیز کی نصیحت کی جس سے مدعو پر نفسیاتی اثرہوا۔
وفد جعفی کے دوافراد حاضر خدمت ہوئے اور اسلام قبول کیا۔آپ ؐ نے ان سے فرمایاکہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم دل نہیں کھاتے۔انھوں نے عرض کیا آپ ؐکی اطلاع درست ہے۔واقعی ہم دل نہیں کھاتے۔آپؐ نے فرمایا: ’’تمھارا اسلام دل کھانے سے مکمل ہو گا۔‘‘ پھر آپ ؐنے ان دونوں کے لیے دل منگوایا اور اسے بھونا پھر آپ ؐنے ان کو کھانے کے لیے دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسولؐ اللہ ان کو یہ تعلیم دینا چاہتے تھے کہ کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام نہیں کر لینا چاہیے۔ (طبقات ابن سعد ‘۱/۳۶۴)
اہل وفد میں سے کوئی رکن عقلی توجیہ وتوضیح کرتا تو آپؐ اس کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے او ر اس کی تعریف فرماتے۔
وفد بنی قشیر بن کعب کے سردار قرۃ بن ہبیرہ حاضر خدمت ہوئے ایمان لائے اور پھر کہنے لگے: یا رسولؐ اللہ ہم نے زمانۂ جاہلیت میں اللہ کے سوا کچھ اورخدابنا رکھے تھے۔ان میں سے کچھ مذکر (بت)تھے اور کچھ مؤنث(مورتیاں)۔ہم ان کو پکارا کرتے تھے مگر وہ جواب نہ دیتے تھے ۔ہم ان سے سوال کرتے تھے مگر وہ ہمارا سوال پورا نہ کرتے تھے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا تو ہم ان کو چھوڑ کر آپؐ کے پاس آئے اور آپؐ کی دعوت قبول کر لی۔ رسول اللہ ؐ ان کی بات سنتے رہے اور اس کو پسند فرمایا ۔پھر حجۃ الوداع کے موقع پر یہ اپنے قبیلے کے ساتھ آئے اور ایک پست اونٹنی پر سوار تھے۔حضورؐ نے ان کو دیکھ لیا اور ان کو پکارا۔جب وہ قریب آئے تو آپؐ نے ان سے پوچھا ،جب تم وفد کے ساتھ میرے پاس آئے تھے تو تم نے کیا کہاتھا؟انھوں نے اپنی مذکورہ بالا باتیں دہرائیں ۔جب جانے لگے تو آپ ؐنے فرمایا: ’’جس کو عقل دی گئی وہ کامیاب ہو گیا‘‘۔(ابن الاثیر ، اسد الغابۃ ، ۴/۴۰۲ بذیل قُرہ بن ھبیرۃ)
گویا اب بھی تم ان بتوں کے بارے میں یہی رائے رکھتے ہو ۔تم نے عقل و شعور سے ان معبودانِ باطل کی تردید کی جو نہ کوئی نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان ہی پہنچا سکتے ہیں۔ عقل و شعور بہت بڑی نعمت ہے اور جس نے اس سے کام لیا یقینا و ہ کامیاب و کامران ہوا۔اس طرح رسولؐ اللہ نے ایک تو مجمع عام میں صحابی محترمؓ کے کلمات دہرانے سے توحید کی اہمیت واضح فرما دی‘ اور پھر یہ بھی بتایا کہ نہ صرف ان کی شخصیت کو آپ ؐ اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ ان کلمات اور باتوں کو بھی آپ ؐ جانتے ہیں جو انھوں نے آپؐ کے سامنے کی تھیں۔
بعض وفود میں سے کوئی رکن یا فرد حاضر خدمت ہوتا تو آپ ؐ سے سوال کرتا اور آپ ؐ فوراً اس کا جواب نہ دیتے بلکہ اسی سے اس کے سوال کا جواب طلب فرماتے تاکہ وہ اس کی خود ساختہ وضاحت کر دے جو اس کے ذہن میں ہے۔اس طرح اگر وہ جواب مزاج شریعت کے مطابق ہوتا تو آپؐ اس کی تصدیق فرما دیتے اور اس کی مزید تائید فرماتے۔اس طرح کے ناصحانہ طریقے سے دی جانے والی دعوت اتنی موثر ہوتی کہ اس کی نظیر نہیں۔مدعو جب اپنی فکر وآرا کی تصدیق پا لیتا ہے‘ یا اس کے اپنے ذہن و فکر کے زاویے کی توثیق ہوجاتی ہے تو اس کا دل خوشی و مسرت سے جھومنے لگتا ہے اور وہ مزید اشتیاق و استقامت سے راہ مستقیم پرچلنا شروع کر دیتا ہے۔ چنانچہ ان دعوتی وفود کی آمد اور آپؐ سے ان کے مکالمات کا اس نقطہء نظر سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ آپؐنے اس نفسیاتی اسلوب کے مطابق دعوت دی ۔اس کی چند ایک مثالیں درج ذیل ہیں۔
بنی طے کے رئیس‘زیدا لخیل حاضر خدمت ہوئے ،اسلام قبول کیا اور عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! نودن کی دشوار گذار مسافت طے کر کے آیا ہوں ۔صرف دو باتیں دریافت کرنا ہیں۔آپؐ نے فرمایا:جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھو؟
انھوںنے عرض کیا،جو شخص اللہ تعالیٰ کو چاہتا ہے اس کی کیا علامت ہے او ر جو اللہ کو نہیں چاہتا اس کی کیا علامت ہے(بروایت دیگر جسے اللہ چاہتا ہے او رجسے نہیں چاہتا اس کی کیا علامت ہے؟)حضورؐ نے فرمایا: ’’تم زندگی کے شب وروز کیسے گزارتے تھے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: ’’میں نیکی اور نیکی کرنے والوں اور اس پرعمل کرنے والوں کو پسند کرتا تھا۔اگر میں اس پر عمل کرتا تھا تو اس سے طمانیت ہوتی تھی اور جب یہ عمل چھوٹ جاتا تھا تو غمگین ہو جاتاتھا۔‘‘ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جو اللہ کو چاہتا ہے اور جو نہیںچاہتا اس کی یہی علامت ہے‘‘۔(سبل الھدیٰ والرشاد ،۶/۳۵۸ وابو نعیم ، الحلیۃ الاولیاء، ۴/۱۰۹، الھیثمی ، مجمع الزوائد ، ۷/۱۹۷)
جب وہ اس بات سے مطمئن ہوئے تو آپؐ سے رخصت لی۔آپؐ نے ان کو بارہ اوقیہ چاندی اور عمدہ خوشبو عنایت فرمائی اور ان کے بارے میں فرمایا: ’’عرب کے جس شخص کی بھی فضیلت بیان کی گئی پھر و ہ میرے پاس آیا تو جو کچھ اس کے بارے میں کہا گیا تھا، میں نے اسے اس سے کم تر پایا سوائے زید کے۔(ابن سعد ، الطبقات الکبریٰ ۔ ۱/۳۲۱)
رسولؐ اللہ کی ساری سیرت اس بات کی دلیل ہے کہ آپؐ نے د عوت و تبلیغ میں بھی ہمیشہ مدارج کا لحاظ رکھاہے۔مخلص اور منافق،متقی اور غیر متقی کے ساتھ آپ ؐ ایک طرح کا سلوک نہیں کرتے تھے‘نہ ا س کو پسند کرتے تھے۔یہ وفود قبائل کی طرف سے اسلام قبول کرنے کے لیے آتے تھے مگر ان کے ساتھ سلوک ان کے مدارج اور خلوص کے اعتبار سے ہوتا تھا۔
حضر موت سے حضرت وائلؓ بن حجر کی قیادت میں ایک وفد بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوا۔ حضرت وائل ؓبن حجر اپنے علاقے کے سر برآوردہ رئیسوں میں شمار ہوتے تھے۔ان کے وُرودِمدینہ سے پہلے ہی حضورؐ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا: ’’وائل بن حجر نے‘ جو ملوک حضر موت کی یاد گار ہیں ‘ اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لی ہے اور وہ دور دراز کی مسافت طے کر کے مدینہ آرہے ہیں۔
جب وہ مدینہ منورہ پہنچے تو حضورؐ نے ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا او ر اپنی رداے مبارک ان کے لیے بچھا دی ۔جب وہ ذوق وشوق سے اسلام قبول کر چکے تو اس موقع پر آپؐ نے اپنا دست ِاقدس ان کے چہرے پر پھیرا اور ان کے لیے دعا فرمائی۔الٰہی وائل ،ان کی اولاد اور اولاد کی اولاد پر برکت نازل فرما اور ان کو حضرموت کے سرداروں کا حاکم بنا۔ (تفصیل کے لیے: سبل الھدیٰ والرشاد ۶/۴۳۱)
آپؐ کی خدمت میں قبیلہ تجیب کے ۱۳ آدمی حاضر ہوئے اور اپنے ساتھ اپنے مویشی اور اموال میں سے صدقات جو ان پر فرض تھے وہ خود لے کر آئے اور عرض کیا: یا رسولؐ اللہ! ہمارے اموال میں جو اللہ کا حق تھا وہ ہم آپ ؐ کے پاس لے آئے ہیں۔حضورؐ بہت خوش ہوئے اور فرمایاکہ اس کو واپس لے جاؤ او راپنے ہی یہاں کے فقرا پر تقسیم کرو۔انھوں نے کہا کہ یا رسولؐ اللہ! ہم آپؐ کے پاس وہی مال لائے ہیں جو وہاں کے فقراء پر تقسیم کرنے کے بعد بچا ہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے جب ان کا یہ جواب سنا تو فرمایا کہ یا رسولؐ اللہ! عرب کا کوئی وفد ایسا نہیں آیا جیسا اس قبیلہ تجیب کا وفد۔ حضورؐ نے فر مایا: ہدایت خدا کے اختیا ر میں ہے جس کے لیے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اس کے قلب میں ایمان کے لیے انشراح پیدا کر دیتا ہے۔
اس کے بعد انھوں نے رسولؐ اللہ سے کچھ باتیں پوچھیں جو حضورؐ نے ان کے لیے لکھ دیں۔ اس کے بعد پھر انھوں نے قرآن اور سنت کے متعلق کچھ سوالات کیے۔اس سے اور بھی ان کے ساتھ رسولؐ اللہ کو رغبت پیدا ہوئی اور آپؐ نے حضرت بلال ؓ کو حکم دیا کہ ان کی ضیافت بہت اچھی طرح کریں۔ حضرت بلال ؓ نے رسولؐ اللہ کے حکم سے ان کو بدلہ اور زاد ِراہ اس سے زیادہ دیا جتنا عموماً وفود کو دیا کرتے تھے۔ (سبل الھدیٰ والرشاد، ۴/۲۱۵ ، ابن سعد ۱/۳۲۳)
اخلاق ایک طاقت ہے بلکہ سب سے بڑی طاقت ہے۔ اچھا سلوک دشمن کو دوست بنا سکتا ہے۔ایک میٹھا بول ایک سرکش آدمی سے اس کی سرکشی چھین سکتا ہے۔ایک ہمدردانہ برتاؤ ایک ایسے جھگڑے کو ختم کر سکتا ہے جس کو ختم کرنے کے لیے لاٹھی او رگولی کی طاقت ناکام ہو چکی ہو۔یہی وہ بات ہے جس کو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے:
وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o (حم السجدہ ۴۱:۳۴)
اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔
وفود کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز نے ان کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ آپؐ کا حسن سلوک اور اخلاق حسنہ تھا ۔جو بھی آپؐ کے قریب رہتا آپؐ سے محبت کرنے لگتا ۔حلم ووقار ،رافت و رحمت‘ برداشت وسچائی،حسنِ سلوک آپ ؐ کے اندر کا مل درجے میں پایا جاتا تھا ۔آپؐ انسانی بلندی کی اعلیٰ ترین مثال تھے جسے نفسیات کی اصطلاح میں متوازن شخصیت (balanced personality)کہا جاتا ہے۔
۱- بعض وفود خصوصاً آپؐ کے حسن سلوک سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ایمان لے آئے۔حالانکہ وہ صلح وامن امان کے لیے آپؐ کے پاس حاضر ہوئے تھے ۔انھی میں سے ایک وفد قبیلۂ اشجع کا تھا جو ۵ھ میں بارگاہِ رسالتؐ میںآیا۔
ایک سو یا اس سے زیادہ آدمیوں پر مشتمل یہ وفد مدینہ منورہ آیا۔ آپؐ کو ان کی آمد کی اطلاع ملی تو آپؐ نے اس بات کا انتظار نہ فرمایا کہ وہ خود بارگارہ نبویؐ میں حاضرہوں بلکہ آپؐ خود ان کے پاس تشریف لے گئے۔ خیرو عافیت پوچھی اور بڑی دیر تک کمال اخلاق اور محبت کے ساتھ ان سے گفتگو فرماتے رہے ،پھر صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ اپنے مہمانوں کی کھجوروں سے تواضع کر و ۔وہ لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپؐ نے انہیں بڑی نرمی کے ساتھ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ انھوں نے جواب دیا ۔محمدؐ! ہم اسلام قبول کرنے کے لیے نہیں آئے ۔ہماری آمد کی غرض و غایت یہ ہے کہ آپؐ سے امن اور صلح کا معاہدہ کریں کیونکہ آپؐ کی اور آپؐ کی قوم کی آئے دن کی لڑائیوں نے ہمیں سخت پریشان کر رکھا ہے۔
رحمت عالمؐ نے خندہ پیشانی سے فرمایا:’’جو تم کہتے ہو وہ ہمیں منظور ہے ‘‘ چنانچہ امن کا ایک معاہد ہ لکھا گیا ۔ جس کو فریقین نے منظور کر لیا ۔اس دوران میں اہل وفد حضورؐ کے اخلاقِ کریمانہ سے اتنے متاثر ہوچکے تھے کہ معاہدہ صلح معرض ِتحریرمیں آنے کے معاًبعدوہ سب پکار اٹھے:
اے محمد ؐ!’’آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور آپؐ کا دین برحق ہے‘‘ ۔(ابن سعد۱/۳۰۶، بلاذری، انساب الاشراف ۱/۵۳۱، سبل الھدیٰ والرشاد ۶/۲۷۳)
آپ کے حسن معاملہ اور اخلاق عالیہ نے انھیں تسخیر کر لیااور سب کے سب دولتِ اسلام سے بہرہ یاب ہو کر اپنے گھروں کو لوٹے اور پیغام بر ہو گئے۔
بنی سعد بن بکر کی طرف سے حضرت ضمامؓ بن ثعلبہ آپؐکی خدمت میں حاضر ہوئے ۔وہ اپنے قبیلے کے سربراہ اور نہایت دانا آدمیوں میں شمارہوتے تھے ۔اس لیے دربار رسالت میں اہل قبیلہ نے اپنی وکالت کے لیے صرف انھیں ہی بھیجنا کافی سمجھا۔وہ بدوی سادگی کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچے اور اپنی ناقہ کی مہار تھامے بلا تکلف مسجد بنویؐ میں داخل ہوگئے۔حضورؐ اس وقت صحابہ کرام ؓ کے حلقے میں تشریف فرماتھے۔حضرت ضمامؓ نے اونٹنی کو ایک کونے میں بٹھایا اور مجلس کے سامنے کھڑے ہوکر سلام کلا م کے بغیر یوں گویا ہوئے: تم میں سے کون ابن عبدالمطلب ہے (ایکم ابن عبدالمطلب )آپؐ نے فرمایا: میں ابن عبدالمطلب ہوں ۔حضرت ضمام ؓنے کہا: اے ابن عبدالمطلب آپؐ کا داعی ہمارے پاس آیا تھا۔اس نے چند باتیں آپؐ کی طرف سے ہمیں بتائی ہیں۔میں ان کی آپؐ سے تصدیق کرنا چاہتا ہوں ۔میرا لہجہ سخت اور درشت ہے۔میں سختی سے بات کروں گا۔آپؐمیرے لہجے کی درشتی سے دل میں غبار نہ لائیے گا۔ حضور ؐ نے فرمایا: تم جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو بلا تکلف پوچھو۔ پھر وہ سوال کرتے ہیں اور حضورؐ نہایت ہی اطمینان سے ان کے ہر سوال کا جواب مرحمت فرماتے ہیں حالانکہ پورے مکالمے میں سائل کا لہجہ درشت رہتا ہے۔تعلیم وتحمل کا یہ طریقہ اس طرح کاریگر ثابت ہوتا ہے کہ وہ شخص بے ساختہ پکار اٹھتا ہے:
اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو صادق نبی بنایا،میں آپؐ کی بتائی ہوئی باتوں میں کمی بیشی نہ کروں گا۔ میں آپؐ کا دین قبول کر چکا ہوں ،میں اپنی قوم کا قاصد ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے۔(بخاری)
آپ کے حسن اخلاق‘ حسن معاملہ اور قبائل عرب کے ساتھ حکمت بھری دعوت کا فوری اثر یہ ہوا کہ اسلام کی دعوت پورے جزیرہ نماے عرب کے گوشے گوشے میں پھیل گئی۔ جب یہ وفود تعلیم نبویؐ اور تربیت نبویؐ سے مزین ہو کر اپنے اپنے علاقے اورقبیلے میں واپس جاتے تو اسوئہ نبویؐ کے مطابق ہی دعوت دیتے۔ اپنے اہل خانہ ‘ بچوں اور پھر پورے قبیلے کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کراتے۔
ان دعوتی و تبلیغی وفود کے مطالعے سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ دعوت و تبلیغ کا تعلق صورت حال سے بھی گہرا ہوتا ہے۔ وقت‘ حالات اور مخاطب کے رجحانات و میلانات کو بھی مدنظر رکھنا کس قدر ضروری ہے تاکہ اس اصل فریضہ کی ادایگی موثر طریقے سے کی جا سکے؟ اور مخاطب کے احوال و حالات کی آگاہی کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھ ہمدردی و تعاون‘ اور اُس کی ضروریات کا لحاظ رکھنا بھی کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ بلاشبہہ وفود عرب کے ساتھ آپؐ کا طریقۂ دعوت جہاں ہمارے لیے دعوتی و تربیتی سرگرمیوں میں اسوہ حسنہ ہے وہاں اس سے تنظیم دعوت ‘ حکمت دعوت کی اہمیت بھی اُجاگر ہوتی ہے۔
انسان کی طبعی کمزوریوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیات میں کیا ہے۔ یہ طبعاً حریص ہے اور بخیل ہے۔ خواہشات نفس اور ترغیبات نفسانی کی طرف کھچ جاتا ہے اور حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے حدود کو بھی پھلانگ جاتا ہے۔انسان جلد باز ہے۔ دور کے فائدے کی بجائے نظر آنے والے فوری فائدے اور نفع کی طرف لپکتا ہے۔ اجتماعی اورملّی فائدے کے بجائے ذاتی فائدے کو وقعت دیتا ہے۔
وَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ط (النساء ۴:۱۲۸) نفس تنگ دلی کی طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں۔
اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلاً o (الاحزاب ۳۳:۷۲) بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔
وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا o (النساء ۴:۲۸) کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔
اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًا o اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا o وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا o (المعارج ۷۰:۱۹-۲۱) انسان تُھڑدلا پیدا کیا گیا ہے‘ جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرا اُٹھتا ہے اور جب اسے خوش حالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ط (الانبیاء ۲۱:۳۷) انسان جلد باز مخلوق ہے۔
کَلاَّ بَلْ لاَّ تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ o وَلاَ تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلاً لَّمًّا o وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا o (الفجر ۸۹: ۱۷-۲۰) ہرگز نہیں‘ بلکہ تم یتیم سے عزت کا سلوک نہیں کرتے ‘ اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں اُکساتے ‘ اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو‘ اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد احادیث میں انسان کے اس طبعی بخل اور مال کے حرص کا ذکر کیا ہے اور اس کی تباہ کاریوں کی طرف متوجہ کیا ہے اور ان کا علاج کرنے کے لیے انسان کو دنیا و مافیہا سے ماورا بلند مقاصد اور ذاتی کی بجائے اجتماعی مقاصدکی طرف ترغیب دلائی ہے۔
ترغیبات نفسانی میں مال کی حرص ‘ جنسی حرص اور اقتدار کی حرص بنیادی ترغیبات ہیں۔ قرآن دنیا کی زندگی کو زینت‘ ایک دوسرے پر فخر کرنے اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے سے تعبیر کیا ہے:
اِعْلَمُوْآ اَنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ وَّزِیْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌ م بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلاَدِ ط(الحدید ۵۷:۲۰) خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمھارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔
قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کمزوریوں کی نشان دہی کے ساتھ ان کے مضر اثرات سے بچنے اور ان طبعی میلانات کو مثبت اور بلند مقاصد کے حصول کی طرف موڑنے کا عملی راستہ دکھایا گیا ہے۔اس کے برعکس مغرب کی مادہ پرستانہ تہذیب نے انسان کے اس طبعی حرص اور بخل اور زینت و تفاخر اور تکاثر اور ترغیبات و خواہشات نفس کو مہمیز لگا کر انسان کو ان کی خاطر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور مادی سہولتوں کے حصول کی خاطر محنت کرنے کا عادی بنایا ہے۔ چنانچہ ان کا مشہور مقولہ ہے: Work like donkey and eat like king.گدھے کی طرح محنت کرو اور بادشاہ کی طرح کھائو۔
بعض لوگوں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام چونکہ ترغیبات و تحریصات کو مہمیز لگا کر زیادہ محنت پر آمادہ کرکے جسمانی اور ذہنی قویٰ کو حرکت دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسلامی تعلیمات قناعت اور زہد اختیار کرنے کی تلقین پر مشتمل ہیں‘ اس لیے مادی طور پر مغرب نے ترقی کی ہے اور مسلمان پس ماندہ رہ گئے ہیں۔
اسلامی معاشیات پر کام کرنے والے مسلمان معاشی مفکرین کا فرض ہے کہ اس مسئلے کے حل کی طرف توجہ دیں اور ان بنیادی معاشی ترغیبات کی نشان دہی کریں جن کی بنا پرمسلمان زیادہ مفید پیداواری محنت پر آمادہ ہو سکیں۔ معاشی ترقی قوت ہے اور قوت کے بغیر مسلمانوں کی موجودہ پستی دُور نہیں ہو سکتی۔ حقیقی آزادی کے لیے معاشی احتیاج سے نکلنا لازمی ہے۔ آزادی اور احتیاج ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ قومی خود مختاری (sovereignty)کے لیے معاشی خود کفالت حاصل کرنا لازم ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دشمن سے مقابلے کے لیے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیا ہے (الانفال ۸: ۶۰)یہ ہدایت بنیادی طور پر جنگی قوت سے متعلق ہے لیکن آج کے دور میں جنگی قوت علمی اور معاشی قوت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اخلاقی قوت‘ علمی قوت اور معاشی قوت ایک مضبوط دفاعی قوت کے لیے لازم ہیں۔ اسی آیت کے دوسرے حصے میں اس تیاری کے حکم کے معاً بعد اس ارشاد : وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ o (اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمھاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہو گا۔ الانفال ۸: ۶۰) میں ایک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جہاد کی اس تیاری کے لیے انفاق ضروری ہے اور انفاق مالی استعانت اور معاشی قوت پیدا کیے بغیر محال ہے۔ مقابلے کی کم از کم قوت کے لیے مقابلے کے عسکری اور مالی دونوں ہی وسائل دین اور اہل دین کی ضرورت ہیں۔
اگر مسلمان مرد ‘ عورتیں اور نوجوان نسل اس بنیادی جذبے سے سرشار ہو جائیں کہ انھوں نے دنیا میں عدل و انصاف کی سربلندی‘ اعلاے کلمۃ اللہ اور انسانیت کی رہنمائی کے لیے قوت حاصل کرنی ہے تو وہ ذاتی حرص اور ترغیبات نفسانی کے منفی اثرات سے بچ سکتے ہیں۔ ان کے ذاتی تقویٰ‘ قناعت اور زہد و ورع میں بھی کمی نہیں آئے گی اور وہ علمی اور معاشی میدان میں بلند تر مقصد کے لیے مادہ پرستوں سے آگے بڑھ کر زیادہ محنت اور جانفشانی سے کام کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ یہ حقیقت میں جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔ جہاد فی سبیل اللہ کو اس وسیع تر مفہوم میں سمجھنے سمجھانے اور اسے اسلامی تعلیم و تربیت کا ایک لازمی حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔
قرآن کریم اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں متعدد مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ آپؐ نے جاہلی جذبات کو خدا پرستی اور اللہ سے محبت کی طرف موڑا ہے۔
ایام جاہلیت میں حج کے موقع پر عرب قبائل اپنے اپنے شعرا کے ساتھ شرکت کرتے تھے اور اپنے آباواجداد کے کارنامے بیان کر کے ان پر فخر کرتے تھے۔ اللہ نے حکم دیا کہ جس طرح تم اپنے آباواجداد کا ذکر کرتے تھے اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اللہ کا ذکر کرو۔
فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآئَ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا ط (البقرہ ۲:۲۰۰) پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو‘ تو جس طرح پہلے اپنے آباو اجداد کا ذکر کرتے تھے‘ اسی طرح اب اللہ کا ذکر کرو‘ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔
قبائلی تفاخر کو اللہ کے راستے میں جہاد اور قربانی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے استعمال کیا۔ اللہ کی رضا اور جنت کی نعمتوں کے حصول کے لیے اللہ کے راستے میں جہاد کو ذریعہ قرار دیا اورفرمایا: وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ o (المطففین ۸۳: ۲۶) ’’جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں وہ اس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں‘‘۔
قناعت اور زہد کا یہ تصور سراسر غیر اسلامی ہے کہ مسلمان محنت نہ کرے۔ قناعت کا حقیقی تصور یہ ہے کہ محنت کر کے کمائے‘ بقدر ضرورت اپنے لیے رکھے اور باقی معاشرے کے ضرورت مندوں اور اجتماعی مفاد کی طرف لوٹا دے۔
پشتو کے مشہور صوفی شاعر رحمن بابا کا ایک شعر ہے ؎
’’دَ دلبرو و صدقے لرہ ئے غواڑم
ھسے نہ چہ پۂ دنیا پسے زھیریم
میں دنیا کا حریص نہیں ہوں۔ اس کی طلب اس لیے کرتا ہوں کہ اسے محبوب مقاصد کی خاطر صدقہ کرسکوں۔
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے ایک ہی مصرعے میں دین اور دنیا کو کس خوبصورتی کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’از کلید دین در دنیا کشاد‘‘۔ انھوں نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا‘ یعنی دین الگ اور دنیا الگ نہیں ہے بلکہ دین ‘دنیا کی زندگی گزارنے کا سلیقہ ہے۔ بھلا جو دنیا کی زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھاتا ہے وہ کیونکریہ تعلیم دے سکتا ہے کہ دنیاوی ترقی کو دوسروں کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ یہ تو بنیادی تعلیم ہے کہ الاسلام یعلو ولا یعلی‘ اسلام بالادستی چاہتا ہے دوسرے نظاموں کی بالادستی قبول نہیں کرتا۔
مسلمانوں کے معاشی مفکرین کا فرض ہے کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی ترغیبات کے مقابلے میں اسلامی تصورات عالمی سطح پر شرح و بسط سے پیش کریں۔ اس وقت عالم اسلام میں بیداری کی لہر ہے۔ جہادفی سبیل اللہ کا جذبہ اس حد تک بیدار ہو گیا ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں جان کی قربانی اور شہادت کی موت کے لیے آمادہ ہیں۔ اس جذبے کو صحیح سمت دینے کی ضرورت ہے اور مسلمان نوجوانوں کو اسلام کی خاطر مرنے کی تمنا کے ساتھ ساتھ اسلام کی خاطر جینے کا سلیقہ سکھانے کی ضرورت ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے: اللھم احینی سعید او امتنی شھیدًا‘ ’’اے اللہ! مجھے سعادت کی زندگی و شہادت کی موت عطا فرما‘‘۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اس کی قدر کرنا مسلمان کا فرض ہے۔ اس کی صحیح قدر کرنا یہی ہے کہ اس کے ایک ایک لمحے کو مفید مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ اپنے اوقات کو کسی مفید کام میں صرف کرنا وقت کو ضائع ہونے سے بچانا ہے۔ مفید کام کا دنیوی فائدے کے ساتھ آخرت میں بھی اجر ملے گا۔ یہ بات اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص ایک پودا زمین میں لگانے کے لیے بیٹھا ہو اور اتنے میں قیامت قائم ہو جائے لیکن تمہارے پاس اتنی مہلت ہے کہ پودا زمین میں لگا کر کھڑے ہو جائو تو پودا لگا دو‘ کیوں کہ اس پر تمھیں اجر ملے گا۔یعنی دنیا کا ایک ایک لمحہ اتنا قیمتی ہے اور اس کا استعمال آخرت کے اجر کے لیے اتنا مفید اور ضروری ہے کہ تمھیں معلوم ہے کہ قیامت قائم ہوگئی ہے‘ اب اس پودے کی نشوونما کا کوئی موقع نہیں ہے لیکن دنیا تو آخرت کی کھیتی ہے اس لیے کاشت کے موقع کو ضائع نہ کرو۔ پھل آخرت میں ملے گا۔ (الدنیا مزرعۃ الآخرۃ)
آج جہاد اور شہادت کے جذبے سے سرشار مسلمان نوجوان کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اس وقت اگر مغربی تہذیب کو غلبہ حاصل ہے تو اس کی پشت پر صدیوں کی منصوبہ بندی ‘ باہم مربوط کوششیں‘ آزادانہ علمی اور سائنسی تحقیق‘ سائنسی اور علمی اداروں کا قیام‘ یونی ورسٹیوں کا قیام‘ مشترک قومی مقاصد کا تعین اور ان کے حصول کی خاطر فروعی اور گروہی اختلافات سے بالاتری اور اس قبیل کی تدابیر کی قوت کارفرما ہے۔ بلاشبہ مغربی تہذیب میں اپنے نکتۂ عروج کو چھونے کے بعد زوال کے آثار پائے جاتے ہیں کیونکہ اس کی اخلاقی بنیادیں کمزور ہیں لیکن اس وقت مسلمانوں میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ اس کی جگہ لے سکیں۔ محض تخریب اور دوسروں کو نقصان پہنچانے سے ہم انسانیت کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ نہیں بن سکتے‘ نہ وہ بلند مقاصد حاصل کر سکتے ہیں جن کے لیے امت مسلمہ اٹھائی گئی ہے۔
اس کے لیے جہاد فی سبیل اللہ اور شہادت کے جذبے اور تمنا کو عمل میں ڈھالنے کے لیے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تدابیر اختیار کرنی پڑیں گی۔ ان تدابیر میں معاشی خود کفالت حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ اس کے لیے اسلامی ممالک کی معاشی منصوبہ بندی کرنے والوں کو نئے راستے اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ان کی تشفی ضروری ہے کیونکہ ان کی تربیت مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہوئی ہے اور وہ اس سے آگاہ نہیں ہیں کہ مغربی معاشی تصور میں انسان کی حرص اور بھوک کو بڑھا کر جس طرح اسے زیادہ محنت پر آمادہ کیا جاتا ہے ‘ اسلام کے پاس اس سے بہتر راستہ ہے جس سے مسلمان کو اخلاقی‘ علمی اور مادی کاوش اور قربانی کے لیے آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
ضرورت ہے کہ اس پورے تصور کو ہمارے تربیتی اور تعلیمی نظام کے ایک بنیادی جزو کے طور پر متعارف کرایا جائے۔ صدیوں کے انحطاط سے دین اسلام کے بنیادی پہلو نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں اور رہبانیت‘ ترک دنیا اور اس کے مختلف مظاہر کو ولایت اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کا اصل ذریعہ جہاد فی سبیل اللہ کے وسیع تر مفہوم کے ساتھ‘ ہر طرح کی اخلاقی ‘ علمی اور مادی و معاشی کاوش ہے‘ مسلمانوں کی روحانی‘ اخلاقی اور مادی ترقی اس کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے۔