بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یکے بعد دیگرے سیاسی اور معاشی بحرانوں سے گزرنے کے نتیجے میں ملکِ عزیز ایک گہرے نظریاتی بحران کی طرف جا رہا ہے۔ اس غیریقینی صورتِ حال میں نوجوان مروجہ جمہوریت سے بیزار ہو کر تبدیلی کے دیگر نظریات کو اپنانے پر غور کر رہے ہیں۔ معاشی پریشانی جو ہماری اپنی پیدا کردہ ہے اور بر سرِ اقتدار گروہ کی نا عاقبت اندیشی اور نا اہلیت کی اذیت ناک مثال ہے۔ ملک کے بعض ماہرینِ معاشیات کے مطابق صرف سات سال میں ہم اس سے نجات حاصل کر سکتے ہیں، لیکن ضرورت صرف پختہ عزم ،صیحح سمت کے تعین اور اخلاص و قربانی کے ساتھ حصولِ مقصد کی جدوجہد ہے۔ بڑے دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صاحبِ اقتدار افراد، وہ دورِ فراعنہ کے ہوں یا دورِ جدید، ہمیشہ قوت کو ہر مسئلہ کا حل سمجھتے رہے ہیں اور تاریخی تجربات سے سبق لینے کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے عروج و زوال کے جو قوانین پوری کائنات میں نافذ کیے ہیں ،انسان ان سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اگر ایک جنگل میں شیر اپنی خونخواری کے خوف کی بنا پر بقیہ جانوروں کو خائف رکھ کر ان پر حکومت کرتا ہے، تو اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کرتا اور ہرآہٹ پر انجانے خطرات اسے گھیرے رہتے ہیں۔
اس وقت سب سے اہم معاملہ قومی،ملکی اور علاقائی یک جہتی کا ہے۔ عالمی طور پر تسلیم شدہ اصول ہے کہ ملک دشمن بیرونی عناصر ملک کے اندر محرومیت کا احساس رکھنے والے قائدین اور نوجوانوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ ان کے جذبات کی شدت میں جتنا ممکن ہو اضافہ کرتے ہیں، اور ساتھ ہی اپنی طرف سے مکمل مادی، اخلاقی اور سیاسی حمایت کا یقین دلا کر علیحدگی پسندی کی طرف دھکیل دینے میں لگے ہوتے ہیں۔ ملک کے بعض صوبوں کے مقامی قائد جو کل تک قومی مسائل کے حل کی امید رکھتے تھے،اپنی سخت نا امیدی کا اظہار کرتے ہوئے ملک چھوڑ کر جانے پر آمادہ ہیں، لیکن بلند ایوانوں کے مکین شیش محل کو آہنی قلعہ تصور کیے اپنی روش بدلنے پر آمادہ نظر نہیں آتے ۔
حال ہی میں بنگلہ دیش جن تکلیف دہ مراحل سے گزرا اور جس عظیم انسانی جانی قربانی کے بعد ان نوجوانوں نے جنھیں گذشتہ ۵۰ برس سے صرف پاکستان دشمنی کا سبق پڑھایا گیا تھا۔ انھی نوجوانوں نے اس فرد کو جس نے بنگلہ دیش بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا، اس کےمجسمے کو اپنے ہاتھوں سے توڑ کر اپنی سیاسی آزادی کا اعلان کیا ۔یہ تاریخ کا پہلا موقع نہیں ہے کہ جب بھی ناانصافی، استحصال، جمہوری حقوق کی پامالی ،قید و بند اور قوت کے ذریعے اقتدار پر قائم رہنے کی کوشش کی جائے گی، اس کا رد عمل جلد یا بدیر سامنے آئے گا۔ اکثر ایسا رد عمل شدید اور خون آشام ہوتا ہے ، جس کے ممکنہ طور پر واقع ہونے سے برسراقتدارطبقہ ہمیشہ غافل رہتا ہے۔
سیاسی دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ قبل اس کے کہ صبر و برداشت کی حدیں پار کر کے عوام خصوصاً نوجوان ایک ناقابلِ واپسی مقام پر آ جائیں، ملکی سالمیت اور انسانی جان کے احترام کے پیش نظر مسائل کا حل غرور و تکبر کی جگہ گفت و شنید اور مفاہمت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ جب بھی ذاتی اَنا کسی معاملے میں آڑے آئے گی، حالات خراب سے خراب تر ہوں گے۔
نہ صرف نوجوان بلکہ عوام بھی آج گہری مایوسی کا شکار ہیں۔ یہ مایوسی نہ صرف اُن نام نہاد نمائندوں سے ہے، جو انتخابات کے نتائج کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غاصبانہ طور پر پارلیمان تک پہنچے، بلکہ یہ مایوسی نظام سے بھی ہے۔وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ نہ صرف آج بلکہ ماضی میں بھی اس سے ملتے جلتے تماشے سابقہ ممبران پارلیمان کرتے رہے ہیں۔ گویا جمہوریت کے نام پر ایک ڈراما جاری ہے،جس کے کردار ہر تھوڑے عرصے کے بعد تبدیل ہو جاتے ہیں ، یا وہی کردار دوسرا بھیس بدل کر چہروں کو رنگ اور روغن کے ذریعے تبدیل کر کے اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں۔ نظام اور اداروں پر سے اس طرح اعتماد کا اٹھ جانا ملک وملت کے لیے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اگر پاسبان خود راہزن بن جائے تو پھر قانون اور عدل و انصاف کے خوب صورت تصورات بے معنی ہو جاتے ہیں اور ہر فرد اپنے آپ کو قانون کی قید سے آزاد سمجھنے لگتا ہے۔ اس نفسیاتی کیفیت کا عملی تجربہ اگر کرنا ہو تو اسلام آباد ہو یا لاہور یا کوئی اور شہر کے کسی بھی چوراہے پر کھڑے ہو کر مشاہدہ کیجیے کہ جب ٹریفک کا اشارہ سرخ ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے صبر کرو اور دوسرے اطراف کی ٹریفک کو گزرنے دو۔ لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ اس وقت بھی کچھ افراد سرخ بتی کا احترام کیے بغیر اسے توڑتے ہوئے بغیر کسی احساسِ جرم کے اپنی گاڑیاں تیز رفتاری سے لے جاتے ہیں ، کیونکہ ان کی گاڑی اونچی اور زیادہ قیمتی ہوتی ہے اور وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کی تقلید میں بہت سے موٹر سائیکل سوار اور دیگر چھوٹی بڑی گاڑیاں بھی اپنا حق سمجھتے ہوئے اشارہ توڑ کر گزر جاتی ہیں۔ اس روش کے نتیجے میں ہر مصروف سڑک اور چوراہا قانون شکنی کی تصویر بنا ہوا ہے۔
ایک عام شہری میں جب قانون کے احترام کا جذبہ سرد پڑ جائے تو وہ ٹریفک کی سرخ بتی کی پروا نہیں کرتا۔ جس کے نتیجے میں سڑکوں پر افراتفری ، اذیت انگیز بدنظمی پھیل جاتی ہے ۔ ایسے ہی کسی بھی ادارے کا سربراہ جب دستور کے احترام کے بجائے دستور شکنی کی روش اختیار کرتے ہوئے کبھی اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع، کبھی غیر قانونی مراعات و مالی و دیگر مفادات کے حصول اور زیادہ سے زیادہ مدت کے لیے اقتدار میں رہنے کی ہوس کا شکار ہو کرآئین و قانون کی پابندی کی سرخ لکیر سے آگے نکلتا ہے، تو اس کے نتیجے میں اداروں کی سطح پر بد نظمی ، بے قاعدگی اور آئینی و دستوری افراتفری کی صورت حال جنم لیتی ہے ۔ جس کا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے ۔
ہماری قومی تاریخ ذاتی مفادات کے لیے بدترین آئین و قانون شکنی کے تلخ واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ جس کے نتیجے میں ملک بھی دو لخت ہوا اور عوام الناس کو بھی جان ومال کے بدترین نقصانات اٹھانے پڑے ۔آج بھی ملک کے اکثر حصے آئین اورقانون کے عدم احترم اور اداروں کی بے راہ روی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان واقعات کا تسلسل اہلِ اقتدار اور اداروں کے ذمہ داروں کی بے حسی ، خود پرستی اور ملک و قوم سے کیے جانے والے آئینی حلف سے رُوگردانی کی نشان دہی کرتا ہے۔ جب قوم جبرو نا انصافی اور اصحابِ اقتدار کی بے حسی اور قانون شکنی کو دیکھتی ہے، تو وہ بھی قاعدوں اور ضابطوں کی سرحدیں عبور کر جاتی ہے۔
لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اداروں کو اپنی حدود میں رہنا سیکھنا چاہیے اور ہر شہری میں قانون اور دستور کے احترام کا جذبہ ہمہ وقت زندہ رہنا چاہیے۔ ابلاغ عامہ اور تعلیم دو ایسے ذرائع ہیں جو اس احساس کو جگانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ قوم کو تباہی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ دستور اور قانون کے احترام کو بحال کیا جائے۔ بلاشبہہ معاشی پریشانی کے شکار افراد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ ان کی پریشانی چاہے وہ بجلی کے بل کی بنا پر ہو، یا اشیائے خورد و نوش کی گرانی کی وجہ سے، یا اس معاشرتی بگاڑ کی بنا پر جس میں خاندان کے ادارے کو سخت دھچکا پہنچا ہےاوربے شمار خطرات کا سامنا ہے۔ملکی افراتفری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دفتری ، کاروباری اور ادارہ جاتی زبوں حالی اور تنزل اور عدم اطمینان کے نتیجے میں عوام کی گھریلو زندگی شدت سے متاثر ہو رہی ہے۔ قریبی رشتوں میں قربت کی جگہ کھنچاؤ اور بدگمانی سے رشتوں میں فاصلے پیدا ہو رہے ہیں۔
ان تمام مسائل کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس وقت ریاست اور قوم کی اوّلین ترجیح جغرافیائی سالمیت ہونی چاہیے۔دو صوبے اور آزاد کشمیر جس کش مکش سے گزر رہے ہیں، شاید اربابِ اقتدار کو اس کی سنگینی کا احساس نہیں ہے۔ یہی خام خیالی کی نفسیات ۱۹۷۰ء میں ایوانِ اقتدار میں بیٹھے ہوئے سول اور فوجی حکمرانوں کو تھی۔ وہ مطمئن تھے کہ ملک میں سب چین ہی چین ہے۔ وہ دیوار پہ لکھی تحریر جانتے بوجھتے بھی نہیں پڑھنا چاہتے تھے اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے سوئے رہے تھے، جس کا خمیازہ ملک کو دولخت ہونے، ہزاروں فوجیوں کی ہزیمت انگیز گرفتاری اور ہزاروں لوگوں کی جانوں کی قربانی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ بدقسمتی سے آج پھر حکمران طبقہ کی جانب سے وہی تاریخ دوہرائی جار ہی ہے۔
اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کی اوّلین ترجیح ملکی سالمیت کو ہونا چاہیے۔ جس کے لیے سیاسی آزادیوں کی بحالی ،عوامی جذبات کا احترام اور سابقہ انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا تدارک کسی تاخیر کے بغیر ہونا ضروری ہے تاکہ مفاہمت کی فضا پیدا ہو سکے۔ ملکی سالمیت اسی وقت ہو سکتی ہے جب محروم طبقات کو ان کا حق دیا جائے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں سب سے زیادہ ناخواندگی بلوچستان میں ہے۔ تقریباً ۶۰ فی صد تعلیم کی عمر رکھنے والے بچوں کو تعلیم کی سہولت میسر نہیں۔ یہی حال دیگر تعلیمی سہولیات اور ضروریات کا ہے۔ اسکولوں میں پینے کا پانی، چار دیواری، کمرئہ جماعت، بیت الخلا کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تربیت یافتہ اساتذہ اور تعلیمی سہولیات کی عدم موجودگی کے باعث پس ماندہ علاقوں کے عوام معاشی بد حالی کا شکار ہیں۔ معاشی طور پر جو امیدیں چین کی شاہراۂ تجارت (سی پیک)کے بننے سے وابستہ تھیں، وہ حکمران طبقہ کی ناعاقبت اندیشی اور چچا سام کی غلامی سے عملاً ناکام ہو چکی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ہم اپنے ہمدردوں کو بڑی مہارت سے اپنا مخالف بنانے کے عادی ہیں۔ افغانستان ہو یا چین، ہم نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی کہ وہ ہم سے بدگمان ہو کر ہمارے دشمن کو اپنا دوست بنانے پر آمادہ ہوں۔
انڈیا اور بعض دیگر ممالک بلوچستان کی صورتِ حال کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان مخالف عناصر کو ہر قسم کی امداد فراہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر فوج جو آگے بڑھ کر محاذوں کی حفاظت کرنے کی عادی ہوتی ہے، وہ اپنے ہی ملک میں ، خود اپنے آپ کو ریت کی بوریوں کے پیچھے محفوظ بنانے میں لگی ہو، تو ملکی سرحدوں کا تحفظ کون کرے گا؟
ہر ادارے کو احساسِ جواب دہی کے ساتھ اپنے کام کو ذمہ داری کے ساتھ کرنا ہوگا، جب ہی ملکی سالمیت برقرار رہ سکتی ہے۔ عدلیہ کا کردار جس طرح مشتبہ بنانے میں خود عدلیہ نے کام کیا ہے،وہ ایک ناقابلِ یقین حقیقت ہے۔ کوئی ادارہ اپنا اتنا دشمن نہیں ہو سکتا، جتنا عدلیہ نے اپنے ساتھ کر کے دکھایا ہے۔ ملک کے قانون دانوں کا فرض ہے کہ وہ دستوری ذرائع سے عدلیہ کے احترام کو بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
۱- تمام سیاسی جماعتیں اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میثاق تحفظِ دستور اور جغرافیائی وحدت پر نہ صرف متفق ہو کر دستخط کریں بلکہ بلوچستان ، خیبر پختون خوا ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان جا کر عوام اور دانش وروں کے ساتھ براہِ راست تبادلۂ خیالات کے ذریعے صوبائی آزادی کی تحریک کی جگہ ملکی وحدت کے تصور کو حکمت کے ساتھ ذہنوں میں جاگزیں کریں ۔
۲- فوری طور پر گوادر کی ترقی کے لیے کیے گئے اقدامات اور چین کی شاہراۂ تجارت (سی پیک) کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے سیاسی اور معاشی اقدامات کیے جائیں، تاکہ گوادر منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کو روکا جا سکے ۔
۳- ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے سلسلے میں فوری مذاکرات کے ذریعے معاملات کو بہتر بنایا جائے اور امریکی مفاد کی جگہ پاکستان کے مفاد کو اوّلیت دی جائے ۔
۴- تمام سیاسی کارکنوں کو جیلوں سے اور جنھیں جبری لاپتا یا اغوا کیا گیا ہے، اگر وہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، تو انھیں عدالتوں میں پیش کیا جائے، بصورت دیگر انھیں باعزّت طور پر رہا کیا جائے ۔
۵- اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متفقہ دستور میں وقتی سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی تبدیلی کو برداشت نہ کیا جائے ۔
۶- ملکی معاشی پالیسی پر یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں سے وابستہ ماہرینِ معاشیات کو مدعو کرکے جامع مشاورتی عمل کا آغاز کیا جائے۔ جس میں زراعت، پانی کے وسائل اور صنعتوں کے مسائل خصوصاًفیصل آباد اور سیالکوٹ کی مقامی صنعتی پہچان کو بحال کیا جائے۔ زرعی زمینوں کو رہائشی سہولیات میں تبدیل کرنے کو سخت قابلِ سزا جرم قرار دیا جائے، اور جو زرعی زمین گذشتہ تین برسوں میں رہائشی مقاصد کے لیے حاصل کی گئی ہے، اس میں زراعت کے نظام کو بحال کیا جائے ۔
۷- تعلیمی زبوں حالی اور خصوصاً آئی ٹی کے ذریعے فاصلاتی نظامِ تعلیم اور براہِ راست تعلیم کو ملا کر تعلیم عام کرنے کے مشن کو عملی شکل دی جائے۔ اس میں اساتذہ اور طلبہ کو بطور رضاکار استعمال کیا جائے اور انھیں بغیر کسی معاشی معاوضہ کے بعض سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ یہ کام خوشی کے ساتھ کر سکیں ۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ۱ۙ لَيْسَ لِوَقْعَتِہَا كَاذِبَۃٌ۲ۘ (الواقعہ ۵۶:۱-۲) جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا تو کوئی اُس کے واقع ہونے کو جھٹلانے والا نہ ہوگا۔
یہ سورئہ واقعہ کی آیات ہیں۔ سورئہ واقعہ کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا بیان ہے کہ یہ سورئہ طٰہٰ کے بعد اور سورئہ شعرا سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ سورئہ طٰہٰ کے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ ہجرتِ حبشہ کے زمانے میں نازل ہوئی تھی۔ اس لیے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ سورہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے پانچویں یا چھٹے سال میں نازل ہوئی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ تفصیل کے ساتھ عالمِ آخرت کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ نیز جنت اور اہلِ جنت کا حال اور دوزخ اور اہلِ دوزخ کا حال بیان کیا گیا ہے۔توحید اور قرآن کے متعلق کفارِ مکّہ کے شبہات کی تردید کی گئی ہے۔
فرمایا گیا: جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا تو اس کے واقع ہونے کو جھٹلانے والا کوئی متنفس نہ ہوگا۔ ہونے والی بات سے مراد قیامت ہے۔ وہ تہ و بالا کردینے والی آفت ہوگی۔ زمین اس وقت یکبارگی ہلا ڈالی جائے گی اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے کہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے۔
آغازِ کلام خود اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کے پیچھے کچھ خاص حالات تھے، جن کے پیش نظر یکایک یہ بات اس طرح شروع کی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن چیزوں کے ماننے کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے ان میں ایک اللہ تعالیٰ کی توحید اور دوسری چیز تھی آخرت۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر بھی لوگ ناک بھوں چڑھاتے تھے، لیکن سب سے زیادہ جس چیز کو بڑے اچنبھے اور بہت حیرت سے وہ سنتے تھے اور جس چیز کا مذاق اُڑاتے تھے، اور جسے بالکل ناممکن اور مشتبہ سمجھتے تھے، وہ آخرت تھی۔
آغازِ کلام بتا رہا ہے کہ اس بات کے لوگوں میں چرچے ہو رہے ہیں اور آخرت کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ حیرت سے لوگ کہتے ہیں: بھلا یہ ایک عجیب بات سنائی جارہی ہے کہ زمین اور سورج اور چاند، یہ سب ختم کردیے جائیں گے اور سارے انسان ایک دم ختم ہوجائیں گے اور اس کے بعد دوبارہ وہ اُٹھائے جائیں گے اور یہ زمین و آسمان پھر بنیں گے۔ ان ساری چیزوں کے اُوپر لوگ حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔
آغازِ کلام اس طرح کیا گیا ہے کہ وہ ہونے والی بات جب پیش آئے گی، اس وقت کوئی متنفس اس کو جھٹلانے والا نہ ہوگا۔ یعنی آج اس کو تم جھٹلا رہے ہو، اس کو غلط قرار دے رہے ہو، اور یہ کہہ رہے ہو کہ یہ محض زبان کی جادوگری ہے، اور عجیب عجیب باتیں ہیں جو سنائی جارہی ہیں۔ لیکن جس وقت تمھاری آنکھوں کے سامنے وہ واقعہ پیش آجائے گا اوراپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ وہ واقعہ موجود ہے، اس وقت کسی کی یہ ہمت نہیں ہوگی اور کسی کے لیے ممکن نہیں ہوگا کہ کوئی شخص اس کو جھٹلا سکے اور یہ کہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔
آج اس دنیا میں جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اتنا عظیم الشان سورج فضا میں معلّق ہے۔ یہ زمین اور چاند فضا میں معلّق ہیں۔ آدمی کو کیوں نہیں حیرت ہوتی؟ کیوں نہیں کوئی شخص ان چیزوں کو جھٹلاتا؟ اگر کوئی شخص کسی سے کہے کہ سورج نکلا ہوا ہے تو کوئی یہ نہیں کہتا کہ تم غلط بات کہتے ہو۔ ایک چیز جب آنکھوں کے سامنے موجود ہے، چاہے وہ پہلے کتنی ہی حیرت انگیز آدمی کو معلوم ہوتی ہو، لیکن جب آنکھوں کے سامنے موجود ہے تو پھر کوئی شخص اسے جھٹلا نہیں سکتا۔
اب اس کے بعد قیامت کے متعلق مختصر الفاظ میں بتایا جاتا ہے:
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ۱ۙ (الواقعہ ۵۶:۱) جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا۔
مراد ہے آخرت اور قیامت۔ قیامت کے لیے یہاں واقعہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور کہیں سعہ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ سعہ سےمراد گھڑی، یعنی وہ مقررہ وقت جو دنیا کے ختم کرنے کے لیے طے کردیا گیا ہے، اور واقعہ کے معنی ہیں ہونے والی بات، یعنی جس کا ہونا بالکل یقینی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جب وہ ہونے والی بات پیش آجائے گی۔
لَيْسَ لِوَقْعَتِہَا كَاذِبَۃٌ۲ۘ (۵۶:۲)کوئی اس کے واقع ہونے کو جھٹلانے والا نہ ہوگا۔
اس کے دو معنی ہیں: ایک یہ کہ اس کے واقع ہوجانے کے بعد کسی شخص کے بس میں نہیں ہوگا کہ اس کو جھٹلا سکے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تم اس کو جھٹلا رہے ہو، اس کا مذاق اُڑا تے ہو، لیکن جب وہ واقع ہوجائے گی تو کسی کے بس میں یہ نہیں رہے گا کہ اس کا انکار کرسکے اوراس کو جھٹلا سکے۔ وہ آنکھوں کے سامنے ہوگی اور لوگ خود اس کو بھگت رہے ہوں گے۔
دوسرے معنی یہ ہیں کہ کسی میں یہ طاقت نہیں ہوگی کہ اس واقعہ کو غیر واقعہ بنا دے، یعنی اس کے واقع ہوجانے کے بعد کوئی اس کا ٹالنے والا نہیں ہوگا۔ کوئی اس کا روکنے والا نہیں ہوگا۔ کسی میں اتنا زور نہیں ہوگا کہ قیامت جب واقع ہورہی ہو تو اس کو وہ تھام لے اور روک دے اور اس کو واقع نہ ہونے دے۔
اس میں خود بخود ایک چیلنج پوشیدہ ہے۔ یہ الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ کچھ لوگ اس کو جھٹلا رہے تھے اوراس کو ماننے سے انکار کر رہے تھے۔ گویا ان کے لیے اس کے اندر ایک چیلنج ہے کہ آج تم اس کو جتنا جھٹلا سکتے ہو جھٹلا لو، لیکن جب وہ واقع ہوجائے گی تو تمھارے بس میں نہ رہے گا کہ تم یہ کہو کہ یہ اب واقع نہیں ہوئی، اور نہ یہ ہوسکے گا کہ اس کو واقعہ سے غیرواقعہ بنا دو۔
خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ۳ۙ (۵۶:۳) وہ تہ و بالا کردینے والی آفت ہوگی۔
یہاں وہ کیفیت بیان کی جارہی ہے کہ جب قیامت آئے گی تو اس کی کیفیت کیا ہوگی؟
پہلی بات تو یہ فرمائی گئی کہ وہ اُٹھانے والی اور گرانے والی ہوگی۔ ایک مطلب تو اس کا صاف ہے کہ وہ تہہ و بالا کردینے والی ہوگی۔ جیسے ہم اُردو زبان میں بھی بولتے ہیں تہہ و بالا کردینا۔
دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ وہ ایک ایسی چیز ہو گی کہ جو آج اس دُنیا میں بہت بڑے بنے ہوئے ہیں وہ چھوٹے بن کر رہ جائیں گے اور جو چھوٹے بنے ہوئے ہیں وہ بڑے بن جائیں گے۔
گویا دُنیا میں جو کچھ بھی لوگوںکے مراتب اور مناصب اور ان کی حیثیتیں قائم ہیں، یہ وہاں قائم رہنے والی نہیں۔ اس دُنیا میں لوگوں کی حیثیتیں نامعلوم کس کس طرح قائم ہوتی ہیں۔ کسی کے پاس دولت ہے، اس وجہ سے وہ بڑی شخصیت بنا ہوا ہے درآں حالیکہ وہ آدمی کی حیثیت سے نہایت ذلیل اور نہایت گھٹیا انسان ہے۔ کسی کو اللہ نے اقتدار دے دیا ہے اور وہ بڑی چیز بن گیا ہے درآں حالیکہ انسان ہونے کی حیثیت سے بہت گرا ہوا آدمی ہے۔ کوئی آدمی ذلیل و خوار بن کے رہ جاتا ہے۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں سمجھی جاتی حالانکہ اخلاقی حیثیت سے وہ بڑا گریٹ آدمی ہے۔ لہٰذا جب قیامت آئے گی تو اس وقت دُنیا کے یہ غلط اور مصنوعی مرتبے سب ختم ہوجائیں گے۔ حقیقت میں کسی انسان کا جو مرتبہ ہے، وہ اس کے مطابق reduce ہوکر رہ جائے گا۔ دُنیا میں اگر کوئی آدمی بہت بڑی چیز بنا ہوا ہے، تو وہاں اس کی ساری بڑائی ختم ہوکر رہ جائے گی اور اس کی اصل حیثیت باقی رہے گی۔ اگر کوئی آدمی اس دُنیا میں گراکر رکھا گیا ہے لیکن آخرت میں وہ اُٹھایا جائے گا اور اُس حیثیت پر پہنچایا جائے گا جو اُس کی اصل حیثیت ہے۔
اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا۴ۙ وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۵ۙ فَكَانَتْ ہَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا۶ۙ (۵۶:۴-۶) جب زمین پھڑپھڑائے گی اور بُری طرح پھڑپھڑائے گی اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے کہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے۔
اب چند الفاظ میں قیامت کی کیفیت یہ بیان کی گئی ہے کہ زمین ہلا ماری جائے گی، یعنی ایک شدید زلزلہ ہوگا۔ اس نوعیت کا زلزلہ نہیں ہوگا جیسے کہ اس دنیا میں ہوتے ہیں کہ کسی ایک حصے میں آگیا اور وہ بھی اس شدت کا نہیں ہوگا بلکہ ایک معمولی حرکت ہے کہ جس سے بستیاں کی بستیاں اُلٹ جاتی ہیں۔ اُس وقت پوری زمین ہلا ڈالی جائے گی۔ پورے کرئہ زمین کے اُوپر زلزلہ آئے گا اور یہ اس قدر زبردست زلزلہ ہوگا کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ اس طرح سے ریزہ ریزہ ہوں گے جیسے پراگندہ غبار ہوں۔ وہ اتنے باریک ذرات ہوں گے کہ ہوا اُنھیں اڑائے پھرے گی۔ ان بلندوبالا پہاڑوں کی حالت ایسی ہوگی جیسے گردوغبار۔
اب اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ انسانوں کا وہاں کیا انجام ہوگا؟
وَّكُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً۷ۭ فَاَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۸ۭ وَاَصْحٰبُ الْمَشْـَٔــمَۃِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ۹ۭ (۵۶:۷-۹) تم لوگ اس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہوجائو گے: دائیں بازو والے، سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا۔ اور بائیں بازو والے، تو بائیں بازو والوں (کی بدنصیبی) کا کیا ٹھکانا۔
اس روز تمام انسان تین حصوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔یہ تقسیم سراسر اخلاقی بنیادوں پر ہوگی۔ یہ تقسیم اس لحاظ سے نہیں ہوگی کہ کسی کا نسب کیا ہے اور کون کس کی اولاد ہے، نہ اس لحاظ سے ہوگی کہ اس کے پاس دولت کتنی ہے، نہ اس لحاظ سے ہوگی کہ اس کو خطابات کیا ملے ہوئے ہیں؟ یہ تقسیم ان حیثیتوں پر نہیں ہوگی بلکہ خالص اخلاقی بنیادوں پر انسان تین اقسام میں منقسم ہوں گے۔ اب وہ قسمیں بتائی جارہی ہیں:
فَاَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۸ۭ (۵۶:۸) دائیں بازو والے، سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا۔
ایک گروہ وہ ہوگا جو اصحابِ میمنہ ہے۔ مَآ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۸ۭ اصحابِ میمنہ کے کیا کہنے۔ میمنہ کو اگر یُمن سے لیا جائے تو اس کے دو ہی روٹس ہوسکتے ہیں: یُـمْن اور یَمین۔میمنہ کا لفظ اگر یُـمْن سے لیا جائے تو یَمین کے عربی زبان میں معنی ہیں سعادت اور خوش حالی اور نیک بختی۔ اس مفہوم میں یہ نیک فال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی وہ لوگ کہ جو دنیا میں اپنے نیک اعمال کی وجہ سے وہاں اُمیدوار ہیں کہ ہمارا انجام اچھا ہوگا۔ گویا اصحاب المیمنہ کے معنی یہ ہوئے کہ وہ لوگ کہ جو Optimist ہیں،یعنی اچھی توقعات رکھتے ہیں، اللہ کی رحمت کے اُمیدوار ہیں، مایوس نہیں ہیں۔ ایک معنی اصحاب میمنہ کے یہ ہیں۔
اگر اس لفظ کو یَمین سے لیا جائے تو عربی زبان میں یَمین سیدھے ہاتھ کو کہتے ہیں۔ عربی زبان کے محاورے کی رُو سے سیدھے ہاتھ پر کسی شخص کو لینا یا بٹھایا جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ آپ اس کو عزّت دے رہے ہیں، اور بائیں ہاتھ پر کسی شخص کو لینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس کا درجہ گرا رہے ہیں اور اس کی حیثیت کم کر رہے ہیں۔ یہ گویا عربوں کے ہاں دستور ہے۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ کسی کو سیدھے ہاتھ والا کہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ بلند درجے کا ہے اور کسی کو بائیں ہاتھ والا کہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ پست درجے اور کم درجے کا ہے۔ یہ دونوں معنی اصحاب المیمنہ کے ہیں۔
اصحاب میمنہ کو اگر یَمین سے لیا جائے تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کواللہ تعالیٰ دائیں جانب جگہ دیں گے، اور اگر یُمن سے لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ کہ جو پہلے سے اعمال اور اپنے اخلاق اور اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کی بناپر اُمیدوار ہیں کہ ان کے ساتھ اچھا معاملہ کیا جائے جس کو انگریزی میں Pessimistic اور Optimistic کہتے ہیں، یعنی ایک وہ آدمی ہے کہ جو اچھی اُمید رکھتا ہے اور ایک وہ آدمی ہے جو پہلے ہی سے مایوس ہے۔ جس آدمی کو پہلے سے اپنا بُرا انجام نظر آرہا ہے وہ اصحاب مَشْـَٔــمَۃِ ہیں۔ شُؤْم کہتے ہیں نحوست اور بدبختی کو۔ اور جو شخص بُرے انجام کے خطرے میں مبتلا ہو، گویا وہ شُؤْم میں مبتلا ہے۔ اصحابِ میمنہ وہ لوگ ہیں جو اُمیدوا ر ہیں اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ ان سے اچھا معاملہ کرے۔ جو اپنے اعمالِ نیک کی وجہ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو دوزخ میں نہیں بھیجے گا۔
گویا اصحاب المیمنہ کےیہ معنی بھی ہیں کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند درجے پر رکھے جائیں گے، جن کو عزت دی جائے گی، شرف دیا جائے گا۔ اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ جو آخرت میں اپنے نیک انجام کے متوقع ہوں گے اور جن پر عالمِ یاس طاری نہیں ہوگا۔
وَاَصْحٰبُ الْمَشْـَٔــمَۃِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ۹ۭ(۵۶:۹) بائیں بازو والے، تو بائیں بازوں والوں (کی بدنصیبی) کا کیا ٹھکانا۔
مَشْـَٔـــمَہ کا لفظ شُؤْم سے نکلا ہے۔ شُؤْم کے معنی بدفالی کے ہیں۔ اصحابِ مَشْـَٔـــمَہ سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو عالمِ آخرت میں جب اٹھائے جائیں گے تو ان پر یاس کی حالت طاری ہوگی اور کوئی نیک اُمید نہیں ہوگی جس کو pesimistic کہتے ہیں ۔ وہ کوئی اچھی اُمیدیں نہ رکھتے ہوں گے۔ ان کو یہ خیال ہوگا کہ ہم دنیا میں جو کچھ کر کے آئے ہیں اس وجہ سےہمارا انجام بُرا ہوگا۔
مرنے کے بعد ہی آدمی کو معلوم ہوجاتا ہے کہ میں یہاں کس حیثیت میں آیا ہوں بلکہ عین مرنے کے وقت ہی آدمی کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں میں کس حیثیت سے آیا ہوں؟ یہ بالکل ایسا ہے کہ جیسے کوئی مجرم ہو اور جب پولیس اس کے دروازے پر اس کو پکڑنے کے لیے آتی ہے، تو وہ آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ پولیس والے ہتھکڑی لیے ہوئے آئے ہیں۔ اس وجہ سے اسی وقت اس کو معلوم ہوجاتا ہے کہ میں آج مجرم کی حیثیت سے پکڑا جائوں گا۔ اگر کسی آدمی کو کسی بڑے دربار میں کوئی بڑا رُتبہ دینے کے لیے اس کو بلایا جاتا ہے، تو جو لوگ اس کو لینے کے لیے آتے ہیں ان کو دیکھتے ہی اس کو معلوم ہوجاتا ہے کہ میں عزّت کے ساتھ لے جایا جارہا ہوں۔ اسی طرح مرنے کے وقت ہی آدمی کو پتہ چل جاتا ہے کہ کس قسم کے فرشتے، کس شکل و صورت میں آئے ہیں۔ اسی وقت معلوم ہوجاتا ہے کہ گویا میں مجرم کی حیثیت سے جارہا ہوں یا میں مہمان کی حیثیت سے جارہا ہوں۔ اس وجہ سے اصحابِ مشئمہ وہ لوگ ہیں کہ جن کو اوّل روز سے یہ معلوم ہے کہ ہم مجرم کی حیثیت سے آئے ہیں اور ہمارا انجام خراب ہے۔ اصحابِ میمنہ وہ ہیں جن کو اوّل روز سے اُمید ہے کہ ہمارے ساتھ اچھا ہی معاملہ کیا جائے گا۔ ہم مہمان کی حیثیت سے جارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ بُرا معاملہ نہیں کرے گا۔
فَاَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۸ۭ (۵۶:۸) دائیں بازو والے، سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا۔
اصحاب میمنہ کے کیا کہنے؟ جیسے ہم اُردو زبان میں بولتے ہیں کہ اس کے کیا کہنے۔ اس کاتو بڑا ہی مزہ ہے۔
وَاَصْحٰبُ الْمَشْـَٔــمَۃِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ۹ۭ (۵۶:۹) اور بائیں بازو والے، تو بائیں بازو والوں (کی بدنصیبی) کا کیا ٹھکانا۔
اصحاب المشئمہ ان کا کیا پوچھتے ہو؟جیسے ہم اُردو میں بولتے ہیں اس کا کیا پوچھتے ہو؟ مطلب یہ ہے کہ اس کا تو بُرا حال ہی ہوگا۔
وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۱۰ۚۙ (۵۶:۱۰) اور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں۔
سابقون سے مراد یہ نہیں ہے کہ جو لوگ پہلے ایمان لائے، بلکہ سابقون سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو اللہ کے دین کے معاملے میں، نیکی اور بھلائی کے معاملے میں دوڑ کر اور لپک کر حصہ لیں۔سب سے پہلے وہ حصہ لینے والے ہوں جیسے ہم کہتے ہیں کہ وہ لوگ صف ِ اوّل کے لوگ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ جو ہر معاملے میں پیش پیش ہوں۔ نیکی اور بھلائی میں تو سابقون کا لفظ ایسے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، مثلاً لوگوں کے اُوپر اگر کوئی آناً فاناً مصیبت آئی ہو، تو سب سے پہلے جو لوگ نکل کر آئیں گے اور دوڑیں گے اس بات کے لیے کہ جاکر ان کو اس مصیبت سے بچائیں، وہ سابقون ہیں۔اسی طرح سے مثلاً دینِ اسلام کے اُوپر کوئی سخت وقت آگیا ہے، دشمنوں کا کوئی نرغہ ہے یا اعدا کا کوئی حملہ ہے۔ سب سے آگے بڑھ کر جو لوگ سینہ سپر ہوں گے وہ سابقون ہوں گے۔ غرض جو لوگ نیکی اور بھلائی کے ہرمعاملے میں سبقت کرنے والے ہیں اور خدا کے دین کے ہر کام میں سبقت کرنے والے ہیں، وہ سابقون ہیں۔
اُولٰۗىِٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَ۱۱ۚ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۱۲ (۵۶:۱۱-۱۲) وہی تو مقرب لوگ ہیں جو نعمت بھری جنتوں میں رہیں گے۔
وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرب ہیں۔ ان کی حیثیت مقربین کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نزدیک ان کو لے آئے گا۔
ثُـلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۱۳ۙ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۱۴ۭ (۵۶:۱۳-۱۴) اگلوں میں سے بہت ہوں گے اور پچھلوں میں سے کم۔
ایک جم کثیر ہوں گے اوّلین میں سے اور ایک قلیل گروہ ہوگا آخرین میں سے۔ یہ اوّلین اور آخرین اس لحاظ سے نہیں ہے کہ تاریخ کے ابتدائی دور میں وہ بہت تھے اور تاریخ کے آخری دور میں وہ کم تھے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہرنبیؑ کی اُمت میں ابتدائی دور کے جو لوگ ہیں ان میں ایسے سابقون کی تعداد بہت ہوگی اور اس نبی کی اُمت کے آخری دور میں ان کی تعداد کم ہوگی۔
نبوت جب واقع ہوتی ہے اور کوئی نبی جب کھڑا ہوتا ہے تو اس کے اُوپر جو لوگ ایمان لاتے ہیں، ان کے سامنے حقائق خوب ٹھوک بجاکر پوری طرح سے اس طرح سے واضح ہوجاتے ہیں کہ ان کی بہت بڑی کثیر تعداد سچّے دل سے ایمان لاتی ہے۔ نبی جن حالات میں مبعوث ہوتا ہے اور جن حالات میں کام کرتا ہے، ان میں کوئی کچا آدمی اس کے ساتھ چل نہیں سکتا۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی کچا آدمی اس کے ساتھ چل سکے۔ نبی کی اُمت کے اُو پر آفتیں ٹوٹتی ہیں، سخت سے سخت مظالم اس کے اُوپر ہوتے ہیں، بلکہ احادیث میں آتا ہے کہ بعض لوگوں کو آروں سے چیر دیا گیا۔ اب ان حالات میں کون نبی کا ساتھ دے گا؟ صرف وہ شخص ساتھ دے گا کہ جو یہ یقین رکھتا ہو کہ یہ بندئہ خدا جو حقیقت لے کر آیا ہے بالکل سچی ہے، اور اس کے ساتھ جس کا دل یہ گواہی دیتا ہو کہ جب یہ سچائی ہے تو اس کے لیے دُنیا بھر سے لڑ جانا چاہیے۔ جب یہ سچائی ہے تو اس کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینا چاہیے، ہرتکلیف کو برداشت کرجانا چاہیے۔ اس کے بغیر کوئی شخص نبی کا ان حالات میں ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس وجہ سے ان میں کثیر تعداد مخلصین و مومنین کی ہوتی ہے۔ اُن لوگوں کی ہوتی ہے جو خدا اور اس کے دین اور اس کے رسول کی خاطر ہرخطرے، ہرنقصان اور ہرتکلیف کو اُٹھاتے ہیں۔
پھر نبی کی تربیت سے وہ لوگ براہِ راست فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ نبی سے خدا کے دین کو براہِ راست سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سےسے وہ علم کے اعتبار سے بھی دین کو زیادہ سمجھنے والے ہوتے ہیں، اخلاق کے اعتبار سے بھی وہ دین کے منشا کے مطابق جیسا انسان ہونا چاہیے ویسے انسان ہوتے ہیں، اور اس کے ساتھ یہ کہ اللہ کے دین کے لیے تکلیفیں اُٹھانے میں بھی سب سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ اس بناپر نبی کی اُمت کے ابتدائی گروہ میں سابقون کی اکثریت ہوتی ہے۔ بعد کے دور میں جب نبی کا مشن کامیاب ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو دُنیا میں فتح و نصرت عطا کرتا ہے، اس کے بعد ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی آجاتی ہے کہ جو چلتی ہوئی گاڑی میں سوار ہونے والے ہیں، گاڑی چلانے والوں میں شامل نہیں ہیں۔ گاڑی چلانے میں جو خطرات ہیں وہ دوسرے بھگت چکے ہوتے ہیں۔ جب گاڑی چل چکی ہوتی ہے، خوب تیز رواں ہوتی ہے، اس وقت ہرایک سوار ہونے کو تیار ہوتا ہے۔
اس وجہ سے اس کے بعد پھر ان لوگوں کی تعداد جو سبقت کرنے والے ہیں، کم رہ جاتی ہے۔ اگرچہ خدا کا دین چلتا انھی سبقت کرنے والوں کی وجہ سے ہے۔ سبقت کرنے والے ہی اپنی جانیں لڑاتے ہیں اور سبقت کرنے والے ہی اس کا جھنڈا بلند کرتے ہیں اور سبقت کرنے والے ہی اس کی تبلیغ کرتے ہیں اور لوگوں کی اصلاح کا کام کرتے ہیں۔ یہ کام برابر جاری رہتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی ان کی اقلیت ہوتی ہے، اکثریت نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ ابتداً اُمت میں اکثریت سابقون کی ہوتی ہے اور بعد میں اُمت میں ان کی قلیل تعداد رہ جاتی ہے۔ اسی بات کو یہاں بیان کیا گیا ہے کہ اُمت کے ابتدائی دور میں سابقون کثیر تعداد میں ہوں گے اور بعد کے دور میں قلیل تعداد میں(جاری)۔(ریکارڈنگ :حفیظ الرحمٰن احسن ،و تدوین: امجد عباسی)
_______________
عَلٰي سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ۱۵ۙ مُّتَّكِـــِٕيْنَ عَلَيْہَا مُتَقٰبِلِيْنَ۱۶ (۵۶:۱۵-۱۶) مرصع تختوں پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔وہ ایسے تختوں پر بیٹھے ہوں گے جو جڑائو ہوں گے۔
یعنی جو بادشاہوں کے تخت ہوتے ہیں، اس طرح کے تخت ہر اس جنّتی کو جو وہاں بھیجا جائے گا اس کے لیے مہیا ہوگا۔
مُّتَّكِـــِٕيْنَ عَلَيْہَا ، ان پر وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ مُتَقٰبِلِيْنَ سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کے سامنے منہ کیے ہوئے ہوں گے۔ یعنی کوئی کسی کی طرف پیٹھ کرنے والا نہیں ہوگا، بلکہ سب اگر ایک مجلس میں بیٹھیں گے تو ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔
يَطُوْفُ عَلَيْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۱۷ۙ بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ۰ۥۙ وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ۱۸ۙ (۵۶:۱۷-۱۸) ان کی مجلسوں میں ابدی لڑکے شراب چشمۂ جاری سے لبریز پیالے اور کنڑ اور ساغر لیے دوڑتے پھرتے ہوں گے۔ ان کی خدمت کے لیے دوڑتے پھرتے ہوں گے ایسے لڑکے جو مخلد ہوں گے۔
مخلد سے مراد دائمی ہے، یعنی وہ ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ان کی عمر میں اضافہ ہو اور وہ بوڑھے جن کے …؟؟ مثلاً اگر وہ بارہ برس کا لڑکا ہے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بارہ برس ہی کا لڑکا رہے گا۔ ان کی خدمت کے لیے یہ خادم جو دائمی اور ابدی لڑکے ہوں گے، یہ ان کی خدمت کے لیے وہاں حاضر ہوں گے۔
کسانوں میں جو بچّے بلوغ کی عمر کو پہنچنے سے پہلے مرجائیں وہ چاہے کافر و مشرک کے ہوں، چاہے مسلمان کے، بہرحال وہ دوزخ میں جانے والے نہیں۔ اور جن کے والدین جنّت میں جائیں گے ان کے بچّے والدین کے ساتھ پہنچا دیئے جائیں گے۔ قرآن مجید میں بھی صراحت ہے کہ ان کی اولاد کو ان کے ساتھ لا ملایا جائے گا لیکن جن کے والدین جنّت میں نہیں جائیں گے ان کے بچوں کو جہاں تک میرا اندازہ ہے اگرچہ قرآن مجید میں اس کی صراحت نہیں، البتہ بعض احادیث میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ ان بچوں کو اہل جنّت کا خدمت گار بنا دیا جائے گا، خواہ وہ کافر و مشرک کے بچّے ہوں یا ایسے مسلمانوں کے بچّے ہوں جو دو زخ میں جائیں گے۔ خدا ہرمسلمان کو اس سے بچائے۔ پس اگر کوئی مسلمان دوزخ میں جائے گا تو اس کی اولاد جو نابالغ ہے وہ دوزخ میں نہیں جائے گی۔ ان کو اہل جنّت کا خادم بنا دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ جو عمر اُن کے لیے تجویز فرما دے گا کہ یہ عمر ان کی ہونی چاہیے تاکہ یہ اہل جنّت کی بہتر خدمت کرسکیں، بس وہی عمر ان کی ہمیشہ رہے گی۔
بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ۰ۥۙ ، وہ پیالے لیے ہوئے اور ٹوپی دار صراحیاں لیے ہوئے پھرتے پھریں گے۔
اکواب ، کوب کی جمع ہے۔کوب وہی چیز ہے جس کو انگریزی میں کپ کہتے ہیں اور یہ کپ لفظ کوب ہی سے نکلا ہے۔ انگریزی میں وہ عربی زبان سے آیا ہے۔ ان بے چاروں کے پاس کپ بھی نہیں تھے۔ یہ مسلمانوں سے ان کو حاصل ہوئے۔ ابریق کہتے ہیں لوٹے کی وضع کی ایک صراحی جس کے ساتھ ایک ٹوپی لگی ہوئی ہوتی ہے۔ اباریق اس کی جمع ہے۔
وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ۱۸ۙ اور ایسی شراب کہ جو چشموں سے نکلی ہو۔
جنّت کی شراب کسی چیز کو سڑاکر کشید کی ہوئی نہیں ہوگی بلکہ جنّت میں جو شراب ہوگی وہ چشمے کی شکل میں ہوگی۔ یہ قرآن مجید میں بھی وضاحت ہے اور یہاں تو بالکل صاف طور پر معین کالفظ استعمال کیا گیا ہے۔معین کہتے ہیں ہر آدمی اس کو بالکل گوارا کرے گا اور یہ پاک اور صاف ہوگی۔ وہ کسی چیز کو سڑا کر نہیں بنائی جائے گی بلکہ چشمے کی شکل میں ہوگی، اور ہوسکتا ہے کہ مختلف اقسام کی شرابیں ہوں کہ جو مختلف چشموں سے نکلتی ہوں۔
لَّا يُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا يُنْزِفُوْنَ۱۹ۙ (۵۶:۱۹) جسے پی کر نہ ان کا سر چکّرائے گا نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا۔
اس سے نہ ان کو دردِ ِ سر لاحق ہوگا اور نہ وہ بہکیں گے۔
یعنی دُنیا کی شراب کا جو بڑے سے بڑا فائدہ ہے جس کی خاطر انسان شراب کی تکلیفیں اُٹھاتا ہے اس کے نقصانات برداشت کرتا ہے وہ صرف سُرور ہے اور اس سُرو ر کی خاطر انسان شراب کو استعمال کرتا ہے۔ لیکن دُنیا کی شراب کا یہ سُرور انسان کو اتنا مہنگا پڑتا ہے کہ جیسے ہی وہ قریب آتی ہے اس وقت سے اس کی تکلیفیں شروع ہوجاتی ہیں۔
شراب جیسے ہی قریب آتی ہے پہلے تو اس کی سڑانڈ آتی ہے۔ اس کی بُو کسی بھلے آدمی کو دُور بھگا دیتی ہے کہ کسی بُرے آدمی کو بھی اس کی بُو پسند نہیں ہوسکتی۔ اس کے بعد اس کا مزہ تلخ ہوتا ہے۔ پھر جب وہ حلق سے گزرتی ہے تو معدے تک کاٹتی ہوئی جاتی ہے۔ پھر آدمی کو دردِ ِ سر لاحق ہوتا ہے۔ زیادہ پی جائے تو قے ہوتی ہے اور نامعلوم کیا کیا تکلیفیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہاں یہ بتا رہا ہے کہ وہ شراب ہوگی لیکن شراب ایسی نہیں ہوگی جس کے نقصانات اور اس کی تکلیفیں وہ ہوں جو اس دُنیا میں ہوتی ہیں کہ اس کو پی کر دردِ سر لاحق ہواور آدمی اس کو پی کر بہکے، اُول فول بکے اور اپنے ہوش و حواس میں نہ رہے۔
وَفَاكِہَۃٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُوْنَ۲۰ۙ وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَہُوْنَ۲۱ۭ (۵۶:۲۰-۲۱) اوروہ ان کے سامنے طرح طرح کے لذیذ پھل پیش کریں گے کہ جسے چاہیں چُن لیں، اور پرندوں کے گوشت پیش کریں گے کہ جس پرندے کا چاہیں استعمال کریں۔
ایک اور مقام پر قرآن مجید میں صرف گوشت کا ذکر ہے اور یہاں پرندوں کے گوشت کا ذکر ہے۔میرا اندازہ ہے کہ جس طرح سے جنّت کی شراب مصنوعی نہیں ہوگی بلکہ قدرتی طور پر چشموں سے نکلے گی اور جس طرح سے جنّت کا شہد وہ بھی مگس کی قے نہیں ہوگا بلکہ وہ بھی چشموں کی شکل میں نکلا ہوا ہوگا، اور جنّت کا دودھ بھی جانوروں کے تھنوں سے دوھا ہوا نہیں ہوگا بلکہ چشموں کی شکل میں نکلے گا اور نہر کی شکل میں بہہ رہا ہوگا اور یہ قرآن مجید میں بھی ہے اور احادیث میں بھی۔ اسی طرح سے میرا خیال یہ ہے کہ اگرچہ اس کی صراحت مجھے کہیں نہیں ملی ہے لیکن مَیں اندازہ کرتا ہوں کہ وہاں کا گوشت بھی جانوروں کو ذبح کرکے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا بلکہ وہ قدرتی طور پر پایا جائے گا۔وہ جس چیز کے گوشت کی حیثیت سے بھی آدمی کے سامنے گا، مزے میں بہترین ہوگا۔ اگر ہرن کے گوشت کی حیثیت سے آئے گا تو ہرن کا جو بہترین گوشت ممکن ہے وہ مزا ہوگا لیکن وہ کسی ہرن کو ذبح کرکے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔ کسی ہرن کو گولی مار کر حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔ اسی طرح سے پرندوں کا گوشت ہے۔ یہ بھی گویا قدرتی طور پر پیدا ہوگا جانوروں کو ذبح کرکے اور اس کے پَر نوچ کے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔
وَحُوْرٌ عِيْنٌ۲۲ۙ كَاَمْثَالِ اللُّؤْلُـؤِ الْمَكْنُوْنِ۲۳ۚ (۵۶:۲۲-۲۳) اور ان کے لیے خوب صورت آنکھوں والی حُوریں ہوگی، ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔
آدمی نفیس ترین چیز کو چھپا کر رکھتا ہے۔ حُوریں ایسے موتیوں کی طرح ہوں گی جن کو چھپاکر رکھا جاتا ہے۔
جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۲۴ (۵۶: ۲۴) یہ سب کچھ ان اعمال کی جزا کے طور پر انھیں ملے گا جو وہ دُنیا میں کرتے رہتے تھے۔
یعنی یہ بدلہ ہوگا ان کے ان اعمال کا جو وہ دُنیا میں کرکے آئے ہیں۔
لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا۲۵ۙ (۵۶: ۲۵) وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے۔
یعنی جنّت کی ساری نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد آخر میں گویا یہ ایک عظیم ترین نعمت کا ذکر کیا ہے۔ جنّت کی بہت بڑی نعمت یہ ہوگی کہ آدمی کے کان میں کوئی بے ہودہ بات نہیں پڑے گی۔ آدمی کوئی گناہ کی بات نہیں سنے گا۔ کوئی فحش بات نہیں سنے گا۔ اس دُنیا میں ایک نیک آدمی جس کے اندر فی الواقع کوئی ذوقِ سلیم موجود ہو اور جس کی روح میں کوئی طہارت اور پاکیزگی موجود ہو، اس کے لیے انتہائی اذیت کی چیز ہوتی ہے کہ انسانی بستی میں گزر رہا ہے تو اِدھر سے گالی کی آواز پڑرہی ہے اور اُدھر سے کسی کی غیبت کی گفتگو سن رہا ہے۔ اِدھر سے کوئی بیگم صاحبہ کوئی فحاش گانا گارہی ہیں اور کہیں کسی اور طرح سے بیہودہ باتیں ہورہی ہیں۔ اس بھلے آدمی کے لیے یہ پریشانی ہوگی کہ ان بستیوں میں کہاں رہے؟ کہاں اپنے آپ کو لے کر جائے اور کہیں اپنی اولاد ضرور اپنے بال بچوں کو لے کر جائے کہ ان بلائوں سے محفوظ رہے۔ جنّت کی یہ نعمت ہوگی کہ وہاں آدمی کے کان بُرائیوں سے محفوظ رہیں گے۔ آگے چل کر الفاظ ہیں:
اِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۲۶ (۵۶:۲۶)جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی۔
سلام کا لفظ قریب قریب اسی معنی میں ہے جس کو انگریزی میں sane کہتے ہیں، یعنی جو کچھ بھی سنیں گے معقول اور صحیح بات سنیں گے۔ ایسی بات سنیں گے کہ جس کے اندر کسی قسم کی کوئی بُرائی نہیں ہوگی۔
وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۲۷ۭ (۵۶:۲۷) اور دائیں بازو والے، اور بائیں بازو والوں کی خوش نصیبی کا کیا کہنا۔
یعنی دائیں ہاتھ والے لوگ یا اچھی اُمیدیں رکھنے والے لوگ تو ان کا کیا کہنا۔
فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ۲۸ۙ وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۲۹ۙ وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۳۰ۙ وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۳۱ۙ (۵۶:۲۸-۳۱) وہ بے خار بیریوں اور تہ بر تہ چڑھے ہوئے کیلوں اور دُور تک پھیلی ہوئی چھائوں، اور ہر دم رواں پانی۔
وہ ایسے باغوں میں ہوں گے کہ جن میں بے خار بیر ہوں گے۔ یعنی اس دُنیا میں عام طور پر جو بیر ہوتے ہیں وہ بہت گھٹیا قسم کے ہوتے ہیں لیکن اعلیٰ درجے کے بھاری بیر بعض اوقات سیب کے بچّے معلوم ہوتے ہیں۔ گویا ایسی بیریاں ہوں گی جن کے اندر خار نہیں ہوگا، کسی قسم کا کوئی کانٹا نہیں ہوگا۔
وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۲۹ۙ ، جن میں کیلے ہوں گے جن کی بیلیں تہ در تہ چڑھی ہوئی ہوں گی۔
وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۳۰ۙ ،اور دراز سایہ ہوگا، یعنی بڑے گھنے باغ ہوں گے کہ جن کو آدمی دیکھے تو دُور دُور تک اس کا سایہ ہی سایہ ہو اور دھوپ نہ پڑتی ہو۔
وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۳۱ۙ ،اور دائماً بہنے والا پانی۔
وَّفَاكِہَۃٍ كَثِيْرَۃٍ۳۲ۙ لَّا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۳۳ۙ (۵۶: ۳۲-۳۳) اور کبھی ختم نہ ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھل۔
لَّا مَقْطُوْعَۃٍ ، ان باغوں کے پھلوں کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا۔ یعنی ان کے لیے کوئی موسم مقرر نہیں ہوگا کہ ہر پھل کسی خاص موسم میں پیدا ہو اور موسم گزرنے کے بعد ختم ہوجائے بلکہ ان کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوگا۔ ہرپھل جو ان کو پسند ہے وہ ہمیشہ ان کو ملے گا۔
وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۳۳ۙ ،اور نہ ان کے اُوپر کسی قسم کی پابندی ہوگی یعنی دُنیا کے باغوں کی طرح کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی جہاں سے جتنا چاہیں کھائیں۔
وَّفُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ۳۴ۭ (۵۶: ۳۴) اور اُونچی نشست گاہوں میں ہوں گے۔
اور ان کے لیے زمین سے اُٹھے ہوئے بلند بستر ہوں گے۔
اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَاۗءً۳۵ۙ فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۳۶ۙ (۵۶: ۳۵-۳۶)اور ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انھیں باکرہ بنادیں گے۔
وہاں جو حُوریں اور جو بیویاں ان کو ملیں گی ہم نے ان کو پیدا کیا ہے۔
فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا،اور اس کو ہم نے باکرہ بنایا۔ ہم نے ان کو خاص طریقے سے پیدا کیا ہے۔ انسان کا خاص طریقے پر پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں جو عورت کسی کی بیوی تھی اگر وہ اس کے ساتھ جنّت میں جائے گی تو اللہ تعالیٰ گویا اس کو نئے سرے سے پیدا کرے گا چاہے دُنیا میں وہ بوڑھی ہوکر مری ہو اور اللہ تعالیٰ اسے نئے سرے سے جوان بنائے گا۔ اگر دُنیا میں وہ خوب صورت نہیں تھی تو اللہ تعالیٰ اس کو نہایت خوب صورت بنائے گا مگر اس طرح سے کہ معلوم یہ ہوگا کہ وہی عورت ہے جو دُنیا میں اس کی بیوی تھی، یعنی اس کے فیچرز محفوظ ہیں اور اس کو خوب صورت بنایا جارہا ہے۔ اسی چیز کو بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے ان کو خاص طور پر بنایا ہے۔
فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۳۶ۙ عُرُبًا اَتْرَابًا۳۷ۙ (۵۶: ۳۶-۳۷) اور ان کو باکرہ بنادیں گے، اپنے شوہروں کی عاشق اور عمر میں ہم سن۔
عربا کے معنی ہیں شوہر کو چاہنے والی اور اتراب سے مراد ہے ہم سن، یعنی وہاں وہ ان کی ہم سن بنا دی جائیں گی اور وہ اپنے شوہر سے نہایت محبت کرنے والی ہوں گی۔
لِّاَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ۳۸ۭۧ (۵۶: ۳۸) یہ سب کچھ اصحاب ِ یمین کے لیے ہوگا۔
گویا دو قسم کے جنّتی ہوں گے: ایک جنّتی وہ ہیں جو سابقین ہیں اور دوسرے جنّتی وہ ہیں جو اصحاب میں ہیں۔ سابقین کے متعلق وہاں فرمایا گیا کہ وہ اُمت کے ابتدائی دور میں کثیر ہوں گے اور بعد کے اَدوار میں وہ قلیل ہوں گے۔ قلیل کے متعلق پھر میں وضاحت کردوں کہ قلیل کا مطلب مجموعہ میں قلیل ہونا ہے ، تعداد میں قلیل ہونا نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نبیؑ کی دعوت کے ابتدائی زمانے میں مثلاً دو ہزار اس طرح کے لوگ ہیں لیکن چونکہ اُمت کی تعداد ہی کم تھی اس لیے وہ اُمت میں عظیم اکثریت تھے۔ ہوسکتا ہے کہ آگے چل کر وہ دس لاکھ ہوں لیکن اُمت اگر کروڑوں کی ہے تو وہ اقلیت ہیں۔اس بات کو ملحوظ رکھیے۔ یہ مت سمجھیے کہ قلیل سے مراد ہے تعداد میں قلیل سے مراد ہے اقلیت میں ہونا۔یہاں فرمایا:
ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۳۹ۙ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۴۰ۭ (۵۶:۳۹-۴۰)وہ اگلوں میں سے بھی بہت ہوں گے اور پچھلوں میں سے بھی بہت۔
یعنی کثیر تعداد اوّلین میں اور کثیر تعداد آخرین میں۔اب یہاں یہ ہے کہ گویا اُمت کے اندر ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی۔ ہر دور میں اصحابِ یمین ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ اُمت ساری کی ساری دوزخیوں پر مشتمل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اُمت کے اندر اصحابِ یمین کی بہت ہی تھوڑی اقلیت باقی رہ جائے۔ نہیں، اُمت میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اصحابِ یمین ہیں۔ اس چیز کو سمجھنے کے لیے اس بات کو بھی ملحوظ رکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ایک مرتبہ کہ جو لوگ میرے زمانے میں موجود ہیں اگر انھوں نے جو ان سے دین میں مطلوب ہے اگر انھوں نے اس کے دس حصوں میں سے نو حصے کیے ہوں تب بھی ان سے بازپُرس ہوگی کہ انھوں نے ایک حصہ بھی کیوں چھوڑا ہے؟ لیکن ایک ایسا دور آئے گا کہ ان دس حصوں میں سے اگر کسی آدمی نے ایک حصے پر عمل کیا ہے تو اس پراجر پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بتایا گیا ہے کہ بعد کے دور میں کثیرتعداد ہوگی آخرین کی۔ اگر ایک زمانہ ایسا آجائے کہ جس میں خدا کا نام لینا بھی شرمناک ہوجائے۔ ایک آدمی سےی ہ توقع کی جائے گی کہ وہ خدا کا نام زبان پر نہ لائے۔ اگر وہ خدا کا نام زبان پر لاتا ہے تو گردوپیش کے لوگ اس کو دیکھتے ہیں کہ یہ کیسا رجعت پسند آدمی ہے کہ جو اس زمانے میں خدا کی باتیں کر رہا ہے۔ جب ایسی حالت آجائے تو اس میں اگر کوئی شخص خدا کا نام لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں، میں خدا کو مانتا ہوں اور ایک مانتا ہوں تو یہ جہاد کر رہا ہے اور اجر کا مستحق ہے۔
ایک ایسا زمانہ خود ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جب ایک آدمی کو کھلے میدان میں یا کسی پارک وغیرہ میں نماز پڑھتے ہوئے شرم آتی تھی۔ وہ سوچتا تھا کہ کیا کروں اور کہاں جائوں؟ اگر یہاں نماز پڑھوں گا تو سیکڑوں آدمی مجھے دیکھ رہے ہیں۔ وہ میرا مذاق اُڑائیں گے۔ اس حالت میں جن لوگوں نے نمازیں پڑھی ہیں ان کی نماز کا کیا اجر۔ ظاہر بات ہے کہ اس دور کی نمازوں سے بہت زیادہ ہے کہ جس دور میں اگر کوئی آدمی نماز نہ پڑھتا تھا تو نکو بن جاتا تھا۔ آج نماز پڑھنے والا نکو ہو جاتا ہے تو جو آدمی اُس دور میں نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز کے اجر کا کیا پوچھنا۔ یہ اس دور کی نماز کی بہ نسبت زیادہ ہوگا۔ جب نماز نہ پڑھنے والا نکو بن جاتا تھا جہاں حالت یہ تھی کہ واذا کان صلوٰۃ……یہ منافقین کی تعریف ہے۔ منافقین کے متعلق قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ وہ نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے اُٹھتے ہیں۔یہ ہے علامت منافقین کی۔
اب نماز نہ پڑھنے والا مسلمانوں کے اندر ہے۔ اس وقت نماز کے لیے کسمساتے ہوئے اُٹھنے والا منافق تو اس طرح کے مختلف حالات کے اعتبار سے اعمال کا وزن اللہ تعالیٰ کے ہاں قرار پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اعمال کا وزن صرف اس لحاظ سے نہیں ہے کہ اس نے بھی چار رکعتیں پڑھیں اور اس نے بھی چار رکعتیں پڑھیں۔ رکعت اور رکعت میں حالات کے لحاظ سے زمین آسمان کا فرق ہوجاتا ہے۔ جس میں اس نے پڑھی ہے اور نامعلوم کیا کیا چیزیں ہیں کہ جو مل جل کر اللہ کی نگاہ میں اعمال کی قدر بڑھاتی یا گھٹاتی ہیں۔ اسی وجہ سے فرمایا کہ اصحاب الیمین، نبی ؐ کی اُمت کے ابتدائی دور میں بھی بہت ہوں گے اور آخری دور میں بھی، البتہ سابقون نبیؐ کی اُمت کے ابتدائی دور میں زیادہ ہوں گے اور بعد کے اَدوار میں کم ہوں گے۔
عطا بن یسار (م:۱۰۳ھ)مشہور تابعی اور راویٔ حدیث ہیں۔ انھوں نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے ملاقات کی اور پوچھاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفات توریت میں بیان ہوئی ہیں وہ مجھے بتلائیے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض صفات جو قرآن میں بیان کی گئی ہیں وہ توریت میں بھی موجود ہیں اور وہ صفات یہ ہیں:
اے نبیؐ! ہم نے آپ کو گواہ بناکر بشارت دینے والا اور ڈرانے والا اور اہل عرب کے لیے پشت پناہ بناکر بھیجا ہے۔ آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں۔ میں نے آپ کا نام متوکل یعنی اللہ پر بھروسا کرنے والا رکھا ہے۔ نہ آپ تندخو ہیں، نہ سخت مزاج ہیں، نہ بازاروں میں شور مچانے والے ہیں اور نہ بُرائی کا بدلہ بُرائی سے دیتے ہیں، بلکہ معاف کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک آپ کی روح قبض نہیں کریں گے جب تک کہ آپؐ کے ذریعے ٹیڑھی قوم کو سیدھا نہ کردیں اور وہ لاالٰہ الا اللہ کہنے لگے۔ اللہ تعالیٰ آپؐ کے ذریعے اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور بند دلوں کوکھول دے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب البیوع، باب کراہیۃ الصخب فی الاسواق)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توریت کی جن آیات کا حوالہ دیا ہے، ان سے ملتی جلتی آیات قرآن میں اس طرح وارد ہوئی ہیں: يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۴۵ۙ وَّدَاعِيًا اِلَى اللہِ بِـاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا۴۶ (الاحزاب۳۳:۴۵-۴۶) ’’اے نبیؐ! بے شک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے دعوت دینے والا اور روشن چراغ بناکر بھیجا ہے‘‘۔
مذکورہ آیات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ صفات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اوّل یہ کہ آپؐ شاہد یعنی گواہ ہیں۔ دوم یہ کہ آپؐ جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ سوم یہ کہ آپؐ دوزخ کے عذاب سے ڈراتے ہیں ۔ چہارم یہ کہ آپؐ اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہیں۔ پنجم یہ کہ آپؐ روشن چراغ ہیں ۔ اسی طرح سورۃ الفتح میں کہا گیا ہے: اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۸ۙ (الفتح۴۸: ۸) ’’بے شک ہم نے آپؐ کو شاہد اور مبشر اور نذیر بناکر بھیجا ہے‘‘۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خالق کائنات کی طرف سے دنیا میں بھی گواہ ہیں اور آخرت میں بھی گواہ ہوں گے۔ دنیا میں آپ کی شہادت کاحوالہ دیتے ہوئے قرآن پاک میں اہل عرب سے کہا گیا ہے: اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاہِدًا عَلَيْكُمْ كَـمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا۱۵ۭ (المزمل۷۳: ۱۵) ’’ہم نے تمھاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو تمھارے اوپر گواہ ہے، جس طرح ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا‘‘۔
دوسری جگہ مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۰ۭ (البقرہ۲: ۱۴۳) ’’اور اسی طرح ہم نے تم لوگوں کو معتدل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنیں‘‘۔
لوگوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت دو طرح کی ہے۔ ایک قولی شہادت اور دوسری عملی شہادت۔ قولی شہادت یہ ہے کہ آپؐ نے آغاز نبوت سے لے کر وفات تک خدائے وحدہٗ لاشریک لہٗ کی گواہی دی، اس کے علاوہ ہر معبود کا انکار کیا اور اس کے سوا کسی کو خالق ومالک نہیں مانا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی خلاقیت اور الوہیت کے ساتھ فرشتوں کی عبدیت اور معصومیت، انبیائے سابقین کی حقانیت، آسمانی کتابوں کی صداقت، حیات بعدالموت کی حقیقت، جنت وجہنم کی واقعیت اور جزا وسزا کے برحق ہونے کی گواہی دی۔ اسی طرح اللہ کے دین، شریعت اور احکام کی گواہی دی اور اس کے حلال وحرام کے ضابطوں اور قضا وقدر کے فیصلوں کی گواہی دی۔
دنیا کی طرح آخرت میں بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم گواہ ہوں گے۔ آخرت کی شہادت کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن پاک میں ایک جگہ کہا گیا ہے: وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ شَہِيْدًا عَلَيْہِمْ مِّنْ اَنْفُسِہِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَہِيْدًا عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ۰ۭ (النحل۱۶: ۸۹) ’’اور جس روز ہم ہراُمت میں ان کے اندر سے ایک گواہ اٹھائیں گے جو ان پر گواہی دے گا اور اے محمدؐ آپ کو ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے لائیں گے‘‘۔
دوسری جگہ قرآن میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے:فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍؚبِشَہِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِيْدًا۴۱ (النساء۴: ۴۱)’’وہ منظر کیسا ہوگا جب ہم ہرامت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپؐ کو ان تمام لوگوں پر گواہ بناکر کھڑا کریں گے‘‘۔
آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت اپنی امت کے اعمال پر بھی ہوگی اور انبیائے سابقین کی امتوں پر بھی ہوگی۔ اس کی تفصیل متعدد روایات میں وارد ہوئی ہے۔ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے فرمایا کہ تم قرآن کی تلاوت کرکے سناؤ۔ انھوں نے عرض کیا کہ قرآن تو آپؐ پر نازل ہوا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سناؤں؟ رسولِ کریم ؐ نے جواب دیا: ہاں، تم پڑھو اور میں سنوں گا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے سورۃ النساء کی تلاوت کرنی شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچے: فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍؚ بِشَہِيْدٍ ، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بس کرو۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے نظر اٹھا کر دیکھا تو حضوؐر آنسوؤں سے رو رہے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب قول المقری للقاری حسبک)۔
تیسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ آپ کفروشرک، نفاق ،الحاد اور نافرمانی پر اللہ کے غضب اور عذابِ جہنم سے ڈراتے ہیں۔ یہ دونوں صفات تمام انبیا ؑ میں مشترک ہیں۔ سارے انبیاؑ لوگوں کو کفروشرک اور بُرے اعمال کے انجام سے ڈراتے تھے اور عقیدۂ توحید اور اچھے اعمال کرنے پر جنت کی بشارت دیتے تھے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّا مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ۰ۚ (الکہف۱۸: ۵۶)’’ہم رسولوں کو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا نبی بناکر بھیجتے ہیں‘‘۔دوسری جگہ ارشاد ہے:رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللہِ حُجَّــۃٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ۰ۭ (النساء۴: ۱۶۵)’’ہم نے رسول بھیجے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے، تاکہ رسولوں کے آجانے کے بعد لوگوں کو اللہ پر حجت کرنے کا موقع نہ ملے ‘‘۔
دوسری جگہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا ہے:اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا۰ۭ وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِيْہَا نَذِيْرٌ۲۴ (الفاطر۳۵: ۲۴)’’بے شک ہم نے آپؐ کو برحق بشیر ونذیر بناکر بھیجا ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں کوئی ڈرانے والا نہ آیا ہو‘‘۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں بشارت کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ آپؐ لوگوں کو مایوس اور متنفر نہیں کرتے تھے بلکہ امید، شوق اور یقین پیداکرتے تھے۔ اللہ کی رحمت اور جنت کی بشارت دیتے تھے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جب لوگ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے تومیں ان میں پہلا شخص ہوں گا، جب لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف وفد کی شکل میں جائیں گے تو میں ان کا متکلم ہوں گا، اور جب لوگ مایوس ہوجائیں گے تو میں ان کو خوشخبری دوں گا‘‘۔ (سنن ترمذی، ابواب المناقب)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرامؓ کو بھی ہدایت فرماتے تھے کہ وہ خوشخبری دینے والے بنیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۴۵ۙ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف بھیجا اور ان کو ہدایت کی: انطلقا فبشرا ولاتنفرا و یسرا ولا تعسرا، تم دونوں (یمن) جاؤ اور خوشخبری سناؤ، نفرت نہ پیدا کرو، آسانی فراہم کرو اور دشواری میں نہ ڈالو۔ (معجم طبرانی بحوالہ تفسیر ابن کثیر، سورئہ احزاب: ۴۶)
انبیائے سابقین بھی اپنی قوموں کے لیے بشیر ونذیر تھے لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لیے بشیر ونذیر ہیں۔ چوںکہ آپؐ آخری نبی ہیں اور رہتی دنیا تک آپؐ ہی کے پیغام کو لائحہ عمل بننا ہے، اس لیے آپ کی انذار اور تبشیر کی صفت کو نمایاں کرکے بیان کیا گیاہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے: وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا (السبا۳۴:۲۸)’’ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے بشیر ونذیر بناکر بھیجا ہے‘‘۔ یعنی گذشتہ انبیائے کرام ؑ وقتی اور زمانی طور پر بشیر ونذیر تھے، جب کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم دائمی اور آفاقی طور پر بشیر ونذیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریمؐ کو صحیفۂ ہدایت قرآن کریم عطا کیا اور اسے صاف ستھری آسان زبان میں نازل کیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں اسے خوشخبری دینے اور ڈرانے کے لیے استعمال کریں اور آپؐ کے بعد لوگ قرآن سے بشارت حاصل کریں اور خوفِ خدا اختیار کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا۹۷ (مریم۱۹: ۹۷)’’بے شک ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان پر آسان کردیا ہے تاکہ آپ اس کے ذریعے خدا ترس لوگوں کو خوشخبری دیں اور جھگڑالو قوم کو اس کے ذریعے ڈرائیں‘‘۔
اس کے برخلاف حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص قوم یا محدود زمانے کے لیے داعی بن کر نہیں آئے، بلکہ دنیا کی ساری قوموں اور آخری زمانے تک کے لیے داعی بن کر آئے۔ ان کی دعوت قیامت تک کے لیے کافی ہے۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، اسی لیے ان کا لقب ’نبی آخر الزماں‘ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دائمی اور عالمگیر دعوت کا اعلان کرنے کے لیے فرمایا:قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَيُـحْيٖ وَيُمِيْتُ۰۠ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَكَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَ۱۵۸ (اعراف۷: ۱۵۸) ’’اے محمدؐ! آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تم سب لوگوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کی بادشاہت ہے آسمانوں او رزمین میں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہی زندگی اور موت دیتا ہے۔ تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول نبی امی پر جو ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور اس کے سارے کلام پر اور اس کی پیروی کرو شاید تم ہدایت یاب ہو‘‘۔
یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کا خالق ومالک ہے، اسی طرح حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت بھی تمام انسانوں کے لیے عام ہے۔ کسی قوم یا ملک کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں تمام انبیا علیہم السلام کی دعوت کا خلاصہ اور نچوڑ ہے۔ لہٰذا ان کی دعوت کو قبول کرنا صرف ایک نبی کی دعوت کو قبول کرنا نہیں ہے بلکہ تمام انبیا علیہم السلام کی دعوت کو قبول کرنا اور ان کے بتائے ہوئے راستہ کو اختیار کرنا ہے۔
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم خود ساختہ داعی نہیں تھے کہ ان کے دل میں لوگوں کے عقیدہ وعمل کو درست کرنے کا جذبہ پیدا ہوا، اور وہ اس کام کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس آفاقی دعوت کے لیے کھڑا کیا اور اس جوکھم بھرے کام کے لیے ان کو منتخب کیا۔ اسی لیے داعیًا الی اللہ کے ساتھ باذنہ کا لفظ بھی شامل کیا گیاہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دنیا والوں کو توحید کی دعوت دینے پر صرف مامور نہیں کیا بلکہ اس راہ کے نشیب وفراز سے بھی آگاہ کیا اور اس کی مشکلات سے باخبر کیا۔ اس کی حکمت سے روشناس کیا اور مرحلہ بہ مرحلہ اس دعوت کے لیے آپؐ کی تربیت کی۔ اس کے روحانی اور اخلاقی ضابطوں کی پابندی کرنے کی ہدایت کی۔ گویا اللہ تعالیٰ نے دعوت الی اللہ کی ضرورتوں، تقاضوں، مشکلات اور کامیابی کے امکانات سے پوری طرح اپنے نبی کو آگاہ کیا اور اسی کے مطابق تیار کیا۔ رسولؐ کی دعوت کے اسی طریق کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن پاک میں کہاگیا ہے:قُلْ ہٰذِہٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِ ۰ۣؔ عَلٰي بَصِيْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۰ۭ وَسُبْحٰنَ اللہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۱۰۸ (یوسف ۱۲: ۱۰۸)’’آپؐ کہہ دیجیے کہ یہ میرا راستہ ہے کہ میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں پوری بصیرت کے ساتھ، میں بھی اور میرے متبعین بھی۔ پاک ہے اللہ کی ذات اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں‘‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آفاقی دعوت کا ذکر بائبل میں ان الفاظ میں آیا ہے: ’’دیکھو میرابندہ جسے میں سنبھالتا، میرا برگزیدہ جس سے میرا جی راضی ہے، میں نے اپنی روح اس پر رکھی۔ وہ تمام قوموں کے درمیان عدالت جاری کرائے گا، اس کا زوال نہ ہوگا اور نہ مسلا جائے گا، جب تک راستی کو زمین پر قائم نہ کرے اور بحری ممالک اس کی شریعت کی راہ تکیں‘‘۔ (یسعیاہ، باب:۴۲، آیت: ۱-۴)
اس بشارت کی مزید وضاحت انجیل میں حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان مبارک سے اس طرح کی گئی ہے:’’یسوع نے ان سے کہا: کیا تم نے کتاب مقدس میں نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوگیا، یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے لیے پھل لائے دے دی جائے گی، اور جو اس پتھر پر گرے گا اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے مگر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا‘‘۔ (متی، باب: ۲۱، آیت: ۴۲-۴۳)
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو سراجِ منیر کہا، شمس منیر نہیں کہا۔ حالاںکہ سورج چراغ سے زیادہ روشنی دیتا ہے اور اس کی روشنی عالم گیر ہوتی ہے۔ حکمت اس میں یہ ہے کہ ایک سورج سے دوسرا سورج پیدا نہیں کیا جاسکتا، جب کہ ایک چراغ سے ہزاروں چراغ جلائے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور دعوت سے ہزاروں چراغِ ہدایت روشن ہوسکتے ہیں۔
امام رازی نے لکھا ہے:’’اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سراج کا لفظ استعمال کیا ہے، سورج کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ حالاںکہ سورج میں چراغ سے زیادہ روشنی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج سے کوئی دوسرا سورج نہیں پیدا کیاجاسکتا، جب کہ چراغ سے دوسرا چراغ جلایا جاسکتا ہے۔ اگر ایک چراغ بجھ جائے تو دوسرے چراغ سے روشنی حاصل کی جاسکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ؓ نے آپؐ سے ہدایت کی روشنی حاصل کی جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میرے صحابہؓ ستاروں کی طرح ہیں۔ تم ان میں سے جن کی بھی پیروی کروگے ہدایت یاب ہوگے‘‘۔ اسی طرح ان کے بعد تابعین بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نُورِ ہدایت حاصل کرتے ہیں، اور مجتہدین بھی سب کے سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے روشنی حاصل کرتے ہیں‘‘۔ (تفسیر الکبیر، سورۃ الاحزاب: ۴۶)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کریم کو بھی اللہ نے انذار وتبشیر کا مصدر بنایا ہے۔ رسول کریمؐ کے دنیا سے گزر جانے کے بعد قرآن ہمیشہ کے لیے بشیر ونذیر کی حیثیت سے موجود اور منور ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِہِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا۱ۭ۫ قَيِّـمًا لِّيُنْذِرَ بَاْسًا شَدِيْدًا مِّنْ لَّدُنْہُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا حَسَـنًا۲ۙ (الکہف۱۸:۱-۲)’’تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی۔ ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کردے، اور ایمان لاکر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دے دے کہ اُن کے لیے اچھا اجر ہے‘‘۔
خلاصہ یہ ہے کہ نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے آخری نبی بنایا۔ آپؐ کی سیرت وکردار کو دوسرے انسانوں کے لیے معیار اور نمونہ بنایا۔ آپؐ کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ اجمالاً گذشتہ آسمانی کتابوں میں فرمایا اور تفصیلاً قرآن کریم میں کیا۔ آپؐ کو خاتم النبیین بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب، مقام اور ذمہ داریوں کی صراحت فرمائی۔ لوگوں کو آپؐ کے حقوق سے آگاہ کیا، آپؐ کی دعوت کو آفاقی اور شریعت کو دائمی بنایا۔ اس دعوت میں انسانوں کے لیے راحت، بشارت اور نجات ہے۔
اُمت مسلمہ نازک دور سے گزر رہی ہے۔ اس ماحول میں اُمت کی حالت ِ زارکو سنبھالنے اور بہتر بنانے کا چیلنج مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے تاریخ کی حقیقت یا زمانے کا ’جبر‘ سمجھا جائےکہ وہ لوگ جو مسلم دُنیا سے تعلق رکھتے ہیں، مگر اپنی فکری اور سماجی کج روی کے باعث اکثر اس تعلق کی ڈور سے کٹ جانے کا عندیہ دیتے ہیں۔ اُن کے راہِ فرار کے باوجود زمانہ انھیں بھی اُمت ہی کا حصہ سمجھ کر معاملہ کرتا ہے۔ چنانچہ مسلمان جو مسلم دُنیا میں آبادی کے اکثریتی ممالک میں ہیں یا آبادی کے اقلیتی ممالک میں، ان کے سامنے یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے:
عصرحاضر میں ایک جانب مسلم اکثریتی ملکوں میں اور دوسری طرف مسلم اقلیتی ممالک میں اسلامی احیاء کے لیے کون کون سے فکری اور عملی اقدامات کیے جانے چاہئیں؟
اس سوال کے جواب میں جن اہلِ علم کی تحریریں اگست ۲۰۲۴ء میں شائع کی گئیں، ان میں شامل تھے:
اور ستمبر کے شمارے میں
کی تحریریں شائع ہوئیں۔ اب تیسری قسط پیش ہے (مضمون نگاروں کی نظرثانی کے بعد انھیں کتابی شکل دی جارہی ہے)۔ یہ جوابات اور تجزیات مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کرتے ہیں، جن سے ادارہ ترجمان کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔ تاہم، قارئین ان افکار و خیالات سے مستفید ہوکر بہتر نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔(ادارہ)
غزوۂ تبوک، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں نو ہجری کو ہوا۔ اس جنگ نے جزیرہ نمائے عرب سے خوف اور بے یقینی کی فضا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ اب مسلم معاشرے کو اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لیے خندقیں کھودنے اور پہاڑی درّوں میں پناہ لینے کی ضرورت نہ رہی تھی۔ مسلمانوں کے افکار، کردار اور افواج کو عرب کی سرزمین میں آگے بڑھنے کے لیے جن رکاوٹوں کا سامنا تھا، ایک ایک کر کے زمیں بوس ہونے لگیں۔
مگر صرف ایک عشرہ قبل کے حالات پر ذرا نظر دوڑائیے، جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو ظلم، جبر اور بے بسی میں اپنی جانیں گنواتے دیکھ کر یہ فرما رہے تھے: ’’صبر کرو اے اہل یاسر! صبر کرو‘‘۔ پھر وہ لمحہ آیا، جب انھیں اور ان کے وفادار ساتھیوں کو اپنے گھر بار اور اموال چھوڑ کر پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی اور پھر خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکہ سے ہجرت کا راستہ اختیار فرمایا۔ مدینہ پہنچ کر بھی خوف کے سائے مسلمانوں کے سروں پر منڈلاتے رہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کی ساری توجہ اس مدت میں صرف اپنے دفاع پر مرکوز رہی۔ مسلمانوں کا ہر فرد سپاہی تھا اور کسی بھی جانثار کو کسی بھی وقت ڈیوٹی پر بلایا جاسکتا تھا۔
غزوۂ تبوک نے سارا منظر نامہ بدل دیا۔ اہلِ عرب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا (عین الیقین کر لیا) کہ اسلام کو اب پھیلنے، پنپنے اور نظام کی صورت میں قائم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اب اسلام کو فقط جنگجو سپاہیوں ہی کی نہیں بلکہ قانون سازوں، مالیاتی ذمہ داروں، علاقائی گورنروں، عدالتی ججوں اور فقیہوں کی بھی شدید ضرورت تھی۔ اب ان سارے تقاضوں کو پورا کرنے کا وقت آچکا تھا، جو ایک خوش گوار اور پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری تھے۔
چنانچہ غزوۂ تبوک سے واپسی کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ہدایات ’وحی‘ کی صورت میں نازل ہوئیں، اس میں یہ فرمایا گیا کہ اب ہر شخص کو جنگوں میں شریک ہونے کی ضرورت نہیں۔ مسلمان قبائل میں ایسے چنیدہ افراد باہر نکلنے چاہییں، جو اپنی خداداد صلاحیتیں اور توانائیاں اللہ کے عطا کردہ نظام زندگی کو سمجھنے، غور و فکر کرنے اور پھر اپنے اپنے علاقوں میں اس کے نفاذ کی منصوبہ بندی میں لگا دینے کے لیے تیار ہوں: لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْہِمْ (التوبہ ۹:۱۲۲)
چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ ان احکامات کے نزول کے فوری بعد ایک بہت ہی قلیل مدت میں نئی اسلامی ریاست کا عدالتی نظام، دفاعی نظام، مالیاتی نظام، تعلیمی نظام اور معاشی کفالت کا نظام تشکیل پا کر ادارہ جاتی شکل اختیار کرچکا تھا۔ تاریخ اس بات پر بھی گواہ ہے کہ وہ سرزمین جہاں اسکولوں، مدرسوں اور یونی ورسٹیوں کا نام و نشان تک نہ تھا، بلکہ کاغذ و قلم کی شکل بھی کم کم ہی دکھائی دیتی تھی، وہاں چند ہی برسوں میں ہر شعبۂ زندگی کے قوانین مرتب ہو گئے۔ عدالتی ججوں اور فوجی جرنیلوں کے لیے ضابطۂ اخلاق طے پا گئے۔ مالیات اور معیشت کا ایک ایسا نظام وجود میں آگیا، جس کا بنیادی ہدف محروم طبقات کی ضرورتیں پوری کرنا اور انھیں اوپر اٹھانا تھا۔ ہر شعبۂ زندگی میں شفافیت ترجیح اوّل ٹھیری اور یوں چند ہی برسوں میں ایک ایسا سماجی اور معاشرتی ڈھانچا وجود میں آگیا، جس میں رنگ، نسل، زبان اور مالی حیثیت کی بنیاد پر مراتب طے نہ ہوتے تھے بلکہ صلاحیت اور کردار اس میرٹ کی بنیاد بنے تھے۔
ہم نے یہاں پر مسلمانوں کے دورِ اوّل کا اختصار سے یہ جائزہ اس لیے پیش کیا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد اور اختیار کردہ حکمت عملی کو سمجھنے میں آسانی رہے۔ یہ حکمتِ عملی تین مراحل پر مشتمل تھی:
اسلامی احیاء کی جدوجہد کسی جامد فارمولے کی مرہونِ منت نہیں۔ اس کا نصب العین اور مقاصد تو ہمیشہ ایک تھے اور ایک ہی رہیں گے۔ مگر اس کی حکمت عملیاں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے پہلے بھی اور بعد میں بھی وقت، زمانے اور حالات کے اثر کے باعث مسلسل بدلتی رہی تھیں اور بدلتی رہیں گی۔ عرب کی سرزمین قبائلی طرزِزندگی پر مشتمل تھی۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا میں تشریف لائے تو اس خطے میں ایران اور روم کی طرز کی کوئی مضبوط بادشاہت موجود نہ تھی۔ ذرا سوچیے، اگر اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری رسول ایران یا روم میں بھیجا ہوتا تو کیا احیائے اسلام کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی اُس سرزمین پر بھی ایسی ہی ہوتی؟ مجھے امید ہے کہ آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ وہ پالیسی اور حکمت عملی اُسی خطے اور حالات کے مطابق ہوتی اور سرزمین عرب میں اختیار کی گئی حکمتِ عملی سے یقیناً کئی حوالوں سے مختلف ہوتی۔
قرآنِ مجید نے جہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ۲۳ سالہ جدوجہد کے خدوخال کا تفصیلی احوال ہمارے سامنے رکھا ہے، وہیں گذشتہ اَدوار کے جلیل القدر انبیا ؑ کی جدوجہد اور حکمت عملیوں کو بھی نمایاں کر کے ہمارے سامنے پیش کیا ہے، تاکہ آنے والے زمانوں کے سوچنے سمجھنے اور اسلامی احیاء کے لیے جدوجہد کرنے والے اس روشنی سے نئی راہیں تلاش اور تراش سکیں۔ ہردور کے انسان کی یہ ضرورت رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق نظمِ زندگی کو سنوارنے کے لیے مسلسل سوچ بچار کرتا رہے، رب کے عطا کردہ شعور اور علم کی بنیاد پر معلومات اکٹھی کرتا رہے اور معاشرتی اُلجھنوں اور پیچیدگیوں کی بند گرہوں کو اپنے ربّ کے عطا کردہ علم و بصیرت سے کھولنے کی جدوجہد کرتا رہے ۔
یہ بھی ضروری ہے کہ اسلامی احیاء کی تدابیر اختیار کرنے سے قبل وہ اس دور کے تمدنی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی احوال سے بھی پوری طرح واقف ہو۔ آج کی دنیا جیسی بھی سہی مگر ایک ’گلوبل ویلج‘ (عالمی گائوں) بن چکی ہے۔ جس میں معلومات تک رسائی اور مادی وسائل کی دستیابی بہت آسان ہو گئی ہے۔ اب لوگوں تک بات پہنچانے کے لیے پہاڑیوں کی چوٹی پر چڑھ کر آواز لگانے کی ضرورت نہیں، صرف ’یوٹیوب‘ کی راہ داریوں پر انگلیوں کی پوریں ایک ترتیب سے دبانے سے آپ کروڑوں انسانوں تک آسانی سے اپنی بات پہنچا سکتے ہیں۔ اس بدلی ہوئی فضا اور ماحول میں اب نئی مہارتوں اور لیاقتوں سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اس گلوبل ویلج میں جہاں کروڑوں، اربوں انسان بستے ہیں، جہاں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں، جہاں سیکڑوں آزاد اور نیم آزاد مملکتیں موجود ہیں اور جہاں درجنوں بڑے بڑے مذاہب کے ماننے والے لوگ کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، وہاں کسی فرد یا افراد کے کسی گروہ کے لیے اتنی متنوع سوسائٹی کی خاطر اسلامی احیاء کی حکمت عملی مرتب کرنا کچھ آسان نہیں۔ اور نہ اس کے لیے صرف ایک حکمت عملی پر عمل کرنا ممکن ہے۔
تاہم، کچھ ایسے اہم میدانوں اور نکات کی نشاندہی ضرور ممکن ہے، جس پر پالیسی سازی کے لیے اہلِ دانش غور و فکر اور تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں۔ غور و فکر کے ان میدانوں کی نشاندہی سے قبل کچھ بنیادی معلومات بھی ضرور ہمارے پیش نظر رہنی چاہییں___ • اس وقت دنیا میں تقریباً آٹھ ارب انسان آباد ہیں، جس میں مسلمانوں کی تعداد دو ارب کے لگ بھگ ہے۔ گویا مسلمان دنیا کی کل آبادی کا ایک چوتھائی ہیں۔l• مسلم آبادی کا سب سے بڑا حصہ (۶۲کروڑ) جنوبی ایشیا (پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان وغیرہ) میں رہائش پذیر ہے۔ l•دوسرا بڑا حصہ مشرقِ وسطیٰ (عرب ممالک، مصر، ایران اور ترکی وغیرہ) کا ہے، جہاں ۴۵ کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ l•تیسرا حصہ مشرقِ بعید (انڈونیشیا، ملائشیا وغیرہ) ہے جہاں ۲۵ کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ l•چوتھا بڑا حصہ وسطی ایشیائی ملک (ازبکستان، تاجکستان، قازقستان، ترکمانستان وغیرہ) ہیں، جہاں سات کروڑ مسلمان رہائش پذیر ہیں اور l•پانچواں بڑا حصہ یورپ اور شمالی امریکا کاہے، جہاں چھ کروڑ مسلمان آباد کار پچھلی صدی کے آخر اور موجودہ صدی میں جا کر آباد ہوئے ہیں۔ • l•مسلم اقلیتی ممالک میں چین، روس اور برما وغیرہ ایسے ممالک ہیں جہاں مسلم اقلیتوں کو بہت ہی محدود مذہبی رسومات و عبادات کی سہولت میسر ہے۔ جہاں دین اسلام کی تبلیغ، لٹریچر کی اشاعت اور دیگر سرگرمیوں کی اجازت نہیں۔ البتہ یورپ، شمالی امریکا اور آسٹریلیا میں وہاں کے رائج نظام کے باعث مذہبی سرگرمیوں، عبادت گاہوں کی تعمیر، لٹریچر کی اشاعت اور اجتماعات کی آزادی موجود ہے، جس سے مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق پورا پورا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
۱- وہ مسلم اکثریتی ممالک جہاں تحریر و تقریر اور ادارہ سازی کی آزادیاں میسر ہیں۔ وہاں کی احیائی تحریکیں، مزاحمتی سیاست کے ساتھ ساتھ، ایسی طویل مدتی منصوبہ بندی کر سکتی ہیں، جہاں جان دار علمی اور تحقیقی کام کے لیے مؤثر ادارے وجود میں آئیں، تاکہ ایسے ماہرین کی تیاری کا کام ہوسکے، جو منصوبہ سازی پر گہرےاثرات مرتب کر سکیں (پاکستان، بنگلہ دیش، ترکی، ملائشیا، انڈونیشیا، ایران وغیرہ کی سرزمینیں اس کام کے لیے موزوں ہیں)۔
۲- وہ مسلم اکثریتی ممالک جہاں جبر نے اپنے مضبوط پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ وہاں کے ہزاروں باشعور نوجوانوں کو آزاد ملکوں کے با مقصد سفر پر آمادہ کیا جائے تاکہ وہ وہاں پہنچ کر علم اور مہارتیں سیکھ سکیں اور مستقبل میں اپنے ممالک میں آنے والی تبدیلیوں سے پہلے خاصی بڑی تعداد میں متبادل ٹیم کا کردار ادا کر سکیں (بیش تر عرب مملکتیں،مصر اور افریقی ریاستیں)۔
۳- وہ اقلیتی مسلم ممالک جہاں جمہوری اور انسانی قدریں مقابلتاً بہت بہتر ہیں۔ وہاں موجود احیائی تحریکیں ان ممالک کو اپنا گھر سمجھیں۔ بے شمار معاشرتی اُلجھنوں کے باوجود، وہ ان معاشروں کو اپنا خیر خواہ اور اپنے آپ کو ان کا خیر خواہ بنانے کی کوشش کریں۔ ٹکراؤ کی پالیسی سے بچیں، سیرت کے پیغام اور دین کی دعوت کو عام کریں۔ اپنے بچوں اور خاندانوں کے ذریعے ان معاشروں کو کچھ دینے والے بنیں، محض معاشی مفاد سمیٹنے والے بن کر نہ رہ جائیں۔ سائنسی ورثے اور ٹکنالوجی کو اپنانے کے لیے اپنے بچوں کو تیار کریں (امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی ممالک)۔
۴- وہ اقلیتی مسلم ممالک جہاں جبر کی فضا ہے۔ وہاں کے لیے پالیسیاں مرتب کرنا شاید سب سے دشوار کام ہوگا۔ مگر ذرائع ابلاغ کے تیز تر نیٹ ورک کے ذریعے وہاں کے لوگوں تک ان کی مقامی زبان میں پیغام رسانی اور دعوت کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کے اقدامات کرنا، دین کے بنیادی لٹریچر اور معلومات کو ان تک پہنچانا، شاید اُن کے لیے ایک اچھی حکمت عملی ہو۔
آج سے تقریباً دس سال قبل ہم تین لوگ (ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن صدر الخدمت فاؤنڈیشن، پروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق، پشاور میڈیکل کالج کے پرنسپل، اور راقم) دوحہ ،قطر میں علّامہ محمد یوسف القرضاوی مرحوم و مغفور کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر نجیب الحق نے علامہ القرضاوی سے پوچھا:’’شیخ آپ سے رہنمائی درکار ہے۔ آج کی اسلامی تحریکوں کی ترجیحات کیا ہونی چاہییں؟‘‘۔
علّامہ محمد یوسف القرضاوی نے بے ساختہ جواب دیا:’’مسلم اکثریتی خطوں میں علم کا فروغ اور مسلم اقلیتی ممالک میں دعوتِ دین‘‘ اور ہم تینوں، تشنگانِ علم، اس جملے کے معنی و مطالب سے دیر تک سیر ہونے کی کوشش کرتے رہے۔
علامہ القرضاوی کے نزدیک علم کے فروغ کا مطلب یقیناً شرح خواندگی میں اضافہ نہ تھا بلکہ دینی رہنمائی سے سرشار کرتے ہوئے علم کے مراکز کو ایم آئی ٹی اور ہارورڈ، کیمبرج اور اوکسفرڈ سے بخارا اور سمرقند، بغداد، قاہرہ، استنبول اور جکارتا، ڈھاکا، لاہور میں منتقل کرنے کی جدوجہد سے تھا۔ دعوتِ دین بھی ایسی، جیسے کسی فوج کشی کے بغیر (محض کردار کے زور پر) مشرقِ بعید (ملائیشیا اور انڈونیشیا یا بنگال) کی سرزمین کو بدل دیا گیا تھا۔ یہ دونوں کام آسان نہیں، مگر علّامہ القرضاوی کی دُوراندیش نگاہوں نے رہنمائی کا حق ادا کردیا۔ اسلامی تحریکیں اس کے عملی تقاضوں پر غور و فکر کریں اور اس طرح کا بنیادی ڈھانچا استوار کرنے کا آغاز کر لیں تو یہ ایک شان دار پیش رفت ہوگی۔
اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے: ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۲۸(الفتح ۴۸:۲۸) ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے‘‘۔
اللہ کا دین اسلام ایک زندئہ جاوید نظامِ حیات ہے۔ قرآن میں اس کے ’احیا‘ کی بات نہیں آئی بلکہ ’غلبہ‘ کا حکم ہے۔ اسلام کے ساتھ تعلق کا دعویٰ رکھنے والے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس کے غلبے کے مکلف ہیں۔ اگر وہ اپنی زندگیوں میں اسے غالب کرلیں تو پوری زمین پر وہ غالب آجائے گا۔
اللہ ربّ العزت نے ہمارے جدِامجد حضرت آدم علیہ السلام کو پروانۂ خلافتِ ارضی عطا فرماتے ہوئے نہ صرف اکتسابِ علم کے لیے عقل و فکر کی استعداد عطا فرمائی بلکہ انسانی عقل و فکر کی محدودیت اور مابعد الطبیعیاتی اُمور میں نارسائی کے پیش نظر یہ وعدہ فرمایا کہ عقل وفکر کی رہنمائی کے لیے اپنی جانب سے رہنما ہدایات پہنچاتے رہیں گے۔ پس جو بھی اس ہدایت کو قبول کرتے ہوئے اس کا اِتباع کرے گا تو اس کے لیے کوئی خوف اور غم نہیں۔ گویا اسے دُنیا و آخرت کی کامرانیاں حاصل ہوں گی (البقرہ۲:۳۸)
یہ وعدہ انبیا علیہم السلام کی بعثت کے ذریعے پورا ہوتا رہا، حتیٰ کہ اس کی تکمیل خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی۔
سورئہ فتح کی درج بالا آیت اسی وعدے کی تکمیل کا اعلان ہے۔ سورئہ صف اور سورئہ توبہ میں اس اعلان کے ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا کہ بنی نوع انسان میں ایک طبقہ (مشرکین) دینِ حق کے نزول کو ناگوار جانے گا بلکہ وہ اس کے نفاذ کے راستہ میں مزاحم ہوگا (التوبہ ۹:۳۲)، لہٰذا ہدایت الٰہی کے غلبے کے لیے اہل حق کو باطل کے خلاف سینہ سپر ہونا ہوگا۔
دین حق ہی ’اسلام‘ ہے: اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۰ۣ (اٰل عمرٰن۳:۱۹)۔ اس دین کا اِتباع کرنے والوں کو ’مسلمین‘ کا نام دیا گیا (الحج۲۲:۷۸)۔ حکم ہوا اس دین سے وابستگی کا دعویٰ کرنے والوں کو اس میں پورے کا پورا داخل ہونا ہوگا (البقرہ ۲:۲۰۸)۔ اس کے مقابلے میں دیگر تمام ادیان خطوات الشیطٰن ہیں،’اتباع ہویٰ‘ پر قائم ہیں، جن کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے (الکہف۱۸:۲۸)۔ ان کی ظاہری شان و شوکت محض دھوکا ہے، عارضی ہے، ان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھنے سے بھی منع کر دیا گیا ، کجا کہ ان سے مرعوب ہوں (طٰہٰ ۲۰:۱۳۱)۔ بتایا گیا کہ ہمارے لیے ہمارے ربّ کا عطا کردہ رزق (ہدایت، مادی و روحانی رزق) ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔
سورئہ الانفال میں ارشاد ہے: ’’یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تمھیں جائے پناہ مہیا کردی۔ اپنی مدد سے تمھارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمھیں اچھا رزق پہنچایا، شاید کہ تم شکرگزار بنو‘‘ (۸:۲۶-۲۸)۔تاریخ گواہ ہے کہ حق تعالیٰ کی رہنمائی قبول کرنے والی اپنے دور کی ایک کمزور قوم چند ہی برسوں میں دُنیا کی سب سے بڑی طاقت بن گئی۔
سورئہ انفال میں غلبۂ دین حق کے لیے تین اہم صفات اپنانے کا حکم دیا گیا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، جانتے بوجھتے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو‘‘ (انفال۸:۲۸)۔مزید فرمایا: ’’اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیںورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ (انفال ۸:۴۶)
ان آیاتِ کریمہ میں تین اہم اُمور کو یقینی بنانے کا حکم دیا گیا:
ان تینوں صفات کو مسلم معاشرے میں انفرادی و اجتماعی سطح پر عملاً نافذ کرنے کے لیے تین کام کرنا ہوں گے:
اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری کا اظہار کرنا ہے اور درپیش مسائل میں شاہ ولی ؒ اللہ نے اُمت مسلمہ کے دورِ ابتلاء کے آغاز میں ہی اُمت کے مسائل کا جو حل تجویز کیا، آج بھی وہی تریاق ہے:
سرچشمۂ ہدایت قرآن وسنت کو سعی وعمل کی بنیاد بنائے بغیر کوئی منزل حاصل نہیں ہوسکتی۔ قرآن وہ بصیرت عطا فرماتا ہے کہ پھر ظلم و ناانصافی، دین و اخلاق سے انحراف اور دوست دشمن کے مابین فرق نظر آنے لگتا ہے۔قرآن ہی وہ چشم بینا دیتا ہے جو دورِ جدید کے تصوّرات کو اللہ جل شانہٗ کی ہدایت کے پیمانے پر پرکھتے ہوئے اہل جہاں کو شیطانی جال کا شکار ہونے سے بچانے کی تدابیر کی جانب رہنمائی کرسکے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے علوم و فنون کو قرآن پر استوار کریں۔ ہمارا نظامِ تعلیم قرآن و سنت کی رہنمائی میں تشکیل پائے تاکہ ہماری درس گاہوں سے وہ افراد تیار ہوکر نکلیں جن کی نگاہیں تہذیب ِ حاضر کی چکاچوند سے خیرہ نہ ہوں، بلکہ اس کی خباثتوں اور کثافتوں کو پہچاننے کی اہلیت رکھتے ہوئے دُنیا کو پاکیزہ راستہ دکھا سکیں۔ حق کے بارے میں ان کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کا ازالہ کرسکیں۔ ہماری مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ، عسکری قیادت ان قرآنی علوم میں رسوخ حاصل کرکے خود کو ان اوصاف سے متصف کرلے جو مطلوب ہیں۔ ہمیں اپنے نظامِ تعلیم کو جاہلانہ مرعوبیت سے بچانے کے لیے اپنی زبان، لباس، بودوباش، نصاب، سب قرآن و سنت کے تابع رکھنا ہوں گے۔ قرآن ہمارے اندر جو اوصاف پیدا کرتا ہے وہ اتنے نمایاں ہوں کہ دشمن بھی ان کی گواہی دے۔
صلح حدیبیہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دور کے مقتدر سربراہان کو خطوط لکھے جن میں انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی۔ قیصرِروم کو خط ملا تو اس نے تحقیق کی غرض سے قریش مکہ کے سردار ابوسفیان کو (جو اتفاقاً اس کے دارالحکومت میں موجود تھے) دربار میں مدعو کیا اور آپؐ کے بارے میں سوال پوچھے۔ اس کا آخری سوال تھا: ’’وہ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟‘‘
ابوسفیان نے جواب دیا: ’’وہ ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیتے ہیں۔ وہ نماز کا حکم دیتے ہیں، صدق کی تلقین کرتے ہیں، ’عفاف‘ کا حکم دیتے ہیں اور ’صلہ‘ کا حکم دیتے ہیں‘‘۔ غور کیجیے اسلام کا یہ تعارف ایک ایسا شخص کروا رہا ہے جو دشمن گروہ کا سردار ہے۔ گویا یہ صفات اہل ایمان میں اتنی نمایاں تھیں کہ دشمن بھی اس کی گواہی دیتا۔
آج ہم ان صفات ہی کے لحاظ سے اپنا اپنا جائزہ لے لیں۔ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیانت نہ کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ محبت کے سطحی دعوئوں کے بجائے ان کے احکام پر عمل ہوتا نظر آئے۔ قرآن و سنت کے علوم میں رسوخ کے بغیر جاہلانہ افکارو نظریات کو پہچاننا ممکن نہیں۔
حضرت عمرؓ کا ارشاد ہے: ’’مجھے خطرہ ہے کہ وہ شخص اسلام کی کڑیاں بکھیر دے گا جس نے اسلام میں نشوونما پائی مگر جاہلیت کی پہچان نہیں رکھتا‘‘۔
ایسے افراد ہی تمدن اور قوانین طبیعی سے حاصل شدہ وسائل کو تہذیب ِ انسانی کا خادم بنا سکتے ہیں، ان کی معیشت اور معاشرت کو منکرات سے پاک کرکے ایک پاکیزہ جہاں ترتیب دے سکتے ہیں۔
اللہ ربّ العزت کا حکم ہے: ’’امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو‘‘۔ (النساء ۴:۵۸)
امانت کی تفصیل میں ہرمنصب اور ذمہ داری کو امانت کہا گیا۔ مشورہ امانت قرار دیا گیا (ترمذی)۔ مجلسوں میں باہم گفتگو، بحث و مباحثہ، بے لاگ درست مشورہ، رازوں کی حفاظت، سب امانت ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت میں خیانت کو منافقت کی علامت قرار دیا۔ ارشاد ہے: ’’جب امانتوں میں خیانت ہونے لگے تو بس قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ (بخاری)
ایک طویل حدیث میں قربِ قیامت کی علامات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’امانت اُٹھ جائے گی،مسلمانوں کی بڑی بڑی آبادیاں ہوں گی مگر پوری بستی میں بمشکل ایک امین ہوگا‘‘۔
کسی شخص کی تعریف ہوگی کہ کیسا عقل مند، کیسا خوش مزاج اور کیسا بہادر ہے درآں حالیکہ اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان نہیں ہوگا۔ (صحیح بخاری ، کتاب النفس)
امانت کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: ’’جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی۔ پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی و تعلق کے پیش نظر دے دیا۔ اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ اس کا فرض قبول ہے نہ نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے۔(جمع الفوائد)
امانت کا صحیح شعور، اس کے ادا کرنے کی فکر، احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے ہمہ گیر و ہمہ جہت اہتمام کی ضرورت ہے۔
آج کے دور کا ایک بڑا المیہ ہے کہ انسان کو گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ نسلی، لسانی، جغرافیائی، مسلکی گروہ بندیاں تو تھیں ہی ،اب تو عورت کو مرد کے خلاف اور اولاد کو والدین کے خلاف صف آرا کردیا گیا ہے۔
تہذیب ِ جدید کا سبق یہ ہے کہ ’اپنے حقوق کی خاطر کھڑے ہوجائو‘۔ معاشرے میں فرد کے کردار اور ذمہ داریوں کی بات ہی نہیں۔ عالمی کنونشن ہر گروہ کے صرف حقوق کی بات کرتے ہیں۔ چنانچہ ہر کوئی اپنے ’حق‘ کے لیے دوسرے سے برسرِپیکار ہے، اور خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
یہ بیماری اُمت مسلمہ میں بھی آموجود ہوئی۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اُمت کو خاص طور سے متنبہ کیا ہے: یہ طرزِعمل صفوں میں انتشار پیدا کرے گا، تم کمزور ہوجائو گے، تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ دشمن پر تمھارا رُعب ختم ہوگا، وہ تم پر چڑھ دوڑے گا۔
ہمیں سورئہ حجرات میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں اپنا، اپنے ذرائع ابلاغ کا، اپنے اجتماعی اداروں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کے لیے خیرخواہی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے بھائی کے لیے ویسا ہی طرزِعمل اختیار کریں جیسا اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔
فقہی معاملات میں بھی باہم مکالمے کے ذریعے خیرخواہی اور محبت کے جذبے کے تحت، بدگمانیوں کو دُور کرنے اور متفق علیہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
سورئہ آل عمران اور سورئہ انفال کی روشنی میں تین بڑی رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا ہے:
’محکمات‘ عمل کا حصہ ہیں۔ ان کے ساتھ ہمارا نفع و نقصان وابستہ ہے۔ ’متشابہات‘ میں مشغولیت اپنے اوقات لایعنی اُمور میں ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اسلام کا حُسن یہ ہے کہ لایعنی اُمور کو ترک کردیا جائے۔
اپنی اَنا اور اپنی خواہشات انسان کے لیے مصیبت بن جاتی ہیں۔ اپنی اولاد کی محبت، مال و دولت کی حرص، حق کے غلبے میں بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ دُنیا میں فتنہ وفساد، حرص و ہوس کے نتیجے ہی میں برپا ہے۔ جوع الارض کی کوئی حد نہیں۔ معاشرے سے امانت رخصت ہوجاتی ہے۔ باہم جنگ و جدل کی نوبت آجاتی ہے۔
انسان اپنے دوست سے متاثر ہوتا ہے۔ اللہ کی خاطر دوستی کرنے والوں کو اللہ عزّوجل کے سائے میں جگہ پانے کی خوش خبری دی گئی ہے۔ اللہ کے دشمن اللہ والوں کے دشمن ہیں۔ ان سے اظہار برأت کیے بغیر حق کا نفاذ مشکل ہے۔
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و سازِ رومی ، کبھی پیچ و تابِ رازی
ماہ نامہ ترجمان القرآن کے سوال میں ’نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر‘ کا اضطراب ہے۔ خلافت ِ عثمانیہ کی صرف عسکریت پسندی سے آغازپانے والی مسلم بے حسی نے مسلمانوں کو جغرافیائی شکل میں ہی تقسیم نہیں کیا ہے بلکہ فکری طور پر بھی تتر بتر کردیا ہے۔ پچھلی صدیوں میں اور خاص طور پر اکیسویں صدی کے پہلے مغربی استعمار نے مسلمانوں سے ان کی فکری شناخت چھین لی ہے۔ کوئی منزل نہیں ہے، کوئی نصب العین نہیں ہے۔
فروری ۱۹۷۴ء میں لاہور میں منعقدہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس ایک سنگ میل ثابت ہوئی۔ اس سے توقعات تھیں کہ مسلم دُنیا ایک سیاسی، سماجی اتحاد کی طرف بڑھے گی۔ پھر اس کے شرکا کا ایک ایک کرکے جسمانی طور پر خاتمہ کردیا گیا۔ یہ نائن الیون کے بعد کا ذکر ہے، جب دسمبر ۲۰۰۱ء میں جنگ گروپ کے زیراہتمام ہم نے سہ روزہ سیمینار منعقد کیا۔ اس سیمینار میں ملائشیا، انڈونیشیا، مصر، سعودی عرب، ترکیہ سے اسکالروں نے شرکت کی۔ لیکن یہ سلسلہ بھی آگے نہیں بڑھ سکا، جب کہ امریکا اور یورپ کے مصنفوں نے اسلام کا تاریخی جغرافیائی مطالعہ کیا۔ مسلم اَدوار پر بہت سی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔
عرب دُنیا کے احساسِ برتری نے مسلم ملکوں کے میڈیا کا کوئی اشتراک نہیں ہونے دیا۔ اب جب فلسطینیوں کی نسل کشی ہورہی ہے، اسکولوں میں ہی نہیں، رحمِ مادر میں بھی فلسطینی نسل کو نیست و نابود کیا جارہا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ پرمسلم مخالف مالکان اور فکری قوتوں کا غلبہ ہے۔ مغرب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے طور پر، مشترکہ خاندان کا اسلامی تصور اقتصادی بنیادوں پر ختم کررہا ہے۔ اخبارات، ٹی وی، یوٹیوب، سوشل میڈیا پر اسلامی شناخت پر ایک یلغار ہے۔ ہمارے مسلم سربراہ اور مسلم سپہ سالار، امریکا کے زیراثر ہیں۔ نیٹو کی فوجی طاقت مسلم عسکری قوتوں کو تباہ کررہی ہے، مگر زیادہ تر مسلم ممالک، امریکا کے اتحادی ہیں۔
میری آرزو ہے کہ مسلم ملکوں کے درمیان ابلاغی اور دفاعی معاہدہ ہو۔ ایک میڈیا ہائوس ہو، جس میں تمام مسلم ممالک کے صحافی اور ایڈیٹر اصولی کمیٹی کے ارکان ہوں۔ ہمہ پہلو علوم و فنون کی تدریس و تحقیق کا مرکز ایک اسلامی یونی ورسٹی ہو، جس کے کیمپس ہرمسلم ملک میں ہوں۔ اسلامی یونی ورسٹی سے ملحقہ کالجوں، اسکولوں کے لیے ایک نصاب پہلی سے لے کر گریجوایشن (From KG to PG )تک کا طے کیا جائے۔ اس کے لیے ہرملک کی مادری زبان میں کتابیں مرتب کی جائیں۔ مسلم اسکالروں کی سالانہ کانفرنسیں مختلف ممالک میں باری باری منعقد ہوں۔
ترکیہ، پاکستان ، ملائشیا کے اسکالرز اس کے محرک بن سکتے ہیں۔ مسلم بادشاہتیں اس میں رکاوٹ بنیں گی۔ اس کے لیے کچھ عملی اقدامات حفظ ماتقدم کے طور پر سوچے جائیں۔
اطلاعات یہ ہیں کہ مسلم نوجوانوں میں بہت بے چینی ہے۔ ذہنوں میں کش مکش زوروں پر ہے۔ یہی وقت ہے جب اس اضطراب کو ایک سمت اور ترتیب عطا کی جائے۔ اس احساسِ زیاں کو ایک اثاثہ سمجھ کر اس کو اصلاحِ احوال کا نقطۂ آغاز قرار دیا جائے۔
آج اگر استعماری قوتیں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے مستقبل کی صورت گری کا اختیار رکھے ہوئے ہیں، تو اس کی بظاہر وجہ یہی ہے کہ یہ قوتیں ہماری دنیاوی کمزوری کی وجہ سے ہم پر حاوی ہوگئی ہیں ۔ غیر ملکی استعمار کے مقابلے میں دنیاوی طاقت حاصل کرنا ہمارا اور ہمارے حکمرانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ مگردوسری طرف ہمارے یہی حکمران، ہمارے ہاں مسلط غاصب طبقے میں بھی شامل ہیں، الا ماشاءاللہ ۔ غاصب طبقے کی اجارہ داری کی وجہ شاید آج کی مسلم امہ کی علمی و ذہنی پس ماندگی اور فکری انتشار ہے۔ اوراگر یہ غاصب طبقہ اسلام کے لیے رکاوٹ بھی ہے تو یہ مغرب کی سائنسی ترقی سے مرعوبیت کی وجہ سے ہے –۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ طبقہ مسلمان اقلیتوں کا بھی سیاسی اور ثقافتی راہنما ہے۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر ۲۰۰۱ء )
ہماری پسماندگی معاشی ہو، سائنسی ہو یا ذہنی، ایک دنیاوی کمزوری ہے۔ دنیاوی حالت کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر کی مثال صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے، جس کاذکر مولانا مودودیؒ نے تفہیمات (حصہ اول) کے مضمون ’آزادی کا اسلامی تصور‘ میں کیا ہے، اور پھر ’رسولؐ کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی‘ میں۔ پہلے مضمون میں مولانا مودودی مرحوم لکھتے ہیں: ’’ایک مرتبہ حضور نے مدینے کے باغبانوں کو کھجور کی کاشت کے متعلق ایک مشورہ دیا۔ لوگوں نے اس پر عمل کیا مگر وہ مفید ثابت نہ ہوا۔ آپؐ سے اس بارے میں عرض کیا گیا تو جواب میں آپؐ نے فرمایا:تمھیں اپنے دُنیوی معاملات کا زیادہ علم ہے‘‘۔ آخری فقرہ اور حوالہ دوسرے مضمون میں ہے۔ یہ ایک دنیاوی مسئلہ تھا، جو ایک دنیاوی تجربہ چھوڑنے سے پیدا ہوا۔ دنیاوی علم کا ذکرصرف ایک حدیث میں ہی نہیں۔ ایسی پانچ مزید احادیث مبارک مولانا کےاِس پہلے مضمون ہی میں ہیں۔
مولانا مودودی بتاتے ہیں کہ جنگ ِ بدر کے موقع پرخیموں کی جو جگہ حضرت خباب بن منذرؓ نے (دنیاوی تجربے سے )تجویز کی اس پر عمل بھی کیا گیا۔ پیوندکاری اور خیموں کے علم کو عقلی علم کہیں، دنیاوی کہیں، یا آج سائنسی یاتجرباتی علم کہیں،یہ قرآن وسنت یا اسلامی علم سے مختلف ہے۔ ایسا کہنا ایک زُمرہ بندی(categorization) ہے۔ یہ تقسیم کوئی سیکولرزم یا گمراہی نہیں قراردی جاسکتی۔ سیکولرزم تب ہے اگر دنیاوی علم دین کے خلاف استعمال کیا جائے ۔ اسلامی روایت میں نقلی اور عقلی (دینی اور دنیاوی) علوم کے تعلق پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ان دونوں طرح کے علوم میں کوئی فرق تو ہے جس کی وجہ سے یہ بحث کرنا پڑی۔ اس لیے یہ فرق ماننا نہ گمراہی ہے اور نہ سیکولرزم۔
دنیاوی علم اسلامی حدوں کا منطقی تقاضا ہے، کیونکہ ایک پابندی کی پیروی کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں ۔ مثلاً اسلام نے کھانے پینے میں حرام سے منع کیا ہے۔ اب حرام کی کوئی فہرست یہ نہیں بتاتی کہ حلال کیا کیاہے؟ مثلاً ’سُور نہیں کھانا‘ ایک پابندی ہے۔ مگر اِس(اور دوسری اسلامی پابندیوں) کی خلاف ورزی کیے بغیر آپ جائز میں سے کچھ بھی کھا سکتے ہیں، جیسے چاول ، روٹی، سالن، پھل، سبزی، وغیرہ۔ ( بدر میں خیموں کی جگہ کی طرح) جائز کھانوں میں انتخاب ایک دوسرے ’علم‘ (جیسے میڈیکل سائنس )کا موضوع تو ہوسکتاہے، اسلام کا نہیں۔ یہ ایک علم میں دوسرےعلم کی گنجایش کی مثال ہے ۔
اسلام بہت سی تفصیلات انسانی تجربے(دوسر ے علم) کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ ہم دو جائز کاموں میں سے اُس کا انتخاب کرسکتے ہیں، جس کے حق میں تجرباتی گواہی زیادہ ہو۔ اسلام میں سائنس کی گنجائش اس طرح سے ہے ۔ اسلام میں مباح (جائز)کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں سائنس اور دیگر انسانی علوم کو وہ پوری آزادی مل سکتی ہے، جو ان کے لیے ضروری ہے۔ مسلمانوں کی دنیاوی کمزوری دُور کرکے انھیں اتنا طا قت ور بنانا کہ استعماری قوتیں ان پر حاوی نہ رہیں ، ایک دنیاوی مسئلہ ہے۔ اس کو حل کرنا سائنس یا سماجی علوم کا بھی کام ہے۔ اور یہ بھی شاید ایک دنیاوی یا انسانی مسئلہ ہی ہے کہ مسلمانوں میں اتنی قابلیت کیسے پیدا کی جائے کہ غاصب طبقے انھیں بے وقوف نہ بنا سکیں؟
اگست ۲۰۲۴ء کے ترجمان القرآن میں مضمون نگار سید سردار علی صاحب، اسلامی تہذیب کودرپیش مشکلات کے انسانی حل کی بات کرتے ہیں، اور سائنس ایک انسانی علم ہے۔ سردار علی لکھتے ہیں: ’’کوئی سابھی اخلاقی نظام ہو، انسان اپنے اظہار کے لیے بہرحال اسی مادی دنیا کے اسباب اوروسائل کا محتاج ہوتا ہے …اس لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ ان کی وہ تمام کوششیں، جو مسلم دنیا اور مسیحی مغرب کے درمیان فوجی طاقت، مادی دولت، اور ثقافتی اثر و رسوخ کےمسلسل بڑھتے ہوئے فرق کی تشخیص کے لیے تھیں، سودمند ثابت ہوتیں کیونکہ یہ تشخیص انسانی معاشروں کے عروج و زوال کے معروضی اور آفاقی پیمانوں کے بجائے صرف عقائد کے زیرِ اثر ، جزوی، یا سطحی مفروضوں پر مبنی تھی‘‘۔
آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’دُنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ صرف دینِ اسلام کی راہ سے بھٹکنا ان کی اس کمزوری کا سبب نہیں ہے…جب تک مسلمان تجزیے اور اصلاحِ احوال کی کوششوں کوان مبادیاتی غلطیوں سے پاک نہیں کریں گے، اُس وقت تک، اپنی عظمتِ رفتہ کی بازیافت کے لیے مسلمانوں کی سب کوششیں ماضی کی طرح لا حاصل ہی رہیں گی…مسلمانوں کے اندر ایسے نظریات نہیں پنپ سکے جو انھیں اطمینان دلاتے کہ سائنس، عقل اور سماجی ارتقاء سے حاصل کیے گئے ذرائع کا استعمال کوئی غیر اسلامی عمل نہیں ہے… جدید ٹکنالوجی، جدید تصورات اور جدید ادارے جب کبھی مسلم معاشروں میں راہ پاتے ہیں تو ان کو بے دلی سے اپنایا جاتا ہے، جس سے کسی بہتری کا امکان نہیں پیدا ہوتا ‘‘۔ مادی دنیا کے اسباب کا مطالعہ سائنس کا موضوع ہے۔ اس میں انسانی معاشروں کے عروج و زوال کے معروضی اور آفاقی پیمانوں کا مطالعہ سماجی علوم (سوشل سائنسز )کاکام ہونا چاہیے، جن میں معاشیات ، بشریات، نفسیات، معاشریات اور سیاسیات شامل ہیں۔ یہ صرف دوافرا د یعنی راقم اور سیّد سردار علی کی تشخیص اور رائےنہیں ہے۔
یہی بات جب اخوان المسلمون کے سابق مرشد عام حسـن الہضـيبی نے اپنی کتاب دعـاة لا قضـاة (ہم داعی ہیں قاضی نہیں )میں لکھی ہے تو بہت سی ایسی مثالیں دی ہیں جن کا سائنس ہونا واضح ہے۔ اس کتاب کی چوتھی فصل (بعنوان:اِنِ الْحَكُمْ اِلَّا لِلهِ) میں لکھا ہے: ’’شریعت میں اعمال فرض ، حرام یا جائز ہیں۔ جو چیز فرض ہے… کسی انسان کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ یہ واجب نہیں ہے…اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو حرام قرار دیا ہے، وہ قیامت تک حرام ہے… جہاں تک مباحات (جائز امور) کا تعلق ہے، مسلمانوں کو یہ اختیار ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق ان میں ضابطے بنائیں، چاہے وہ فیصلہ ہو، قرارداد ہو، یا قانون ہو،تاکہ ان اصولوں کو نافذ کیا جا سکے جو عمومی مقاصد کے حصول کے لیے ضروری ہیں… اسی طرح عوامی سڑکوں پر ٹریفک کے قوانین، صحت سے متعلق حفاظتی قوانین، زرعی آفات کا مقابلہ کرنے کے قوانین، پانی کے ذرائع کے استعمال کے ضوابط، تعلیم سے متعلق قوانین، مختلف پیشوں جیسے میڈیکل سائنسز، انجینئرنگ، اور فارمیسی کے قوانین، اور ان کو انجام دینے والوں کے لیے مقرر کردہ شرائط بھی شامل ہیں۔ مزید برآں، انتظامی اداروں کو منظم کرنے اور ہرایک کے اختیارات اور ذمہ داریوں کو متعین کرنے کے قوانین…یہ اس بات کی نفی کے لیے کافی ہے کہ ’’قانون سازی صرف اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے‘‘۔
دنیاوی قوانین، دنیاوی علم کا حصہ ہیں، اور یہ علم ہم نے انسانی تجربے اور منطق سے سیکھنا ہے۔ دنیاوی علوم سیکھے بغیر امت کا احیاء ممکن نہیں ، چاہے یہ علوم ان کے پاس ہوں جواس وقت ہمارے دشمن ہیں ۔ اس صورت حال پر ایک اچھا تبصرہ اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے سابق استاد اور معروف اسلامی محقق ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب کا ہے۔ یہ تحریر ’متاع گم گشتہ‘ کے عنوان سے ان کی فیس بک پر ہے:
’’انسانی تہذیب کے ارتقاء میں ہر عہد اور ہر خطے کے لوگوں نے حصہ ڈالا۔ مسلمانوں نے اس کی آخری ترقی یافتہ شکل کو لے کر اس پر اضافے شروع کردیے۔ وہیں سے مغرب نے اس کا آخری سرا پکڑا اور اسے آگے بڑھانے میں جت گیا۔ آج ہم تسخیر کائنات کے ناقابلِ تصور مقام پر کھڑے ہیں۔ لیکن اگر ہم اسے مغرب کی تہذیب کہہ کر رد کریں گے تو واپس غاروں میں چلے جائیں گے۔ یہ پوری انسانیت کا مشترک اثاثہ ہے اور اس کی پرورش میں ہم نے بھی خون جگر جلایا ہے۔ اس پر ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے، جتنا مغرب یا کسی دوسری قوم کا ہے۔ کسی بھی انسانی ورثے کو کسی قوم کی طرف منسوب کر کے اسے ترک کرنے کی تلقین کرنا جہالت اور بے نصیبی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔
ڈاکٹر طفیل ہاشمی مزید لکھتے ہیں: ’’البتہ جس طرح درخت ارتقائی مراحل میں بےمصرف برگ و بار اٹھا لیتے ہیں، یا انسان کے بال ناخن وغیرہ بڑھ جاتے ہیں، بالکل اسی طرح تہذیب میں بھی کچھ ایسے عناصر شامل ہو جاتے ہیں، جو ماینفع الناس کے زمرے میں نہیں آتے ۔ صرف انھی کو الگ کرنا ہوتا ہے۔ مغرب میں مدون بے شمار قوانین، ادارے، نظام اسی زمرے میں آتے ہیں کہ وہ مشترکہ انسانی اثاثے ہیں اور تزئین گلستاں میں ہمارا خون بھی شامل رہا ہے۔ اس لیے جہاں آپ کھڑے ہیں اور جن قوتوں کے مالک ہیں، جو خزانے آپ کے پاس آ چکے ہیں انھیں ’دوسروں کا مال‘ کہہ کر رد کرنے کے بجائے اپنی متاع گم گشتہ سمجھ کر اس میں اضافے کی سعی کریں۔ ایک بار ہم نے فیڈرل شریعت کورٹ میں پاکستان پینل کوڈ کا مطالعہ شروع کیا۔ اس ٹیم میں میرے اور ڈاکٹر محموداحمد غازی صاحب کے علاوہ اور بھی متعدد احباب شامل تھے۔ ہم نے دیکھا کہ یہ قانون جو یہاں برٹش پینل کوڈ کے تحت رائج تھا، اس کی [کم و بیش ہر] دفعہ کسی نہ کسی اسلامی فقہ سے ہم آہنگ ہے۔ کئی صدیاں پہلے ہونے والی اس کی تدوین میں فقہ مالکی کے سکالر بھی شریک رہے‘‘۔
بوسنیا کے پہلے( مسلمان) صدر اور معروف مصنف علیجاہ عزت بیگووچ [م:۲۰۰۳ء] نے اپنی کتاب Islam Between East and West کے دوسرے باب میں یہی بات اس طرح لکھی ہے: ’’ترقی civilization میں ہوتی ہے، جس کا اہم حصہ سائنس اور بہت سے ادار ے ہیں، جب کہ مذہب اور کئی ’اخلاقی اقدار‘ cultureکا حصہ ہیں‘‘۔ اردو میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ترقی ’تمدن‘ میں ہوتی ہے اور اسلام ہماری تہذیب کی بنیادہے۔ تہذیب تو اسلامی یا غیراسلامی ہو سکتی ہے ، مگر ’تمدن‘ اسلامی غیراسلامی نہیں ہوتا۔ تمدن صرف قدیم یا جدید ہوتا ہے۔ جدید تمدن کو صرف اس وجہ سے رَد کرنا کہ اس پر مغربی تہذیب کے اثرات پڑگئے ہیں، کوتاہ نظری ہے ۔
’تمدن‘ کا لفظ زیادہ استعمال نہیں ہوتا، اس لیے طفیل ہاشمی صاحب نے اسے مغربی تہذیب کہا ہوگا۔ استعماری قوتیں مسلمانوں کے مستقبل کی صورت گری کا اختیار اپنے پاس اس لیے رکھے ہوئے ہیں کیونکہ آج مسلمان کمزور ہیں، یعنی ہم ’تمدن‘ میں پیچھے رہ گئے ہیں ۔ یہ مسئلہ کسی ایک گروہ یا جماعت کا نہیں ہے، اوراسے حل کرنے میں ہر ایک کو حصہ ڈالنا ہے۔ کسی پس ماندہ ملک میں ایک عام فرد کروڑوں میں سے ایک ہوسکتا ہے ۔ ایک پڑھا لکھا انسان لاکھوں میں سے ایک ہو تو ترقی کی کوشش میں اس کا لاکھواں حصہ ہونا چاہیے۔ ایک اہم سیاسی پارٹی سیکڑوں یا درجنوں قوتوں میں سے ایک ہوگی۔ اس کو ترقی کے لیے سو میں ایک یا درجن میں سے ایک حصہ ڈالنا چاہیے۔
ترقی کرنے کا کوئی طریقہ اگر اسلام کے خلاف ہو تو اس کا کوئی ایسا متبادل راستہ بھی ہوگا جس میں اسلام کی خلاف ورزی نہ ہو۔ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ یہ دوسرا متباد ل اختیار کیا جائے نہ کہ پہلا۔ اس کام کے لیے جدوجہد شایدصرف اسلام دوست طبقے ہی کریں۔ مسلم اکثریتی ملکوں میں اس مقصد کےلیے دباؤ برقرار رکھا جانا چاہیے۔
مسلم اقلیتی ملکوں کے کچھ عملی مسائل ایسے ہیں، جن کا حل شایدمقامی حالات کے مطابق ہی سوچا جاسکتا ہے۔ فکری اقدامات اس صورت حال کے لیے سوچے جا سکتے ہیں کہ مسلمانوں کی دنیاوی حالت مناسب ہو اور ان کا بڑا مسئلہ اپنے عقائد اور تہذیب کی حفاظت ہو۔ ایک وقت میں بھارت میں بھی مسلمان اس مسئلے پر توجہ دینے کے قابل تھے، اور وہاں ڈاکٹر ذاکر نائیک اور دیگر افراد نے اسلامی عقائد کے پھیلاؤ کے لیے بڑا مؤثر اور چیلنجنگ کام کیا۔ بھارت میں اسلام پر پابندیاں زیادہ شکلوں میں سامنے آئی ہیں، مگر فرانس وغیرہ میں بھی کچھ کم نہیں ہیں۔
تاہم، مغربی ممالک میں اپنا پیغام پھیلانے کی آزادی ہے۔ یہاں اگر مذہب کے خلاف لکھا اورکہا جارہا ہے تو مذہب کی حمایت میں بھی آوازیں اورتحریر یں کچھ کم نہیں ۔ دونوں طرف پہلا موضوع عیسائیت ہی ہے۔ لیکن اگر ایک عیسائی مبلغ اِن عقائد کے حق میں اچھا اور مؤثر لکھے جو اسلام اور عیسائیت میں مشترک ہیں (جیسے خدا کا وجود، انسانی روح اور کچھ مذہبی اخلاقیات)، تو ہم اس مشترکہ کام کو استعمال کرسکتے ہیں، کم از کم فلسفے ، ریاضی اور سائنس کے نام سے ان پیچیدہ سوالوں کے جواب دینے میں جہاں خود آج کے بہت سے مسلمان علما تفصیلات میں جانے کی قابلیت نہیں رکھتے۔
مسعودہ بانو کی کیمبرج یونی ورسٹی سے شائع شدہ کتاب (۲۰۲۰ء):The Revival of Islamic Rationalism کا ایک مجموعی تاثر یہ ہے کہ: مشرق کے مقابلے میں مغربی معاشروں میں زیادہ ذہین افراد اسلامی علوم حاصل کرنے کے لیے زندگیاں لگا رہے ہیں اور کئی تعلیمی ادارے بھی قائم کرچکے ہیں۔ اس کی وجہ مغرب میں نسبتاًمعاشی بے فکری ہوسکتی ہے۔ اسلامی عقائد کے لیے جس طرح ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھار ت میں کام کیاتھا، اب یورپ میں حمزہ زوٹز (Hamza Tzortzis) اور دیگر حضرات یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔ مغرب میں مذہب کے حق میں دلائل کا منطقی معیار ہے۔ مگریہ سارا علمِ کلام ابھی تک روحانیت ، مناظرہ بازی یا موجود تحریریں اکٹھا کرنےسے اُوپر اُٹھ کر انسانی تمدن کے ارتقاء کو اسلامی راہنمائی دینے کے مرحلے میں داخل نہیں ہوا ہے۔ اس مختصر تحریر میں ہم یہ عرض کرچکے ہیں کہ اسلام میں ایک دوسرے علم( سائنس) کی گنجایش ہے۔ اسی انداز سے سائنس اور تمدن کے ارتقاء کے ساتھ ایک تہذیب اور ہدایت کی منطقی گنجایش کی نشان دہی کی جاسکتی ہے اور لازمی طور پر کی جانی چاہیے (ایک سائنسی اصول کی پیروی بھی کئی طرح سےممکن ہے)۔ انسانی، روحانی، معاشرتی اور تہذیبی زندگی میں رہنمائی کے لیے اسلام نے جو ہدایت عطا فرمائی ہے، اس کا فہم اور روحِ عصر کا چیلنج ہمارے سامنے رہنا چاہیے۔
بہرصورت،امت مسلمہ کی احیاء کی کسی بھی بحث میں پہلاموضوع ’اسلام اور دنیاوی علوم کا تعلق‘ ہونا چاہیے۔ دُنیاوی علوم میں سائنس، سماجی علوم اور انسانی اقدار شامل ہیں۔ مسلم اکثریتی ممالک میں یہ بھی دیکھناہے کہ اسلام کی خلاف ورزی کیے بغیر دنیاوی علو م کو ترقی کے لیے کیسے استعمال کیا جاسکتاہے
اکتوبر کا مہینہ تھا جب پاکستان میں جمہوریت پر پہلا شب خون مارا گیا۔
۲۳؍ اکتوبر ۱۹۵۴ء کا وہ پُر آشوب دن جب اُس زمانے کے نئے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ امریکا کا دورہ اچانک ادھورا چھوڑ کر لندن کے راستے کراچی واپس آئے تو ہوائی اڈے سے انھیں پولیس کے سخت پہرے میں عملی طور پر ایک قیدی کی طرح سیدھے گورنر جنرل ہائوس لے جایا گیا، جہاں گورنر جنرل ملک غلام محمد، فوج کے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان اور اس زمانے کے مشرقی پاکستان کے گورنر، جنرل [اعزازی] اسکندر مرزا صلاح مشورہ کر رہے تھے۔
ہوائی اڈے پر موجود ہم چند صحافیوں نے وزیر اعظم بوگرہ سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن صاف منع کر دیا گیا، حتیٰ کہ پرنسپل انفارمیشن افسر کرنل مجید ملک بھی بے بس تھے اور ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ہوائی اڈے سے واپسی پر جب کراچی میں بھاری تعداد میں فوج کے دستوں کو نقل و حرکت کرتے دیکھا تو ماتھا ٹھنکا۔ طرح طرح کی افواہوں کا بازار گرم تھا اور قیاس آرائیوں کا زور تھا۔ وہ ایک پُرآشوب رات تھی۔ پوری رات صحافی اَن جانے ’اہم اعلان‘ کا انتظار کرتے رہے۔
گورنر جنرل ہائوس میں تین کے ٹولے کے طویل صلاح مشورے اور منصوبہ بندی کے بعد وزیر اعظم محمدعلی بوگرہ کو فوجی افسروں اور پولیس کی معیت میں بندر روڈ پر ریڈیو پاکستان کے اسٹوڈیو لے جایا گیا، جہاں سے انھوں نے ملک میں ’ہنگامی حالت کے نفاذ‘ اور پہلی ’دستور ساز اسمبلی‘ کی تحلیل کا اعلان کیا۔ یہ اعلان اس وقت ہوا جب دستور ساز اسمبلی نے آئین کے ’بنیادی اصولوں کی کمیٹی‘ (BPC)کی رپورٹ منظور کر لی تھی اور ملک کے پہلے آئین کا مسودہ چھ روز بعد ایوان میں پیش کیا جانے والا تھا۔
پاکستان کی نو زائیدہ جمہوریت پر یہ پہلا بھرپور اور کاری وار تھا، جو اُس زمانے میں سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے بننے والے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو توڑ کر، ملک کو ان بھول بھلیوں میں دھکیل دیا تھا جن سے وہ آج تک نہیں نکل سکا ہے۔ ملک غلام محمد انگریز دور کی بیوروکریسی کے نیابت دار تھے اور مالی معاملات میں مہارت کی بنیاد پر پاکستان کی پہلی کابینہ میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے شامل کیے گئے تھے۔ وہ نہ مسلم لیگ کے رہنما تھے اور نہ ان کا کوئی سیاسی پس منظر اور دائرہ اثر تھا۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں کے قتل کے بعد بیوروکریسی نے اقتدار پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا، جس کے تحت اُس وقت کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو اس عہدے سے ہٹا کر انھیں وزیر اعظم کے عہدے پر مقرر کیا گیا اور ان کی جگہ ملک غلام محمد کو گورنر جنرل کے عہدے پر فائز کردیا گیا۔
اس امر کا کہیں ثبوت موجود نہیں ہے کہ یہ عمل جمہوری طریقے سے ہوا تھا۔ نہ تو اس زمانے میں حکمران مسلم لیگ کی کسی سطح پر اس معاملے پر غور کیا گیا اور نہ کابینہ میں اس مسئلے پر بحث ہوئی۔ یہ فیصلہ اس زمانے کے سیکرٹری جنرل چودھری محمد علی اور بیوروکریسی میں ان کے قریبی ساتھیوں اور مشیروں نے کیا تھا۔ گورنر جنرل ملک غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد رکھنے کے باوجود ان پر کوئی الزام عاید کیے یا کوئی وجہ بتائے بغیر برطرف کر کے امریکا میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کرنے کا اقدام، دراصل فوج کی مدد اور اعانت سے کیا تھا، جس کے عوض فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو نئی کابینہ میں وزیر دفاع مقرر کیا گیا۔ پاکستان میں یہ پہلا موقع تھا، جب وزیر دفاع فوجی وردی میں ملبوس کابینہ کے اجلاس میں شریک ہوا۔ یہ درحقیقت ملک کے اقتدار میں فوج کی شراکت اور آخر کار ملک کے اقتدار پر براہِ راست فوج کے تسلط کا دروازہ کھولنے کی ابتدا تھی۔
۲۴؍اکتوبر ۱۹۵۴ء کو گورنر جنرل ملک غلام محمد کی طرف سے دستور ساز اسمبلی توڑنے کے اقدام کے پس پشت سب سے بڑی وجہ ملک میں آبادی اور طاقت کے لحاظ سے صوبوں کے درمیان عدم توازن تھا۔ دستور ساز اسمبلی نے سات سال کے طویل عرصے کے بعد ملک کے پہلے آئین کے خاکہ کے بارے میں ’بنیادی اصولوں کی کمیٹی‘ کی جو رپورٹ منظور کی تھی، دستور ساز اسمبلی میں پنجاب سے مسلم لیگ کے اراکین، جن کی قیادت ملک فیروز خان نون کر رہے تھے، اس کے سخت خلاف تھے۔ انھیں خدشہ تھا کہ اس رپورٹ پر مبنی نئے آئین کا بڑی حد تک جھکائو مشرقی پاکستان کے حق میں رہے گا، جس کے نتیجے میں نہ صرف سیاسی میدان میں بلکہ بیوروکریسی اور فوج میں بھی پنجاب کے مفادات کو سخت زک پہنچے گی۔
پنجاب کا یہ خدشہ اُس وقت اور شدت اختیار کر گیا، جب مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ نورالامین کی شہ پر سندھ کے وزیر اعلیٰ عبد الستار پیرزادہ نے گورنر جنرل کے وسیع اختیارات کو چیلنج کیا اور ان کے اختیارات کو کم کرنے کے لیے ایک آئینی ترمیم پیش کی۔ گورنر جنرل ملک غلام محمد اس پر سخت طیش میں آگئے تھے۔ اسی کے ساتھ بیوروکریسی، فوج اور پنجاب کا مفاد پرست طبقہ اس اقدام پر لرز اٹھا۔ اسے یہ خطرہ لاحق ہوا کہ ’’اگر ملک میں جمہوری ڈھانچے کے تحت مشرقی پاکستان کو آبادی کی بنیاد پر بالادستی حاصل ہوگئی اور وہ ملک کے دوسرے تین چھوٹے صوبوں کے ساتھ کسی معاملہ پر یک رائے اور متحد ہو جائے تو پنجاب سیاسی طور پر بے بس ہو جائے گا‘‘۔ چنانچہ گورنر جنرل ملک غلام محمد کی شہہ پر ۵؍اکتوبر ۱۹۵۴ء کو ایک اجلاس میں دستور ساز اسمبلی میں پنجاب مسلم لیگ پارٹی نے تین مطالبات پر مشتمل ایک الٹی میٹم پیش کیا ،جس میںکہا گیا تھا کہ ’’اگر ان کے یہ مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو ۲۸؍ اکتوبر کو دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے قبل پارٹی سے [پنجاب]کے تمام اراکین، اسمبلی سے اجتماعی طور پر مستعفی ہو جائیں گے‘‘۔
پنجاب مسلم لیگ اسمبلی پارٹی نے یہ تین مطالبات پیش کیے تھے: پہلا مطالبہ تھا کہ آئین میں مرکز کے پاس صرف چار سبجیکٹس ہونے چاہییں: دفاع، اُمورِ خارجہ، کرنسی اور بین الاقوامی تجارت، بین الصوبائی مواصلات۔ دوسرا مطالبہ تھا کہ ان امور کے علاوہ تمام امور صوبوں کو تفویض کرنے کے لیے تمام صوبوں کے نمایندوں کی کمیٹی فیصلہ کرے۔ تیسرا مطالبہ تھا کہ اگلے پانچ برس تک نئے آئین پاکستان میں کوئی ترمیم اُس وقت تک نہیں ہو سکتی، جب تک کہ اس کے لیے تمام صوبوں میں ۳۰ فی صد اراکین کی حمایت حاصل نہ ہو۔
اس دوران گورنر جنرل ملک غلام محمد نے ملک فیروز خان نون کو بڑی عجلت میں زیورخ [سوئٹزرلینڈ] بھیجا، جہاں عوامی لیگ کے سربراہ حسین شہید سہروردی زیر علاج تھے۔ اس پورے کھیل میں سہروردی صاحب کی اہمیت اس وجہ سے بڑھ گئی تھی کہ ۱۹۵۴ء کے اوائل میں مشرقی پاکستان کے انتخابات میں عوامی لیگ کی قیادت میں ’جگتو فرنٹ‘ [United Front]فاتح رہی تھی، اور سہروردی صاحب کو یہ احساس تھا کہ پنجاب سے ہاتھ ملائے بغیر انھیں اقتدار میں شراکت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اُس زمانے میں یہ کھلا راز تھا کہ زیورخ میں سہروردی اور فیروز خان نون کے درمیان ایک سودا طے پا گیا ہے جس کے تحت سہروردی صاحب نے مغربی پاکستان کے تینوں صوبوں اور چھے ریاستوں کو ایک یونٹ میں ضم کرنے کے بارے میں تین کے ٹولے کی تجویز کی اس شرط پر حمایت کرنے پر اتفاق کیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں ’جگتو فرنٹ‘ کی حکومت، جسے جنرل اسکندر مرزا نے برطرف کر دیا تھا بحال کردی جائے۔
’سہروردی نون ملاقات‘ کے بعد زیڈ اے سلہری جو اُس زمانے میں ٹائمز آف کراچی نکالتے تھے، نہ جانے کس کے ایما پر زیورخ گئے اور سہروردی صاحب کا ایک انٹرویو لے کر آئے، جو انھوں نے اپنے اخبار میں جلی سرخیوں کے ساتھ شائع کیا۔ اس انٹرویو میں سہروردی صاحب نے ’’دستور ساز اسمبلی کو غیر نمایندہ قرار دے کر اسے توڑنے کا مطالبہ کیا تھا‘‘۔ بلاشبہہ اس انٹرویو سے گورنر جنرل کے منصوبے کو تقویت پہنچی۔ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۵۴ء کو جب گورنر جنرل نے دستور ساز اسمبلی توڑی تو اس اقدام پر پورا ملک دم بخود رہ گیا اور سیاست دانوں پر ایسی دہشت طاری ہوگئی کہ سب مفلوج ہو کر رہ گئے۔
دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے اس اقدام کو سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کیا۔ دہشت کا عالم یہ تھا کہ مولوی تمیز الدین خان، گرفتاری سے بچنے کے لیے برقع پہن کر گورنر جنرل کے اقدام کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سندھ چیف کورٹ گئے تھے۔ سندھ چیف کورٹ نے جب مولوی تمیز الدین خان کے حق میں فیصلہ دیا تو ملک بھر میں خوشیاں منائی گئیں اور لوگوں کو جمہوریت کی بقا کے امکانات روشن دکھائی دینے لگے۔ لیکن ان امکانات کو اُس وقت زبردست زک پہنچی، جب حکومت کی اپیل پر فیڈرل کورٹ نے سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ رد کردیا۔ اس سلسلے میں چیف جسٹس محمد منیر کا جو رول رہا اور انھوں نے جس مصلحت کوشی سے کام لیا اس کو آج تک ہدف ملامت بنایا جاتا ہے۔ چیف جسٹس کے عہدے سے سبک دوش ہوتے وقت جسٹس منیر نے اپنے فیصلے کا یہ کہہ کر دفاع کیا تھا کہ ’’اگر مَیں حکومت کے خلاف فیصلہ دیتا تو ملک میں افراتفری اور نراجیت پھیلنے کا خطرہ تھا‘‘۔ لیکن غالباً انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان کے اس فیصلے کے جمہوریت کے مستقبل پر کس قدر مہلک اثرات مرتب ہوں گے اور ملک فوجی آمریت کے ایک ایسے چنگل میں پھنس جائے گا کہ اس سے نکلنا محال ہو جائے گا۔
بہت کم لوگوں کو اس کے سنگین مضمرات کا ادراک تھا۔ لیکن بعض سیاست دانوں کو اس کے پیچھے ملک کے دو لخت ہونے کا خطرہ بھی نظر آرہا تھا۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے خلاف مولوی تمیز الدین کے مقدمے کی سماعت کے دوران ہم چند صحافی سندھ چیف کورٹ کے چائے خانے میں بیٹھے تھے کہ وزیر تجارت فضل الرحمٰن جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا قریب سے گزرے۔ ہم نے انھیں چائے کی میز پر بلایا اور پوچھا کہ ’’اب کیا ہوگا؟‘‘ ان کے جواب نے ہم سب کو دہلا دیا۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بہت دُور اندیش ہیں اور لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ فضل الرحمٰن صاحب نے کہا کہ ’’اب ملک دو ٹکڑے ہو جائے گا‘‘۔ سب صحافیوں نے بیک آواز کہا کہ ’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’میرا یہ تجزیہ حقیقت پر مبنی ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’گورنر جنرل نے دستور ساز اسمبلی فوج کی قوت کے بل بوتے پر توڑی ہے اور اب فوج اقتدار پر قبضہ کر لے گی اور اس صورت میں مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے فوج کی حکمرانی تسلیم نہیں کرے گا اور الگ ہو جائے گا‘‘۔
فضل الرحمٰن صاحب کی یہ سنگین پیش گوئی ۱۷سال بعد درست ثابت ہوئی۔ پاکستان میں جمہوریت پر یہ پہلا شب خون تھا، جس نے پاکستان کی تقدیر بدل کر رکھ دی اور شاید یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک میں فوجی طالع آزمائوں کے لیے دروازے کھل گئے اور اب بھی ہمہ وقت فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کا خطرہ رہتا ہے۔
یہ کہانی ہے ۱۸۴۶ء میں ’امرتسر معاہدئہ فروخت‘ (Amratsir Sale Deed)کے تحت کشمیر کی ڈوگرہ راجا گلاب سنگھ کو فروخت کرنے کی۔ ان کے مظالم اور پھر جموں اور کشمیر میں شاہی ریاست کا قیام کیسے عمل میں آیا؟ کشمیر کن شرائط پر بیچا گیا اور اس کا کشمیریوں پر کیا اثرات پڑے؟ یہ سب سمجھنے کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ کشمیر کی تاریخ حملہ آوروں سے بھری ہوئی ہے۔ انڈیا کی طرف جانے والے حملہ آور بھی کشمیر کے راستے ہی ہندوستان پہنچتے تھے، جن میں ۳۲۶ قبل مسیح میں مقدونیہ سے آنے والے سکندراعظم اور سائتھنز جیسے کچھ وسطی ایشیائی قبیلے بھی شامل تھے۔
کشمیریوں نے کئی صدیاں پانڈو، موریا، کوشان، گوناندیا، کرکوٹا، اتپالا اور لوہارا جیسے بیرونی حکمرانوں کے تحت گزاریں۔ کشمیر کی تاریخ کو عام طور پر چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے: ہندو راجاؤں کا قدیم دور، جس کی تفصیل کلہن پنڈت کی کتاب راج ترنگنی ' میں ملتی ہے۔ کشمیری مسلمانوں کے دور کو سلاطینِ کشمیر کا دور کہا جاتا ہے، مغل دور کو ’شاہان مغلیہ‘ کا دور کہا جاتا ہے، اور پٹھانوں کے دور کو ’شاہان درانی‘ کا عہد کہا جاتا ہے۔
ان اَدوار میں جو بات مشترک تھی، وہ کشمیریوں کا استحصال ہے، جو تاریخ کی کئی کتابوں میں درج ہے۔ چودھویں صدی میں اسلام کشمیر میں پہنچا اور آبادی کا ایک بڑا حصہ مسلمان ہوگیا۔
۱۸۳۹ءمیں رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد گلاب سنگھ کا مقام مزید نمایاں ہو گیا۔ ۱۸۴۵ءمیں برطانیہ نے یہ کہہ کر جنگ چھیڑ دی کہ ’’راجا رنجیت سنگھ کے ساتھ ۱۸۰۹ء میں طے پانے والے ’معاہدۂ امرتسر‘ کی خلاف ورزی کی گئی ہے، جس کے ذریعے سکھ سلطنت کی مشرقی سرحدیں طے ہوئی تھیں‘‘۔اس جنگ میں سکھ مہاراجا جنگ ہار گیا اور ۹مارچ ۱۸۴۶ء کے ’معاہدۂ لاہور‘ کے تحت طے ہونے والا جرمانہ ادا نہیں کر سکا،اور اسے کشمیر ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کے نام کرنا پڑا۔
اس وقت ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کے گورنر جنرل سر ہنری ہارڈنج نے ۲مارچ ۱۸۴۶ء کو اپنی بہن کو لکھے خط میں گلاب سنگھ کو ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘ کہہ کر متعارف کرایا۔ گلاب سنگھ کو مہاراجا بنانے کی وجہ گورنر جنرل نے خط میں یوں بیان کی: ’بدقسمتی سے اس کی مدد کرنا لازمی ہے کیونکہ اس نے ہمارے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیا اور اس کی سرحدیں ہماری سرحدوں سے ملتی ہیں۔ ہم بغیر کسی مشکل کے اس کی حفاظت کر سکتے ہیں اور سکھوں کی سلطنت میں سے اسے ایک ٹکڑا دے کر سکھوں کے مقابلے میں اس کی طاقت کو تھوڑا بڑھا سکتے ہیں۔‘
۱۸۲۲ءمیں رنجیت سنگھ نے گلاب سنگھ کو، جس کا تعلق ہندو ڈوگرہ برادری سے تھا، اس کی خدمات کے عوض جموں کا راجا بنا دیا۔۱۸۴۶ء کے ’معاہدۂ امرتسر‘ پر، جسے عام زبان میں ’سیل ڈیڈ‘ بھی کہا جاتا ہے، ۱۶مارچ ۱۸۴۶ءکو دستخط کیے گئے۔ جموں کے مہاراجا گلاب سنگھ اور برطانیہ کی طرف سے دو ارکان، فریڈرک کیوری اور بریور میجر ہنری مونٹگومری لارنس اور اس پر ہارڈنج کی مہر لگائی گئی۔ اس معاہدے کا اطلاق ’دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب کے پہاڑی خطے اور اس کے ماتحت علاقوں، بشمول چھمب پر تھا لیکن اس میں ’لاہول‘ کا علاقہ شامل نہیں تھا، جس پر ۹مارچ۱۸۴۶ء کے ’معاہدۂ لاہور‘ کے آرٹیکل چار کے تحت برطانوی کمپنی کا دعویٰ تھا۔
گلاب سنگھ کو دیے جانے والے اس سارے خطے کی مشرقی سرحدوں کا تعین کرنے کے لیے دونوں اطراف کے ارکان پر مشتمل ایک ٹیم کو سروے کرنے کا ذمہ دیا جانا تھا۔ سرحدوں میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے لیے برطانوی حکام کی رضامندی لازمی تھی۔ پھر مہاراجا اور ہمسایہ ریاستوں کے درمیان ہرقسم کا جھگڑا بھی برطانوی حکام نے ہی طے کرنا تھا۔
معاہدے کے تحت مہاراجا اور ان کے وارثوں کی فوجیں ’پہاڑوں کے اندر‘ یا اس سے متصل علاقوں میں ضرورت پڑنے پر برطانوی فوجیوں کا ساتھ دینے کی پابند بنائی گئیں۔
ایک شق یہ بھی تھی کہ مہاراجا برطانوی حکومت کی رضامندی کے بغیر کسی بھی برطانوی، یورپی شخص کو اپنی خدمت میں نہیں رکھے گا۔
برطانوی حکومت نے عہد کیا کہ وہ ’اس کے دشمنوں سے اس کے علاقوں کی حفاظت کرنے میں‘ مہاراجا گلاب سنگھ کی مدد کرے گی۔ برطانوی برتری کا اعتراف کرتے ہوئے مہاراجا گلاب سنگھ نے ہر سال برطانوی حکومت کو ’ایک گھوڑا، منظور شدہ شال بنانے والی نسل کے بارہ بکرے (چھے نر اور چھے مادہ) اور پشمینہ شالوں کے تین جوڑے‘ دینے کا عہد کیا۔
۱۸۵۷ءمیں انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کے بعد، جو ہندوستان کی آزادی کی پہلی جنگ بھی ہے، برطانیہ نے کچھ دیگر حقوق بھی ان ریاستوں کو منتقل کر دیے۔ ایسا تب ہوا جب برطانیہ کی ملکہ وکٹوریا [م: ۱۹۰۱ء] نے ۱۸۵۸ء میں ایک اعلامیے میں کہا کہ ’ہم مزید علاقوں پر قبضے کے خواہش مند نہیں ہیں‘۔لیکن اس کے بعد ۱۹۲۸ء میں ’میمورینڈم آف پرنسلی سٹیٹس پیپل‘ کے تحت برطانیہ کو اقتدار کے غلط استعمال کی صورت میں ان ریاستوں میں دخل اندازی کا حق حاصل ہوا۔
برطانیہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ گلاب سنگھ، چین کے علاقوں پر دوبارہ حملہ کرنے کی کوشش کرے، کیونکہ ایسا کرنے سے برطانوی اقتصادی مقاصد خاص طور پر تبت سے اُون کی تجارت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا۔ اسی لیے ’معاہدۂ امرتسر‘ میں واضح طور پر یہ لکھا گیا کہ ’’برطانوی رضامندی کے بغیر سرحدوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی‘‘۔
یہاں تک کہ۱۹۵۹ء میں انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو [م: ۱۹۶۴ء] نے بھی کہا کہ اکسائی چن میں سرحدوں کا تعین نہیں کیا گیا، تاہم اکسائی چن کا تمام علاقہ انڈیا کی حدود میں آتا ہے‘۔
پونچھ دراصل گلاب سنگھ کے چھوٹے بھائی دھیان سنگھ کو رنجیت سنگھ سے بطور جاگیر ملا تھا۔ یہ تمام علاقے جموں کشمیر کی شاہی ریاست کا حصہ بن گئے۔پونچھ ایک مسلم اکثریتی علاقہ تھا اور وہاں کے رہائشیوں اور ڈوگرہ حکام کے درمیان ۱۸۳۰ء کے عشرے میں کئی جھڑپیں ہوئیں۔ تاہم، گلاب سنگھ نے طاقت کا استعمال کرکے ان ’بغاوتوں‘ کو کچل دیا۔ ۱۸۴۳ءمیں دھیان سنگھ کی وفات کے بعد گلاب سنگھ پونچھ، بھمبر اور میرپور کو اپنی ملکیت سمجھنے لگا، تاہم کبھی کنٹرول نہیں کر پایا۔
’معاہدۂ امرتسر‘ کے تحت کشمیر کے ساتھ ساتھ گلگت ایجنسی کو بھی بیچا گیا تھا، البتہ ڈوگرہ سلطنت کبھی اس پر مؤثر حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ ۱۸۵۲ءمیں ایک قبائلی بغاوت کے بعد وہاں ڈوگرہ حکمرانی پوری طرح ختم ہو گئی۔ ۱۸۶۰ء میں راجا رنبیر سنگھ (گلاب سنگھ کے بیٹے) نے گلگت پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ پھر ۱۹۳۶ء میں راجا ہری سنگھ نے پونچھ پر قبضہ کر لیا۔
زمینوں پر قبضے اور سرحدوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ڈوگرہ حکمرانوں نے قانون سازی کر کے ۱۹۳۹ء کے جموں کشمیر آئین ایکٹ کا نقشہ بنا کر، اپنی فوج قائم کر کے اور کئی معاہدوں کے ذریعے اپنی طاقت کو مضبوط کیا۔جب گلاب سنگھ نے کشمیر کا کنٹرول سنبھالا تو اس وقت تقریباً ۷۵فی صد آبادی کا انحصار کاشت کاری پر تھا، اور یہی ریاست کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ بھی تھا۔ گلاب سنگھ نے خود کو کشمیر کی تمام زمینوں کا مالک بنا دیا۔
رابرٹ تھورپ ہندوستان میں برطانوی فوج کے ایک افسر نے لکھا کہ ’’یہ اتنی بڑی ناانصافی ہے کہ اس سے ’جدید تہذیب کی روح کی نفی ہوتی ہے اور یہ چیز اس مذہب کے ہر اصول کے بھی بالکل اُلٹ ہے، جس کے پیروکار ہونے کا ہم دعویٰ کرتے ہیں‘۔
ڈاکٹر ایلمسلی ایک اسکاٹش مشنری ڈاکٹر نے کشمیر میں بہت وقت گزارا، لکھا: ’’لوگوں کا شرمناک استحصال۔ ہم انگریزوں کے لیے شرمناک ہے کیونکہ ہم نے اس ملک کو اس کے موجودہ ظالم حکمرانوں کو بیچ دیا، ہزاروں جیتے جاگتے انسانوں کے ساتھ، جنھیں ہم نے دائمی غلام بنا دیا‘‘۔
جب گلاب سنگھ نے کشمیر کا کنٹرول سنبھالا تو اس وقت تقریباً ۷۵ فی صد آبادی کا انحصار کاشت کاری پر تھا اور یہی ریاست کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ بھی تھا۔ گلاب سنگھ نے سکھوں کے دور کے نظام کو جاری رکھا اور خود کو کشمیر کی تمام زمینوں کا مالک قرار دیا کیونکہ وہ ’معاہدۂ امرتسر‘ کے ذریعے کشمیر کو خرید چکا تھا۔ کسانوں سے ان کی زمینوں کی وہ ملکیت تک چھین لی گئی، جو افغانوں اور سکھوں کے دور سے ان کے پاس تھی۔ یعنی اب کسان مالک نہیں کرایہ دار تھا اور زمین پر کام کرنے کے لیے اسے ٹیکس دینا پڑتا تھا، جسے ’حق مالکان‘ کہا جاتا تھا۔ مگر کسی وجہ سے ’حق مالکان‘ کی ادائیگی نہیں ہو پاتی، تو کسان کو زمین سے خارج کر دیا جاتا تھا۔
یہ بات واضح ہے کہ ۱۸۴۶ء کے بعد ڈوگرہ دور میں کئی ایسی پالیسیاں اور عمل متعارف کرائے گئے، جن سے کشمیری عوام اور خاص طور پر مسلمان کاشت کاروں کو بہت نقصان پہنچا۔ کسانوں سے ان کی زمینوں کی ملکیت تک چھین لی گئی۔
۱۹۳۰ءمیں جاگیرداروں کو اجناس پر ٹیکس دینے کے نظام اور اس کی وجہ سے ہونے والے استحصال کے خلاف کاشت کاروں کا احتجاج شروع ہوا۔حکومت نے مسئلے کے حل کے لیے ایک ’جاگیردار کمیٹی‘ بنائی، لیکن تماشا یہ کہ اس کے تمام ارکان خود جاگیردار تھے۔کمیٹی نے جاگیر میں کرایہ داروں کے حقوق اور جاگیرداروں کے حقوق اور فرائض وضع کیے۔ کمیٹی نے یہ سفارش بھی کی کہ محصولات کو اجناس کی جگہ نقد کی شکل میں وصول کیا جائے اور اس کی وجہ سے جاگیرداروں کو ہونے والے ممکنہ نقصان کا ازالہ انھیں نئی جاگیریں دے کر کیا جائے‘‘۔
ان سفارشات کو حکومت نے تسلیم کر لیا، تاہم زرعی شعبے میں اس تبدیلی کا غلط فائدہ اٹھایا گیا، جس کے نتیجے میں کاشت کاروں کا فائدہ ہونے کے بجائے ان کے حالات مزید بگڑ گئے۔ جاگیرداروں نے اکثر نقصان دکھا کر نئی جاگیریں حاصل کر لیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے حکومت مخالف جذبات نے پُرتشدد رخ اختیار کر لیا۔
تب سے ۱۳ جولائی کشمیر میں ’یوم شہدا‘ کے طور پر منایا جاتا ہے، ایک ایسا دن جب عام کشمیری اپنے حقوق اور عزّتِ نفس کے لیے شہید ہوئے۔ اس کے بعد پابندیوں کو سخت کرتے ہوئے دفعہ ۱۴۴ بھی نافذ کردی گئی، جس کے تحت پورے کشمیر میں میٹنگوں، مظاہروں اور جلوسوں پر پابندی لگا دی گئی۔ساتھ ہی کشمیر دربار نے اپنے ایک بیان میں پولیس کی فائرنگ کو جائز قرار دیا، جس سے حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔ حکومت کشمیر کے اس رویے پر ریاست کے باہر بھی سخت تنقید ہوئی۔ ریاست کے اندر احتجاجی مظاہرے ہوئے اور ۱۳ جولائی کے اس المیے پر غیر جانب دار تفتیشی کمیٹی بنائے جانے کا مطالبہ کیا گیا، جسے حکومت نے نظر انداز کر دیا۔
راجا ہری سنگھ کا اصرار تھا کہ ’’میری بنائی ہوئی انکوائری کمیٹی غیر جانب دار ہے۔ اس کمیٹی نے پولیس کارروائی کو جائز قرار دیا، جس سے کشمیریوں کا غصہ اور بڑھ گیا۔اسی دوران کشمیر میں جاری شورش پر قابو پانے کے لیے راجا ہری سنگھ کو ’معاہدۂ امرتسر‘ کے آرٹیکل نو کے تحت ہندوستان کی انگریز حکومت سے مدد ملی۔ ’رائفل بریگیڈ‘ کو جموں میں ’بارڈر ریجمنٹ‘ کو میرپور اور ’ہسارز‘ کو جموں اور سرحدوں کی پٹرولنگ کے لیے تعینات کیا گیا۔
یہاں اس بات کو ذہن میں رکھنا اہم ہے کہ ہندوستان کے برعکس، کشمیر کی تحریک، برطانوی راج کے خلاف نہیں تھی۔ کشمیر کی تحریک ایک مسلمان اکثریتی آبادی پر ہندو ڈوگرہ حکمرانوں کے مظالم کا نتیجہ تھی۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ ڈوگرہ حکمرانوں نے ہندو پنڈتوں کے ایک بااثر طبقے کو کافی مراعات دے رکھی تھیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ مظالم کے خلاف اس انقلاب میں مسلمانوں کے ساتھ کشمیری ہندوئوں کا ایک حصہ بھی شامل تھا۔ اس تحریک کی قیادت شیخ محمد عبداللہ اور پریم ناتھ بزاز کے ہاتھ میں تھی۔
اس رسالے میں ریڈنگ روم پارٹی کے ارکان کی طرف سے ملنے والی معلومات کی بنا پر کشمیریوں کی حالت زار پر آرٹیکل شائع ہونے لگے، جس سے کشمیر کے باہر بھی کشمیر کی بات ہونے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک وسیع ہوتی گئی۔ ۱۹۳۲ میں شیخ محمد عبداللہ نے آزادی کی اس تحریک کی قیادت سنبھالی اور اسی سال آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس کا بھی قیام عمل میں آیا۔ دیگر حقوق کے ساتھ ساتھ انھوں نے ۱۹۳۲ء میں کسان کو اس کی زمین پر ملکیت کے حق کی بحالی کا مطالبہ بھی کیا۔
اسی سال شیخ محمدعبداللہ کو گرفتار کیا گیا، ان پر مقدمہ چلا اور انھیں قصوروار ٹھیرایا گیا۔ ان پر مجرمانہ سازش، حکومت کے خلاف جنگ کرنے، جنگ کی نیت سے اسلحہ جمع کرنے، غداری، منافرت پھیلانے اور امن و امان کو نقصان پہنچانے کے الزام لگائے گئے۔ اس کیس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیخ محمد عبداللہ کو جیل بھیج دیا گیا لیکن پھر رہا کر دیا گیا۔ تاہم، تب تک کشمیر کی تحریک کافی زور پکڑچکی تھی۔ کشمیریوں نے اپنی شکایات کی تفتیش کے ساتھ ساتھ سیاسی، معاشی اور مذہبی حقوق کے اپنے مطالبات بھی جاری رکھے۔
مہاراجا نے آخر کار یہ اعلان کیا کہ وہ ’مناسب‘ مطالبات کو پورا کرے گا اور پھر سربی جے گلینسی کی صدارت میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا جس کا مقصد مسلمانوں اور دوسروں کی شکایات کی تفتیش کرنا تھا۔اس کمیشن نے ۲۲ مارچ ۱۹۳۲ء کو اپنی رپورٹ جاری کی، جس کے مطابق تشدد کی وجوہ میں کئی سیاسی اور معاشی مسائل تھے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کشمیری مسلمانوں کے لیے تعلیم میں اسکالرشپ اور ریاستی نوکریوں میں ملازمت کے ساتھ ساتھ سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کی سفارش بھی کی۔
’گلینسی رپورٹ‘ کے بعد کشمیر میں آئینی اصلاحات کے لیے ’کشمیر کانسٹی ٹیوشنل ریفارمز کانفرنس‘ تشکیل دی گئی، جس کے بعد فرینچائز کمیٹی بھی بنی۔ ان کمیٹیوں کی سفارشات کی بنا پر ۱۹۳۲ء میں راجا ہری سنگھ نے ایک آئینی ایکٹ متعارف کرایا، جس کے تحت ’پرجا سبھا‘ کے نام سے ایک قانون ساز اسمبلی کا قیام ممکن ہو گیا، جس کے پاس قانون سازی کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹو اور عدالتی اختیارات بھی تھے۔
’گلینسی کمیشن‘ نے دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ان کی زمینوں کی ملکیت واپس کرنے کی اور ان ریاستی زمینوں کی منتقلی اور انھیں کرائے پر دینے کے حقوق کی، جن کی ملکیت تو حکومت کی پاس ہے، لیکن جو عام شہریوں کے زیر استعمال ہیں، سفارش بھی کی تھی۔مہاراجا نے ان سفارشات پر عمل کرتے ہوئے زمینیں ان کسانوں کے نام کرنے کا اعلان کیا، جن کے پاس تب تک صرف ان زمینوں کو استعمال کرنے کا حق تھا۔ جموں صوبے میں بھی ایسا ہی ہوا۔
تاہم، ’گلینسی کمیشن‘ کی سفارشات مجموعی طور پر ناکام رہیں، کیونکہ ان پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا۔ تیس اور چالیس کے عشروں میں کشمیر میں مہاراجا کے خلاف تحریک بھی چلتی رہی اور حکومت کی طرف سے اسے دبانے کی کوششیں بھی۔
۱۹۴۱ء میں غلام عباس نے مسلم کانفرنس کو دوبارہ منظم کیا اور نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس دونوں نے ہی اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کر دیں۔۱۹۴۳ء میں بغاوت کے خدشے سے مہاراجا نے آئینی اصلاحات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دینے کے احکامات جاری کیے۔ اس کمیشن کا مقصد ریاست کی حفاظت، سالمیت اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے ساتھ تمام برادریوں کا ایک دوسرے کے قریب لانا، معیشت کی ترقی اور بدعنوانی کا خاتمہ بتایا گیا۔
۱۹۴۰ء کے عشرے میں نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس دونوں نے کشمیر کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر شرکت کی اور ڈوگرہ انتظامیہ میں نمائندگی کی کمی کو واضح کیا۔ ۱۹۳۰ء کے بعد سے شروع ہونے والی آئینی اصلاحات سے عوام کو کسی حد تک ریاستی انتظامی نظام میں حصہ لینے کا محدود موقع ملا۔ ان اصلاحات سے کشمیریوں میں سیاسی شعور اور آگاہی بھی پیدا ہوئی۔
مہاراجا نے جن اصلاحات کا آغاز کیا تھا ممکن ہے کہ ان سے آگے چل کر کشمیر میں ایک منتخب حکومت اور اسمبلی وجود میں آتی، تاہم برطانوی ہندوستان کی بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال اور شاہی ریاستوں کے الحاق کے سوالات کا کشمیر پر گہرا اور دیرپا اثر پڑا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد انتخابات میں برطانیہ میں چرچل کی کنزرویٹو پارٹی ہار گئی اور لیبرپارٹی نے اقتدار سنبھالا۔ برطانیہ شدید اقتصادی مشکل میں تھا اور اس کے دیوالیہ ہونے کا بھی خدشہ تھا۔اس صورت حال کی وجہ سے وزیر اعظم ایٹلی نے برطانیہ کی انڈیا پالیسی تبدیل کر دی۔
۱۹فروری۱۹۴۶ءکو برطانیہ نے تین وزرا کو انڈیا بھیجنے کے فیصلے کا اعلان کیا، ان کے ذمے ’مسئلہ انڈیا‘ کا حل تلاش کرنا تھا۔اس ’کیبنٹ مشن‘ کا ایک مقصد مقامی راجوں مہاراجوں اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنا بھی تھا۔۲۴؍ اپریل ۱۹۴۶ء کو ’کیبنٹ مشن‘ سرینگر پہنچا تو شیخ محمد عبداللہ نے انھیں ایک میمورنڈم بھیجا۔ اس میں لکھا تھا کہ ’ہم یہ درخواست کرتے ہیں کہ اس رشتہ پر نظر ثانی نہایت اہم ہے کیونکہ تقریباً ایک سو سال پہلے کشمیر کی زمین اور اس کے عوام کو برطانیہ نے بیچ دیا تھا۔ کشمیری عوام اپنی تقدیر بدلنے کے لیے پُرعزم ہیں اور ہم برطانوی مشن سے ہمارے مقصد کے منصفانہ کردار اور اس کی طاقت کو پہچاننے کی اپیل کرتے ہیں۔ آج کشمیری عوام کا ’قومی مطالبہ‘ محض ایک ذمہ دار حکومت کا قیام نہیں، بلکہ ’مکمل آزادی‘ ہے‘۔
آزادی کے اس مطالبے کے بعد ۱۲ مئی ۱۹۴۶ء کو ’کیبنٹ مشن میمورنڈم‘ پاس کیا گیا۔ اس کے پانچویں پیراگراف میں لکھا ہے: ’ریاست کے وہ حقوق جو اسے برطانوی تاج کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے حاصل ہیں ان کا وجود اب ختم ہوتا ہے‘۔اس کے بعد راجا ہری سنگھ کے پاس تین راستے تھے: انڈیا کے ساتھ الحاق، پاکستان کے ساتھ الحاق، یا خود مختاری۔ راجا ہری سنگھ نے فوری طور پر انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان نہ کر کے بظاہر خود مختار رہنے کا فیصلہ کیا۔ مگر چند ہفتوں بعد صورتِ حال تبدیل ہوگئی۔
جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
برطانوی جمہوری طرزِ حکومت میں اکثر یتی آبا دی کے نمائندوں کو حکومت سازی کا حق دیا گیا ہے۔ جن ممالک میں اکثریتی رائے کے برعکس ’ملاوٹی جمہوریت‘ کا نظام نافذ ہے، وہاں اقلیتوں کی آبادی مسلسل دبائو میں رہتی ہے، اور اکثریتی آبادی ہی قیادت کرتی ہے۔
ہندوستان میں بھی اکثریتی سسٹم کے تحت انتخابات منعقد کرائے جاتے ہیں اور حکومت سازی کی جاتی ہے۔ مگر انڈیا میں جمہوریت کی یہ دیوی جموں و کشمیر کی سرحد کو پار نہیں کر پاتی؟ فی الوقت جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات میں اَن گنت اقدامات کے ذریعے یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ ان انتخابات میں علامہ اقبال کے مذکورہ بالا شعر کی تفسیر پر عمل ہو اور بندوں کو گننے کے بجائے تولا جائے۔ پلڑے میں مسلم آبادی کو ہلکا رکھنے کے پورے سامان کیے گئے ہیں، تاکہ ان انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی اسمبلی خطے کی اکثریتی آبادی کی نمائندگی نہ کرسکے۔
اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ یہاں کی اکثریتی آباد ی مسلمان ہے۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں مسلم آبادی ۶۸ء۳ فی صد اور ہندوؤں کی ۲۸ء۲ فی صد ہے۔مگر ۲۰۲۲ء کے حد بندی کمیشن نے مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر جہاں ریاست کی ۵۶ء۱۵ فی صد آبادی رہتی ہے، کے حصے میں اسمبلی کی ۴۷ نشستیں اورہندو اکثریتی جموں کی ۴۳ء۸۵فی صد آبادی کو ۴۳ نشستیں دے دیں۔
یہ حد بندی تو خود ہی ووٹروں کی مساوات کے بنیادی جمہوری اصول کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ریاست کے سابق وزیر خزانہ حسیب درابو کا کہنا ہے کہ ’’وادیٔ کشمیر کا ایک ووٹر جموں خطے کے ۰ء۸ ووٹروں کے برابر کر دیا گیا ہے۔ یہ انتخابی عصبیت نہیں تو کیا ہے؟‘‘
پھر جموں ڈویژن کے ہندو بیلٹ کی سیٹوں کی تعداد ۲۵ سے بڑھا کر ۳۱ کر دی گئی، تاکہ اقلیتی آبادی کی نمائندگی میں مزید اضافہ ہو۔اگر یہ جمہوریت ہے، تو یہ فارمولا ملک کے دیگر علاقوں میں بھی لاگو کرنا چاہیے، تاکہ جمہوری اداروں میں وہاں کی اقلیتوں کو بھی متناسب نمائندگی مل سکے۔
اس ۹۰ رکنی اسمبلی میں اب ۲۸ فی صد ہندو آبادی کو ۳۴ء۴۴فی صد نشستیں حاصل ہوجائیں گی۔جموں ڈویژن میں اگرچہ ہندو اکثریت میں ہیں، مگر مسلمانوں کی آبادی بھی ۳۴ء۲۱ فی صد ہے۔غیرمنصفانہ حد بندی کے ذریعے اس علاقے کے مسلم اکثریتی حلقوں کو ۱۲ سے کم کرکے اب ۹کر دیا گیا ہے۔ اسمبلی میں اس خطے کی مسلم نمائندگی ۴۳ فی صد سے کم ہو کر ۳۹ فی صد ہوجائے گی۔پچھلی اسمبلی میں جموں کی کل ۳۷ سیٹوں میں سے ۱۲ مسلم اکثریتی نشستیں تھیں۔
جموں میں، نئے ہندو اکثریتی حلقے بنائے گئے، جیسے کہ پاڈر جس کی آبادی صرف ۵۰ہزار ہے، اسمبلی کا ایک حلقہ ہے، جب کہ اس سے تین گنا زیادہ مسلم علاقوں، جیسے پونچھ ضلع میں سورنکوٹ، کو اسمبلی میں جگہ نہیں دی گئی ہے۔ جموں کے پونچھ اور راجوری کے مسلم اکثریتی اضلاع کو کشمیر کے اننت ناگ کے لوک سبھا حلقہ میں شامل کیا گیا ہے۔ادھم پور حلقہ کا ایک گاؤں جاکھایان، جہاں دلت آبادی ۹۲ء۸ فی صد ہے، بی جے پی کے لیے درد سر بنا ہوا تھا، جہاں اس کے اُمیدوار کو ووٹ نہیں ملتے تھے۔ اسے اب سزا کے بطور چینانی کے ساتھ ملایا گیا ہے۔
۲۰۱۴ء میں راجوری سے بی جے پی کا امیدوار ۲ء۸۶ فی صد کے فرق سے ہار گیا تھا۔ راجوری میں مسلمان ۷۰ فی صد اور ہندو ۲۸ فی صد ہیں۔ کمیشن کی جانبداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سیٹ سے سوہنا تحصیل کو الگ کرکے تھانہ منڈی میں شامل کیا گیا۔ سوہنا میں ۹۱ فی صد مسلمان آبادی تھی، جس کی وجہ سے راجوری کی سیٹ بی جے پی کے لیے نکالنا مشکل ہوتا تھا۔ جموں پارلیمانی حلقے کے راجوری اور پونچھ، جو مسلم اکثریتی علاقے ہیں، اکثر بی جے پی کے امیدوار کے لیے ٹیڑھی کھیر ثابت ہوتے تھے۔
انتخابات کے بعد گورنر منوج سنہا نے پانچ اراکین کو نامزد کرنا ہے، جس سے اسمبلی اراکین کی تعداد ۹۰ سے بڑھ کر ۹۵ ہو جائے گی۔ یہ اراکین دو خواتین، دوکشمیری پنڈت اور ایک رکن ۱۹۴۷ء میں پاکستان سے آنے والوں میں سے ہوگا۔ گویا یہ بھی ہندو ہی ہوں گے۔ نامزد ممبران ہوتے ہوئے بھی ان کو ووٹنگ کا حق حاصل ہوگا۔ اس طرح ایک مخصوص کمیونٹی کو غیر متناسب طور پر فائدہ پہنچانے اور اکثریتی آبادی کو بے اختیار اور لاچار بنانے کی واضح کوششیں کی گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ۹۵ رکنی اسمبلی میں اقلیتی آبادی کو ۳۹ نشستیں مل سکتی ہیں، جب کہ ان کاجائز حق ۲۹نشستوں کا بنتا ہے۔
چونکہ مسلم آبادی کے ہی نمائندے کے وزیر اعلیٰ بننے کے امکانات ہیں، اس لیے گورنر کو قبل از انتخاب ہی مزید اختیارات دیے گئے، تاکہ منتخب حکومت برسرِاقتدار آتی بھی ہے، تو وہ لاچار اور بے بس ہو۔ اس حکم نامہ کی رُو سے پولیس، بیوروکریسی، اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر کی خدمات پر لیفٹیننٹ گورنرکا کنٹرول ہوگا۔تقرریوں اور تقرر سے متعلق تمام امور کے لیے لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری لینی ہوگی اور اس کے فیصلوں پر وزراء کی کونسل نظرثانی نہیں کر سکے گی۔
لیفٹیننٹ گورنر کے نمائندے کو کابینہ کے تمام اجلاسوں میں شرکت کا پابند بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ وزراء کی طے شدہ میٹنگوں کے ایجنڈے کو کم از کم دو دن پہلے گورنر کے دفتر میں جمع کرانا ہوگا۔یعنی وزراء اپنی مرضی سے کسی سے مل بھی نہیں سکیں گے۔
ہندو بیلٹ میں نقصان کے اندیشہ کے پیش نظر اب بی جے پی کی نگاہیں، جموں کی مسلم بیلٹ یعنی راجوری اور پونچھ پرلگی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں پہاڑی بولنے والی آبادی کو شیڈیولڈ ٹرائب کا درجہ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں نشستیں مخصوص ہوجائیں گی۔ مگر اس سے گوجر،بکروال برادری جو ’مشمولہ قبائل فہرست‘ ہونے کا فائدہ اٹھاتے تھے، ناراض ہو گئے ہیں۔
جس طرح نیشنل کانفرنس نے اکیلے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، اس نے کشمیر کو گرداب سے نکالنے کے اس کے عزم پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ وقت تھا کہ کشمیر کی سبھی پارٹیاں چاہے وہ نیشنل کانفرنس ہو یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا کوئی اور، ایک ساتھ انتخابی میدان میں اُترتیں۔مگر نیشنل کانفرنس کے مغرور لیڈروں نے ہمیشہ ہی نازک مرحلوں پر غلط فیصلے کیے ہیں، یہ فیصلہ بھی اسی زمرے میں تاریخ میں گنا جائے گا۔
عوامی اتحاد پارٹی کے لیڈر انجینئر شیخ عبدالرشید نے نیشنل کانفرنس اور سجاد غنی لون کی پیپلزکانفرنس کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ انجینئر رشید کی جماعت عوامی اتحاد پارٹی قیدیوں کی رہائی، مسئلہ کشمیر کا حل، پاکستان کے ساتھ بات چیت اور انڈین آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کی بحالی کاوعدہ کرکے عوام کو لبھا رہی ہے۔ وہ ’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘ اور ’یہ ملک ہمارا ہے، اس کا فیصلہ ہم کریں گے‘ وغیرہ کے نعرے بلند کررہے ہیں۔
بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی جیسی روایتی جماعتوں کی مہم کے مقابلے میں انجینئر رشید کی مہم کو نہ صرف زمینی سطح پر بھاری عوامی تائید حاصل رہی ہے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی اُن ہی کی باتیں وائرل ہوئی ہیں۔ کیونکہ ان کے انتخابی نعروں میں ’ظلم، قید و بند، اظہار رائے پر قدغن، ناانصافی اور مسئلہ کشمیر کے حل‘ کی گونج سنائی دے رہی ہے، جو کشمیری طویل عرصے بعد سن رہے ہیں۔
انجینئر رشید نے حیران کن طور پر جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر لیا۔ جو گو کہ غیرقانونی تنظیم ہے، مگر اس کے چند اراکین بطور آزاد امیدوار میدان میں ہیں۔ جماعت اسلامی نے آخری بار ۱۹۸۷ء میں الیکشن لڑا تھا، اور عسکری جدوجہد شروع ہوتے ہی انتخابات کا بائیکاٹ کرتی آرہی ہے۔حیرت کی بات ہے کہ عمر عبد اللہ سمیت روایتی پارٹیوں نے انجینئر رشید کو بی جے پی کی پراکسی قرار دیا ہے، جو ان کے ووٹ کاٹنے کی سعی کر رہا ہے۔ مگر سوال ہے کہ آخر عمر عبداللہ نے ۲۰۱۹ء میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کرنے کے لیے بنائے گئے اتحاد سے کیوں کنارہ کشی کی؟ اور پھر جو ایجنڈا لےکر انجینئر رشید میدان میں آئے ہیں، اس کو اپنانے میں عمر عبداللہ کو کیا چیز روک رہی ہے؟
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات کے بعد کشمیر میں خصوصاً پچھلے پانچ سال سے چھائی سیاسی گھٹن کو کم کیا جاسکتا ہے؟ کیا عام کشمیری کو اس گھٹن سے نجات ملے گی، یا پھر یہ چند سانسیں لینے کی ہی آزادی ہوگی؟
’خوراک کے حق‘ سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ مائیکل فخری نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اسرائیل کو قصوروار ٹھہرایا ہے کہ اس کی جانب سے بھوک اور قحط کو فلسطینیوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، تا کہ ان کو مٹا کر فلسطینی زمین پر قبضہ کیا جاسکے‘‘۔ یہ دستاویز ثابت کرتی ہے کہ صہیونی ریاست، فلسطینیوں کی نسل کشی پر کمربستہ ہے اور عالمی استعماری طاقتیں اس جرم میں اسرائیل کی پوری طرح پشت پناہ ہیں، جس کی مثال دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا نے نہیں دیکھی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی اس ہوش ربا رپورٹ کے مطابق: ’’اسرائیل کی جانب سے یہ سوچی سمجھی مہم چلائی جا رہی ہے کہ غزہ کی ۲۳لاکھ آبادی اور مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر قتل کر دیا جائے‘‘ ۔
مائیکل فخری کے مطابق: ’’اسرائیل نے غزہ کے ہر شہری کو بھوکوں مارنے کا اپنا منصوبہ چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ سب کے سامنے اس منصوبے پر عملدرآمد ہوا اور پورے غزہ میں قحط کی سی صورت حال پیدا کی گئی۔ جغرافیائی طور پر قحط کے پھیلاؤ اور اسرائیلی ذمہ داروں کے بیانات کو ملا کر دیکھا جائے تو اسرائیلی عزائم بالکل واضح ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے پورے غزہ کا محاصرہ کیا گیا جس نے یہاں تمام فلسطینیوں کو کمزور کیا۔ اس کے بعد شمال کے لوگوں پر قحط مسلط کیا گیا تا کہ انھیں نقصان پہنچایا جائے، جان سے مار دیا جائے یا جنوب کی طرف نقل مکانی پر مجبور کردیا جائے۔ نتیجتاً جنوب میں جو مہاجر کیمپ بنے وہاں لوگوں کو بھوکا رکھ کر یا بمباری کے ذریعے قتل کیا گیا‘‘۔
فخری کا کہنا تھا کہ ’’غزہ میں جتنے لوگ بھوک ، غذائی قلت اور بیماری سے مر رہے ہیں اتنے گولہ بارود سے بھی نہیں مر رہے۔‘‘ اس بیان کی تائید جولائی میں ’دی لینسٹ‘ (The Lancet) میں مطبوعہ اعداد وشمار سے بھی ہوتی ہے، جس کے مطابق اسرائیلی حملے میں اب تک ایک لاکھ ۸۶ ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ یہ تعداد فلسطینی اعداد و شمار یعنی ۴۱ہزار سے کہیں زیادہ ہے۔
نازی جرمنی کے ہاتھوں یورپی یہودیوں کی نسل کشی کے ردعمل میں ۱۹۴۸ء کے منظور شدہ کنونشن برائے انسداد نسل کشی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ رپورٹ کہتی ہے:’’نمائندہ خصوصی اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہے کہ کس طرح اسرائیل نے قحط کو فلسطینی شہریوں کی کلّی یا جزوی تباہی کے لیے استعمال کیا ہے۔اول، انھیں سنگین جسمانی اور ذہنی ایذاء پہنچا کر۔دوئم، فلسطینیوں کے لیے سوچےسمجھے طریقے سے ایسے حالاتِ زندگی پیدا کر کے جو بالآخر ان کی مکمل یا جزوی تباہی کا باعث بنیں گے‘‘۔
اس رپورٹ میں شریکِ جرم قوتوں کا ذکر ہے: ’’بیرونی ریاستیں اور کمپنیاں عمومی طور پر قحط مسلط کرنے والوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ مثلاً یہ بیرونی استعماری ریاستیں اور کمپنیاں نہ صرف غزہ میں قحط اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے اسرائیل کو غیر قانونی طور پر اسلحہ فراہم کر رہی ہیں بلکہ فلسطین میں پانی اور خوراک کے نظام کی تباہی اور فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضے میں یہ کمپنیاں معاونت کر رہی ہیں‘‘۔
ان جنگی جرائم کے لیے امریکا اور اس کے یورپی اتحادی ممالک کی سیاسی قیادت کو بھی نیتن یاہو کے ساتھ کٹہرے میں کھڑا کرنا ضروری ہے۔ فخری کے مطابق: ’’۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء سے پہلے غزہ کی تقریباً آدھی آبادی غذائی قلت کا شکار تھی اور ۸۰ فی صد سے زیادہ لوگوں کا گزارہ بیرونی امداد پر تھا۔ اس افلاس میں اسرائیلی محاصرے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔اسرائیل کی جانب سے باربار دیے جانے والے غیر انسانی بیانات اور غزہ کی مکمل تباہی کی خواہش نے یہاں قحط مسلط کرنے کی اسرائیلی کوششوں پر مشتمل فردِ جرم میں درکار دونوں شرائط یعنی ’جرم کی نیت‘ اور ’جرم کا ارتکاب‘ پوری کر دی ہیں۔ چنانچہ کنونشن برائے انسداد نسل کشی ۱۹۴۸ء کے مطابق دیگر ریاستیں انسانیت کے خلاف اس جرم کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں‘‘۔
تاہم، واشنگٹن اور اس کے یورپی اتحادی نہ صرف ذمہ داری سے مفرور ہیں بلکہ انھوں نے اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی مزید تیز رکھی۔ اندرون ملک اس نسل کشی کی مخالفت اور استعماری قوتوں کی شمولیت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ریاستی سطح پر جبر کا نشانہ بنایا گیا اور ہر طرح سے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔
امریکی اور یورپی، فخری کی رپورٹ پر دم بخود ہیں۔ ہر طرف پھیلی بھوک، مہلک بیماریوں اور علاج معالجے کی ناپید سہولیات کا ذکر اگر ہوتا بھی ہے تو یوں کہ فلسطینیوں کو یہ عظیم بحران اس لیے درپیش ہے کہ اسرائیل، حماس کے خلاف ’اپنے دفاع‘ کی جنگ لڑرہا ہے۔
یہ رپورٹ اس لغو موقف کو بھی رَد کرتی ہے :’’آج دنیا میں انسانی آبادی کی ضرورت سے ڈیڑھ گنا زیادہ خوراک پیدا ہوتی ہے، لیکن پھر بھی قحط، غذائی قلت اور بھوک میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھوک اور قحط کبھی خوراک کی قلت سے جنم نہیں لیتے، بلکہ خوراک تک رسائی میں رکاوٹ بننے والے عوامل ان کا سبب بنتے ہیں۔ اکثر قحط جنگ، معاشی اُتار یا خشک سالی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ تمام عوامل دراصل ظلم اور ناانصافی پر مبنی سماجی نظام سے جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ طاقت کے ارتکاز اور غذائی نظام میں احتسابی عمل کی غیر موجودگی سے قحط کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ چنانچہ قحط کو ہمیشہ ایک خود غرضی پر مبنی سیاسی مسئلہ سمجھنا چاہیے۔
اسرائیل اور استعماری اتحادیوں کی جانب سے غزہ میں قحط کا باعث بننے والے ’اقدامات‘ دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کے جرائم سے مشابہ ہیں جن میں باقاعدہ منصوبے کے تحت جرمنوں کے لیے سوویت شہریوں سے خوراک چھینی جاتی تھی، تا کہ بڑی تعداد میں سوویت آبادی کو ختم کرکے مشرق میں اپنے لیے وہ زمین حاصل کی جا سکے، جو جرمن قوم کی ’ترقی‘ کے لیے ضروری ہے۔ نازی جنگ کا نشانہ بننے والے۲کروڑ ۷۰ لاکھ سوویت شہریوں کی ہلاکت میں اس منصوبے کا بھی بڑا حصہ ہے۔
آٹھ عشروں بعد صہیونی ’عظیم اسرائیل‘ کے لیے غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ یہی سلوک کررہے ہیں۔ استعماری قوتیں اس قتل عام میں شریک ہیں۔ واشنگٹن، برلن، پیرس اور لندن کی جانب سے اپنے معاشی اور جیو اسٹرے ٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے مسلط کی جانے والی اس جنگ میں غزہ صرف ایک محاذ کا نام ہے۔ یہ ممالک اس جنگ میں ’مقصد‘ پانے کے لیے کسی بھی حد تک گرنے کو تیار ہیں۔
اگر آپ بوسنیا کو نہیں سمجھتے تو آپ غزہ کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے مسلمان پہلے بوسنیا کو سمجھیں، تاکہ غزہ کو سمجھ سکیں۔ لہٰذا غزہ کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے مکمل مضمون پڑھیں۔
غزہ اور فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر حیران نہ ہوں۔ بوسنیا کے مسلمانوں کے خلاف سربوں نے جو تباہی کی جنگ چھیڑی، اس میں ۳۰۰ ہزار مسلمان شہید ہوئے۔ ۶۰ ہزار عورتوں اور بچیوں کی عصمت دری کی گئی۔ ڈیڑھ لاکھ لاوارث ہوئے ۔ کیا ہم اس المیے کا کبھی ذکر کرتے ہیںیا ہم بھول گئے ہیں… یا آپ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے!! سی این این کی کرسٹیانا امان پور بوسنیا کی سالگرہ پر تبصرہ کرتی ہیں:
مسلمانوں کا قتل عام، محاصرہ اور فاقہ کشی مگر یورپ نے مداخلت کرنے سے انکار کر دیا۔ ہولوکاسٹ تقریباً چار سال تک جاری رہا، جس کے دوران سربوں نے ۸۰۰سے زائد مساجد کو مسمار کر دیا، جن میں سے کچھ سولھویں صدی عیسوی کی تعمیرشدہ تھیں۔ سربوں نے سرائیوو کی تاریخی لائبریری کو جلا دیا۔ اقوام متحدہ نے مداخلت کی اور اسلامی شہروں جیسے کہ گورجدا، سریبرینیکا، زیبا کے داخلی راستوں پر دو دروازے لگا دیے، لیکن وہ محاصرے اور آگ کی زد میں تھے۔ سربوں نے ہزاروں مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں ڈالا، ان پر تشدد کیا، انھیں بھوکا مارا، یہاں تک کہ وہ ہڈیوں کا ڈھانچا اور بہت سی بیماریوں کا شکار ہوکر رہ گئے۔ جب سربیا کے ایک رہنما نے پوچھا: 'کیوں یہ ظلم کرتے ہو؟ تو اس نے جواب میں کہا: وہ سور کا گوشت نہیں کھاتے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین نے بوسنیا کے قتل عام کے دنوں میں ایک پورے صفحے کا نقشہ شائع کیا۔ جس میں عصمت دری کے مقامات دکھائے گئے تھے۔
مسلمان خواتین کے ساتھ سربوں نے ۱۷ بڑے کیمپوں میں جو کچھ کیا، اس کے ذکر سے قلم لرزتا ہے۔ _سربوں نے چھوٹی چھوٹی بچیوں تک کی عصمت دری کی۔ دی گارڈین نے ایک بچی کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا: ’’وہ بچی جس کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہے‘‘۔ قصائی ملادک نے زیبا کے مسلمانوں کے لیڈر کو میٹنگ میں بلایا۔ اس نے اسے سگریٹ دیا، اس کے ساتھ تھوڑا ہنسا، پھر اس پر جھپٹا اور اسے ذبح کر دیا۔ لیکن سب سے مشہور جرم تو سریبرینیکا کا محاصرہ تھا۔ عالمی فوج کے سپاہی سربوں کے ساتھ جشن منا رہے تھے، رقص کر رہے تھے۔ کچھ مسلمان ان کے ساتھ مل کر کھانے کے لیے سودے بازی کر رہے تھے۔ _سربوں نے سریبرینیکا کا محاصرہ کر لیا۔ دو سال تک گولہ باری ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رُکی۔ _سرب، اس قصبے میں پہنچنے والی امداد کا ایک اہم حصہ اُڑا رہے تھے۔ پھر مغرب نے اسے بھیڑیوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا: سریبرینیکا کی حفاظت کرنے والی ڈچ بٹالین نے سازش کی۔ سربوں نے مسلمانوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ حفاظت کے بدلے اپنے ہتھیار پھینک دیں۔مسلمان تھکن اور اذیت کے بعد دم توڑ رہے تھے۔
سربوں نے سریبرینیکا پر حملہ کیا، مردوں کو ان کی عورتوں سے الگ کر دیا۔ ۱۲۰۰ مرداور جوان الگ کیے، ان سب کو مار ڈالا۔ _سرب ایک مسلمان مرد کے اوپر کھڑا تھا اور اس کے چہرے پر سوراخ کر رہا تھا (نیوز ویک کی رپورٹ سے)۔ جہاں تک خواتین کا تعلق ہے، ان کی عزّت پر حملہ کیا گیا اور کچھ کو جلاکر ہلاک کر دیا گیا۔ یہ قتل عام سریبرینیکا میں کئی دن تک جاری رہا۔ یہ جولائی ۱۹۹۵ء کا آخر تھا۔ یہ ہمارے بھائیوں کے خاتمے کی جنگ کا آخری باب تھا۔ ایک ماں نے سرب کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، وہ اس سے التجا کرتی ہے کہ اس کے بچے کو ذبح نہ کرے ، اور اس نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا ، اور پھر اس کی آنکھوں کے سامنے اس بچّے کی گردن کاٹ ڈالی۔ قتل عام ہرجگہ ہم دیکھ سکتے تھے۔ سریبرینیکا کے ذبح خانے کے بعد قصاب راڈووان کاراڈزک شہر کو فتح کرتا اور اعلان کرتا ہوا شہر میں داخل ہوا: ’’سریبرینیکا ہمیشہ سے سربیا رہا ہے اور اب واپس آگیا ہے‘‘۔ پھر سرب ہتھیاروں سے مسلح، مسلمان عورتوں کی عصمت دری کر رہے تھے۔ انھوں نے ان کو ۹ماہ تک بند رکھا جب تک کہ وہ ناجائز بچوں کو جنم نہ دے لیں۔ ایک سرب نے ایک مغربی اخبار کو بتایا: ’’ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان خواتین سربیا کے بچوں (سربیائی بچوں) کو جنم دیں۔ یاد رکھیں بوسنیا، سرائیوو، بنجا لوکا، سریبرینیکا اور بلقان کو ہم نہیں بھولیں گے۔
بوسنیا میں قتل عام کے دوران، ایک فرانسیسی اخبار نے لکھا: بوسنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی تفصیلات سے یہ بات واضح ہے کہ صرف مسلمانوں کی ثقافت خوب صورت اور مہذب ہے۔ پرانے آرتھوڈوکس (بطرس غالی) کے عہدے، جو اس وقت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تھے، انھوں نے کھل کر اپنے ساتھی سربوں کا ساتھ دیا۔ یہاں پر یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ سرب مذہبی اسکالر ایک قدم آگے بڑھ کر مساجد کے اماموں، دانشوروں، تاجروں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ وہ کہتے تھے: انھیں باندھ کر ذبح کر کے پھینک دیں گے۔ انھیں دریا میں ڈال دیں گے۔ اگر سرب کسی قصبے میں داخل ہوتے تو اس کی مسجد کو گرانا شروع کر دیتے۔
ایک برطانوی اخبار نے بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کو اس جملے کے ساتھ بیان کیا: ’’بیسویں صدی میں یہ جنگ قرون وسطیٰ کے انداز میں چھیڑی گئی ہے..! میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہم اس ظلم کو بھول نہ جائیں، اور آنے والی نسلوں کو بھی یاد دلاتے رہیں۔ یہ پیغام ان لوگوں کے لیے ہے جو مغربی تہذیب اور جعلی انسانی حقوق سے مرعوب ہیں۔ تاریخ کی کہانیاں بچوں کو سونے کے لیے نہیں سنائی جاتیں، بلکہ یہ جگانے کے لیے سنائی جاتی ہیں۔
بھارتی فوج کے ایک سابق سربراہ جنرل سندر راجن پدمانابھن نے ۲۰۰۴ء میں دہلی میں اپنے ایک ناول کا اجراء کیا تھا۔ یہ ناولWritiing on the Wall پاکستان کے ساتھ ایک خیالی جنگ پر مبنی ہے، جس میں فوجیوں اور ٹینکوں کے بجائے سائنس دانوں کے ذریعے مصنوعی ذہانت اور پوشیدہ ہتھیاروں کا استعمال کرکے مواصلاتی نظام میں خلل ڈال کر بھارت یہ جنگ جیت جاتا ہے۔ ناول کے اجرا ء کے وقت ان سے پوچھا گیا کہ ’’کیا اس طرح کے ہتھیار وجود میں آچکے ہیں‘‘؟ تو انھوں نے وضاحت کی کہ’’ یہ مصنف کا تخیل ہے، اس کو فوج کی تیاریوں کے ساتھ نہ جوڑا جائے‘‘۔
اسرائیلی سائنس دانوں کا ایک وفد ایک بار دہلی میں تھا، جہاں سفارت خانے نے چند صحافیوں کے ساتھ ان کی نشست رکھی تھی۔ بات چیت کے دوران وفد میں شامل ان میں ایک سائنس دان نے کہا کہ ’’جب بھی مارکیٹ میں کوئی سائنس فکشن آتا ہے، تو ان کا محکمہ اس کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ لیتا ہے اور معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کیا مصنف کے تخیل کو حقیقت میں ڈھالا جاسکتا ہے؟‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’سائنس دانوں کو سائنس فکشن لکھنے والے مصنّفین رچرڈ مورگن، السٹر ری نالڈس، (جن کے ناولوں کا مرکزی مو ضوع تھیوریٹیکل فزکس ہوتا ہے) اور اَن گنت دیگر مصنّفین کی نگارشات کو پڑھنے کی نہ صرف ترغیب دی جاتی ہے، بلکہ یہ بھی رپورٹ کرنا پڑتا ہے کہ کیا اس کو عملی رُوپ دیا جاسکتا ہے؟‘‘ یعنی ان اسرائیلی سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ’’ہم جاسوسی تھرلرز کو بھی سنجیدگی سے لیتے ہیں‘‘۔
جنرل پدمانابھن کا تخیل اور اسرائیلی سائنس دانوں کے یہ دعوے اس وقت واقعی حقیقت میںتبدیل ہو گئے، جب لبنا ن کے طول و عرض سے خبریںآنا شروع ہوئیں کہ حزب اللہ کے مواصلاتی آلات ’پیجر‘ اور پھر بعد میں ’واکی ٹاکی‘ میں پے در پے دھماکے ہو رہے ہیں، جن سے پچاس کے قریب افراد ہلاک اور تقریباً ۳ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ موبائل نیٹ ورک کے استعمال کو ترک کرتے ہوئے حزب اللہ نے پیجر نیٹ ورک کو محفوظ مواصلاتی ذریعہ سمجھا تھا، کیونکہ ان کو ہیک کرنے کا کم خطرہ رہتا ہے مگر یہ پیجر خود ہی بم بن گئے ۔
حال ہی میں، حزب اللہ کو پیجرز کی ایک نئی کھیپ موصول ہوئی تھی۔خبروں کے مطابق اسرائیلی ایجنٹو ں نے سمندری جہاز کے ذریعے جانے والی پیجرز کی کھیپ تک رسائی حاصل کی تھی اور بیٹری کے ساتھ ہی اس میں چند گرام بارود رکھ کر ان کو دوبارہ بالکل اسی طرح پیک کر کے ان کو اپنے نیٹ ورک کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ مگر ایک روز قبل حزب اللہ سے وابستہ کسی جنگجو کو دو پیجرز پر شک ہو گیا تھا، کہ ان کی پیکنگ کھولی گئی ہے۔ اس سے قبل کہ یہ تنظیم ان پیجرز پر مزید تحقیق کرکے ان کو کوڑے دان میں پھینک دیتی، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہونے آپریشن کی منظوری دے دی۔
فی الحال حزب اللہ کا محفوظ مواصلاتی نظام، جو حملوں کو مربوط کرنے اور جنگجوؤں کو متحرک کرنے کے لیے ضروری تھا، اس کی کمزوری بن گیا ہے جس کا اسرائیل نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ نہ صرف بیروت بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بمباری کر رہا ہے۔۲۴ستمبر کی دوپہر تک ۵۸۰ ؍افراد لبنان میں شہید ہوچکے ہیں، جن میں ۷۰ بچّے بھی شامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حزب اللہ جو کبھی نظم و ضبط اور ناقابل تسخیر کے طور پر دیکھی جاتی تھی، اسے ڈیجیٹل اشیا کے ذریعے ہی غیر محفوظ بنایا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ میزائلوں اور جدید اسلحہ سے لیس انتہائی محفوظ فوج کو ڈیجیٹل دور میں ایک تباہ کن خطرے میں ڈالا جاسکتا ہے۔
اسرائیل کا یہ حملہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ مستقبل کی جنگیں صرف بموں اور گولیوں سے نہیں بلکہ ڈیٹا، الگورتھم اور سائبر حکمت عملی سے لڑی جا سکتی ہیں۔ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ حملہ ۲۱ویں صدی میں جنگ کے حوالے سے ایک اہم لمحہ ہے۔سائبر حملے اکثر پوشیدہ ہوتے ہیں، جس میں کوئی نشان، کوئی ملبہ اورگولہ بارود نہیں چھوڑا جاتا ہے۔یہ حملے مواصلاتی نیٹ ورکس، پاور گرڈز، مالیاتی اداروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس سے یہ بھی سنگین اندازہ ہوتا ہے کہ ڈیجیٹل دور میں کس طرح روز مرہ استعمال کے آلات ہتھیار بن کر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتے ہیں۔
اسرائیل کے نیشنل سائبر ڈائریکٹوریٹ کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل ریفیل فرانکو کے مطابق حزب اللہ کو اس شاک سے نکلنے میں کافی وقت لگے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اب ان کے جنگجو ہرپیجر اور موبائل فون کو شک کی نظر سے دیکھیں گے۔ اسرائیل نے فون اور دیگر آلات کو ہیک کرنے کی ٹکنالوجی کی خاطر خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔ یعنی آپ کے گھر پر روبوٹک جھاڑو کو بھی ہیک کرکے اس کو آپ کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ فرانکو کا کہنا ہے کہ: ’’اسرائیلی خفیہ تنظیم موساد نے حز ب اللہ کی سپلائی چین کا پتہ لگا لیا تھا کہ یہ پیجرز کسی شیل کمپنی سے خریدے گئے ہیں۔ ہم نے ہنگری میں بی اے سی کنسلٹنگ کا پتہ لگایا تھا جس نے ان پیجر ز کو سپلائی کرنے کا ٹھیکہ لیا تھا۔ ایران جلد ہی حزب اللہ کو جدید مواصلاتی آلات بھیجے گا،مگر اس نئے نظام کو فعال ہونے میں مہینوں نہیں تو ہفتوں لگیں گے‘‘۔ اس لیے پچھلے چند دنوں میں اسرائیل نے لبنان پر شدید بمباری کی ہے۔
اس سائبر وار سے قطع نظر ماضی میں بھی اسرائیلی ایجنٹوں نے ایسے کئی غیر روایتی حملوں سے مخالفین کو ٹھکانے لگایا ہے۔ اسرائیل کی ایجنسی شن بیٹ نے ۱۹۹۶ء میں غزہ میں حماس کے رکن یحییٰ عیاش کو مارنے کے لیے خفیہ طور پر دھماکا خیز مواد سے لیس موبائل فون ان کے پاس پہنچایا۔ جب فون ان تک پہنچ گیا تو انھی کی آواز پر اس کو ریموٹ سے دھماکا کرکے اُڑا دیا گیا۔
یاد رہے ۱۹۹۷ء میں حماس کے لیڈر خالد مشعل کو قتل کرنے کے لیے موساد کے دو خفیہ ایجنٹوں نے ان کی گردن پر زہر چھڑکا تھا، مگر یہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور یہ دونوں ایجنٹ پکڑے گئے۔ حماس کو ہتھیارفراہم کرنے والے محمود المبحوح ۲۰۱۰ء میں دبئی کے ہوٹل کے کمرے میں مُردہ پائے گئے تھے۔ اماراتی حکام نے ابتدائی طور پر اسے قدرتی موت قرار دیا تھا ، مگر بعد کی تحقیقات میں موساد کی ایک ہٹ ٹیم کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے پردہ فاش ہوا۔۲۰۱۰ء اور ۲۰۲۰ء کے درمیان، تقریباً نصف درجن ایرانی جوہری سائنس دان پُراسرار انداز سے ہلاک یا زخمی ہوئے۔ایران کے چیف جوہری سائنس دان محسن فخر زادہ کو ۲۰۲۰ء میں تہران کے مضافات میں ایک قافلے میں گاڑی چلاتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ کچھ ایرانی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے سیٹلائٹ سے کنٹرول کرنے والی سنائپر رائفل کا استعمال کیا۔ ایسا ہی عمل اسماعیل ہنیہ کے ساتھ برتا گیا۔
بنگلہ دیش میں ۵؍اگست کے ’طلبہ انقلاب‘ نے بنگلہ دیش پاکستان تعلقات کے معاملے کو دونوں ممالک کے درمیان بلندی پر پہنچا دیا ہے۔ یہ انقلاب اپنی نظریاتی، ملّی اور قومی بنیادوں پر بنگلہ دیش، پاکستان اور اُمت مسلمہ کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ صرف پندرہ روز کے اندر اندر پورے بنگلہ دیش کے طول و عرض میں زبردست بیداری اور مزاحمت کے بہائو کا مشاہدہ کیا جائے، تو یہ حقیقت بہت نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ یہ واقعہ خطے میں ہندوستانی بگٹٹ تسلط پسندی کو چیلنج کرنے کا عوامی اظہار ہے، جس کے پیچھے پڑھی لکھی نوجوان نسل پُرعزم کھڑی ہے۔
تاریخی اُمور کے ساتھ ساتھ یہاں پر چند اہم حالیہ واقعات و معاملات پیش ہیں:
ڈاکٹر شفیق الرحمان نے کہا: عوامی لیگ کی باقیات کی جانب سے واویلا ایک بے معنی اور فضول حرکت ہے۔ شیخ حسینہ نے ۱۵ برس کی فسطائی حکمرانی میں ملک، قوم، اداروں اور اپنی پارٹی عوامی لیگ کو برباد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک سے فرار کے بعد ان کی پارٹی میں کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جو پارٹی کو سنبھال سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوامی لیگ سرے سے کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے بلکہ مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ ہے، جس کا جمہوریت اور انسانی حقوق کے احترام سے کوئی دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے سرکردہ اور بزرگ رہنمائوں کو جھوٹے مقدموں میں ملوث کرکے، انصاف کا خون کیا گیا، پھانسیاں دی گئیں، کئی رہنمائوں کو قید کے دوران موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا، درجنوں کو لاپتا کردیا گیا اور ہزاروں کو قید رکھا گیا ہے۔ پھر غصے میں آکر جماعت پر کئی پابندیاں بھی عائد کردیں۔ بنگلہ دیش کے غیرت مند شہری، جماعت اسلامی کا احترام کرتے ہیں۔ ۱۵برس کے مسلسل جبر کے باوجود شیخ حسینہ حکومت، جماعت اسلامی کو تباہ نہیں کرسکی، جس پر ہم اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر اس مالک و خالق کے حضور سجدئہ شکر ادا کرتے ہیں۔(ایضاً)
ڈاکٹر شفیق الرحمان نے کہا: ’’عوامی لیگ کی انسانیت کش حکمرانی کے دوران اختلاف کرنے والے دانش وروں، وکیلوں اساتذہ اور صحافیوں کو غائب، قید اور قتل کرنے سے بھی اجتناب نہیں برتا گیا۔ افسوس کہ وکلا کے ایک طبقے نے عدل کے قتل میں قاتل حکومت کا مسلسل ساتھ دیا۔ حکومتی آلہ کاروں نے سارا پیسہ بیرونِ ملک اسمگل کیا اور اپنی بداعمالیوں کی سزا سے بچنے کے لیے لیگ کے لُوٹ مار کرنے والے ملک سے بھاگ گئے ہیں اور بھاگ رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کے دوران شہید ہونے والے تمام نوجوان اور شہری قوم کے ہیرو ہیں۔ انھیں قوم ہی کی نسبت سے یاد رکھنا، خدمات کا اعتراف کرنا اور ان کے پسماندگان کی مدد کرنا ہوگی‘‘۔(ایضاً)
۲۲ستمبر کو بنگلہ دیش کے مشہور انگریزی روزنامہ ڈیلی اسٹار ،ڈھاکا نے، جو ایک آزاد خیال، سیکولر اور جماعت اسلامی کا مخالف اخبار ہے، اس نے ووٹرز کے سروے پر مبنی دل چسپ اعداد و شمار شائع کیے ہیں، جن کے مطابق: ’’عام طور پر یہی سمجھا جارہا تھا کہ فسطائی عوامی لیگ حکومت کے خاتمے کے بعد بیگم خالدہ ضیاء کی زیرقیادت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) بھاری اکثریت سے حکومت سنبھال لے گی، مگر حقائق کے مطابق شاید کرسیاں بدل گئی ہیں۔ ۲۹؍اگست سے ۸ستمبر۲۰۲۴ء کے درمیان رائے عامہ کے جائزے سے ووٹروں کے رجحان کا اندازہ سامنے آیا ہے: ۴۶ء۴۴ فی صد حصہ ’فیلڈ سے ۵۱۱۵؍ افراد کے سائنٹفک (sample) سروے پر مبنی ہے۔ ۳۴ فی صد نے کہا کہ آیندہ ’’رائے دہی کے لیے ہم غیریقینی صورتِ حال کا شکار ہیں کہ کس کو ووٹ دیں؟‘‘ جب کہ ۱۰ فی صد نے کہا کہ ’’ہم طلبہ کی قیادت میں سیاسی پارٹی کو ووٹ دیں گے‘‘۔ مگر جب بنگلہ دیش کے تمام ۶۴ اضلاع میں ’آن لائن‘ ۳۵۸۱؍ افراد پر مشتمل سائنٹفک سیمپل سروے کیا گیا تو اُن میں سے ۳۵ فی صد نے کہا: ’’ہم طلبہ کی زیرقیادت پارٹی کو ووٹ دیں گے‘‘ اور ۱۱فی صد نے کہا: ’’ہم فیصلہ نہیں کرسکے کہ کسے ووٹ دیں گے؟‘‘ یاد رہے ابھی تک طلبہ کی زیر قیادت یا اس سوچ کی نمایندہ سیاسی جماعت وجود میں نہیں آئی۔ اس طرح ’فیلڈ سروے‘ کے ۴۴ فی صد اور ’آن لائن‘ کے ۴۶ فی صد ووٹر غیرفیصلہ کن پوزیشن میں ہیں، جب ان سے پوچھا گیا: ’’آپ غیرفیصلہ کن کیوں ہیں؟‘‘ توزیادہ تر نے کہا: ’’ہم ممکنہ اُمیدواروں سے ناواقف ہیں، اور محض پارٹی نشان کو ووٹ نہیں دینا چاہتے‘‘۔
اس سروے کا دل چسپ پہلو ۱۹۹۷ء سے ۲۰۱۲ءکے درمیان پیدا ہونے والی ’زیڈ پود‘ اور اُن سے قبل پیدا ہونے والی ’بزرگ نسل‘ کا طبعی رجحان ہے۔ ’آن لائن‘ سروے میں ’زیڈ پود‘ کے ۳۷ فی صد نے، اور ’بزرگ نسل‘ نے ۳۰ فی صد تعداد میں طلبہ کی سیاسی پارٹی کی حمایت کی۔ دوسری طرف ’آن لائن‘ سروے کے مطابق:۱۹۵۵ء سے ۱۹۶۴ء کے درمیان پیدا ہونے والوں نے ۱۷ فی صد ، ۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۶ء کے درمیان پیدا ہونے والوں نے ۲۴ فی صد اور ’زیڈ پود‘کے ۲۷ فی صد ووٹروں نے کہا کہ ’’ہم جماعت اسلامی کو ووٹ دیں گے‘‘۔ ان نتائج کو دیکھ کر ہر کوئی حیران ہے کہ بالکل نوخیز ’زیڈ پود‘ میں جماعت اسلامی کی اتنی پذیرائی کیونکر سامنے آرہی ہے؟ خواتین آبادی کا ۵۱ فی صد ہیں، ان کی آراء دیکھیں تو ان کی بڑی تعداد تاحال ’غیرفیصلہ کن‘ ہے، یا پھر طلبہ کی طرف جھکائو رکھتی ہے۔ دوسرا یہ کہ خواتین میں جماعت کی مقبولیت کا گراف کم تر ہے۔ ’فیلڈ سروے‘ میں خالدہ ضیاء پارٹی کو ۲۱ فی صد ووٹ ملے، جب کہ جماعت اسلامی کو ۱۴ فی صد۔ مگر ’آن لائن‘ سروے کے مطابق خالدہ ضیاء پارٹی کو ۱۰ فی صد اور جماعت اسلامی کو ۲۵ فی صد ووٹ ملے۔ بی این پی ’فیلڈ سروے‘ میں تمام ڈویژنوں میں آگے ہے، لیکن ’آن لائن‘ سروے میں تمام ڈویژنوں میں جماعت اسلامی آگے ہے۔ دونوں سروے میں بی این پی کو ’زیڈ پود‘ کے برعکس ’بزرگ نسل‘ میں برتری حاصل ہے، مگر نئی نسل میں اس کی مقبولیت کم ہے۔ عوامی لیگ کی پوزیشن یہ ہے کہ ’فیلڈ سروے‘ میں عوامی لیگ کو صرف ۵ فی صد اور ’آن لائن‘ میں ۱۰ فی صد ووٹروں کی حمایت حاصل ہوسکی ہے۔ عوامی لیگی حلقے جماعت اسلامی کی مقبولیت پر سخت بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔
تاریخ کے اوراق دیکھیں تو خطۂ بنگال سے جڑے چار بڑے موڑ سامنے آتے ہیں، جن کا تعلق پاکستان سے ہے: lپہلا یہ کہ ۱۹۰۵ء میں تقسیم بنگال ہوئی۔ اسے مسلم اکثریتی علاقے کو مذہبی پہچان کی بنیاد پر الگ وجود تسلیم کیا گیا (تاہم، ۱۹۱۱ء کو یہ تقسیم ہندوئوں کے دبائو سے واپس ہوگئی، مگر اس نے تقسیم کا نظریہ پیش کر دیا)۔ l دوسرا یہ کہ دسمبر ۱۹۰۶ء کو ڈھاکہ میں کُل مسلم لیگ قائم ہوئی، جس نے تحریک پاکستان کی قیادت کی۔ lتیسرا یہ کہ ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی ’قرارداد لاہور‘ کو پیش کرنے کا اعزاز بنگال ہی کے رہنما اے کے فضل الحق (م: ۱۹۶۲ء)کو حاصل ہوا، lاور چوتھا یہ کہ ۶ تا ۹؍اپریل ۱۹۴۶ء کو ہونے والے مسلم لیگ لیجس لیچرز کنونشن دہلی میں، جو قائداعظم کی صدارت میں منعقد ہوا، وہاں پر بنگال ہی سے تعلق رکھنے والے حسین شہید سہروردی (م:۱۹۶۳ء) نے قرارداد پیش کی، جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ اس میں لکھا ہے: ’قراردادِ لاہور‘ میں پاس کردہ لفظ ’states‘کو ’state‘ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
لفظ ’ریاستوں‘ کو ’ریاست‘ کر نا دُور اندیشی پر مبنی حکمت ِ کار تھی کیونکہ ہندوستان نے مسلم آبادی کے اس علاقے کو تین اطراف سے گھیر رکھا ہے۔ بالکل وہی صورتِ حال آج بھی برقرار ہے۔ انڈیا نے بنگلہ دیش میں ایک انتہائی بھارت نواز انتظامیہ قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی، لیکن حالیہ انقلاب سے بھارتی مذموم عزائم کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔ بنگلہ دیش میں انقلابی قوتیں سفارتی حمایت کے لیے پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہیں، اور پاکستان اس انقلاب کو محفوظ بنانے اور جنوبی ایشیا میں انڈیا کی بالادستی اور دھونس کو کم کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ پاکستان اس انقلاب کی حمایت کے لیے یہ اقدامات کر سکتا ہے:
۱- پاکستان ’اسلامی کانفرنس تنظیم‘ (OIC) اور دیگر بین الاقوامی حکومتی پلیٹ فارموں کے ذریعے انقلاب کی حمایت کے لیے سابق سفارت کاروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے۔
۲- یہ کمیٹی سارک (SAARC) کی تنظیم نو کے لیے بنگلہ دیش کی مدد کرے۔ یاد رہے کہ مالدیپ، نیپال اور سری لنکا،ہندوستان کے تسلط پسندانہ عزائم سے پریشان ہیں۔
۳- پاکستانی سیاست دانوں اور این جی اوز کو انقلاب کی حمایت کرنے پر اُبھارا جائے۔
۴- یہ کمیٹی بنگلہ دیشی صحافیوں اور میڈیا کے افراد سے باقاعدہ پیشہ ورانہ سطح پر معاونت لے، تاکہ پاکستانی عوام بنگلہ دیش میں تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ ہوسکیں۔
۵- پاکستان، بنگلہ دیشی دانش وروں، صحافیوں، مصنّفوں، پروفیسروں اور اساتذہ اور طلبہ کو پاکستان آنے کی دعوت دے اور اسی مقصد کے لیے پاکستانی صحافیوں کو بنگلہ دیش بھیجے۔
۶- پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی اداروں میں بنگلہ دیشی طلبہ اور تعلیمی عملے کے لیے اسی طرح کے تبادلے کے پروگرام تیار کیے جائیں۔
۷- پاکستانی تعلیمی اداروں کو بنگلہ دیشی طلبہ کے لیے اسکالرشپ پیش کرنے پر اُبھارا جائے۔
۸- سیاسی، معاشی، ثقافتی اور کھیلوں کے میدان میں وسعت لانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر معاہدے کیے اور عمل درآمد کی صورت بنانی چاہیے۔
۹- بنگلہ دیش چیمبرز آف کامرس اور ڈھاکہ و چٹاگانگ کے ایوان ہائے صنعت و تجارت کے قائدین کو پاکستان آنے اور باہم سرمایہ کاری کی سہولت دی جانی چاہیے۔
۱۰- کراچی یونی ورسٹی اور پنجاب یونی ورسٹی میں بنگلہ زبان و ادب کے شعبے کھولے جائیں۔
۱۱- دونوں ملکوں میں ویزا کی نرمی پیدا کی جائے اور اشیاء کی ترسیل اور وصولی کے تیزرفتار نظام کو عملی شکل دی جائے۔ (مجوزہ سفارتی کمیٹی مزید اقدامات تجویز کرسکتی ہے)۔
بنگلہ دیش کے عوام کی اس اُمنگ کے جواب میں ،جو بھارتی تسلط سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ ظاہر کرچکے ہیں، مثبت جواب دینا چاہیے۔ ہمیں خوف کی فضا سے باہر آنا چاہیے اور تاریخ کے اس موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔بنگالی نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں نے سروں پر کفن باندھ کر اس انقلاب کے دوران ہندوستان کو بنگلہ دیش سے باہر نکالنے کے لیے ایک ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانی دی ہے۔ ہمیں اس کا پاس و لحاظ رکھنا چاہیے۔
ہندوستانی میڈیا، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) اور خفیہ ایجنسیاں یہ موقف پھیلانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں کہ ’’بنگلہ دیشی مسلمان انتہا پسندوں نے کچھ بین الاقوامی قوتو ںکے ساتھ مل کر ہندوستان کو بنگلہ دیش سے اُکھاڑ پھینکنے کی بڑی ’سازش‘ کی ہے‘‘۔ انھیں اس بات پر یقین ہی نہیں آرہا کہ غیرمعروف سے طالب علموں کی قیادت میں ایک ’مقامی کوٹہ تحریک‘ ایسا بلاخیز سیلاب بھی بن سکتی ہے، جو اُن کی گماشتہ ڈکٹیٹر اور اس کے حمایتی ہندوستان کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے کہ ہندو نسل پرست بھارتی دھونس نے بنگلہ دیش کی نئی نسل میں مسلم قومیت کی شناخت اور دفاع کے جذبے کو پروان چڑھایا ہے۔
انڈیا کی رہنمائی اور قیادت میں حسینہ واجد حکومت نے پاکستان کے خلاف شدید نفرت کی فصل کاشت کرنے کی خاطر ایک باقاعدہ وزارت قائم کی، جس نے پندرہ برس تک تعلیم، میڈیا اور صحافت میں پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی انتہائوں کو چھوا، لیکن وہ سب مذموم پروپیگنڈا دھرے کا دھرا رہ گیا۔ انقلاب کے بعد ۶ستمبر ۲۰۲۴ء کو قائداعظمؒ کی برسی کے موقعے پر ڈھاکہ نیشنل پریس کلب میں بھرپور پروگرام ہوا۔ طلبہ تحریک کے مرکزی رہنما ناہید الاسلام کے اس جملےنے تاریخ کے ۵۴برس پلٹا کر ۱۹۷۱ء سے پہلے کے مشرقی پاکستان سے جوڑ دیا کہ ’’اگر پاکستان نہ بنتا تو آج بنگلہ دیش بھی وجود میں نہ آتا‘‘۔یہ چیز ایک مقبول رہنما کی زبان سے عام لوگوں کو حقیقت کا فہم دینے میں مددگار بنی ہے۔
تاریخ کا یہ عجیب معاملہ ہے کہ ایک طرف تو بنگلہ دیش کی حکومتوں نے پاکستان کے بارے میں جھوٹے، خودساختہ بلکہ بیہودہ موقف کو نئی نسل کے ذہنوں میں اُنڈیلا، تو دوسری طرف پاکستان میں حکام نے مشرقی پاکستان اور بنگالیوں کے ساتھ اپنی چوبیس سالہ رفاقت کو فراموش کرنے، بنگال کے سرفروشوں کے ساتھ وابستگی کی پوری تاریخ کو مٹانے کی دانستہ اور جاہلانہ کوششیں کیں۔
۱۹۷۱ء میں تقسیمِ پاکستان کے المیے نے خود پاکستانی حکومتوں اور اداروں کے شعور کی دُنیا کو بُری طرح عدم توازن کی نذر کر دیا۔ تاہم، پاکستان کے جوہری پروگرام کی کامیابی نے پاکستان کو مستقبل میں ممکنہ جارحیت سے بچانے میں مدد دی ہے۔ بنگالی دانش ور، پاکستان کی تقلید اور پاکستان کے ساتھ تعاون کی ضرورت کے بارے میں بڑی اُمید کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کو اپنی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھرپور طریقے سے قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
اس صورت حال کا نہایت خطرناک پہلو یہ ہے کہ انڈیا کی حکومت اور خفیہ ایجنسیاں بنگلہ دیش میں مسلسل بدامنی کو ہوا دے رہی ہیں۔ حالات و واقعات سے ظاہر ہے کہ خود ہندوئوں کی املاک پر متعدد حملوں اور عوامی لیگیوں کے چند مقامات پر ہجومی قتل کے پیچھے بھی انڈیا کی یہ حکمت عملی کارفرما ہے کہ اس طرح عبوری حکومت بدنام ہو اور عوامی لیگ ہمدردی حاصل کرسکے۔ ان چیزوں پر میڈیا کو بہت محتاط رویہ اپنانا چاہیے۔
برطانوی پولیس اس وقت اپنی نوعیت کے پہلے اور ایک انوکھے معاملے کی تحقیقات کررہی ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق ایک سولہ سالہ نوجوان لڑکی نے ’میٹاورس‘ [Metaverse] میں اپنے ساتھ ہونے والی 'غیر حقیقی اجتماعی زیادتی [Virtual gang rape] کی رپورٹ پولیس کو دی ہے۔ تفصیلات کے مطابق وہ لڑکی ورچول ریلیٹی [Virtual reality ] ھیڈ سیٹ پہنے ’میٹاورس‘ میں ایک 'حقیقت سے قریب [Immersive game] کھیل رہی تھی، جب اس کے ساتھ کھیلنے والے دوسرے کرداروں نے اس کے خاکے یا کارٹون کریکٹر [Digital Avatar] پر حملہ کیا اور اسے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس لڑکی کو تضحیک یا ٹرولنگ [trolling] کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی نے کہا کہ مختلف کمپیوٹر کھیل کھیلتے ہوئے وہ کھیل ہی کھیل میں مرچکے ہیں، تو کیا وہ اس کے لیے قتل کا مقدمہ درج کرائیں، تو کسی کے خیال میں پولیس کو حقیقی زندگی میں ہونے والے جرائم پر توجہ دینی چاہیے۔
’میٹاورس‘ کو سوشل میڈیا نیٹ ورکس کا مستقبل کہا جاتا ہے۔ ’میٹاورس‘ کیا ہے؟ اس پر ہم بعد میں گفتگو کریں گے، لیکن اس سے قبل سوشل میڈیا نیٹ ورکس کو سمجھنا ضروری ہے۔ ویسے تو انٹرنیٹ کا آغاز ہی ایک دوسرے سے کوسوں دُور بیٹھے چند لوگوں کے درمیان کمپیوٹر پر گفتگو سے ہوا تھا، لیکن سوشل میڈیا نیٹ ورکس نے صرف ابلاغ کے ذرائع کو ہی تبدیل نہیں کیا بلکہ فرد، خاندان، معاشرہ، ٹکنالوجی، حتیٰ کہ زندگی کے فلسفے کو بھی تبدیل کردیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نہ ہوتے تو نہ اسمارٹ فونز کو ہماری زندگی میں یہ اہمیت حاصل ہوتی اور نہ مصنوعی ذہانت (AI)کو ایسا عروج حاصل ہوتا کہ اس کا خطرہ ایٹم بم سے زیادہ بڑھ جاتا۔
فیس بک، ایکس [سابقہ ٹویٹر]، گوگل، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور دوسرے بہت سے چھوٹے بڑے سوشل نیٹ ورک ہماری زندگیوں پر کیسے اثرانداز ہورہے ہیں؟ ہمارے سوچنے سمجھنے سے لے کر زندگی بسر کرنے کے طریقے کیسے تبدیل ہورہے ہیں اور مستقبل کیسا ہوگا؟ اگلی سطور میں انھی سوالات کا جواب جاننے کی کوشش کریں گے۔
کینیڈین مفکر مارشل مک لوہن نے ساٹھ کے عشرے میں میڈیا کی ترقی کو دیکھتے ہوئے ’گلوبل ویلیج‘(عالمی گائوں) کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ ان کے خیال میں الیکٹرانک میڈیا مثلاً ٹیلی ویژن، ٹیلی فون وغیرہ کی ایجاد نے دنیا کے فاصلوں کو سمیٹ دیا ہے۔ نصف صدی قبل پیش کی گئی یہ تھیوری اس وقت بھی بہت مقبول ہوئی تھی، لیکن شاید اس کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نیٹ ورکس نے قبولِ عام دے دیا اور یہ اصطلاح زبان زد عام ہوگئی۔
بظاہر تو سوشل میڈیا پلیٹ فارم روایتی میڈیا ہی کی ایک جدید اور ترقی یافتہ شکل نظر آتے ہیں، لیکن ان کے اثرات بالکل مختلف ہیں۔ جہاں میڈیا کو دنیا کو جاننے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا تو سوشل میڈیا کو ایکو چیمبرز سے تشبیہ دی جارہی ہے، کیونکہ بیش تر اوقات سوشل میڈیا پلیٹ فارمز آپ کو وہی کچھ دکھاتے ہیں جو آپ پسند کرتے ہیں۔ یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، چند الگورتھم کی مدد سے آپ کی پسند ناپسند کو دیکھ کر اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟ اور مسلسل صرف وہ چیزیں دیکھ کر جو ہمیں پسند ہیں، ہم محض کنویں کا مینڈک بنتے جارہے ہیں۔
کمپیوٹر کی زبان میں ’الگورتھم‘ ایسی ہدایات یا طریقۂ کار کو کہتے ہیں جس پر عمل کرکے کمپیوٹر کسی مسئلے کو حل کرتے ہیں۔ جتنا ہی مشکل مسئلہ ہوتا ہے اتنا ہی پیچیدہ ’الگورتھم‘ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے اور انسانی نفسیات سے کھیلنے سے زیادہ پیچیدہ کام شاید ہی اس دنیا میں کوئی ہو۔ لیکن سوشل میڈیا نیٹ ورکس نے اس مسئلے کو نہ صرف اپنی دانست میں حل کرلیا ہے بلکہ انسانیت اب ان ’الگورتھم‘ کے رحم و کرم پر ہی ہے۔ ایک زمانے میں ’فیس بک‘ کا نعرہ تھا کہ ’تیز چلو اور توڑ دو‘ (Move fast and break things') ۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے پلیٹ فارمز پر لانے، ان کو زیادہ دیر تک مصروف رکھنے اور ان سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے چکر میں صورتِ حال پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی رہی اور مصنوعی ذہانت اس پر سونے پر سہاگہ کا کام کررہی ہے۔ یونی ورسٹی کالج لندن کی ماہر حسابیات اور اپنی کتاب 'Being Human in the Age of Algorithms First' کے لیے مشہور حنا فراے (Hannah Fry) کے خیال میں:
These are just some of the dilemmas that we are beginning to face as we approach the age of the algorithm, when it feels as if the machines reign supreme. Already, these lines of code are telling us what to watch, where to go, whom to date, and even whom to send to jail. But as we rely on algorithms...they raise questions about what we want our world to look like? What matters most...We don’t have to create a world in which machines are telling us what to do or how to think, although we may very well end up in a world like that.
الگورتھمز کے اس دور میں جہاں مشینوں کی حکمرانی ابھرتی نظر آرہی ہے۔ یہ چند مخمصے ابتدائے محض ہیں، جن کا سامنا ہم کر رہے ہیں۔ ہم کو کیا دیکھنا ہے، کہاں جانا ہے، کس کو پسند کرنا ہے یہاں تک کہ کس کو جیل بھیجنا ہے، اس کا فیصلہ پہلے ہی یہ الگورتھمز کررہے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے ہمارا بھروسا ان الگورتھمز پر بڑھ رہا ہے، یہ سوال اہم ہوتا جارہا ہے کہ ہم کس قسم کی دنیا چاہتے ہیں اور کیا چیز سب سے اہم ہے؟ ہم کو ایسی دنیا نہیں بنانی جہاں مشینیں ہم کو بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا اور کس طرح سوچنا ہے؟ لیکن شاید ایسی دنیا سے فرار اب ممکن نہیں۔
عام طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز آپ کی پسند اور ناپسند کو دیکھتے ہوئے آپ کا ایک نفسیاتی خاکہ بناتے ہیں اور پھر اسی خاکہ کو دیکھتے ہوئے آپ کو مواد دکھایا جاتا ہے۔ یہ ’الگورتھمز‘ ہروقت آپ کے بارے میں اپنی رائے کو بہتر سے بہتر بناتے رہتے ہیں۔ جب تک یہ ’الگورتھمز‘ انسان بنارہے تھے، تب تک ان کو سنبھالنا بھی آسان تھا۔ مثلاً جب سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کی بھرمار ہوئی تو ان سے مقابلہ کرنے کے ’الگورتھمز‘ بنائے گئے اور پہلے سے موجود ’الگورتھمز‘ کو بہتر بنایا گیا۔ لیکن اب بہت تیزی سے ان ’الگورتھمز‘ کو مصنوعی ذہانت کی مدد حاصل ہورہی ہے اور مصنوعی ذہانت جب یہ فیصلہ کرنے لگے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں، تو نہ صرف انسان بے اختیار ہوجاتے ہیں بلکہ کسی حد تک آگے ہونے والی غلطیوں سے بری الذمہ بھی۔ یعنی ایک طرف تو یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہماری روزمرہ کی زندگی سے لے کر کس کو حکمران بنانا ہے، تک کے فیصلوں میں دخل دے رہے ہیں، اور دوسری طرف یہ کسی قسم کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں کیونکہ اب یہ فیصلہ کہ کیا دکھانا ہے اور کیا نہیں، اس کا فیصلہ انسان نہیں مصنوعی ذہانت کے ’الگورتھمز‘ کررہے ہیں۔
امریکی صدارتی امیداوار ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی خبر جب پھیلی تو فیس بک نے زخمی ڈونلڈ ٹرمپ کی مکا لہرانے کی تصویر کو اپنے پلیٹ فارم پر سے ہٹانا شروع کردیا، جس کی وجہ سے فیس بک کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کے فیس بک کے سی ای او مارک زکر برگ کو اپنے کاروباری مفاد کے تحفظ کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کو فون کرکے معافی بھی مانگنی پڑی۔
یہ صورتِ حال اس وقت بھی پیش آئی، جب سابق فلسطینی وزیر اعظم اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے فوراً بعد فیس بک نے اس خبر کو اپنے پلیٹ فارم پر سنسر کرنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ ملائشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم کی تعزیتی پوسٹ بھی ہٹادی گئی، جس پر ملائشیا کی حکومت نے کافی احتجاج کیا۔
لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سنسرشپ کی یہ مہم نئی نہیں ہے۔ فیس بک، ٹویٹر اور گوگل نے ۲۰۱۶ء کے امریکی انتخابات میں Cambridge Analytica Data Scandal کے سامنے آنے کے بعد ۲۰۲۰ء کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کو سنسر کرنا شروع کردیا۔ انھیں 'شیڈوبین الگورتھم [Shadowban Algorithm] کا نام دیا گیا۔ یعنی اگر آپ اپنے پلیٹ فارم پر سے کسی طاقت ور شخصیت یا کسی مقبول نظرئیےکو ہٹا نہیں سکتے تو اس کو اپنے پلیٹ فارم پر ’الگورتھمز‘ کی مدد سے اس طرح پھیلنے سے روک دیں۔ اس بات پر جب ان پلیٹ فارمز کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، وہیں مشہور امریکی کاروباری ایلون مسک نے 'آزادیٔ اظہار کے تحفظ کے لیے ٹویٹر کو مہنگے داموں خرید لیا۔ اس کے محرک مشہور ٹکنالوجسٹ پیٹر تھیل بنے، جو نہ صرف ایلون مسک کے کاروباری ساتھی رہے ہیں، بلکہ فیس بک کے ابتدائی انویسٹرز میں سے ایک ہیں۔
دُنیا کے دو بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر پیٹر تھیل کس اثررسوخ کا حامل ہے، اس کا اندازہ اس خبر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اگلے امریکی صدارتی انتخابات کے لیے اپنے سخت ترین مخالف جے ڈی ونس '(J D Vince' ) کو نامزد کیا جو اس سے قبل 'ٹرمپ دوبارہ نہیں‘ ' یا 'Trump Never Again' کا نعرہ لگاتے تھے۔ ان دونوں کے درمیان مفاہمت کا کردار کسی سیاست دان یا تجربہ کار بیوروکریٹ نے نہیں بلکہ ارب پتی ٹکنالوجسٹ پیٹرتھیل نے ادا کیا ہے، جو ایک طرف جے ڈی ونس کے کاروباری ساتھی ہیں تو دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر خاص بھی۔ یہ خبر بھی شاید دلچسپی کا باعث ہو کہ حالیہ فلسطین اسرائیل جنگ میں معصوم فلسطینیوں کے قتل عام میں بدترین کردار ادا کرنے والا مصنوعی ذہانت کا سوفٹ ویر بھی پیٹر تھیل کی کمپنی نے بنایا ہے۔
آزادیٔ اظہار مغرب کے لیے محض ایک ہتھیار ہے، اس سے کون ناواقف ہے۔تاہم، ’الگورتھمز‘ کا یہ عروج کتنا خطرناک ہے اور یہ ’الگورتھمز‘ یا ان کے بنانے والے کیسے ہماری نفسیات سے کھیلتے ہیں؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ ایکس پلیٹ فارم کے بانی جیک ڈورسی اب آزادیٔ اظہار کی بحث کو محض توجہ ہٹانے کا ذریعہ کہتے ہیں۔ اور ان کے خیال میں اصل بحث ’الگورتھمز‘ کو استعمال کرنے یا نہ کرنے کی آزادی پر ہونی چاہیے۔ ایک انٹرویو میں جب انھوں نے یہ گفتگو کی تو ایکس پلیٹ فارم کے نئے مالک ایلون مسک بھی اس بات سے انکار نہ کرسکے۔ بقول جیک ڈورسی:
This is going to sound a little bit crazy, but I think that the free speech is a complete distraction right now. I think the real debate should be about free will and we feel it right now because we are being programmed... And I think the only answer to this is... to give people a choice of what algorithm they want to use.
شاید یہ آپ کو عجیب لگے لیکن [آج کے دور میں] میرے خیال میں آزادیٔ اظہار کی باتیں محض توجہ ہٹانے کا طریقہ ہیں۔ میرے خیال میں اصل بحث آزاد یا خود اختیاری سوچ پر ہونی چاہیے۔ اور اب ہم نے اس بات کو محسوس کرنا شروع کردیا ہے کیونکہ ہماری سوچ یا مرضی کو [سوشل میڈیا الگورتھمز کے ذریعے] بدلا جارہا ہے۔ اور میرے خیال میں اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے لوگوں کو اس بات کی آزادی دی جائے کہ وہ اس بات کا تعین خود کرسکیں کہ وہ کون سا الگورتھم استعمال کرنا چاہتے ہیں اور کون سا نہیں۔
تقریباً تمام ہی بڑی اور طاقت ور سوشل نیٹ ورکس کمپنیاں کسی نہ کسی طرح جہاں ایک طرف 'منتخب کردہ نظریات کو پروان چڑھانے کے لیے نہ صرف مکمل آزادی دیتی ہیں بلکہ مختلف ’الگورتھمز‘ کے ذریعے ان کی بات کو اپنے اپنے پلیٹ فارمز پر بڑے پیمانے پر پھیلاتی ہیں تو دوسری طرف مخالف آواز کو بالکل دبا دیتی ہیں۔ یعنی آپ کو اپنی بات کہنے کی آزادی تو ہے، لیکن اپنی بات کو پھیلانے کی آزادی نہیں ہے۔ اسے 'Freedom of Speech, Not Freedom of Reach' کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی جہاں ایک 'پسندیدہ شخصیت کی پوسٹ ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کو ان کی مرضی کے خلاف دکھائی جاتی ہے، تو دوسری طرف مخالفین کی پوسٹ کو چند سو لوگوں کو بھی نہیں دکھایا جاتا ہے۔
آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ اگر کسی فلسطینی مقصد کی حمایت کرنے والے کی آواز سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر دبانی ہو تو یہ پلیٹ فارمز اپنے ریکارڈ یا ڈیٹابیس میں اس کے نام کے آگے ایک منفی نشان لگادیں گے اور پھر اس کو اپنی بات کہنے کی تو مکمل آزادی ہوگی لیکن اس کا پیغام بہت کم ہی لوگ دیکھ پائیں گے۔ یہ باتیں کوئی سازشی نظریات نہیں بلکہ ان سوشل نیٹ ورکس کمپنیوں کے بے شمار ملازمین اس موضوع پر خفیہ دستاویزات سامنے لاچکے ہیں کہ یہ کمپنیاں کس طرح آزادیٔ اظہار کے نام پر آزادی اظہار کا گلا گھونٹ رہی ہیں۔
ان سب میں سب سے توانا اور منظم آواز گوگل کے سابق سوفٹ وئر انجینیر زیک وریز کی ہے، جنھوں نے ۲۰۲۰ء کے امریکی انتخابات میں گوگل کی دھاندلیوں پر سے پردہ اٹھایا ۔ زیک نے ۲۰۲۱ء میں اپنی کتاب 'گوگل لیکس: طاقت ور ٹکنالوجی سنسرسپ کو بےنقاب کرنے کی کہانی یا Google Leaks: A whistleblower's expose of big tech censorship' میں تقریباً ایک ہزار خفیہ دستاویزات کے ذریعے یہ بتایا ہے کہ کس طرح گوگل نے اپنے سرچ انجن اور یوٹیوب پر ڈونلڈ ٹرمپ کی الیکشن کمپین کو سنسر کرکے جوبائیڈن کے جیتنے کی راہ ہموار کی۔
کتاب کے مصنف کے مطابق ۲۰۱۶ء کے انتخابات سے قبل ہی گوگل کے بانیوں نے اپنا تمام وزن ہیلری کلنٹن کے پلڑے میں ڈالا ہوا تھا، لیکن تمام تر محنت کے بعد بھی جب نتائج اس کے برعکس آئے، تو ۲۰۲۰ء کے انتخابات سے قبل دائیں بازو کے 'پروپیگنڈا کو باقاعدہ سنسر کرنے کا آغاز کیا اور پھر یہ سنسرشپ پھیلتی چلی گئی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ زیک وریز کے مطابق ایلون مسک کے دعوؤں کے برعکس ’ایکس‘ پلیٹ فارم پر دیگر پلیٹ فارمز کی طرح شیڈوبین الگورتھم [Shadow banning algorithm] ابھی بھی اسی طرح فعال ہے جیسا کہ پہلے تھا اور ایلون مسک کے دعوے محض جھوٹ ہیں۔
ان طاقت ور سوشل نیٹ ورکس کی یہ سنسرشپ مہم امریکا اور یورپ میں جاری ثقافتی جنگ، (Woke Culture War)میں بھی اہم کردار ادا کررہی ہے، جہاں 'آزادی، تنوع اور مساوات کے نعرے کے مخالفین کو یہ پلیٹ فارمز مکمل طور پر سنسرکررہے ہیں۔ بظاہر خوب صورت نظر آنے والے ان نعروں کے پیچھے امریکا اور یورپ میں ہم جنس پرستی، اپنی جنس خود منتخب کرنے کی آزادی، غیرقانونی مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کی پالیسی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ یہ لبرل ذہنیت کس حد تک گرگئی ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پیرس اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں انھی نظریات کے تحت نعوذباللہ حضرت عیسٰی علیہ اسلام کی تضحیک کی گئی اور ابتدا میں اس کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خوب پھیلایا گیا، لیکن پھر تنقید کے بعد یہ ویڈیوز کچھ پلیٹ فارمز پر سے ہٹادی گئیں۔
مسلم معاشروں کے لیے صورت حال کی نزاکت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ پہلے ہم اپنے بزرگوں سے اسلام سیکھتے تھے پھر یہ کام کتابوں نے لے لیا۔ آج کل یہ کام سوشل نیٹ ورکس نے سنبھالا ہوا ہے اور آگے چل کر یہ کام مصنوعی ذہانت سنبھال لے گی۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ روزانہ دس سے بارہ گھنٹے اپنے اسمارٹ فون پر مختلف سوشل نیٹ ورکس پر گزارنے والی نوجوان نسل کو سنسرشپ کی مہم کے تحت مصنوعی ذہانت کے ذریعے اپنا من پسندیدہ تصورِ اسلام سکھایا جائے اور باقی سارے تصورات سنسر کردیئے جائیں، تو اگلے چند برسوں میں کیسی ہولناک صورت حال بن جائے گی۔
اس کی ایک جھلک ایسے دیکھی جاسکتی ہے کہ جب چیٹ جی پی ٹی (Chat GPT) اور ’ایکس‘ [ٹویٹر] کے اے آئی پروگرام گروک 'X AI program GROK' سے ۲۰ بڑی دہشت گرد تنظیموں کے نام اور مذہب کا پوچھا گیا تو ان دونوں پروگرامز نے صرف مسلم تنظیموں کے نام اور اسلام کا نام دکھایا۔ گویا مصنوعی ذہانت کو سکھا دیا گیا ہے کہ دہشتگردی کو اسلام کے ساتھ جوڑنا ہے۔
سوشل نیٹ ورکس اور مصنوعی ذہانت کے 'گٹھ جوڑ سے اور کیا کیا تباہ کاریاں سامنے آئیں گی؟ اس کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ لیکن گذشتہ دنوں پاکستانی میڈیا پر چلنے والی اس خبر نے آپ کی توجہ ضرور حاصل کی ہوگی کہ انسٹاگرام پر پہلی پاکستانی اے آئی سوشل میڈیا انفلیوینسر کی پروفائل لانچ کردی گئی ہے۔ 'شبنم ایکسائی (Shabnam Xai') نامی ڈیجیٹل خاتون ماڈل، مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی گئی ہے، اپنی انسٹاگرام پروفائل پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے ہی اپنی مختلف تصاویر ڈالتی ہے۔ یہ ڈیجیٹل انسان بنانے والا کون ہے؟ اس کی شناخت تو ظاہر نہیں کی گئی لیکن اس پروفائل پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے کبھی مشرقی لباس پہنے تو کبھی مغربی لباس پہنے ایک خاتون کی تصاویر ڈالی جاتی ہیں۔ اس پروفائل کے بنتے ہی ۱۰ ہزار سے زیادہ لوگوں نے اسے فالو کرلیا تھا۔
انسٹاگرام نے جسے عریاں تصاویر (Soft Porn) پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، یہ پروفائل اس وقت تو اپنے پلیٹ فارم سے نامعلوم وجوہ کی بنا پر ہٹا دی ہے۔ لیکن ڈیجیٹل انسان (Virtual Models') کا تصوّر بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کررہا ہے اور اسے آسان آمدنی کا ایک کامیاب ذریعہ سمجھا جا رہا ہے۔ ان پروفائلز پر جہاں بغیر کچھ محنت کیے مختلف کمپنیوں اور برانڈز کی تشہیر کی جاتی ہے، وہیں مختلف نظریات کو فروغ بھی دیا جاتا ہے۔
لیکن یہ صورت حال زیادہ پیچیدہ اور ہولناک اس لیے ہے کہ یہ سارا کام چند کمپیوٹر پروگرامز کے ذریعے ہورہا ہے جس کی وجہ سے بہت ہی تھوڑی محنت سے بہت سارے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً مصنوعی ذہانت سے لیس ایسے پروفائلز ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بن چکے ہیں جو نہ صرف بالکل انسان لگتے ہیں بلکہ ساتھ میں انسانوں کی طرح گفتگو بھی کرسکتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ آپ کی پروفائل کا جائزہ لے کر آپ کا نفسیاتی خاکہ بناکر آپ کی کمزوریوں اور رجحانات پر نظر بھی رکھ سکتے ہیں۔
ذرا تصور کریں کہ ایک نوخیز ذہن کو جو ابھی جوانی میں قدم رکھ رہا ہے اور نیا نیا ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کرنا شروع کرتا ہے، تو وہ ان خطرناک شکاریوں کے لیے کتنا آسان شکار ہے۔ یہ ڈیجیٹل پروفائلز اگر کسی فحش سوشل نیٹ ورک کے فروغ کے لیے بنائے گئے ہیں، تو یہ اس نوجوان کو اس کی مختلف کمزوریوں کا فائدہ اٹھاکر فحاشی کی طرف راغب کرسکتے ہیں، اور کوئی دوسرا پروفائل جو کسی منفی نظرئیے کو پھیلانے کے لیے بنایا گیا ہے اس نوجوان کو کسی نفرت پھیلانے والے نظریے کی طرف بھی بلا سکتا ہے۔
لیکن یہ کام کوئی نیا نہیں ہے۔ اب یہ کام کم خرچ میں چند سوفٹ ویرز کے ذریعے کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ کافی عرصے سے یہی کام نوجوانوں کو بھرتی کرکے کروایا جاتا رہا ہے۔ انڈیا میں بی جے پی اور مودی کے حمایتیوں نے جہاں ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نفرت انگیز ویڈیوز پھیلا کر مسلم کش فسادات کو ہوا دی ہے، تو پاکستان میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے چند سال قبل تقریباً تیرہ سو نوجوانوں کو اس کام کے لیے ملازمت پر رکھا تھا کہ وہ کے پی حکومت کا مثبت چہرہ عوام کے سامنے لانے میں مدد دیں۔
برطانیہ میں حال ہی میں پھیلنے والے مسلم مخالف مظاہروں کو سوشل میڈیا پر کیسے بڑھایا گیا؟ اس پر ایک تفصیلی خبر ڈیلی میل نے دی ہے۔ ۴؍ اگست ۲۰۲۴ء کو چھپنے والی اس رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں مسلم مخالف مظاہروں کا ایک مرکزی کردار ٹومی رابنسن ہے۔ خبر کے مطابق ایکس [سابقہ ٹویٹر] پر تقریباً ۱۰ لاکھ فالورز رکھنے والا ٹومی رابنسن جس وقت قبرص کے تفریحی مقام پر بیٹھا نفرت پھیلا رہا تھا اور ایکس پلیٹ فارم پر اس کی ایک ویڈیو کو چار کروڑ لوگ دیکھ چکے تھے، اس وقت اس کے 'سوشل میڈیا سپاہی برطانیہ میں لُوٹ مار میں لگے تھے۔ واضح رہے کہ ٹومی رابنسن کا اصلی نام کچھ اور ہے، جو کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کرنے کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے لیکن اس کو پلیٹ فارم پر اس جعل سازی کے باوجود بات کرنے کی مکمل آزادی ہے۔
ایکس پلیٹ فارم نے جہاں ایک طرف مسلم کش فسادات کو ہوا دینے کے لیے ٹومی رابنسن نامی جعلی اکاؤنٹ کو کھلی آزادی دی ہوئی ہے، وہیں اس پلیٹ فارم پر برطانوی حکومت کا ایکس اکاؤنٹ 'قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر اس وقت بند کردیا گیا جب برطانوی حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فسادات پھیلانے والی پوسٹس کو پھیلانے والوں کو گرفتار کرنے کی دھمکی دی۔
ایلون مسک اپنی منفرد حیثیت کو اپنے پلیٹ فارم پر کیسے استعمال کررہا ہے؟ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ برطانیہ میں مسلم کش فسادات کے شروع ہونے کے بعد اس نے ۲۰۱۳ء کی ایک ۱۰سال پرانی خبر کو اپنے پلیٹ فارم پر پوسٹ کیا جس کے مطابق ایک مسلمان لڑکے نے ایک برطانوی لڑکی کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ اور اس پوسٹ کو محض چند گھنٹوں میں ۵کروڑ لوگ دیکھ چکے تھے۔
اس سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ فلسطینی خبررساں ویب سائٹ ’صدا سوشل‘ (Sada Social)، جسے ’الجزیرہ‘ جیسے مؤقر ادارے مدد دیتے ہیں، کے مطابق ان سوشل نیٹ ورکس کے مختلف ملازمین اس بات کی بار بار نشاندہی کرچکے ہیں کہ واٹس ایپ، فیس بک وغیرہ نے فلسطینیوں کا مواد یا ڈیٹا اسرائیل کو دیا ہے اور اسرائیل نے اسی مواد کو استعمال کرتے ہوئے ہزاروں فلسطینیوں کو نشانہ بنایا ہے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
بعض محققین ٹومی رابنسن کا تعلق اسرائیل سے جوڑتے ہیں کیونکہ اسے جن مقدمات کا سامنا ہے ان پر ہونے والا خرچہ چند اسرائیلی تنظیمیں اٹھا رہی ہیں۔ اور ان محققین کی نظر میں ٹومی رابنسن جیسے بے شمار سوشل میڈیا انفلوینسرز اسرائیل کے حالیہ جنگی جرائم کو چھپانے اور مسلم عیسائی تعلقات کو خراب کرنے کی منظم کوششوں میں ملوث ہیں۔
اسی طرح کی ایک اور خبر دی ٹائمز نے دی ہے۔ ۶ جون ۲۰۲۴ءکو چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزارت برائے تارکین وطن (Ministry of Diaspora') نے سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کی تشہیر کرنے والی کمپنی اسٹویک (Stoic') کو دو ملین ڈالر کی ادائیگی کرکے ہزاروں کی تعداد میں جعلی سوشل میڈیا اکاونٹس بنا کر ان کے ذریعے پروپیگنڈا کرکے سوشل میڈیا پر امریکی کانگریس کے اراکین بالخصوص سیاہ فام ارکان کانگریس کو غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کے لیے دباؤ میں لینے کی کوشش کی۔ یہ جعلی اکاونٹس ہولڈر امریکی بن کر ان اراکین کانگریس سے مطالبہ کرتے کہ اسرائیل کی حمایت کرو ورنہ انجام کے لیے تیار رہو۔
ایلون مسک نے ایکس پلیٹ فارم پر جعلی خبروں اور پروفائلز کے خلاف لڑائی کے لیے جس کو رکھا ہے، وہ کوئی اور نہیں بلکہ سابق اسرائیلی جاسوس گائے ٹائٹنوچ ہے۔ ان کی ملاقات کا انتظام خود اسرائیلی وزیراعظم نے کیا۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی ان مہمات کا ایک مقصد دنیا کی ہربرائی کی جڑ اسلام کو ثابت کرنا بھی ہے۔ اور یہ صورت حال اتنی گھمبیر ہے کہ خود اسرائیلی کمپنی فیک رپورٹر(Fake Reporter' ) 'کے ملازم شاٹز کو پریشان کردیا۔ ان کے مطابق:
Framing Islam around the world as the problem is not something that our state's supposed to be involved with.It's promoting hate and promoting fear and promoting messages that, at the end of the day, I'm embarrassed by.
اسلام کو دنیا کے سامنے ایک مسئلے کے طور پر پیش کرنا کوئی ایسا کام نہیں ہے جو ہماری ریاست کو کرنا چاہیے۔ یہ سب نفرت پھیلا رہا ہے، خوف پھیلا رہا ہے اور اس طرح کے پیغامات کو پھیلانا میرے لیے باعث شرمندگی ہے۔
آخر ایلون مسک کس کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے؟ غزہ جنگ شروع ہوتے ہی ایکس پلیٹ فارم کے بانی نے اسرائیل کا دورہ کیوں کیا؟ اور کیا اسرائیلی وزیراعظم اور ایلون مسک نے ایکس پلیٹ فارم پر اسرائیلی پروپیگنڈا پھیلانے اور یورپ اور امریکا میں فلسطینیوں سے بڑھتی ہوئی ہمدردی کو دبانے کے لیے سوشل میڈیا کی مدد سے مسلم عیسائی فسادات کا کوئی خفیہ منصوبہ بنایا ہے؟ شاید دنیا اس بارے میں کبھی نہ جان پائے۔
پاکستان گذشتہ دس برسوں میں ان سوشل نیٹ ورکس کی محض ایک تجربہ گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ عوام کی اکثریت جو نہ لکھنا پڑھنا جانتی ہے اور نہ جہاں اخبار، ٹی وی اور دوسرے میڈیا تک عام رسائی تھی، اچانک اسمارٹ فون، انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورکس کی دستیابی نے کیا گل کھلائے ہیں؟ کس طرح یہ پلیٹ فارمز ایک طرف تو سنسرشپ کے تحت مختلف نظریات کا گلا گھونٹتے رہے ہیں، تو دوسری طرف اپنے من پسند نظریات کی ترویج کرنے والوں کو لامحدود رسائی دی گئی ہے۔نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ کہاں تو ریاست ففتھ جنریشن وارفئیر [Fifth Generation warfare] کے تحت اس سب کو پروان چڑھا رہی تھی، تو اب اس سب کو ڈیجیٹل دہشت گردی قرار دے کر مختلف فائروالز کے ذریعے روکنے کی کوشش کرتی نظر آرہی ہے۔ کیا پانی سر سے گزر چکا ہے یا اس انتشار کو روکنے کی کوئی صورت ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
تازہ خبروں کے مطابق حکومت پاکستان نے سوشل میڈیا کے شتربےمہار پر قابو کرنے کے لیے دوبارہ فائر وال انسٹال کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ اس سے قبل ۲۰۱۹ء میں بھی حکومت وقت نے ایک فائروال انسٹال کرکے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی تھی۔
فائر وال انٹرنیٹ پر ٹریفک کو فلٹر کرنے کا کام کرتی ہے۔ اگر کسی ویب سائٹ کو بلاک کرنا ہو تو اس کا پتہ یا URL فائروال کو بتادیا جاتا ہے اور پھر وہ ویب سائٹ اس ملک یا دفتر یا گھر جہاں بھی وہ فائر وال انسٹال ہو، کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ یہ کام تو تقریباً تمام ہی فائر والز کرلیتی ہیں۔ لیکن اگر کسی ’اپلی کیشن‘ یا ویب سائٹ کو مکمل بند نہ کرنا ہو بلکہ ان پر موجود مخصوص مواد کو ہٹانا ہو، تو اب ایسی ’فائر والز‘ بھی آگئی ہیں، جو ڈیپ پیکیٹ انسپکشن اور ایڈوانس ڈیپ پیکٹ انسپکشن ٹکنالوجی (Advanced Deep Packet Inspection)کا استعمال کرتے ہوئے کسی ایپ پر کال کو ریکارڈ کرلیتی ہیں، یا مخصوص مواد کو پڑھ کر اس مواد کو شئیر یا پھیلانے والے کا پتہ لگالیتی ہیں۔
اس قسم کی ’فائر والز‘ کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے۔ چین نے اپنے عوام کا ڈیٹا محفوظ بنانے اور مغربی ممالک تک پہنچنے سے روکنے کے لیے نہ صرف فائروال انسٹال کی ہوئی ہے، جسے ’گریٹ فائر وال آف چائینہ‘ کہا جاتا ہے، بلکہ تمام مغربی سوشل نیٹ ورکس پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔
یہ بات سمجھنے کے بعد یہاں پر بہت اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایک ایسی دنیا میں جہاں یہ دعویٰ کیا جاتا ہو کہ خدا اور کراماًکاتبین کے بعد آپ کو سب سے زیادہ یہ سوشل نیٹ ورکس جانتے ہیں، اور جہاں دنیا بھر میں موجود ہزاروں ڈیٹا سینٹرز پر دن رات چلنے والی بلامبالغہ لاکھوں کروڑوں طاقت ور مشینوں پر جمع ہونے والا یہ مواد یا ڈیٹا خدائی ذہانت یا Super Intelligence کے حصول کے لیے استعمال ہورہا ہے، کیا ایک فائر وال انسٹال کرلینا کافی ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ایک ایسی جنگ کا سامنا کررہے ہیں جو ہم بغیر لڑے ہی ہار چکے ہیں؟
جب ایک طرف تو مذہب کے ساتھ نفرت، دہشت، جنگ اور فساد کو جوڑ دیا جائے اور دوسری طرف مادیت کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہو، تو اس کا لامحالہ نتیجہ خدا اور دین بیزاری کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہی کچھ امریکا میں ہوا جہاں نو گیارہ کے بعد اسلام کے خلاف مہم کا نتیجہ امریکی معاشرے میں الحاد یا Atheism کے دوبارہ عروج کی صورت میں نکلا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا نیٹ ورکس نے اس صورت حال کو مہمیز دے کر پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں پھیلنے والی لادنیت یا الحاد کی بڑی وجہ سوشل میڈیا نیٹ ورکس ہیں۔ اس صورت حال پر برطانوی پروفیسر اسٹیفن بلیونٹ نے اپنی کتاب [غیر عیسائی امریکا کی تعمیر] یا Nonverts: The Making of Ex-Christian America میں روشنی ڈالی ہے۔ مصنف کے خیال میں امریکا میں بڑھنے والے الحاد یا Atheism اور سیکولرازم کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہیں:
Given how much more willing people are to talk about religion and politics online than they are in person, you’re therefore probably exposed to all manner of different viewpoints. Sometimes, maybe one of these makes you think differently about a political policy or religious doctrine — or even if not, it makes you a little less sure about it than you used to be.Given the sheer amount of time many people tend to spend on social media platforms, it’s not hard to imagine that the cumulative effect of all this might well be to chip away at lots of hitherto unexamined convictions. And that this, combined with other factors, might help nudge a good number further along the path away from religion — and to shove a few of them down one or another shortcut to Advance Directly to Godlessness.
کیونکہ لوگ عام زندگی کے مقابلے میں انٹرنیٹ پر مذہب اور سیاست کے بارے میں زیادہ بات کرتے ہیں، اس لیے یہاں ان کو مختلف نظریات کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ اور کبھی کبھی ایسا ہی کوئی نظریہ یا بات آپ کو اپنے اعتقادات کے بارے میں مختلف طریقے سے سوچنے پر مجبور کرسکتی ہے یا کم از کم آپ کو شک میں ضرور ڈال سکتی ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ لوگ کتنا زیادہ وقت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صرف کررہے ہیں، یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اس کا لازمی نتیجہ بہت سے کمزور عقائد سے پیچھے ہٹنے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اور اگر اسی کے ساتھ دوسرے عوامل کو شامل کرلیا جائے تو اس سب سے [لوگوں کی] بڑی تعداد کو مذہب سے دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہاں تک کہ چند لوگ تو خدا پر یقین بھی کھو سکتے ہیں۔گویا کہ کہاں تو سوشل میڈیا نیٹ ورکس ہم کو کنویں کا مینڈک بنا رہے تھے اور اب کہاں ہم خدا بیزار نسل کا ظہور انھی سوشل میڈیا نیٹ ورکس کی بدولت دیکھ رہے ہیں۔
سوشل میڈیا نیٹ ورکس اپنی دعوت کو پھیلانے کا ایک مؤثر ذریعہ بھی بن کر سامنے آئے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر فوری دستیاب معلومات کے حصول نے لوگوں کے لیے ایک دوسرے کو جاننے اور مختلف نظریات کو پڑھنے یا جاننے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔
گذشتہ دنوں امریکا میں ہونے والے الیکشن سے قبل ری پبلکن پارٹی کے قومی اجلاس میں سکھوں کی جانب سے نمائندگی کرنے والی ہرمیت ڈھلوں نے اپنی تقریر کا آغاز سکھوں کی دعا سے کر کے خبروں میں جگہ بنالی۔ تفصیلات کے مطابق سکھ ری پبلکن امیدوار کا سکھوں کے خدا ’واہ گرو‘ ' کا ذکر امریکا میں موضوعِ بحث بن گیا۔ جہاں ان کے مخالفین نے اسے عیسائی دشمنی کہا تو ان کے حمایتیوں نے اسے دو مذاہب میں محبت بڑھانے کا ذریعہ۔ لیکن جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس تقریر کے بعد اگلے تین دنوں تک گوگل سرچ انجن پر امریکا میں سب سے زیادہ تلاش کیا جانے والا لفظ 'وہی ’واہ گرو‘ بن گیا اور گوگل ٹرینڈز کے مطابق گوگل استعمال کرنے والے ہر سو میں سے ستّر افراد نے اگلے تین دنوں میں اس بارے میں جاننے کی کوشش کی۔
یہ واقعہ اسلام کی دعوت پھیلانے والوں کے لیے ایک امید اور دستیاب مواقعوں کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ کام انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر نہایت ہی غیر منظم انداز میں ہورہا ہے۔ جہاں ایک طرف بعض لوگوں نے ان پلیٹ فارمز پر اسلام کے بجائے اپنے اپنے مسالک کا جھنڈا بلند کیا ہوا ہے، وہیں سنسر شپ بھی زبردست طریقے سے آڑے آرہی ہے۔ مثلاً جب ہم نے گوگل سرچ پر 'اللہ کون ہے؟ (Who is Allah)، 'اسلام میں خدا کا تصور (God In Islam) اور 'محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کون ہیں؟ ( Who is Muhammad? ) تلاش کیا تو گوگل نے اپنے پہلے صفحے پر ہمیشہ وکی پیڈیا ، برٹانیکا جیسی ویب سائٹس کو اوپر رکھا اور مسلمانوں کی بنائی کسی بھی اسلامی ویب سائٹ کو گوگل کے پہلے صفحے پر بمشکل ہی جگہ مل پائی۔
دوسری طرف اسلام، اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق جڑے منفی سوالات کے لیے گوگل نے مغربی پروپیگنڈا ویب سائٹس کو پہلے صفحے پر پوری آزادی دی ہوئی ہے۔ یہ سوالات انگریزی زبان میں پوچھے گئے تھے لیکن دوسری زبانوں میں گوگل سرچ پر کیا صورت حال ہوگی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موضوع پر تفصیلی سوچ بچار کے بعد ایک جامع منصوبہ تشکیل دیا جائے اور اپنی دعوت کو مختلف زبانوں میں بہترین طریقے سے پیش کیا جائے۔ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا نہ صرف دفاع کیا جائے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے لایا جائے۔ اسی طرح اسلام اور عیسائیت اور مسلم اور ہندو تصادم کی صورت حال کو بھی دوستانہ اور داعیانہ رخ دے کر نفرت کو محبت سے بدلا جائے۔
میٹاورس: سوشل میڈیا نیٹ ورکس کا مستقبل؟
’میٹاورس‘ ایک ایسی مصنوعی دنیا Virtual World کوکہتے ہیں، جہاں آپ کے بجائے آپ کا کارٹون کیریکٹریا Digital Avatar آپ کی نمائندگی کرتا ہے۔ میٹاورس استعمال کرنے کے لیے آپ کو اپنی آنکھوں پر ایک ڈیجیٹل چشمہ یا Virtaul Reality Headset پہننا پڑتا ہے، جس کے بعد آپ ایک کثیرالجہتی ڈیجیٹل دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں جو حقیقی دنیا کا متبادل ہوگی۔ ابھی یہ ٹکنالوجی اپنی ابتدائی شکل میں ہے لیکن ’میٹاورس‘ کو سوشل میڈیا نیٹ ورکس کا مستقبل کہا جاتا ہے جہاں دنیا بھر سے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کاروبار سے لے کر تفریح تک سارے کام کریں گے۔
ماہرین کے خیال میں ’میٹاورس‘ کی ترقی سے ہم زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اہم تبدیلیاں دیکھیں گے، مثلاً تعلیم، گھر بیٹھے کام کرنا، سیر و تفریح وغیرہ۔ مائیکروسوفٹ نے دفاتر کو ملازمین کے لیے مزید دلچسپ بنانے کے لیے اپنی مختلف ایپس میں ’میٹاورس‘ کو شامل کیا ہے تاکہ دومختلف جگہوں پر بیٹھے لوگ زیادہ فعال طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات کرسکیں۔ لیکن ’میٹاورس‘ کا سب سے زیادہ اثر آن لائن گیمنگ پر پڑ رہا ہے۔ اور میٹاورس نے ورچول رئیلیٹی (Virtual Reality )کی مدد سے آن لائن گیمنگ کو پہلے سے زیادہ 'دلچسپ بنادیا ہے جو نوجوانوں کو ان پلیٹ فارمز پر زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کے لیے ضروری ہے۔
اگر ’میٹاورس‘ قبولِ عام حاصل کرلیتا ہے، تو اس کے اثرات ناقابلِ بیان ہوسکتے ہیں ۔ ہم نے اس مضمون کے آغاز میں جس واقعے کا ذکر کیا ہے وہ پہلا نہیں ہے۔ انڈیپنڈنٹ اخبار کی ایک خبر کے مطابق نینا جین پٹیل، جو ایک ماہر نفسیات اور محقق ہیں، کو بھی اسی قسم کے تجربے سے گزرنا پڑا، جب وہ یہ معلوم کرنے کے لیے فیس بک کے میٹاورس پلیٹ فارم پر گئیں کہ وہ پلیٹ فارم خواتین یا بچوں کے لیے کتنا محفوظ ہے۔ ان کے مطابق محض ۶۰ سیکنڈ میں ہی ان کے کارٹون کردار کو بدترین ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا، اور ان لوگوں یا کرداروں نے ان کے کردار کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔ یہ تجربہ ان کے لیے اس لیے بھی خوفناک ثابت ہوا کیونکہ انھوں نے ’ورچول ہیڈ سیٹ‘ کے ساتھ ساتھ ہاتھوں اور کلائیوں میں بھی ایسے آلات [Touch controllers and wrist straps] پہن رکھے تھے، جن کی وجہ سے جب بھی میٹاورس میں ان کے کردار کو کوئی چھوتا تو اسے وہ اپنے جسم میں محسوس کرسکتی تھیں۔ ’فیس بک‘ کو اس خبر کے بعد اپنے میٹاورس پلیٹ فارم پر ذاتی حدود یا Personal boundries کا فیچر متعارف کرانا پڑا تاکہ دو کرداروں کے درمیان کم از کم چار فٹ کا فاصلہ رہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے لیے میٹاورس کیوں ضروری ہے؟ اس موضوع پر عالمی اقتصادی فورم کے مقرر اینڈریو راس سورکن(Andrew Ross Sorkin) روشنی ڈالتے ہیں:
There's going to be people of means who are going to travel, and then there's going to be people maybe of lesser means who might actually be able to use an Oculs or a Magic Leap or some other kind of device to travel to the same place but from their own couch.
ایک طرف امرا ہوں گے جو [حقیقی] سفر کیا کریں گے جو اس سفر کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں اور دوسری طرف عام لوگ جن کے وسائل کم ہیں۔ یہ لوگ اوکلس [فیس بک کا ورچول ریلیٹی ہیڈ سیٹ Facebook Virtual Reality headset] یا میجک لیپ یا کوئی اور دوسری مشین کا استعمال کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنے صوفے پر بیٹھے سفر کیا کریں گے۔
اس سب کا نفسیاتی اثر کیا ہوگا؟ اس پر خود ہی روشنی ڈالتے ہوئے اینڈریو مزید کہتے ہیں:
But in many ways, its acually going to create even more distance between those two people that psycohologically, and I think that we've experienced this through social media, in many ways, its brought people closer in certain ways, but actually created this remarkable divide because it's even more visible.
لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر یہ سب [یعنی میٹاورس کا استعمال] ان دو طرح کے لوگوں کے درمیان ایک زیادہ وسیع نفسیاتی خلیج پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔ اور میرے خیال میں ہم یہ سب سوشل میڈیا پر دیکھ چکے ہیں جہاں ایک طرف تو یہ [سوشل میڈیا] لوگوں کوکسی طرح قریب لانے کا باعث بنا ہے، تو دوسری طرف اس نے [لوگوں کے درمیان] ایک گہری خلیج پیدا کردی ہے جو نہایت واضح ہے۔
شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کون دن بھر ہیڈسیٹ پہنے اپنے صوفے پر بیٹھے زندگی بسر کرنا پسند کرے گا؟ لیکن پریشان کن صورت حال یہ ہے کہ کمپیوٹرز اور پھر اسمارٹ فونز کی ایجاد کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان کا استعمال دوسری چیزوں کے مقابلے میں خطرناک حد تک تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق ۲۰ سال قبل دنیا بھر میں لوگ اوسطاً دو گھنٹے ان اسکرینز پر گزارتے تھے جو بڑھ کر آخری دس برسوں میں تقریباً پانچ گھنٹے اور اب تقریباً سات گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ اور نوجوان نسل تقریبا ً۹ گھنٹے اوسطاً روزانہ اپنے اسمارٹ فون پر گزارتی ہے۔
اس کا نتیجہ ہماری توجہ کے بٹ جانے کی صورت میں نکلا ہے۔ امریکی ادارہ برائے نفسیات کی ایک تحقیق کے مطابق ۲۰ سال قبل عام طور پر ایک بندہ اوسطاً ڈھائی منٹ کسی بھی ایک کام پر توجہ مرکوز رکھتا تھا۔ ۲۰۱۳ء میں توجہ کا دورانیہ [Attention span] گر کر ڈیڑھ منٹ تک رہ گیا تھا اور اب توجہ کا دورانیہ محض ۴۷ سیکنڈ رہ گیا ہے۔ اور اس میں بھی ۵۰ فی صد سے زیادہ لوگ کسی بھی کام پر ۴۰ سیکنڈ سے بھی کم توجہ مرکوز کرپاتے ہیں۔
کیلیفورنیا یونی ورسٹی کی پروفیسر گلوریا مارک نے جو اس تحقیق کی سربراہ تھیں، ایک پوڈکاسٹ جس کا موضوع تھا کہ ’ہماری توجہ کا دورانیہ کیوں کم ہورہا ہے؟‘ یا 'Why our attention spans are shrinking?' میں ان تفصیلات سے آگاہی دی۔ ان کے مطابق اس سب کا لازمی نتیجہ خرابی ٔ صحت کی صورت میں نکلا ہے۔ مثلاً بار بار ایک چیز سے دوسری چیز پر توجہ مرکوز کرنے سے تناؤ (Stress) اور بلند فشار خون کے مرض میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح ہماری نیند کا دورانیہ بھی کم ہوگیا ہے۔
اس بڑھتے ہوئے ’اسکرین ٹائم‘ (Screen Time)کا سب سے خطرناک اثر بچوں پر پڑرہا ہے۔ جو بچے زیادہ وقت ’یوٹیوب‘ اور ’گیمنگ‘ پر صرف کرتے ہیں، ان کے دماغ کی بڑھوتری نہ صرف بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے بلکہ بڑھتی عمر کے ساتھ ان کے لیے یہ سب بالکل نارمل بن جاتا ہے۔ اور ان کی اس خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت اور خود پر قابو پانے کی صلاحیت غیرمحسوس طریقے سے کم ہوجاتی ہے۔ اس صورت حال پر ایلون مسک نے والدین پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے روکیں:
I would say I would urge parents to limit the amount of social media that children are able to see. Because they're being programmed by dopamine-maximizing AI.
میں کہوں گا، [بلکہ] میں والدین پر زور دوں گا کہ وہ اپنے بچوں کے سوشل میڈیا پر صرف ہونے والے وقت کو محدود کریں کیونکہ وہ [بچے] ڈوپامین بڑھانے والی مصنوعی ذہانت کا شکار بن رہے ہیں۔
اس ضمن میں سب سے اہم کام جو والدین اور اساتذہ کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ خود کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو نہ صرف ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال کے خطرات سے آگاہی دیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی آن لائن سماجی سرگرمیوں(Online Social activities) پر مختلف ایپس کی مدد سے نظر بھی رکھیں۔
اس کام کو صرف انفرادی سطح پر ہی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل کے دین، ایمان ہی نہیں بلکہ ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کو بھی محفوظ بنایا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ جدید ’فائر والز‘ کو صرف اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈا کو روکنے کے لیے ہی استعمال نہ کرے، بلکہ اس کے ساتھ سوشل نیٹ ورکس پر پھیلی فحاشی، لادینی نظریات اور اخلاق باختہ خیالات کو روکنے کے لیے بھِی استعمال کرے۔ صورت حال کی سنگینی پر مشہور اسرائیلی دانشور نوح ہریری نے کچھ اس طرح روشنی ڈالی ہے:
I also try to take good care of my mind. Our minds were shaped back in Stone Age in a completely different situation, and environment.We are now flooded by enormous amounts of information that we cannot deal with. What the smartest people in the world have been doing in recent years is figuring out how to use these devices in order to hack our brains and press our emotional buttons. And anybody who thinks they are strong enough to resist it is just fooling themselves.It's much, much more powerful than us.So I'm not saying it's impossible to just completely disconnect from the world, but taking some time off to just detoxify the mind and to have a kind of information diet.
میں اپنے دماغ کا اچھا خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہمارے دماغ پتھر کے زمانے کے بنے ہوئے ہیں جب [آج کل کے مقابلے میں] بالکل الگ ماحول تھا۔ آج ہم کو معلومات کے ایک سیلاب کا سامنا ہے جس سے نبردآزما ہونا ہمارے بس کی بات نہیں۔ دنیا کے ذہین ترین افراد پچھلے کئی برسوں سے ان مشینوں کو ہمارے دماغوں کو قابو کرنے اور ہمارے جذبات سے کھیلنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اور جو کوئی بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس صورت حال کا مقابلہ کرسکتا ہے، اپنے آپ کو بے وقوف بنا رہا ہے۔ یہ سب ہم سے بہت زیادہ طاقت ور ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم اس [ڈیجیٹل] دنیا سے بالکل الگ ہوجائیں لیکن کچھ دیرکے لیے اس سے دُور رہنا تاکہ ہم اپنے دماغ کو ان مضر اثرات سے دُور کریں ضروری ہے۔ ساتھ ہی ہم کو اس [بے ہنگم اور بے تحاشا] معلومات سے پرہیز بھی کرنا ہوگا۔
کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایک بادشاہ کو عوام کو قابو کرنے کا ایک انوکھا طریقہ سوجھا۔ اس نے تجربے کے لیے چند بچوں کو ایک اندھیرے غار میں قید کردیا، جہاں روشنی کا کوئی گزر نہ تھا۔ غار کے بیچ میں آگ جلتی رہتی تھی اور غار کے داخلے کی جگہ پر چند غلام کھڑے پتلی تماشا دکھایا کرتے تھے جس کا عکس غار کی دیوار پر پڑتا تھا۔ وہ بچے جو اس غار میں قید تھے، ان کی دنیا اور سمجھ بوجھ بس یہی غار اور اس میں دکھایا جانے والا وہ پتلی تماشا تھا جس کا عکس وہ غار کی دیوار پر دیکھا کرتے تھے۔ آخر ایک بچے نے ہمت کی اور اس غار سے نکلنے کی کوشش کی لیکن غار سے باہر نکلتے ہی سورج کی روشنی سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں اور وہ غار میں واپس آگیا۔ اس کے تجربے کو دیکھتے ہوئے دوبارہ کسی نے اس غار سے نکلنے اور حقیقت پانے کی کوشش نہیں کی۔
افلاطون [م: ۳۴۰ ق م]نے یہ تمثیل اپنی کتاب ریاست ( 'Repulic' ) میں کوئی دوہزار سال قبل بیان کی تھی۔ لیکن اب جدید دنیا کے فلسفی سوشل میڈیا اور اس کے اثرات کو اسی تمثیل کے ذریعے بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
جس اطلاعتی دور (Information Age') کے خطرات پر کچھ عرصہ قبل محض گفتگو ہوتی تھی، وہ دور آج ہمارے سامنے ایسی آب و تاب سے آن کھڑا ہے کہ اس نے دیکھنے والی آنکھوں کو خیرہ اور سوچنے والے ذہنوں کو ماؤف کردیا ہے۔ مدہوشی کی ایک کیفیت ہے جو پوری انسانیت پر طاری ہے۔ ایک طرف راتوں رات مشہور اور جلد از جلد امیر بننے کی خواہش نے فرد، خاندان اور معاشرے کو بری طرح تقسیم کردیا ہے، تو دوسری طرف بڑھتی ہوئی لادینیت کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ نہ اس سب سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر آتا ہے اور نہ کوئی راہ فرار۔ المیہ یہ ہے کہ جس اُمت کو ’اُمت وسط‘ کا کردار ادا کرنا تھا اور جس نے دنیا کو خبردار کرنا تھا، وہ بے بسی سے اسی سیلاب میں بہتی نظر آرہی ہے۔
ہم طبقاتی کش مکش کے قائل نہیں ہیں بلکہ دراصل ہم تو طبقاتی حِس اور طبقاتی اِمتیاز کو بھی ختم کردینا چاہتے ہیں۔ ایک معاشرے میں طبقے دراصل ایک غلط نظام سے پیدا ہوتے ہیں۔ اخلاق کی خرابی ان میں امتیازات کو اُبھارتی ہے اور بے انصافی ان کے اندر طبقاتی حِس پیدا کردیتی ہے۔
ہم انسانی معاشرے کو ایک تنِ واحد کے اعضا کی طرح سمجھتے ہیں۔ جس طرح ایک جسم میں مختلف اعضا ہوتے ہیں اور جسم کے اندر ان کا مقام اور ان کا کام جدا جدا ہوتا ہے، مگر ہاتھ کی پائوں سے اور دماغ کی جگر سے کوئی لڑائی نہیں ہوتی، بلکہ جسم زندہ ہی اس طرح رہتا ہے کہ یہ سب اپنے اپنے مقام پر اپنا اپنا کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے کے مختلف اجزا بھی اپنی اپنی جگہ اپنی قابلیت و صلاحیت اور فطری استعداد کے مطابق کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ہمدرد و مددگار اور مونس و غم خوار بنیں،اور ان کے اندر طبقاتی کش مکش تو درکنار طبقاتی حِس اور طبقاتی اِمتیاز ہی پیدا نہ ہونے پائے۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہرشخص خواہ وہ اجیر ہو یا مستاجر، اپنے حقوق سے پہلے اپنے فرائض کو پہچانے اور انھیں ادا کرنے کی فکر کرے۔ افراد میں جتنا جتنا احساسِ فرض بڑھتا جائے گا، کش مکش ختم ہوتی جائے گی اور مشکلات کی پیدائش کم ہوتی چلی جائے گی۔
ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کی اخلاقی حِس بیدار کی جائے اور ’اخلاقی انسان‘ کو اس ’ظالم حیوان‘ کے ُچنگل سے چھڑایا جائے جو اس پر غالب آگیا ہے۔ اگر افراد کے اندر کا یہ ’اخلاقی انسان‘ اس غالب حیوانیت سے آزاد ہوکر ٹھیک کام کرنے لگے، تو خرابیوں کا سرچشمہ ہی سوکھتا چلا جائے گا۔ (’مزدوروں کے متعلق جماعت کی پالیسی‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۲، عدد۲، اکتوبر ۱۹۶۴ء، ص۴۰
ماضی میں اسرائیل نے ہمیشہ مختصر اور فیصلہ کن جنگیں اسرائیل میں نہیں بلکہ اپنے اردگرد محصور عرب سرزمین پر لڑی ہیں۔ آخری بار ۱۹۷۳ء کی جنگ میں عرب اتحادی فوج کو شکست دینے کے بعد سے، اسرائیل نے کبھی اپنے خلاف مؤثر عرب اتحاد کی تشکیل کی اجازت نہیں دی۔ نتیجہ یہ کہ اسے کبھی مشترکہ عرب اتحاد کی طاقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جس سے اسے متعدد محاذوں پر جنگ کا خطرہ ہو۔
۱۹۷۳ءمیں عرب اتحادی فوج کو شکست دینے کے کئی عشروں بعد، اسرائیل آج نہ صرف غیر ریاستی عناصر اور گروہوں سے بلکہ ’مزاحمت کا محور‘ (حماس) سے نبرد آزما ہے۔ اس بار اسرائیل ایک طویل جنگ لڑ رہا ہے جس کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔ غزہ میں یہ زمینی اور فضائی کارروائیاں کررہا ہے، اور لبنان میں حزب اللہ کی طرف سے شمالی سرحد پر لاحق خطرہ بھی جنگ میں ڈھل چکا ہے۔ مغربی کنارے کی کارروائیاں بھی اسرائیلی فوجیوں کو وہاں اُلجھاتی رہتی ہیں۔بیرونی طور پر شام سے آنے والے پراکسی گروپوں کا خطرہ اور ایران کے ہوائی حملوں یا یمن سے حوثیوں کی طرف سے بحیرۂ احمر میں فوجی کارروائیوں نے اسرائیل اور اس کی حلیف خلیجی ریاستوں کے مفادات سمیت اس جنگ کو بہت پیچیدہ بنادیا ہے۔
یہ پہلی بار ہے کہ اسرائیل نے اپنی سرزمین کے اندر جنگ شروع کی ہے۔ پھر وہ مختصر اور فیصلہ کن نہیں بلکہ ایک طویل جنگ لڑ رہا ہے، اور اسے متعدد خطرات کا سامنا ہے۔ اسے ایسے سیکورٹی مخمصے کا سامنا ۱۹۷۳ء میں عرب اتحاد کے خلاف جنگ کے بعد سے نہیں ہوا تھا۔
اس جنگ کی مہلک خامیاں سیاسی اور قانونی دائرے میں ہیں۔ اسرائیل جتنا زیادہ طویل فوجی جدوجہد میں اُلجھتا جائے گا، اس کے سیاسی اور قانونی مسائل میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ واضح سیاسی ہدف کے بغیر، کوئی بھی عسکری حکمت عملی اپنی اہمیت کھودیتی ہے۔ بلاشبہہ جنگ ایک سیاسی عمل ہے۔ چونکہ طاقت کا استعمال سیاسی ہے، اس لیے اسرائیلی سیاست دانوں کو جس چیز پر غورکرنے کی ضرورت ہے، وہ صرف ذرائع نہیں بلکہ انجام بھی ہے۔ غزہ کی جنگ میں سیاست کس طرح اپنا کردار ادا کر رہی ہے؟ کیا اسرائیل کی سیاسی حکمت عملی صرف غزہ میں حماس کو شکست دینے تک محدود ہے؟ کیا فوجی جبر کی یہ حکمت عملی عالمی اثرات پیدا نہیں کر رہی؟ کیا غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی پوری دنیا کو نقصان نہیں پہنچا رہی، جیسا کہ عالم گیریت کی دنیا میں تمام ریاستوں کی معیشتیں ایک دوسرے پر منحصر ہیں؟
اس جنگ میں اسرائیلی حکمت عملی سے پوری دنیا کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ابھی تک ایسا لگتا ہے کہ سیاسی مقصد صرف حماس کی عسکری قوت کا خاتمہ اور پناہ گزینوں کی واپسی نہیں ہے، بلکہ ایک وسیع تر ایجنڈے پر عمل کرنا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ دنیا اس جنگ کے لیے اسرائیل کے حقیقی مقاصد کے بارے میں اندازہ لگانے میں ناکام ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ اسرائیل کا یہ رویہ خطے میں وسیع تر تنازعے کا باعث بن سکتا ہے۔ اسرائیل کا اندازہ ہے کہ حماس کے ۳۰ ہزار جنگجو ہیں اور اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے ان میں سے تقریباً ۱۸ ہزار کو مار دیا ہے۔ اس میں جو بات واضح نہیں کی گئی وہ یہ ہے کہ حماس نے اس اسرائیلی ظلم و سفاکیت کے خلاف لڑنے کے لیے مزید کتنے لوگوں کو بھرتی کیا ہے؟ سیاسی طور پر اسرائیل کو عالمی تنہائی کا سامنا ہے اور قانونی طور پر اس کے اقدامات کو عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں چیلنج کیا گیا ہے، جس نے وزیراعظم نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دیا ہے۔ دنیا نے غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے جواز کو چیلنج کیا ہے اور اسرائیلی مسلح افواج کے پاؤں کے نیچے سے قانونی جواز کا قالین کھینچ لیا ہے۔ جنگ کو ختم کرنے کے واضح سیاسی ہدف کے بغیر اسرائیل اپنی معیشت، معاشرے، فوج اور سب سے بڑھ کر ایک قومی ریاست کے طور پر اپنی ساکھ کی بھاری قیمت چکا رہا ہے۔
غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے بارے میں سیکیورٹی کے بڑھتے ہوئے کچھ مفروضوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے:
حماس کی جگہ فلسطینی حکومت کا قیام، لبنان میں حزب اللہ کے خطرے سے نمٹنا، ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنا، اور یمن میں حوثیوں کے خطرے سے نمٹنا___ وہ تمام چیلنجز ہیں، جن کا اسرائیل کو اس کثیر محاذ جنگ میں سامنا ہے۔