اکتوبر ۲۰۲۴

فہرست مضامین

مسلم اُمہ اور اسلامی احیاء

محمد عبدالشکور | اکتوبر ۲۰۲۴ | مذاکرہ: اسلامی احیاء کا مسئلہ

Responsive image Responsive image

غزوۂ تبوک، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں نو ہجری کو ہوا۔ اس جنگ نے جزیرہ نمائے عرب سے خوف اور بے یقینی کی فضا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ اب مسلم معاشرے کو اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لیے خندقیں کھودنے اور پہاڑی درّوں میں پناہ لینے کی ضرورت نہ رہی تھی۔ مسلمانوں کے افکار، کردار اور افواج کو عرب کی سرزمین میں آگے بڑھنے کے لیے جن رکاوٹوں کا سامنا تھا، ایک ایک کر کے زمیں بوس ہونے لگیں۔

مگر صرف ایک عشرہ قبل کے حالات پر ذرا نظر دوڑائیے، جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو ظلم، جبر اور بے بسی میں اپنی جانیں گنواتے دیکھ کر یہ فرما رہے تھے: ’’صبر کرو  اے اہل یاسر! صبر کرو‘‘۔ پھر وہ لمحہ آیا، جب انھیں اور ان کے وفادار ساتھیوں کو اپنے گھر بار اور اموال چھوڑ کر پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی اور پھر خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکہ سے ہجرت کا راستہ اختیار فرمایا۔ مدینہ پہنچ کر بھی خوف کے سائے مسلمانوں کے سروں پر منڈلاتے رہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کی ساری توجہ اس مدت میں صرف اپنے دفاع پر مرکوز رہی۔ مسلمانوں کا ہر فرد سپاہی تھا اور کسی بھی جانثار کو کسی بھی وقت ڈیوٹی پر بلایا جاسکتا تھا۔

غزوۂ تبوک نے سارا منظر نامہ بدل دیا۔ اہلِ عرب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا (عین الیقین کر لیا) کہ اسلام کو اب پھیلنے، پنپنے اور نظام کی صورت میں قائم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اب اسلام کو فقط جنگجو سپاہیوں ہی کی نہیں بلکہ قانون سازوں، مالیاتی ذمہ داروں، علاقائی گورنروں، عدالتی ججوں اور فقیہوں کی بھی شدید ضرورت تھی۔ اب ان سارے تقاضوں کو پورا کرنے کا وقت آچکا تھا، جو ایک خوش گوار اور پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری تھے۔

چنانچہ غزوۂ تبوک سے واپسی کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ہدایات ’وحی‘ کی صورت میں نازل ہوئیں، اس میں یہ فرمایا گیا کہ اب ہر شخص کو جنگوں میں شریک ہونے کی ضرورت نہیں۔ مسلمان قبائل میں ایسے چنیدہ افراد باہر نکلنے چاہییں، جو اپنی خداداد صلاحیتیں اور توانائیاں اللہ کے عطا کردہ نظام زندگی کو سمجھنے، غور و فکر کرنے اور پھر اپنے اپنے علاقوں میں اس کے نفاذ کی منصوبہ بندی میں لگا دینے کے لیے تیار ہوں: لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْہِمْ  (التوبہ  ۹:۱۲۲)

چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ ان احکامات کے نزول کے فوری بعد ایک بہت ہی قلیل مدت میں نئی اسلامی ریاست کا عدالتی نظام، دفاعی نظام، مالیاتی نظام، تعلیمی نظام اور معاشی کفالت کا نظام تشکیل پا کر ادارہ جاتی شکل اختیار کرچکا تھا۔ تاریخ اس بات پر بھی گواہ ہے کہ وہ سرزمین جہاں اسکولوں، مدرسوں اور یونی ورسٹیوں کا نام و نشان تک نہ تھا، بلکہ کاغذ و قلم کی شکل بھی کم کم ہی دکھائی دیتی تھی، وہاں چند ہی برسوں میں ہر شعبۂ زندگی کے قوانین مرتب ہو گئے۔ عدالتی ججوں اور فوجی جرنیلوں کے لیے ضابطۂ اخلاق طے پا گئے۔ مالیات اور معیشت کا ایک ایسا نظام وجود میں آگیا، جس کا بنیادی ہدف محروم طبقات کی ضرورتیں پوری کرنا اور انھیں اوپر اٹھانا تھا۔ ہر شعبۂ زندگی میں شفافیت ترجیح اوّل ٹھیری اور یوں چند ہی برسوں میں ایک ایسا سماجی اور معاشرتی ڈھانچا وجود میں آگیا، جس میں رنگ، نسل، زبان اور مالی حیثیت کی بنیاد پر مراتب طے نہ ہوتے تھے بلکہ صلاحیت اور کردار اس میرٹ کی بنیاد بنے تھے۔

ہم نے یہاں پر مسلمانوں کے دورِ اوّل کا اختصار سے یہ جائزہ اس لیے پیش کیا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد اور اختیار کردہ حکمت عملی کو سمجھنے میں آسانی رہے۔ یہ حکمتِ عملی تین مراحل پر مشتمل تھی:

  • افکار و کردار کی تعمیر کا سخت جان اور صبر آزما مرحلہ
  • ظلم اور جبر کی زنجیریں توڑنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دینے کا مرحلہ
  • اُمورِ مملکت اور حُسنِ معاشرت کے اصول و قواعد سمجھنے اور اس کے لیے ماہرین اور صاحبانِ علم کی تیاری کا مرحلہ۔

 اسلامی احیاء کی جدوجہد کسی جامد فارمولے کی مرہونِ منت نہیں۔ اس کا نصب العین اور مقاصد تو ہمیشہ ایک تھے اور ایک ہی رہیں گے۔ مگر اس کی حکمت عملیاں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے پہلے بھی اور بعد میں بھی وقت، زمانے اور حالات کے اثر کے باعث مسلسل بدلتی رہی تھیں اور بدلتی رہیں گی۔ عرب کی سرزمین قبائلی طرزِزندگی پر مشتمل تھی۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا میں تشریف لائے تو اس خطے میں ایران اور روم کی طرز کی کوئی مضبوط بادشاہت موجود نہ تھی۔ ذرا سوچیے، اگر اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری رسول ایران یا روم میں بھیجا ہوتا تو کیا احیائے اسلام کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی اُس سرزمین پر بھی ایسی ہی ہوتی؟ مجھے امید ہے کہ آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ وہ پالیسی اور حکمت عملی اُسی خطے اور حالات کے مطابق ہوتی اور سرزمین عرب میں اختیار کی گئی حکمتِ عملی سے یقیناً کئی حوالوں سے مختلف ہوتی۔

قرآنِ مجید نے جہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ۲۳ سالہ جدوجہد کے خدوخال کا تفصیلی احوال ہمارے سامنے رکھا ہے، وہیں گذشتہ اَدوار کے جلیل القدر انبیا ؑ کی جدوجہد اور حکمت عملیوں کو بھی نمایاں کر کے ہمارے سامنے پیش کیا ہے، تاکہ آنے والے زمانوں کے  سوچنے سمجھنے اور اسلامی احیاء کے لیے جدوجہد کرنے والے اس روشنی سے نئی راہیں تلاش اور تراش سکیں۔ ہردور کے انسان کی یہ ضرورت رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق نظمِ زندگی کو سنوارنے کے لیے مسلسل سوچ بچار کرتا رہے، رب کے عطا کردہ شعور اور علم کی بنیاد پر معلومات اکٹھی کرتا رہے اور معاشرتی اُلجھنوں اور پیچیدگیوں کی بند گرہوں کو اپنے ربّ کے عطا کردہ  علم و بصیرت سے کھولنے کی جدوجہد کرتا رہے ۔

یہ بھی ضروری ہے کہ اسلامی احیاء کی تدابیر اختیار کرنے سے قبل وہ اس دور کے تمدنی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی احوال سے بھی پوری طرح واقف ہو۔ آج کی دنیا جیسی بھی سہی مگر   ایک ’گلوبل ویلج‘ (عالمی گائوں) بن چکی ہے۔ جس میں معلومات تک رسائی اور مادی وسائل کی دستیابی بہت آسان ہو گئی ہے۔ اب لوگوں تک بات پہنچانے کے لیے پہاڑیوں کی چوٹی پر چڑھ کر آواز لگانے کی ضرورت نہیں، صرف ’یوٹیوب‘ کی راہ داریوں پر انگلیوں کی پوریں ایک ترتیب سے دبانے سے آپ کروڑوں انسانوں تک آسانی سے اپنی بات پہنچا سکتے ہیں۔ اس بدلی ہوئی فضا اور ماحول میں اب نئی مہارتوں اور لیاقتوں سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اس گلوبل ویلج میں جہاں کروڑوں، اربوں انسان بستے ہیں، جہاں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں، جہاں سیکڑوں آزاد اور نیم آزاد مملکتیں موجود ہیں اور جہاں درجنوں بڑے بڑے مذاہب کے ماننے والے لوگ کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، وہاں کسی فرد یا افراد کے کسی گروہ کے لیے اتنی متنوع سوسائٹی کی خاطر اسلامی احیاء کی حکمت عملی مرتب کرنا کچھ آسان نہیں۔ اور نہ اس کے لیے صرف ایک حکمت عملی پر عمل کرنا ممکن ہے۔

تاہم، کچھ ایسے اہم میدانوں اور نکات کی نشاندہی ضرور ممکن ہے، جس پر پالیسی سازی کے لیے اہلِ دانش غور و فکر اور تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں۔ غور و فکر کے ان میدانوں کی نشاندہی سے قبل کچھ بنیادی معلومات بھی ضرور ہمارے پیش نظر رہنی چاہییں___ • اس وقت دنیا میں تقریباً آٹھ ارب انسان آباد ہیں، جس میں مسلمانوں کی تعداد دو ارب کے لگ بھگ ہے۔ گویا مسلمان دنیا کی کل آبادی کا ایک چوتھائی ہیں۔l• مسلم آبادی کا سب سے بڑا حصہ (۶۲کروڑ) جنوبی ایشیا (پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان وغیرہ) میں رہائش پذیر ہے۔ l•دوسرا بڑا حصہ مشرقِ وسطیٰ (عرب ممالک، مصر، ایران اور ترکی وغیرہ) کا ہے، جہاں ۴۵ کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ l•تیسرا حصہ مشرقِ بعید (انڈونیشیا، ملائشیا وغیرہ) ہے جہاں ۲۵ کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ l•چوتھا بڑا حصہ وسطی ایشیائی ملک (ازبکستان، تاجکستان، قازقستان، ترکمانستان وغیرہ) ہیں، جہاں سات کروڑ مسلمان رہائش پذیر ہیں اور l•پانچواں بڑا حصہ یورپ اور شمالی امریکا کاہے، جہاں چھ کروڑ مسلمان آباد کار پچھلی صدی کے آخر اور موجودہ صدی میں جا کر آباد ہوئے ہیں۔ • l•مسلم اقلیتی ممالک میں چین، روس اور    برما وغیرہ ایسے ممالک ہیں جہاں مسلم اقلیتوں کو بہت ہی محدود مذہبی رسومات و عبادات کی سہولت میسر ہے۔ جہاں دین اسلام کی تبلیغ، لٹریچر کی اشاعت اور دیگر سرگرمیوں کی اجازت نہیں۔ البتہ یورپ، شمالی امریکا اور آسٹریلیا میں وہاں کے رائج نظام کے باعث مذہبی سرگرمیوں، عبادت گاہوں کی تعمیر، لٹریچر کی اشاعت اور اجتماعات کی آزادی موجود ہے، جس سے مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق پورا پورا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔

  • مسلم اکثریتی ممالک میں زیادہ تر بادشاہتوں یا فوجی حکمرانوں کا براہِ راست یا بالواسطہ راج قائم ہے۔ انسانی حقوق، اخلاقی قدریں اور معاشرتی آزادیاں سب ہی حکمرانوں کی مرہونِ مِنت ہیں۔ چند مسلم ممالک میں جمہوری گرد و غبار کے جھونکے کبھی کبھی حبس زدہ سوسائٹی میں ہلچل پیدا کرتے رہتے ہیں۔ علمی و تہذیبی ترقی، آسیب زدہ درخت کی مانند ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہاں کا باشعور طبقہ نقل مکانی اختیار کر کے مغربی دنیا میں جانے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
  • مسلم اکثریتی ممالک میں گذشتہ صدی کے مسلم مشاہیر (پاک و ہند کے علامہ اقبال اور سیّدمودودی، مصر کے حسن البنا، مغربی افریقہ کے مالک بن نبی، ایران کے علی شریعتی اور ترکی کے سعید نورسی اور اس طرح کے دیگر زعماء) کے گہرے علمی، فکری اور تحریکی اثرات نہ صرف پوری طرح موجود ہیں بلکہ ان کے افکار کی بنیاد پر معاشرے میں برپا ہونے والی اونچی نیچی لہریں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔ ان مشاہیر کے افکار، اب صرف اکثریتی مسلم معاشروں کا ورثہ ہی نہیں بلکہ مغربی دنیا کے آزاد معاشروں کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ اس الجھی الجھی، بکھری بکھری اور سہمی سہمی مسلم معاشرت میں اسلامی احیاء کے کام کے لیے چار زون بنائے جا سکتے ہیں:

            ۱-         وہ مسلم اکثریتی ممالک جہاں تحریر و تقریر اور ادارہ سازی کی آزادیاں میسر ہیں۔ وہاں کی احیائی تحریکیں، مزاحمتی سیاست کے ساتھ ساتھ، ایسی طویل مدتی منصوبہ بندی کر سکتی ہیں، جہاں جان دار علمی اور تحقیقی کام کے لیے مؤثر ادارے وجود میں آئیں، تاکہ ایسے ماہرین کی تیاری کا کام ہوسکے، جو منصوبہ سازی پر گہرےاثرات مرتب کر سکیں (پاکستان، بنگلہ دیش، ترکی، ملائشیا، انڈونیشیا، ایران وغیرہ کی سرزمینیں اس کام کے لیے موزوں ہیں)۔

            ۲-         وہ مسلم اکثریتی ممالک جہاں جبر نے اپنے مضبوط پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ وہاں کے ہزاروں باشعور نوجوانوں کو آزاد ملکوں کے با مقصد سفر پر آمادہ کیا جائے تاکہ وہ وہاں پہنچ کر علم اور مہارتیں سیکھ سکیں اور مستقبل میں اپنے ممالک میں آنے والی تبدیلیوں سے پہلے خاصی بڑی تعداد میں متبادل ٹیم کا کردار ادا کر سکیں (بیش تر عرب مملکتیں،مصر اور افریقی ریاستیں)۔

             ۳-        وہ اقلیتی مسلم ممالک جہاں جمہوری اور انسانی قدریں مقابلتاً بہت بہتر ہیں۔ وہاں موجود احیائی تحریکیں ان ممالک کو اپنا گھر سمجھیں۔ بے شمار معاشرتی اُلجھنوں کے باوجود، وہ ان معاشروں کو اپنا خیر خواہ اور اپنے آپ کو ان کا خیر خواہ بنانے کی کوشش کریں۔ ٹکراؤ کی پالیسی سے بچیں، سیرت کے پیغام اور دین کی دعوت کو عام کریں۔ اپنے بچوں اور خاندانوں کے ذریعے ان معاشروں کو کچھ دینے والے بنیں، محض معاشی مفاد سمیٹنے والے بن کر نہ رہ جائیں۔ سائنسی ورثے اور ٹکنالوجی کو اپنانے کے لیے اپنے بچوں کو تیار کریں (امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی ممالک)۔

            ۴-         وہ اقلیتی مسلم ممالک جہاں جبر کی فضا ہے۔ وہاں کے لیے پالیسیاں مرتب کرنا شاید سب سے دشوار کام ہوگا۔ مگر ذرائع ابلاغ کے تیز تر نیٹ ورک کے ذریعے وہاں کے لوگوں تک ان کی مقامی زبان میں پیغام رسانی اور دعوت کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کے اقدامات کرنا، دین کے بنیادی لٹریچر اور معلومات کو ان تک پہنچانا، شاید اُن کے لیے ایک اچھی حکمت عملی ہو۔

آج سے تقریباً دس سال قبل ہم تین لوگ (ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن صدر الخدمت فاؤنڈیشن، پروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق، پشاور میڈیکل کالج کے پرنسپل، اور راقم) دوحہ ،قطر میں علّامہ محمد یوسف القرضاوی مرحوم و مغفور کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر نجیب الحق نے علامہ القرضاوی سے پوچھا:’’شیخ آپ سے رہنمائی درکار ہے۔ آج کی اسلامی تحریکوں کی ترجیحات کیا ہونی چاہییں؟‘‘۔

علّامہ محمد یوسف القرضاوی نے بے ساختہ جواب دیا:’’مسلم اکثریتی خطوں میں علم کا فروغ اور مسلم اقلیتی ممالک میں دعوتِ دین‘‘ اور ہم تینوں، تشنگانِ علم، اس جملے کے معنی و مطالب سے دیر تک سیر ہونے کی کوشش کرتے رہے۔

علامہ القرضاوی کے نزدیک علم کے فروغ کا مطلب یقیناً شرح خواندگی میں اضافہ نہ تھا بلکہ دینی رہنمائی سے سرشار کرتے ہوئے علم کے مراکز کو ایم آئی ٹی اور ہارورڈ، کیمبرج اور اوکسفرڈ سے بخارا اور سمرقند، بغداد، قاہرہ، استنبول اور جکارتا، ڈھاکا، لاہور میں منتقل کرنے کی جدوجہد سے تھا۔ دعوتِ دین بھی ایسی، جیسے کسی فوج کشی کے بغیر (محض کردار کے زور پر) مشرقِ بعید (ملائیشیا اور انڈونیشیا یا بنگال) کی سرزمین کو بدل دیا گیا تھا۔ یہ دونوں کام آسان نہیں، مگر علّامہ القرضاوی کی دُوراندیش نگاہوں نے رہنمائی کا حق ادا کردیا۔ اسلامی تحریکیں اس کے عملی تقاضوں پر غور و فکر کریں اور اس طرح کا بنیادی ڈھانچا استوار کرنے کا آغاز کر لیں تو یہ ایک شان دار پیش رفت ہوگی۔