محمد عبدالشکور


غزوۂ تبوک، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں نو ہجری کو ہوا۔ اس جنگ نے جزیرہ نمائے عرب سے خوف اور بے یقینی کی فضا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ اب مسلم معاشرے کو اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لیے خندقیں کھودنے اور پہاڑی درّوں میں پناہ لینے کی ضرورت نہ رہی تھی۔ مسلمانوں کے افکار، کردار اور افواج کو عرب کی سرزمین میں آگے بڑھنے کے لیے جن رکاوٹوں کا سامنا تھا، ایک ایک کر کے زمیں بوس ہونے لگیں۔

مگر صرف ایک عشرہ قبل کے حالات پر ذرا نظر دوڑائیے، جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو ظلم، جبر اور بے بسی میں اپنی جانیں گنواتے دیکھ کر یہ فرما رہے تھے: ’’صبر کرو  اے اہل یاسر! صبر کرو‘‘۔ پھر وہ لمحہ آیا، جب انھیں اور ان کے وفادار ساتھیوں کو اپنے گھر بار اور اموال چھوڑ کر پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی اور پھر خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکہ سے ہجرت کا راستہ اختیار فرمایا۔ مدینہ پہنچ کر بھی خوف کے سائے مسلمانوں کے سروں پر منڈلاتے رہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کی ساری توجہ اس مدت میں صرف اپنے دفاع پر مرکوز رہی۔ مسلمانوں کا ہر فرد سپاہی تھا اور کسی بھی جانثار کو کسی بھی وقت ڈیوٹی پر بلایا جاسکتا تھا۔

غزوۂ تبوک نے سارا منظر نامہ بدل دیا۔ اہلِ عرب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا (عین الیقین کر لیا) کہ اسلام کو اب پھیلنے، پنپنے اور نظام کی صورت میں قائم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اب اسلام کو فقط جنگجو سپاہیوں ہی کی نہیں بلکہ قانون سازوں، مالیاتی ذمہ داروں، علاقائی گورنروں، عدالتی ججوں اور فقیہوں کی بھی شدید ضرورت تھی۔ اب ان سارے تقاضوں کو پورا کرنے کا وقت آچکا تھا، جو ایک خوش گوار اور پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری تھے۔

چنانچہ غزوۂ تبوک سے واپسی کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ہدایات ’وحی‘ کی صورت میں نازل ہوئیں، اس میں یہ فرمایا گیا کہ اب ہر شخص کو جنگوں میں شریک ہونے کی ضرورت نہیں۔ مسلمان قبائل میں ایسے چنیدہ افراد باہر نکلنے چاہییں، جو اپنی خداداد صلاحیتیں اور توانائیاں اللہ کے عطا کردہ نظام زندگی کو سمجھنے، غور و فکر کرنے اور پھر اپنے اپنے علاقوں میں اس کے نفاذ کی منصوبہ بندی میں لگا دینے کے لیے تیار ہوں: لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْہِمْ  (التوبہ  ۹:۱۲۲)

چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ ان احکامات کے نزول کے فوری بعد ایک بہت ہی قلیل مدت میں نئی اسلامی ریاست کا عدالتی نظام، دفاعی نظام، مالیاتی نظام، تعلیمی نظام اور معاشی کفالت کا نظام تشکیل پا کر ادارہ جاتی شکل اختیار کرچکا تھا۔ تاریخ اس بات پر بھی گواہ ہے کہ وہ سرزمین جہاں اسکولوں، مدرسوں اور یونی ورسٹیوں کا نام و نشان تک نہ تھا، بلکہ کاغذ و قلم کی شکل بھی کم کم ہی دکھائی دیتی تھی، وہاں چند ہی برسوں میں ہر شعبۂ زندگی کے قوانین مرتب ہو گئے۔ عدالتی ججوں اور فوجی جرنیلوں کے لیے ضابطۂ اخلاق طے پا گئے۔ مالیات اور معیشت کا ایک ایسا نظام وجود میں آگیا، جس کا بنیادی ہدف محروم طبقات کی ضرورتیں پوری کرنا اور انھیں اوپر اٹھانا تھا۔ ہر شعبۂ زندگی میں شفافیت ترجیح اوّل ٹھیری اور یوں چند ہی برسوں میں ایک ایسا سماجی اور معاشرتی ڈھانچا وجود میں آگیا، جس میں رنگ، نسل، زبان اور مالی حیثیت کی بنیاد پر مراتب طے نہ ہوتے تھے بلکہ صلاحیت اور کردار اس میرٹ کی بنیاد بنے تھے۔

ہم نے یہاں پر مسلمانوں کے دورِ اوّل کا اختصار سے یہ جائزہ اس لیے پیش کیا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد اور اختیار کردہ حکمت عملی کو سمجھنے میں آسانی رہے۔ یہ حکمتِ عملی تین مراحل پر مشتمل تھی:

  • افکار و کردار کی تعمیر کا سخت جان اور صبر آزما مرحلہ
  • ظلم اور جبر کی زنجیریں توڑنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دینے کا مرحلہ
  • اُمورِ مملکت اور حُسنِ معاشرت کے اصول و قواعد سمجھنے اور اس کے لیے ماہرین اور صاحبانِ علم کی تیاری کا مرحلہ۔

 اسلامی احیاء کی جدوجہد کسی جامد فارمولے کی مرہونِ منت نہیں۔ اس کا نصب العین اور مقاصد تو ہمیشہ ایک تھے اور ایک ہی رہیں گے۔ مگر اس کی حکمت عملیاں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے پہلے بھی اور بعد میں بھی وقت، زمانے اور حالات کے اثر کے باعث مسلسل بدلتی رہی تھیں اور بدلتی رہیں گی۔ عرب کی سرزمین قبائلی طرزِزندگی پر مشتمل تھی۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا میں تشریف لائے تو اس خطے میں ایران اور روم کی طرز کی کوئی مضبوط بادشاہت موجود نہ تھی۔ ذرا سوچیے، اگر اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری رسول ایران یا روم میں بھیجا ہوتا تو کیا احیائے اسلام کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی اُس سرزمین پر بھی ایسی ہی ہوتی؟ مجھے امید ہے کہ آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ وہ پالیسی اور حکمت عملی اُسی خطے اور حالات کے مطابق ہوتی اور سرزمین عرب میں اختیار کی گئی حکمتِ عملی سے یقیناً کئی حوالوں سے مختلف ہوتی۔

قرآنِ مجید نے جہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ۲۳ سالہ جدوجہد کے خدوخال کا تفصیلی احوال ہمارے سامنے رکھا ہے، وہیں گذشتہ اَدوار کے جلیل القدر انبیا ؑ کی جدوجہد اور حکمت عملیوں کو بھی نمایاں کر کے ہمارے سامنے پیش کیا ہے، تاکہ آنے والے زمانوں کے  سوچنے سمجھنے اور اسلامی احیاء کے لیے جدوجہد کرنے والے اس روشنی سے نئی راہیں تلاش اور تراش سکیں۔ ہردور کے انسان کی یہ ضرورت رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق نظمِ زندگی کو سنوارنے کے لیے مسلسل سوچ بچار کرتا رہے، رب کے عطا کردہ شعور اور علم کی بنیاد پر معلومات اکٹھی کرتا رہے اور معاشرتی اُلجھنوں اور پیچیدگیوں کی بند گرہوں کو اپنے ربّ کے عطا کردہ  علم و بصیرت سے کھولنے کی جدوجہد کرتا رہے ۔

یہ بھی ضروری ہے کہ اسلامی احیاء کی تدابیر اختیار کرنے سے قبل وہ اس دور کے تمدنی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی احوال سے بھی پوری طرح واقف ہو۔ آج کی دنیا جیسی بھی سہی مگر   ایک ’گلوبل ویلج‘ (عالمی گائوں) بن چکی ہے۔ جس میں معلومات تک رسائی اور مادی وسائل کی دستیابی بہت آسان ہو گئی ہے۔ اب لوگوں تک بات پہنچانے کے لیے پہاڑیوں کی چوٹی پر چڑھ کر آواز لگانے کی ضرورت نہیں، صرف ’یوٹیوب‘ کی راہ داریوں پر انگلیوں کی پوریں ایک ترتیب سے دبانے سے آپ کروڑوں انسانوں تک آسانی سے اپنی بات پہنچا سکتے ہیں۔ اس بدلی ہوئی فضا اور ماحول میں اب نئی مہارتوں اور لیاقتوں سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اس گلوبل ویلج میں جہاں کروڑوں، اربوں انسان بستے ہیں، جہاں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں، جہاں سیکڑوں آزاد اور نیم آزاد مملکتیں موجود ہیں اور جہاں درجنوں بڑے بڑے مذاہب کے ماننے والے لوگ کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، وہاں کسی فرد یا افراد کے کسی گروہ کے لیے اتنی متنوع سوسائٹی کی خاطر اسلامی احیاء کی حکمت عملی مرتب کرنا کچھ آسان نہیں۔ اور نہ اس کے لیے صرف ایک حکمت عملی پر عمل کرنا ممکن ہے۔

تاہم، کچھ ایسے اہم میدانوں اور نکات کی نشاندہی ضرور ممکن ہے، جس پر پالیسی سازی کے لیے اہلِ دانش غور و فکر اور تبادلۂ خیال کر سکتے ہیں۔ غور و فکر کے ان میدانوں کی نشاندہی سے قبل کچھ بنیادی معلومات بھی ضرور ہمارے پیش نظر رہنی چاہییں___ • اس وقت دنیا میں تقریباً آٹھ ارب انسان آباد ہیں، جس میں مسلمانوں کی تعداد دو ارب کے لگ بھگ ہے۔ گویا مسلمان دنیا کی کل آبادی کا ایک چوتھائی ہیں۔l• مسلم آبادی کا سب سے بڑا حصہ (۶۲کروڑ) جنوبی ایشیا (پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان وغیرہ) میں رہائش پذیر ہے۔ l•دوسرا بڑا حصہ مشرقِ وسطیٰ (عرب ممالک، مصر، ایران اور ترکی وغیرہ) کا ہے، جہاں ۴۵ کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ l•تیسرا حصہ مشرقِ بعید (انڈونیشیا، ملائشیا وغیرہ) ہے جہاں ۲۵ کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ l•چوتھا بڑا حصہ وسطی ایشیائی ملک (ازبکستان، تاجکستان، قازقستان، ترکمانستان وغیرہ) ہیں، جہاں سات کروڑ مسلمان رہائش پذیر ہیں اور l•پانچواں بڑا حصہ یورپ اور شمالی امریکا کاہے، جہاں چھ کروڑ مسلمان آباد کار پچھلی صدی کے آخر اور موجودہ صدی میں جا کر آباد ہوئے ہیں۔ • l•مسلم اقلیتی ممالک میں چین، روس اور    برما وغیرہ ایسے ممالک ہیں جہاں مسلم اقلیتوں کو بہت ہی محدود مذہبی رسومات و عبادات کی سہولت میسر ہے۔ جہاں دین اسلام کی تبلیغ، لٹریچر کی اشاعت اور دیگر سرگرمیوں کی اجازت نہیں۔ البتہ یورپ، شمالی امریکا اور آسٹریلیا میں وہاں کے رائج نظام کے باعث مذہبی سرگرمیوں، عبادت گاہوں کی تعمیر، لٹریچر کی اشاعت اور اجتماعات کی آزادی موجود ہے، جس سے مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق پورا پورا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔

  • مسلم اکثریتی ممالک میں زیادہ تر بادشاہتوں یا فوجی حکمرانوں کا براہِ راست یا بالواسطہ راج قائم ہے۔ انسانی حقوق، اخلاقی قدریں اور معاشرتی آزادیاں سب ہی حکمرانوں کی مرہونِ مِنت ہیں۔ چند مسلم ممالک میں جمہوری گرد و غبار کے جھونکے کبھی کبھی حبس زدہ سوسائٹی میں ہلچل پیدا کرتے رہتے ہیں۔ علمی و تہذیبی ترقی، آسیب زدہ درخت کی مانند ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہاں کا باشعور طبقہ نقل مکانی اختیار کر کے مغربی دنیا میں جانے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
  • مسلم اکثریتی ممالک میں گذشتہ صدی کے مسلم مشاہیر (پاک و ہند کے علامہ اقبال اور سیّدمودودی، مصر کے حسن البنا، مغربی افریقہ کے مالک بن نبی، ایران کے علی شریعتی اور ترکی کے سعید نورسی اور اس طرح کے دیگر زعماء) کے گہرے علمی، فکری اور تحریکی اثرات نہ صرف پوری طرح موجود ہیں بلکہ ان کے افکار کی بنیاد پر معاشرے میں برپا ہونے والی اونچی نیچی لہریں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔ ان مشاہیر کے افکار، اب صرف اکثریتی مسلم معاشروں کا ورثہ ہی نہیں بلکہ مغربی دنیا کے آزاد معاشروں کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ اس الجھی الجھی، بکھری بکھری اور سہمی سہمی مسلم معاشرت میں اسلامی احیاء کے کام کے لیے چار زون بنائے جا سکتے ہیں:

            ۱-         وہ مسلم اکثریتی ممالک جہاں تحریر و تقریر اور ادارہ سازی کی آزادیاں میسر ہیں۔ وہاں کی احیائی تحریکیں، مزاحمتی سیاست کے ساتھ ساتھ، ایسی طویل مدتی منصوبہ بندی کر سکتی ہیں، جہاں جان دار علمی اور تحقیقی کام کے لیے مؤثر ادارے وجود میں آئیں، تاکہ ایسے ماہرین کی تیاری کا کام ہوسکے، جو منصوبہ سازی پر گہرےاثرات مرتب کر سکیں (پاکستان، بنگلہ دیش، ترکی، ملائشیا، انڈونیشیا، ایران وغیرہ کی سرزمینیں اس کام کے لیے موزوں ہیں)۔

            ۲-         وہ مسلم اکثریتی ممالک جہاں جبر نے اپنے مضبوط پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ وہاں کے ہزاروں باشعور نوجوانوں کو آزاد ملکوں کے با مقصد سفر پر آمادہ کیا جائے تاکہ وہ وہاں پہنچ کر علم اور مہارتیں سیکھ سکیں اور مستقبل میں اپنے ممالک میں آنے والی تبدیلیوں سے پہلے خاصی بڑی تعداد میں متبادل ٹیم کا کردار ادا کر سکیں (بیش تر عرب مملکتیں،مصر اور افریقی ریاستیں)۔

             ۳-        وہ اقلیتی مسلم ممالک جہاں جمہوری اور انسانی قدریں مقابلتاً بہت بہتر ہیں۔ وہاں موجود احیائی تحریکیں ان ممالک کو اپنا گھر سمجھیں۔ بے شمار معاشرتی اُلجھنوں کے باوجود، وہ ان معاشروں کو اپنا خیر خواہ اور اپنے آپ کو ان کا خیر خواہ بنانے کی کوشش کریں۔ ٹکراؤ کی پالیسی سے بچیں، سیرت کے پیغام اور دین کی دعوت کو عام کریں۔ اپنے بچوں اور خاندانوں کے ذریعے ان معاشروں کو کچھ دینے والے بنیں، محض معاشی مفاد سمیٹنے والے بن کر نہ رہ جائیں۔ سائنسی ورثے اور ٹکنالوجی کو اپنانے کے لیے اپنے بچوں کو تیار کریں (امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی ممالک)۔

            ۴-         وہ اقلیتی مسلم ممالک جہاں جبر کی فضا ہے۔ وہاں کے لیے پالیسیاں مرتب کرنا شاید سب سے دشوار کام ہوگا۔ مگر ذرائع ابلاغ کے تیز تر نیٹ ورک کے ذریعے وہاں کے لوگوں تک ان کی مقامی زبان میں پیغام رسانی اور دعوت کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کے اقدامات کرنا، دین کے بنیادی لٹریچر اور معلومات کو ان تک پہنچانا، شاید اُن کے لیے ایک اچھی حکمت عملی ہو۔

آج سے تقریباً دس سال قبل ہم تین لوگ (ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن صدر الخدمت فاؤنڈیشن، پروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق، پشاور میڈیکل کالج کے پرنسپل، اور راقم) دوحہ ،قطر میں علّامہ محمد یوسف القرضاوی مرحوم و مغفور کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر نجیب الحق نے علامہ القرضاوی سے پوچھا:’’شیخ آپ سے رہنمائی درکار ہے۔ آج کی اسلامی تحریکوں کی ترجیحات کیا ہونی چاہییں؟‘‘۔

علّامہ محمد یوسف القرضاوی نے بے ساختہ جواب دیا:’’مسلم اکثریتی خطوں میں علم کا فروغ اور مسلم اقلیتی ممالک میں دعوتِ دین‘‘ اور ہم تینوں، تشنگانِ علم، اس جملے کے معنی و مطالب سے دیر تک سیر ہونے کی کوشش کرتے رہے۔

علامہ القرضاوی کے نزدیک علم کے فروغ کا مطلب یقیناً شرح خواندگی میں اضافہ نہ تھا بلکہ دینی رہنمائی سے سرشار کرتے ہوئے علم کے مراکز کو ایم آئی ٹی اور ہارورڈ، کیمبرج اور اوکسفرڈ سے بخارا اور سمرقند، بغداد، قاہرہ، استنبول اور جکارتا، ڈھاکا، لاہور میں منتقل کرنے کی جدوجہد سے تھا۔ دعوتِ دین بھی ایسی، جیسے کسی فوج کشی کے بغیر (محض کردار کے زور پر) مشرقِ بعید (ملائیشیا اور انڈونیشیا یا بنگال) کی سرزمین کو بدل دیا گیا تھا۔ یہ دونوں کام آسان نہیں، مگر علّامہ القرضاوی کی دُوراندیش نگاہوں نے رہنمائی کا حق ادا کردیا۔ اسلامی تحریکیں اس کے عملی تقاضوں پر غور و فکر کریں اور اس طرح کا بنیادی ڈھانچا استوار کرنے کا آغاز کر لیں تو یہ ایک شان دار پیش رفت ہوگی۔

نائن الیون کے سازشی پس منظر میں‘ یہودی دانش وروں کی رہنمائی میں امریکی استعمار نے مسلم دنیا کو کچلنے کے لیے جارحیت کا جو پروگرام مرتب کیا ہے‘ اس کے تین اہداف ہیں:

  • مسلم دنیا (خاص طور پر شرق اوسط) کے معدنی وسائل پر براہِ راست قبضہ کیا جائے۔
  • مسلم دنیا کی عسکری اور سیاسی قوت کو کچلا جائے تاکہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے۔
  • مسلم دنیا کے سماجی‘ سیاسی اور جہادی دھاروں میں اُبھرتی ہوئی بیداری کی لہر کو روکا جائے اور اس کی جگہ مغربی طرزِ زندگی کی ترویج کی جائے۔

امریکی انتظامیہ ‘ ان کے تھنک ٹینکوں اور ان کی پروپیگنڈا مشینری نے اپنے اہداف کے بارے میں کبھی کوئی ابہام نہیں چھوڑا۔ اپنے ان اہداف اور مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے اربوں اور کھربوں ڈالر کے بجٹ سے عسکری اور ثقافتی محاذ پر انتہائی خطرناک اسلحے کے ساتھ بڑی بے رحمی اور سنگ دلی سے جارحیت کا آغاز کیا ہے اور برسوں تک اس جنگ کو جاری رکھنے کا عزم لیے وہ مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں۔

عسکری محاذ پر انھوں نے افغانستان اور عراق جیسے مسلمان ملکوں پر اپنے تباہ کن ہتھیاروں سے اتنا بارود برسایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پہاڑ‘ بستیاں اور شہر کھنڈر بن گئے۔ لاکھوں عورتیں‘ معصوم بچے اور بوڑھے جل بھن کر اس طرح کوئلہ ہوگئے کہ انھیں پہچاننا اور دفن کرنا بھی ممکن نہ رہا۔ پھر انھوں نے تباہیوں کے یہ مناظر دکھا دکھا کر باقی مسلمان ممالک کو خوفزدہ کیا اور اپنے سامنے جھکنے اور اپنی ہی شرائط پر اطاعت قبول کرنے پر آمادہ کرلیا۔ پاکستان‘ لیبیا‘ سعودی عرب‘ ایران اور پھر شام ’’چاہتے یا نہ چاہتے‘‘ ہوئے باری باری جھکتے چلے گئے اور یہ سمجھنے لگے کہ شاید یوں جھکنے سے انھیں نجات مل جائے گی۔

قوت کے زور پر قبضہ جما لینے کے بعد مسلم ممالک کی تہذیب و تمدن‘ اخلاق و اقدار اور  شرم و حیا کے پیمانوں کو توڑ پھوڑ کر انھیں مغربی معاشرت کی اخلاق باختہ سوسائٹی میں بدل دینا ان کا اگلا ہدف ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ عورت کو جنسِ بازار بنا دیا جائے۔ موسیقی و شراب کو اتنا عام کر دیا جائے کہ ایمان و حیا منہ چھپاتے پھریں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ذرائع ابلاغ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے بے شمار چینلوں کو مسلم ممالک میں عام کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم اور خواتین کے محاذوں کو اپنا خصوصی ہدف بنایا ہے۔

تعلیم کے محاذ پر وہ مسلم دنیا کے نظام ہاے تعلیم میں سے قرآن‘ جہاد اور اسلامی تعلیمات کو کھرچ کھرچ کر نکالنا چاہتے ہیں اور مشاہیر اسلام اور مسلم فاتحین کے تذکروں اور کارناموں کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سائنس اور عمرانیات میں ایسے مضامین کو لانا چاہتے ہیں جس میں خدا کا تصور تک موجود نہ ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’بھلا سائنس اور قرآن کا باہم کیا تعلق‘‘۔ اُردو میں اسلامیات کیوں ہو۔ وہ معاشرے میں روشن خیالی لانے کے لیے فنِ موسیقی اور رقص کو متعارف کروانا چاہتے ہیں اور تعلیم کی ہر سطح پر مخلوط انتظامات ان کی کوششوں کا محور ہیں۔ اس غرض سے انھوں نے پاکستان اور بعض دیگر ممالک میں آغا خان یونی ورسٹی بورڈ کو بھاری مالی امداد دے کر انتظامی اور عدالتی دسترس سے ماورا رہنے کے اجازت نامے لے کر دیے ہیں اور یوں اس نظام کو متعارف کرانے کی بنیاد رکھ دی ہے۔

خواتین کے محاذ پر امریکیوں نے روشن خیال اور ترقی پسند خواتین انجمنوں (این جی اوز) کے لیے اپنی خطیر رقوم کے منہ کھول دیے ہیں۔ ان کو یہ ڈیوٹی دی گئی ہے کہ وہ مسلم معاشروں سے ایسے واقعات کو چن چن کر تشہیر دیں جن میں اخلاقی حدود کو پامال کر کے گھروں سے بھاگ جانے والوں اور والیوں کو معاشرے کے ’’جرأت مند‘‘ افراد اور ان کے کارناموں کو قابلِ تقلید مثال کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ چنانچہ یہ انجمنیں معاشرے کے ان بدقسمت افراد اور ان کے گھروالوں کو سہارا یا رہنمائی فراہم کرنے اور انھیں دوبارہ پرسکون زندگی کی طرف لوٹانے کے بجاے مشتعل کرکے معاشرتی اقدار سے ٹکرا جانے پر اُبھارتی رہتی ہیں۔

پاکستانی حکومت نے چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے جب امریکی عزائم کے سامنے جھکنے کا فیصلہ کرلیا تو امریکیوں کے لیے آسان تر ہوگیا کہ وہ حکومتی سطح پر پاکستان سے ’’فراخ دلانہ‘‘ تعاون وصول کریں اور تعلیمی محاذ کے ساتھ ساتھ خواتین کے محاذ پر بھی اپنی من مانی کارروائیوں کا آغاز کردیں۔ چنانچہ ان دونوں محاذوں پر سرمایہ کی بے پناہ فراوانی کے ساتھ کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اس کی تفصیلات بتانے کی اس لیے چنداں ضرورت نہیں کہ اس حوالے سے چونکا دینے والی بے شمار معلومات اخبارات و جرائد میں وقفے وقفے سے شائع ہوتی رہتی ہیں۔

اس وقت ہمارا موضوع دراصل خواتین کے محاذ پر کی جانے والی اس ثقافتی یلغار اور اس کے آگے بند باندھنے کی منصوبہ بندی سے متعلق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی سامراج کو سرمائے‘ ٹکنالوجی اور پروپیگنڈے کے میدان میں ہم پر برتری اور سبقت حاصل ہے۔ تاہم یہ بات ہمارے حق میں جاتی ہے کہ ہم اپنے ’’ہوم گرائونڈ‘‘ میں بیرونی ٹیم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اگر بہتر تیاری‘ اچھی منصوبہ بندی‘ اعلیٰ مہارت اور اللہ تعالیٰ پر توکل کے سہارے میدان میں اترا جائے تو جیت کے شاندار امکانات اور مواقع پوری طرح موجود ہیں۔

اس جنگ میں یہ بات بھی پیش نظر رکھنے کی ہے کہ ہمارے رسوم و رواج میں اور ہماری معاشرتی اقدار میں ہر چیز اسلامی نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اس میں جاہلیت پر مبنی بے شمار ہندوانہ اور جاہلانہ تصورات سرایت کیے ہوئے ہیں۔ مغربی اقدار کے خلاف لڑتے ہوئے بلکہ لڑنے سے پہلے ہمیں ان فرسودہ رسوم و رواج کو چھانٹ چھانٹ کر اسلامی اقدار سے الگ کرنے اور پھر ان کی بیخ کنی کے لیے زوردار مہم چلانے کی بھی ضرورت ہے۔ بیٹے اور بیٹی کی پیدایش پر خوشیوں سے لے کر ان کی تعلیمی ضروریات اور تصورات‘ شادی بیاہ کی رسوم و رواج اور پھر بیاہے جانے کے بعد وراثت میں خواتین کے شرعی حقوق تک بے شمار جاہلانہ تصورات معاشرے میں اپنی جڑیں گاڑے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان جاہلانہ رسوم و رواج پر صرف اپنی ناپسندیدگی کا اظہار ہی کر کے نہ رہ جائیں بلکہ ایک زوردار مہم کے ذریعے ان اشجارِ خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑنے کی منصوبہ بندی بھی کریں‘ اور جدوجہد بھی‘ تاکہ اسلام کی طرف سے خواتین کو دیے گئے پُرکشش حقوق کی صاف اور پاکیزہ جھلک ہر ایک کو نظر آئے۔ مغرب جب ان جاہلانہ رسومات کو ہمارے معاشرے میں موجود پاتا ہے توا ن کی آڑ میں وہ اسلامی معاشرے کو مطعون کرتا ہے اور جانتے بوجھتے انھیں اسلامی اقدار کے روپ میں پیش کر کے ان پر ’’سنگ زنی‘‘ بھی کرتا ہے۔ مسلم خواتین اگر مغرب کے پروپیگنڈے کو بے اثر کرنا چاہتی ہیں تو انھیں معاشرت میں پائی جانے والی ان خرابیوں کی نشان دہی بھی کرنا ہوگی اور ان کی بیخ کنی کے لیے پُرعزم جدوجہد بھی۔ گویا ہماری جدوجہد ان امراضِ خبیثہ کے خلاف بھی ہے جو گندے خون کی صورت میں معاشرے کی رگوں میں سرایت کرچکی ہیں اور اس وائرس کے خلاف بھی جو باہر سے ہم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے۔

خواتین کا حقِ وراثت

مغرب کا یہ گمراہ کن پروپیگنڈا کہ اسلامی تہذیب و معاشرت میں عورتوں کو حقوق حاصل نہیں صرف اس لیے جڑ پکڑ سکتا ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دیے ہیں ہمارا پس ماندہ معاشرہ وہ حقوق خواتین کو دینے کے لیے تیار نہیں۔ پیدایش کی خوشیوں سے لے کر جایداد میں حقِ وراثت تک ہمارا موجودہ جاہلی معاشرہ خواتین کے ساتھ امتیازی برتائو کرتا چلا آرہا ہے۔ اگرچہ پاکستان کے قانونِ وراثت میں خواتین کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ مگر معاشرہ اور رسوم و رواج انھیں یہ حق دینے سے مسلسل انکاری ہیں۔ یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ پنجاب‘ سندھ‘ سرحد اور بلوچستان میں کم و بیش ۸۰ فی صد خواتین کو شادی سے قبل آمادہ کر لیا جاتا ہے کہ وہ جایداد میں اپنا حصہ ’’بخوشی‘‘ بھائیوں کے نام منتقل کر دیں۔ یوں جایداد کو ان کے بقول ’’پرائے گھر‘‘ میں جانے سے بچا لیا جاتا ہے۔ یہ عورت کا بدترین استحصال ہے۔ ایک مدت سے منبر و محراب سے بھی اس استحصال کے خاتمے کے لیے کوئی آواز سنائی نہیں دی۔

خواتین کو حقِ وراثت سے محروم کرنے والوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید دی ہے۔ خواتین کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقررہ کردہ حق کو رسومات کی بنیاد پر چھین لینا صریح ظلم اور زیادتی ہے۔ اگر مسلم خواتین اپنے اس حق کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ مرحلہ وار آگے بڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ چند برسوں کی جدوجہد سے معاشرے کو اس قبیح رسم سے نجات نہ دلائی جا سکے۔

مسلم خواتین اور باشعور مردوں اور علماے کرام سب کو اس ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ اس مسئلے پر معاشرتی شعور بیدار کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں سیمی نار کیے جائیں۔ اخبارات میں فیچر شائع ہوں۔ اس موضوع پر ملک بھر میں لٹریچر عام کیا جائے۔ منتخب نمایندوں سے کہا جائے کہ وہ اس غیر شرعی رسم کے خلاف اس طرح کی قانون سازی کریں کہ وراثت کا بیٹے اور بیٹیوں میں باقاعدہ انتقال ہوئے بغیر خواتین کا حصہ کسی دوسرے کے نام منتقل نہ ہوسکے۔ اس قانون سازی کے لیے عورتوں کے نمایندہ وفود ممبران اسمبلی سے ملیں اور ضرورت پڑے تو مناسب تیاری سے پارلیمنٹ ہائوس تک مارچ بھی کیا جائے۔

عزت کے نام پر قتل اور کاروکاری

یہ موضوع مغربی دنیا کی شہہ پر پرورش پانے والی این جی اوز کے لیے سب سے زیادہ  دل چسپی کا باعث ہے۔ اباحیت پسند معاشرے میں فلمی مکالموں سے متاثر ہوکر بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خفیہ طور پر تعلقات استوار کرلیتے ہیں۔ ایک مدت تک گھر والے چشم پوشی اور لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں مگر جب صدمے والی خبر آپہنچتی ہے تو غصے سے بے قابو ہوکر لڑکی اور لڑکے کے قتل کا انتہائی جرم کر گزرتے ہیں۔

اسلام سمیت کوئی بھی مہذب معاشرہ اس گھنائونے جرم کے ارتکاب کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام تو قتل کے بدلے میں بھی کسی فرد کو جوابی قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ اختیار صرف اور صرف ریاست کو حاصل ہے کہ وہ قتل کا انتقام قتل کی صورت میں لے یا ورثا کے کہنے پر خون بہا کی ادایگی کا فیصلہ کرے۔ عزت کے نام پر قتل کے حوالے سے مغربی سوچ اور اسلامی سوچ میں جو فرق ہے وہ اس جرم کے ’’گھنائونے پن‘‘ پر نہیں بلکہ جرم کے محرکات پر ’’پسندیدگی‘‘ اور ’’ناپسندیدگی‘‘ کے باعث ہے۔ اہلِ مغرب کے نزدیک لڑکے اور لڑکیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عمر اور جذبات کے اس انتہائی ناپختہ مرحلے پر اپنے جنسی جذبات کی تسکین کے لیے جو راہ اور طریقہ اپنانا چاہیں اپنا لیں اور ماں باپ یا بزرگوں سے کسی رہنمائی کی قطعی ضرورت محسوس نہ کریں‘ جب کہ اسلام انھیں خاندانی و معاشرتی زندگی سے سرکشی و بغاوت سے روکتا اور مشفقانہ رہنمائی میں فیصلے کرنے کی ہدایت کرتا ہے (اسلام لڑکے اور لڑکی کی پسند کو اہمیت دیتا ہے)۔ مگر بدقسمتی سے ہندوانہ رسومات کی جکڑبندیوں کے باعث ہمارے معاشرے نے اسلام کے اس ’’حسن انتظام‘‘ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کے برعکس مغربی اقدار نے انھیں آزاد خیالی کا ایک ایسا راستہ دکھانا شروع کر دیا ہے جو خاندانی نظام کی بنیادیں ہی ہلاکر رکھ دینے والا ہے۔ اس حوالے سے ایک طرف ہمیں غیرت کے نام پر قتل اور کاروکاری کی مذمت کرنا چاہیے اور دوسری طرف اُن اسباب و محرکات کے سدِباب کے لیے آواز بھی بلند کرنا چاہیے جو اس مذموم اور گھنائونے جرم کے راستے کھولنے کا سبب بنتے ہیں۔ معاشرے کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ سخت سے سخت قانون سازی بھی اس وقت تک بے اثر ہے جب تک ان محرکات کا قلع قمع نہ کیا جا سکے جو غیرت کے نام پر ہر قتل کے لیے اشتعال دلانے کا باعث بنتے ہیں۔

ملازم پیشہ خواتین کا تحفظ

زندگی گزارنے کے طریقوں میں بے شمار تبدیلیوں اور نت نئی ضرورتوں کے باعث خواتین کا خرید و فروخت‘ تعلیم‘ علاج اور دیگر کئی ضرورتوں کے لیے نہ صرف گھر سے نکلنا بلکہ ان میدانوں میں ملازمتیں حاصل کرنا بھی ناگزیر ہوچکا ہے۔ اسلام ضرورت کے تحت خواتین کے گھر سے نکلنے پر پابندی نہیں لگاتا‘ وہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ معاشرے کو مرد و خواتین کے باہم اختلاط سے بچایا جائے اور اس طرح دونوں کی عزت و ناموس کی حفاظت کی جائے۔

اس وقت پاکستان میں لاکھوں ایسی خواتین ہیں جو تعلیم‘ صحت‘ ذرائع ابلاغ اور دیگر سرکاری و غیر سرکاری محکموں میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ یہ تعداد اگرچہ خواتین کو مجموعی تعداد کے تناسب سے بہت زیادہ نہیں‘ تاہم اپنے فعال اور متحرک کردار کے باعث انھیںمعاشرے میں بہت مؤثر مقام حاصل ہے۔ ہمارے معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان خواتین کو ایسا ماحول فراہم کرے کہ جب وہ اپنی ملازمتی ضروریات کے لیے باہر نکلیں تو کسی خوف اور خطرے کے بغیر اپنے کام سرانجام دے سکیں۔اس طرح کا ماحول پیدا کرنے میں جہاں پورے معاشرے کو متحرک ہونا ہوگا وہاں اس مسئلے کو مسلم خواتین کے ایجنڈے پر بہت نمایاں جگہ ملنی چاہیے۔ انھیں بہت زوردار طریقے سے یہ آواز اٹھانا چاہیے کہ ملازمت پیشہ خواتین کو کام کے لیے محفوظ ماحول فراہم کیا جائے۔ اگر سفر کرنا ناگزیر ہو تو محفوظ سفری سہولیات میسر ہوں‘ یا ملازمت کی جگہ دُور ہو تو محفوظ رہائشی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں‘ ہسپتالوں اور دیگر مقامات پر کام کرنے والی ہزاروں ایسی خواتین ہیں جنھیں ناقابلِ بیان سفری مشکلات اور حفاظتی خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ترکی کی اسلامی پارٹی نے ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کو اپنی جدوجہد میں بہت نمایاں حیثیت دی۔ نتیجتاً ترکی کے انتہائی سیکولر ماحول کے باوجو د اسلامی پارٹی کو خواتین میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ پاکستان میں بھی مسلم خواتین کو اپنی جدوجہد میں ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کو بھرپور اہمیت دینی چاہیے۔

خواتین میں شرح خواندگی

ہمارے بے شمار مسائل کے ناقابلِ حل رہنے کی ایک بڑی وجہ خواتین میں تعلیم کی کمی ہے۔ کچھ شہری آبادیوں کو چھوڑ دیا جائے تو دیہاتی معاشرے میں اکثر جگہ خواتین میں شرح خواندگی مردوں کی نسبت نصف یا اس سے بھی کم ہے۔ اندرونِ سندھ‘ جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے اکثر علاقوں میں خواتین کی تعلیم ابھی تک نہ ہونے کے برابر ہے۔ وڈیرے مخدوم اور نواب ابھی تک مزارعوں اور ہاریوں کو تعلیمی اداروں کے قریب تک پھٹکنے نہیں دینا چاہتے۔ ان علاقوں میںخواتین کی ایک بڑی تعداد کے لیے تعلیمی ادارے کی شکل دیکھنا خواب دیکھنے سے کم نہیں۔

یہ ایک تڑپا دینے والی کیفیت ہے۔ عورت کا پڑھا لکھا ہونا مرد کی نسبت زیادہ ضروری ہے۔ اس فرق کو ہنگامی بنیادوںپر دُور ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام تنہا عورتوں کے لیے ممکن نہیں اس کے لیے معاشرے کے سارے طبقات کا حصہ لینا ضروری ہے اور ان میں سب سے بڑھ کر حکومت کو کردار ادا کرنا ہے۔ مگر خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو زوردار انداز میں یہ آواز حکومت کے ایوانوں تک پہنچانی چاہیے اور مطالبہ کرنا چاہیے کہ جب تک مردوں اور عورتوں میں شرح خواندگی برابر نہیں ہو جاتی‘ تعلیمی بجٹ میں عورتوں کا حصہ مردوں سے دگنا کر دیا جائے۔ دیہی علاقوںمیں پرائمری اور ہائی سطح پر خواتین کے اضافی تعلیمی ادارے کھولے جائیں اور دیہی  پس منظر میں خواتین اساتذہ کو بہتر سہولیات فراہم کی جائیں۔

خواتین کا حقِ وراثت‘ عزت کے نام پر قتل اور محرکات کی روک تھام‘ ملازم پیشہ خواتین کا تحفظ اور خواتین کی شرح خواندگی میں اضافہ۔ اگر مسلم خواتین یہ چار نکاتی لائحہ عمل لے کر باہر نکلیں گی تو انھیں خواتین میں پذیرائی بھی حاصل ہوگی اور حقوقِ نسواں کے پس منظر میں ’’پیش قدمی‘‘ بھی ان کے ہاتھ میں ہوگی۔ توقع ہے ایسی صورت میں مغرب زدہ خواتین کے لیے یہ سرزمین ’’اجنبی‘‘ ہوجائے گی۔