اگر آپ بوسنیا کو نہیں سمجھتے تو آپ غزہ کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے مسلمان پہلے بوسنیا کو سمجھیں، تاکہ غزہ کو سمجھ سکیں۔ لہٰذا غزہ کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے مکمل مضمون پڑھیں۔
غزہ اور فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر حیران نہ ہوں۔ بوسنیا کے مسلمانوں کے خلاف سربوں نے جو تباہی کی جنگ چھیڑی، اس میں ۳۰۰ ہزار مسلمان شہید ہوئے۔ ۶۰ ہزار عورتوں اور بچیوں کی عصمت دری کی گئی۔ ڈیڑھ لاکھ لاوارث ہوئے ۔ کیا ہم اس المیے کا کبھی ذکر کرتے ہیںیا ہم بھول گئے ہیں… یا آپ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے!! سی این این کی کرسٹیانا امان پور بوسنیا کی سالگرہ پر تبصرہ کرتی ہیں:
مسلمانوں کا قتل عام، محاصرہ اور فاقہ کشی مگر یورپ نے مداخلت کرنے سے انکار کر دیا۔ ہولوکاسٹ تقریباً چار سال تک جاری رہا، جس کے دوران سربوں نے ۸۰۰سے زائد مساجد کو مسمار کر دیا، جن میں سے کچھ سولھویں صدی عیسوی کی تعمیرشدہ تھیں۔ سربوں نے سرائیوو کی تاریخی لائبریری کو جلا دیا۔ اقوام متحدہ نے مداخلت کی اور اسلامی شہروں جیسے کہ گورجدا، سریبرینیکا، زیبا کے داخلی راستوں پر دو دروازے لگا دیے، لیکن وہ محاصرے اور آگ کی زد میں تھے۔ سربوں نے ہزاروں مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں ڈالا، ان پر تشدد کیا، انھیں بھوکا مارا، یہاں تک کہ وہ ہڈیوں کا ڈھانچا اور بہت سی بیماریوں کا شکار ہوکر رہ گئے۔ جب سربیا کے ایک رہنما نے پوچھا: 'کیوں یہ ظلم کرتے ہو؟ تو اس نے جواب میں کہا: وہ سور کا گوشت نہیں کھاتے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین نے بوسنیا کے قتل عام کے دنوں میں ایک پورے صفحے کا نقشہ شائع کیا۔ جس میں عصمت دری کے مقامات دکھائے گئے تھے۔
مسلمان خواتین کے ساتھ سربوں نے ۱۷ بڑے کیمپوں میں جو کچھ کیا، اس کے ذکر سے قلم لرزتا ہے۔ _سربوں نے چھوٹی چھوٹی بچیوں تک کی عصمت دری کی۔ دی گارڈین نے ایک بچی کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا: ’’وہ بچی جس کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہے‘‘۔ قصائی ملادک نے زیبا کے مسلمانوں کے لیڈر کو میٹنگ میں بلایا۔ اس نے اسے سگریٹ دیا، اس کے ساتھ تھوڑا ہنسا، پھر اس پر جھپٹا اور اسے ذبح کر دیا۔ لیکن سب سے مشہور جرم تو سریبرینیکا کا محاصرہ تھا۔ عالمی فوج کے سپاہی سربوں کے ساتھ جشن منا رہے تھے، رقص کر رہے تھے۔ کچھ مسلمان ان کے ساتھ مل کر کھانے کے لیے سودے بازی کر رہے تھے۔ _سربوں نے سریبرینیکا کا محاصرہ کر لیا۔ دو سال تک گولہ باری ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رُکی۔ _سرب، اس قصبے میں پہنچنے والی امداد کا ایک اہم حصہ اُڑا رہے تھے۔ پھر مغرب نے اسے بھیڑیوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا: سریبرینیکا کی حفاظت کرنے والی ڈچ بٹالین نے سازش کی۔ سربوں نے مسلمانوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ حفاظت کے بدلے اپنے ہتھیار پھینک دیں۔مسلمان تھکن اور اذیت کے بعد دم توڑ رہے تھے۔
سربوں نے سریبرینیکا پر حملہ کیا، مردوں کو ان کی عورتوں سے الگ کر دیا۔ ۱۲۰۰ مرداور جوان الگ کیے، ان سب کو مار ڈالا۔ _سرب ایک مسلمان مرد کے اوپر کھڑا تھا اور اس کے چہرے پر سوراخ کر رہا تھا (نیوز ویک کی رپورٹ سے)۔ جہاں تک خواتین کا تعلق ہے، ان کی عزّت پر حملہ کیا گیا اور کچھ کو جلاکر ہلاک کر دیا گیا۔ یہ قتل عام سریبرینیکا میں کئی دن تک جاری رہا۔ یہ جولائی ۱۹۹۵ء کا آخر تھا۔ یہ ہمارے بھائیوں کے خاتمے کی جنگ کا آخری باب تھا۔ ایک ماں نے سرب کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، وہ اس سے التجا کرتی ہے کہ اس کے بچے کو ذبح نہ کرے ، اور اس نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا ، اور پھر اس کی آنکھوں کے سامنے اس بچّے کی گردن کاٹ ڈالی۔ قتل عام ہرجگہ ہم دیکھ سکتے تھے۔ سریبرینیکا کے ذبح خانے کے بعد قصاب راڈووان کاراڈزک شہر کو فتح کرتا اور اعلان کرتا ہوا شہر میں داخل ہوا: ’’سریبرینیکا ہمیشہ سے سربیا رہا ہے اور اب واپس آگیا ہے‘‘۔ پھر سرب ہتھیاروں سے مسلح، مسلمان عورتوں کی عصمت دری کر رہے تھے۔ انھوں نے ان کو ۹ماہ تک بند رکھا جب تک کہ وہ ناجائز بچوں کو جنم نہ دے لیں۔ ایک سرب نے ایک مغربی اخبار کو بتایا: ’’ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان خواتین سربیا کے بچوں (سربیائی بچوں) کو جنم دیں۔ یاد رکھیں بوسنیا، سرائیوو، بنجا لوکا، سریبرینیکا اور بلقان کو ہم نہیں بھولیں گے۔
بوسنیا میں قتل عام کے دوران، ایک فرانسیسی اخبار نے لکھا: بوسنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی تفصیلات سے یہ بات واضح ہے کہ صرف مسلمانوں کی ثقافت خوب صورت اور مہذب ہے۔ پرانے آرتھوڈوکس (بطرس غالی) کے عہدے، جو اس وقت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تھے، انھوں نے کھل کر اپنے ساتھی سربوں کا ساتھ دیا۔ یہاں پر یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ سرب مذہبی اسکالر ایک قدم آگے بڑھ کر مساجد کے اماموں، دانشوروں، تاجروں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ وہ کہتے تھے: انھیں باندھ کر ذبح کر کے پھینک دیں گے۔ انھیں دریا میں ڈال دیں گے۔ اگر سرب کسی قصبے میں داخل ہوتے تو اس کی مسجد کو گرانا شروع کر دیتے۔
ایک برطانوی اخبار نے بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کو اس جملے کے ساتھ بیان کیا: ’’بیسویں صدی میں یہ جنگ قرون وسطیٰ کے انداز میں چھیڑی گئی ہے..! میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہم اس ظلم کو بھول نہ جائیں، اور آنے والی نسلوں کو بھی یاد دلاتے رہیں۔ یہ پیغام ان لوگوں کے لیے ہے جو مغربی تہذیب اور جعلی انسانی حقوق سے مرعوب ہیں۔ تاریخ کی کہانیاں بچوں کو سونے کے لیے نہیں سنائی جاتیں، بلکہ یہ جگانے کے لیے سنائی جاتی ہیں۔