ہم طبقاتی کش مکش کے قائل نہیں ہیں بلکہ دراصل ہم تو طبقاتی حِس اور طبقاتی اِمتیاز کو بھی ختم کردینا چاہتے ہیں۔ ایک معاشرے میں طبقے دراصل ایک غلط نظام سے پیدا ہوتے ہیں۔ اخلاق کی خرابی ان میں امتیازات کو اُبھارتی ہے اور بے انصافی ان کے اندر طبقاتی حِس پیدا کردیتی ہے۔
ہم انسانی معاشرے کو ایک تنِ واحد کے اعضا کی طرح سمجھتے ہیں۔ جس طرح ایک جسم میں مختلف اعضا ہوتے ہیں اور جسم کے اندر ان کا مقام اور ان کا کام جدا جدا ہوتا ہے، مگر ہاتھ کی پائوں سے اور دماغ کی جگر سے کوئی لڑائی نہیں ہوتی، بلکہ جسم زندہ ہی اس طرح رہتا ہے کہ یہ سب اپنے اپنے مقام پر اپنا اپنا کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے کے مختلف اجزا بھی اپنی اپنی جگہ اپنی قابلیت و صلاحیت اور فطری استعداد کے مطابق کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ہمدرد و مددگار اور مونس و غم خوار بنیں،اور ان کے اندر طبقاتی کش مکش تو درکنار طبقاتی حِس اور طبقاتی اِمتیاز ہی پیدا نہ ہونے پائے۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہرشخص خواہ وہ اجیر ہو یا مستاجر، اپنے حقوق سے پہلے اپنے فرائض کو پہچانے اور انھیں ادا کرنے کی فکر کرے۔ افراد میں جتنا جتنا احساسِ فرض بڑھتا جائے گا، کش مکش ختم ہوتی جائے گی اور مشکلات کی پیدائش کم ہوتی چلی جائے گی۔
ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کی اخلاقی حِس بیدار کی جائے اور ’اخلاقی انسان‘ کو اس ’ظالم حیوان‘ کے ُچنگل سے چھڑایا جائے جو اس پر غالب آگیا ہے۔ اگر افراد کے اندر کا یہ ’اخلاقی انسان‘ اس غالب حیوانیت سے آزاد ہوکر ٹھیک کام کرنے لگے، تو خرابیوں کا سرچشمہ ہی سوکھتا چلا جائے گا۔ (’مزدوروں کے متعلق جماعت کی پالیسی‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۲، عدد۲، اکتوبر ۱۹۶۴ء، ص۴۰