’خوراک کے حق‘ سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ مائیکل فخری نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اسرائیل کو قصوروار ٹھہرایا ہے کہ اس کی جانب سے بھوک اور قحط کو فلسطینیوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، تا کہ ان کو مٹا کر فلسطینی زمین پر قبضہ کیا جاسکے‘‘۔ یہ دستاویز ثابت کرتی ہے کہ صہیونی ریاست، فلسطینیوں کی نسل کشی پر کمربستہ ہے اور عالمی استعماری طاقتیں اس جرم میں اسرائیل کی پوری طرح پشت پناہ ہیں، جس کی مثال دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا نے نہیں دیکھی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی اس ہوش ربا رپورٹ کے مطابق: ’’اسرائیل کی جانب سے یہ سوچی سمجھی مہم چلائی جا رہی ہے کہ غزہ کی ۲۳لاکھ آبادی اور مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر قتل کر دیا جائے‘‘ ۔
مائیکل فخری کے مطابق: ’’اسرائیل نے غزہ کے ہر شہری کو بھوکوں مارنے کا اپنا منصوبہ چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ سب کے سامنے اس منصوبے پر عملدرآمد ہوا اور پورے غزہ میں قحط کی سی صورت حال پیدا کی گئی۔ جغرافیائی طور پر قحط کے پھیلاؤ اور اسرائیلی ذمہ داروں کے بیانات کو ملا کر دیکھا جائے تو اسرائیلی عزائم بالکل واضح ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے پورے غزہ کا محاصرہ کیا گیا جس نے یہاں تمام فلسطینیوں کو کمزور کیا۔ اس کے بعد شمال کے لوگوں پر قحط مسلط کیا گیا تا کہ انھیں نقصان پہنچایا جائے، جان سے مار دیا جائے یا جنوب کی طرف نقل مکانی پر مجبور کردیا جائے۔ نتیجتاً جنوب میں جو مہاجر کیمپ بنے وہاں لوگوں کو بھوکا رکھ کر یا بمباری کے ذریعے قتل کیا گیا‘‘۔
فخری کا کہنا تھا کہ ’’غزہ میں جتنے لوگ بھوک ، غذائی قلت اور بیماری سے مر رہے ہیں اتنے گولہ بارود سے بھی نہیں مر رہے۔‘‘ اس بیان کی تائید جولائی میں ’دی لینسٹ‘ (The Lancet) میں مطبوعہ اعداد وشمار سے بھی ہوتی ہے، جس کے مطابق اسرائیلی حملے میں اب تک ایک لاکھ ۸۶ ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ یہ تعداد فلسطینی اعداد و شمار یعنی ۴۱ہزار سے کہیں زیادہ ہے۔
نازی جرمنی کے ہاتھوں یورپی یہودیوں کی نسل کشی کے ردعمل میں ۱۹۴۸ء کے منظور شدہ کنونشن برائے انسداد نسل کشی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ رپورٹ کہتی ہے:’’نمائندہ خصوصی اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہے کہ کس طرح اسرائیل نے قحط کو فلسطینی شہریوں کی کلّی یا جزوی تباہی کے لیے استعمال کیا ہے۔اول، انھیں سنگین جسمانی اور ذہنی ایذاء پہنچا کر۔دوئم، فلسطینیوں کے لیے سوچےسمجھے طریقے سے ایسے حالاتِ زندگی پیدا کر کے جو بالآخر ان کی مکمل یا جزوی تباہی کا باعث بنیں گے‘‘۔
اس رپورٹ میں شریکِ جرم قوتوں کا ذکر ہے: ’’بیرونی ریاستیں اور کمپنیاں عمومی طور پر قحط مسلط کرنے والوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ مثلاً یہ بیرونی استعماری ریاستیں اور کمپنیاں نہ صرف غزہ میں قحط اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے اسرائیل کو غیر قانونی طور پر اسلحہ فراہم کر رہی ہیں بلکہ فلسطین میں پانی اور خوراک کے نظام کی تباہی اور فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضے میں یہ کمپنیاں معاونت کر رہی ہیں‘‘۔
ان جنگی جرائم کے لیے امریکا اور اس کے یورپی اتحادی ممالک کی سیاسی قیادت کو بھی نیتن یاہو کے ساتھ کٹہرے میں کھڑا کرنا ضروری ہے۔ فخری کے مطابق: ’’۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء سے پہلے غزہ کی تقریباً آدھی آبادی غذائی قلت کا شکار تھی اور ۸۰ فی صد سے زیادہ لوگوں کا گزارہ بیرونی امداد پر تھا۔ اس افلاس میں اسرائیلی محاصرے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔اسرائیل کی جانب سے باربار دیے جانے والے غیر انسانی بیانات اور غزہ کی مکمل تباہی کی خواہش نے یہاں قحط مسلط کرنے کی اسرائیلی کوششوں پر مشتمل فردِ جرم میں درکار دونوں شرائط یعنی ’جرم کی نیت‘ اور ’جرم کا ارتکاب‘ پوری کر دی ہیں۔ چنانچہ کنونشن برائے انسداد نسل کشی ۱۹۴۸ء کے مطابق دیگر ریاستیں انسانیت کے خلاف اس جرم کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں‘‘۔
تاہم، واشنگٹن اور اس کے یورپی اتحادی نہ صرف ذمہ داری سے مفرور ہیں بلکہ انھوں نے اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی مزید تیز رکھی۔ اندرون ملک اس نسل کشی کی مخالفت اور استعماری قوتوں کی شمولیت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ریاستی سطح پر جبر کا نشانہ بنایا گیا اور ہر طرح سے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔
امریکی اور یورپی، فخری کی رپورٹ پر دم بخود ہیں۔ ہر طرف پھیلی بھوک، مہلک بیماریوں اور علاج معالجے کی ناپید سہولیات کا ذکر اگر ہوتا بھی ہے تو یوں کہ فلسطینیوں کو یہ عظیم بحران اس لیے درپیش ہے کہ اسرائیل، حماس کے خلاف ’اپنے دفاع‘ کی جنگ لڑرہا ہے۔
یہ رپورٹ اس لغو موقف کو بھی رَد کرتی ہے :’’آج دنیا میں انسانی آبادی کی ضرورت سے ڈیڑھ گنا زیادہ خوراک پیدا ہوتی ہے، لیکن پھر بھی قحط، غذائی قلت اور بھوک میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھوک اور قحط کبھی خوراک کی قلت سے جنم نہیں لیتے، بلکہ خوراک تک رسائی میں رکاوٹ بننے والے عوامل ان کا سبب بنتے ہیں۔ اکثر قحط جنگ، معاشی اُتار یا خشک سالی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ تمام عوامل دراصل ظلم اور ناانصافی پر مبنی سماجی نظام سے جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ طاقت کے ارتکاز اور غذائی نظام میں احتسابی عمل کی غیر موجودگی سے قحط کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ چنانچہ قحط کو ہمیشہ ایک خود غرضی پر مبنی سیاسی مسئلہ سمجھنا چاہیے۔
اسرائیل اور استعماری اتحادیوں کی جانب سے غزہ میں قحط کا باعث بننے والے ’اقدامات‘ دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کے جرائم سے مشابہ ہیں جن میں باقاعدہ منصوبے کے تحت جرمنوں کے لیے سوویت شہریوں سے خوراک چھینی جاتی تھی، تا کہ بڑی تعداد میں سوویت آبادی کو ختم کرکے مشرق میں اپنے لیے وہ زمین حاصل کی جا سکے، جو جرمن قوم کی ’ترقی‘ کے لیے ضروری ہے۔ نازی جنگ کا نشانہ بننے والے۲کروڑ ۷۰ لاکھ سوویت شہریوں کی ہلاکت میں اس منصوبے کا بھی بڑا حصہ ہے۔
آٹھ عشروں بعد صہیونی ’عظیم اسرائیل‘ کے لیے غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ یہی سلوک کررہے ہیں۔ استعماری قوتیں اس قتل عام میں شریک ہیں۔ واشنگٹن، برلن، پیرس اور لندن کی جانب سے اپنے معاشی اور جیو اسٹرے ٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے مسلط کی جانے والی اس جنگ میں غزہ صرف ایک محاذ کا نام ہے۔ یہ ممالک اس جنگ میں ’مقصد‘ پانے کے لیے کسی بھی حد تک گرنے کو تیار ہیں۔