اُمت مسلمہ نازک دور سے گزر رہی ہے۔ اس ماحول میں اُمت کی حالت ِ زارکو سنبھالنے اور بہتر بنانے کا چیلنج مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے تاریخ کی حقیقت یا زمانے کا ’جبر‘ سمجھا جائےکہ وہ لوگ جو مسلم دُنیا سے تعلق رکھتے ہیں، مگر اپنی فکری اور سماجی کج روی کے باعث اکثر اس تعلق کی ڈور سے کٹ جانے کا عندیہ دیتے ہیں۔ اُن کے راہِ فرار کے باوجود زمانہ انھیں بھی اُمت ہی کا حصہ سمجھ کر معاملہ کرتا ہے۔ چنانچہ مسلمان جو مسلم دُنیا میں آبادی کے اکثریتی ممالک میں ہیں یا آبادی کے اقلیتی ممالک میں، ان کے سامنے یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے:
عصرحاضر میں ایک جانب مسلم اکثریتی ملکوں میں اور دوسری طرف مسلم اقلیتی ممالک میں اسلامی احیاء کے لیے کون کون سے فکری اور عملی اقدامات کیے جانے چاہئیں؟
اس سوال کے جواب میں جن اہلِ علم کی تحریریں اگست ۲۰۲۴ء میں شائع کی گئیں، ان میں شامل تھے:
اور ستمبر کے شمارے میں
کی تحریریں شائع ہوئیں۔ اب تیسری قسط پیش ہے (مضمون نگاروں کی نظرثانی کے بعد انھیں کتابی شکل دی جارہی ہے)۔ یہ جوابات اور تجزیات مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کرتے ہیں، جن سے ادارہ ترجمان کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔ تاہم، قارئین ان افکار و خیالات سے مستفید ہوکر بہتر نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔(ادارہ)