عطا بن یسار (م:۱۰۳ھ)مشہور تابعی اور راویٔ حدیث ہیں۔ انھوں نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے ملاقات کی اور پوچھاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفات توریت میں بیان ہوئی ہیں وہ مجھے بتلائیے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض صفات جو قرآن میں بیان کی گئی ہیں وہ توریت میں بھی موجود ہیں اور وہ صفات یہ ہیں:
اے نبیؐ! ہم نے آپ کو گواہ بناکر بشارت دینے والا اور ڈرانے والا اور اہل عرب کے لیے پشت پناہ بناکر بھیجا ہے۔ آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں۔ میں نے آپ کا نام متوکل یعنی اللہ پر بھروسا کرنے والا رکھا ہے۔ نہ آپ تندخو ہیں، نہ سخت مزاج ہیں، نہ بازاروں میں شور مچانے والے ہیں اور نہ بُرائی کا بدلہ بُرائی سے دیتے ہیں، بلکہ معاف کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک آپ کی روح قبض نہیں کریں گے جب تک کہ آپؐ کے ذریعے ٹیڑھی قوم کو سیدھا نہ کردیں اور وہ لاالٰہ الا اللہ کہنے لگے۔ اللہ تعالیٰ آپؐ کے ذریعے اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور بند دلوں کوکھول دے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب البیوع، باب کراہیۃ الصخب فی الاسواق)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توریت کی جن آیات کا حوالہ دیا ہے، ان سے ملتی جلتی آیات قرآن میں اس طرح وارد ہوئی ہیں: يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۴۵ۙ وَّدَاعِيًا اِلَى اللہِ بِـاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا۴۶ (الاحزاب۳۳:۴۵-۴۶) ’’اے نبیؐ! بے شک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے دعوت دینے والا اور روشن چراغ بناکر بھیجا ہے‘‘۔
مذکورہ آیات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ صفات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اوّل یہ کہ آپؐ شاہد یعنی گواہ ہیں۔ دوم یہ کہ آپؐ جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ سوم یہ کہ آپؐ دوزخ کے عذاب سے ڈراتے ہیں ۔ چہارم یہ کہ آپؐ اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہیں۔ پنجم یہ کہ آپؐ روشن چراغ ہیں ۔ اسی طرح سورۃ الفتح میں کہا گیا ہے: اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۸ۙ (الفتح۴۸: ۸) ’’بے شک ہم نے آپؐ کو شاہد اور مبشر اور نذیر بناکر بھیجا ہے‘‘۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خالق کائنات کی طرف سے دنیا میں بھی گواہ ہیں اور آخرت میں بھی گواہ ہوں گے۔ دنیا میں آپ کی شہادت کاحوالہ دیتے ہوئے قرآن پاک میں اہل عرب سے کہا گیا ہے: اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاہِدًا عَلَيْكُمْ كَـمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا۱۵ۭ (المزمل۷۳: ۱۵) ’’ہم نے تمھاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو تمھارے اوپر گواہ ہے، جس طرح ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا‘‘۔
دوسری جگہ مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۰ۭ (البقرہ۲: ۱۴۳) ’’اور اسی طرح ہم نے تم لوگوں کو معتدل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنیں‘‘۔
لوگوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت دو طرح کی ہے۔ ایک قولی شہادت اور دوسری عملی شہادت۔ قولی شہادت یہ ہے کہ آپؐ نے آغاز نبوت سے لے کر وفات تک خدائے وحدہٗ لاشریک لہٗ کی گواہی دی، اس کے علاوہ ہر معبود کا انکار کیا اور اس کے سوا کسی کو خالق ومالک نہیں مانا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی خلاقیت اور الوہیت کے ساتھ فرشتوں کی عبدیت اور معصومیت، انبیائے سابقین کی حقانیت، آسمانی کتابوں کی صداقت، حیات بعدالموت کی حقیقت، جنت وجہنم کی واقعیت اور جزا وسزا کے برحق ہونے کی گواہی دی۔ اسی طرح اللہ کے دین، شریعت اور احکام کی گواہی دی اور اس کے حلال وحرام کے ضابطوں اور قضا وقدر کے فیصلوں کی گواہی دی۔
دنیا کی طرح آخرت میں بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم گواہ ہوں گے۔ آخرت کی شہادت کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن پاک میں ایک جگہ کہا گیا ہے: وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ شَہِيْدًا عَلَيْہِمْ مِّنْ اَنْفُسِہِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَہِيْدًا عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ۰ۭ (النحل۱۶: ۸۹) ’’اور جس روز ہم ہراُمت میں ان کے اندر سے ایک گواہ اٹھائیں گے جو ان پر گواہی دے گا اور اے محمدؐ آپ کو ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے لائیں گے‘‘۔
دوسری جگہ قرآن میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے:فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍؚبِشَہِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِيْدًا۴۱ (النساء۴: ۴۱)’’وہ منظر کیسا ہوگا جب ہم ہرامت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپؐ کو ان تمام لوگوں پر گواہ بناکر کھڑا کریں گے‘‘۔
آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت اپنی امت کے اعمال پر بھی ہوگی اور انبیائے سابقین کی امتوں پر بھی ہوگی۔ اس کی تفصیل متعدد روایات میں وارد ہوئی ہے۔ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے فرمایا کہ تم قرآن کی تلاوت کرکے سناؤ۔ انھوں نے عرض کیا کہ قرآن تو آپؐ پر نازل ہوا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سناؤں؟ رسولِ کریم ؐ نے جواب دیا: ہاں، تم پڑھو اور میں سنوں گا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے سورۃ النساء کی تلاوت کرنی شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچے: فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍؚ بِشَہِيْدٍ ، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بس کرو۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے نظر اٹھا کر دیکھا تو حضوؐر آنسوؤں سے رو رہے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب قول المقری للقاری حسبک)۔
تیسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ آپ کفروشرک، نفاق ،الحاد اور نافرمانی پر اللہ کے غضب اور عذابِ جہنم سے ڈراتے ہیں۔ یہ دونوں صفات تمام انبیا ؑ میں مشترک ہیں۔ سارے انبیاؑ لوگوں کو کفروشرک اور بُرے اعمال کے انجام سے ڈراتے تھے اور عقیدۂ توحید اور اچھے اعمال کرنے پر جنت کی بشارت دیتے تھے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّا مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ۰ۚ (الکہف۱۸: ۵۶)’’ہم رسولوں کو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا نبی بناکر بھیجتے ہیں‘‘۔دوسری جگہ ارشاد ہے:رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللہِ حُجَّــۃٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ۰ۭ (النساء۴: ۱۶۵)’’ہم نے رسول بھیجے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے، تاکہ رسولوں کے آجانے کے بعد لوگوں کو اللہ پر حجت کرنے کا موقع نہ ملے ‘‘۔
دوسری جگہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا ہے:اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا۰ۭ وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِيْہَا نَذِيْرٌ۲۴ (الفاطر۳۵: ۲۴)’’بے شک ہم نے آپؐ کو برحق بشیر ونذیر بناکر بھیجا ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں کوئی ڈرانے والا نہ آیا ہو‘‘۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں بشارت کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ آپؐ لوگوں کو مایوس اور متنفر نہیں کرتے تھے بلکہ امید، شوق اور یقین پیداکرتے تھے۔ اللہ کی رحمت اور جنت کی بشارت دیتے تھے۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جب لوگ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے تومیں ان میں پہلا شخص ہوں گا، جب لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف وفد کی شکل میں جائیں گے تو میں ان کا متکلم ہوں گا، اور جب لوگ مایوس ہوجائیں گے تو میں ان کو خوشخبری دوں گا‘‘۔ (سنن ترمذی، ابواب المناقب)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرامؓ کو بھی ہدایت فرماتے تھے کہ وہ خوشخبری دینے والے بنیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۴۵ۙ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف بھیجا اور ان کو ہدایت کی: انطلقا فبشرا ولاتنفرا و یسرا ولا تعسرا، تم دونوں (یمن) جاؤ اور خوشخبری سناؤ، نفرت نہ پیدا کرو، آسانی فراہم کرو اور دشواری میں نہ ڈالو۔ (معجم طبرانی بحوالہ تفسیر ابن کثیر، سورئہ احزاب: ۴۶)
انبیائے سابقین بھی اپنی قوموں کے لیے بشیر ونذیر تھے لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لیے بشیر ونذیر ہیں۔ چوںکہ آپؐ آخری نبی ہیں اور رہتی دنیا تک آپؐ ہی کے پیغام کو لائحہ عمل بننا ہے، اس لیے آپ کی انذار اور تبشیر کی صفت کو نمایاں کرکے بیان کیا گیاہے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے: وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا (السبا۳۴:۲۸)’’ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے بشیر ونذیر بناکر بھیجا ہے‘‘۔ یعنی گذشتہ انبیائے کرام ؑ وقتی اور زمانی طور پر بشیر ونذیر تھے، جب کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم دائمی اور آفاقی طور پر بشیر ونذیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریمؐ کو صحیفۂ ہدایت قرآن کریم عطا کیا اور اسے صاف ستھری آسان زبان میں نازل کیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں اسے خوشخبری دینے اور ڈرانے کے لیے استعمال کریں اور آپؐ کے بعد لوگ قرآن سے بشارت حاصل کریں اور خوفِ خدا اختیار کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا۹۷ (مریم۱۹: ۹۷)’’بے شک ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان پر آسان کردیا ہے تاکہ آپ اس کے ذریعے خدا ترس لوگوں کو خوشخبری دیں اور جھگڑالو قوم کو اس کے ذریعے ڈرائیں‘‘۔
اس کے برخلاف حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص قوم یا محدود زمانے کے لیے داعی بن کر نہیں آئے، بلکہ دنیا کی ساری قوموں اور آخری زمانے تک کے لیے داعی بن کر آئے۔ ان کی دعوت قیامت تک کے لیے کافی ہے۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، اسی لیے ان کا لقب ’نبی آخر الزماں‘ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دائمی اور عالمگیر دعوت کا اعلان کرنے کے لیے فرمایا:قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَيُـحْيٖ وَيُمِيْتُ۰۠ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَكَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَ۱۵۸ (اعراف۷: ۱۵۸) ’’اے محمدؐ! آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تم سب لوگوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کی بادشاہت ہے آسمانوں او رزمین میں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہی زندگی اور موت دیتا ہے۔ تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول نبی امی پر جو ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور اس کے سارے کلام پر اور اس کی پیروی کرو شاید تم ہدایت یاب ہو‘‘۔
یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کا خالق ومالک ہے، اسی طرح حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت بھی تمام انسانوں کے لیے عام ہے۔ کسی قوم یا ملک کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں تمام انبیا علیہم السلام کی دعوت کا خلاصہ اور نچوڑ ہے۔ لہٰذا ان کی دعوت کو قبول کرنا صرف ایک نبی کی دعوت کو قبول کرنا نہیں ہے بلکہ تمام انبیا علیہم السلام کی دعوت کو قبول کرنا اور ان کے بتائے ہوئے راستہ کو اختیار کرنا ہے۔
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم خود ساختہ داعی نہیں تھے کہ ان کے دل میں لوگوں کے عقیدہ وعمل کو درست کرنے کا جذبہ پیدا ہوا، اور وہ اس کام کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس آفاقی دعوت کے لیے کھڑا کیا اور اس جوکھم بھرے کام کے لیے ان کو منتخب کیا۔ اسی لیے داعیًا الی اللہ کے ساتھ باذنہ کا لفظ بھی شامل کیا گیاہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دنیا والوں کو توحید کی دعوت دینے پر صرف مامور نہیں کیا بلکہ اس راہ کے نشیب وفراز سے بھی آگاہ کیا اور اس کی مشکلات سے باخبر کیا۔ اس کی حکمت سے روشناس کیا اور مرحلہ بہ مرحلہ اس دعوت کے لیے آپؐ کی تربیت کی۔ اس کے روحانی اور اخلاقی ضابطوں کی پابندی کرنے کی ہدایت کی۔ گویا اللہ تعالیٰ نے دعوت الی اللہ کی ضرورتوں، تقاضوں، مشکلات اور کامیابی کے امکانات سے پوری طرح اپنے نبی کو آگاہ کیا اور اسی کے مطابق تیار کیا۔ رسولؐ کی دعوت کے اسی طریق کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن پاک میں کہاگیا ہے:قُلْ ہٰذِہٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللہِ ۰ۣؔ عَلٰي بَصِيْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۰ۭ وَسُبْحٰنَ اللہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۱۰۸ (یوسف ۱۲: ۱۰۸)’’آپؐ کہہ دیجیے کہ یہ میرا راستہ ہے کہ میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں پوری بصیرت کے ساتھ، میں بھی اور میرے متبعین بھی۔ پاک ہے اللہ کی ذات اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں‘‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آفاقی دعوت کا ذکر بائبل میں ان الفاظ میں آیا ہے: ’’دیکھو میرابندہ جسے میں سنبھالتا، میرا برگزیدہ جس سے میرا جی راضی ہے، میں نے اپنی روح اس پر رکھی۔ وہ تمام قوموں کے درمیان عدالت جاری کرائے گا، اس کا زوال نہ ہوگا اور نہ مسلا جائے گا، جب تک راستی کو زمین پر قائم نہ کرے اور بحری ممالک اس کی شریعت کی راہ تکیں‘‘۔ (یسعیاہ، باب:۴۲، آیت: ۱-۴)
اس بشارت کی مزید وضاحت انجیل میں حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان مبارک سے اس طرح کی گئی ہے:’’یسوع نے ان سے کہا: کیا تم نے کتاب مقدس میں نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوگیا، یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے لیے پھل لائے دے دی جائے گی، اور جو اس پتھر پر گرے گا اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے مگر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا‘‘۔ (متی، باب: ۲۱، آیت: ۴۲-۴۳)
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو سراجِ منیر کہا، شمس منیر نہیں کہا۔ حالاںکہ سورج چراغ سے زیادہ روشنی دیتا ہے اور اس کی روشنی عالم گیر ہوتی ہے۔ حکمت اس میں یہ ہے کہ ایک سورج سے دوسرا سورج پیدا نہیں کیا جاسکتا، جب کہ ایک چراغ سے ہزاروں چراغ جلائے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور دعوت سے ہزاروں چراغِ ہدایت روشن ہوسکتے ہیں۔
امام رازی نے لکھا ہے:’’اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سراج کا لفظ استعمال کیا ہے، سورج کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ حالاںکہ سورج میں چراغ سے زیادہ روشنی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج سے کوئی دوسرا سورج نہیں پیدا کیاجاسکتا، جب کہ چراغ سے دوسرا چراغ جلایا جاسکتا ہے۔ اگر ایک چراغ بجھ جائے تو دوسرے چراغ سے روشنی حاصل کی جاسکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ؓ نے آپؐ سے ہدایت کی روشنی حاصل کی جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میرے صحابہؓ ستاروں کی طرح ہیں۔ تم ان میں سے جن کی بھی پیروی کروگے ہدایت یاب ہوگے‘‘۔ اسی طرح ان کے بعد تابعین بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نُورِ ہدایت حاصل کرتے ہیں، اور مجتہدین بھی سب کے سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے روشنی حاصل کرتے ہیں‘‘۔ (تفسیر الکبیر، سورۃ الاحزاب: ۴۶)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کریم کو بھی اللہ نے انذار وتبشیر کا مصدر بنایا ہے۔ رسول کریمؐ کے دنیا سے گزر جانے کے بعد قرآن ہمیشہ کے لیے بشیر ونذیر کی حیثیت سے موجود اور منور ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِہِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا۱ۭ۫ قَيِّـمًا لِّيُنْذِرَ بَاْسًا شَدِيْدًا مِّنْ لَّدُنْہُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا حَسَـنًا۲ۙ (الکہف۱۸:۱-۲)’’تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی۔ ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کردے، اور ایمان لاکر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دے دے کہ اُن کے لیے اچھا اجر ہے‘‘۔
خلاصہ یہ ہے کہ نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے آخری نبی بنایا۔ آپؐ کی سیرت وکردار کو دوسرے انسانوں کے لیے معیار اور نمونہ بنایا۔ آپؐ کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ اجمالاً گذشتہ آسمانی کتابوں میں فرمایا اور تفصیلاً قرآن کریم میں کیا۔ آپؐ کو خاتم النبیین بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب، مقام اور ذمہ داریوں کی صراحت فرمائی۔ لوگوں کو آپؐ کے حقوق سے آگاہ کیا، آپؐ کی دعوت کو آفاقی اور شریعت کو دائمی بنایا۔ اس دعوت میں انسانوں کے لیے راحت، بشارت اور نجات ہے۔