اکتوبر ۲۰۲۴

فہرست مضامین

بدلتا بنگلہ دیش اور امکانات

سلیم منصور خالد | اکتوبر ۲۰۲۴ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

بنگلہ دیش میں ۵؍اگست کے ’طلبہ انقلاب‘ نے بنگلہ دیش پاکستان تعلقات کے معاملے کو دونوں ممالک کے درمیان بلندی پر پہنچا دیا ہے۔ یہ انقلاب اپنی نظریاتی، ملّی اور قومی بنیادوں پر بنگلہ دیش، پاکستان اور اُمت مسلمہ کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ صرف پندرہ روز کے اندر اندر پورے بنگلہ دیش کے طول و عرض میں زبردست بیداری اور مزاحمت کے بہائو کا مشاہدہ کیا جائے، تو یہ حقیقت بہت نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ یہ واقعہ خطے میں ہندوستانی بگٹٹ تسلط پسندی کو چیلنج کرنے کا عوامی اظہار ہے، جس کے پیچھے پڑھی لکھی نوجوان نسل پُرعزم کھڑی ہے۔


تاریخی اُمور کے ساتھ ساتھ یہاں پر چند اہم حالیہ واقعات و معاملات پیش ہیں:

  • کہا تو جاتا ہے کہ ’’عوامی لیگ نے جمہوری اور مسلح جدوجہد سے پاکستان توڑا‘‘ مگر ۲۵مارچ ۲۰۲۱ء کو بنگلہ دیش بننے کی پچاسویں سال گرہ پر ڈھاکا میں تقریر کرتے ہوئے انڈین نسل پرست نریندرا مودی نے کہا: ’’بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے ہم نے اور ہمارے انڈین فوجیوں نے خون کی بڑی قربانی دی ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کی تڑپ کے لیے مَیں جیل میں گیا اور کئی دن سو نہیں سکا‘‘ (ڈیلی اسٹار، ڈھاکہ، ۲۶مارچ ۲۰۲۱ء)۔ایک طرف مودی نے کہا کہ پاکستان سے مشرقی پاکستان کو الگ کرکے بنگلہ دیش کا ’کارنامہ‘ ہم بھارتیوں کا ہے، اور دوسری طرف اسی روز ’’ڈھاکے میں مودی کے دورے اور تقریر کے مخالف نوجوانوں کے مظاہرے پر بنگلہ دیش پولیس نے گولی چلا کر پانچ مظاہرین کو، اور اس سے اگلے روز مظاہرین کو روکتے ہوئے چھے مظاہرین کو شہیدکردیا‘‘۔ (الجزیرہ، ۲۶ مارچ ۲۰۲۱ء)
  • بنگلہ دیشی فوج کے موجودہ سربراہ جنرل وقار الزماں نے عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے: ’’ہم نے قومی سطح پر بنیادی اصلاحات کے لیے عبوری حکومت کی مکمل تائید، حمایت اور اطاعت کا وعدہ کیا ہے، تاکہ اگلے اٹھارہ ماہ میں عام انتخابات کرائے جاسکیں اور ملک اور قوم جلد از جلد جمہوری عمل میں داخل ہوں، مگر جس طریقے سے چیزیں اتھل پتھل ہوئی ہیں،  ان کو درست کرنے کے لیے کچھ وقت مجبوراً درکار ہے۔ ہم عبوری حکومت سے ہرہفتے ملتے ہیں اور مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ذرّہ برابر سیاسی عزائم نہیں، ہمارا واحد مقصد قوم کو جمہوری شاہراہ پر ڈالنا ہے‘‘۔(روزنامہ سنگرام، ڈھاکا، ۲۴ستمبر ۲۰۲۴ء)
  • ڈاکٹر محمد یونس نے امریکا میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا:’’فی الحال الیکشن منعقد کروانے کا کوئی نظام الاو قات نہیں دیا جارہا۔ آنے والے مہینوں میں اصلاحات کی سفارشات متوقع ہیں ، ان کے بعد انتخاب کی تاریخ دیں گے۔ جرائم کا حساب لینے کے لیے حسینہ واجد کو انڈیا سے لاکر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا‘‘۔(روزنامہ دی سن، ڈھاکا، ۲۷ستمبر ۲۰۲۴ء)
  • بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمان نے ۲۶ستمبر کو ڈھاکا میں وکلا کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’اگر عبوری حکومت اپنے اہداف پانے اور اصلاحات کو نافذ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں ’طلبہ انقلاب‘ کامیاب ہوگا۔ ہم ان قومی مقاصد کی تکمیل کے لیے مکمل طور پر حکومت کے حامی اور مددگار ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ قوم کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں وہ قوم سے دشمنی کر رہے ہیں۔ تمام اختلافات بھلاتے ہوئے قومی مفاد کے لیے متحد ہوکر ملک کی تعمیر کا حلف اُٹھانا چاہیے‘‘۔ (ڈیلی سن، اسٹار اور سنگرام، ۲۷ستمبر ۲۰۲۴ء)

ڈاکٹر شفیق الرحمان نے کہا: عوامی لیگ کی باقیات کی جانب سے واویلا ایک بے معنی اور فضول حرکت ہے۔ شیخ حسینہ نے ۱۵ برس کی فسطائی حکمرانی میں ملک، قوم، اداروں اور اپنی پارٹی عوامی لیگ کو برباد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک سے فرار کے بعد ان کی پارٹی میں کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جو پارٹی کو سنبھال سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوامی لیگ سرے سے کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے بلکہ مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ ہے، جس کا جمہوریت اور انسانی حقوق کے احترام سے کوئی دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے سرکردہ اور بزرگ رہنمائوں کو جھوٹے مقدموں میں ملوث کرکے، انصاف کا خون کیا گیا، پھانسیاں دی گئیں، کئی رہنمائوں کو قید کے دوران موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا، درجنوں کو لاپتا کردیا گیا اور ہزاروں کو قید رکھا گیا ہے۔ پھر غصے میں آکر جماعت پر کئی پابندیاں بھی عائد کردیں۔ بنگلہ دیش کے غیرت مند شہری، جماعت اسلامی کا احترام کرتے ہیں۔ ۱۵برس کے مسلسل جبر کے باوجود شیخ حسینہ حکومت، جماعت اسلامی کو تباہ نہیں کرسکی، جس پر ہم اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر اس مالک و خالق کے حضور سجدئہ شکر ادا کرتے ہیں۔(ایضاً)

ڈاکٹر شفیق الرحمان نے کہا: ’’عوامی لیگ کی انسانیت کش حکمرانی کے دوران اختلاف کرنے والے دانش وروں، وکیلوں اساتذہ اور صحافیوں کو غائب، قید اور قتل کرنے سے بھی اجتناب نہیں برتا گیا۔ افسوس کہ وکلا کے ایک طبقے نے عدل کے قتل میں قاتل حکومت کا مسلسل ساتھ دیا۔ حکومتی آلہ کاروں نے سارا پیسہ بیرونِ ملک اسمگل کیا اور اپنی بداعمالیوں کی سزا سے بچنے کے لیے لیگ کے لُوٹ مار کرنے والے ملک سے بھاگ گئے ہیں اور بھاگ رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کے دوران شہید ہونے والے تمام نوجوان اور شہری قوم کے ہیرو ہیں۔ انھیں قوم ہی کی نسبت سے یاد رکھنا، خدمات کا اعتراف کرنا اور ان کے پسماندگان کی مدد کرنا ہوگی‘‘۔(ایضاً)


۲۲ستمبر کو بنگلہ دیش کے مشہور انگریزی روزنامہ ڈیلی اسٹار  ،ڈھاکا نے، جو ایک آزاد خیال، سیکولر اور جماعت اسلامی کا مخالف اخبار ہے، اس نے ووٹرز کے سروے پر مبنی دل چسپ اعداد و شمار شائع کیے ہیں، جن کے مطابق: ’’عام طور پر یہی سمجھا جارہا تھا کہ فسطائی عوامی لیگ حکومت کے خاتمے کے بعد بیگم خالدہ ضیاء کی زیرقیادت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) بھاری اکثریت سے حکومت سنبھال لے گی، مگر حقائق کے مطابق شاید کرسیاں بدل گئی ہیں۔ ۲۹؍اگست سے ۸ستمبر۲۰۲۴ء کے درمیان رائے عامہ کے جائزے سے ووٹروں کے رجحان کا اندازہ سامنے آیا ہے: ۴۶ء۴۴ فی صد حصہ ’فیلڈ سے ۵۱۱۵؍ افراد کے سائنٹفک (sample) سروے پر مبنی ہے۔ ۳۴ فی صد نے کہا کہ آیندہ ’’رائے دہی کے لیے ہم غیریقینی صورتِ حال کا شکار ہیں کہ کس کو ووٹ دیں؟‘‘ جب کہ ۱۰ فی صد نے کہا کہ ’’ہم طلبہ کی قیادت میں سیاسی پارٹی کو ووٹ دیں گے‘‘۔ مگر جب بنگلہ دیش کے تمام ۶۴ اضلاع میں ’آن لائن‘ ۳۵۸۱؍ افراد پر مشتمل سائنٹفک سیمپل سروے کیا گیا تو اُن میں سے ۳۵ فی صد نے کہا: ’’ہم طلبہ کی زیرقیادت پارٹی کو ووٹ دیں گے‘‘ اور ۱۱فی صد نے کہا: ’’ہم فیصلہ نہیں کرسکے کہ کسے ووٹ دیں گے؟‘‘ یاد رہے ابھی تک طلبہ کی زیر قیادت یا اس سوچ کی نمایندہ سیاسی جماعت وجود میں نہیں آئی۔ اس طرح ’فیلڈ سروے‘ کے ۴۴ فی صد اور ’آن لائن‘ کے ۴۶ فی صد ووٹر غیرفیصلہ کن پوزیشن میں ہیں، جب ان سے پوچھا گیا: ’’آپ غیرفیصلہ کن کیوں ہیں؟‘‘ توزیادہ تر نے کہا: ’’ہم ممکنہ اُمیدواروں سے ناواقف ہیں، اور محض پارٹی نشان کو ووٹ نہیں دینا چاہتے‘‘۔

اس سروے کا دل چسپ پہلو ۱۹۹۷ء سے ۲۰۱۲ءکے درمیان پیدا ہونے والی ’زیڈ پود‘ اور اُن سے قبل پیدا ہونے والی ’بزرگ نسل‘ کا طبعی رجحان ہے۔ ’آن لائن‘ سروے میں ’زیڈ پود‘ کے ۳۷ فی صد نے، اور ’بزرگ نسل‘ نے ۳۰ فی صد تعداد میں طلبہ کی سیاسی پارٹی کی حمایت کی۔ دوسری طرف ’آن لائن‘ سروے کے مطابق:۱۹۵۵ء سے ۱۹۶۴ء کے درمیان پیدا ہونے والوں نے ۱۷ فی صد ، ۱۹۸۱ء سے ۱۹۹۶ء کے درمیان پیدا ہونے والوں نے ۲۴ فی صد اور ’زیڈ پود‘کے ۲۷ فی صد ووٹروں نے کہا کہ ’’ہم جماعت اسلامی کو ووٹ دیں گے‘‘۔ ان نتائج کو دیکھ کر ہر کوئی حیران ہے کہ بالکل نوخیز ’زیڈ پود‘ میں جماعت اسلامی کی اتنی پذیرائی کیونکر سامنے آرہی ہے؟ خواتین آبادی کا ۵۱ فی صد ہیں، ان کی آراء دیکھیں تو ان کی بڑی تعداد تاحال ’غیرفیصلہ کن‘ ہے، یا پھر طلبہ کی طرف جھکائو رکھتی ہے۔ دوسرا یہ کہ خواتین میں جماعت کی مقبولیت کا گراف کم تر ہے۔ ’فیلڈ سروے‘ میں خالدہ ضیاء پارٹی کو ۲۱ فی صد ووٹ ملے، جب کہ جماعت اسلامی کو ۱۴ فی صد۔ مگر ’آن لائن‘ سروے کے مطابق خالدہ ضیاء پارٹی کو ۱۰ فی صد اور جماعت اسلامی کو ۲۵ فی صد ووٹ ملے۔ بی این پی ’فیلڈ سروے‘ میں تمام ڈویژنوں میں آگے ہے، لیکن ’آن لائن‘ سروے میں تمام ڈویژنوں میں جماعت اسلامی آگے ہے۔ دونوں سروے میں بی این پی کو ’زیڈ پود‘ کے برعکس ’بزرگ نسل‘ میں برتری حاصل ہے، مگر نئی نسل میں اس کی مقبولیت کم ہے۔ عوامی لیگ کی پوزیشن یہ ہے کہ ’فیلڈ سروے‘ میں عوامی لیگ کو صرف ۵ فی صد اور ’آن لائن‘ میں ۱۰ فی صد ووٹروں کی حمایت حاصل ہوسکی ہے۔ عوامی لیگی حلقے جماعت اسلامی کی مقبولیت پر سخت بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔


 تاریخ کے اوراق دیکھیں تو خطۂ بنگال سے جڑے چار بڑے موڑ سامنے آتے ہیں، جن کا تعلق پاکستان سے ہے: lپہلا یہ کہ ۱۹۰۵ء میں تقسیم بنگال ہوئی۔ اسے مسلم اکثریتی علاقے کو مذہبی پہچان کی بنیاد پر الگ وجود تسلیم کیا گیا (تاہم، ۱۹۱۱ء کو یہ تقسیم ہندوئوں کے دبائو سے واپس ہوگئی، مگر اس نے تقسیم کا نظریہ پیش کر دیا)۔ l دوسرا یہ کہ دسمبر ۱۹۰۶ء کو ڈھاکہ میں کُل مسلم لیگ قائم ہوئی، جس نے تحریک پاکستان کی قیادت کی۔ lتیسرا یہ کہ ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی ’قرارداد لاہور‘ کو پیش کرنے کا اعزاز بنگال ہی کے رہنما اے کے فضل الحق (م: ۱۹۶۲ء)کو حاصل ہوا، lاور چوتھا یہ کہ ۶ تا ۹؍اپریل ۱۹۴۶ء کو ہونے والے مسلم لیگ لیجس لیچرز کنونشن دہلی میں، جو قائداعظم کی صدارت میں منعقد ہوا، وہاں پر بنگال ہی سے تعلق رکھنے والے حسین شہید سہروردی (م:۱۹۶۳ء) نے قرارداد پیش کی، جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ اس میں لکھا ہے: ’قراردادِ لاہور‘ میں پاس کردہ لفظ ’states‘کو ’state‘ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔

لفظ ’ریاستوں‘ کو ’ریاست‘ کر نا دُور اندیشی پر مبنی حکمت ِ کار تھی کیونکہ ہندوستان نے مسلم آبادی کے اس علاقے کو تین اطراف سے گھیر رکھا ہے۔ بالکل وہی صورتِ حال آج بھی برقرار ہے۔ انڈیا نے بنگلہ دیش میں ایک انتہائی بھارت نواز انتظامیہ قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی، لیکن حالیہ انقلاب سے بھارتی مذموم عزائم کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔ بنگلہ دیش میں انقلابی قوتیں سفارتی حمایت کے لیے پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہیں، اور پاکستان اس انقلاب کو محفوظ بنانے اور جنوبی ایشیا میں انڈیا کی بالادستی اور دھونس کو کم کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ پاکستان اس انقلاب کی حمایت کے لیے یہ اقدامات کر سکتا ہے:

            ۱-         پاکستان ’اسلامی کانفرنس تنظیم‘ (OIC) اور دیگر بین الاقوامی حکومتی پلیٹ فارموں کے ذریعے انقلاب کی حمایت کے لیے سابق سفارت کاروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے۔

            ۲-         یہ کمیٹی سارک (SAARC) کی تنظیم نو کے لیے بنگلہ دیش کی مدد کرے۔ یاد رہے کہ مالدیپ، نیپال اور سری لنکا،ہندوستان کے تسلط پسندانہ عزائم سے پریشان ہیں۔

            ۳-         پاکستانی سیاست دانوں اور این جی اوز کو انقلاب کی حمایت کرنے پر اُبھارا جائے۔

            ۴-         یہ کمیٹی بنگلہ دیشی صحافیوں اور میڈیا کے افراد سے باقاعدہ پیشہ ورانہ سطح پر معاونت لے، تاکہ پاکستانی عوام بنگلہ دیش میں تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ ہوسکیں۔

            ۵-         پاکستان، بنگلہ دیشی دانش وروں، صحافیوں، مصنّفوں، پروفیسروں اور اساتذہ اور طلبہ کو پاکستان آنے کی دعوت دے اور اسی مقصد کے لیے پاکستانی صحافیوں کو بنگلہ دیش بھیجے۔

             ۶-        پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی اداروں میں بنگلہ دیشی طلبہ اور تعلیمی عملے کے لیے اسی طرح کے تبادلے کے پروگرام تیار کیے جائیں۔

            ۷-         پاکستانی تعلیمی اداروں کو بنگلہ دیشی طلبہ کے لیے اسکالرشپ پیش کرنے پر اُبھارا جائے۔

             ۸-        سیاسی، معاشی، ثقافتی اور کھیلوں کے میدان میں وسعت لانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر معاہدے کیے اور عمل درآمد کی صورت بنانی چاہیے۔

            ۹-         بنگلہ دیش چیمبرز آف کامرس اور ڈھاکہ و چٹاگانگ کے ایوان ہائے صنعت و تجارت کے قائدین کو پاکستان آنے اور باہم سرمایہ کاری کی سہولت دی جانی چاہیے۔

            ۱۰-      کراچی یونی ورسٹی اور پنجاب یونی ورسٹی میں بنگلہ زبان و ادب کے شعبے کھولے جائیں۔

            ۱۱-      دونوں ملکوں میں ویزا کی نرمی پیدا کی جائے اور اشیاء کی ترسیل اور وصولی کے تیزرفتار نظام کو عملی شکل دی جائے۔ (مجوزہ سفارتی کمیٹی مزید اقدامات تجویز کرسکتی ہے)۔

بنگلہ دیش کے عوام کی اس اُمنگ کے جواب میں ،جو بھارتی تسلط سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ ظاہر کرچکے ہیں، مثبت جواب دینا چاہیے۔ ہمیں خوف کی فضا سے باہر آنا چاہیے اور تاریخ کے اس موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔بنگالی نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں نے سروں پر کفن باندھ کر اس انقلاب کے دوران ہندوستان کو بنگلہ دیش سے باہر نکالنے کے لیے ایک ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانی دی ہے۔ ہمیں اس کا پاس و لحاظ رکھنا چاہیے۔

ہندوستانی میڈیا، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) اور خفیہ ایجنسیاں یہ موقف پھیلانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں کہ ’’بنگلہ دیشی مسلمان انتہا پسندوں نے کچھ بین الاقوامی قوتو ںکے ساتھ مل کر ہندوستان کو بنگلہ دیش سے اُکھاڑ پھینکنے کی بڑی ’سازش‘ کی ہے‘‘۔ انھیں اس بات پر یقین ہی نہیں آرہا کہ غیرمعروف سے طالب علموں کی قیادت میں ایک ’مقامی کوٹہ تحریک‘ ایسا بلاخیز سیلاب بھی بن سکتی ہے، جو اُن کی گماشتہ ڈکٹیٹر اور اس کے حمایتی ہندوستان کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے کہ ہندو نسل پرست بھارتی دھونس نے بنگلہ دیش کی نئی نسل میں مسلم قومیت کی شناخت اور دفاع کے جذبے کو پروان چڑھایا ہے۔

انڈیا کی رہنمائی اور قیادت میں حسینہ واجد حکومت نے پاکستان کے خلاف شدید نفرت کی فصل کاشت کرنے کی خاطر ایک باقاعدہ وزارت قائم کی، جس نے پندرہ برس تک تعلیم، میڈیا اور صحافت میں پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی انتہائوں کو چھوا، لیکن وہ سب مذموم پروپیگنڈا دھرے کا دھرا رہ گیا۔ انقلاب کے بعد ۶ستمبر ۲۰۲۴ء کو قائداعظمؒ کی برسی کے موقعے پر ڈھاکہ نیشنل پریس کلب میں بھرپور پروگرام ہوا۔ طلبہ تحریک کے مرکزی رہنما ناہید الاسلام کے اس جملےنے تاریخ کے ۵۴برس پلٹا کر ۱۹۷۱ء سے پہلے کے مشرقی پاکستان سے جوڑ دیا کہ ’’اگر پاکستان نہ بنتا تو آج بنگلہ دیش بھی وجود میں نہ آتا‘‘۔یہ چیز ایک مقبول رہنما کی زبان سے عام لوگوں کو حقیقت کا فہم دینے میں مددگار بنی ہے۔

تاریخ کا یہ عجیب معاملہ ہے کہ ایک طرف تو بنگلہ دیش کی حکومتوں نے پاکستان کے بارے میں جھوٹے، خودساختہ بلکہ بیہودہ موقف کو نئی نسل کے ذہنوں میں اُنڈیلا، تو دوسری طرف پاکستان میں حکام نے مشرقی پاکستان اور بنگالیوں کے ساتھ اپنی چوبیس سالہ رفاقت کو فراموش کرنے، بنگال کے سرفروشوں کے ساتھ وابستگی کی پوری تاریخ کو مٹانے کی دانستہ اور جاہلانہ کوششیں کیں۔

۱۹۷۱ء میں تقسیمِ پاکستان کے المیے نے خود پاکستانی حکومتوں اور اداروں کے شعور کی دُنیا کو بُری طرح عدم توازن کی نذر کر دیا۔ تاہم، پاکستان کے جوہری پروگرام کی کامیابی نے پاکستان کو مستقبل میں ممکنہ جارحیت سے بچانے میں مدد دی ہے۔ بنگالی دانش ور، پاکستان کی تقلید اور پاکستان کے ساتھ تعاون کی ضرورت کے بارے میں بڑی اُمید کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کو اپنی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھرپور طریقے سے قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اس صورت حال کا نہایت خطرناک پہلو یہ ہے کہ انڈیا کی حکومت اور خفیہ ایجنسیاں بنگلہ دیش میں مسلسل بدامنی کو ہوا دے رہی ہیں۔ حالات و واقعات سے ظاہر ہے کہ خود ہندوئوں کی املاک پر متعدد حملوں اور عوامی لیگیوں کے چند مقامات پر ہجومی قتل کے پیچھے بھی انڈیا کی یہ حکمت عملی کارفرما ہے کہ اس طرح عبوری حکومت بدنام ہو اور عوامی لیگ ہمدردی حاصل کرسکے۔ ان چیزوں پر میڈیا کو بہت محتاط رویہ اپنانا چاہیے۔