بھارتی فوج کے ایک سابق سربراہ جنرل سندر راجن پدمانابھن نے ۲۰۰۴ء میں دہلی میں اپنے ایک ناول کا اجراء کیا تھا۔ یہ ناولWritiing on the Wall پاکستان کے ساتھ ایک خیالی جنگ پر مبنی ہے، جس میں فوجیوں اور ٹینکوں کے بجائے سائنس دانوں کے ذریعے مصنوعی ذہانت اور پوشیدہ ہتھیاروں کا استعمال کرکے مواصلاتی نظام میں خلل ڈال کر بھارت یہ جنگ جیت جاتا ہے۔ ناول کے اجرا ء کے وقت ان سے پوچھا گیا کہ ’’کیا اس طرح کے ہتھیار وجود میں آچکے ہیں‘‘؟ تو انھوں نے وضاحت کی کہ’’ یہ مصنف کا تخیل ہے، اس کو فوج کی تیاریوں کے ساتھ نہ جوڑا جائے‘‘۔
اسرائیلی سائنس دانوں کا ایک وفد ایک بار دہلی میں تھا، جہاں سفارت خانے نے چند صحافیوں کے ساتھ ان کی نشست رکھی تھی۔ بات چیت کے دوران وفد میں شامل ان میں ایک سائنس دان نے کہا کہ ’’جب بھی مارکیٹ میں کوئی سائنس فکشن آتا ہے، تو ان کا محکمہ اس کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ لیتا ہے اور معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کیا مصنف کے تخیل کو حقیقت میں ڈھالا جاسکتا ہے؟‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’سائنس دانوں کو سائنس فکشن لکھنے والے مصنّفین رچرڈ مورگن، السٹر ری نالڈس، (جن کے ناولوں کا مرکزی مو ضوع تھیوریٹیکل فزکس ہوتا ہے) اور اَن گنت دیگر مصنّفین کی نگارشات کو پڑھنے کی نہ صرف ترغیب دی جاتی ہے، بلکہ یہ بھی رپورٹ کرنا پڑتا ہے کہ کیا اس کو عملی رُوپ دیا جاسکتا ہے؟‘‘ یعنی ان اسرائیلی سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ’’ہم جاسوسی تھرلرز کو بھی سنجیدگی سے لیتے ہیں‘‘۔
جنرل پدمانابھن کا تخیل اور اسرائیلی سائنس دانوں کے یہ دعوے اس وقت واقعی حقیقت میںتبدیل ہو گئے، جب لبنا ن کے طول و عرض سے خبریںآنا شروع ہوئیں کہ حزب اللہ کے مواصلاتی آلات ’پیجر‘ اور پھر بعد میں ’واکی ٹاکی‘ میں پے در پے دھماکے ہو رہے ہیں، جن سے پچاس کے قریب افراد ہلاک اور تقریباً ۳ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ موبائل نیٹ ورک کے استعمال کو ترک کرتے ہوئے حزب اللہ نے پیجر نیٹ ورک کو محفوظ مواصلاتی ذریعہ سمجھا تھا، کیونکہ ان کو ہیک کرنے کا کم خطرہ رہتا ہے مگر یہ پیجر خود ہی بم بن گئے ۔
حال ہی میں، حزب اللہ کو پیجرز کی ایک نئی کھیپ موصول ہوئی تھی۔خبروں کے مطابق اسرائیلی ایجنٹو ں نے سمندری جہاز کے ذریعے جانے والی پیجرز کی کھیپ تک رسائی حاصل کی تھی اور بیٹری کے ساتھ ہی اس میں چند گرام بارود رکھ کر ان کو دوبارہ بالکل اسی طرح پیک کر کے ان کو اپنے نیٹ ورک کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ مگر ایک روز قبل حزب اللہ سے وابستہ کسی جنگجو کو دو پیجرز پر شک ہو گیا تھا، کہ ان کی پیکنگ کھولی گئی ہے۔ اس سے قبل کہ یہ تنظیم ان پیجرز پر مزید تحقیق کرکے ان کو کوڑے دان میں پھینک دیتی، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہونے آپریشن کی منظوری دے دی۔
فی الحال حزب اللہ کا محفوظ مواصلاتی نظام، جو حملوں کو مربوط کرنے اور جنگجوؤں کو متحرک کرنے کے لیے ضروری تھا، اس کی کمزوری بن گیا ہے جس کا اسرائیل نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ نہ صرف بیروت بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بمباری کر رہا ہے۔۲۴ستمبر کی دوپہر تک ۵۸۰ ؍افراد لبنان میں شہید ہوچکے ہیں، جن میں ۷۰ بچّے بھی شامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حزب اللہ جو کبھی نظم و ضبط اور ناقابل تسخیر کے طور پر دیکھی جاتی تھی، اسے ڈیجیٹل اشیا کے ذریعے ہی غیر محفوظ بنایا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ میزائلوں اور جدید اسلحہ سے لیس انتہائی محفوظ فوج کو ڈیجیٹل دور میں ایک تباہ کن خطرے میں ڈالا جاسکتا ہے۔
اسرائیل کا یہ حملہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ مستقبل کی جنگیں صرف بموں اور گولیوں سے نہیں بلکہ ڈیٹا، الگورتھم اور سائبر حکمت عملی سے لڑی جا سکتی ہیں۔ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ حملہ ۲۱ویں صدی میں جنگ کے حوالے سے ایک اہم لمحہ ہے۔سائبر حملے اکثر پوشیدہ ہوتے ہیں، جس میں کوئی نشان، کوئی ملبہ اورگولہ بارود نہیں چھوڑا جاتا ہے۔یہ حملے مواصلاتی نیٹ ورکس، پاور گرڈز، مالیاتی اداروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس سے یہ بھی سنگین اندازہ ہوتا ہے کہ ڈیجیٹل دور میں کس طرح روز مرہ استعمال کے آلات ہتھیار بن کر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتے ہیں۔
اسرائیل کے نیشنل سائبر ڈائریکٹوریٹ کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل ریفیل فرانکو کے مطابق حزب اللہ کو اس شاک سے نکلنے میں کافی وقت لگے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اب ان کے جنگجو ہرپیجر اور موبائل فون کو شک کی نظر سے دیکھیں گے۔ اسرائیل نے فون اور دیگر آلات کو ہیک کرنے کی ٹکنالوجی کی خاطر خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔ یعنی آپ کے گھر پر روبوٹک جھاڑو کو بھی ہیک کرکے اس کو آپ کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ فرانکو کا کہنا ہے کہ: ’’اسرائیلی خفیہ تنظیم موساد نے حز ب اللہ کی سپلائی چین کا پتہ لگا لیا تھا کہ یہ پیجرز کسی شیل کمپنی سے خریدے گئے ہیں۔ ہم نے ہنگری میں بی اے سی کنسلٹنگ کا پتہ لگایا تھا جس نے ان پیجر ز کو سپلائی کرنے کا ٹھیکہ لیا تھا۔ ایران جلد ہی حزب اللہ کو جدید مواصلاتی آلات بھیجے گا،مگر اس نئے نظام کو فعال ہونے میں مہینوں نہیں تو ہفتوں لگیں گے‘‘۔ اس لیے پچھلے چند دنوں میں اسرائیل نے لبنان پر شدید بمباری کی ہے۔
اس سائبر وار سے قطع نظر ماضی میں بھی اسرائیلی ایجنٹوں نے ایسے کئی غیر روایتی حملوں سے مخالفین کو ٹھکانے لگایا ہے۔ اسرائیل کی ایجنسی شن بیٹ نے ۱۹۹۶ء میں غزہ میں حماس کے رکن یحییٰ عیاش کو مارنے کے لیے خفیہ طور پر دھماکا خیز مواد سے لیس موبائل فون ان کے پاس پہنچایا۔ جب فون ان تک پہنچ گیا تو انھی کی آواز پر اس کو ریموٹ سے دھماکا کرکے اُڑا دیا گیا۔
یاد رہے ۱۹۹۷ء میں حماس کے لیڈر خالد مشعل کو قتل کرنے کے لیے موساد کے دو خفیہ ایجنٹوں نے ان کی گردن پر زہر چھڑکا تھا، مگر یہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور یہ دونوں ایجنٹ پکڑے گئے۔ حماس کو ہتھیارفراہم کرنے والے محمود المبحوح ۲۰۱۰ء میں دبئی کے ہوٹل کے کمرے میں مُردہ پائے گئے تھے۔ اماراتی حکام نے ابتدائی طور پر اسے قدرتی موت قرار دیا تھا ، مگر بعد کی تحقیقات میں موساد کی ایک ہٹ ٹیم کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے پردہ فاش ہوا۔۲۰۱۰ء اور ۲۰۲۰ء کے درمیان، تقریباً نصف درجن ایرانی جوہری سائنس دان پُراسرار انداز سے ہلاک یا زخمی ہوئے۔ایران کے چیف جوہری سائنس دان محسن فخر زادہ کو ۲۰۲۰ء میں تہران کے مضافات میں ایک قافلے میں گاڑی چلاتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ کچھ ایرانی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے سیٹلائٹ سے کنٹرول کرنے والی سنائپر رائفل کا استعمال کیا۔ ایسا ہی عمل اسماعیل ہنیہ کے ساتھ برتا گیا۔