یہ کہانی ہے ۱۸۴۶ء میں ’امرتسر معاہدئہ فروخت‘ (Amratsir Sale Deed)کے تحت کشمیر کی ڈوگرہ راجا گلاب سنگھ کو فروخت کرنے کی۔ ان کے مظالم اور پھر جموں اور کشمیر میں شاہی ریاست کا قیام کیسے عمل میں آیا؟ کشمیر کن شرائط پر بیچا گیا اور اس کا کشمیریوں پر کیا اثرات پڑے؟ یہ سب سمجھنے کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ کشمیر کی تاریخ حملہ آوروں سے بھری ہوئی ہے۔ انڈیا کی طرف جانے والے حملہ آور بھی کشمیر کے راستے ہی ہندوستان پہنچتے تھے، جن میں ۳۲۶ قبل مسیح میں مقدونیہ سے آنے والے سکندراعظم اور سائتھنز جیسے کچھ وسطی ایشیائی قبیلے بھی شامل تھے۔
کشمیریوں نے کئی صدیاں پانڈو، موریا، کوشان، گوناندیا، کرکوٹا، اتپالا اور لوہارا جیسے بیرونی حکمرانوں کے تحت گزاریں۔ کشمیر کی تاریخ کو عام طور پر چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے: ہندو راجاؤں کا قدیم دور، جس کی تفصیل کلہن پنڈت کی کتاب راج ترنگنی ' میں ملتی ہے۔ کشمیری مسلمانوں کے دور کو سلاطینِ کشمیر کا دور کہا جاتا ہے، مغل دور کو ’شاہان مغلیہ‘ کا دور کہا جاتا ہے، اور پٹھانوں کے دور کو ’شاہان درانی‘ کا عہد کہا جاتا ہے۔
ان اَدوار میں جو بات مشترک تھی، وہ کشمیریوں کا استحصال ہے، جو تاریخ کی کئی کتابوں میں درج ہے۔ چودھویں صدی میں اسلام کشمیر میں پہنچا اور آبادی کا ایک بڑا حصہ مسلمان ہوگیا۔
۱۸۳۹ءمیں رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد گلاب سنگھ کا مقام مزید نمایاں ہو گیا۔ ۱۸۴۵ءمیں برطانیہ نے یہ کہہ کر جنگ چھیڑ دی کہ ’’راجا رنجیت سنگھ کے ساتھ ۱۸۰۹ء میں طے پانے والے ’معاہدۂ امرتسر‘ کی خلاف ورزی کی گئی ہے، جس کے ذریعے سکھ سلطنت کی مشرقی سرحدیں طے ہوئی تھیں‘‘۔اس جنگ میں سکھ مہاراجا جنگ ہار گیا اور ۹مارچ ۱۸۴۶ء کے ’معاہدۂ لاہور‘ کے تحت طے ہونے والا جرمانہ ادا نہیں کر سکا،اور اسے کشمیر ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کے نام کرنا پڑا۔
اس وقت ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کے گورنر جنرل سر ہنری ہارڈنج نے ۲مارچ ۱۸۴۶ء کو اپنی بہن کو لکھے خط میں گلاب سنگھ کو ’ایشیا کا سب سے بڑا بدمعاش‘ کہہ کر متعارف کرایا۔ گلاب سنگھ کو مہاراجا بنانے کی وجہ گورنر جنرل نے خط میں یوں بیان کی: ’بدقسمتی سے اس کی مدد کرنا لازمی ہے کیونکہ اس نے ہمارے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیا اور اس کی سرحدیں ہماری سرحدوں سے ملتی ہیں۔ ہم بغیر کسی مشکل کے اس کی حفاظت کر سکتے ہیں اور سکھوں کی سلطنت میں سے اسے ایک ٹکڑا دے کر سکھوں کے مقابلے میں اس کی طاقت کو تھوڑا بڑھا سکتے ہیں۔‘
۱۸۲۲ءمیں رنجیت سنگھ نے گلاب سنگھ کو، جس کا تعلق ہندو ڈوگرہ برادری سے تھا، اس کی خدمات کے عوض جموں کا راجا بنا دیا۔۱۸۴۶ء کے ’معاہدۂ امرتسر‘ پر، جسے عام زبان میں ’سیل ڈیڈ‘ بھی کہا جاتا ہے، ۱۶مارچ ۱۸۴۶ءکو دستخط کیے گئے۔ جموں کے مہاراجا گلاب سنگھ اور برطانیہ کی طرف سے دو ارکان، فریڈرک کیوری اور بریور میجر ہنری مونٹگومری لارنس اور اس پر ہارڈنج کی مہر لگائی گئی۔ اس معاہدے کا اطلاق ’دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب کے پہاڑی خطے اور اس کے ماتحت علاقوں، بشمول چھمب پر تھا لیکن اس میں ’لاہول‘ کا علاقہ شامل نہیں تھا، جس پر ۹مارچ۱۸۴۶ء کے ’معاہدۂ لاہور‘ کے آرٹیکل چار کے تحت برطانوی کمپنی کا دعویٰ تھا۔
گلاب سنگھ کو دیے جانے والے اس سارے خطے کی مشرقی سرحدوں کا تعین کرنے کے لیے دونوں اطراف کے ارکان پر مشتمل ایک ٹیم کو سروے کرنے کا ذمہ دیا جانا تھا۔ سرحدوں میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے لیے برطانوی حکام کی رضامندی لازمی تھی۔ پھر مہاراجا اور ہمسایہ ریاستوں کے درمیان ہرقسم کا جھگڑا بھی برطانوی حکام نے ہی طے کرنا تھا۔
معاہدے کے تحت مہاراجا اور ان کے وارثوں کی فوجیں ’پہاڑوں کے اندر‘ یا اس سے متصل علاقوں میں ضرورت پڑنے پر برطانوی فوجیوں کا ساتھ دینے کی پابند بنائی گئیں۔
ایک شق یہ بھی تھی کہ مہاراجا برطانوی حکومت کی رضامندی کے بغیر کسی بھی برطانوی، یورپی شخص کو اپنی خدمت میں نہیں رکھے گا۔
برطانوی حکومت نے عہد کیا کہ وہ ’اس کے دشمنوں سے اس کے علاقوں کی حفاظت کرنے میں‘ مہاراجا گلاب سنگھ کی مدد کرے گی۔ برطانوی برتری کا اعتراف کرتے ہوئے مہاراجا گلاب سنگھ نے ہر سال برطانوی حکومت کو ’ایک گھوڑا، منظور شدہ شال بنانے والی نسل کے بارہ بکرے (چھے نر اور چھے مادہ) اور پشمینہ شالوں کے تین جوڑے‘ دینے کا عہد کیا۔
۱۸۵۷ءمیں انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کے بعد، جو ہندوستان کی آزادی کی پہلی جنگ بھی ہے، برطانیہ نے کچھ دیگر حقوق بھی ان ریاستوں کو منتقل کر دیے۔ ایسا تب ہوا جب برطانیہ کی ملکہ وکٹوریا [م: ۱۹۰۱ء] نے ۱۸۵۸ء میں ایک اعلامیے میں کہا کہ ’ہم مزید علاقوں پر قبضے کے خواہش مند نہیں ہیں‘۔لیکن اس کے بعد ۱۹۲۸ء میں ’میمورینڈم آف پرنسلی سٹیٹس پیپل‘ کے تحت برطانیہ کو اقتدار کے غلط استعمال کی صورت میں ان ریاستوں میں دخل اندازی کا حق حاصل ہوا۔
برطانیہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ گلاب سنگھ، چین کے علاقوں پر دوبارہ حملہ کرنے کی کوشش کرے، کیونکہ ایسا کرنے سے برطانوی اقتصادی مقاصد خاص طور پر تبت سے اُون کی تجارت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا۔ اسی لیے ’معاہدۂ امرتسر‘ میں واضح طور پر یہ لکھا گیا کہ ’’برطانوی رضامندی کے بغیر سرحدوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی‘‘۔
یہاں تک کہ۱۹۵۹ء میں انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو [م: ۱۹۶۴ء] نے بھی کہا کہ اکسائی چن میں سرحدوں کا تعین نہیں کیا گیا، تاہم اکسائی چن کا تمام علاقہ انڈیا کی حدود میں آتا ہے‘۔
پونچھ دراصل گلاب سنگھ کے چھوٹے بھائی دھیان سنگھ کو رنجیت سنگھ سے بطور جاگیر ملا تھا۔ یہ تمام علاقے جموں کشمیر کی شاہی ریاست کا حصہ بن گئے۔پونچھ ایک مسلم اکثریتی علاقہ تھا اور وہاں کے رہائشیوں اور ڈوگرہ حکام کے درمیان ۱۸۳۰ء کے عشرے میں کئی جھڑپیں ہوئیں۔ تاہم، گلاب سنگھ نے طاقت کا استعمال کرکے ان ’بغاوتوں‘ کو کچل دیا۔ ۱۸۴۳ءمیں دھیان سنگھ کی وفات کے بعد گلاب سنگھ پونچھ، بھمبر اور میرپور کو اپنی ملکیت سمجھنے لگا، تاہم کبھی کنٹرول نہیں کر پایا۔
’معاہدۂ امرتسر‘ کے تحت کشمیر کے ساتھ ساتھ گلگت ایجنسی کو بھی بیچا گیا تھا، البتہ ڈوگرہ سلطنت کبھی اس پر مؤثر حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ ۱۸۵۲ءمیں ایک قبائلی بغاوت کے بعد وہاں ڈوگرہ حکمرانی پوری طرح ختم ہو گئی۔ ۱۸۶۰ء میں راجا رنبیر سنگھ (گلاب سنگھ کے بیٹے) نے گلگت پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ پھر ۱۹۳۶ء میں راجا ہری سنگھ نے پونچھ پر قبضہ کر لیا۔
زمینوں پر قبضے اور سرحدوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ڈوگرہ حکمرانوں نے قانون سازی کر کے ۱۹۳۹ء کے جموں کشمیر آئین ایکٹ کا نقشہ بنا کر، اپنی فوج قائم کر کے اور کئی معاہدوں کے ذریعے اپنی طاقت کو مضبوط کیا۔جب گلاب سنگھ نے کشمیر کا کنٹرول سنبھالا تو اس وقت تقریباً ۷۵فی صد آبادی کا انحصار کاشت کاری پر تھا، اور یہی ریاست کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ بھی تھا۔ گلاب سنگھ نے خود کو کشمیر کی تمام زمینوں کا مالک بنا دیا۔
رابرٹ تھورپ ہندوستان میں برطانوی فوج کے ایک افسر نے لکھا کہ ’’یہ اتنی بڑی ناانصافی ہے کہ اس سے ’جدید تہذیب کی روح کی نفی ہوتی ہے اور یہ چیز اس مذہب کے ہر اصول کے بھی بالکل اُلٹ ہے، جس کے پیروکار ہونے کا ہم دعویٰ کرتے ہیں‘۔
ڈاکٹر ایلمسلی ایک اسکاٹش مشنری ڈاکٹر نے کشمیر میں بہت وقت گزارا، لکھا: ’’لوگوں کا شرمناک استحصال۔ ہم انگریزوں کے لیے شرمناک ہے کیونکہ ہم نے اس ملک کو اس کے موجودہ ظالم حکمرانوں کو بیچ دیا، ہزاروں جیتے جاگتے انسانوں کے ساتھ، جنھیں ہم نے دائمی غلام بنا دیا‘‘۔
جب گلاب سنگھ نے کشمیر کا کنٹرول سنبھالا تو اس وقت تقریباً ۷۵ فی صد آبادی کا انحصار کاشت کاری پر تھا اور یہی ریاست کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ بھی تھا۔ گلاب سنگھ نے سکھوں کے دور کے نظام کو جاری رکھا اور خود کو کشمیر کی تمام زمینوں کا مالک قرار دیا کیونکہ وہ ’معاہدۂ امرتسر‘ کے ذریعے کشمیر کو خرید چکا تھا۔ کسانوں سے ان کی زمینوں کی وہ ملکیت تک چھین لی گئی، جو افغانوں اور سکھوں کے دور سے ان کے پاس تھی۔ یعنی اب کسان مالک نہیں کرایہ دار تھا اور زمین پر کام کرنے کے لیے اسے ٹیکس دینا پڑتا تھا، جسے ’حق مالکان‘ کہا جاتا تھا۔ مگر کسی وجہ سے ’حق مالکان‘ کی ادائیگی نہیں ہو پاتی، تو کسان کو زمین سے خارج کر دیا جاتا تھا۔
یہ بات واضح ہے کہ ۱۸۴۶ء کے بعد ڈوگرہ دور میں کئی ایسی پالیسیاں اور عمل متعارف کرائے گئے، جن سے کشمیری عوام اور خاص طور پر مسلمان کاشت کاروں کو بہت نقصان پہنچا۔ کسانوں سے ان کی زمینوں کی ملکیت تک چھین لی گئی۔
۱۹۳۰ءمیں جاگیرداروں کو اجناس پر ٹیکس دینے کے نظام اور اس کی وجہ سے ہونے والے استحصال کے خلاف کاشت کاروں کا احتجاج شروع ہوا۔حکومت نے مسئلے کے حل کے لیے ایک ’جاگیردار کمیٹی‘ بنائی، لیکن تماشا یہ کہ اس کے تمام ارکان خود جاگیردار تھے۔کمیٹی نے جاگیر میں کرایہ داروں کے حقوق اور جاگیرداروں کے حقوق اور فرائض وضع کیے۔ کمیٹی نے یہ سفارش بھی کی کہ محصولات کو اجناس کی جگہ نقد کی شکل میں وصول کیا جائے اور اس کی وجہ سے جاگیرداروں کو ہونے والے ممکنہ نقصان کا ازالہ انھیں نئی جاگیریں دے کر کیا جائے‘‘۔
ان سفارشات کو حکومت نے تسلیم کر لیا، تاہم زرعی شعبے میں اس تبدیلی کا غلط فائدہ اٹھایا گیا، جس کے نتیجے میں کاشت کاروں کا فائدہ ہونے کے بجائے ان کے حالات مزید بگڑ گئے۔ جاگیرداروں نے اکثر نقصان دکھا کر نئی جاگیریں حاصل کر لیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے حکومت مخالف جذبات نے پُرتشدد رخ اختیار کر لیا۔
تب سے ۱۳ جولائی کشمیر میں ’یوم شہدا‘ کے طور پر منایا جاتا ہے، ایک ایسا دن جب عام کشمیری اپنے حقوق اور عزّتِ نفس کے لیے شہید ہوئے۔ اس کے بعد پابندیوں کو سخت کرتے ہوئے دفعہ ۱۴۴ بھی نافذ کردی گئی، جس کے تحت پورے کشمیر میں میٹنگوں، مظاہروں اور جلوسوں پر پابندی لگا دی گئی۔ساتھ ہی کشمیر دربار نے اپنے ایک بیان میں پولیس کی فائرنگ کو جائز قرار دیا، جس سے حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔ حکومت کشمیر کے اس رویے پر ریاست کے باہر بھی سخت تنقید ہوئی۔ ریاست کے اندر احتجاجی مظاہرے ہوئے اور ۱۳ جولائی کے اس المیے پر غیر جانب دار تفتیشی کمیٹی بنائے جانے کا مطالبہ کیا گیا، جسے حکومت نے نظر انداز کر دیا۔
راجا ہری سنگھ کا اصرار تھا کہ ’’میری بنائی ہوئی انکوائری کمیٹی غیر جانب دار ہے۔ اس کمیٹی نے پولیس کارروائی کو جائز قرار دیا، جس سے کشمیریوں کا غصہ اور بڑھ گیا۔اسی دوران کشمیر میں جاری شورش پر قابو پانے کے لیے راجا ہری سنگھ کو ’معاہدۂ امرتسر‘ کے آرٹیکل نو کے تحت ہندوستان کی انگریز حکومت سے مدد ملی۔ ’رائفل بریگیڈ‘ کو جموں میں ’بارڈر ریجمنٹ‘ کو میرپور اور ’ہسارز‘ کو جموں اور سرحدوں کی پٹرولنگ کے لیے تعینات کیا گیا۔
یہاں اس بات کو ذہن میں رکھنا اہم ہے کہ ہندوستان کے برعکس، کشمیر کی تحریک، برطانوی راج کے خلاف نہیں تھی۔ کشمیر کی تحریک ایک مسلمان اکثریتی آبادی پر ہندو ڈوگرہ حکمرانوں کے مظالم کا نتیجہ تھی۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ ڈوگرہ حکمرانوں نے ہندو پنڈتوں کے ایک بااثر طبقے کو کافی مراعات دے رکھی تھیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ مظالم کے خلاف اس انقلاب میں مسلمانوں کے ساتھ کشمیری ہندوئوں کا ایک حصہ بھی شامل تھا۔ اس تحریک کی قیادت شیخ محمد عبداللہ اور پریم ناتھ بزاز کے ہاتھ میں تھی۔
اس رسالے میں ریڈنگ روم پارٹی کے ارکان کی طرف سے ملنے والی معلومات کی بنا پر کشمیریوں کی حالت زار پر آرٹیکل شائع ہونے لگے، جس سے کشمیر کے باہر بھی کشمیر کی بات ہونے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک وسیع ہوتی گئی۔ ۱۹۳۲ میں شیخ محمد عبداللہ نے آزادی کی اس تحریک کی قیادت سنبھالی اور اسی سال آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس کا بھی قیام عمل میں آیا۔ دیگر حقوق کے ساتھ ساتھ انھوں نے ۱۹۳۲ء میں کسان کو اس کی زمین پر ملکیت کے حق کی بحالی کا مطالبہ بھی کیا۔
اسی سال شیخ محمدعبداللہ کو گرفتار کیا گیا، ان پر مقدمہ چلا اور انھیں قصوروار ٹھیرایا گیا۔ ان پر مجرمانہ سازش، حکومت کے خلاف جنگ کرنے، جنگ کی نیت سے اسلحہ جمع کرنے، غداری، منافرت پھیلانے اور امن و امان کو نقصان پہنچانے کے الزام لگائے گئے۔ اس کیس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیخ محمد عبداللہ کو جیل بھیج دیا گیا لیکن پھر رہا کر دیا گیا۔ تاہم، تب تک کشمیر کی تحریک کافی زور پکڑچکی تھی۔ کشمیریوں نے اپنی شکایات کی تفتیش کے ساتھ ساتھ سیاسی، معاشی اور مذہبی حقوق کے اپنے مطالبات بھی جاری رکھے۔
مہاراجا نے آخر کار یہ اعلان کیا کہ وہ ’مناسب‘ مطالبات کو پورا کرے گا اور پھر سربی جے گلینسی کی صدارت میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا جس کا مقصد مسلمانوں اور دوسروں کی شکایات کی تفتیش کرنا تھا۔اس کمیشن نے ۲۲ مارچ ۱۹۳۲ء کو اپنی رپورٹ جاری کی، جس کے مطابق تشدد کی وجوہ میں کئی سیاسی اور معاشی مسائل تھے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کشمیری مسلمانوں کے لیے تعلیم میں اسکالرشپ اور ریاستی نوکریوں میں ملازمت کے ساتھ ساتھ سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کی سفارش بھی کی۔
’گلینسی رپورٹ‘ کے بعد کشمیر میں آئینی اصلاحات کے لیے ’کشمیر کانسٹی ٹیوشنل ریفارمز کانفرنس‘ تشکیل دی گئی، جس کے بعد فرینچائز کمیٹی بھی بنی۔ ان کمیٹیوں کی سفارشات کی بنا پر ۱۹۳۲ء میں راجا ہری سنگھ نے ایک آئینی ایکٹ متعارف کرایا، جس کے تحت ’پرجا سبھا‘ کے نام سے ایک قانون ساز اسمبلی کا قیام ممکن ہو گیا، جس کے پاس قانون سازی کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹو اور عدالتی اختیارات بھی تھے۔
’گلینسی کمیشن‘ نے دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ان کی زمینوں کی ملکیت واپس کرنے کی اور ان ریاستی زمینوں کی منتقلی اور انھیں کرائے پر دینے کے حقوق کی، جن کی ملکیت تو حکومت کی پاس ہے، لیکن جو عام شہریوں کے زیر استعمال ہیں، سفارش بھی کی تھی۔مہاراجا نے ان سفارشات پر عمل کرتے ہوئے زمینیں ان کسانوں کے نام کرنے کا اعلان کیا، جن کے پاس تب تک صرف ان زمینوں کو استعمال کرنے کا حق تھا۔ جموں صوبے میں بھی ایسا ہی ہوا۔
تاہم، ’گلینسی کمیشن‘ کی سفارشات مجموعی طور پر ناکام رہیں، کیونکہ ان پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا۔ تیس اور چالیس کے عشروں میں کشمیر میں مہاراجا کے خلاف تحریک بھی چلتی رہی اور حکومت کی طرف سے اسے دبانے کی کوششیں بھی۔
۱۹۴۱ء میں غلام عباس نے مسلم کانفرنس کو دوبارہ منظم کیا اور نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس دونوں نے ہی اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کر دیں۔۱۹۴۳ء میں بغاوت کے خدشے سے مہاراجا نے آئینی اصلاحات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دینے کے احکامات جاری کیے۔ اس کمیشن کا مقصد ریاست کی حفاظت، سالمیت اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے ساتھ تمام برادریوں کا ایک دوسرے کے قریب لانا، معیشت کی ترقی اور بدعنوانی کا خاتمہ بتایا گیا۔
۱۹۴۰ء کے عشرے میں نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس دونوں نے کشمیر کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر شرکت کی اور ڈوگرہ انتظامیہ میں نمائندگی کی کمی کو واضح کیا۔ ۱۹۳۰ء کے بعد سے شروع ہونے والی آئینی اصلاحات سے عوام کو کسی حد تک ریاستی انتظامی نظام میں حصہ لینے کا محدود موقع ملا۔ ان اصلاحات سے کشمیریوں میں سیاسی شعور اور آگاہی بھی پیدا ہوئی۔
مہاراجا نے جن اصلاحات کا آغاز کیا تھا ممکن ہے کہ ان سے آگے چل کر کشمیر میں ایک منتخب حکومت اور اسمبلی وجود میں آتی، تاہم برطانوی ہندوستان کی بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال اور شاہی ریاستوں کے الحاق کے سوالات کا کشمیر پر گہرا اور دیرپا اثر پڑا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد انتخابات میں برطانیہ میں چرچل کی کنزرویٹو پارٹی ہار گئی اور لیبرپارٹی نے اقتدار سنبھالا۔ برطانیہ شدید اقتصادی مشکل میں تھا اور اس کے دیوالیہ ہونے کا بھی خدشہ تھا۔اس صورت حال کی وجہ سے وزیر اعظم ایٹلی نے برطانیہ کی انڈیا پالیسی تبدیل کر دی۔
۱۹فروری۱۹۴۶ءکو برطانیہ نے تین وزرا کو انڈیا بھیجنے کے فیصلے کا اعلان کیا، ان کے ذمے ’مسئلہ انڈیا‘ کا حل تلاش کرنا تھا۔اس ’کیبنٹ مشن‘ کا ایک مقصد مقامی راجوں مہاراجوں اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنا بھی تھا۔۲۴؍ اپریل ۱۹۴۶ء کو ’کیبنٹ مشن‘ سرینگر پہنچا تو شیخ محمد عبداللہ نے انھیں ایک میمورنڈم بھیجا۔ اس میں لکھا تھا کہ ’ہم یہ درخواست کرتے ہیں کہ اس رشتہ پر نظر ثانی نہایت اہم ہے کیونکہ تقریباً ایک سو سال پہلے کشمیر کی زمین اور اس کے عوام کو برطانیہ نے بیچ دیا تھا۔ کشمیری عوام اپنی تقدیر بدلنے کے لیے پُرعزم ہیں اور ہم برطانوی مشن سے ہمارے مقصد کے منصفانہ کردار اور اس کی طاقت کو پہچاننے کی اپیل کرتے ہیں۔ آج کشمیری عوام کا ’قومی مطالبہ‘ محض ایک ذمہ دار حکومت کا قیام نہیں، بلکہ ’مکمل آزادی‘ ہے‘۔
آزادی کے اس مطالبے کے بعد ۱۲ مئی ۱۹۴۶ء کو ’کیبنٹ مشن میمورنڈم‘ پاس کیا گیا۔ اس کے پانچویں پیراگراف میں لکھا ہے: ’ریاست کے وہ حقوق جو اسے برطانوی تاج کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے حاصل ہیں ان کا وجود اب ختم ہوتا ہے‘۔اس کے بعد راجا ہری سنگھ کے پاس تین راستے تھے: انڈیا کے ساتھ الحاق، پاکستان کے ساتھ الحاق، یا خود مختاری۔ راجا ہری سنگھ نے فوری طور پر انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان نہ کر کے بظاہر خود مختار رہنے کا فیصلہ کیا۔ مگر چند ہفتوں بعد صورتِ حال تبدیل ہوگئی۔