بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ۱ۙ لَيْسَ لِوَقْعَتِہَا كَاذِبَۃٌ۲ۘ (الواقعہ ۵۶:۱-۲) جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا تو کوئی اُس کے واقع ہونے کو جھٹلانے والا نہ ہوگا۔
یہ سورئہ واقعہ کی آیات ہیں۔ سورئہ واقعہ کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا بیان ہے کہ یہ سورئہ طٰہٰ کے بعد اور سورئہ شعرا سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ سورئہ طٰہٰ کے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ ہجرتِ حبشہ کے زمانے میں نازل ہوئی تھی۔ اس لیے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ سورہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے پانچویں یا چھٹے سال میں نازل ہوئی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ تفصیل کے ساتھ عالمِ آخرت کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ نیز جنت اور اہلِ جنت کا حال اور دوزخ اور اہلِ دوزخ کا حال بیان کیا گیا ہے۔توحید اور قرآن کے متعلق کفارِ مکّہ کے شبہات کی تردید کی گئی ہے۔
فرمایا گیا: جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا تو اس کے واقع ہونے کو جھٹلانے والا کوئی متنفس نہ ہوگا۔ ہونے والی بات سے مراد قیامت ہے۔ وہ تہ و بالا کردینے والی آفت ہوگی۔ زمین اس وقت یکبارگی ہلا ڈالی جائے گی اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے کہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے۔
آغازِ کلام خود اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کے پیچھے کچھ خاص حالات تھے، جن کے پیش نظر یکایک یہ بات اس طرح شروع کی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن چیزوں کے ماننے کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے ان میں ایک اللہ تعالیٰ کی توحید اور دوسری چیز تھی آخرت۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر بھی لوگ ناک بھوں چڑھاتے تھے، لیکن سب سے زیادہ جس چیز کو بڑے اچنبھے اور بہت حیرت سے وہ سنتے تھے اور جس چیز کا مذاق اُڑاتے تھے، اور جسے بالکل ناممکن اور مشتبہ سمجھتے تھے، وہ آخرت تھی۔
آغازِ کلام بتا رہا ہے کہ اس بات کے لوگوں میں چرچے ہو رہے ہیں اور آخرت کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ حیرت سے لوگ کہتے ہیں: بھلا یہ ایک عجیب بات سنائی جارہی ہے کہ زمین اور سورج اور چاند، یہ سب ختم کردیے جائیں گے اور سارے انسان ایک دم ختم ہوجائیں گے اور اس کے بعد دوبارہ وہ اُٹھائے جائیں گے اور یہ زمین و آسمان پھر بنیں گے۔ ان ساری چیزوں کے اُوپر لوگ حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔
آغازِ کلام اس طرح کیا گیا ہے کہ وہ ہونے والی بات جب پیش آئے گی، اس وقت کوئی متنفس اس کو جھٹلانے والا نہ ہوگا۔ یعنی آج اس کو تم جھٹلا رہے ہو، اس کو غلط قرار دے رہے ہو، اور یہ کہہ رہے ہو کہ یہ محض زبان کی جادوگری ہے، اور عجیب عجیب باتیں ہیں جو سنائی جارہی ہیں۔ لیکن جس وقت تمھاری آنکھوں کے سامنے وہ واقعہ پیش آجائے گا اوراپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ وہ واقعہ موجود ہے، اس وقت کسی کی یہ ہمت نہیں ہوگی اور کسی کے لیے ممکن نہیں ہوگا کہ کوئی شخص اس کو جھٹلا سکے اور یہ کہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔
آج اس دنیا میں جیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اتنا عظیم الشان سورج فضا میں معلّق ہے۔ یہ زمین اور چاند فضا میں معلّق ہیں۔ آدمی کو کیوں نہیں حیرت ہوتی؟ کیوں نہیں کوئی شخص ان چیزوں کو جھٹلاتا؟ اگر کوئی شخص کسی سے کہے کہ سورج نکلا ہوا ہے تو کوئی یہ نہیں کہتا کہ تم غلط بات کہتے ہو۔ ایک چیز جب آنکھوں کے سامنے موجود ہے، چاہے وہ پہلے کتنی ہی حیرت انگیز آدمی کو معلوم ہوتی ہو، لیکن جب آنکھوں کے سامنے موجود ہے تو پھر کوئی شخص اسے جھٹلا نہیں سکتا۔
اب اس کے بعد قیامت کے متعلق مختصر الفاظ میں بتایا جاتا ہے:
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ۱ۙ (الواقعہ ۵۶:۱) جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گا۔
مراد ہے آخرت اور قیامت۔ قیامت کے لیے یہاں واقعہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور کہیں سعہ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ سعہ سےمراد گھڑی، یعنی وہ مقررہ وقت جو دنیا کے ختم کرنے کے لیے طے کردیا گیا ہے، اور واقعہ کے معنی ہیں ہونے والی بات، یعنی جس کا ہونا بالکل یقینی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جب وہ ہونے والی بات پیش آجائے گی۔
لَيْسَ لِوَقْعَتِہَا كَاذِبَۃٌ۲ۘ (۵۶:۲)کوئی اس کے واقع ہونے کو جھٹلانے والا نہ ہوگا۔
اس کے دو معنی ہیں: ایک یہ کہ اس کے واقع ہوجانے کے بعد کسی شخص کے بس میں نہیں ہوگا کہ اس کو جھٹلا سکے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تم اس کو جھٹلا رہے ہو، اس کا مذاق اُڑا تے ہو، لیکن جب وہ واقع ہوجائے گی تو کسی کے بس میں یہ نہیں رہے گا کہ اس کا انکار کرسکے اوراس کو جھٹلا سکے۔ وہ آنکھوں کے سامنے ہوگی اور لوگ خود اس کو بھگت رہے ہوں گے۔
دوسرے معنی یہ ہیں کہ کسی میں یہ طاقت نہیں ہوگی کہ اس واقعہ کو غیر واقعہ بنا دے، یعنی اس کے واقع ہوجانے کے بعد کوئی اس کا ٹالنے والا نہیں ہوگا۔ کوئی اس کا روکنے والا نہیں ہوگا۔ کسی میں اتنا زور نہیں ہوگا کہ قیامت جب واقع ہورہی ہو تو اس کو وہ تھام لے اور روک دے اور اس کو واقع نہ ہونے دے۔
اس میں خود بخود ایک چیلنج پوشیدہ ہے۔ یہ الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ کچھ لوگ اس کو جھٹلا رہے تھے اوراس کو ماننے سے انکار کر رہے تھے۔ گویا ان کے لیے اس کے اندر ایک چیلنج ہے کہ آج تم اس کو جتنا جھٹلا سکتے ہو جھٹلا لو، لیکن جب وہ واقع ہوجائے گی تو تمھارے بس میں نہ رہے گا کہ تم یہ کہو کہ یہ اب واقع نہیں ہوئی، اور نہ یہ ہوسکے گا کہ اس کو واقعہ سے غیرواقعہ بنا دو۔
خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ۳ۙ (۵۶:۳) وہ تہ و بالا کردینے والی آفت ہوگی۔
یہاں وہ کیفیت بیان کی جارہی ہے کہ جب قیامت آئے گی تو اس کی کیفیت کیا ہوگی؟
پہلی بات تو یہ فرمائی گئی کہ وہ اُٹھانے والی اور گرانے والی ہوگی۔ ایک مطلب تو اس کا صاف ہے کہ وہ تہہ و بالا کردینے والی ہوگی۔ جیسے ہم اُردو زبان میں بھی بولتے ہیں تہہ و بالا کردینا۔
دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ وہ ایک ایسی چیز ہو گی کہ جو آج اس دُنیا میں بہت بڑے بنے ہوئے ہیں وہ چھوٹے بن کر رہ جائیں گے اور جو چھوٹے بنے ہوئے ہیں وہ بڑے بن جائیں گے۔
گویا دُنیا میں جو کچھ بھی لوگوںکے مراتب اور مناصب اور ان کی حیثیتیں قائم ہیں، یہ وہاں قائم رہنے والی نہیں۔ اس دُنیا میں لوگوں کی حیثیتیں نامعلوم کس کس طرح قائم ہوتی ہیں۔ کسی کے پاس دولت ہے، اس وجہ سے وہ بڑی شخصیت بنا ہوا ہے درآں حالیکہ وہ آدمی کی حیثیت سے نہایت ذلیل اور نہایت گھٹیا انسان ہے۔ کسی کو اللہ نے اقتدار دے دیا ہے اور وہ بڑی چیز بن گیا ہے درآں حالیکہ انسان ہونے کی حیثیت سے بہت گرا ہوا آدمی ہے۔ کوئی آدمی ذلیل و خوار بن کے رہ جاتا ہے۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں سمجھی جاتی حالانکہ اخلاقی حیثیت سے وہ بڑا گریٹ آدمی ہے۔ لہٰذا جب قیامت آئے گی تو اس وقت دُنیا کے یہ غلط اور مصنوعی مرتبے سب ختم ہوجائیں گے۔ حقیقت میں کسی انسان کا جو مرتبہ ہے، وہ اس کے مطابق reduce ہوکر رہ جائے گا۔ دُنیا میں اگر کوئی آدمی بہت بڑی چیز بنا ہوا ہے، تو وہاں اس کی ساری بڑائی ختم ہوکر رہ جائے گی اور اس کی اصل حیثیت باقی رہے گی۔ اگر کوئی آدمی اس دُنیا میں گراکر رکھا گیا ہے لیکن آخرت میں وہ اُٹھایا جائے گا اور اُس حیثیت پر پہنچایا جائے گا جو اُس کی اصل حیثیت ہے۔
اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا۴ۙ وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۵ۙ فَكَانَتْ ہَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا۶ۙ (۵۶:۴-۶) جب زمین پھڑپھڑائے گی اور بُری طرح پھڑپھڑائے گی اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے کہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے۔
اب چند الفاظ میں قیامت کی کیفیت یہ بیان کی گئی ہے کہ زمین ہلا ماری جائے گی، یعنی ایک شدید زلزلہ ہوگا۔ اس نوعیت کا زلزلہ نہیں ہوگا جیسے کہ اس دنیا میں ہوتے ہیں کہ کسی ایک حصے میں آگیا اور وہ بھی اس شدت کا نہیں ہوگا بلکہ ایک معمولی حرکت ہے کہ جس سے بستیاں کی بستیاں اُلٹ جاتی ہیں۔ اُس وقت پوری زمین ہلا ڈالی جائے گی۔ پورے کرئہ زمین کے اُوپر زلزلہ آئے گا اور یہ اس قدر زبردست زلزلہ ہوگا کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ اس طرح سے ریزہ ریزہ ہوں گے جیسے پراگندہ غبار ہوں۔ وہ اتنے باریک ذرات ہوں گے کہ ہوا اُنھیں اڑائے پھرے گی۔ ان بلندوبالا پہاڑوں کی حالت ایسی ہوگی جیسے گردوغبار۔
اب اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ انسانوں کا وہاں کیا انجام ہوگا؟
وَّكُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً۷ۭ فَاَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۸ۭ وَاَصْحٰبُ الْمَشْـَٔــمَۃِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ۹ۭ (۵۶:۷-۹) تم لوگ اس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہوجائو گے: دائیں بازو والے، سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا۔ اور بائیں بازو والے، تو بائیں بازو والوں (کی بدنصیبی) کا کیا ٹھکانا۔
اس روز تمام انسان تین حصوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔یہ تقسیم سراسر اخلاقی بنیادوں پر ہوگی۔ یہ تقسیم اس لحاظ سے نہیں ہوگی کہ کسی کا نسب کیا ہے اور کون کس کی اولاد ہے، نہ اس لحاظ سے ہوگی کہ اس کے پاس دولت کتنی ہے، نہ اس لحاظ سے ہوگی کہ اس کو خطابات کیا ملے ہوئے ہیں؟ یہ تقسیم ان حیثیتوں پر نہیں ہوگی بلکہ خالص اخلاقی بنیادوں پر انسان تین اقسام میں منقسم ہوں گے۔ اب وہ قسمیں بتائی جارہی ہیں:
فَاَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۸ۭ (۵۶:۸) دائیں بازو والے، سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا۔
ایک گروہ وہ ہوگا جو اصحابِ میمنہ ہے۔ مَآ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۸ۭ اصحابِ میمنہ کے کیا کہنے۔ میمنہ کو اگر یُمن سے لیا جائے تو اس کے دو ہی روٹس ہوسکتے ہیں: یُـمْن اور یَمین۔میمنہ کا لفظ اگر یُـمْن سے لیا جائے تو یَمین کے عربی زبان میں معنی ہیں سعادت اور خوش حالی اور نیک بختی۔ اس مفہوم میں یہ نیک فال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی وہ لوگ کہ جو دنیا میں اپنے نیک اعمال کی وجہ سے وہاں اُمیدوار ہیں کہ ہمارا انجام اچھا ہوگا۔ گویا اصحاب المیمنہ کے معنی یہ ہوئے کہ وہ لوگ کہ جو Optimist ہیں،یعنی اچھی توقعات رکھتے ہیں، اللہ کی رحمت کے اُمیدوار ہیں، مایوس نہیں ہیں۔ ایک معنی اصحاب میمنہ کے یہ ہیں۔
اگر اس لفظ کو یَمین سے لیا جائے تو عربی زبان میں یَمین سیدھے ہاتھ کو کہتے ہیں۔ عربی زبان کے محاورے کی رُو سے سیدھے ہاتھ پر کسی شخص کو لینا یا بٹھایا جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ آپ اس کو عزّت دے رہے ہیں، اور بائیں ہاتھ پر کسی شخص کو لینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس کا درجہ گرا رہے ہیں اور اس کی حیثیت کم کر رہے ہیں۔ یہ گویا عربوں کے ہاں دستور ہے۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ کسی کو سیدھے ہاتھ والا کہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ بلند درجے کا ہے اور کسی کو بائیں ہاتھ والا کہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ پست درجے اور کم درجے کا ہے۔ یہ دونوں معنی اصحاب المیمنہ کے ہیں۔
اصحاب میمنہ کو اگر یَمین سے لیا جائے تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کواللہ تعالیٰ دائیں جانب جگہ دیں گے، اور اگر یُمن سے لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ کہ جو پہلے سے اعمال اور اپنے اخلاق اور اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کی بناپر اُمیدوار ہیں کہ ان کے ساتھ اچھا معاملہ کیا جائے جس کو انگریزی میں Pessimistic اور Optimistic کہتے ہیں، یعنی ایک وہ آدمی ہے کہ جو اچھی اُمید رکھتا ہے اور ایک وہ آدمی ہے جو پہلے ہی سے مایوس ہے۔ جس آدمی کو پہلے سے اپنا بُرا انجام نظر آرہا ہے وہ اصحاب مَشْـَٔــمَۃِ ہیں۔ شُؤْم کہتے ہیں نحوست اور بدبختی کو۔ اور جو شخص بُرے انجام کے خطرے میں مبتلا ہو، گویا وہ شُؤْم میں مبتلا ہے۔ اصحابِ میمنہ وہ لوگ ہیں جو اُمیدوا ر ہیں اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ ان سے اچھا معاملہ کرے۔ جو اپنے اعمالِ نیک کی وجہ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو دوزخ میں نہیں بھیجے گا۔
گویا اصحاب المیمنہ کےیہ معنی بھی ہیں کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند درجے پر رکھے جائیں گے، جن کو عزت دی جائے گی، شرف دیا جائے گا۔ اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ جو آخرت میں اپنے نیک انجام کے متوقع ہوں گے اور جن پر عالمِ یاس طاری نہیں ہوگا۔
وَاَصْحٰبُ الْمَشْـَٔــمَۃِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ۹ۭ(۵۶:۹) بائیں بازو والے، تو بائیں بازوں والوں (کی بدنصیبی) کا کیا ٹھکانا۔
مَشْـَٔـــمَہ کا لفظ شُؤْم سے نکلا ہے۔ شُؤْم کے معنی بدفالی کے ہیں۔ اصحابِ مَشْـَٔـــمَہ سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو عالمِ آخرت میں جب اٹھائے جائیں گے تو ان پر یاس کی حالت طاری ہوگی اور کوئی نیک اُمید نہیں ہوگی جس کو pesimistic کہتے ہیں ۔ وہ کوئی اچھی اُمیدیں نہ رکھتے ہوں گے۔ ان کو یہ خیال ہوگا کہ ہم دنیا میں جو کچھ کر کے آئے ہیں اس وجہ سےہمارا انجام بُرا ہوگا۔
مرنے کے بعد ہی آدمی کو معلوم ہوجاتا ہے کہ میں یہاں کس حیثیت میں آیا ہوں بلکہ عین مرنے کے وقت ہی آدمی کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں میں کس حیثیت سے آیا ہوں؟ یہ بالکل ایسا ہے کہ جیسے کوئی مجرم ہو اور جب پولیس اس کے دروازے پر اس کو پکڑنے کے لیے آتی ہے، تو وہ آدمی اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ پولیس والے ہتھکڑی لیے ہوئے آئے ہیں۔ اس وجہ سے اسی وقت اس کو معلوم ہوجاتا ہے کہ میں آج مجرم کی حیثیت سے پکڑا جائوں گا۔ اگر کسی آدمی کو کسی بڑے دربار میں کوئی بڑا رُتبہ دینے کے لیے اس کو بلایا جاتا ہے، تو جو لوگ اس کو لینے کے لیے آتے ہیں ان کو دیکھتے ہی اس کو معلوم ہوجاتا ہے کہ میں عزّت کے ساتھ لے جایا جارہا ہوں۔ اسی طرح مرنے کے وقت ہی آدمی کو پتہ چل جاتا ہے کہ کس قسم کے فرشتے، کس شکل و صورت میں آئے ہیں۔ اسی وقت معلوم ہوجاتا ہے کہ گویا میں مجرم کی حیثیت سے جارہا ہوں یا میں مہمان کی حیثیت سے جارہا ہوں۔ اس وجہ سے اصحابِ مشئمہ وہ لوگ ہیں کہ جن کو اوّل روز سے یہ معلوم ہے کہ ہم مجرم کی حیثیت سے آئے ہیں اور ہمارا انجام خراب ہے۔ اصحابِ میمنہ وہ ہیں جن کو اوّل روز سے اُمید ہے کہ ہمارے ساتھ اچھا ہی معاملہ کیا جائے گا۔ ہم مہمان کی حیثیت سے جارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ بُرا معاملہ نہیں کرے گا۔
فَاَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۸ۭ (۵۶:۸) دائیں بازو والے، سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا۔
اصحاب میمنہ کے کیا کہنے؟ جیسے ہم اُردو زبان میں بولتے ہیں کہ اس کے کیا کہنے۔ اس کاتو بڑا ہی مزہ ہے۔
وَاَصْحٰبُ الْمَشْـَٔــمَۃِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ۹ۭ (۵۶:۹) اور بائیں بازو والے، تو بائیں بازو والوں (کی بدنصیبی) کا کیا ٹھکانا۔
اصحاب المشئمہ ان کا کیا پوچھتے ہو؟جیسے ہم اُردو میں بولتے ہیں اس کا کیا پوچھتے ہو؟ مطلب یہ ہے کہ اس کا تو بُرا حال ہی ہوگا۔
وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۱۰ۚۙ (۵۶:۱۰) اور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں۔
سابقون سے مراد یہ نہیں ہے کہ جو لوگ پہلے ایمان لائے، بلکہ سابقون سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو اللہ کے دین کے معاملے میں، نیکی اور بھلائی کے معاملے میں دوڑ کر اور لپک کر حصہ لیں۔سب سے پہلے وہ حصہ لینے والے ہوں جیسے ہم کہتے ہیں کہ وہ لوگ صف ِ اوّل کے لوگ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ جو ہر معاملے میں پیش پیش ہوں۔ نیکی اور بھلائی میں تو سابقون کا لفظ ایسے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، مثلاً لوگوں کے اُوپر اگر کوئی آناً فاناً مصیبت آئی ہو، تو سب سے پہلے جو لوگ نکل کر آئیں گے اور دوڑیں گے اس بات کے لیے کہ جاکر ان کو اس مصیبت سے بچائیں، وہ سابقون ہیں۔اسی طرح سے مثلاً دینِ اسلام کے اُوپر کوئی سخت وقت آگیا ہے، دشمنوں کا کوئی نرغہ ہے یا اعدا کا کوئی حملہ ہے۔ سب سے آگے بڑھ کر جو لوگ سینہ سپر ہوں گے وہ سابقون ہوں گے۔ غرض جو لوگ نیکی اور بھلائی کے ہرمعاملے میں سبقت کرنے والے ہیں اور خدا کے دین کے ہر کام میں سبقت کرنے والے ہیں، وہ سابقون ہیں۔
اُولٰۗىِٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَ۱۱ۚ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۱۲ (۵۶:۱۱-۱۲) وہی تو مقرب لوگ ہیں جو نعمت بھری جنتوں میں رہیں گے۔
وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرب ہیں۔ ان کی حیثیت مقربین کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نزدیک ان کو لے آئے گا۔
ثُـلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۱۳ۙ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۱۴ۭ (۵۶:۱۳-۱۴) اگلوں میں سے بہت ہوں گے اور پچھلوں میں سے کم۔
ایک جم کثیر ہوں گے اوّلین میں سے اور ایک قلیل گروہ ہوگا آخرین میں سے۔ یہ اوّلین اور آخرین اس لحاظ سے نہیں ہے کہ تاریخ کے ابتدائی دور میں وہ بہت تھے اور تاریخ کے آخری دور میں وہ کم تھے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہرنبیؑ کی اُمت میں ابتدائی دور کے جو لوگ ہیں ان میں ایسے سابقون کی تعداد بہت ہوگی اور اس نبی کی اُمت کے آخری دور میں ان کی تعداد کم ہوگی۔
نبوت جب واقع ہوتی ہے اور کوئی نبی جب کھڑا ہوتا ہے تو اس کے اُوپر جو لوگ ایمان لاتے ہیں، ان کے سامنے حقائق خوب ٹھوک بجاکر پوری طرح سے اس طرح سے واضح ہوجاتے ہیں کہ ان کی بہت بڑی کثیر تعداد سچّے دل سے ایمان لاتی ہے۔ نبی جن حالات میں مبعوث ہوتا ہے اور جن حالات میں کام کرتا ہے، ان میں کوئی کچا آدمی اس کے ساتھ چل نہیں سکتا۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی کچا آدمی اس کے ساتھ چل سکے۔ نبی کی اُمت کے اُو پر آفتیں ٹوٹتی ہیں، سخت سے سخت مظالم اس کے اُوپر ہوتے ہیں، بلکہ احادیث میں آتا ہے کہ بعض لوگوں کو آروں سے چیر دیا گیا۔ اب ان حالات میں کون نبی کا ساتھ دے گا؟ صرف وہ شخص ساتھ دے گا کہ جو یہ یقین رکھتا ہو کہ یہ بندئہ خدا جو حقیقت لے کر آیا ہے بالکل سچی ہے، اور اس کے ساتھ جس کا دل یہ گواہی دیتا ہو کہ جب یہ سچائی ہے تو اس کے لیے دُنیا بھر سے لڑ جانا چاہیے۔ جب یہ سچائی ہے تو اس کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینا چاہیے، ہرتکلیف کو برداشت کرجانا چاہیے۔ اس کے بغیر کوئی شخص نبی کا ان حالات میں ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس وجہ سے ان میں کثیر تعداد مخلصین و مومنین کی ہوتی ہے۔ اُن لوگوں کی ہوتی ہے جو خدا اور اس کے دین اور اس کے رسول کی خاطر ہرخطرے، ہرنقصان اور ہرتکلیف کو اُٹھاتے ہیں۔
پھر نبی کی تربیت سے وہ لوگ براہِ راست فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ نبی سے خدا کے دین کو براہِ راست سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سےسے وہ علم کے اعتبار سے بھی دین کو زیادہ سمجھنے والے ہوتے ہیں، اخلاق کے اعتبار سے بھی وہ دین کے منشا کے مطابق جیسا انسان ہونا چاہیے ویسے انسان ہوتے ہیں، اور اس کے ساتھ یہ کہ اللہ کے دین کے لیے تکلیفیں اُٹھانے میں بھی سب سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ اس بناپر نبی کی اُمت کے ابتدائی گروہ میں سابقون کی اکثریت ہوتی ہے۔ بعد کے دور میں جب نبی کا مشن کامیاب ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو دُنیا میں فتح و نصرت عطا کرتا ہے، اس کے بعد ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی آجاتی ہے کہ جو چلتی ہوئی گاڑی میں سوار ہونے والے ہیں، گاڑی چلانے والوں میں شامل نہیں ہیں۔ گاڑی چلانے میں جو خطرات ہیں وہ دوسرے بھگت چکے ہوتے ہیں۔ جب گاڑی چل چکی ہوتی ہے، خوب تیز رواں ہوتی ہے، اس وقت ہرایک سوار ہونے کو تیار ہوتا ہے۔
اس وجہ سے اس کے بعد پھر ان لوگوں کی تعداد جو سبقت کرنے والے ہیں، کم رہ جاتی ہے۔ اگرچہ خدا کا دین چلتا انھی سبقت کرنے والوں کی وجہ سے ہے۔ سبقت کرنے والے ہی اپنی جانیں لڑاتے ہیں اور سبقت کرنے والے ہی اس کا جھنڈا بلند کرتے ہیں اور سبقت کرنے والے ہی اس کی تبلیغ کرتے ہیں اور لوگوں کی اصلاح کا کام کرتے ہیں۔ یہ کام برابر جاری رہتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی ان کی اقلیت ہوتی ہے، اکثریت نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ ابتداً اُمت میں اکثریت سابقون کی ہوتی ہے اور بعد میں اُمت میں ان کی قلیل تعداد رہ جاتی ہے۔ اسی بات کو یہاں بیان کیا گیا ہے کہ اُمت کے ابتدائی دور میں سابقون کثیر تعداد میں ہوں گے اور بعد کے دور میں قلیل تعداد میں(جاری)۔(ریکارڈنگ :حفیظ الرحمٰن احسن ،و تدوین: امجد عباسی)
_______________
عَلٰي سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ۱۵ۙ مُّتَّكِـــِٕيْنَ عَلَيْہَا مُتَقٰبِلِيْنَ۱۶ (۵۶:۱۵-۱۶) مرصع تختوں پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔وہ ایسے تختوں پر بیٹھے ہوں گے جو جڑائو ہوں گے۔
یعنی جو بادشاہوں کے تخت ہوتے ہیں، اس طرح کے تخت ہر اس جنّتی کو جو وہاں بھیجا جائے گا اس کے لیے مہیا ہوگا۔
مُّتَّكِـــِٕيْنَ عَلَيْہَا ، ان پر وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ مُتَقٰبِلِيْنَ سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کے سامنے منہ کیے ہوئے ہوں گے۔ یعنی کوئی کسی کی طرف پیٹھ کرنے والا نہیں ہوگا، بلکہ سب اگر ایک مجلس میں بیٹھیں گے تو ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔
يَطُوْفُ عَلَيْہِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۱۷ۙ بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ۰ۥۙ وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ۱۸ۙ (۵۶:۱۷-۱۸) ان کی مجلسوں میں ابدی لڑکے شراب چشمۂ جاری سے لبریز پیالے اور کنڑ اور ساغر لیے دوڑتے پھرتے ہوں گے۔ ان کی خدمت کے لیے دوڑتے پھرتے ہوں گے ایسے لڑکے جو مخلد ہوں گے۔
مخلد سے مراد دائمی ہے، یعنی وہ ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ان کی عمر میں اضافہ ہو اور وہ بوڑھے جن کے …؟؟ مثلاً اگر وہ بارہ برس کا لڑکا ہے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بارہ برس ہی کا لڑکا رہے گا۔ ان کی خدمت کے لیے یہ خادم جو دائمی اور ابدی لڑکے ہوں گے، یہ ان کی خدمت کے لیے وہاں حاضر ہوں گے۔
کسانوں میں جو بچّے بلوغ کی عمر کو پہنچنے سے پہلے مرجائیں وہ چاہے کافر و مشرک کے ہوں، چاہے مسلمان کے، بہرحال وہ دوزخ میں جانے والے نہیں۔ اور جن کے والدین جنّت میں جائیں گے ان کے بچّے والدین کے ساتھ پہنچا دیئے جائیں گے۔ قرآن مجید میں بھی صراحت ہے کہ ان کی اولاد کو ان کے ساتھ لا ملایا جائے گا لیکن جن کے والدین جنّت میں نہیں جائیں گے ان کے بچوں کو جہاں تک میرا اندازہ ہے اگرچہ قرآن مجید میں اس کی صراحت نہیں، البتہ بعض احادیث میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ ان بچوں کو اہل جنّت کا خدمت گار بنا دیا جائے گا، خواہ وہ کافر و مشرک کے بچّے ہوں یا ایسے مسلمانوں کے بچّے ہوں جو دو زخ میں جائیں گے۔ خدا ہرمسلمان کو اس سے بچائے۔ پس اگر کوئی مسلمان دوزخ میں جائے گا تو اس کی اولاد جو نابالغ ہے وہ دوزخ میں نہیں جائے گی۔ ان کو اہل جنّت کا خادم بنا دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ جو عمر اُن کے لیے تجویز فرما دے گا کہ یہ عمر ان کی ہونی چاہیے تاکہ یہ اہل جنّت کی بہتر خدمت کرسکیں، بس وہی عمر ان کی ہمیشہ رہے گی۔
بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ۰ۥۙ ، وہ پیالے لیے ہوئے اور ٹوپی دار صراحیاں لیے ہوئے پھرتے پھریں گے۔
اکواب ، کوب کی جمع ہے۔کوب وہی چیز ہے جس کو انگریزی میں کپ کہتے ہیں اور یہ کپ لفظ کوب ہی سے نکلا ہے۔ انگریزی میں وہ عربی زبان سے آیا ہے۔ ان بے چاروں کے پاس کپ بھی نہیں تھے۔ یہ مسلمانوں سے ان کو حاصل ہوئے۔ ابریق کہتے ہیں لوٹے کی وضع کی ایک صراحی جس کے ساتھ ایک ٹوپی لگی ہوئی ہوتی ہے۔ اباریق اس کی جمع ہے۔
وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ۱۸ۙ اور ایسی شراب کہ جو چشموں سے نکلی ہو۔
جنّت کی شراب کسی چیز کو سڑاکر کشید کی ہوئی نہیں ہوگی بلکہ جنّت میں جو شراب ہوگی وہ چشمے کی شکل میں ہوگی۔ یہ قرآن مجید میں بھی وضاحت ہے اور یہاں تو بالکل صاف طور پر معین کالفظ استعمال کیا گیا ہے۔معین کہتے ہیں ہر آدمی اس کو بالکل گوارا کرے گا اور یہ پاک اور صاف ہوگی۔ وہ کسی چیز کو سڑا کر نہیں بنائی جائے گی بلکہ چشمے کی شکل میں ہوگی، اور ہوسکتا ہے کہ مختلف اقسام کی شرابیں ہوں کہ جو مختلف چشموں سے نکلتی ہوں۔
لَّا يُصَدَّعُوْنَ عَنْہَا وَلَا يُنْزِفُوْنَ۱۹ۙ (۵۶:۱۹) جسے پی کر نہ ان کا سر چکّرائے گا نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا۔
اس سے نہ ان کو دردِ ِ سر لاحق ہوگا اور نہ وہ بہکیں گے۔
یعنی دُنیا کی شراب کا جو بڑے سے بڑا فائدہ ہے جس کی خاطر انسان شراب کی تکلیفیں اُٹھاتا ہے اس کے نقصانات برداشت کرتا ہے وہ صرف سُرور ہے اور اس سُرو ر کی خاطر انسان شراب کو استعمال کرتا ہے۔ لیکن دُنیا کی شراب کا یہ سُرور انسان کو اتنا مہنگا پڑتا ہے کہ جیسے ہی وہ قریب آتی ہے اس وقت سے اس کی تکلیفیں شروع ہوجاتی ہیں۔
شراب جیسے ہی قریب آتی ہے پہلے تو اس کی سڑانڈ آتی ہے۔ اس کی بُو کسی بھلے آدمی کو دُور بھگا دیتی ہے کہ کسی بُرے آدمی کو بھی اس کی بُو پسند نہیں ہوسکتی۔ اس کے بعد اس کا مزہ تلخ ہوتا ہے۔ پھر جب وہ حلق سے گزرتی ہے تو معدے تک کاٹتی ہوئی جاتی ہے۔ پھر آدمی کو دردِ ِ سر لاحق ہوتا ہے۔ زیادہ پی جائے تو قے ہوتی ہے اور نامعلوم کیا کیا تکلیفیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہاں یہ بتا رہا ہے کہ وہ شراب ہوگی لیکن شراب ایسی نہیں ہوگی جس کے نقصانات اور اس کی تکلیفیں وہ ہوں جو اس دُنیا میں ہوتی ہیں کہ اس کو پی کر دردِ سر لاحق ہواور آدمی اس کو پی کر بہکے، اُول فول بکے اور اپنے ہوش و حواس میں نہ رہے۔
وَفَاكِہَۃٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُوْنَ۲۰ۙ وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَہُوْنَ۲۱ۭ (۵۶:۲۰-۲۱) اوروہ ان کے سامنے طرح طرح کے لذیذ پھل پیش کریں گے کہ جسے چاہیں چُن لیں، اور پرندوں کے گوشت پیش کریں گے کہ جس پرندے کا چاہیں استعمال کریں۔
ایک اور مقام پر قرآن مجید میں صرف گوشت کا ذکر ہے اور یہاں پرندوں کے گوشت کا ذکر ہے۔میرا اندازہ ہے کہ جس طرح سے جنّت کی شراب مصنوعی نہیں ہوگی بلکہ قدرتی طور پر چشموں سے نکلے گی اور جس طرح سے جنّت کا شہد وہ بھی مگس کی قے نہیں ہوگا بلکہ وہ بھی چشموں کی شکل میں نکلا ہوا ہوگا، اور جنّت کا دودھ بھی جانوروں کے تھنوں سے دوھا ہوا نہیں ہوگا بلکہ چشموں کی شکل میں نکلے گا اور نہر کی شکل میں بہہ رہا ہوگا اور یہ قرآن مجید میں بھی ہے اور احادیث میں بھی۔ اسی طرح سے میرا خیال یہ ہے کہ اگرچہ اس کی صراحت مجھے کہیں نہیں ملی ہے لیکن مَیں اندازہ کرتا ہوں کہ وہاں کا گوشت بھی جانوروں کو ذبح کرکے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا بلکہ وہ قدرتی طور پر پایا جائے گا۔وہ جس چیز کے گوشت کی حیثیت سے بھی آدمی کے سامنے گا، مزے میں بہترین ہوگا۔ اگر ہرن کے گوشت کی حیثیت سے آئے گا تو ہرن کا جو بہترین گوشت ممکن ہے وہ مزا ہوگا لیکن وہ کسی ہرن کو ذبح کرکے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔ کسی ہرن کو گولی مار کر حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔ اسی طرح سے پرندوں کا گوشت ہے۔ یہ بھی گویا قدرتی طور پر پیدا ہوگا جانوروں کو ذبح کرکے اور اس کے پَر نوچ کے حاصل کیا ہوا نہیں ہوگا۔
وَحُوْرٌ عِيْنٌ۲۲ۙ كَاَمْثَالِ اللُّؤْلُـؤِ الْمَكْنُوْنِ۲۳ۚ (۵۶:۲۲-۲۳) اور ان کے لیے خوب صورت آنکھوں والی حُوریں ہوگی، ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔
آدمی نفیس ترین چیز کو چھپا کر رکھتا ہے۔ حُوریں ایسے موتیوں کی طرح ہوں گی جن کو چھپاکر رکھا جاتا ہے۔
جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۲۴ (۵۶: ۲۴) یہ سب کچھ ان اعمال کی جزا کے طور پر انھیں ملے گا جو وہ دُنیا میں کرتے رہتے تھے۔
یعنی یہ بدلہ ہوگا ان کے ان اعمال کا جو وہ دُنیا میں کرکے آئے ہیں۔
لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْہَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا۲۵ۙ (۵۶: ۲۵) وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے۔
یعنی جنّت کی ساری نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد آخر میں گویا یہ ایک عظیم ترین نعمت کا ذکر کیا ہے۔ جنّت کی بہت بڑی نعمت یہ ہوگی کہ آدمی کے کان میں کوئی بے ہودہ بات نہیں پڑے گی۔ آدمی کوئی گناہ کی بات نہیں سنے گا۔ کوئی فحش بات نہیں سنے گا۔ اس دُنیا میں ایک نیک آدمی جس کے اندر فی الواقع کوئی ذوقِ سلیم موجود ہو اور جس کی روح میں کوئی طہارت اور پاکیزگی موجود ہو، اس کے لیے انتہائی اذیت کی چیز ہوتی ہے کہ انسانی بستی میں گزر رہا ہے تو اِدھر سے گالی کی آواز پڑرہی ہے اور اُدھر سے کسی کی غیبت کی گفتگو سن رہا ہے۔ اِدھر سے کوئی بیگم صاحبہ کوئی فحاش گانا گارہی ہیں اور کہیں کسی اور طرح سے بیہودہ باتیں ہورہی ہیں۔ اس بھلے آدمی کے لیے یہ پریشانی ہوگی کہ ان بستیوں میں کہاں رہے؟ کہاں اپنے آپ کو لے کر جائے اور کہیں اپنی اولاد ضرور اپنے بال بچوں کو لے کر جائے کہ ان بلائوں سے محفوظ رہے۔ جنّت کی یہ نعمت ہوگی کہ وہاں آدمی کے کان بُرائیوں سے محفوظ رہیں گے۔ آگے چل کر الفاظ ہیں:
اِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا۲۶ (۵۶:۲۶)جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی۔
سلام کا لفظ قریب قریب اسی معنی میں ہے جس کو انگریزی میں sane کہتے ہیں، یعنی جو کچھ بھی سنیں گے معقول اور صحیح بات سنیں گے۔ ایسی بات سنیں گے کہ جس کے اندر کسی قسم کی کوئی بُرائی نہیں ہوگی۔
وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۲۷ۭ (۵۶:۲۷) اور دائیں بازو والے، اور بائیں بازو والوں کی خوش نصیبی کا کیا کہنا۔
یعنی دائیں ہاتھ والے لوگ یا اچھی اُمیدیں رکھنے والے لوگ تو ان کا کیا کہنا۔
فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ۲۸ۙ وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۲۹ۙ وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۳۰ۙ وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۳۱ۙ (۵۶:۲۸-۳۱) وہ بے خار بیریوں اور تہ بر تہ چڑھے ہوئے کیلوں اور دُور تک پھیلی ہوئی چھائوں، اور ہر دم رواں پانی۔
وہ ایسے باغوں میں ہوں گے کہ جن میں بے خار بیر ہوں گے۔ یعنی اس دُنیا میں عام طور پر جو بیر ہوتے ہیں وہ بہت گھٹیا قسم کے ہوتے ہیں لیکن اعلیٰ درجے کے بھاری بیر بعض اوقات سیب کے بچّے معلوم ہوتے ہیں۔ گویا ایسی بیریاں ہوں گی جن کے اندر خار نہیں ہوگا، کسی قسم کا کوئی کانٹا نہیں ہوگا۔
وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۲۹ۙ ، جن میں کیلے ہوں گے جن کی بیلیں تہ در تہ چڑھی ہوئی ہوں گی۔
وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۳۰ۙ ،اور دراز سایہ ہوگا، یعنی بڑے گھنے باغ ہوں گے کہ جن کو آدمی دیکھے تو دُور دُور تک اس کا سایہ ہی سایہ ہو اور دھوپ نہ پڑتی ہو۔
وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۳۱ۙ ،اور دائماً بہنے والا پانی۔
وَّفَاكِہَۃٍ كَثِيْرَۃٍ۳۲ۙ لَّا مَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۳۳ۙ (۵۶: ۳۲-۳۳) اور کبھی ختم نہ ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھل۔
لَّا مَقْطُوْعَۃٍ ، ان باغوں کے پھلوں کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا۔ یعنی ان کے لیے کوئی موسم مقرر نہیں ہوگا کہ ہر پھل کسی خاص موسم میں پیدا ہو اور موسم گزرنے کے بعد ختم ہوجائے بلکہ ان کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوگا۔ ہرپھل جو ان کو پسند ہے وہ ہمیشہ ان کو ملے گا۔
وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ۳۳ۙ ،اور نہ ان کے اُوپر کسی قسم کی پابندی ہوگی یعنی دُنیا کے باغوں کی طرح کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی جہاں سے جتنا چاہیں کھائیں۔
وَّفُرُشٍ مَّرْفُوْعَۃٍ۳۴ۭ (۵۶: ۳۴) اور اُونچی نشست گاہوں میں ہوں گے۔
اور ان کے لیے زمین سے اُٹھے ہوئے بلند بستر ہوں گے۔
اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَاۗءً۳۵ۙ فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۳۶ۙ (۵۶: ۳۵-۳۶)اور ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انھیں باکرہ بنادیں گے۔
وہاں جو حُوریں اور جو بیویاں ان کو ملیں گی ہم نے ان کو پیدا کیا ہے۔
فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا،اور اس کو ہم نے باکرہ بنایا۔ ہم نے ان کو خاص طریقے سے پیدا کیا ہے۔ انسان کا خاص طریقے پر پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں جو عورت کسی کی بیوی تھی اگر وہ اس کے ساتھ جنّت میں جائے گی تو اللہ تعالیٰ گویا اس کو نئے سرے سے پیدا کرے گا چاہے دُنیا میں وہ بوڑھی ہوکر مری ہو اور اللہ تعالیٰ اسے نئے سرے سے جوان بنائے گا۔ اگر دُنیا میں وہ خوب صورت نہیں تھی تو اللہ تعالیٰ اس کو نہایت خوب صورت بنائے گا مگر اس طرح سے کہ معلوم یہ ہوگا کہ وہی عورت ہے جو دُنیا میں اس کی بیوی تھی، یعنی اس کے فیچرز محفوظ ہیں اور اس کو خوب صورت بنایا جارہا ہے۔ اسی چیز کو بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے ان کو خاص طور پر بنایا ہے۔
فَجَــعَلْنٰہُنَّ اَبْكَارًا۳۶ۙ عُرُبًا اَتْرَابًا۳۷ۙ (۵۶: ۳۶-۳۷) اور ان کو باکرہ بنادیں گے، اپنے شوہروں کی عاشق اور عمر میں ہم سن۔
عربا کے معنی ہیں شوہر کو چاہنے والی اور اتراب سے مراد ہے ہم سن، یعنی وہاں وہ ان کی ہم سن بنا دی جائیں گی اور وہ اپنے شوہر سے نہایت محبت کرنے والی ہوں گی۔
لِّاَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ۳۸ۭۧ (۵۶: ۳۸) یہ سب کچھ اصحاب ِ یمین کے لیے ہوگا۔
گویا دو قسم کے جنّتی ہوں گے: ایک جنّتی وہ ہیں جو سابقین ہیں اور دوسرے جنّتی وہ ہیں جو اصحاب میں ہیں۔ سابقین کے متعلق وہاں فرمایا گیا کہ وہ اُمت کے ابتدائی دور میں کثیر ہوں گے اور بعد کے اَدوار میں وہ قلیل ہوں گے۔ قلیل کے متعلق پھر میں وضاحت کردوں کہ قلیل کا مطلب مجموعہ میں قلیل ہونا ہے ، تعداد میں قلیل ہونا نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نبیؑ کی دعوت کے ابتدائی زمانے میں مثلاً دو ہزار اس طرح کے لوگ ہیں لیکن چونکہ اُمت کی تعداد ہی کم تھی اس لیے وہ اُمت میں عظیم اکثریت تھے۔ ہوسکتا ہے کہ آگے چل کر وہ دس لاکھ ہوں لیکن اُمت اگر کروڑوں کی ہے تو وہ اقلیت ہیں۔اس بات کو ملحوظ رکھیے۔ یہ مت سمجھیے کہ قلیل سے مراد ہے تعداد میں قلیل سے مراد ہے اقلیت میں ہونا۔یہاں فرمایا:
ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۳۹ۙ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۴۰ۭ (۵۶:۳۹-۴۰)وہ اگلوں میں سے بھی بہت ہوں گے اور پچھلوں میں سے بھی بہت۔
یعنی کثیر تعداد اوّلین میں اور کثیر تعداد آخرین میں۔اب یہاں یہ ہے کہ گویا اُمت کے اندر ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی۔ ہر دور میں اصحابِ یمین ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ اُمت ساری کی ساری دوزخیوں پر مشتمل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اُمت کے اندر اصحابِ یمین کی بہت ہی تھوڑی اقلیت باقی رہ جائے۔ نہیں، اُمت میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اصحابِ یمین ہیں۔ اس چیز کو سمجھنے کے لیے اس بات کو بھی ملحوظ رکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ایک مرتبہ کہ جو لوگ میرے زمانے میں موجود ہیں اگر انھوں نے جو ان سے دین میں مطلوب ہے اگر انھوں نے اس کے دس حصوں میں سے نو حصے کیے ہوں تب بھی ان سے بازپُرس ہوگی کہ انھوں نے ایک حصہ بھی کیوں چھوڑا ہے؟ لیکن ایک ایسا دور آئے گا کہ ان دس حصوں میں سے اگر کسی آدمی نے ایک حصے پر عمل کیا ہے تو اس پراجر پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بتایا گیا ہے کہ بعد کے دور میں کثیرتعداد ہوگی آخرین کی۔ اگر ایک زمانہ ایسا آجائے کہ جس میں خدا کا نام لینا بھی شرمناک ہوجائے۔ ایک آدمی سےی ہ توقع کی جائے گی کہ وہ خدا کا نام زبان پر نہ لائے۔ اگر وہ خدا کا نام زبان پر لاتا ہے تو گردوپیش کے لوگ اس کو دیکھتے ہیں کہ یہ کیسا رجعت پسند آدمی ہے کہ جو اس زمانے میں خدا کی باتیں کر رہا ہے۔ جب ایسی حالت آجائے تو اس میں اگر کوئی شخص خدا کا نام لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں، میں خدا کو مانتا ہوں اور ایک مانتا ہوں تو یہ جہاد کر رہا ہے اور اجر کا مستحق ہے۔
ایک ایسا زمانہ خود ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جب ایک آدمی کو کھلے میدان میں یا کسی پارک وغیرہ میں نماز پڑھتے ہوئے شرم آتی تھی۔ وہ سوچتا تھا کہ کیا کروں اور کہاں جائوں؟ اگر یہاں نماز پڑھوں گا تو سیکڑوں آدمی مجھے دیکھ رہے ہیں۔ وہ میرا مذاق اُڑائیں گے۔ اس حالت میں جن لوگوں نے نمازیں پڑھی ہیں ان کی نماز کا کیا اجر۔ ظاہر بات ہے کہ اس دور کی نمازوں سے بہت زیادہ ہے کہ جس دور میں اگر کوئی آدمی نماز نہ پڑھتا تھا تو نکو بن جاتا تھا۔ آج نماز پڑھنے والا نکو ہو جاتا ہے تو جو آدمی اُس دور میں نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز کے اجر کا کیا پوچھنا۔ یہ اس دور کی نماز کی بہ نسبت زیادہ ہوگا۔ جب نماز نہ پڑھنے والا نکو بن جاتا تھا جہاں حالت یہ تھی کہ واذا کان صلوٰۃ……یہ منافقین کی تعریف ہے۔ منافقین کے متعلق قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ وہ نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے اُٹھتے ہیں۔یہ ہے علامت منافقین کی۔
اب نماز نہ پڑھنے والا مسلمانوں کے اندر ہے۔ اس وقت نماز کے لیے کسمساتے ہوئے اُٹھنے والا منافق تو اس طرح کے مختلف حالات کے اعتبار سے اعمال کا وزن اللہ تعالیٰ کے ہاں قرار پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اعمال کا وزن صرف اس لحاظ سے نہیں ہے کہ اس نے بھی چار رکعتیں پڑھیں اور اس نے بھی چار رکعتیں پڑھیں۔ رکعت اور رکعت میں حالات کے لحاظ سے زمین آسمان کا فرق ہوجاتا ہے۔ جس میں اس نے پڑھی ہے اور نامعلوم کیا کیا چیزیں ہیں کہ جو مل جل کر اللہ کی نگاہ میں اعمال کی قدر بڑھاتی یا گھٹاتی ہیں۔ اسی وجہ سے فرمایا کہ اصحاب الیمین، نبی ؐ کی اُمت کے ابتدائی دور میں بھی بہت ہوں گے اور آخری دور میں بھی، البتہ سابقون نبیؐ کی اُمت کے ابتدائی دور میں زیادہ ہوں گے اور بعد کے اَدوار میں کم ہوں گے۔