بعض حلقے یہ بات کہتے ہیں کہ ’’مسلم دُنیا کی نظریاتی تحریکیں کوئی دیرپا کامیابی حاصل نہیں کرسکیں، خاص طور پر کئی مسلم ادارے یا تنظیمیں‘‘۔ اس بات کے اسباب کا تعین نہ پیچیدہ ہے نہ مشکل، لیکن مسئلہ کے حل پر عمل کرنا تقریباً مشکل ہے۔ ناکامی یا ضُعف کی مثالیں گنوانے کے بجائے صرف یہ چاہوں گا کہ یہ سوال اٹھے کہ ’’آخر ایسا کیوں سوچا جاتا ہے؟‘‘ حقیقت کا دکھائی دینا مشکل نہیں، مگر اس کو قبول کرنا مشکل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو کرۂ ارض پر ایک ایسا نظام قائم کرنے کے لیے بھیجا ہے، جو انصاف، ہمدردی اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس پر قائم ہو اور اس وجہ سے سب باشندگانِ زمین کے حق میں بہتر ہو۔ اس قابل بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اپنی کتاب، قرآن مجید کی شکل میں نازل کی اور بہترین استاد اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں بھیجے، جنھوں نے ہمیں اللہ کے تجویز کردہ نظام کے مطابق رہنا سکھایا اور رہ کر دکھلایا۔
اللہ کی یہ لا محدود رحمت ،ہمارے لیے سکون، اطمینان اور خوش حالی کی زندگی کو ہمارا مقدر بنانے کے لیے ہے۔ اسی لیے اسلام انسانی زندگی کے ہر شعبے کے لیے ہدایات کا جامع نظام دیتا ہے، تاکہ انسان اپنی پوری زندگی پر محیط معاملات کی انجام دہی کے قابل ہو جائے۔ معاملات خواہ سماجی ہوں یا معاشرتی، عدالتی ہوں یا انتظامی، شادی بیاہ کے ہوں یا وراثت کے، جنگ سے متعلق ہوں یا امن کے، کھانےپینے اور پہننے کے ہوں یا دوسروں کی امداد کرنے کے، کمانے سے متعلق ہوں یا خرچ سے، نماز، عبادت کے بارے میں ہوں یا ایثار اور قربانی کے___ اسلام ہر شعبۂ زندگی کے لیے نظام کار وضع کرنے کے لیے ہدایات دیتا ہے۔اس لیے، اسلام صرف ایک تصوراتی نظریہ نہیں، بلکہ مجسم اور متحرک عمل ہے۔اس کی طاقت، اس کی ہدایات کا محض علم رکھنے پر نہیں، ان پر عمل کرنے میں ہے۔علم اور عمل میں فرق کا پیدا ہونا ہی وہ جال ہے جس سے ہمیں بچنا ہے۔
اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ہمیں ذرائع اور اوزار چاہییں۔ مثال سے یوں سمجھیے کہ ہمارے پاس گاڑیاں بنانے کے لیے لکھی گئی کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ ہم ہر صبح کا آغاز کتابیں پڑھنے سے کرتے ہیں، گاڑیاں بنانے کے طریقوں اور صنعت کے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں، اور پھر شام کو گھر چلے جاتے ہیں۔ مگر کتابیں پڑھتے رہنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ اگر واقعی اپنے علم کو بروئے کار لانا ہے تو اس کے لیے ہم کو گاڑیاں بنانے والا کارخانہ قائم کرنا ہوگا۔ اس طرح نہ صرف ہم خود اپنی سواری کے لیے گاڑی بنا لیں گےبلکہ دنیا کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلیں گے۔
اب اگر کوئی یہ پوچھے:’’جب ہمارے پاس انجن کے کام کو جاننے والے زبردست اہلِ علم موجود ہیں، تو ہمیں ان سب کارکنوں اور انجینئروںوغیرہ کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘ تو اس کو آپ یہی جواب دیں گےکہ ’’محض یہ جاننے سے کہ انجن کس طرح کام کرتا ہے اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہو گا جب تک تم خود انجن نہ بنا لو گے، اور ایک ایسے نظام میں لگائو گے جو انجن کی پیدا کردہ طاقت کو حرکت میں بدل کر گاڑی چلا دے‘‘۔ اس لیے یہ سوال کہ ’’زیادہ اہمیت کس کی ہے —سائنس دان کی، انجینئر کی، یا ڈرائیور کی ؟‘‘ ایک بے معنی بات ہے، ہر ایک کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔
نظریاتی تنظیموں یا تحریکوں کو پائے دار کامیابی نہ ملنے کی ایک وجہ دانش وروں کا کارکنوں کے کام کو اہم نہ سمجھنا، یا کارکنوں کا اہلِ دانش کے علم اور اُن کی فکرمندی کو اہمیت نہ دینا ہے۔ ناکامی کی وجہ نہ نظریہ ہےاورنہ طریق کار، بلکہ ایک بالکل مختلف معاملہ ہے، دونوں سے زیادہ اہم، اور وہ ہے انسانی رویہ۔
ہم اس قابل نہیں کہ اختلاف کے ساتھ معاملہ نبھائیں، اختلاف رائے کے ہوتے آگے بڑھیں، علم اور تجربہ اور مہارت کا احترام کریں۔ ناکامی اس لیے سامنے آتی ہے کہ ہم میں یہ احساس نہیں کہ ہمیں واقعی ’دوسرے‘کی ضرورت ہے، اور یہ کہ’ دوسرے‘ کے بغیر ہمارا ’اپنا‘ نظریاتی عمل نامکمل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم روایتی غلطیوں سے سبق حاصل کریں اور ان کو دُہرانے سے بچیں۔ اس ضمن میں اکثر ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں:
اس کا انحصار اس بات پر ہےکہ آیا وہ تحریک اپنے نظریے پر عمل درآمد میں سنجیدہ ہے، یا نہیں۔یہ بالکل اس طرح کا سوال ہے کہ کیا صحت عامہ کے لیے چلائی جانے والی مہم کوہسپتال قائم کرنا یا قائم شدہ ہسپتالوں کی امداد بھی کرنا چاہیے؟ظاہر ہے کہ یہ موشگافی بے معنی ہے، درحقیقت تنظیمیں تو ذرائع کی طرح ہیں۔ یہ نظریاتی ’کیوں‘ کاعملی جواب ’کیسے‘ ہوتی ہیں۔نظریہ جہاں جدوجہد کا مقصد بتاتا ہے وہاں تنظیم اس مقصد کے حصول کے لیے ذرائع فراہم کرتی ہے۔
مثال کہ طور پر دیکھیے کہ سودی کاروبار کی ممانعت کے حکم الٰہی کا نفاذاقامت ِدین کا ایک جزو ہے۔ اسلامی بنیادوں پر بینک یا اس جیسے ادارے قائم کیے بغیر آپ یہ کام کیسے کر سکتے ہیں؟ اگر اسلام کی تعلیمات کے مطابق لوگوں کے لیے ادھار رقم حاصل کرنے کاکوئی طریقہ نہ ہو، تو بے شک آپ سارا دن سود کے حرام ہونے کی گردان کرتے رہیں، کبھی کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوگی۔ ویسٹ منسٹر فلر کے الفاظ میں:’’کسی فرسودہ نظام سے چھٹکارا پانے کے لیے آپ اس سے متعلق سوچ کے اندرتبدیلی نہیں لاتے، بلکہ ایک نئی سوچ بروئے کار لا کرپرانی سوچ کو ختم کرتے اور نیا نظام لاتے ہیں‘‘۔
تنظیمیں وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے نظریے کو حقیقت کی دنیا میں پائے دار بنیادوں پر نافذ کیا جاتا ہے۔ تنظیموں کے بغیر ایک نظریے پر عمل درآمدمحض وقتی اور’جھٹ پٹ‘ قسم کا ہو گا کہ جس کا کبھی اطلاق ہوا بھی تو وہ جزوی ہی ہو گا، اور کبھی اتنا بھی نہیں ہو گا۔
ایک اور مثال لیجیے: ۲ہجری تک زکوٰۃ فرض ہو چکی تھی اور مال غنیمت کی تقسیم سے متعلق قوانین (سورئہ انفال) واضح کر دیے گئے تھے، لیکن باقاعدہ مربوط معاشرتی بہبود کا کام حضرت عمرؓ کےدورمیں بیت المال کا ادارہ قائم ہونے کے بعد ہی شروع ہوا۔اس سے پہلے خیرات کا کام ’اچانک‘ اور ’ہنگامی‘ طور پر ہوتا تھا۔ مگر اب بیت المال کے ادارے کاقیام ہر ضرورت مند کو بروقت امداد ملنے کا ضامن بنا۔
اسی طرح کا معاملہ ایک مسقل سپاہ اور فوج کے قیام کا ہے۔ جس میں سپاہیوں اور کارکنوں کو دشمن سے ملنے والے مال غنیمت یا زمینوں پر قبضے کے بجائے باقاعدہ تنخوہ اور مشاہرہ ملنے شروع ہوئے۔اس سے پہلے، جنگ میں ملنے والی دشمن کی ہزاروں مربع کلومیٹر رقبے کی زمین بے کار پڑی رہتی تھی کہ اس کے نئے مالکان کو کاشت کاری سے کوئی واسطہ نہ تھا اور پرانے مالکان جو کسان تھے وہ اس سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ایسی مفتوحہ زمینوں کو ریاست کے نظم میں لے کر سخت مخالفت کے باوجود ان کے پرانے مالکان کے حوالے کر دیا اور محصولات (ٹیکس) کا ایسا نظام وضع کیا جیسا کہ اللہ کے رسولؐ نے فصلوں اور پیداوار پر عشر کے حوالے سے دیا تھا۔ اس اقدام سے ریاست کو بہت فائدہ ہوا، جو بصورت دیگروسیع زمین فتح کرنے کے باوجود وسائل کی کمی کا شکار رہتی۔
ایک اور مثال لیجیے، جس سے واضح ہو گا کہ تنظیموں اور خاطر خواہ انتظام کے بغیر خلوص نیت بارآور نہیں ہوتا۔ کوئی مسلمان اور اس کے والدین تزکیہ نفس اور تعمیر اخلاق کی ضرورت سے انکاری نہیں۔ مگر، اپنے ارد گرد دیکھیے۔ کیا مسلمان معاشرے میں کہیں بھی ان کا کوئی اثر نظر آتا ہے؟ آپ کے گھر میں؟ خود آپ پر؟ اگر کچھ اثر ہے تو وہ آپ کا کمال ہے یا استثنائی صورت؟ برسرِ زمین حقیقی صورت حال تو یہی ہے کہ ہمارے معاشرتی اور باہمی مسائل کی بڑی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات کے ان دونوں عناصر کا فقدان ہے۔
اس لیے کہ اس کے نفاذ کے لیے ادارے یا تنظیم نہیں ہے۔ محض بیانات میں اس پر زور دینے سے اپنا اور معاشرے کا تزکیہ ممکن نہیں ہے۔
ایک اور مثال معروف مذہبی جماعت میں تقسیم در آنے کی ہے۔ جس میں اَنا اور ہٹ دھرمی نے دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ایک مفید نظریاتی تحریک کو تقسیم کر کے رکھ دیا۔ ایک صدی تک منبر سے اکرامِ مسلم کی باتوں کے بعد جب باہمی اکرام کاوقت آیا تو قیادت توازن پیدا کرنے کا سبق بھول کر نقصان کے راستے پر گامزن ہو گئی۔ تنازعے کے حل کے لیے نہ کوئی نظام ہے، نہ کوئی ایسا ادارہ جو بیچ بچائو اور مصالحت کرا دے۔ ایسا اس لیے نہیں ہو رہاکہ کوئی نظریہ موجود نہیں ، بلکہ یہ اس لیے ہو رہا ہے کہ تنظیم نہیں ہے، اور اس وجہ سے یہ اُفتاد پڑی ہے۔
نہ صرف یہ کہ اداروں کے قیام سے اقامت دین کے کام میں کوئی حرج نہیں ہوتا، بلکہ ان کے نہ ہونے سے اقامت دین کا کام ہو ہی نہیں سکتا۔
یہ اس وقت ممکن ہے جب ایک شخص ’دوسرے‘ شخص کے تجربے کا احترام کرے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اختلاف اور مختلف رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں پایا جاتا۔ ہم اختلاف رائے کو سرکشی اور بغاوت گردانتے اور اس سے اسی طرح نمٹتے ہیں۔ منصوبہ خواہ کچھ ہو، اس رویے سے تعاون کی بنیاد ہی ڈھے جاتی ہے جس کا مطلب ناکامی مقدر ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ کامیاب ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ کامیاب کیسے ہوا جاسکتا ہے؟ اور تبدیلی کا آغاز’اپنے‘ سے ہی ہوتا ہے۔
احتساب کے عمل کا آغاز باہمی تعاون سے ہدف کے تعین، کامیابی کے پیمانوں کے متعلق فیصلے اور کارکردگی کے جائزے سے ہوتا ہے۔ ’باہم‘ اس لیے کہتا ہوں کہ احتساب کی بنیاد مختلف افراد کی مختلف مہارتوں، علم اور ہنر پر ہو گی، نہ کہ آجر اور اجیر یا قائد اور ماتحت کی بنیاد پر۔ یہ ترقی اور بڑھوتری کا اندازہ لگانے کی اجتماعی کوشش ہو گی اور یہ عمل اعتراض سے پاک ہونا چاہیے اور اس کا ہدف واضح ہونا چاہیے: مقصد کے حصول میں کامیابی کے لیے احتساب سے پہلے باہم احترام کی فضا قائم کرنا ہو گی۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے، یہ ادارےکامیابی کے لیے مناسب ذرائع و اوزار استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ناکام ہوتے ہیں۔ جذبہ، لگن اور خلوص کی اہمیت اپنی جگہ، مگر مہارت اور ہنرمندی کی ضرورت بھی اپنی جگہ۔ اللہ کے رسولؐ نے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ یا حضرت علیؓ کو سپاہ کی قیادت کے لیے مقرر نہیں فرمایا، گو کہ یہ سب حضرات علوم اسلامی میں گہری نگاہ رکھنے والے، مخلص اور ایثار کیش، اور مختلف مہارتوں کے حامل تھے۔ اللہ کے رسول نے اس کام کے لیے حضرت خالدبن ولیدؓ کو نامزد فرمایا، جوعلم ومرتبہ میں تو ان اصحاب جیسے نہ تھے مگر سپہ گیری میں مشاق اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل جنگی قائد تھے۔ اللہ کے رسولؐ نے اہلیت کی بنیاد پر فیصلہ فرمایا، نہ کہ دوستی، رشتہ داری یا پسند و ناپسند کی بنیاد پر۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مقصد ہمیشہ نگاہ میں رہے اور ذاتی انا، یا پسند و ناپسند کو بیچ میں آ کرکامیابی کا راستہ کھوٹہ نہ کرنے دیا جائے۔ ہمیں اپنے فیصلوں پر کڑی نظر رکھنا ہو گی، خاص طور پر جب معاملہ کسی ایسے شخص کا ہو جو کام کے لیے تو موزوں ہو مگر جس کی رائے سے ہم کو اختلاف ہویا جسے ہم زیادہ پسند نہ کرتے ہوں۔
ابہام تو مشاہدے میں آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو حضرات مختلف نظریاتی تحریکوں کے اہم مناصب پر فائز ہیں۔ انھیں اختیارات اور ذمہ دایوں کی تقسیم، پیشہ ورانہ تعاون، اور مل جل کر مختلف اُمور کی انجام دہی جیسے عوامل کا شعور نہیں ہے۔زیادہ تر ’یونی ورسٹی یا مدرسہ‘ کی تعلیم کے ساتھ ’حاکمانہ‘ انداز رکھتے ہیں، اندھی پیروی اور بے چون و چرا ہر بات تسلیم کرنے کو خوبی گردانتے، جب کہ سوال اٹھانے کو گستاخی یا بغاوت سمجھتے ہیں۔ اس طرزِ عمل کو بدلنا ایک مشکل کام ہے۔ مگر جب تک ایک دوسرے کا احترام کرنا نہیں سیکھیں گے، اکٹھے ہو کر کوئی فائدہ مند کام انجام نہ دے سکیں گے۔ اکثرنظریاتی رہنماؤں کا حال یہ ہے کہ وہ خودپسند ہوتے ہیں، اور اختلاف کی جرأت کرنے والوں کی اپنے سامنے یا پشت پیچھے تحقیر کرتے ہیں۔ اس رویے کی درستی کے بغیر بہتری ممکن نہیں۔