ہمہ جہت شخصیت مولانا عبد الرحمٰن خان المعروف ابو البیان حماد ۲۹جنوری ۲۰۲۳ءکی علی الصبح، بنگلورو میں ساڑھے ۹۹ برس کی عمر میں انتقال فرماگئے۔ انھیں ۱۹۴۰ء کے عشرے کے وسط میں داعی تحریک اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی قربت میں دار الاسلام پٹھان کوٹ اور پھر ان کے رفیق اور دارالعروبہ (جالندھر) کے سر پرست مولانا مسعود عالم ندوی سے مزید تعلیم و تربیت حاصل کرنے، اور ان کی نگرانی میں تحریک اسلامی کے عروج اور بقا پر تحقیق کرنے کا اعزاز حاصل تھا۔
یہ اکتوبر ۲۰۱۱ء کی بات ہے کہ بنگلورو میں ایک کانفرنس کے موقعے پر ہوٹل میں امیرجماعت اسلامی ہند جناب سیّد جلال الدین عمریؒ سے ملاقات ہوئی، تو انھوں نے بڑے احترام سے ایک بزرگ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے راقم سے فرمایا کہ ’’ان سے ملیے، یہ میرے استاد محترم مولانا ابوالبیان حماد ہیں‘‘۔ ایک صحافی کو اور کیا چاہیے تھا ؟ اگلے روز ناشتے کے وقت خصوصی انٹرویو لینے ان کے کمرے میں پہنچ گیا۔ ڈائننگ ٹیبل پر مختلف قسم کے پکوانوں کی ڈشیں دیکھ کر پوچھا: ’’یہ ناشتہ ہے یا کھانا؟‘‘ تو مولانا ابوالبیان صاحب نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کے نارتھ میں صبح کا ناشتہ بقدر بادام ہوتا ہے، جب کہ ہمارے ساتھ میں بقدر گودام‘‘۔ ناشتے کے دوران اور اس کے بعد انھوں نے بڑی تفصیل سے تحریک اسلامی کی تاریخ کے چند گم شدہ ابواب پر روشنی ڈالی۔
تاریخی لحاظ سے ابوالبیان حماد بہت اہم شخصیت تھے۔ برصغیر میں تقسیم سے قبل تحریک اسلامی کے ابتدائی دور کے عینی شاہد تھے۔ ۱۹۴۳ء میں دربھنگہ (بہار) میں جماعت کے اوّلین علاقائی اجتماع، پھر۱۹۴۴ء میں پٹھان کوٹ (پنجاب) کے علاقائی اجتماع کے بعد ۱۹تا۲۱؍ اپریل ۱۹۴۵ء کو پٹھان کوٹ میں ہی منعقد ہونے والے پہلے آل انڈیا اجتماع اور ۲۵اور۲۶؍ اپریل ۱۹۴۷ءکو مدراس (چنائی) میں حلقہ جنوبی ہند اجتماع میں بنفس نفیس شریک رہے۔ ۴۶-۱۹۴۵ء میں مرکز دارالاسلام اور ساتھ ہی جالندھر میں مولانا مسعود عالم ندوی کے ہاں ایک برس گزارا۔ یوں تحریک کی تاریخ سازی کو قریب سے دیکھا۔
ابوالبیان حماد آبائی وطن مالور (کرناٹک) میں ۲۵ جولائی ۱۹۲۳ء کو پیدا ہوئے۔ والدین نے ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد جامعہ دارالسلام، عمر آباد سے ۴۴-۱۹۳۶ء میں عالم و فاضل کیا۔ وہیں انھوں نے ایک ہردل عزیز استاد مولانا سید صبغۃ اللہ بختیاری سے خوب فیض حاصل کیا۔ بختیاری صاحب اگست ۱۹۴۱ءکو جماعت اسلامی کے تاسیسی اجتماع میں شریک ۷۵ خوش نصیب شخصیات میں شامل تھے۔ تاسیس کے بعد امیر جماعت مولانا مودودی کی نیابت کے لیے مختلف علاقوں کی ذمہ داریوں کے لیے جو چار نائب امرا بنائے گئے تھے، ان میں سے یہ حلقہ دکن و مدراس کے انچارج تھے ۔ لہٰذا، اپنے استاد مولانا بختیاری کے ذریعے ابوالبیان حماد نے تحریک اسلامی سے پوری طرح واقفیت حاصل کی۔ علومِ قرآنی میں مہارت حاصل کرنا، تحریک اسلامی کی روایت اور ارتقا پر تحقیق ان کا شوق تھا۔
چنانچہ عمر آباد سے فراغت کے بعد لاہور میں جامعہ قاسم العلوم پہنچے اور وہاں ۴۵-۱۹۴۴ء کے دوران مشہور و معروف مفسر قرآن مولانا احمد علی لاہوری کی سر پرستی میں تخصص فی التفسیر قرآن کیا۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری سے فیض حاصل کرنے امرتسر گئے۔ لاہور میں قیام کے دوران انھوں نے مولانا مودودی سے دارالاسلام پٹھان کوٹ میں حاضری کی اجازت مانگی۔ مولانا مودودی کی ہدایت پر قیم جماعت میاں طفیل محمد نے خط لکھا: ’’مولانا مودودی نے ہدایت کی ہے آپ دارالاسلام آئیں‘‘۔ ابوالبیان حماد نے بتایا: ’’یہ اجازت نامہ عید کی خوشی سے کم نہیں تھا۔ میں فوراً لاہور سے ٹرین کے ذریعے دارالاسلام سے قریب سرنا ریلوے اسٹیشن پہنچا۔ وہاں پلیٹ فارم پر اترتے ہی مولانا مودودی کی ہدایت کے مطابق ایک شخص میرے پاس آیا اور میرا نام پوچھا اور پھر بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ مصافحہ کیا اور کہا کہ ’’مَیں آپ کو لینے آیا ہوں‘‘۔ میرے منع کرنے کے باوجود اس نوجوان نے بڑے اصرار کے ساتھ میرا سارا سامان اپنے سر اور کاندھے پر اٹھالیا۔ دارالاسلام، اسٹیشن سے چند کلومیٹر کی دُوری پر تھا۔ منزل پر پہنچ کر میں نے ایک فرد سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ عجز و انکسار اور سادگی کا یہ نمونہ ملک غلام علی ہیں ۔وہی ملک غلام علی جو بعد میں شریعت کورٹ پاکستان کے جج اور تحریک اسلامی سے متعلق کئی کتابوںکے مصنف کے طور پر معروف ہوئے‘‘۔جسٹس ملک غلام علی کا تذکرہ کرتے وقت ابوالبیان صاحب کی آنکھیں آبدیدہ تھیں۔
انھوں نے بتایا: ’’دارالاسلام پہنچنے پر میری ملاقاتیں مولانا مودودی، مولاناامین احسن اصلاحی اور دیگر رفقائے کرام سے ہوتی رہیں۔ میں نے جب مولانامودودی سے تحریک اسلامی پر مطالعہ و تحقیق کے بارے میں اپنی خواہش عرض کی تو مولانا نے مجھے دار الاسلام کے بجائے پٹھان کوٹ سے کچھ دوری پر واقع بستی دانش منداں، جالندھر جاکر دار العروبہ میں مسعود عالم ندوی سے فیض حاصل کرنے کی ہدایت کی اور یہ بھی فرمایا کہ’’ وہاں سے برابر دار الاسلام آتے جاتے رہیں اور دونوں مراکز سے فائدہ اٹھاتے رہیں‘‘۔
وہ جالندھر پہنچے اور مسعود عالم ندوی کی سحر انگیز شخصیت اور علمی کمال کے اسیر ہو کر رہ گئے ۔ وہاں ان کی موجودگی میں جماعت اسلامی کے شعبہ دارالعروبہ کا باضابطہ قیام عمل میں آیا ۔ یہاں پر پہلے سے تحریک اسلامی کے رہنما اور جلیل القدر عالم دین جلیل احسن ندوی اور اسکالر عمر قطبی صاحبان موجود تھے ۔ اس طرح ابوالبیان حماد کو دارالعروبہ میں مولانا مسعود عالم ندوی سمیت تین عظیم شخصیات اور اساتذہ کی سرپرستی ملی ۔ اس لحاظ سے تحریک اسلامی کے ابتدائی ایام میں تحقیق و تالیف سے وابستہ اوّلین افراد میں شامل ہوگئے۔ دارالعروبہ میں ان تینو ں شخصیات کے علاوہ ابوالبیان نے خود داعی تحریک اور مرکز جماعت میں موجود متعدد اکابر سے بھی خوب استفادہ کیا، جن میں میاں طفیل محمد، عبدالجبار غازی، مولانا امین احسن اصلاحی، ملک غلام علی، سید عبدالعزیز شرقی، مستری محمد صدیق، نعیم صدیقی اور ملک نصراللہ خاں عزیز قابل ذکر ہیں۔ اسی دوران مرکز میں وقتاً فوقتاً آنے والے حضرات گرامی قدر صدرالدین اصلاحی ، اختر احسن اصلاحی، علی میاں، محمد حسنین سید اور محمد شفیع داؤدی سے بھی ان کی ملاقاتیں رہیں۔
۱۹۴۵ء میں منعقدہ تاریخی اجتماع حماد صاحب کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا۔ وہاں مذکورہ بالا شخصیات سے ملنے کے علاوہ مختلف زبانوں میں تحریکی لٹریچر کے ترجمے اور مزید لٹریچر کے علاوہ تعلیم اور درس گاہ اسلامی کے قیام نیز ذرائع ابلاغ پر بھی تفصیل سے بات چیت ہوئی تھی۔
۲۶-۲۵؍ اپریل ۱۹۴۷ءکو یہ مدراس میں منعقدہ حلقہ جنوبی ہند کے اجتماع میں شریک ہونے کے لیے عمر آباد سے خاص طور پر آئے، جہاں جامعہ دارالسلام میں بحیثیت استاد وابستہ ہوئے تھے۔مدراس کے اس اجتماع میں مولانا مودودی نے اپنے صدارتی خطبہ میں چار نکات پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ اب، جب کہ ہندستان کی تقسیم ناگزیر ہے۔ ہندستان میں تحریک اسلامی کے کرنے کا کام یہی ہے کہ اسلام کا مکمل تعارف قرآن و حدیث اور سیرت کی روشنی میں مختلف زبانوں میں ترجموں کے ذریعے کرایا جائے اور یہی کوشش مستقبل میں اُٹھنے والی قومی کش مکش کو روک سکتی ہے۔ ابوالبیان صاحب ۲۰۱۱ء میں یہ بات یاد کرکے فرما رہے تھے: ’’اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا مودودی کے اندیشے درست تھے، لیکن دُوراندیشی پر مبنی ان کے مشورے پر ہم لوگ ٹھیک طریقے سے عمل نہیں کرسکے۔ اس طرح اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ہنوز بے شمار غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں‘‘۔
ابوالبیان صاحب کے بقول: ’’مولانا مودودی نے درحقیقت مستقبل میں جھانک کر یہ خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ مولانامودودی نے اس خطبے میں جو کچھ کہا تھا وہ ان کی گہری نظر، کمال درجے کے ویژن اور عبقری ذہانت پر مبنی تھا‘‘۔
ابوالبیان حماد ایک اچھے استاد، صحافی، مصنف، شاعر و ادیب اور مترجم کے علاوہ قرآن و حدیث کے علوم میں زبردست مہارت بھی رکھتے تھے۔ انھوں نے ۱۹۴۶ءسے لے کر چند برس قبل تک جامعہ دارالسلام، عمر آباد میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا ۔ اپنے استاد محترم صبغۃ اللہ بختیاری اور شاکر نائطی کی سرپرستی میں شاعری اور نثری تحریرو تخلیق کا ۱۹۳۸ءسے آغاز کیا اور اپنی پہلی غزل ایک کُل ہند مشاعرہ میں شیدا کشمیری، ماہر القادری ، تبسم نظامی اور جگر مراد آبادی جیسے عظیم شعرا کی موجودگی میں پڑھی تھی اور خوب داد حاصل کی تھی۔ ان کے تین شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں: فردوس تغزل، نغمات حمد و نعت اور بانگِ حرا۔نثر میں: توحید کی اہمیت و تقاضے، تازیانے، سفر حجاز و ا یران ہیں۔ یاد رہے کہ تازیانے علامہ ابن حجر عسقلانی کی معرکہ آرا کتاب المنہات کا اُردو ترجمہ ہے، جو پہلی بار لاہور سے اور دوسری مرتبہ پرانتک ہاؤس بنگلورو سے شائع ہوکر بہت مقبول ہوا۔ ان کی کتاب تاریخ کا ایک گم شدہ ورق پڑھنے کے لائق ہے۔
انھوں نے جامعہ دارالسلام میں چوتھی کلاس میں تعلیم کے دوران قلمی رسالے الاخلاق کی ادارت کی۔ پھر اپنے بھائی مولوی ثنا اللہ عمری اور شاگرد سیّد جلال الدین عمری کے ساتھ مل کر ۱۹۵۰ء میں اُردو ہفت روزہ پیغام نکالا اور ایک عرصہ تک باقاعدگی سے چلایا۔ نیز رسالہ اعتدال کی سرپرستی بھی فرمائی۔ ملک نصر اللہ خاں عزیز اور نعیم صدیقی کی سرپرستی میں شائع ہونے والے اخبار کوثر میں صحافتی تربیت لی تھی۔ ان کی تخلیقات ماہ نامہ چراغِ راہ ،کراچی کے ابتدائی دور میں شائع ہوتی رہیں۔ پھر حکیم فضل الرحمٰن سواتی سے علمِ طب بھی سیکھا تھا۔
صحیح معنوں میں وہ تاریخ کا زندہ اثاثہ تھے۔ ایک ایسے وقت میں ، جب کہ آزادی کے بعد ہندستان میں جماعت اسلامی کی تشکیل نو یعنی جماعت اسلامی ہند کے قیام کو اس سال ۷۵ برس ہورہے ہیں، تو تقسیم سے قبل اور بعد کی تاریخ کے یہ عینی شاہد بہت یاد آئیں گے۔
۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۱ء کو ان کے کہے یہ الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں: ’’۴۶-۱۹۴۵ء میں پٹھان کوٹ کا مرکز متحدہ ہندستان میں نیکی کے نگہبانوں کا ہب (Hub) تھا، جہاں بلا تفریق مذہب و ملت انسانیت کی بقا و فلاح اور مختلف شعبۂ حیات بشمول معاشرت، تعلیم، معیشت اور شعرو ادب میں خوفِ خدا کے ساتھ مثبت انداز میں تفکر و تدبر کی باتیں ہوتی اور منصوبے بنتے تھے۔ پھر یہ سلسلہ تقسیم کے بعد تشکیل نو کی صورت میں بھی جاری رہا‘‘۔ تبھی تو ۱۹۷۴ء میں دہلی کے کُل ہند اجتماع کی رپورٹنگ کرتے ہوئے معروف صحافی شیام لال شرما نے ٹائمز آف انڈیا گروپ کے مشہور ہندی ہفتہ وار دنمان (Dinaman) میں اپنی رپورٹ پر ’نیکی کے نگہبانوں کا اجتماع‘ کی سرخی لگائی تھی اور میڈیا میں داد پائی تھی، حق مغفرت کرے!