تحقیقی کام کے سلسلے میں پہلی چیز جو ہماری نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے :
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۵ۙ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۶ۭ (الم نشرح۹۴:۵-۶﴾ )،پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔
تنگی یا مشکل سے مراد ہے محنت۔کیوں کہ محنت کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اگر آدمی محنت کرتا ہے تو اس کے بعد اس کا پھل ملتا ہے ۔ محنت کے بغیر زندگی میں کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے محنت کو اپنی عادت بنائیں۔ مثلاً اگر عربی نہیں آتی تو اسے سیکھنے کی کوشش کریں۔ ضروری نہیں ہے کہ کسی ادارے میں جاکر ہی سیکھی جائے، گھر میں بیٹھ کر بھی سیکھی جاسکتی ہے۔ عربی سیکھنا تو ویسے بھی بہت ہی ضروری ہے۔ کیوں کہ جب تک آپ عربی نہیں جانیں گے تو قرآن حکیم کی مٹھاس سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ ترجمہ پڑھنا تو ایسا ہی ہے کہ آپ کے پاس شہد آیا اور کسی نے اُس کی شیرینی نکال دی اور باقی آپ کو دے دیا۔ عربی سیکھنا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ کتاب عربی کا معلّم جو کہ چار جلدوں پر مشتمل ہے ، اس کام کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ آج کل تو عربی سیکھنے کے جدید طریقے سامنے آگئے ہیں جن سے عربی سیکھنا اور بھی آسان ہوگیا ہے۔ قرآن وحدیث کو عربی میں سمجھے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ عام آدمی کے لیے تو یہ نہیں کہا جاسکتا، لیکن جو لوگ اسلامک اسٹڈیز میں کام کر رہے ہیں ، ان کے لیے عربی کے بغیر کوئی مفر نہیں۔ اگر آپ عربی نہیں سیکھ رہے ہیں تو آپ اسلام کی اچھی طرح خدمت نہیں کرسکتے۔
جہاں تک تحقیق کا تعلق ہے تو اس کام میں محنت کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہے۔ اگر آپ اس کے لیے تیار نہ ہوں اور گھنٹوں کے حساب سے ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پر وقت صرف کریں ، تو زندگی میں کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ خصوصاً علمی کام تو ہوہی نہیں سکتا۔ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ سے حاصل شدہ معلومات محض وقتی ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں آپ کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو وہ آپ کو یاد رہتی ہے ۔ اگر کچھ پڑھا ہوا بھول گئے ہیں تو دوبارہ کتاب دیکھ سکتے ہیں۔ جتنا زیادہ مطالعہ کرسکیں، کیجیے۔ مطالعے کابھی طریقہ یہ ہے کہ پڑھنے کے بعد نوٹس لیں۔ اگر لائبریری کی کتاب ہے تو اپنے کارڈ پر یا کسی اور جگہ نوٹس لے لیں۔ اگر آپ کوئی مقالہ لکھ رہے ہیں تو اس کے نوٹس بنائیے ۔ موضوع کی مناسبت سے پڑھیں اور نوٹس لیں۔ اس کے بعد اپنے خاکے (Outline) کی مناسبت سے لکھیں۔
ہمارے ہاں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تحریر کے معاملے میں پہلی کوشش ہی کافی ہے اور اس سے زیادہ بہتر تو لکھا ہی نہیں جاسکتا۔ اگر تکبر کا عنصر آجائے تو وہاں علم کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ تکبر اور علم ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اپنے لکھے ہوئے کو کئی مرتبہ دُہرائیں۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اس کام میں بہت وقت اور محنت لگتی ہے، لیکن اس کے بغیر کام بھی نہیں بنتا۔ لکھے ہوئے کو خود بھی دُہرائیں اور دوسروں کو تبصرے کے لیے دیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ تبصرے کے لیے دیتے ہیں تو صرف تعریف کی امید رکھتے ہیں۔ اگر آپ نے ان پر کوئی تنقید کردی تو ان کا پارہ چڑھ جاتا ہے۔ یہ رویہ ہوتو بہت زیادہ سیکھا نہیں جاسکتا۔ اس کے لیے بھی تیار ہونا چاہیے کہ اگر کوئی غلط قسم کی تنقید بھی کردے تب بھی ناراض نہ ہوں۔ اچھی طرح غور کرکے دیکھیں کہ اس کی تنقید درست ہے یا نہیں؟ درست ہے تو اپنی تحریر کو بہتر بنائیں اور صحیح نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیں۔
کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اچھے رسالے کے لیے مقالہ لکھیں اور محنت سے لکھیں۔ اس کے بعد بھی اس چیز کے لیے تیار رہیں کہ مبصرین کے جو تبصرے آئیں گے اس کی مناسبت سے آپ اس میں بہتری لائیں گے۔ گویا سب سے پہلے محنت، بہت سا مطالعہ کرنا اور خاص طور سے اگر کوئی مضمون لکھنا ہے تو اس سے متعلق چیزوں کا مطالعہ کرنا ، نوٹس لینا، پھر مقالہ لکھنا ، اس کو کئی بار دُہرانا، لوگوں کو تبصرے کے لیے دینا اورتبصروں کی مناسبت سے دُہرانا ہے۔ پھر فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا کے مصداق آپ کو آپ کی محنت کا صلہ مل جائے گا۔ آپ کو خوشی ہوگی جب آپ کا مقالہ کسی عمدہ رسالے میں چھپے گا، لوگ اس پر اچھے تبصرے کریں گے اور آپ کی عزت بڑھے گی۔ جو محنت کرنے اور تنقید سننے کے لیے تیار نہیں ہے وہ عالم نہیں بن سکتا۔ اپنا مطالعہ وسیع تر کریں۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ کے دورانیے کو کم کریں اور وہ وقت مطالعے میں صرف کریں۔ شام کو گھر پر جاکر ضرور مطالعہ کریں۔ چھٹی والے دن اور معمول کے دنوں میں بھی، فرق صرف یہ ہونا چاہیے کہ چھٹی کے دن آدمی گھر میں کام کرے اور اس کا دفتر آنے جانے کا وقت بچے۔ زندگی میں اپنے سامنے اس بات کو نشانِ راہ کے طور پر رکھیں: ’’محنت کے بغیر کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا، اور محنت کے ذریعے سب کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔
باہر کے ممالک میں لوگ تحقیق کے لیے بہت زیادہ محنت کرتے ہیں جو ہمارے ہاں نہیں ہے۔ دوسرے ممالک میں لوگ اپنے مقالہ جات کو خود بار بار پڑھتے ہیں، لوگوں کے تبصرے لیتے ہیں، لوگوں کے ساتھ اس پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں اور اس دوران میں نوٹس لیتے رہتے ہیں۔ ان کی روشنی میں مقالے کو مزید بہتر کرتے ہیں۔ یہ ایک اسکالر کی صفات ہیں۔
بعض اوقات دفتروں کے اندر بھی لوگ نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان چیزوں سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ کیوں کہ مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا، اور جب تک اللہ نہ چاہے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بظاہرآپ کے خلاف کسی نے سازش ہی کی ہو، لیکن بعد میں آپ کو پتا چلے کہ یہ تو آپ کے حق میں بہت بہتر ہوگیا: وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۰ۚ (البقرہ۲:۲۱۶﴾)’’ممکن ہے تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمھارے حق میں اچھی ہو‘‘۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کو ترقی نہ ملے اور آپ اپنے افسر کو برا بھلا کہنے لگیں لیکن ترقی دینے والا آپ کا افسر بالا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اگراللہ نے چاہا تو آپ کی ترقی کو کوئی روک نہیں سکتا اوراگر اللہ تعالیٰ نے نہ چاہا تو کوئی ترقی دے نہیں سکتا۔ ہمارایہ عقیدہ مضبوط ہو کہ جتنا ہمیں ملے گا ،اللہ ہی کی ذات سے ملے گا اور اسی کے سامنے آدمی دستِ طلب بھی دراز کرے، اور اسی کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کرے تو زندگی میں ترقی ہی ترقی ہے۔