جمہوریہ ترکیہ کے جنوب مشرق میں شام کی سرحد سے متصل ۶فروری ۲۰۲۳ءکو آئے زلزلے نے ملک میں قہر مچا دیا ہے۔ تقریباً ایک لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط علاقہ اس کی زد میں آیا ہے۔ دس صوبوں، قہرمان مارش، حاتائی، عثمانیہ، غازی ان تپ، شانلی عرفہ، دیاربکر، مالاتیہ، کیلس، آدانا اور آدیمان کی ایک کروڑ ۲۰ لاکھ کی آبادی متاثر ہوئی ہے۔ اس متاثرہ علاقے کے ایک سرے یعنی آدانا سے دوسرے سرے یعنی دیار بکر یا مالاتیہ تک ۷۰۰کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ یہ سارا علاقہ تباہی اور بربادی کی ایک داستان بیان کر رہا ہے۔ ۵۰ہزار سے زیادہ افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ہے ۔ اتنے بڑے علاقے میں بچائو اور سہارے کے لیے حکومتی اہل کاروں اور رضاکاروں کی ایک بڑی فوج کی ضرورت ہے۔ ترکی کے ان صوبوں کے علاوہ سرحد کی دوسری طرف شام کے پانچ صوبہ لاتیکا، ادلیب، رقہ اور الحکہ بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
تین سال قبل جب ترکیہ کی قومی نیو ز ایجنسی انادولو سے دارالحکومت انقرہ میں وابستگی اختیار کی تو مجھے بتایا گیا: ’’ترکیہ میں زلزلے آتے رہنا تو ایک عام سی بات ہے، اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بلڈنگوں کے ڈیزائن و تعمیر ایسی ہے کہ یہ ہلتی تو ہیں، مگر گرنے کا احتمال کم ہی ہوتا ہے۔ ترکیہ دوٹیکٹونک پلیٹوں کے بیچ میں واقع ہے اور یہ پلیٹ ایک دوسرے سے ٹکراتے رہتے ہیں‘‘۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہمارے دفتر میں کئی ترک ساتھیوں کو اپنے اہل خانہ یا والدین کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔
شانلی عرفہ کے سرحدی سوروج قصبہ میں مقامی صحافی آیان گلدووان مجھے بتا رہے تھے: ’’جب زلزلے کے جھٹکے سے مَیں بیدار ہوا تو پہلے تو مجھے یوں لگا کہ ترکیہ نے شاید شام میں امریکا کے حلیف کرد باغیوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیاہے اور بمباری ہو رہی ہے۔ زلزلہ مقامی وقت کے مطابق ۴بج کر ۱۷منٹ پر آیا، جب کہ باہر برف باری ہو رہی تھی۔ آج کل فجر کی اذا ن ۶بج کر ۴۵ منٹ پر ہوتی ہے۔ اپنے والدین کے ساتھ جان بچانے کے لیے میں بلڈنگ سے باہر نکلا۔ دُور سے تاریخی عرفہ شہر سے گرد و غبار آسمان کی طرف بلند ہوتا دکھا ئی دیا۔زمین کی تھرتھراہٹ ۶۵ سیکنڈ تک جاری رہی اور پندرہ منٹ کے بعد، میں برف باری اور منجمد کرتی سردی سے بچنے کے لیے اپنی بلڈنگ کی طرف جانے لگا۔ اسی دوران ایک اور زلزلہ آگیا اور مَیں نے اپنی آنکھوں سے اس بلڈنگ کو گرتے دیکھا ، جس میں میرا فلیٹ تھا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے بے گھر ہوچکا تھا‘‘۔
متمول صوبہ غازی ان تپ، جس کے دارالحکومت کا نام بھی غازی ان تپ ہے، کے نواح میں ایک پہاڑی پر نیوز اینکر اوکتے یالچن کا فلیٹ تھا۔ ان کی بلڈنگ بھی زلزلے کے دوسرے جھٹکے سے گر گئی۔ پہاڑی سے وہ شہر پر آئی قیامت دیکھ رہے تھے۔ ان کا کہناہے: ’’ہمیں یوں لگا جیسے کوئی ایٹم بم گرادیا گیا تھا۔ ماہرین نے بتایا کہ اس زلزلہ کی شدت ۵۰۰میگاٹن ایٹم بم جتنی تھی۔ جاپان کے ہیروشیما شہر پر جو ایٹم بم امریکا نے گرایا تھا اس کی طاقت تو بس ۱۵کلو ٹن تھی۔ زلزلہ تھمنے کے بعد میں شہر کے مرکز کی طرف روانہ ہوا، تو دیکھا کہ شاپنگ مال، کلبس اور ریسٹورنٹس ، جہاں کل رات تک لوگ چمکتی ہوئی بھڑکیلی روشنیوں کے جلو میں ویک اینڈ جشن منا رہے تھے، زمین بوس ہو چکے تھے۔ قہر مان مار ش صوبہ کے دو قصبے پزارجک اور البستان کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔ زلزلہ کا مرکز یہیں تھا‘‘۔
حاتائی میں ہی انادولو نیوزایجنسی کے ایک اور رپورٹر اپنے مکان کے گرنے سے اپنے خاندان کے ساتھ زندہ ہی ملبے میں دفن ہو گئے تھے۔ وہ بتا رہے تھے:’’ہر طرف اندھیر ا تھا اور لگتا تھا کہ ہم زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ چند گھنٹوں کے بعد مَیں نے محسوس کیا کہ زلزلہ کے مزید جھٹکوں نے دیوار میں شگاف ڈال دیا، جس سے روشنی نظر آنا شروع ہوئی۔ پھر میں نے کئی گھنٹوں کی مشقت کے بعد وہاں پڑی ایک سخت چیز سے اس سوراخ کو بڑا کیا۔ مجھے کچھ یاد نہیں کہ و ہ آلہ کیا تھا اور کیسے ہاتھ میں آگیا تھا۔ سوراخ تھوڑا بڑا ہوگیا ، تو پہلے اپنے بچوں کو باہر نکالا اور پھر اپنے والدین اور پھر خود اپنی اہلیہ کے ساتھ باہر آگیا۔ ہم دو دن تک خون جمانے والی سردی اور بارش میں بغیر جوتوں کے نائٹ سوٹ پہنے سڑک پر کسی ریسکیو ٹیم کا انتظار کر رہے تھے‘‘۔
بحیرۂ روم کے ساحل پر حاتائی صوبہ کی بندرگاہ اسکندرون تو آگ کی نذر ہو گئی ۔ یہاں ترکیہ کی قومی بحریہ کا ایک اسٹیشن بھی ہے۔ زلزلہ سے کئی کنٹینر الٹ گئے اور آگ بھڑک اٹھی، کئی روز کے بعد آگ پر قابو پایا گیا۔ پڑوس میں آدانا صوبہ میں انجیرلک کے مقام پر ناٹو اور امریکی فوج کی فارورڈ بیس کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ مگر اس کے ایئرپورٹ کو ٹھیک کرکے بھاری طیاروں کے اترنے کے قابل بنا دیا گیا ہے۔
غازی ان تپ کے دو ہزار سال پرانے تاریخی قلعے نے کئی زمانے دیکھے ،مگر اس زلزلہ کی وجہ سے اس کا ایک بڑا حصہ مسمار ہو گیا ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کے لیے اس کی مرمت اور بحالی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ ترکیہ کا یہ متاثرہ علاقہ تاریخی لحاظ سے خاصا اہم ہے۔ شان لی عرفہ کے صوبے میں عرفہ شہر کو فلسطین کی طرح پیغمبروں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ اس کا قدیم نام شہر’ ار‘ ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے تھے اور ان کو نمرود نے آگ میں ڈالا تھا۔ جس جگہ ان کو آگ میں ڈالا گیا تھا وہاں اب ایک خوب صورت تالاب ہے، جس میں ہزاروں مچھلیاں تیرتی رہتی ہیں۔ یہ حضرت شعیبؑ ، حضرت ایوبؑ اور حضرت الیاس علیہم السلام کا بھی وطن ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنی زندگی کے سات سال یہاں گزارے۔
جمہوریہ ترکیہ میں آفات سے نمٹنے والی ایجنسی AFADدنیا بھر میں اپنی کارکردگی اور مہارت کی وجہ سے مشہور ہے ۔ مگر یہ تباہی جس بڑے پیمانے پر اور جس وسیع خطے میں آئی ہے، اس وجہ سے اکیلے یہ بحالیات کرنے والی ایجنسی شاید ہی اس سے نپٹ سکے۔ فی الحال دینا بھر کے نوّے ممالک کی ٹیمیں میدا ن میں ہیں۔ان میں پاکستان اور بھارت کی ریسکیو ٹیمیں بھی شامل ہیں۔ پاکستان ریسکیو ٹیم نے آدیمان میں ایک ۱۵ سالہ بچے کو ملبے سے زندہ نکالا، جو یقینا ایک کرشمۂ قدرت ہے۔ اس ٹیم نے اب اس جگہ پر ریسکیو آپریشن ختم کر دیا تھا کہ اس کے ایک کارکن نے موہوم آواز میں کسی کو کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے سنا ۔انھوں نے دوبارہ آلات نصب کیے، تو معلوم ہو اکہ آواز ملبے سے آرہی ہے۔ کئی گھنٹوں کی مشقت کے بعد اس بچے کو برآمد کیا گیا، جو منفی درجہ حرارت میں ۱۳۷گھنٹوں تک ملبہ میں دبا رہا ۔ ایسے اَن گنت واقعات منظر عام پر آرہے ہیں۔چونکہ زندہ افراد کے ملبے سے نکلنے کا سلسلہ جاری رہا، اس لیے بلڈوزر اور بھاری مشینری استعمال کرنے سے پرہیز کیا گیا ہے۔ ہاتھوں سے ملبہ اٹھانا اور اس میں زندہ وجود کا پتہ لگانا انتہائی صبر آزما کام ہے۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ ایک بڑی متاثرہ آبادی کی آبادکاری اور ان کی متبادل رہایش کا انتظام کرنا، شہروںاور قصبوں کا پورا انفراسٹرکچر کھڑا کرنا ایک بہت بڑا اور سخت کٹھن کام ہے۔ یاد رہے، عددی اعتبار سے ترکیہ، امریکا کے بعد دُنیابھر میں بیرونِ ملک انسانی امداد پر خرچ کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ چاہے بنگلہ دیش، میانمار، روہنگیا کے متاثرین ہوں یا افغانی، شامی، جنوبی امریکی اور افریقی آفت زدگان۔ ۲۰۲۱ء میں طیب اردوان کی حکومت نے بیرونِ ملک انسانی امداد کے لیے ۵ء۵ بلین ڈالر خرچ کیے تھے۔
ترکیہ کا ایک ادارہ ’ترکش کوآپریشن اینڈ کوآرڈی نیشن ایجنسی‘ انھی خدمات کے لیے مختص ہے۔ علاوہ ازیں مذہبی اُمور کی وزارت اور بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں بھی امداد اور زکوٰۃ جمع کرکے دُوردراز ممالک میں ضرورت مندوں تک پہنچاتی ہیں۔ اس طرح جمہوریہ ترکیہ کی مجموعی قومی پیداوار کا اعشاریہ ۸۶ فی صد بیرون ملک انسانی امداد پر مختص کرکے، ترکیہ امریکا سے کافی آگے ہے۔ اب آزمایش دیکھیے کہ سخاوت، دریا دلی اور خود داری کے لیے مشہور یہ ملک،جس کے پاس عرب دنیا کی طرح تیل کے چشمے بھی نہیں ہیں، اس مصیبت کی گھڑی میں خود امداد کامستحق ہوگیا ہے۔
ان آفت زدہ علاقوں کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے دور دور تک صرف ملبے کے ڈھیر نظر آتے ہیں اور ان کے درمیان جزیروں کی طرح چند عمارتیں کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق یہ حکومت کی طرف سے رعایتی نرخوں پر غریبوں کے لیے بنائے گئے مکانات ہیں، جو شدید زلزلوں کے جھٹکوں کو سہہ سکے ہیں، جب کہ اسکائی اسکریپرز، پُر تعیش کثیر منزلہ عمارات، ان میں سے کئی تو بس چند ماہ پہلے ہی مکمل ہو چکی تھیں، اور ان کو بیچنے کے لیے کئی شہروں میں ہورڈنگس لگی ہوئی تھیں، زمین بوس ہو چکے ہیں۔ اسی طرح زلزلہ کے مرکز قہرمان مارش صوبہ کے پزارجک قصبہ سے صرف ۸۰کلومیٹر دُور ایرزان قصبہ کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ اس کے سبھی مکین مع مکانات صحیح و سلامت ہیں۔
آفت زدہ علاقے کے باسی ابھی تک دہشت زدہ ہیں، اور ابھی تک گھروں کے بجائے سڑکوں اور پارکوں میں خیموں میں رہ رہے ہیں۔آفٹر شاک آنے کا سلسلہ جاری ہے ۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ۱۹ہزار کثیر منزلہ عمارات زمین بوس ہو چکی ہیں اور مزید ۳۰ہزار ناقابل رہایش ہوچکی ہیں۔ اس کے علاو ہ لاتعداد عمارتوں کو انتہائی مرمت کی ضرورت ہے۔ چونکہ ۱۹۸۰ءسے ہی ترکیہ میں قانونی طور پر انفرادی مکانات یا بنگلے تعمیر کرنے پر پابندی عائد ہے، اس لیے کم و بیش پوری آبادی کثیر منزلہ عمارات میں ہی رہتی ہے۔
۱۹۹۹ء میں ازمت اور استنبول کے آس پاس آئے زلزلے کے بعد بلڈنگ قوانین میں بڑی تبدیلیاں کرکے یہ لازم کردیا گیا تھا کہ زلزلہ کو سہنے والی عمارات ہی بنائی جائیں۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ جنوب مشرق کے ان صوبوں کی مقامی بلدیہ نے ان قوانین کا سختی کے ساتھ اطلاق نہیں کیا ہے۔ مالاتیہ صوبہ میں ایک ایسی بلڈنگ گر گئی، جس کا پچھلے سال ہی افتتاح ہوا تھا۔ حاتائی کے انتاکیا شہر میں جب ایک ۱۲منزلہ عمارت گرنے کی خبر آئی تو اس کے بنانے والے مہمت یاسا ر ملک سے باہر فرار ہو رہے تھے، ان کو استنبول ایرپورٹ پر گرفتار کیا گیا۔ اسی شہر میں بحر روم کے کنارے ایک ۲۵۰ فلیٹوں پر مشتمل سپر لگزری ۲۴منزلہ عمارت ایک ڈویلپر نے بنائی تھی، جس کے ہورڈنگس ملک بھر کے خریداروں کو لبھا رہے تھے۔ یہ عمارت تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی ہے۔
زلزلوں کے ماہر اور اسٹرکچر انجینئر مہدی زارا کے مطابق اکثر ہلاکتیں زلزلہ کے بجائے بلڈنگوں کے گرنے سے ہوئی ہیں اور اگر کوئی بلڈنگ شاک سے گر جاتی ہے، تو یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ اس کی تعمیر میں کوئی نقص تھا۔ ان کے مطابق جدید ٹکنالوجی کے ذریعے بلڈنگوں کو شاک پروف بنایا جاسکتا ہے اور یہ تکنیک عمارت بنانے کے لیے استعمال کرنا تو ترکیہ میں لازمی ہے۔ اس کا بڑاثبوت اسی علاقے میں غریب افراد کے لیے بنائی گئی عمارات ہیں، جو بالکل سلامت کھڑی ہیں۔ لگتا ہے کہ بلڈنگ قوانین یا کوڈ کو سختی سے ان علاقوں میں لاگو نہیں کیا گیا تھا۔ حالانکہ ایک بہتر ڈیزائن والی عمارت اس سے بھی زیادہ شدت کے زلزلے برداشت کر سکتی ہے۔کسی بھی بلڈنگ کو شاک پروف بنانے کے لیے اس کی بنیاد میں اسٹیل کی راڈیں ڈالی جاتی ہیں اور پھر استونوں کے کالم بھی اسٹیل سے ہی کھڑے کیے جاتے ہیں۔ زلزلہ کے وقت لچک کی وجہ سے اسٹیل کالم جھٹکے کے بعد واپس اپنی پوزیشن میں آتے ہیں اور بلڈنگ محفوظ رہتی ہے۔
انقرہ میں حکومت کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں چونکہ بلدیاتی ادارے اپوزیشن گڈ پارٹی اور کرد ایچ ڈی پی کے پاس ہیں، انھوں نے مقبولیت حاصل کرنے کے لیے اور رئیل اسٹیٹ بوم دکھانے کے لیے بلڈنگ بنانے کی شرائط اور ان پر عمل درآمد کروانے میں نرمی برتی ہے۔ نائب صدر فواد اوکتہ کے مطابق ابھی تک ۱۳۱ٹھیکے داروں، انجینئرو ں اور معماروں کی نشان دہی کی گئی ہے، جن کے خلاف مقدمے درج کیے جائیں گے۔ وزارت انصاف نے تو باضابطہ تفتیش کے لیے ایک ٹیم بھی تشکیل دی ہے۔ ترکیہ میں ہر گھر کا انشورنس کرنا لازمی ہوتا ہے، اس کے بغیر بجلی، پانی اور گیس کا کنکشن مل ہی نہیں سکتا۔ اس طرح ہر سال انشورنس کمپنیاں مکان مالکان سے ۲ء۱۹ بلین لیرا اکٹھا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے عائد زلزلہ ٹیکس میں بھی ۸۸بلین لیرا حکومت کے خزانے میں جمع ہیں۔ ہر سال بلدیہ کے ضابطہ محکمہ کے افراد جدید آلات لیے عمارتوں کی چیکنگ کرتے رہتے ہیں۔ انقرہ میں جس علاقے میں، مَیں رہایش پذیر ہوں ، صرف پچھلے ایک سال کے دوران پانچ بلڈنگوں کو غیر محفوظ قرار دے کر مسمار کردیا گیا ۔ ضابط محکمہ مکینوں کو نوٹس دیتا ہے اور پھر ان کو ایک سال تک متبادل رہایش اور سامان کے نقل و حمل کے لیے خرچہ دے کر مسمار شدہ جگہ پر نئی عمارت بغیر کسی خرچہ کے تعمیر کراتا ہے۔ اس کا خرچہ مکان مالک کے بجائے انشورنس کمپنی سے لیا جاتا ہے۔
یہ زلزلہ ایسے وقت آیا ہے کہ جب صدر رجب طیب اردوان اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں ۔ انھوں نے پہلے ہی ۱۴مئی ۲۰۲۳ء کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا تھا۔ ان زلزلوں کا ایک ضمنی مثبت اثر یہ رہا کہ ترکیہ اور یونان میں مفاہمت کے آثار نظر آرہے ہیں۔ سیاسی کشیدگی ہوتے ہوئے بھی یونان نے سب سے پہلے اپنی ریسکیو ٹیموں کو بھیجا اور ان کے وزیر خارجہ نکوس ڈنڈیاس خود اس کی نگرانی کرنے پہنچ گئے۔ دوسری طرف آرمینیا اور ترکیہ کے درمیان بارڈر پوسٹ ۳۰سال بعد کھولی گئیں۔ کاش! اسی طرح کی کوئی مفاہمت شام اور ترکیہ کے درمیان بھی ہوتی، تاکہ اس خطے میں امن بحال ہوسکے اور شورش کی وجہ سے ۴۰لاکھ کے قریب بے گھر شامی اپنے گھروں کو جاکر زندگی گزار سکیں۔