میں نے جس قدر بھی قرآن مجید کا مطالعہ کیا ہے اس کی بنا پر یہ سمجھتا ہوں کہ ہروہ شخص جو شرک کا ارتکاب کرے، یا جس کے عقیدہ و عمل میں شرک پایا جائے، اس کو نہ اصطلاحاً ’مشرک‘ کا خطاب دیا جاسکتا ہے اور نہ اس کے ساتھ مشرکین کا سا معاملہ کیا جاسکتا ہے۔ اس خطاب اور اس معاملے کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک شرک ہی اصل دین ہے، جو توحید کو بنیادی عقیدے کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتے ، اور وحی و نبوت اور کتاب اللہ کو سرے سے ماخذ ِ دین ہی ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
میں یہ بات قطعی جائز نہیں سمجھتا کہ اُن لوگوں کو ’مشرک‘ کہا جائے اور مشرکین کا سا معاملہ اُن کے ساتھ کیا جائے جو کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہیں، قرآن کو کتاب اللہ اور سندوحجت مانتے ہیں، ضروریاتِ دین کا انکار نہیں کرتے، شرک کو اصل دین سمجھنا تو درکنار ، اپنی طرف شرک کی نسبت کو بھی بدترین گالی سمجھتے ہیں، اور تاویل کی غلطی کے باعث کسی مشرکانہ عقیدے اور عمل میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ وہ شرک کو شرک سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ اس غلط فہمی میں پڑگئے ہیں کہ ان کے یہ عقائد و اعمال عقیدئہ توحید کے منافی نہیں ہیں۔
اس لیے ہمیں ان پر کوئی بُرا لقب چسپاں کرنے کے بجائے حکمت اور استدلال سے ان کی یہ غلط فہمی رفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ خود سوچیں کہ جب آپ اس طرح کے کسی آدمی کے سامنے اس کے کسی عقیدے یا عمل کو توحید کے خلاف ثابت کرنے کے لیے قرآن و حدیث سے استدلال کرتے ہیں تو کیا آپ کے ذہن میں یہ نہیں ہوتا کہ وہ قرآن و حدیث کو سند و حجت مانتا ہے؟ کیا یہ استدلال آپ کسی ہندو یا سکھ یا عیسائی کے سامنے بھی پیش کرتے ہیں؟ پھر جب آپ اس سے کہتے ہیں کہ ’دیکھو، فلاں بات شرک ہے‘۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، تو کیا آپ اُس وقت یہ نہیں سمجھ رہے ہوتے کہ یہ شرک کے گناہِ عظیم ہونے کا قائل ہے؟ اگر یہ بات نہ ہوتی تو آخر آپ اس کو شرک سے ڈرانے کا خیال ہی کیوں کرتے؟ (رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج ۵۹، عدد۶، مارچ ۱۹۶۲ء، ص۵۷-۵۹)