اسلامی احیا کی اس تحریک کو شاہ ولی اللہ کے بعد شاہ عبدالعزیز دہلوی [۲۰ستمبر ۱۷۴۶ء- ۵جون ۱۸۲۳ء] اور آپ کے خانوادے کے دوسرے بزرگوں نے زندہ رکھا۔اگرچہ احمدشاہ ابدالی کے کامیاب حملے نے مرہٹہ جنگجوئوں کی صورت میں ہندو نسل پرست تحریک کی کمر توڑ دی تھی، لیکن اس کے باوجود ہندستان میں بدامنی اور طوائف الملوکی کے اس زمانے میں مسلمانوں کی سماجی، دینی، معاشی اور سیاسی زندگی بے وزنی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ مشرق اور دکن سے برطانوی سامراج قدم پھیلاتا ہوا بڑھتا چلا آرہا تھا اوردوسری جانب پنجاب عملاًسکھوں کی سکھاشاہی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ تیسری جانب مسلمانوں میں ہندوانہ رسوم و رواج اور بدعات نے دین کی شکل تبدیل کرنے کا سفر جاری رکھا تھا۔ ایسے میں سیّداحمدشہید [۲۹نومبر ۱۷۸۶ء،رائے بریلی- ۶مئی ۱۸۳۱ء، بالاکوٹ] اور شاہ اسماعیل شہید [۲۶؍اپریل ۱۷۷۹ء-۶مئی ۱۸۳۱ء] کی قیادت میں تحریک ِ مجاہدین نے راہِ منزل متعین کی۔
تحریک مجاہدین کے پس منظر میں شاہ عبدالعزیز بن شاہ ولی اللہ کے ان فتاویٰ نے بنیادی کردار ادا کیا: ’’یہاں کے عیسائی حکام کا حکم بے دھڑک جاری ہے۔ یہ لوگ خود میں حاکم اور مختارمطلق ہیں۔ بے شک یہ نمازِ جمعہ، عیدین، اذان وغیرہ میں رکاوٹ نہیں ڈالتے، لیکن ان سب کی جڑ بے حقیقت اور پامال ہے۔چنانچہ یہ لوگ بے تکلف مسجدوں کو مسمار کر دیتے ہیں۔ عوام کی شہری آزادیاں ختم ہوچکی ہیں، یہاں تک کہ کوئی مسلمان یا غیرمسلم ان کی اجازت کے بغیر اس شہر یا اس کے اطراف میں نہیں آسکتا۔ دہلی سے کلکتے تک ان کی عمل داری ہے‘‘(فتاویٰ عزیزیہ، اوّل، ص۱۷)۔ [دوسرے فتوے میں لکھا:]’’نصاریٰ بلکہ کافروں کی ملازمت کی کئی اقسام ہیں۔ اس میں بعض مباح، بعض مستحب، بعض مکروہ ، بعض حرام، بعض گناہِ کبیرہ ہیں‘‘ (ایضاً، دوم، ص ۱۱۹)۔ ’’ہندستان اب دارالحرب ہوگیا ہے‘‘(ایضاً، اوّل، ص ۱۰۵)۔شاہ عبدالعزیزؒ کے یہ فتاویٰ اور خطبات عملی سطح پر تحریک مجاہدین کی تشکیل و تحریک اور آزادیِ ہند اور اسلامی ریاست کی تعمیر کا عنوان بنے۔
یاد رہے کہ تحریک مجاہدین محض جہاد بالسیف کی تحریک نہ تھی، بلکہ یہ تعلیم و اصلاح کی تحریک بھی تھی۔ جس کا پہلا ہدف اصلاح عقائد اور بدعات سے اجتناب اور مقامی ثقافتی رواج کو اسلام بناکر اختیار کرنے کے فتنے سے مسلمانوں کو بچانا تھا۔ دوسرا یہ کہ انگریزی اثرات اور حکومت کو ختم کرنا۔ تیسرا یہ کہ کتاب و سنت کی ترویج اور احیائے دین۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ایک آزاد ٹھکانے کی ضرورت تھی، جسے قائم کرنے کے لیے سیّداحمد بریلوی کی قیادت میں تحریک مجاہدین نے راجستھان، سندھ ، قندھار سے ہوتے ہوئے کابل اور پنجاب کے درمیان پٹھان قبائلی علاقے کو مستقر بنانے کی راہ اختیار کی۔
سیّد احمد شہید نے صراطِ مستقیم میں پہلے طریقِ نبوت اور صوفیا کے طریقے کا فرق بیان کیا ہے، بدعت کی حقیقت اور اس سے بچنے کے موضوع پر بڑی جامع بحث کی ہے۔پھر آپ نے ہندستان میں فعال تصوف کے اُن تمام سلسلوں کے افکار و اشغال کو بیان فرمایا ہے، جو آپ کی نگاہ میں صحیح تھے۔ آخر میں ایک بڑا اہم باب مسلک راہِ نبوت پر لکھا ہے، جس میں بیان کیا ہے کہ فکری و روحانی اصلاح کے لیے نبویؐ طریقہ کیا ہے؟
اس بارے میں خود سرسیّد احمد خاں [۱۷؍اکتوبر ۱۸۱۷ء- ۲۷مارچ ۱۸۹۸ء]کی شہادت بڑی دل چسپ ہے۔ سرسیّد احمد خاں مرحوم، شاہ اسماعیل شہید کے بارے میں لکھتے ہیں: بموجب ارشاد سیّد پیر طریق یدا (سیّد احمد بریلوی صاحب) کے، اس طرح سے تقریر و وعظ کی بنا ڈالی کہ مسائل جہاد فی سبیل اللہ بیش تر بیان ہوتے۔ یہاں تک کہ آپ کے صیقلِ تقریر سے مسلمانوں کا آئینہ باطن مصفّا اور مجلّٰی ہوگیا، اور اس طرح سے راہِ حق میں سرگرم ہوئے کہ بے اختیار دل اُن کا چاہنے لگا کہ سر اُن کا راہِ خدا میں فدا ہو اور جان ان کی اعلائے لوائے محمدیؐ میں صرف ہو۔ (آثار الصنادید ، طبع اوّل، بحوالہ سہ ماہی رسالہ تاریخ و سیاست، بابت نومبر۱۹۵۲ء، ص ۸)
مولانا عبدالحی [م: ۸شعبان ۱۲۴۳ھ/۲۴ فروری ۱۸۲۸ء]کے بارے میں سرسیّد احمد خاں لکھتے ہیں: ’’لوگوں کو نہایت ہدایت حاصل ہوئی اور بااتفاق مولوی محمداسماعیل صاحب کے ترغیب ِ جہاد فی سبیل اللہ میں سرگرم رہے‘‘(ایضاً، ص ۷۶)۔اس طرح تحریک ِ مجاہدین نے قوم میں جہاد کی روح پھونک دی، مسلمانوں کو دوبارہ اس جذبے سے سرشار کیا کہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے وہ اپنی جانیں دے دیں۔
اپنی تحریک کے بارے میں سیّد احمد بریلوی فرماتے ہیں:’’وہ غیر جن کا وطن بہت دُور ہے، بادشاہ بن گئے۔ وہ تاجر جو سامان بیچ رہے تھے، انھوں نے سلطنت قائم کر لی ہے۔ بڑے بڑے امیروں کی عمارتیں اور رئیسوں کی ریاستیں خاک میں مل گئی ہیں ، ان کی عزّت اور ان کا وقار چھن گیا ہے ۔ جو لوگ ریاست و سیاست کے مالک تھے، وہ کنج ِ عافیت میں بیٹھے ہیں۔ آخر فقیروں اور مسکینوں میں سے تھوڑے سے آدمیوں نے ہمت باندھی اور ضعیفوں کا گروہ محض خدا کے دین کی خدمت کے لیے اُٹھا ہے، یہ لوگ نہ دُنیادار ہیں اور نہ جاہ طلب۔ جب ہندستان کا میدان غیروں اور دشمنوں سے خالی ہوجائے گا اور ضعیفوں کی کوششوں کا تیر نشانے پر جا بیٹھے گا تو آیندہ کے لیے ریاست و سیاست کے عہدے طالب لوگوں میں بانٹ دیئے جائیں گے۔خدا کے اس انعام کا شکر بجا لائیں، ہمیشہ ہرحالت میں جہاد قائم رکھیں، کبھی اس کو معطل نہ چھوڑیں، عدالت اور فیصلوں میں شرع کے قانون سے بال برابر بھی تجاوز نہ کریں۔ ظلم اور کشت و خون سے برابر بچتے رہیں‘‘۔
یہ تھا وہ مقصد، جس کو لے کر آپ اُٹھے تھے۔ آپ نے سنتؐ کے اتباع کی دعوت دی۔ اس دور میں صحابہؓ سے قرب کی کوئی مثال ہمیں ملتی ہے تو اس تحریک میں ملتی ہے۔ وہی جذبہ ہے، وہی کیفیت ہے، وہی قربانیاں ہیں،وہی اخلاص ہے، اسی قسم کی للہیت ہے اور پروانہ وار فدا کاری!
ایسی غیرمعمولی مثالیں اس تحریک میں ملتی ہیں کہ کم از کم ہندستان کی تاریخ میں تو کوئی اُن کی مثال نہیں۔ پھر جن مشکلات سے یہ لوگ گزرے، اس میں جس تحمل اور پامردی اور جس ہمت کا انھوں نے مظاہرہ کیا،وہ غیرمعمولی ہے۔ ذاتی اخلاق اور عفت و پاک بازی کا معیار بھی بڑا ہی اُونچا تھا۔ ہزاروں کا لشکر ایک شہر میں جاتا ہے اور کسی شخص کا ایک برتن نہیں لُوٹا جاتا۔ کسی دکان پر سے ایک چیز نہیں اُٹھائی جاتی اور نہ بلاقیمت لی جاتی ہے۔ عورتیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ سیّداحمد شہید کی فوج نہ معلوم کیسے انسانوں سے بنی ہوئی ہے کہ کبھی ہم نے اُن کی نگاہوں کو عورتوں پر اُٹھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔
یہ تحریک اس ملک کی پہلی حقیقی اسلامی تحریک ہے، جس نے فکروعقیدہ اور عمل اور اجتماعی نظام ان سب کو بدلنے کی کوشش کی۔ یہ ٹھیک ہے کہ مقامی مسلمان خوانین کی غداری اور کچھ دوسری وجوہ کی بناپر دُنیوی حیثیت سے بظاہر یہ تحریک کامیاب نہ ہوسکی۔ لیکن کیا یہ بات کچھ کم ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے یہ بات ثابت کرگئی کہ اگر اخلاص کے ساتھ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے لوگ اُٹھیں، تو وہ اخلاق اور سیرت و کردار کا ایک ایسا نمونہ پیش کرسکتے ہیں کہ جس میں ایک گونہ مشابہت اس دور کی آجائے جس کا نظارہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں ملتا ہے۔
لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضوؐر کے صحابیؓ مافوق البشر تھے، اب اس کے بعد یہ چیز نہیں ہوسکتی۔ مگر تحریک ِ مجاہدین کا مطالعہ کیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اسلام وہ پارس ہے کہ جس زمانے میں بھی انسانوں کوچھو جائے اُنھیں سونا بنا دیتا ہے بشرطیکہ ان میں اخلاص ہو اور وہ فی الحقیقت اسلام کے آگے جھک جائیں اور اس کو قبول کرلیں۔ پھر کیا یہ بات کم ہے کہ ہندستان کے اتنے وسیع و عریض ملک میں چند سرفروش ایسے اُٹھے جنھوں نے عزت کی موت کو غلامی کی زندگی پر ترجیح دی، اور بقول مرزا سودا:
سودا قمارِ عشق میں مجنوں سے کوہکن
بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا
سیّد احمد بریلوی اور ان کے رفقائے کار کے کارنامے قابلِ رشک ہیں۔ سیّدصاحب اور ان کے جانشینوں کا سب سے اہم اور نتیجہ خیز کام، خطۂ بنگال میں احیائے اسلام اور اس وسیع مملکت کا برصغیر کے اسلامی مراکز سے دوبارہ رشتہ جوڑنا تھا۔ (شیخ محمد اکرام، موجِ کوثر، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۲۰۲۱ء، ص ۵۰)
۶مئی ۱۸۳۱ء کو بالاکوٹ کے مقام پر سیّدصاحب شہید ہوئے، لیکن آنے والے کم از کم ۵۰برس تک یہ تحریک مختلف علاقوں میں برابر کام کرتی رہی اور ان کے خلاف انگریزی حکومت کی جانب سے چلائے گئے ۱۸۷۳ء کے جو آخری مقدمات ہم کو ملتے ہیں (دیکھیے: محمد جعفر تھانیسری کی کتاب کالا پانی اور Selected Papers Wahabi Trials)، ان میں برطانوی حکومت ِ ہند کہتی ہے کہ ’’اب ہم نے اس تحریک کا قلع قمع کر دیا ہے‘‘۔ لیکن اہلِ تحقیق بتاتے ہیں کہ اس کے بعد بھی مجاہدین برابر خاموشی کے ساتھ کام کرتے رہے اور بیسویں صدی کے آغاز تک مختلف حلقوں میں یہ کام ہوتا رہا۔ پھر ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں پر بے پناہ ظلم و تشدد اور ہرممکن کوشش کے باوجود اس تحریک کا یہ نتیجہ ہے کہ کم از کم مسلمانوں کو انگریزوں سے سمجھوتا کرنے پر آمادہ نہ کیا جاسکا۔ مسلمانوں میں برطانوی سامراج سے بغاوت کرنے اور مصالحت نہ کرنے کا جذبہ اسی تحریک کا پیدا کردہ تھا۔
یہی تھی وہ چیز، جس نے ۱۸۵۷ء کے معرکے کو جنم دیا، اور یہی تھی وہ چیز جس نے اس کے بعد مسلمانوں کو انگریزی سامراجیت سے برابر برسرِ پیکار رکھا۔ اس میں واقعہ کانپور [اگست ۱۹۱۳ء] ہو یا خلافت کی تحریک ہو یا جلیانوالہ باغ کا المیہ [۱۳؍اپریل ۱۹۱۹ء] یا ترکِ موالات اور پھر خود تحریکِ پاکستان ہو۔ان تمام تحریکات میں یہی روح کارفرما نظر آتی ہے کہ ہم انگریزوں کے تسلط کے ساتھ راضی (reconcile )نہیں رہ سکتے اور نہ اس کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرسکتے ہیں۔ استعمار اور غلامی کا جوا بہرحال ہمیں اپنے کندھوں سے اُتار پھینکنا ہے۔ یہی تھا وہ احساس، جو سیّدصاحب کی تحریک نے پیدا کیا۔ اس سے بڑھ کر کامیابی کسی تحریک کی اور کیا ہوسکتی ہے۔
اس زمانے میں ایک اور بڑی نمایاں تحریک ہم کو نظر آتی ہے، جس کی دعوت، خدمات اور اثرات کے تجزیے کی طرف ابھی تک بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ یہ تحریک بھی تقریباً اسی عہد میں برپا ہوئی، تاہم اس کا زمانۂ آغاز تحریک ِ مجاہدین سے کچھ پہلے کا ہے۔ حاجی شریعت اللہ [۱۷۸۱ء- ۱۸۴۰ء] کی ولادت بہادرپور، ضلع فریدپور (بنگال) میں ہوئی، انھوں نے اس کا آغاز کیا۔ وہ اٹھارہ برس کی عمر میں حج بیت اللہ کے لیے حجازِ مقدس تشریف لے گئے اور ۲۰برس تک مکہ معظمہ میں مقیم رہے۔ وہاں علّامہ طاہر مکی شافعی سے تعلیم حاصل کی۔
حاجی شریعت اللہ ۱۸۰۲ء میں واپس وطن آئے اور ۱۸۰۴ء میں فرائضی تحریک شروع کی۔ ایک طویل عرصے سے ہندوئوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے بنگال کے مسلمانوں میں بھی غلط رسمیں اور شرک سے آلودہ عقائد جڑپکڑ چکے تھے۔ حاجی شریعت اللہ نے ان عقائد کی درستی اور اسلام کی صحیح تعلیمات کی تعلیم و تربیت کے لیےفرائضی تحریک شروع کی۔پہلے تو انھوں نے امرا کو اور مسلمان نوابوں کو خیر کے کاموں کے لیے اُبھارنے کی کوشش کی۔ پھر یہ کہ یہاں کے مسلمانوں میں آزادی کی روح پھونکنا، انگریزوں سے نجات پانا اور ہندو زمین داروں کے مظالم سے جان چھڑانا بھی اس تحریک کا مقصد قرار دیا۔
انگریزی حکومت کے تحت رہتے ہوئے ایسے باغیانہ پروگرام کی اشاعت اور جدوجہد نہایت جرأت مندانہ قدم، موت اور آزمایشوں کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ لیکن حاجی صاحب نے مسلمانوں کو پستی، غلامی اور ذلّت سے نکالنے کے لیے ذرہ برابر ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا اور سخت حوصلہ شکن حالات کے باوجود منزل کی طرف رواں دواں رہے۔جب اس میں کچھ کامیابی ہوئی تو عوام کی طرف رجوع کیا، خصوصیت سے کاشت کاروں کو جمع کیا۔ کاشت کاروں میں یہ تحریک جنگل کی آگ کے مانند پھیلی۔ حاجی شریعت اللہ نے جس بات کی کوشش کی وہ یہ تھی کہ بدعات ختم ہوں اور شرک کا استیصال ہو، یعنی جو آئیڈیل تحریک ِ مجاہدین کے تھے وہی آئیڈیل انھوں نے بھی اپنے سامنے رکھے۔ اس کے ساتھ انھوں نے جہاد کی بیعت تو لی، لیکن جہاد کر نہیں سکے۔
حاجی شریعت اللہ نے اس تنظیمی اور تحریکی سلسلے میں پیر اور مرید، یا خادم اور مخدوم کا کلچر اختیار کرنے کے بجائے ہدایت کی کہ: ’ہمارا باہم تعلق استاد اور شاگرد کا ہے‘۔ انھوں نے کسانوں اور کھیت میں کام کرنے والے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور حالت ِ زار کو حیوانی سطح سے بلند کرنے اور شرفِ انسانی سے قریب ترلانے کے لیے رفاہی انداز سے کام شروع کیا۔ ان کا نعرہ تھا: ’الارض للّٰہ،یعنی زمین اللہ کی ہے‘۔مخالفین نے انگریزوں کے اشارے پر آپ کی تحریک کو بھی ’وہابی‘ تحریک کا نام دیا، حالاں کہ ان کا ایسا کوئی تعلق نہیں تھا۔
حاجی شریعت اللہ کی رحلت [۱۸۴۰ء] کے بعد ان کے بیٹے حاجی محسن میاں [۱۸۱۹ء-۱۸۶۰ء] نے تحریک کی قیادت سنبھالی۔ حاجی محسن میاں کو بنگال کے مسلمان محبت سے دودھو میاں کے نام سے پکارتے تھے۔ حاجی شریعت اللہ نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے اور انھیں بنگال سے نکالنے کے لیے بیعت لی تھی ، لیکن جیساکہ بتایا گیا ہے کہ وہ جہاد کا آغازنہ کرسکے ۔ البتہ ان کے صاحب زادے نے اس میدان میں قدم بڑھایا۔ انھوں نے عملاً انگریزوں کے خلاف بغاوت کی۔ مختلف مقامات پر ہزاروں آدمیوں کو قیدوبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ ’فرائضی تحریک‘ سے تعلق رکھنے والے سرفروشوں نے بڑے پیمانے پر قربانیاں دیں۔ انگریز حکومت نے جھوٹے مقدمے بنابنا کر مختلف طریقوں سے ان کو پریشان کیا اور یہ سلسلہ برسوں جاری رہا۔ تقریباً ۳۰،۳۵ سال تک یہ تحریک بنگال میں مؤثر خدمات انجام دیتی رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگال، آسام اور کسی حد تک بہار میں اسلام کو مستحکم کرنے کا کارنامہ انھی دو تحریکوں: ’تحریک ِ مجاہدین‘ اور’ فرائضی تحریک‘ ہی نے انجام دیا۔(ڈاکٹر جیمس وایز ، Mohammadans of Eastern Bengal)
اسی عرصے میں اسلام کے ایک اور سرفروش، سیّدمیرنثارعلی المعروف تیتومیر [۱۷۸۲ء- ۱۹نومبر ۱۸۳۱ء] نے سرزمین بنگال میں انقلابی تحریک شروع کی۔تیتومیر، سیّداحمد بریلوی کے عقیدت مند اور ان سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے ہندو زمین داروں کے مظالم اور استحصال، اور ان کے پشت پناہ انگریزوں کے خلاف پسے ہوئے بنگالی مسلمانوں میں نہ صرف زبردست بیداری پیدا کر کے مسلمانوں کو ظلم کی زنجیریں توڑنے پر آمادہ کیا، بلکہ عملی اقدامات بھی کیے۔ آخرکار اسی طرح کے ایک معرکے میںشہید ہوگئے۔[عبداللہ ملک، بنگالی مسلمانوں کی صدسالہ جہدِ آزادی، ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۶۷ء]
مگر حقائق و شواہد بتاتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہ بغاوت مسلمانوں ہی کی برپا کردہ تھی۔ ہندو مؤرخین بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس کے روح رواں مسلمان تھے۔ اس بغاوت کی تنظیم اور تحرک میں سب سے زیادہ حصہ علما نے لیا تھا۔ دراصل یہ معرکہ بھی سیّداحمد شہید کی تحریک ہی کا ایک فکری اور عملی مظہر تھا۔ بظاہر بجھتے ہوئے چراغ کی ناقابلِ فراموش بھڑک!
سچی بات ہے کہ ۱۸۵۷ء کی اس جنگ کی سنگینی کا عصرحاضر کے نوجوانوں کو کچھ بھی علم نہیں، اور نہ وہ اس کی شدت کا اندازہ کرپاتے ہیں۔ وہ ایک قیامت تھی جو ہندستانی مسلمانوں کے سر سے گزر گئی۔ اس بہانے انگریزوں اور ان کے طرف دار اور حلیف ہندوئوں کو موقع مل گیا کہ جس طرح ممکن ہو مسلمانوں کو برباد کر دیا جائے، بقول بہادر شاہ ظفر ع
قیصر التواریخ (کمال الدین لکھنوی) کے مطابق سات ہزار مسلمان معززین کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔ تین ماہ تک مردہ گاڑیاںطلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک گھومتی پھرتی تھیں۔ لاشوں کو درختوں سے اُتارتی تھیں۔ اس طرح چھے ہزار کے قریب افراد کو اُتارا گیا۔ پھر ہزار علما، فضلا، فقہا، شرفا، امرا کو عمرقید کے لیے جزائر انڈیمان (کالے پانی) عمرقید کاٹنے کے لیے بھیج دیا۔ اس سے متصل زمانے میں لارڈ ہاردنگ نے حکم نامہ جاری کیا کہ آیندہ عربی، فارسی جاننے والے فرد کو سرکاری ملازمت میں نہیں لیا جائے گا۔ ۱۸۴۹ء تک پنجاب کی سرکاری زبان فارسی تھی، مگر اس کا خاتمہ کرکے عام لوگوں کے لیے ۱۸۷۶ء سے پنجاب میں اُردو کو ذریعۂ تعلیم بنانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔(پروفیسرسیّد محمد سلیم، مغربی زبانوں کے ماہر، ص ۱۰۷- ۱۰۸)
حالت یہ تھی کہ بحیثیت ِ مجموعی مسلمانوں میں ۱۸۵۷ء کے معرکے میں ناکامی کے بعد ایک عام مایوسی کی کیفیت پیدا ہوچکی تھی۔ انھوں نے اس وقت انگریز سامراج سے نجات حاصل کرنے کے لیے تین کوششیں کیں: بالاکوٹ جاکر لڑے، بنگال میں بغاوت کی اور ۱۸۵۷ء میں مختلف مقامات پر برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کی، لیکن یہ تینوں کوششیں بظاہر باثمرثابت نہ ہوسکیں۔ اس کے نتیجے میں فطری طور پر مسلمانوں میں لامرکزیت، بے بسی، مایوسی اور قنوطیت رُونما ہوئی۔
انگریز نے بھی اس بات کو اچھی طرح محسوس کرلیا تھا کہ مسلمان نرم نوالہ نہیں، ان میں کم از کم کچھ لوہے کے چنے تو ایسے بھی ہیں کہ اُن کو چبانے کی کوشش میں دانت ٹوٹ سکتے ہیں۔ ان پر بے اعتمادی ، ان کو ختم کرنے کے لیے ہندوئوں سے تعاون کی کوشش، ان کے رہے سہے اقتدار کو ملیامیٹ کرنے کی مربوط کوشش، یہ تھے انگریز کی پالیسی کے بنیادی اصول۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کی تمام مادی قوتیں ان سے چھین لی گئیں، انھیں روزگار سے محروم کر دیا گیا، ملازمتوں سے نکال دیا گیا، دربار اور عدالتوں سے ان کی ملازمتیں ختم کر دی گئیں۔ اس کے مقابلے میں ساری عنایتیں ان ضمیرفروشوں پر نچھاور ہوئیں، جو مسلمانوں سے غداری کررہے تھے اور بیرونی قوت سے سازباز کررہے تھے، یا پھر ہندوئوں کے ساتھ ہوئیں، جن کو یہ احساس دلایا گیا کہ: ’تم اکثریت میں تھے، لیکن تمھارے اُوپر آٹھ سو سال سے مسلمان حکمران تھے۔ اب تم ان سے آگے بڑھو اور اس ملک کے حکمران بنوگے‘۔
عیسائی مشنریوں کی ایک فوج تھی جو ملک کے طول و عرض میں کام کر رہی تھی۔ اس کے کام کی وسعت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی سے بھی قبل، یعنی ۵۳-۱۸۵۲ء میں، جب کہ برصغیر ہند کے تمام سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں صرف ۳۰ہزار طلبہ زیرتعلیم تھے تو اس کے برعکس عیسائی مشنری تعلیمی اداروں میں اس سے دس گنا زیادہ، یعنی ۳لاکھ طالب علم زیرتعلیم و تربیت تھے (بحوالہ: The Education of India, p49)۔ اگرچہ بظاہر تو دُنیاوی ترقی کے لیے یہ مشنری ادارے خواب دکھاتے، مگر ان کا اصل ہدف یہ تھا اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے کہ مقامی طالب علموں میں دین کے بارے میں شک و شبہہ اور تہذیب کے بارے میں احساسِ کمتری پیدا کریں۔
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مُروت کے خلاف
مستشرقین (Orientalists)کی سوچ کا اندازہ لگانے کے لیے معروف مستشرق ولیم میور [۱۸۱۹ء-۱۹۰۵ء]کی مثال کافی ہوگی۔ میور نے اپنی کتاب The Life of Mahomet (۱۸۶۱ء) میں لکھا:’’دُنیا کو اسلام سے دوخطرے ہیں (نعوذ باللہ من ذٰلک)۔ ایک محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کی تلوار سے اور دوسرا محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] کے قرآن سے، اور جب تک ہم دونوں کو ختم نہیں کردیں گے، چین سے نہیں بیٹھیں گے‘‘۔ یہ بات بظاہر تو ایک اسکالر نے کہی، مگر یہی انداز تھا جو بحیثیت ِ مجموعی سارے مستشرقین نے اختیار کیا اور جسے انھوں نے نئے نظامِ تعلیم میں اختیار کیا۔ جبھی تو اکبر الٰہ آبادی [۱۸۴۶ء-۱۹۲۱ء] نے کہا ہے:
توپ کھسکی پروفیسر پہنچے
جب بسو لا ہٹا تو رندا ہے
یعنی پہلے توپ سے حملہ کیا گیا جس سے ہماری سیاسی قوت کو ختم کیا گیا۔ اب مستشرقین اور معلّمین تشریف لے آئے تاکہ ہمارے ذہنوں اور دلوں کو ، ہمارے نظریات اور خیالات کو، ہمارے اخلاق اور کردار کو بدل کر رکھ دیں اور انگریزوں کے غلام ابن غلام تیار کریں۔ اس پس منظر میں ہمارے سامنے دو تحریکات اُبھریں: پہلی تحریک کی سربراہی سرسیّداحمد خاں اور دوسری تحریک کی قیادت علمائے دیوبند نے کی۔
سرسیّد کے افکار کے تجزیے سے یہ تین بنیادی چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ انھوں نے اپنے فکروفلسفے کی وضاحت اور تبلیغ کے لیے متعدد کتب اور بہت سے مقالات لکھے، ان سب کا ذکر اس وقت ممکن نہیں۔ ہم فی الحال ان کی چار چیزوں کی طرف اشارہ کریں گے، جو ان کے پیش کردہ نظریات و خیالات کا جوہر (essence)پیش کرتی ہیں:
اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجیے:اگر کوئی شخص تعدد اَزدواج (Polygamy) کے بارے میں یہ کہے کہ صاحب یہ تومجبوری تھی، اصل چیز تو اسلام میں یک زوجگی (Monogamy) ہی تھی، تعدد اَزدواج تو اسلام کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔ ہاں، کچھ مجبوریوں اور مشکلات کی وجہ سے اس کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس طرح خواہ اس نے معترضین کو جواب تو دے دیا، لیکن اس بنیاد کو صحیح مان بھی لیا، جس سے اعتراض پیدا ہوا تھا۔ یہ جواب ایک معذرت نامہ ہے اور شکست خوردہ ذہنیت کی غمازی کرتا ہے۔ حضوؐرِ اقدس کی ذات سے بے پناہ محبت اور اپنے تمام اخلاص اور نیک نیتی کے باوجود بدقسمتی سے سرسیّد مرحوم نے یہی نقطۂ نظر اختیار کیا ہے اور اس طرح سرسیّد احمد کو جدید مذہبی لٹریچر میں معذرت خواہانہ رویے کا بانی قرار دینے میں کوئی مبالغہ نہیں۔۴
’آثار الصنادید‘ جو۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی سے پہلے ۱۸۴۳ءکی تصنیف ہے، اس میں سیّداحمد شہیدؒ بریلوی کا ذکر کرتے ہوئے جہاد کے بارے میں کہتے ہیں کہ: ’’انھوں نے جہاد کی طرف لوگوں کو اس لیے بلایا کہ اللہ کا دین سربلند ہو اور کلمۃ اللہ غالب ہو‘‘۔ یعنی سیّداحمد شہیدؒ کی کوششوں کو انھوں نے بہت سراہا،لیکن ملاحظہ فرمایئے کہ جب جناب سرسیّد سمجھوتے کی پالیسی پر اُترآئے تو اپنی تفسیر میں اور اپنے رسالے تہذیب الاخلاق [اجراء:دسمبر ۱۸۷۰ء] کے مضامین میں یہ کہتے ہیں: ’’اسلام میں اصلاحی جہاد کوئی جہاد نہیں ہے۔ اگر کوئی دوسرا حملہ کرے تو جہاد ہے ورنہ نہیں‘‘۔ سیّداحمد بریلوی صاحب پر کسی نے حملہ نہیں کیا تھا بلکہ وہ خود کفر کا قلعہ توڑنے کے لیے ہندستان سے جاں نثاروں کو اکٹھا کر کے لائے تھے۔ مذکورہ بالا طرزِبیان سے معلوم ہوتا ہے کہ سرسیّد نے اسلام کو جدید تصورات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔
یہ امربحث کا موضوع نہیں کہ یہ کام نیک نیتی کے ساتھ کیا گیا یا بدنیتی کے ساتھ؟ ہمارا گمان ہے کہ نیک نیتی ہی کی بنا پر کیا گیا ہوگا، لیکن نیک نیتی سے اگر کسی کے ’دست و بازو‘ کاٹ دیے جائیں تو بہرحال وہ شخص اپاہج ہی ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سرسیّد احمد خاں اہم اسلامی مباحث پر بنیادی اسلامی فکر سے بہت دُور ہٹ گئے اور اس میں کم از کم گیارہ مواقع تو ایسے ہیں کہ جن میں اس نوعیت کے اختلاف کی کوئی نظیر اس سے پہلے ملت اسلامیہ کی پوری تاریخ کے یہاں نہیں ملتی۔ ہم یہ بات سرسیّد احمد کے سوانح نگار اور مدلل مداح خواجہ الطاف حسین حالی [۱۸۳۷ء- ۱۹۱۴ء] کی سند پر کہہ رہے ہیں۔
اعتراضات کی بنیادمحض تعلیم نہ تھی، جیسا کہ تاریخ کو جھٹلانے اور دانستہ جھوٹ گھڑنے والے اکثر لوگ یہ افسانہ طرازی کرتے ہیں: ’’علما نے انگریزی میں تعلیم کی مخالفت کی تھی‘‘، نہیں، بلکہ جس چیز کی مخالفت کی گئی، وہ یہ تھی کہ جس تعلیم کو آنکھیں بند کرکے مسلمانوں پر ٹھونسنے کی کوشش کی جارہی تھی، وہ تعلیم مغرب سے مرعوبیت کی تعلیم ہے۔ اس میں صاف کہا گیا تھا کہ ’تم کو داڑھیاں منڈوانا پڑیں گی، تم کو ہیٹ پہننا پڑیں گے، تم کو نئے طریقے اختیار کرنا پڑیں گے اور یہی راستہ ہے جس سے تم آگے بڑھ سکتے ہو‘۔ اس ذہنیت پر چوٹ کرتے ہوئے علّامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ: ’مغرب کی ترقی کا سبب نہ شیو کرنا ہے اور نہ ہیٹ پہننا ، اس کا راز اس جذبے اور ولولۂ قربانی میں ہے، جس کا اس نے مظاہرہ کیا ہے اور جس سے ہم آج عاری ہوچکے ہیں‘۔
پھر جنابِ سرسیّد اس علی گڑھ مدرسے میں یورپی اساتذہ کو لے آئے۔ عام طور پر انھوں نے انگریز پرنسپل رکھے، جن میں یورپی پادری بھی شامل رہے۔ ایسی صورتِ حال میں آخر مسلمان کیسے اس تعلیم پر دیوانہ وار لبیک کہہ سکتے تھے؟ اگرچہ علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں میں تعلیم عام کی، لیکن یہ تعلیم مسلمانوں کو صرف سرکاری ملازمت کے لیے ہی تیار کرسکی۔ ہمیں ابھی تک یہ جاننا ہے کہ علی گڑھ سے اس پورے زمانے میں کون سی علمی کتاب شائع ہوئی۔ اسلام کے دفاع اور اسلام کی خدمت کے سوال کو چھوڑ کر دیکھیے، کیا علم کے کسی پہلو پر کوئی درجۂ اوّل کی کتاب، اس درس گاہ سے آئی!
تعلیم کا پورا مزاج یہ تھا کہ ’طلبہ کو ملازمت کے لیے تیار کیا جائے‘ اور اس کی بہترین مثال سرسیّد کے صاحب زادے سیّد محمود کی زندگی ہے۔ سرسیّد خود کہتے ہیں: ’میری توقع یہ تھی کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ اپنی قوتوں کو دین و ملّت کی خدمت کے لیے استعمال کریں گے‘۔ ہندستان کے مسلمانوں کی خدمت کریں گے، لیکن ہُوا یہ کہ انھیں ججی مل گئی اور انھوں نے فوراً اسے قبول کرلیا‘۔ یہ واقعہ اس پورے ذہنی کردار کی علامتی تشکیل (symbolise)کرتا ہے، جو یہاں پروان چڑھا۔ اگر ہم سرسیّد مرحوم کی آخری عمر کی تحریریں پڑھیں تو وہ خود اس المیے کا اعتراف کرتے ہیں۔ مثلاً اپنے ایک خط میں جو ۱۸۹۰ء یعنی جو اُن کا آخری زمانہ تھا تب لکھا:
تعجب ہے کہ جو تعلیم پاتے جاتے ہیں اور جن سے قومی فلاح کی اُمید تھی وہ خود شیطان اور مرتدینِ قوم ہوتے جاتے ہیں۔
خواجہ الطاف حسین حالیؔ ایک مخلص دوست کی طرح آخری دم تک سرسیّد مرحوم کے ساتھ رہے۔ ان کے حوالے سے بابائے اُردو مولوی عبدالحق [۱۸۷۰ء-۱۹۶۱ء] اپنے مضمون ’چند ہم عصر‘ میں لکھتے ہیں: ’حالی اپنی آخری عمر میں اس تعلیم سے شدید حد تک مایوس ہوگئے تھے اور کہتے تھے کہ جو توقعات ہم نے وابستہ کر رکھی تھیں،ان میں سے کوئی بھی پوری نہیں ہوئی‘۔ پھر مثال کے طور پر نواب وقار الملک [۱۸۴۱ء-۱۹۱۷ء] جو سرسیّد کے رفقائے کار میں سے ہیں، سرسیّد کو لکھتے ہیں:
یہ کعبے کی راہ نہیں، یہ ترکستان کا راستہ ہے۔ یہ غلطی آپ کے دل کی نہیں آپ کے دماغ کی ہے۔ جو راستہ آپ نے لیا ہے وہ راستہ آپ کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچا سکتا۔
اسی نوعیت کی مایوسی کے بعد نواب وقار الملک نے ۱۹۱۳ء میں جامعہ ملّیہ کی تجویز پیش کی، جسے ۱۹۲۰ء میں مولانا محمدعلی جوہر نے عملی جامہ پہنایا، اور اس تعلیمی تحریک پر اکبر الٰہ آبادی کا تبصرہ سنیے:
ابتدا کی جنابِ سیّد نے ، جن کے کالج کا اتنا نام ہوا
انتہا یونی ورسٹی پر ہوئی، قوم کا کام اب تمام ہوا
ہمیں اعتراف ہے کہ یہ تعلیم ایک دائرے میں یقینا مفید ثابت ہوئی۔ مسلمانوں میں قومی احساس پیدا کرنے میں اس تعلیم کا بڑا حصہ ہے۔ معاشی طور پر روزگار فراہم کرنے میں بھی اس تعلیم کی خدمات بڑی واضح ہیں۔ تحریک ِ آزادی کے لیے بھی اس تعلیم نے کچھ لیڈر اور کارکنان تیار کیے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بحیثیت ِ مجموعی، قوم کا صحیح مزاج بنانے میں یہ تعلیم کامیاب نہ ہوسکی۔
جدید تاریخ کا ہر طالب علم اس امر سے واقف ہے کہ مغربی اقوام کی ترقی، صنعت و تجارت کی ترقی سے عبارت ہے اور اگر انھی کے طریقے کو اختیار کرنا تھا تو تعلیمی نظام میں صنعت و حرفت کو، تجارت کو، تجرباتی سائنسوں کو اور انجینیرنگ کو خصوصی مقام دیا جاتا۔ لیکن علی گڑھ کے نظامِ تعلیم کو پڑھ لیجیے: اس میں تجارت، صنعت و حرفت اور دوسرے تجرباتی علوم کو کوئی قرار واقعی مقام نہیں دیا گیا، اہمیت دی بھی گئی تو مغربی فلسفے اور ادب کو۔ اس کے برعکس ہمارے سامنے جاپان کی مثال موجود ہے۔ جاپان کو بھی ایسے ہی حالات درپیش تھے، مگر اس نے اپنی تہذیبی بنیادوں پر قائم رہتے ہوئے مغربی سائنس اور صنعت و تجارت کا مطالعہ کیا، اس سے فائدہ بھی اُٹھایا۔
ابتدائی دور میں محض قومی نقطۂ نظر کو سامنے رکھا گیا۔ ’دینیات‘ کو بھی ایک لازمی مضمون کی حیثیت دی گئی تھی، مگر تعلیم کے پورے نظام میں اسلامی روح اور اسلامی مزاج کو نہیں سمویا جاسکا۔ بنیادی اہمیت اسلام کے تقاضوں کے مقابلے میں محض مسلمانوں کے مفاد کو، یا پھر جسے اُس وقت مسلمانوں کا مفاد سمجھا جا رہا تھا، اسے اہمیت دی گئی۔ البتہ بعد میں کچھ فرق واقع ہوا، خصوصیت سے تحریک ِ خلافت کے زمانے میں ، جس کے اثرات کے تحت علی گڑھ محض انگریزی اقتدار کے کارندے تیار کرنے کے بجائے قومی سیاست کا مرکز بھی بن گیا اور اسلامی ملّی احساس میں بھی اضافہ ہوا۔
یوں ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن و سنت کی بنیاد پر مثبت طور پر مسلمانوں کو جمع کرنے کی جو کوشش شاہ ولی اللہ کے کارنامے میں نظر آتی ہے ، اس قسم کی کوئی چیز ہمیں سرسیّد مرحوم کے یہاں نہیں ملتی۔ اگرچہ مغرب کے اعتراضات کا جواب دینا بحیثیت ِ مجموعی کچھ فوائدپہنچانے کا ذریعہ بنا، لیکن سرسیّد کا یہ کام تحریک ِ اسلامی کے استحکام کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ کے طور پر آج تک چلا آرہا ہے۔ ہماری نگاہ میں سرسیّدؒ اور اقبالؒ میں بنیادی فرق یہی ہے کہ اقبالؒ نے مثبت رویہ اختیار کیا ،جب کہ سرسیّد کی تحریک اپنی روح اور مزاج کے اعتبار سے منفی تھی۔
پھرہمارے سامنے علمائے کرام کا ردعمل آتا ہے۔فکری اعتبار سے اس کا سلسلہ شاہ ولی اللہ کی تحریک سے وابستہ ہے۔
پیش نظر یہ تھا کہ ایسے علما تیار ہوں جو ملک کے گوشے گوشے میں دین کا پیغام پہنچا سکیں اور لوگوں کو اسلام پر قائم رکھ سکیں۔ دینی علوم کا تحفظ ہو، بدعات سے بچائو اور عقائد کی اصلاح ہو۔ اربابِ دیوبند نے اُمورِ دنیوی سے تقریباً قطع تعلق کی روش اختیار کی اور وہ مسلک اختیار کیا، جس میں کہ وہ کم از کم دین اور دینی روایات کو بچا سکیں۔
جیسا کہ ہم اس سے قبل واضح کرچکے ہیں، مسلمانوں کی کیفیت ایک ہاری ہوئی فوج کی سی تھی۔اس ہاری ہوئی فوج میں اس نقطۂ نظر کا رُونما ہونا ہرگز غیرفطری بات نہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود یہ ماننا پڑتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند نے اُمت کی ایک عظیم خدمت انجام دی۔ کم از کم یہ تو کیا کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ کے کلمے پر قائم رکھا۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ ہمارا تعلق قرآن اور حدیث سے قائم رہا اور جنوب مشرقی ایشیا میں شعائر اسلامی کا پرچار ہوتا رہا۔ جو حملہ ہمارے دلوں سے دین کو اُکھاڑ پھینکنے کے لیے کیا گیا تھا، اس کی مدافعت کی گئی اور اس کے سامنے علما کی کوششیں حصار بن گئیں۔ یہ درست ہے کہ ہم ان سے ٹکر نہ لے سکے، لیکن کم از کم اپنے ایمان، اپنے معیارات، اپنی روایات، اپنی اقدار اور اپنے علوم کو تو ہم نے بچالیا ، جس سے بعد میں اس بات کا امکان پیدا ہوا کہ اس بچے ہوئے سرمایے کو اللہ کے کچھ دوسرے بندے استعمال کریں اور آگے بڑھا لے جائیں۔
مولانا محمودحسن نے پوری زندگی انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں گزاری۔ انھوں نے مسلمانوں کو جمع کرنے کی کوشش کی اور دوسری مسلم حکومتوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ سب مل کر ہندستان کو آزاد کرائیں۔۹ اس کے لیے انھوں نے سفر بھی کیے، جیل بھی گئے اور قیدوبند میں کوڑے بھی کھائے۔ انتقال پر جس وقت آپ کی میّت کو غسل دیا جارہا تھا، اس وقت دیکھا گیا کہ آپ کی پیٹھ اس تشدد کے باعث بالکل سیاہ تھی، لیکن آپ نے اپنی زندگی میں کبھی یہ پسند نہ کیا کہ اُن پر جو گزرتی رہی ہے، وہ کسی کے سامنے بیان کریں۔
دارالعلوم دیوبند اور دوسرے علمائے کرام کی یہ قابلِ رشک خدمات بجا، لیکن اس سلسلے میں کم از کم دو چیزیں ایسی ہیں جو مجھے کھٹکتی ہیں:
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اُن کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
یہ ٹھیک ہے کہ اس فتنے کا توڑ خود دیوبند کے کچھ دوسرے مقتدر علما نے کرنے کی کوشش کی اور یہ کہ اس اہم دینی مرکز کے تیار کردہ تمام اہلِ علم متحدہ قومیت کے علَم بردار نہ تھے، لیکن بہرحال ایک عرصے تک دارالعلوم دیوبند اس فکر کا بہت بڑا مرکز رہا ہے اور اس کا نقصان اسلامی تحریک بلکہ پوری ملّت ِ اسلامیہ ہند کو اُٹھانا پڑا ہے۔(جاری)
حواشی
۳ سرسیّداحمد خاں ، لندن سے اپنے دوست نواب محسن الملک کو خط لکھتے ہیں: ’’ولیم میور صاحب نے جو کتاب آنحضرتؐ کے حالات میں لکھی ہے، اس کو دیکھ رہا ہوں۔ اس نے دل جلا دیا ہے۔ اس کی ناانصافیاں اور تعصبات دیکھ کر دل کباب ہوگیا، اور مصمم ارادہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں، جیساکہ پہلے بھی ارادہ تھا ، کتاب لکھ دی جائے۔ اگر تمام روپیہ خرچ ہوجائے اور مَیں فقیر مانگنے کے لائق ہوجائوں تو بلا سے!قیامت میں تو یہ کہہ کر پکارا جائوں گا کہ اس فقیر مسکین احمد کو جو اپنے نانا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر فقیر ہوکر مرگیا حاضر کرو (بحوالہ موج کوثر، ۲۰۲۱ء،ص ۹۲)
۴ اس ضمن میں جب معذرت خواہی شروع ہوئی تو وہ بڑھتی ہی چلی گئی۔ اس فکر کو حافظ محمد اسلم جیراج پوری [م:۱۹۵۵ء] اور اُن کے بعد غلام احمد پرویز [م: ۱۹۸۵ء] نے آگے بڑھایا۔عزیز احمد [م:۱۹۷۸ء] Islamic Modernism in India & Pakistan 1857-1964 (۱۹۶۷ء) میں لکھتے ہیں: ’’سیّداحمد خاں سے لے کر آج تک کے تمام متجددین (Modernists) میں غالباً [غلام احمد] پرویزمغرب کے تصورِ حیات سے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ وہ بلند معیارِ زندگی اور سیاسی، سماجی، انفرادی اور معاشی آزادیِ مطلق کو دُنیوی زندگی کا مقصد قرار دیتے ہیں۔ البتہ وہ ایک معقول بات کو دور ازکار اور ناقابلِ یقین تفسیری اصطلاحات وضع کر کے برباد کر دیتے ہیں (ص۲۲۴- ۲۲۵)‘‘۔ پھر لغت کے سہارے تفسیر کا ایک نرالا اور بے ڈھنگا طریقہ اختیار کرتے ہیں‘‘۔(ص ۲۴۷)
۵ شیخ محمد اکرام نے بجا طور پر لکھا ہے: ’’تفسیر کی اشاعت نے سرسیّد کے دوسرے [قومی]کاموں کو بہت نقصان پہنچایا۔ ان کا اصل مقصد مسلمانوں میں تعلیم عام کرنا اور اُن کی دُنیوی ترقی کا انتظام کرنا تھا [لیکن] اسلام اور تفسیرقرآن کے متعلق، بالخصوص ان مسائل سے متعلق جن کا نہ تعلیم سے خاص تعلق ہے نہ دُنیوی ترقی سے، عام مسلمانوں سے گہرا اختلاف پیدا کرکے سرسیّد نے اپنی مخالفت کا سامان آپ پیدا کرلیا، اور بعض لوگوں کو انگریزی تعلیم سے عقائد متزلزل ہوجانے کا جو ڈر تھا، اس کا بدیہی ثبوت خود فراہم کردیا۔ اس کے علاوہ سرسیّدنے اپنی رائے اور قیاس کے زور سے قرآنی آیات کو نیا مفہوم دے کر ایسی مثال قائم کردی، جس کی پیروی بعضوں نے بُری طرح کی ہے، اور ہرآیت یا حدیث کی تاویل کرکے حسب خواہش معنی مراد لیے ہیں.... سرسیّد کی قابلیت، محنت اور مذہبی ہمدردی کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے علمِ کلام نے تعلیم یافتہ طبقے یا اربابِ تشکیک و الحاد کو ایمان کی دولت بہم پہنچائی ہے‘‘۔(موجِ کوثر، ص ۱۳۶-۱۳۷)
۶ مولانا شاہ عبدالعزیز نے عبرانی زبان سیکھی تھی اور وہ براہِ راست تورات کا مطالعہ کرسکتے تھے (پروفیسر سیّدمحمد سلیم، مغربی زبانوں کے ماہر علما، ص ۸۲)۔ فتاویٰ عزیزیہ، دوم میں انگریزی زبان سیکھنے کے حق میں فتویٰ دیا: ’’لغت انگریزی کا پڑھنا یا لکھنا اگر بہ لحاظ تشبہ کے ہو تو ممنوع ہے، اور اگر اس لیے ہو کہ ہم انگریزی زبان میں لکھا پڑھ سکیں اور ان کے مضامین سے آگاہ ہوسکیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تشبہ سے مراد اپنی انفرادیت کھو دینا اور انگریزی تہذیب میں اپنے آپ کو گم کرنا ہے۔(سیّد محمد سلیم،ایضاً، ص ۲۶، ۲۷)
۷ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’حکمت مومن کی گم شدہ متاع ہے، جہاں سے ملے، اسے لے لو‘‘۔ اسی طرح آپؐ نے صحابۂ کرامؓ کو دوسری زبانیں سیکھنے کی ترغیب دلائی۔ اس ضمن میں سب سے روشن مثال حضرت زید بن ثابتؓ کی ہے، جنھیں آپ نے غیرملکی زبانیں سیکھنے کی ہدایت فرمائی ، جس کے بعد انھوں نے سریانی، ارامی، فارسی اور حبشی زبانیں سیکھ لی تھیں (مشکوٰۃ)۔اس طرح حضرت عمرو بن العاصؓ سریانی زبان بول سمجھ لیتے تھے۔ فقہ حنفی کے جید عالم سلطان علی قاری ہروی (م:۱۶۰۵ء) مشکوٰۃ کی حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’شریعت [اسلامی] میں کسی زبان کا سیکھنا جرم نہیں ہے، خواہ: عبرانی ہو یا سریانی، ہندی ہو یا ترکی، فارسی ہو یا کوئی اور زبان‘‘۔ (پروفیسرسیّد محمد سلیم،مغربی زبانوں کے ماہر علما، ص ۲۵)
۸ اس ضمن میں فتنہ انکارِ حدیث اور پھر ایک درجے میں ’جہاد‘ کے معاملے میں بہت زیادہ گریز پائی نے خود ’قادیانیت‘ کے فتنے کو بھی راہ دی۔ واللہ اعلم!
۹ ہندستان کو اسلام کے لیے آزاد کرانا مقصد نہ تھا، بس انگریزوں کو یہاں سے نکالنا مقصد تھا۔ کابل میں آزاد ہندستان کی عارضی حکومت قائم کی گئی تھی، جس کے صدر راجا مہندر پرتاب تھے۔ اُمید تھی کہ انقلاب پسند ہندو اور سکھ مدد کریں گے اور اس تحریک ِ آزادی میں شامل ہوجائیں گے۔
۰ سیّدابوالاعلیٰ مودودی،l مسئلہ قومیت [۱۹۳۸ء] lمسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش، اوّل [فروری ۱۹۳۸ء]، دوم [دسمبر ۱۹۳۸ء] اور lتحریک ِ آزادیِ ہند اور مسلمان،اوّل [مرتبہ: خورشیداحمد] ۱۹۶۸ء۔ جمعیۃ العلما ہند کی تاسیس ۲۳نومبر ۱۹۱۹ء کو دہلی میں اُس وقت ہوئی، جب خلافت ِکانفرنس ہورہی تھی۔ ۲۸دسمبر ۱۹۱۹ء کو جمعیۃ کے اجلاس منعقدہ امرتسر میں یہ تین مقاصد شامل کیے گئے: ’’غیرمسلم برادران کے ساتھ ہمدردی اور اتفاق، مذہبی حقوق کی نگہداشت سے مسلمانوں کی رہنمائی (طفیل احمد منگلوری،مسلمانوں کا روشن مستقبل، ص ۵۲۸)۔ جمعیۃ العلما کے اجلاس امروہہ (۳۰مئی ۱۹۳۰ء) میں انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ غیرمشروط اشتراکِ عمل کا اعلان کیا (ایضاً، ص ۵۳۲)۔ جس سے خود جمعیۃ میں انتشار پیدا ہوا۔ اس سے قبل ۱۹۲۹ء میں مجلس احرار اسلام قائم ہوچکی تھی۔