مارچ ۲۰۲۳

فہرست مضامین

برصغیر پاک و ہند میں تحریک ِ اسلامی کا ارتقا-۲

پروفیسر خورشید احمد | مارچ ۲۰۲۳ | تحریک اسلامی

Responsive image Responsive image

برصغیر پاک و ہند میں تحریک ِ اسلامی کا ارتقا-۲
مجدد الف ثانی ؒسے علّامہ محمد اقبالؒ تک

اسلامی احیا کی اس تحریک کو شاہ ولی اللہ کے بعد شاہ عبدالعزیز دہلوی [۲۰ستمبر ۱۷۴۶ء- ۵جون ۱۸۲۳ء] اور آپ کے خانوادے کے دوسرے بزرگوں نے زندہ رکھا۔اگرچہ احمدشاہ ابدالی کے کامیاب حملے نے مرہٹہ جنگجوئوں کی صورت میں ہندو نسل پرست تحریک کی کمر توڑ دی تھی، لیکن اس کے باوجود ہندستان میں بدامنی اور طوائف الملوکی کے اس زمانے میں مسلمانوں کی سماجی، دینی، معاشی اور سیاسی زندگی بے وزنی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ مشرق اور دکن سے برطانوی سامراج قدم پھیلاتا ہوا بڑھتا چلا آرہا تھا اوردوسری جانب پنجاب عملاًسکھوں کی سکھاشاہی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ تیسری جانب مسلمانوں میں ہندوانہ رسوم و رواج اور بدعات نے دین کی شکل تبدیل کرنے کا سفر جاری رکھا تھا۔ ایسے میں سیّداحمدشہید [۲۹نومبر ۱۷۸۶ء،رائے بریلی- ۶مئی ۱۸۳۱ء، بالاکوٹ] اور شاہ اسماعیل شہید [۲۶؍اپریل ۱۷۷۹ء-۶مئی ۱۸۳۱ء] کی قیادت میں تحریک ِ مجاہدین نے راہِ منزل متعین کی۔

تحریکِ مجاہدین

 تحریک مجاہدین کے پس منظر میں شاہ عبدالعزیز بن شاہ ولی اللہ کے ان فتاویٰ نے بنیادی کردار ادا کیا: ’’یہاں کے عیسائی حکام کا حکم بے دھڑک جاری ہے۔ یہ لوگ خود میں حاکم اور   مختارمطلق ہیں۔ بے شک یہ نمازِ جمعہ، عیدین، اذان وغیرہ میں رکاوٹ نہیں ڈالتے، لیکن ان سب کی جڑ بے حقیقت اور پامال ہے۔چنانچہ یہ لوگ بے تکلف مسجدوں کو مسمار کر دیتے ہیں۔ عوام کی شہری آزادیاں ختم ہوچکی ہیں، یہاں تک کہ کوئی مسلمان یا غیرمسلم ان کی اجازت کے بغیر اس شہر یا اس کے اطراف میں نہیں آسکتا۔ دہلی سے کلکتے تک ان کی عمل داری ہے‘‘(فتاویٰ عزیزیہ، اوّل، ص۱۷)۔ [دوسرے فتوے میں لکھا:]’’نصاریٰ بلکہ کافروں کی ملازمت کی کئی اقسام ہیں۔  اس میں بعض مباح، بعض مستحب، بعض مکروہ ، بعض حرام، بعض گناہِ کبیرہ ہیں‘‘ (ایضاً، دوم، ص ۱۱۹)۔ ’’ہندستان اب دارالحرب ہوگیا ہے‘‘(ایضاً، اوّل، ص ۱۰۵)۔شاہ عبدالعزیزؒ کے یہ فتاویٰ اور خطبات عملی سطح پر تحریک مجاہدین کی تشکیل و تحریک اور آزادیِ ہند اور اسلامی ریاست کی تعمیر کا عنوان بنے۔

یاد رہے کہ تحریک مجاہدین محض جہاد بالسیف کی تحریک نہ تھی، بلکہ یہ تعلیم و اصلاح کی تحریک بھی تھی۔ جس کا پہلا ہدف اصلاح عقائد اور بدعات سے اجتناب اور مقامی ثقافتی رواج کو اسلام بناکر اختیار کرنے کے فتنے سے مسلمانوں کو بچانا تھا۔ دوسرا یہ کہ انگریزی اثرات اور حکومت کو ختم کرنا۔ تیسرا یہ کہ کتاب و سنت کی ترویج اور احیائے دین۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ایک آزاد ٹھکانے کی ضرورت تھی، جسے قائم کرنے کے لیے سیّداحمد بریلوی کی قیادت میں تحریک مجاہدین نے راجستھان، سندھ ، قندھار سے ہوتے ہوئے کابل اور پنجاب کے درمیان پٹھان قبائلی علاقے کو مستقر بنانے کی راہ اختیار کی۔

سیّد احمد شہید نے صراطِ مستقیم میں پہلے طریقِ نبوت اور صوفیا کے طریقے کا فرق بیان کیا ہے، بدعت کی حقیقت اور اس سے بچنے کے موضوع پر بڑی جامع بحث کی ہے۔پھر   آپ نے ہندستان میں فعال تصوف کے اُن تمام سلسلوں کے افکار و اشغال کو بیان فرمایا ہے، جو آپ کی نگاہ میں صحیح تھے۔ آخر میں ایک بڑا اہم باب مسلک راہِ نبوت پر لکھا ہے، جس میں بیان کیا ہے کہ فکری و روحانی اصلاح کے لیے نبویؐ طریقہ کیا ہے؟

  • احیائـے حج: تحریک ِ مجاہدین کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیّداحمدبریلوی نے جہاد سے پہلے جہاں ایک طرف احیائے سنت کی ہمہ گیر مہم چلائی، وہیں آپ نے لوگوں میں حرکت پیدا کرنے کے لیے اور اُنھیں ایک بڑی قربانی پر تیار کرنے کے لیے احیائے حج پر زور دیا۔ بدامنی اور راستے کی مشکلات کے باعث ہندستان میں علما نے ایک مدت سے یہ فتویٰ تک دے رکھا تھا: ’’حج یہاں کے مسلمانوں پر فرض نہیں رہا، اس لیے کہ سفرِحج کی راہ بہت پُرخطر ہے‘‘۔ سیّدصاحبؒ نے اس پر فرمایا کہ: ’’زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ حج آج بھی اُسی طرح فرض ہے جس طرح کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے فرض کیا ہے۔ مسلمانوںکا یہ فرض ہے کہ وہ اس سنت کا احیا کریں اوراپنی جان پر کھیل کر بھی اس فرض کو ادا کریں‘‘۔ اس مقصد کے لیے آپ نے صلائے عام دےدی کہ: ’’پورے ہندستان سے جو میرے ساتھ چلنا چاہتا ہے، آئے، میں اُس کو لیے چلتا ہوں‘‘۔ حاجیوں کے چھے بحری جہاز آپ اپنے ساتھ لے کر حجازِ مقدس گئے اور حج کا فریضہ ادا کرکے واپس سرزمین تشریف لائے۔ اس طرح مسلمانوں میں ایک نیا جذبہ اور ولولہ پیدا ہوگیا اور اسلام کی خاطر خطرات کو مول لینے کا داعیہ اُمڈ آیا۔
  • دعوت و ارشاد:پھر سیّدصاحب نے تعلیم، ارشاد اور ہدایت کا ایک نظام قائم کیا۔ آپ لوگوں سے بیعت لیتے تھے۔ ان میں سے جو اہلِ علم تھے اور تقریر کرسکتے اُن سے کہتے کہ: ’جائو شہر شہرجائو، بستی بستی جائو، محلے محلے جائو، گھرگھر جائو اور بدعات کو ختم کرنے کا، شرک کو جڑ سے کاٹنے کا ، سنت کے احیا کا اور جہاد کے جذبے کو بیدار کرنے کا کام انجام دو‘۔
  • جہاد بالسیف: سیّد صاحب کی اپیل پر ملک کے ہر گوشے سے جہاد کی اس دعوت پر مسلمانوں نے لبیک کہا۔ لڑائی لڑی گئی۔ اُس وقت کے شمال مغربی پنجاب اور آج کے خیبرپختونخوا میں، مسلمان اس دعوتِ جہاد میں شرکت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے کھچ کھچ کر دکن، بنگال اور بہار سے آئے۔ یہ مجاہدین اپنے گھربار، اپنے دوستوں اور اعزہ کو، غرض کہ پوری دُنیا کو چھوڑ کر آئے۔ ہرقسم کی صعوبتیں جھیلیں اور مصیبتیں انگیز کیں، صرف اس لیے کہ اللہ اور اُس کے آخری رسولؐ کے کلمے کو سربلند کریں۔ جہاد کا یہ عظیم فریضہ انجام دینے کے لیے سیّداحمد بریلوی نے ایک مستقل جماعت بنائی۔ اس جماعت میں شامل ہونے والوں کے قلوب کا تزکیہ کیا۔ دین کا ایک انقلابی تصور اُن کو دیا۔ نظامِ دعوت و تبلیغ قائم کیا اور یہ سب کچھ صرف اعلائے کلمۃ الحق کے لیے کیا۔

اس بارے میں خود سرسیّد احمد خاں [۱۷؍اکتوبر ۱۸۱۷ء- ۲۷مارچ ۱۸۹۸ء]کی شہادت بڑی دل چسپ ہے۔ سرسیّد احمد خاں مرحوم، شاہ اسماعیل شہید کے بارے میں لکھتے ہیں: بموجب ارشاد سیّد پیر طریق یدا (سیّد احمد بریلوی صاحب) کے، اس طرح سے تقریر و وعظ کی بنا ڈالی کہ مسائل جہاد فی سبیل اللہ بیش تر بیان ہوتے۔ یہاں تک کہ آپ کے صیقلِ تقریر سے مسلمانوں کا آئینہ باطن مصفّا اور مجلّٰی ہوگیا، اور اس طرح سے راہِ حق میں سرگرم ہوئے کہ بے اختیار دل اُن کا چاہنے لگا کہ سر اُن کا راہِ خدا میں فدا ہو اور جان ان کی اعلائے لوائے محمدیؐ میں صرف ہو۔ (آثار الصنادید ، طبع اوّل، بحوالہ سہ ماہی رسالہ تاریخ  و سیاست، بابت نومبر۱۹۵۲ء، ص ۸)

مولانا عبدالحی [م: ۸شعبان ۱۲۴۳ھ/۲۴ فروری ۱۸۲۸ء]کے بارے میں سرسیّد احمد خاں لکھتے ہیں: ’’لوگوں کو نہایت ہدایت حاصل ہوئی اور بااتفاق مولوی محمداسماعیل صاحب کے ترغیب ِ جہاد فی سبیل اللہ میں سرگرم رہے‘‘(ایضاً، ص ۷۶)۔اس طرح تحریک ِ مجاہدین نے قوم میں جہاد کی روح پھونک دی، مسلمانوں کو دوبارہ اس جذبے سے سرشار کیا کہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے وہ اپنی جانیں دے دیں۔

  • برصغیر کی پہلی اسلامی ریاست: سیّداحمد شہیدؒ نے اس مقصد کے لیے ہندستان کی سرزمین میں پہلی چھوٹی سی اسلامی ریاست قائم کی تھی۔ آپ نے قوم کے سامنے جو مقصد رکھا، وہ یہ تھا:’’جہاد قائم کرنا اور بغاوت و فساد کو مٹانا ہر زمانے اور ہر مقام پر خدا کا نہایت اہم حکم ہے، خصوصاً اس زمانے میں جب کافروں اور سرکشوں کی شورش ایسی عام صورت اختیار کرگئی ہو کہ سرکشوں اور باغیوں کے ہاتھوں دینی شعائر بگاڑے جارہے ہوں، اس صورت میں سرکش کافروں کی بیخ کنی سے غفلت اور مفسد باغیوں کی گوشمالی سے سہل انگاری بہت قبیح گناہ ہے۔ اس بنا پر خدا کی درگاہ سے اس بندے نے اپنے وطن سے نکل کر ہند و سندھ و خراسان کا دورہ کیا اور وہاں کے مومنوں اور مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی‘‘۔

اپنی تحریک کے بارے میں سیّد احمد بریلوی فرماتے ہیں:’’وہ غیر جن کا وطن بہت دُور ہے، بادشاہ بن گئے۔ وہ تاجر جو سامان بیچ رہے تھے، انھوں نے سلطنت قائم کر لی ہے۔ بڑے بڑے امیروں کی عمارتیں اور رئیسوں کی ریاستیں خاک میں مل گئی ہیں ، ان کی عزّت اور ان کا وقار چھن گیا ہے ۔ جو لوگ ریاست و سیاست کے مالک تھے، وہ کنج ِ عافیت میں بیٹھے ہیں۔   آخر فقیروں اور مسکینوں میں سے تھوڑے سے آدمیوں نے ہمت باندھی اور ضعیفوں کا گروہ محض خدا کے دین کی خدمت کے لیے اُٹھا ہے، یہ لوگ نہ دُنیادار ہیں اور نہ جاہ طلب۔ جب ہندستان کا میدان غیروں اور دشمنوں سے خالی ہوجائے گا اور ضعیفوں کی کوششوں کا تیر نشانے پر جا بیٹھے گا تو آیندہ کے لیے ریاست و سیاست کے عہدے طالب لوگوں میں بانٹ دیئے جائیں گے۔خدا کے اس انعام کا شکر بجا لائیں، ہمیشہ ہرحالت میں جہاد قائم رکھیں، کبھی اس کو معطل نہ چھوڑیں، عدالت اور فیصلوں میں شرع کے قانون سے بال برابر بھی تجاوز نہ کریں۔ ظلم اور کشت و خون سے برابر بچتے رہیں‘‘۔

  • تحریکِ مجاہدین کا اصل مقصد:حضرت بریلوی شہید مزید کہتے ہیں:’’پھر میں ان مجاہدین کو لے کر ہندستان کی طرف متوجہ ہوجائوں گا، تاکہ وہاں سے اہلِ کفر کے طغیان کو ختم کیا جاسکے اور میرا اصل مقصودِ جہاد یہ نہیں کہ خراسان میں سکونت اختیار کرلوں‘‘۔کچھ لوگوں نے یہ کہا تھا: ’’آپ کا مقصد تو یہ ہے کہ آپ اپنے لیے ایک چھوٹی سی ریاست بنالیں‘‘۔ آپ نے فرمایا:’’نہیں، میرے پیش نظر یہ ہے کہ پورے ہندستان کو اسلامی حکومت کے ماتحت لے آئوں، خدا کا قانون یہاں پر جاری ہو۔ انگریزوں کو یہاں سے نکال دیا جائے، سکھوں کی کمر توڑی جائے اور مرہٹوں کی سرکشی ختم کی جائے‘‘۔

یہ تھا وہ مقصد، جس کو لے کر آپ اُٹھے تھے۔ آپ نے سنتؐ کے اتباع کی دعوت دی۔ اس دور میں صحابہؓ سے قرب کی کوئی مثال ہمیں ملتی ہے تو اس تحریک میں ملتی ہے۔ وہی جذبہ ہے، وہی کیفیت ہے، وہی قربانیاں ہیں،وہی اخلاص ہے، اسی قسم کی للہیت ہے اور پروانہ وار فدا کاری!

  • جذبۂ جہاد:جہاد کا موقع آتا ہے، ایک شخص بیمار ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’تم اس میں شرکت نہ کرو‘‘۔وہ کہتا ہے: نہیں،میں کوئی ایسا بیمار تو نہیں ہوں۔ یہ پہلا معرکہ ہے اس میں مجھے ضرور شرکت کی اجازت دیجیے۔ ایک کمزور اور لاغر انسان ہے۔ رسد اُٹھائی جارہی ہے۔ اُس سے بوجھ نہیں اُٹھتا۔ آپ منع کر دیتے ہیں کہ ’تم کمزور ہو، اناج کی بوریاں نہ اُٹھائو‘۔وہ کہتا ہے: ’ٹھیک ہے۔ لیکن کیا میں ایک نیک کام میں شرکت سے محروم رہ جائوں‘۔

ایسی غیرمعمولی مثالیں اس تحریک میں ملتی ہیں کہ کم از کم ہندستان کی تاریخ میں تو کوئی   اُن کی مثال نہیں۔ پھر جن مشکلات سے یہ لوگ گزرے، اس میں جس تحمل اور پامردی اور جس ہمت کا انھوں نے مظاہرہ کیا،وہ غیرمعمولی ہے۔ ذاتی اخلاق اور عفت و پاک بازی کا معیار بھی بڑا ہی اُونچا تھا۔ ہزاروں کا لشکر ایک شہر میں جاتا ہے اور کسی شخص کا ایک برتن نہیں لُوٹا جاتا۔ کسی دکان پر سے ایک چیز نہیں اُٹھائی جاتی اور نہ بلاقیمت لی جاتی ہے۔ عورتیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ سیّداحمد شہید کی فوج نہ معلوم کیسے انسانوں سے بنی ہوئی ہے کہ کبھی ہم نے اُن کی نگاہوں کو عورتوں پر اُٹھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔

یہ تحریک اس ملک کی پہلی حقیقی اسلامی تحریک ہے، جس نے فکروعقیدہ اور عمل اور اجتماعی نظام ان سب کو بدلنے کی کوشش کی۔ یہ ٹھیک ہے کہ مقامی مسلمان خوانین کی غداری اور کچھ دوسری وجوہ کی بناپر دُنیوی حیثیت سے بظاہر یہ تحریک کامیاب نہ ہوسکی۔ لیکن کیا یہ بات کچھ کم ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے یہ بات ثابت کرگئی کہ اگر اخلاص کے ساتھ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے لوگ اُٹھیں، تو وہ اخلاق اور سیرت و کردار کا ایک ایسا نمونہ پیش کرسکتے ہیں کہ جس میں ایک گونہ مشابہت اس دور کی آجائے جس کا نظارہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں ملتا ہے۔

لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضوؐر کے صحابیؓ مافوق البشر تھے، اب اس کے بعد یہ چیز نہیں ہوسکتی۔ مگر تحریک ِ مجاہدین کا مطالعہ کیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اسلام وہ پارس ہے کہ جس زمانے میں بھی انسانوں کوچھو جائے اُنھیں سونا بنا دیتا ہے بشرطیکہ ان میں اخلاص ہو اور وہ فی الحقیقت اسلام کے آگے جھک جائیں اور اس کو قبول کرلیں۔ پھر کیا یہ بات کم ہے کہ ہندستان کے اتنے وسیع و عریض ملک میں چند سرفروش ایسے اُٹھے جنھوں نے عزت کی موت کو غلامی کی زندگی پر ترجیح دی، اور بقول مرزا سودا:

سودا قمارِ عشق میں مجنوں سے کوہکن
بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا

  • تحریکِ مجاہدین کے اثرات:پھر یہ تحریک بالاکوٹ (ضلع مانسہرہ ،پاکستان) کی شہادت گاہ میں ختم نہیں ہوگئی اور اس کی آگ فرزانوں کے سینوں میں حرارت پیدا کرتی رہی۔ زیرِزمین یہ تحریک برابر کام کرتی رہی۔ مؤرخین ایک ہی وقت میں آپ کے ۶۶متحرک خلفا کی تعداد بتلاتے ہیں۔ گویا ۶۶ مراکز سے یہ خلفا، تحریک کو اپنے اپنے دائرے میں چلاتے رہے۔ پھر یہ صرف زیر ِ زمین ہی نہیں چلتی رہی بلکہ اس نے انگریزوں کا ناطقہ بند کر دیا۔ اُن کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ انگریز حکمرانوں کی راتوں کی نیند حرام ہوگئی۔(ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر [۱۸۴۰ء -۱۹۰۰ء ] Indian Musalmans، طبع اوّل: ولیمز اینڈ نارگیٹ، لندن، ۱۸۷۱ء، ناشر طبع سوم:(ترمیم شدہ) ٹربنر اینڈ کمپنی، لندن، ۱۸۷۶ء)

سیّد احمد بریلوی اور ان کے رفقائے کار کے کارنامے قابلِ رشک ہیں۔ سیّدصاحب اور ان کے جانشینوں کا سب سے اہم اور نتیجہ خیز کام، خطۂ بنگال میں احیائے اسلام اور اس وسیع مملکت کا برصغیر کے اسلامی مراکز سے دوبارہ رشتہ جوڑنا تھا۔ (شیخ محمد اکرام، موجِ کوثر، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۲۰۲۱ء، ص ۵۰)

۶مئی ۱۸۳۱ء کو بالاکوٹ کے مقام پر سیّدصاحب شہید ہوئے، لیکن آنے والے کم از کم ۵۰برس تک یہ تحریک مختلف علاقوں میں برابر کام کرتی رہی اور ان کے خلاف انگریزی حکومت کی جانب سے چلائے گئے ۱۸۷۳ء کے جو آخری مقدمات ہم کو ملتے ہیں (دیکھیے: محمد جعفر تھانیسری کی کتاب کالا پانی اور Selected Papers Wahabi Trials)، ان میں برطانوی حکومت ِ ہند کہتی ہے کہ ’’اب ہم نے اس تحریک کا قلع قمع کر دیا ہے‘‘۔ لیکن اہلِ تحقیق بتاتے ہیں کہ اس کے بعد بھی مجاہدین برابر خاموشی کے ساتھ کام کرتے رہے اور بیسویں صدی کے آغاز تک مختلف حلقوں میں یہ کام ہوتا رہا۔ پھر ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں پر بے پناہ ظلم و تشدد اور ہرممکن کوشش کے باوجود اس تحریک کا یہ نتیجہ ہے کہ کم از کم مسلمانوں کو انگریزوں سے سمجھوتا کرنے پر آمادہ نہ کیا جاسکا۔ مسلمانوں میں برطانوی سامراج سے بغاوت کرنے اور مصالحت نہ کرنے کا جذبہ اسی تحریک کا پیدا کردہ تھا۔

یہی تھی وہ چیز، جس نے ۱۸۵۷ء کے معرکے کو جنم دیا، اور یہی تھی وہ چیز جس نے اس کے بعد مسلمانوں کو انگریزی سامراجیت سے برابر برسرِ پیکار رکھا۔ اس میں واقعہ کانپور [اگست ۱۹۱۳ء] ہو یا خلافت کی تحریک ہو یا جلیانوالہ باغ کا المیہ [۱۳؍اپریل ۱۹۱۹ء] یا ترکِ موالات اور پھر خود  تحریکِ پاکستان ہو۔ان تمام تحریکات میں یہی روح کارفرما نظر آتی ہے کہ ہم انگریزوں کے تسلط کے ساتھ راضی (reconcile )نہیں رہ سکتے اور نہ اس کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرسکتے ہیں۔ استعمار اور غلامی کا جوا بہرحال ہمیں اپنے کندھوں سے اُتار پھینکنا ہے۔ یہی تھا وہ احساس، جو سیّدصاحب کی تحریک نے پیدا کیا۔ اس سے بڑھ کر کامیابی کسی تحریک کی اور کیا ہوسکتی ہے۔

فرائضی تحریک

اس زمانے میں ایک اور بڑی نمایاں تحریک ہم کو نظر آتی ہے، جس کی دعوت، خدمات اور اثرات کے تجزیے کی طرف ابھی تک بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ یہ تحریک بھی تقریباً اسی عہد میں برپا ہوئی، تاہم اس کا زمانۂ آغاز تحریک ِ مجاہدین سے کچھ پہلے کا ہے۔ حاجی شریعت اللہ [۱۷۸۱ء- ۱۸۴۰ء] کی ولادت بہادرپور، ضلع فریدپور (بنگال) میں ہوئی، انھوں نے اس کا آغاز کیا۔ وہ اٹھارہ برس کی عمر میں حج بیت اللہ کے لیے حجازِ مقدس تشریف لے گئے اور ۲۰برس تک مکہ معظمہ میں مقیم رہے۔ وہاں علّامہ طاہر مکی شافعی سے تعلیم حاصل کی۔

حاجی شریعت اللہ ۱۸۰۲ء میں واپس وطن آئے اور ۱۸۰۴ء میں فرائضی تحریک شروع کی۔ ایک طویل عرصے سے ہندوئوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے بنگال کے مسلمانوں میں بھی  غلط رسمیں اور شرک سے آلودہ عقائد جڑپکڑ چکے تھے۔ حاجی شریعت اللہ نے ان عقائد کی درستی اور اسلام کی صحیح تعلیمات کی تعلیم و تربیت کے لیےفرائضی تحریک شروع کی۔پہلے تو انھوں نے امرا کو اور مسلمان نوابوں کو خیر کے کاموں کے لیے اُبھارنے کی کوشش کی۔ پھر یہ کہ یہاں کے مسلمانوں میں آزادی کی روح پھونکنا، انگریزوں سے نجات پانا اور ہندو زمین داروں کے مظالم سے جان چھڑانا بھی اس تحریک کا مقصد قرار دیا۔

انگریزی حکومت کے تحت رہتے ہوئے ایسے باغیانہ پروگرام کی اشاعت اور جدوجہد نہایت جرأت مندانہ قدم، موت اور آزمایشوں کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ لیکن حاجی صاحب نے مسلمانوں کو پستی، غلامی اور ذلّت سے نکالنے کے لیے ذرہ برابر ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا اور سخت حوصلہ شکن حالات کے باوجود منزل کی طرف رواں دواں رہے۔جب اس میں کچھ کامیابی ہوئی تو عوام کی طرف رجوع کیا، خصوصیت سے کاشت کاروں کو جمع کیا۔ کاشت کاروں میں یہ تحریک جنگل کی آگ کے مانند پھیلی۔ حاجی شریعت اللہ نے جس بات کی کوشش کی وہ یہ تھی کہ بدعات ختم ہوں اور شرک کا استیصال ہو، یعنی جو آئیڈیل تحریک ِ مجاہدین کے تھے وہی آئیڈیل انھوں نے بھی اپنے سامنے رکھے۔ اس کے ساتھ انھوں نے جہاد کی بیعت تو لی، لیکن جہاد کر نہیں سکے۔

حاجی شریعت اللہ نے اس تنظیمی اور تحریکی سلسلے میں پیر اور مرید، یا خادم اور مخدوم کا کلچر اختیار کرنے کے بجائے ہدایت کی کہ: ’ہمارا باہم تعلق استاد اور شاگرد کا ہے‘۔ انھوں نے کسانوں اور کھیت میں کام کرنے والے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور حالت ِ زار کو حیوانی سطح سے بلند کرنے اور شرفِ انسانی سے قریب ترلانے کے لیے رفاہی انداز سے کام شروع کیا۔ ان کا نعرہ تھا: ’الارض للّٰہ،یعنی زمین اللہ کی ہے‘۔مخالفین نے انگریزوں کے اشارے پر آپ کی تحریک کو بھی ’وہابی‘ تحریک کا نام دیا، حالاں کہ ان کا ایسا کوئی تعلق نہیں تھا۔

حاجی شریعت اللہ کی رحلت [۱۸۴۰ء] کے بعد ان کے بیٹے حاجی محسن میاں [۱۸۱۹ء-۱۸۶۰ء] نے تحریک کی قیادت سنبھالی۔ حاجی محسن میاں کو بنگال کے مسلمان محبت سے دودھو میاں کے نام سے پکارتے تھے۔ حاجی شریعت اللہ نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے اور انھیں بنگال سے نکالنے کے لیے بیعت لی تھی ، لیکن جیساکہ بتایا گیا ہے کہ وہ جہاد کا آغازنہ کرسکے ۔ البتہ ان کے صاحب زادے نے اس میدان میں قدم بڑھایا۔ انھوں نے عملاً انگریزوں کے خلاف بغاوت کی۔ مختلف مقامات پر ہزاروں آدمیوں کو قیدوبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ ’فرائضی تحریک‘ سے تعلق رکھنے والے سرفروشوں نے بڑے پیمانے پر قربانیاں دیں۔ انگریز حکومت نے جھوٹے مقدمے بنابنا کر مختلف طریقوں سے ان کو پریشان کیا اور یہ سلسلہ برسوں جاری رہا۔ تقریباً ۳۰،۳۵ سال تک یہ تحریک بنگال میں مؤثر خدمات انجام دیتی رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگال، آسام اور کسی حد تک بہار میں اسلام کو مستحکم کرنے کا کارنامہ انھی دو تحریکوں: ’تحریک ِ مجاہدین‘ اور’ فرائضی تحریک‘ ہی نے انجام دیا۔(ڈاکٹر جیمس وایز ، Mohammadans of Eastern Bengal)

اسی عرصے میں اسلام کے ایک اور سرفروش، سیّدمیرنثارعلی المعروف تیتومیر [۱۷۸۲ء- ۱۹نومبر ۱۸۳۱ء] نے سرزمین بنگال میں انقلابی تحریک شروع کی۔تیتومیر، سیّداحمد بریلوی کے عقیدت مند اور ان سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے ہندو زمین داروں کے مظالم اور استحصال، اور ان کے پشت پناہ انگریزوں کے خلاف پسے ہوئے بنگالی مسلمانوں میں نہ صرف زبردست بیداری پیدا کر کے مسلمانوں کو ظلم کی زنجیریں توڑنے پر آمادہ کیا، بلکہ عملی اقدامات بھی کیے۔ آخرکار اسی طرح کے ایک معرکے میںشہید ہوگئے۔[عبداللہ ملک، بنگالی مسلمانوں کی صدسالہ جہدِ آزادی، ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۶۷ء]

  • ۱۸۵۷ء اور اُس کے بعد:اب ہمارے سامنے ۱۸۵۷ء کا معرکہ آتا ہے، جسے انگریز اور ان کے زیراثر قلم کار ’غدر‘ کہتے ہیں۔ انگریزی جبر کے زمانے میں سرسیّد نے لکھا: ’’غدر کیا ہوا، ہندوئوں نے شروع کیا، مسلمان دل جلے تھے وہ بیچ میں کود پڑے۔ ہندو تو گنگا نہاکر جیسے تھے ویسے ہوگئے [لیکن] مسلمانوں کے تمام خاندان تباہ و برباد ہوگئے‘‘۔ (الطاف حسین حالی حیاتِ جاوید، ص۲۸۰)

 مگر حقائق و شواہد بتاتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہ بغاوت مسلمانوں ہی کی برپا کردہ تھی۔ ہندو مؤرخین بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس کے روح رواں مسلمان تھے۔ اس بغاوت کی تنظیم اور تحرک میں سب سے زیادہ حصہ علما نے لیا تھا۔ دراصل یہ معرکہ بھی سیّداحمد شہید کی تحریک ہی کا ایک فکری اور عملی مظہر تھا۔ بظاہر بجھتے ہوئے چراغ کی ناقابلِ فراموش بھڑک!

سچی بات ہے کہ ۱۸۵۷ء کی اس جنگ کی سنگینی کا عصرحاضر کے نوجوانوں کو کچھ بھی علم نہیں، اور نہ وہ اس کی شدت کا اندازہ کرپاتے ہیں۔ وہ ایک قیامت تھی جو ہندستانی مسلمانوں کے سر سے گزر گئی۔ اس بہانے انگریزوں اور ان کے طرف دار اور حلیف ہندوئوں کو موقع مل گیا کہ جس طرح ممکن ہو مسلمانوں کو برباد کر دیا جائے، بقول بہادر شاہ ظفر     ع

جسے دیکھا، حاکمِ وقت نے کہا یہ بھی قابلِ دار ہے

قیصر التواریخ (کمال الدین لکھنوی) کے مطابق سات ہزار مسلمان معززین کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔ تین ماہ تک مردہ گاڑیاںطلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک گھومتی پھرتی تھیں۔ لاشوں کو درختوں سے اُتارتی تھیں۔ اس طرح چھے ہزار کے قریب افراد کو اُتارا گیا۔ پھر ہزار علما، فضلا، فقہا، شرفا، امرا کو عمرقید کے لیے جزائر انڈیمان (کالے پانی) عمرقید کاٹنے کے لیے بھیج دیا۔ اس سے متصل زمانے میں لارڈ ہاردنگ نے حکم نامہ جاری کیا کہ آیندہ عربی، فارسی جاننے والے فرد کو سرکاری ملازمت میں نہیں لیا جائے گا۔ ۱۸۴۹ء تک پنجاب کی سرکاری زبان فارسی تھی، مگر اس کا خاتمہ کرکے عام لوگوں کے لیے ۱۸۷۶ء سے پنجاب میں اُردو کو ذریعۂ تعلیم بنانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔(پروفیسرسیّد محمد سلیم، مغربی زبانوں کے ماہر، ص ۱۰۷- ۱۰۸)

  • ردعمل اور انحراف کا دور:اس کے بعد ہم جس دور میں داخل ہوئے، اس کو مَیں ہندستان کی تاریخ میں ردعمل (reaction) اور انحراف (deflection)کا دور سمجھتا ہوں۔یہ زمانہ تقریباً ۵۰، ۶۰ سال پر حاوی ہے۔اس زمانے میں تین اہم ردعمل ہمارے سامنے آئے ہیں:
    • ایک سرسیّداحمد خاں اور ان کی قیادت میں رُونما ہونے والی علی گڑھ تحریک۔
    • دوسرا دیوبند کے علما اور قدامت پسند علما کاردعمل۔ lتیسرا مرزا غلام احمد قادیانی اور قادیانیت کا رُوپ بہروپ ۔

حالت یہ تھی کہ بحیثیت ِ مجموعی مسلمانوں میں ۱۸۵۷ء کے معرکے میں ناکامی کے بعد ایک عام مایوسی کی کیفیت پیدا ہوچکی تھی۔ انھوں نے اس وقت انگریز سامراج سے نجات حاصل کرنے کے لیے تین کوششیں کیں: بالاکوٹ جاکر لڑے، بنگال میں بغاوت کی اور ۱۸۵۷ء میں مختلف مقامات پر برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کی، لیکن یہ تینوں کوششیں بظاہر باثمرثابت نہ ہوسکیں۔  اس کے نتیجے میں فطری طور پر مسلمانوں میں لامرکزیت، بے بسی، مایوسی اور قنوطیت رُونما ہوئی۔

انگریز نے بھی اس بات کو اچھی طرح محسوس کرلیا تھا کہ مسلمان نرم نوالہ نہیں، ان میں کم از کم کچھ لوہے کے چنے تو ایسے بھی ہیں کہ اُن کو چبانے کی کوشش میں دانت ٹوٹ سکتے ہیں۔ ان پر  بے اعتمادی ، ان کو ختم کرنے کے لیے ہندوئوں سے تعاون کی کوشش، ان کے رہے سہے اقتدار کو ملیامیٹ کرنے کی مربوط کوشش، یہ تھے انگریز کی پالیسی کے بنیادی اصول۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کی تمام مادی قوتیں ان سے چھین لی گئیں، انھیں روزگار سے محروم کر دیا گیا، ملازمتوں سے نکال دیا گیا، دربار اور عدالتوں سے ان کی ملازمتیں ختم کر دی گئیں۔ اس کے مقابلے میں ساری عنایتیں ان ضمیرفروشوں پر نچھاور ہوئیں، جو مسلمانوں سے غداری کررہے تھے اور بیرونی قوت سے سازباز کررہے تھے، یا پھر ہندوئوں کے ساتھ ہوئیں، جن کو یہ احساس دلایا گیا کہ: ’تم اکثریت میں تھے، لیکن تمھارے اُوپر آٹھ سو سال سے مسلمان حکمران تھے۔ اب تم ان سے آگے بڑھو اور اس ملک کے حکمران بنوگے‘۔

  • عیسائیت کی یلغار: انگریزوں نے صرف اس بات کو بھی کافی نہیں سمجھا، بلکہ انھوں نے مسلمانوں کے ذہن کو مرتد کرنے کے لیے بھی ایک منصوبہ بنایا۔ ایک طرف عیسائیت کا پرچار وسیع پیمانے پر کیا گیا اور برطانیہ کے وزیراعظم نے خود پارلیمنٹ میں یہ بات کہی کہ: ’ہماری حکومت کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کا پیغام ہم سارے ہندستان میں پہنچائیں‘۔ لٹریچر کا ایک طوفان تھا، جو اسلام پر لایعنی اور بڑے سوقیانہ اعتراضات کے ساتھ برصغیر کے کونے کونے میں پھیلایا گیا۔ اس بنا پر عوام میں ایک بے چینی اور ہلچل سی مچ گئی، شک و شبہے کے کانٹے لوگوں کے ذہنوں میں چبھو دیے گئے۔ہروہ فرد جو مغربی استعماریت اور نوآبادیاتی اقتدار کو چیلنج کرتا، اسے ’وہابی‘مشہور کر دیاجاتا، یوں خود مسلمانوں میں انتشارو افتراق کو گہرا کیا گیا۔

عیسائی مشنریوں کی ایک فوج تھی جو ملک کے طول و عرض میں کام کر رہی تھی۔ اس کے کام کی وسعت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی سے بھی قبل، یعنی ۵۳-۱۸۵۲ء میں، جب کہ برصغیر ہند کے تمام سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں صرف ۳۰ہزار طلبہ زیرتعلیم تھے تو اس کے برعکس عیسائی مشنری تعلیمی اداروں میں اس سے دس گنا زیادہ، یعنی ۳لاکھ طالب علم زیرتعلیم و تربیت تھے (بحوالہ: The  Education of  India,  p49)۔ اگرچہ بظاہر تو دُنیاوی ترقی کے لیے یہ مشنری ادارے خواب دکھاتے، مگر ان کا اصل ہدف یہ تھا اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے کہ مقامی طالب علموں میں دین کے بارے میں شک و شبہہ اور تہذیب کے بارے میں احساسِ کمتری پیدا کریں۔

  • جدید نظامِ تعلیم:پھر برطانوی حکمرانوں کی زیرقیادت مستشرقین اور معلّمین نے مل کر ایک نیا نظامِ تعلیم قائم کیا۔ جس کے بارے میں علّامہ محمد اقبال نے کہاتھا:

اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مُروت کے خلاف

 مستشرقین (Orientalists)کی سوچ کا اندازہ لگانے کے لیے معروف مستشرق ولیم میور [۱۸۱۹ء-۱۹۰۵ء]کی مثال کافی ہوگی۔ میور نے اپنی کتاب The Life of Mahomet  (۱۸۶۱ء) میں لکھا:’’دُنیا کو اسلام سے دوخطرے ہیں (نعوذ باللہ من ذٰلک)۔ ایک محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کی تلوار سے اور دوسرا محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] کے قرآن سے، اور جب تک ہم دونوں کو ختم نہیں کردیں گے، چین سے نہیں بیٹھیں گے‘‘۔ یہ بات بظاہر تو ایک اسکالر نے کہی، مگر یہی انداز تھا جو بحیثیت ِ مجموعی سارے مستشرقین نے اختیار کیا اور جسے انھوں نے نئے نظامِ تعلیم میں اختیار کیا۔ جبھی تو اکبر الٰہ آبادی [۱۸۴۶ء-۱۹۲۱ء] نے کہا ہے:

توپ کھسکی پروفیسر پہنچے
جب بسو لا ہٹا تو رندا ہے

یعنی پہلے توپ سے حملہ کیا گیا جس سے ہماری سیاسی قوت کو ختم کیا گیا۔ اب مستشرقین اور معلّمین تشریف لے آئے تاکہ ہمارے ذہنوں اور دلوں کو ، ہمارے نظریات اور خیالات کو، ہمارے اخلاق اور کردار کو بدل کر رکھ دیں اور انگریزوں کے غلام ابن غلام تیار کریں۔ اس پس منظر میں ہمارے سامنے دو تحریکات اُبھریں: پہلی تحریک کی سربراہی سرسیّداحمد خاں اور دوسری تحریک کی قیادت علمائے دیوبند نے کی۔

  • سرسیّد احمد خاں اور علی گڑھ تحریک:سرسیّد احمد خاں کی فکر اور ان کی تحریک کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات کے بارے میں اُن کی تشخیص یہ تھی:
    •  حکومت کا اعتماد :مسلمانوں کی ترقی کا راز اس بات میں ہے کہ برطانوی حکومت ان پر اعتماد کرنے لگے۔ خرابی کی اصل جڑ یہ ہے کہ مسلمان، حکومت کے قابلِ اعتماد (trustful) نہیں رہے اور چوں کہ حکومت کے قابلِ اعتماد نہیں رہے، اس لیے زندگی کے تمام شعبوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کا کام یہ ہے کہ وہ اعتماد کو بحال کریں۔ انگریزوں سے جُڑیں، سامراجی حکومت کو اپنی وفاداری کا یقین دلائیں، اس سے اپنے تعلقات استوار کریں اور اربابِ حکومت کے ساتھ اُٹھیں، بیٹھیں، کھائیں اور پئیں۔ اسی طریقے سے مسلمان اُن کے ساتھ جڑ سکیں گے۔
    • مغربی تہذیب کی تقلید :فکری اور تہذیبی میدان میں مسلمانوں کو جدید مغربی تہذیب سے سمجھوتا کر لینا چاہیے۔ کچھ چیزیں اس کی لے لی جائیں، کچھ اپنی باقی رکھی جائیں اور اس طرح ایک نیا مرکب تیار کیا جائے جو نئے حالات میں چل سکے۔
    • جدید تعلیم کا حصول  :ترقی کا زینہ تعلیم ہے۔ مسلمانوں کو جدید تعلیم حاصل کرکے حکومت کے مناصب حاصل کرنے چاہییں اور سرکاری ملازمتیں اختیار کر کے اپنی معاشی حالت کو درست کرنا چاہیے۔

سرسیّد کے افکار کے تجزیے سے یہ تین بنیادی چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ انھوں نے اپنے فکروفلسفے کی وضاحت اور تبلیغ کے لیے متعدد کتب اور بہت سے مقالات لکھے،    ان سب کا ذکر اس وقت ممکن نہیں۔ ہم فی الحال ان کی چار چیزوں کی طرف اشارہ کریں گے، جو ان کے پیش کردہ نظریات و خیالات کا جوہر (essence)پیش کرتی ہیں:

  • بائبل کی تفسیر:سب سے پہلے ان کی بائبل کی تفسیر تبیین الکلام فی تفسیر التوراۃ  والانجیل علٰی ملۃ الاسلام   [۶۵- ۱۸۶۲ء ] تین حصے کو لیجیے۔اس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ انھوں نے بائبل کو غیرمحرف اور الہامی مان کر اس سے اسلامی تعلیمات کی تائید میں استدلال کیا۔ ایک تحریف شدہ کتاب کو غیرمحرف ماننا ’سمجھوتا کاری‘ کی پہلی کوشش تھی، جو سرسیّد مرحوم نے کی۔ یہ سمجھوتا بائبل کے ساتھ نہیں بلکہ پوری مغربی تہذیب اور خصوصیت سے انگریز حکمرانوں کے ساتھ ایک سمجھوتا تھا، جس نے سیاسی حیثیت سے ہمارے وزن کو کم کیا اور علمی و تہذیبی حیثیت سے ہمیں محض دفاعی پوزیشن میں پھینک دیا۔
  • رسالہ طعام اہلِ کتاب:پھر آپ کا رسالہ [۱۸۶۸ء] احکام طعامِ اہلِ کتاب بہت اہم ہے۔ جس میں آپ نے لکھا کہ ’اہلِ کتاب‘ کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال ہے، خواہ اس پر کلمہ پڑھا گیا ہو یا نہیں۔ اور اس کی دلیل منجملہ دیگر دلائل کے یہ بھی دی کہ مسلمانوں کی یہ ضرورت ہے کہ وہ انگریزوں کے ساتھ اگر اُٹھیں بیٹھیں گے تو کھانا پینا ضرور ہوگا۔ اس لیے طعام کے معاملے میں ان سے یہ اختلاف نہیں رکھا جاسکتا کہ ہم تمھارا ذبیحہ نہیں کھائیں گے۔ پس، مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ وہ اہلِ کتاب کے ساتھ کھانا کھائیں، نیز نشست و برخاست اور کھانے پینے کے ان طریقوں کو بھی اختیار کریں، جو ان حضرات کے ہیں کہ اس کے بغیر ان سے آپ کا میل جول نہیں ہوسکتا۔ اس لیے آپ نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ میز،کرسی اور کانٹے چھری کا استعمال کیا کریں۔
  • خطباتِ احمدیہ:سرسیّد احمد خاں نے خطباتِ احمدیہ ، بہ زبان انگریزی، ولیم میور کی کتاب The Life of Mahomet کے جواب میں لکھی۔ [سرسیّد نے کتاب اُردو میں لکھی تھی، مگر لندن سے Essay on the Life of Muhammad کے سرورق سے ۱۸۷۰ء میں ٹربنر کمپنی نے شائع کی تھی۔ آپ کے بیٹے سیّد محمود (۱۸۵۰ء-۱۹۰۳ء) نے یہ انگریزی ترجمہ کیا تھا]۔اس کتاب میں بڑی دردمندی ہے اور حضوؐر کی ذات سے بے پناہ محبت بھی نظر آتی ہے۔۳ مغرب نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر جتنے بھی اعتراضات کیے ہیں، یہ اُن کا جواب ہے، اور خاصا مدلل جواب ہے۔ لیکن جو چیز کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اہلِ مغرب کے اعتراضات کی پشت پر جو اقدار (values) ہیں، انھی کو بنیاد بناکر آپؐ کی زندگی کی توضیح کی گئی ہے۔ اس طرح اعتراضات کا رد تو کردیا گیا ہے، لیکن اُن بنیادی اقدار کو تسلیم کرلیاگیا ہے، جو مغربی تہذیب کی اساس ہیں۔

اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجیے:اگر کوئی شخص تعدد اَزدواج (Polygamy) کے بارے میں یہ کہے کہ صاحب یہ تومجبوری تھی، اصل چیز تو اسلام میں یک زوجگی (Monogamy)  ہی تھی، تعدد اَزدواج تو اسلام کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔ ہاں، کچھ مجبوریوں اور مشکلات کی وجہ سے اس کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس طرح خواہ اس نے معترضین کو جواب تو دے دیا، لیکن اس بنیاد کو صحیح مان بھی لیا، جس سے اعتراض پیدا ہوا تھا۔ یہ جواب ایک معذرت نامہ ہے اور شکست خوردہ ذہنیت کی غمازی کرتا ہے۔ حضوؐرِ اقدس کی ذات سے بے پناہ محبت اور اپنے تمام اخلاص اور نیک نیتی کے باوجود بدقسمتی سے سرسیّد مرحوم نے یہی نقطۂ نظر اختیار کیا ہے اور اس طرح سرسیّد احمد کو جدید مذہبی لٹریچر میں معذرت خواہانہ رویے کا بانی قرار دینے میں کوئی مبالغہ نہیں۔۴

  • تفسیرِ قرآن: چوتھی چیز سات جلدوں میں ان کی تفسیر تفسیرالقرآن وھدیٰ والفرقان، [۹۵-۱۸۸۰ء] ہے۔ انیسویں صدی تک سائنس اور فلسفے کے جو تصورات تھے، وہ اگر قرآنِ پاک کے کسی واضح حکم سے ٹکراتے تھے تو سرسیّد نے ان نظریات کو صحیح مان کر قرآنِ پاک کی تاویل کرنے میں کوئی باک محسوس نہ کی۔ مثال کے طور پر معجزات سے انکار کر دیا اور حضرت عیسیٰ ؑ کے بن باپ پیدا ہونے کا انکارکر دیا۔ ان کے اسی رویے اور معذرت خواہانہ انداز کو مسلمان علما نے ’نیچریت‘کہا۔ ’معتزلہ‘ کی سی تاویلات کرتے ہوئے، خود سرسیّد بھی اپنے نظریات کو ’نیچریت‘ (Naturism) کہتے تھے (دیکھیے: مقالاتِ سرسیّد، ج ۱۵، ص ۱۴۷، ناشر مجلس ترقی ادب، لاہور)۔ اسی چیز کی بنا پر سرسیّد مرحوم کو کچھ غلو کرنے والوں نے ’کرسٹان‘ تک کہہ دیا۔ شرپسند عناصر کو چھوڑ کر علمی حلقوں میں ان کی مخالفت کی اصل وجہ یہی تھی کہ قرآن پاک کی تفسیر اور تاویل مغربی فکر کے مطابق کی گئی تھی اور مغربی تہذیب کی اقدار کا احترام ہر توجیہہ اور تشریح میں ملحوظ رکھا گیا تھا۔
  • سرسیّد کی تعلیمی کوششیں: علمی کاموں کے ساتھ ساتھ سرسیّد کا دوسرا بڑا اہم کام تعلیم کی ترویج و اشاعت تھا۔ انھوں نے اپنی ساری قوتیں مسلمانوں میں نیا نظامِ تعلیم یا دوسرے لفظوں میں مغربی نظامِ تعلیم رائج کرنے کے لیے وقف کر دیں۔ ۱۸۷۵ء میں ’محمڈن اینگلو اورینٹل ہائی اسکول کی بنیاد رکھی ، جو ۱۸۷۷ء میں کالج بن گیا اور ۱۹۲۰ء میں یونی ورسٹی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس لائق ہوجائیں کہ تعلیم حاصل کرکے ہندوئوں کا مقابلہ کرسکیں، ملازمتیں ان کو حاصل ہوں، دفاتر میں وہ داخل ہوسکیں،اور حکومت کے دائرے کے اندر وہ دخیل ہوسکیں۔ ان اہداف کا حصول جدید تعلیم کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اس لیے انھوں نے مغربی علوم اور سائنس کو مسلمانوں میں پھیلانے کے لیے غازی پور میں ’سائنٹی فک سوسائٹی‘ [۱۸۶۳ء]بنائی اور مسلمانوں کے لیے ایک سیاسی محاذ فراہم کرنے کے لیے دسمبر ۱۸۸۶ء میں ’محمڈن ایجوکیشن کانفرنس‘ کی بنیاد رکھی۔ جس نے یہاں کی سیاسی زندگی میں نہایت قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ [آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام ۱۹۰۶ء میں، محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس منعقدہ ڈھاکہ کے دوران ہی عمل میں آیا تھا]۔ سرسیّد کی اُٹھائی ہوئی تعلیمی تحریک جس نے بعدازاں علی گڑھ میں مرکزی حیثیت اختیارکرلی، کے نتیجے میں بہرحال مسلمانوں کے معاشی مفادات کا تحفظ ہوا، جو اس کا سب سے روشن پہلو ہے۔
  • علی گڑھ تحریک کا بنیادی نقص:سرسیّد کی علی گڑھ تحریک اور اس کے نتائج کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بنیادی خرابی یہ تھی کہ انھوں نے اسلام کو معیار بناکر اصلاحی کام انجام نہیں دیا تھا بلکہ اس کے برعکس وہ کئی مرحلوں اور موقعوں پر اسلام کی قطع و برید کرنے کے لیے تیار پائے گئے۔ یہاں تفصیل کی گنجایش نہیں، صرف ایک چیز کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔

’آثار الصنادید‘ جو۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی سے پہلے ۱۸۴۳ءکی تصنیف ہے، اس میں سیّداحمد شہیدؒ بریلوی کا ذکر کرتے ہوئے جہاد کے بارے میں کہتے ہیں کہ: ’’انھوں نے جہاد کی طرف لوگوں کو اس لیے بلایا کہ اللہ کا دین سربلند ہو اور کلمۃ اللہ غالب ہو‘‘۔ یعنی سیّداحمد شہیدؒ کی کوششوں کو انھوں نے بہت سراہا،لیکن ملاحظہ فرمایئے کہ جب جناب سرسیّد سمجھوتے کی پالیسی پر اُترآئے تو اپنی تفسیر میں اور اپنے رسالے تہذیب الاخلاق  [اجراء:دسمبر ۱۸۷۰ء] کے مضامین میں یہ کہتے ہیں: ’’اسلام میں اصلاحی جہاد کوئی جہاد نہیں ہے۔ اگر کوئی دوسرا حملہ کرے تو جہاد ہے ورنہ نہیں‘‘۔ سیّداحمد بریلوی صاحب پر کسی نے حملہ نہیں کیا تھا بلکہ وہ خود کفر کا قلعہ توڑنے کے لیے ہندستان سے جاں نثاروں کو اکٹھا کر کے لائے تھے۔ مذکورہ بالا طرزِبیان سے معلوم ہوتا ہے کہ سرسیّد نے اسلام کو جدید تصورات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔

یہ امربحث کا موضوع نہیں کہ یہ کام نیک نیتی کے ساتھ کیا گیا یا بدنیتی کے ساتھ؟ ہمارا گمان ہے کہ نیک نیتی ہی کی بنا پر کیا گیا ہوگا، لیکن نیک نیتی سے اگر کسی کے ’دست و بازو‘ کاٹ دیے جائیں تو بہرحال وہ شخص اپاہج ہی ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سرسیّد احمد خاں اہم اسلامی مباحث پر بنیادی اسلامی فکر سے بہت دُور ہٹ گئے اور اس میں کم از کم گیارہ مواقع تو ایسے ہیں کہ جن میں اس نوعیت کے اختلاف کی کوئی نظیر اس سے پہلے ملت اسلامیہ کی پوری تاریخ کے یہاں نہیں ملتی۔ ہم یہ بات سرسیّد احمد کے سوانح نگار اور مدلل مداح خواجہ الطاف حسین حالی [۱۸۳۷ء- ۱۹۱۴ء] کی سند پر کہہ  رہے ہیں۔

  • جدید نظامِ تعلیم کی مخالفت:تعلیم کے بارے میں جو موقف سرسیّداحمدخاں نے اختیار کیا، اس سلسلے میں بڑی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ہم نے ان کی تعلیمی کوششوں پر ان کے معترضین کی تحریروں کا جو کچھ بھی مطالعہ کیا ہے، اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے سرسیّدمرحوم کی تعلیم کی مخالفت تو کی تھی، مگر خود تعلیم کی مخالفت نہیں کی تھی۔ ان تمام مخالفانہ تحریروں کو پڑھ جایئے اور ان تمام اعتراضات کا ٹھنڈے دل سے مطالعہ کیجیے جو اُن پر وارد کیے گئے۔   ان میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ کسی غیرزبان کا سیکھنا کفر ہے یا جدید تعلیم کو حاصل کرنا کفر اور یہ کوئی بُرائی ہے۔ اعتراض یہ کیا گیا تھا کہ سرسیّد احمد خاں جن کے خیالات یہ اور یہ ہیں اور جن کے زیر ِاثر اور زیر ِ نگرانی یہ تعلیم دی جارہی ہے، وہ غلط ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ علمائے کرام میں سے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ۶ ، سرسیّد کی تعلیمی تحریک سے بہت پہلے فتویٰ دے چکے تھے کہ انگریزی زبان سیکھیے اور اس لیے سیکھیے کہ اس کے ذریعے آپ اسلام کا دفاع کرسکیں۔۷ مسلمان جو چیزیں دوسروں سے حاصل کرسکتے ہیں اُن سے ضرور فائدہ اُٹھائیں، لیکن اپنے بنیادی نقطۂ نظر کو محفوظ رکھتے ہوئے ۔ اس لیے نہیں کہ دوسروں کی دی ہوئی عینک سے آپ خود اپنے مذہب ہی کو دیکھنا شروع کردیں۔

اعتراضات کی بنیادمحض تعلیم نہ تھی، جیسا کہ تاریخ کو جھٹلانے اور دانستہ جھوٹ گھڑنے والے اکثر لوگ یہ افسانہ طرازی کرتے ہیں: ’’علما نے انگریزی میں تعلیم کی مخالفت کی تھی‘‘، نہیں، بلکہ جس چیز کی مخالفت کی گئی، وہ یہ تھی کہ جس تعلیم کو آنکھیں بند کرکے مسلمانوں پر ٹھونسنے کی کوشش کی جارہی تھی، وہ تعلیم مغرب سے مرعوبیت کی تعلیم ہے۔ اس میں صاف کہا گیا تھا کہ ’تم کو داڑھیاں منڈوانا پڑیں گی، تم کو ہیٹ پہننا پڑیں گے، تم کو نئے طریقے اختیار کرنا پڑیں گے اور یہی راستہ ہے جس سے تم آگے بڑھ سکتے ہو‘۔ اس ذہنیت پر چوٹ کرتے ہوئے علّامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ: ’مغرب کی ترقی کا سبب نہ شیو کرنا ہے اور نہ ہیٹ پہننا ، اس کا راز اس جذبے اور ولولۂ قربانی میں ہے، جس کا اس نے مظاہرہ کیا ہے اور جس سے ہم آج عاری ہوچکے ہیں‘۔

پھر جنابِ سرسیّد اس علی گڑھ مدرسے میں یورپی اساتذہ کو لے آئے۔ عام طور پر انھوں نے انگریز پرنسپل رکھے، جن میں یورپی پادری بھی شامل رہے۔ ایسی صورتِ حال میں آخر مسلمان کیسے اس تعلیم پر دیوانہ وار لبیک کہہ سکتے تھے؟ اگرچہ علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں میں تعلیم عام کی، لیکن یہ تعلیم مسلمانوں کو صرف سرکاری ملازمت کے لیے ہی تیار کرسکی۔ ہمیں ابھی تک یہ جاننا ہے کہ   علی گڑھ سے اس پورے زمانے میں کون سی علمی کتاب شائع ہوئی۔ اسلام کے دفاع اور اسلام کی خدمت کے سوال کو چھوڑ کر دیکھیے، کیا علم کے کسی پہلو پر کوئی درجۂ اوّل کی کتاب، اس درس گاہ سے آئی!

تعلیم کا پورا مزاج یہ تھا کہ ’طلبہ کو ملازمت کے لیے تیار کیا جائے‘ اور اس کی بہترین مثال سرسیّد کے صاحب زادے سیّد محمود کی زندگی ہے۔ سرسیّد خود کہتے ہیں: ’میری توقع یہ تھی کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ اپنی قوتوں کو دین و ملّت کی خدمت کے لیے استعمال کریں گے‘۔ ہندستان کے مسلمانوں کی خدمت کریں گے، لیکن ہُوا یہ کہ انھیں ججی مل گئی اور انھوں نے فوراً اسے قبول کرلیا‘۔ یہ واقعہ اس پورے ذہنی کردار کی علامتی تشکیل (symbolise)کرتا ہے، جو یہاں پروان چڑھا۔ اگر ہم سرسیّد مرحوم کی آخری عمر کی تحریریں پڑھیں تو وہ خود اس المیے کا اعتراف کرتے ہیں۔ مثلاً اپنے ایک خط میں جو ۱۸۹۰ء یعنی جو اُن کا آخری زمانہ تھا تب لکھا:

تعجب ہے کہ جو تعلیم پاتے جاتے ہیں اور جن سے قومی فلاح کی اُمید تھی وہ خود شیطان اور مرتدینِ قوم ہوتے جاتے ہیں۔

خواجہ الطاف حسین حالیؔ ایک مخلص دوست کی طرح آخری دم تک سرسیّد مرحوم کے ساتھ رہے۔ ان کے حوالے سے بابائے اُردو مولوی عبدالحق [۱۸۷۰ء-۱۹۶۱ء] اپنے مضمون ’چند ہم عصر‘ میں لکھتے ہیں: ’حالی اپنی آخری عمر میں اس تعلیم سے شدید حد تک مایوس ہوگئے تھے اور کہتے تھے کہ جو توقعات ہم نے وابستہ کر رکھی تھیں،ان میں سے کوئی بھی پوری نہیں ہوئی‘۔ پھر مثال کے طور پر نواب وقار الملک [۱۸۴۱ء-۱۹۱۷ء] جو سرسیّد کے رفقائے کار میں سے ہیں، سرسیّد کو لکھتے ہیں:

یہ کعبے کی راہ نہیں، یہ ترکستان کا راستہ ہے۔ یہ غلطی آپ کے دل کی نہیں آپ کے دماغ کی ہے۔ جو راستہ آپ نے لیا ہے وہ راستہ آپ کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچا سکتا۔

اسی نوعیت کی مایوسی کے بعد نواب وقار الملک نے ۱۹۱۳ء میں جامعہ ملّیہ کی تجویز پیش کی، جسے ۱۹۲۰ء میں مولانا محمدعلی جوہر نے عملی جامہ پہنایا، اور اس تعلیمی تحریک پر اکبر الٰہ آبادی کا تبصرہ سنیے:

ابتدا کی جنابِ سیّد نے ، جن کے کالج کا اتنا نام ہوا
انتہا یونی ورسٹی پر ہوئی، قوم کا کام اب تمام ہوا

ہمیں اعتراف ہے کہ یہ تعلیم ایک دائرے میں یقینا مفید ثابت ہوئی۔ مسلمانوں میں  قومی احساس پیدا کرنے میں اس تعلیم کا بڑا حصہ ہے۔ معاشی طور پر روزگار فراہم کرنے میں بھی اس تعلیم کی خدمات بڑی واضح ہیں۔ تحریک ِ آزادی کے لیے بھی اس تعلیم نے کچھ لیڈر اور کارکنان تیار کیے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بحیثیت ِ مجموعی، قوم کا صحیح مزاج بنانے میں یہ تعلیم کامیاب نہ ہوسکی۔

جدید تاریخ کا ہر طالب علم اس امر سے واقف ہے کہ مغربی اقوام کی ترقی، صنعت و تجارت کی ترقی سے عبارت ہے اور اگر انھی کے طریقے کو اختیار کرنا تھا تو تعلیمی نظام میں صنعت و حرفت کو، تجارت کو، تجرباتی سائنسوں کو اور انجینیرنگ کو خصوصی مقام دیا جاتا۔ لیکن علی گڑھ کے نظامِ تعلیم کو پڑھ لیجیے: اس میں تجارت، صنعت و حرفت اور دوسرے تجرباتی علوم کو کوئی قرار واقعی مقام نہیں دیا گیا، اہمیت دی بھی گئی تو مغربی فلسفے اور ادب کو۔ اس کے برعکس ہمارے سامنے جاپان کی مثال موجود ہے۔ جاپان کو بھی ایسے ہی حالات درپیش تھے، مگر اس نے اپنی تہذیبی بنیادوں پر قائم رہتے ہوئے مغربی سائنس اور صنعت و تجارت کا مطالعہ کیا، اس سے فائدہ بھی اُٹھایا۔

ابتدائی دور میں محض قومی نقطۂ نظر کو سامنے رکھا گیا۔ ’دینیات‘ کو بھی ایک لازمی مضمون کی حیثیت دی گئی تھی، مگر تعلیم کے پورے نظام میں اسلامی روح اور اسلامی مزاج کو نہیں سمویا جاسکا۔ بنیادی اہمیت اسلام کے تقاضوں کے مقابلے میں محض مسلمانوں کے مفاد کو، یا پھر جسے اُس وقت مسلمانوں کا مفاد سمجھا جا رہا تھا، اسے اہمیت دی گئی۔ البتہ بعد میں کچھ فرق واقع ہوا، خصوصیت سے تحریک ِ خلافت کے زمانے میں ، جس کے اثرات کے تحت علی گڑھ محض انگریزی اقتدار کے کارندے تیار کرنے کے بجائے قومی سیاست کا مرکز بھی بن گیا اور اسلامی ملّی احساس میں بھی اضافہ ہوا۔

  • سرسیّد اور تجدّد پسندی:باوجود اپنے تمام اخلاص کے،تعبیر (interpretation) کے بہت سے فتنوں کی بنیاد سرسیّد مرحوم ہی نے رکھی اور ان کے افکارو نظریات سے تحریک پاکر بہت سے فکری اور اعتقادی فتنے اُبھرے۔۸ اس طرح قرآن اور حدیث کی مرعوبانہ (Apologetic) ذہن سے تعبیر کرنے کا جو فتنہ اس ملک میں رُونما ہوا ، اس کی ابتدا بہرحال سرسیّد کے تفسیری مباحث ہی سے ہوئی۔

یوں ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن و سنت کی بنیاد پر مثبت طور پر مسلمانوں کو جمع کرنے کی جو کوشش شاہ ولی اللہ کے کارنامے میں نظر آتی ہے ، اس قسم کی کوئی چیز ہمیں سرسیّد مرحوم کے یہاں نہیں ملتی۔ اگرچہ مغرب کے اعتراضات کا جواب دینا بحیثیت ِ مجموعی کچھ فوائدپہنچانے کا ذریعہ بنا، لیکن سرسیّد کا یہ کام تحریک ِ اسلامی کے استحکام کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ کے طور پر آج تک  چلا آرہا ہے۔ ہماری نگاہ میں سرسیّدؒ اور اقبالؒ میں بنیادی فرق یہی ہے کہ اقبالؒ نے مثبت رویہ اختیار کیا ،جب کہ سرسیّد کی تحریک اپنی روح اور مزاج کے اعتبار سے منفی تھی۔

علمائے کرام کی خدمات

پھرہمارے سامنے علمائے کرام کا ردعمل آتا ہے۔فکری اعتبار سے اس کا سلسلہ شاہ ولی اللہ کی تحریک سے وابستہ ہے۔

  • دارالعلوم دیوبند:۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کے آٹھ سال بعد ضلع سہارن پور (اترپردیش کے قصبے) دیوبند میں دینی اور عربی علوم کے دارالعلوم کی بنیاد ۱۵محرم ۱۲۸۳ھ/۳۰مئی ۱۸۶۶ء کو چھتے کی پرانی مسجد کے صحن میں انار کے ایک چھوٹے سے درخت کے سایے میں بڑی سادگی سے دُعا کرتے ہوئے رکھی گئی۔اس کے قائم کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ حکومت کی سرپرستی کے بغیر، امرا اور نوابوں کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر دین کی حفاظت کی ایک منظم کوشش کی جائے۔ علما کا نقطۂ نظر یہ سامنے آتا ہے کہ ہم دین کو غالب نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کو بچا تو لیں۔ اگر اپنی روایات کو ہم سارے ملک میں جاری و ساری نہیں کرسکتے تو کم از کم ان کو محفوظ تو کرلیں۔ اگر اسلام کی چھاپ ہم دوسروں پر نہیں لگا سکتے تو کم از کم جو کچھ ہمارا ورثہ ہے اس کو تو بچا لے جائیں۔ اس ردعمل کی بنیادی روح (spirit) یہی تھی۔ ان کے پیش نظر مخالف قوتوں سے ٹکر لینا اوّلین مقصد نہیں تھا بلکہ اپنے آپ کو بچالینا مقصود تھا، جو اپنی جگہ ایک مثبت سوچ تھی۔ محمودحسن اس مدرسے کے پہلے طالب علم تھے، جو بعد میں شیخ الہند کہلائے۔ اسی روایت سے جڑے دوسرے مدرسے مظاہرالعلوم، سہارن پور کی تاسیس بھی اسی سال نومبر ۱۸۶۶ء کو کی گئی۔

پیش نظر یہ تھا کہ ایسے علما تیار ہوں جو ملک کے گوشے گوشے میں دین کا پیغام پہنچا سکیں اور لوگوں کو اسلام پر قائم رکھ سکیں۔ دینی علوم کا تحفظ ہو، بدعات سے بچائو اور عقائد کی اصلاح ہو۔ اربابِ دیوبند نے اُمورِ دنیوی سے تقریباً قطع تعلق کی روش اختیار کی اور وہ مسلک اختیار کیا، جس میں کہ وہ کم از کم دین اور دینی روایات کو بچا سکیں۔

جیسا کہ ہم اس سے قبل واضح کرچکے ہیں، مسلمانوں کی کیفیت ایک ہاری ہوئی فوج کی سی تھی۔اس ہاری ہوئی فوج میں اس نقطۂ نظر کا رُونما ہونا ہرگز غیرفطری بات نہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود یہ ماننا پڑتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند نے اُمت کی ایک عظیم خدمت انجام دی۔ کم از کم یہ تو کیا کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ کے کلمے پر قائم رکھا۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ ہمارا تعلق قرآن اور حدیث سے قائم رہا اور جنوب مشرقی ایشیا میں شعائر اسلامی کا پرچار ہوتا رہا۔ جو حملہ ہمارے دلوں سے  دین کو اُکھاڑ پھینکنے کے لیے کیا گیا تھا، اس کی مدافعت کی گئی اور اس کے سامنے علما کی کوششیں حصار بن گئیں۔ یہ درست ہے کہ ہم ان سے ٹکر نہ لے سکے، لیکن کم از کم اپنے ایمان، اپنے معیارات، اپنی روایات، اپنی اقدار اور اپنے علوم کو تو ہم نے بچالیا ، جس سے بعد میں اس بات کا امکان پیدا ہوا کہ اس بچے ہوئے سرمایے کو اللہ کے کچھ دوسرے بندے استعمال کریں اور آگے بڑھا لے جائیں۔

  • شیخ الہند مولانا محمود حسن: دیوبند کے اور دوسرے علما نے ہندستان کی سیاست میں بھی حتی الوسع حصہ لیا۔ اس گروہ کی قیادت شیخ الہند مولانا محمود حسن [۱۸۵۱ء-۱۹۲۰ء]  نے کی۔ آپ نے ۱۸۷۳ء میں ’تمرۃ التربیت‘ کے نام سے ایک انقلابی تحریک علما اور اپنے شاگردوں کی بنائی، جو خاصے عرصے تک یہاں کی سیاسی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتی رہی۔

مولانا محمودحسن نے پوری زندگی انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں گزاری۔ انھوں نے مسلمانوں کو جمع کرنے کی کوشش کی اور دوسری مسلم حکومتوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ سب مل کر ہندستان کو آزاد کرائیں۔۹  اس کے لیے انھوں نے سفر بھی کیے، جیل بھی گئے اور قیدوبند میں کوڑے بھی کھائے۔ انتقال پر جس وقت آپ کی میّت کو غسل دیا جارہا تھا، اس وقت دیکھا گیا کہ آپ کی پیٹھ اس تشدد کے باعث بالکل سیاہ تھی، لیکن آپ نے اپنی زندگی میں کبھی یہ پسند نہ کیا کہ اُن پر جو گزرتی رہی ہے، وہ کسی کے سامنے بیان کریں۔

دارالعلوم دیوبند اور دوسرے علمائے کرام کی یہ قابلِ رشک خدمات بجا، لیکن اس سلسلے میں کم از کم دو چیزیں ایسی ہیں جو مجھے کھٹکتی ہیں:

  • مولانا عبیداللہ سندھی: ان میں ایک مولانا عبیداللہ سندھی [۱۰مارچ ۱۸۷۲ء- ۲۱؍اگست ۱۹۴۴ء]کی تحریک ہے کہ جس میں شریعت، تصوف اور ویدانت کا ایک معجون مرکب تیار کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان محترم بزرگ کی روش سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے مغرب کے آگے بالکل گھٹنے ٹیک دیے گئے ہوں۔ دارالعلوم دیوبندکے تیار کردہ افراد میں سرسیّد احمد خاں کا فکری اثر اگر کسی نمایاں شخصیت میں پایا جاتا ہے تو وہ مولانا عبیداللہ سندھی کے ہاں دیکھا جاسکتا ہے۔
  • متحدہ قومیت کا مسئلہ: دوسری بات جو دارالعلوم دیوبند میں پروان چڑھی، وہ متحدہ قومیت کی مذہبی تعبیر کا معاملہ تھا۔۰  اقبال نے قومیت کی حقیقت کو بڑی خوبی سے ان اشعار میں بیان کردیا تھا:

اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

اُن کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

یہ ٹھیک ہے کہ اس فتنے کا توڑ خود دیوبند کے کچھ دوسرے مقتدر علما نے کرنے کی کوشش کی اور یہ کہ اس اہم دینی مرکز کے تیار کردہ تمام اہلِ علم متحدہ قومیت کے علَم بردار نہ تھے، لیکن بہرحال ایک عرصے تک دارالعلوم دیوبند اس فکر کا بہت بڑا مرکز رہا ہے اور اس کا نقصان اسلامی تحریک بلکہ پوری ملّت ِ اسلامیہ ہند کو اُٹھانا پڑا ہے۔(جاری)

حواشی

۳     سرسیّداحمد خاں ، لندن سے اپنے دوست نواب محسن الملک کو خط لکھتے ہیں: ’’ولیم میور صاحب نے جو کتاب آنحضرتؐ کے حالات میں لکھی ہے، اس کو دیکھ رہا ہوں۔ اس نے دل جلا دیا ہے۔ اس کی ناانصافیاں اور تعصبات دیکھ کر دل کباب ہوگیا، اور مصمم ارادہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں، جیساکہ پہلے بھی ارادہ تھا ، کتاب لکھ دی جائے۔ اگر تمام روپیہ خرچ ہوجائے اور مَیں فقیر مانگنے کے لائق ہوجائوں تو بلا سے!قیامت میں تو یہ کہہ کر پکارا جائوں گا کہ اس فقیر مسکین احمد کو جو اپنے نانا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر فقیر ہوکر مرگیا حاضر کرو (بحوالہ موج کوثر، ۲۰۲۱ء،ص ۹۲)

۴     اس ضمن میں جب معذرت خواہی شروع ہوئی تو وہ بڑھتی ہی چلی گئی۔ اس فکر کو حافظ محمد اسلم جیراج پوری [م:۱۹۵۵ء] اور اُن کے بعد غلام احمد پرویز [م: ۱۹۸۵ء] نے آگے بڑھایا۔عزیز احمد [م:۱۹۷۸ء] Islamic Modernism in India & Pakistan 1857-1964 (۱۹۶۷ء) میں لکھتے ہیں: ’’سیّداحمد خاں سے لے کر آج تک کے تمام متجددین (Modernists) میں غالباً [غلام احمد] پرویزمغرب کے تصورِ حیات سے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ وہ بلند معیارِ زندگی اور سیاسی، سماجی، انفرادی اور معاشی آزادیِ مطلق کو دُنیوی زندگی کا مقصد قرار دیتے ہیں۔ البتہ وہ ایک معقول بات کو دور ازکار اور ناقابلِ یقین تفسیری اصطلاحات وضع کر کے برباد کر دیتے ہیں (ص۲۲۴- ۲۲۵)‘‘۔ پھر لغت کے سہارے تفسیر کا ایک نرالا اور بے ڈھنگا طریقہ اختیار کرتے ہیں‘‘۔(ص ۲۴۷)

۵     شیخ محمد اکرام نے بجا طور پر لکھا ہے: ’’تفسیر کی اشاعت نے سرسیّد کے دوسرے [قومی]کاموں کو بہت نقصان پہنچایا۔ ان کا اصل مقصد مسلمانوں میں تعلیم عام کرنا اور اُن کی دُنیوی ترقی کا انتظام کرنا تھا [لیکن] اسلام اور تفسیرقرآن کے متعلق، بالخصوص ان مسائل سے متعلق جن کا نہ تعلیم سے خاص تعلق ہے نہ دُنیوی ترقی سے، عام مسلمانوں سے گہرا اختلاف پیدا کرکے سرسیّد نے اپنی مخالفت کا سامان آپ پیدا کرلیا، اور بعض لوگوں کو انگریزی تعلیم سے عقائد متزلزل ہوجانے کا جو ڈر تھا، اس کا بدیہی ثبوت خود فراہم کردیا۔ اس کے علاوہ سرسیّدنے اپنی رائے اور قیاس کے زور سے قرآنی آیات کو نیا مفہوم دے کر ایسی مثال قائم کردی، جس کی پیروی بعضوں نے بُری طرح کی ہے، اور ہرآیت یا حدیث کی تاویل کرکے حسب خواہش معنی مراد لیے ہیں.... سرسیّد کی قابلیت، محنت اور مذہبی ہمدردی کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے علمِ کلام نے تعلیم یافتہ طبقے یا اربابِ تشکیک و الحاد کو ایمان کی دولت بہم پہنچائی ہے‘‘۔(موجِ کوثر، ص ۱۳۶-۱۳۷)

۶     مولانا شاہ عبدالعزیز نے عبرانی زبان سیکھی تھی اور وہ براہِ راست تورات کا مطالعہ کرسکتے تھے (پروفیسر سیّدمحمد سلیم، مغربی زبانوں کے ماہر علما، ص ۸۲)۔ فتاویٰ عزیزیہ، دوم میں انگریزی زبان سیکھنے کے حق میں فتویٰ دیا: ’’لغت انگریزی کا پڑھنا یا لکھنا اگر بہ لحاظ تشبہ کے ہو تو ممنوع ہے، اور    اگر اس لیے ہو کہ ہم انگریزی زبان میں لکھا پڑھ سکیں اور ان کے مضامین سے آگاہ ہوسکیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تشبہ سے مراد اپنی انفرادیت کھو دینا اور انگریزی تہذیب میں اپنے آپ کو گم کرنا ہے۔(سیّد محمد سلیم،ایضاً، ص ۲۶، ۲۷)

۷     رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’حکمت مومن کی گم شدہ متاع ہے، جہاں سے ملے، اسے لے لو‘‘۔ اسی طرح آپؐ نے صحابۂ کرامؓ کو دوسری زبانیں سیکھنے کی ترغیب دلائی۔ اس ضمن میں سب سے روشن مثال حضرت زید بن ثابتؓ کی ہے، جنھیں آپ نے غیرملکی زبانیں سیکھنے کی ہدایت فرمائی ، جس کے بعد انھوں نے سریانی، ارامی، فارسی اور حبشی زبانیں سیکھ لی تھیں (مشکوٰۃ)۔اس طرح حضرت عمرو بن العاصؓ سریانی زبان بول سمجھ لیتے تھے۔ فقہ حنفی کے جید عالم سلطان علی قاری ہروی (م:۱۶۰۵ء) مشکوٰۃ کی حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’شریعت [اسلامی] میں کسی زبان کا سیکھنا جرم نہیں ہے، خواہ: عبرانی ہو یا سریانی، ہندی ہو یا ترکی، فارسی ہو یا کوئی اور زبان‘‘۔ (پروفیسرسیّد محمد سلیم،مغربی زبانوں کے ماہر علما، ص ۲۵)

۸     اس ضمن میں فتنہ انکارِ حدیث اور پھر ایک درجے میں ’جہاد‘ کے معاملے میں بہت زیادہ گریز پائی نے خود ’قادیانیت‘ کے فتنے کو بھی راہ دی۔ واللہ اعلم!

۹     ہندستان کو اسلام کے لیے آزاد کرانا مقصد نہ تھا، بس انگریزوں کو یہاں سے نکالنا مقصد تھا۔ کابل میں آزاد ہندستان کی عارضی حکومت قائم کی گئی تھی، جس کے صدر راجا مہندر پرتاب تھے۔ اُمید تھی کہ انقلاب پسند ہندو اور سکھ مدد کریں گے اور اس تحریک ِ آزادی میں شامل ہوجائیں گے۔

۰     سیّدابوالاعلیٰ مودودی،l مسئلہ قومیت [۱۹۳۸ء] lمسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش، اوّل [فروری ۱۹۳۸ء]، دوم [دسمبر ۱۹۳۸ء] اور lتحریک ِ آزادیِ ہند اور مسلمان،اوّل [مرتبہ: خورشیداحمد] ۱۹۶۸ء۔ جمعیۃ العلما ہند کی تاسیس ۲۳نومبر ۱۹۱۹ء کو دہلی میں اُس وقت ہوئی، جب  خلافت ِکانفرنس ہورہی تھی۔ ۲۸دسمبر ۱۹۱۹ء کو جمعیۃ کے اجلاس منعقدہ امرتسر میں یہ تین مقاصد شامل کیے گئے: ’’غیرمسلم برادران کے ساتھ ہمدردی اور اتفاق، مذہبی حقوق کی نگہداشت سے مسلمانوں کی رہنمائی (طفیل احمد منگلوری،مسلمانوں کا روشن مستقبل، ص ۵۲۸)۔ جمعیۃ العلما کے اجلاس امروہہ (۳۰مئی ۱۹۳۰ء) میں انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ غیرمشروط اشتراکِ عمل کا اعلان کیا (ایضاً، ص ۵۳۲)۔ جس سے خود جمعیۃ میں انتشار پیدا ہوا۔ اس سے قبل ۱۹۲۹ء میں مجلس احرار اسلام قائم ہوچکی تھی۔