ماہِ مبارک کی آمد کا احساس کتنا خوب صورت ہے۔ اس ماہ کا آغاز ملّت اسلامیہ کے لیے نیکی اور خیروبرکت کا آغاز ہے۔ سلف صالحین اس مہینے کے آنے پر خوشیاں مناتے تھے۔ وہ خود کو اس کے استقبال اور اس کی برکات سے بھرپور انداز میں استفادے کے لیے تیار کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں: ’’ہم ماہ (رمضان) کو جو تمام خیر کا منبع ہے، خوش آمدید کہتے ہیں۔ اس کے دن میں روزہ رکھتے ہیں اور اس کی رات کو قیام کرتے ہیں۔ اس مہینے میں رات دن اللہ کی راہ میں انفاق کرتے ہیں‘‘۔ معلّٰی بن فضل بتاتے ہیں: ’’سلف چھے مہینے تک اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کرتے تھے کہ وہ رمضان کا مہینہ پالیں، اور اگلے چھے ماہ وہ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لے‘‘۔ اس سے اندازہ لگایئے یہ ماہ کتنی بڑی غنیمت ہے۔
دوسری طرف ہمارے زمانے میں لوگ رمضان کے قیمتی لمحات کو لغویات کی نذر کر دیتے ہیں۔ بعض کھانے پینے میں، بعض نیند اور سونے میں اور بعض ٹیلی ویژن پر مختلف پروگراموں سے دل بہلا کر اس ماہ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ درحقیقت یہ لوگ اس ماہ کے فضائل کی حقیقت سے آگاہ نہیں۔
ایک وہ بندۂ مومن ہے جو عملِ صالح کے لیے جدوجہد کرتا ہے، آگے بڑھنے کا متمنی ہوتا ہے۔ وہ رمضان کا استقبال نیکیوں میں آگے بڑھنے اور منکرات سے بچنے سے کرتا ہے۔ وہ غنیمت کے ان لمحات کو خیروبھلائی سمیٹنے اور رب العالمین کا قرب حاصل کرنے کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دردناک عذاب سے بھی خوف زدہ ہوتا ہے۔وہ یہ بات یقینی طور پر جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود نیکی کی راہ میں سبقت پر اُبھارا ہے: فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ(البقرہ ۲:۱۴۸) ’’پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو‘‘۔
رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو سمیٹنے کے ضمن میں چند عملی پہلو درج ہیں:
عمل کے لیے تحریک: رمضان آپ کو تحریک دیتا ہے اور مسلسل عمل کی طاقت سے ہم کنار کرتا ہے۔ آپ اس ماہ میں اللہ کے حضور قیام و نماز اور نمازِ تراویح ادا کرتے ہیں، صدقہ کرتے ہیں۔ اصحابِ رسولؐ اس مہینے میں اعلائے کلمۃ اللہ کی غرض سے جہاد کرتے تھے اور مسلمانوں کو فتح کی نوید سناتے تھے۔ بھوک، پیاس اور روزہ کبھی ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ یعنی رمضان تمام مسلمانوں کے لیے عظیم نعمت ہے، جس میں اپنی طاقت اسلام کی سربلندی کے لیے صَرف کی جاسکتی ہے۔ اس طرح آپ کو روحانی سکون میسر آئے گا، اور اعمال بہتر ہوںگے۔ سُستی اور کاہلی اور ٹال مٹول کا رویہ ختم ہوجائے گا۔ یہ رویے انسان کو غم اور پریشانی سے دوچار کردیتے ہیں۔
تنظیمِ وقت:رمضان کا مہینہ، اسلامی شعائر ادا کرنے کے ذریعے ہمیں تنظیم وقت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ سحر اور افطار کا وقت معین ہے۔ یوں انسان کو اپنے وقت کی صحیح تنظیم کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح وہ صحیح عمل کے لیے قدم اُٹھاتا ہے، آگے بڑھتا ہے اور کامیابی حاصل کرتا ہے۔
دعوتِ دین: اس مہینے میں نیکی و بھلائی کی طرف رغبت ہوتی ہے اور دل نیکی کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں۔ اس لیے دعوت کا بہت آسان موقع ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنے عزیز واقارب اور ہمسائیوں تک دعوتِ دین پہنچانے کا خصوصی اہتمام کیجیے۔ داعیانِ حق کو چاہیے کہ وہ اس ماہ میں دعوت کی توسیع واشاعت کے لیے ہرممکن کوشش کریں۔
اجتماعی تکافل: رمضان کامہینہ ایسی سنہری اور انمول گھڑیاں لے کر آتاہے، جن میں والدین کے ساتھ بھلائی اور حسنِ سلوک، بھائیوں کے ساتھ ہمدردی اور صلۂ رحمی اور اُمت کے حقوق کی ادائیگی کے لیے فکرمند ہونے، نیز محتاجوں، معذوروں، فقرا اور مساکین کی خدمت کرنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ اسی طرح خیراتی اداروں کے ساتھ تعاون کرنا، اور ان لوگوں کی مدد کرنا بڑی نیکی ہے جو سفیدپوش ہیں اور کسی کے سامنے سوال نہیں کرسکتے۔ اس ماہِ مبارک میں اپنے مال میں سے زکوٰۃ نکالی جائے اور اس کو مستحقین میں تقسیم کیا جائے۔ ان لوگوں کا احساس کیا جائے جو ضعیف اور کمزور ہیں۔ اس کے علاوہ جتنی توفیق و استطاعت اللہ تعالیٰ نے دی ہو، راہِ خدا میں خرچ کیجیے۔ اس کے نتیجے میں پریشان حال لوگوں کے مصائب بھی کم ہوں گے۔
تزکیہ و تربیت: یہ ماہِ مبارک گناہ گاروں اور خطاکاروں کے لیے بہتر ین موقع ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ان بُرے اعمال سے معافی کے خواست گار ہوں اور نئی زندگی کا آغاز کریں۔ اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کریں۔ گناہوں، معصیت اور نافرمانیوں سے خلاصی حاصل کریں۔ پس اپنے دلوں کو نیکی اور عبادت کی طرف راغب و متوجہ کرنے کا اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا۔ تربیت کرنے والوں کے لیے بھی یہ غنیمت ہے کہ وہ اس ماہِ مبارک میں ان نفوس کی تربیت کے لیے اپنی پوری قوت لگادیں جو خدا کی اطاعت و بندگی اور تقویٰ کی زندگی اپنانے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ مختلف النوع تربیتی پروگرام ترتیب دیے جائیں۔
اثرانگیزی:یہ ماہِ مبارک اہلِ ایمان کے دلوں میں اثر کرتا اور عمل کا وہ پودا اُگا دیتا ہے جو انھیں اللہ کی رضا حاصل کرنے والے اعمال پر آمادہ کرتا ہے۔ اس میں مجاہدۂ نفس کی طلب پیدا ہوتی ہے۔ جیساکہ ایک حدیث قدسی ہے: ’’اس نے میری خاطر اپنا کھانا پینا اور شہوت کو چھوڑے رکھا‘‘(متفق علیہ)۔ اس میں ایک رات ہے جس میں گردنیں آزاد کی جاتی ہیں۔ یہ اس کے روزے رکھنے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ اثرانگیزی بڑی اہمیت کی حامل ہے جو روزے اور قیامِ لیل میں تسلسل پیدا کرتی ہے۔ اسی کے نتیجے میں وہ بشارت دی گئی ہے: ’’جس کسی نے ایمان اور احتساب سے روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے گئے‘‘ (متفق علیہ)۔
مساجد کے ساتھ تعلّق: اس ماہِ عظیم میں نفس کو مساجد کے ساتھ تعلق پر آمادہ کرناچاہیے، تاکہ ان سات لوگوں میں شامل ہوجائیں، جن کو اللہ تعالیٰ اپنے سایے میں اس دن جگہ دے گا جس دن اس کے سایے کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا۔ آخری عشرے میں ربّ العالمین سے تعلق جوڑنے کے لیے مساجد میں اعتکاف کیا جائے۔ اس سے ہدایت کے لیے مناجات کی جائیں کہ وہ ہمارے لیے مشکلات سے بندشدہ دروازے کھول دے، جہنم کی آگ سے بچائے اور جنت نعیم میں داخل فرماد ے۔ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کیجیے۔ روزہ دار عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد مغرب کی نماز کاانتظار کرنے لگتا ہے اور وہ رباط (اللہ کی راہ میں پہرہ) کا اجر حاصل کرلیتا ہے جس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی۔ مسجد میں قیام کے دوران اللہ کا بندہ قرأ ت قرآن، دعا، ذکراللہ اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کر کے اجر کامستحق ٹھیرتا ہے۔
استغفار سحری: رمضان استغفار کے لیے بیش قیمت لمحات پر مبنی ہے جس سے اکثر مسلمان غافل ہیں۔ خاص طور پر سحری کے وقت کی عبادت اور استغفار اس حوالے سے بہت اہم ہوتا ہے۔ بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ فرصت کے ان لمحات کو غنیمت جانے اور اس وقت میں زیادہ سے زیادہ اجر کے غنائم سمیٹے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں مومنین کی صفات کا ذکر فرمایا ہے: وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِO (اٰل عمرٰن ۳:۱۷) ’’بخشش مانگنے والے پچھلی رات میں‘‘۔ اور وَبِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ O (الذاریات ۵۱:۱۸) ’’وقتِ صبح وہ استغفار کرتے تھے‘‘۔
قرآن سے خصوصی شغف: رمضان اس حوالے سے بھی غنیمت ہے کہ اس میں حفظ قرآن کیاجائے، کیونکہ اس میں دن رات اس کی دہرائی کی جاسکتی ہے، اور راتوں میں قیام کے دوران اسے پڑھا جاسکتاہے۔ اس ماہ میں قرآن میںتدبر و غور و فکر اور اس کے فہم کے لیے بھی کوشش کی جانی چاہیے۔ ہمارے سلف صالحین کاقرآن سے تعلق قابلِ رشک حدتک بڑھا ہوا ہوتا تھا۔
دلوں کی صفائی: اس مہینے میں بھائی چارے، ناراضی و اختلاف ختم کر کے صلہ رحمی کرنے کا بہترین موقع ملتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے شیطان کی پناہ مانگنا چاہیے۔ قلب کو سلیم و فرماں بردار بنانا چاہیے۔ ایسا دل مانگنا چاہیے جس میں خیانت، بُغض اور حسد جیسی بیماریاں نہ پائی جاتی ہوں۔ اسی طرح عزیز و اقارب سے تعلقات شریعت کی منشا کے مطابق ہونے چاہییں، اور ان حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کیا جانا چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں۔ ان میں سے خاص طور پر وہ حقوق جو ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے لیے ادا کرنے لازم ہیں۔ لوگوں کی دل آزاری سے بھی بچیے۔
صبر: اس مہینے میں ایک شخص کو ایسی تربیت سے گزرنا پڑتا ہے کہ خاص طور پر صبر کا مفہوم اس پر بخوبی اُجاگر ہوتا ہے۔ احنف بن قیس سے جب کہا گیا: آپ بزرگ آدمی ہیں اور روزے آپ کو کمزور کردیں گے توانھوں نے جواب دیا: ’’میں نے زندگی کا طویل سفر طے کرلیا ہے، اللہ کی اطاعت پر صبر کرنا بہتر ہے نہ کہ اس کے عذاب پر۔ (سیراعلام النبلاء)
حضرت جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں: جب تم روزہ رکھو تو چاہیے کہ تمھاری سماعت کا بھی روزہ ہو، تمھاری آنکھوں کا بھی روزہ ہو، تمھاری زبان جھوٹ سے بچے، پڑوسی کو اذیت نہ دو۔ روزے کے دن تم پر وقار اور سکینت طاری ہونا چاہیے۔ تمھارا روزہ اور بے روزہ کا دن ایک جیسا نہیں ہونا چاہیے۔
تربیت اولاد: ماں اور باپ دونوں مربی ہوتے ہیں۔ وہ اس ماہ میں چاہیں تو بچوں کے دلوں میں فضائل کے بیج بوسکتے ہیں اور ان کے دلوں میں رمضان، قیامِ لیل اور قرآن کی محبت کا جادو جگا سکتے ہیں۔ اس ذوق و شوق کے لیے مختلف انداز اپنائے جاسکتے ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ عصر کی نماز کے بعد گھر کے تمام افراد ایک جگہ بیٹھ جائیں اور درسِ قرآن یا لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے۔ اس میں جہاں ضرورت ہو تشریح و وضاحت کی جائے۔ اسی طرح اذان کے وقت سب گھر والے ہاتھ اُٹھا کر اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعا کریں۔
دعا: اللہ رب العالمین کو اپنی مناجات کے ذریعے یاد کرنے سے دل کو اطمینان اور سکون کی جو کیفیت حاصل ہوتی ہے، اس سے افضل وقت اس کی زندگی میں کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا، اپنے لیے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے بندوں کے رب کو پکاریں اور دعا کریں۔
غذا کی تنظیم اور وزن میں کمی: رمضان غذا کی ترتیب یا تنظیم کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ کم کھانا جسم کے لیے بہت مفید ہے۔ اگر اس میں اعتدال اور توازن نہ ہو تو نفس کے لیے مضر ثابت ہوتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ روح و بدن دونوں پر اس کی خرابی کا اثر پڑتا ہے۔ پس روزہ دار اگر رب کی زیادہ عبادت کرنا چاہتا ہے اور خاص طور پر اس مہینے میں، تو اسے چاہیے وہ کم کھائے۔
فرصت کے ان لمحات کو غنیمت جانیے! کوئی دوسرا مہینہ مسلمانوں کے دلوں میں ایسا مقام نہیں رکھتا اور ایسا افضل نہیں جیساکہ رمضان کا مہینہ ہے۔ اس میں جنت کے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے اور جہنم کے دروازوں کو بند کردیا جاتا ہے۔ اس لیے چاہیے کہ ان لمحات کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی اطاعت میں گزارا جائے۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کے تقرب اور روحانیت کی کئی صورتیں اس میں موجود ہیں۔ پس اے خیر کے طلب گار! ’آگے بڑھو اور شر کی طلب سے رُک جا‘ واللّٰہ المستعان۔( عربی سے ترجمہ: محمد سفیرالاسلام)